بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.
پیارے بھائیو اور عزیز بہنو! خوش آمدید۔ میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، خواہ آپ حجاج ہوں یا حجاج کرام کی خدمت انجام دینے والے افراد۔ ان لوگوں کو بھی جو حج کے لیے جا رہے ہیں ــ یہ ایک بڑی سعادت ہے، بڑی نعمت ہے، اللہ کی طرف سے آپ کو عطا کردہ تحفہ ہے، اس کی قدر کریں اور ان شاءاللہ یہ سفر آپ پر مبارک ہو ــ اور ان خدمت گزاروں کو بھی جو حج کے لیے کام کر رہے ہیں؛ خواہ وہ سرکاری ادارے ہوں جن کا ذکر ہوا، مختلف وزارتیں، محکمے، تنظیمیں، ملک کے مختلف شعبے جو کسی نہ کسی طرح اس عظیم کام میں شامل ہیں، یا کاروانوں کے ذمہ داران، اجرائی ادارے، حج کا ادارہ اور بعثہ وغیرہ۔ میں آپ کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حجاج کی خدمت کا شرف بخشا ہے۔ اس کی بھی قدر کریں اور ان شاءاللہ اسے بہترین طریقے سے انجام دیں۔
ابھی میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے، جو کچھ میں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار کیا ہے، اس سے پہلے بندرعباس کے المناک واقعے (2) کی طرف ایک بار پھر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں اور متاثرین کے اہلِ خانہ کو دلی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ یہ واقعہ واقعی بہت دردناک تھا اور ہم سب کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا، خاص طور پر متاثرہ خاندانوں کے لیے۔
بے شک مختلف اداروں کے سامنے طرح طرح کے واقعات آتے رہتے ہیں—زلزلے، آگ کے حادثات، تخریبی اقدامات، خواہ جان بوجھ کر ہو یا غیر ارادی طور پر، ہر قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، لیکن ان کی تلافی ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی اگر کسی ادارے کو کوئی نقصان پہنچا ہے، تو ان شاءاللہ ہمارے چست، توانا اور جوان اجرائی ادارے فوری طور پر، مضبوطی کے ساتھ اور پوری طاقت سے اس کی تلافی کریں گے۔ لیکن جو چیز دل کو جلاتی ہے، وہ ان خاندانوں کا دکھ ہے—جن کے پیارے اس واقعے میں ہم سے بچھڑ گئے۔ ہم ان کے غم میں شریک ہیں اور ان سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر ہم زندگی کے مختلف دکھوں پر صبر کریں، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صبر کا جو اجر ملے گا، وہ اس مصیبت کی تلخی سے ہزار گنا بڑھ کر ہوگا۔ "أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ" (3) جو لوگ صبر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے—یہ بہت بڑی بات ہے۔ اور ان شاءاللہ، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو سکون عطا فرمائے اور انہیں صبر و قرار دے۔
جہاں تک حج کا معاملہ ہے تو، حج کے انتظامات سے متعلق ہماری کچھ ہدایات ہیں، کچھ حجاج کرام کے لیے ہیں اور کچھ خدمت گزاروں کے لیے۔ ہم نے ان باتوں کو بارہا دہرایا ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی دہراتے رہیں گے۔ لیکن آج میری گفتگو کا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اس عمل کی حقیقت کو پہچانیں جو آپ انجام دینے جا رہے ہیں، حج کی شناخت۔ اے حجاج کرام! جو لوگ حج کے لیے جا رہے ہیں، ان شاءاللہ حاجی بننے والے ہیں، یہ سمجھ لیں کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
یہ کوئی عام زیارت کا سفر نہیں ہے، نہ ہی یہ محض سیاحت کا سفر ہے۔ آپ کا یہ سفرِ حج اور آپ کا یہ عمل حج درحقیقت ایک عظیم الشان کارزار میں شمولیت ہے جسے خداوند متعال نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے، نہ صرف مومنین و مسلمین بلکہ تمام انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے، مقرر فرمایا ہے۔ حج، انسانیت کی تربیت و تنظیم کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خطاب ہوتا ہے: "وَ أَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ" (4)، "الناس" سے مراد تمام انسان ہیں، پوری دنیا کے لوگ۔ اگرچہ اس وقت اکثر لوگ حضرت ابراہیم کے پیروکار نہ تھے، لیکن حج کی دعوت، حج کی اذان، حج کا اعلان، تمام انسانیت کے لئے تھا۔
"جَعَلَ اللَّهُ الكَعْبَةَ البَيْتَ الحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ" (5) — خدائے بزرگ و برتر نے اس مقدس گھر کو تمام انسانیت کے استحکام و استقامت کا مرکز بنایا ہے۔ یہ اس کی عظمت کا مقام ہے۔ یا پھر وہ دوسری آیت مبارکہ: "إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ" (6) — یہ گھر جو ہم نے مکہ معظمہ میں بنایا، بکّہ میں قرار دیا، "وُضِعَ لِلنَّاسِ" یعنی تمام انسانیت کے لیے ہے۔
اس نظر سے دیکھیں! آپ کا یہ سفر، آپ کا طواف، آپ کی زیارت، یہ سب درحقیقت ایسے اعمال ہیں جن کا فائدہ پوری انسانیت کو پہنچتا ہے۔ بشرطیکہ یہ عمل درست طریقے سے انجام پائے، اس کے تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے، جن کا ہم بار بار اپنے پیغامات (حج) میں تذکرہ کر چکے ہیں۔ صحیح معنوں میں حج، انسانیت کی خدمت ہے، صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہے، صرف اپنے ملک کی خدمت، صرف امت مسلمہ کی خدمت نہیں ہے، بلکہ ساری انسانیت کی خدمت ہے۔ اب غور کیجیے کہ حج کی کیا عظمت ہے! آپ اس عظیم کام میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ پہلی بات۔
دوسری بات: یہ فریضۂ حج درحقیقت ایک ایسا واجب ہے، بلکہ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واحد واجب ہے جس کی ظاہری شکل و صورت، اس کا ڈھانچہ اور ترکیب سو فیصد سیاسی ہے۔
دیکھیے! ہر سال ایک ہی وقت پر، ایک ہی جگہ پر، دنیا بھر کے لوگوں کو — جو بھی استطاعت رکھتا ہو — اکٹھا کرنا، یہ کیا ہے؟ عوام کا اجتماع، لوگوں کا ایک دوسرے کے گرد جمع ہونا، یہ عمل بنیادی طور پر ایک سیاسی ماہیت رکھتا ہے۔ یعنی حج کی اصل روح، اس کی ساخت اور اس کی ترتیب سیاسی ہے۔ خواہ بعض لوگ اپنی کوشش، اپنی باتوں اور اپنے اقدامات سے اس حقیقت کا انکار کرنے کی کوشش ہی کیوں نہ کریں۔ یہ اس کا ایک اہم پہلو ہے۔
تیسری خصوصیت: یہ سیاسی ڈھانچہ جس قدر ظاہری طور پر سیاسی ہے، اُسی قدر اس کا باطنی اور داخلی جوہر سو فیصد عبادتی ہے، اس پیکر کا مضمون سو فیصدی عبادتی ہے۔ جب آپ احرام باندھتے ہیں تو سب سے پہلا کلمہ جو زبان پر جاری ہوتا ہے وہ ہے "لَبَّیْکَ"، آپ خدائے بزرگ و برتر کے سامنے اپنی حاجت کا اظہار کرتے ہیں، اپنی محبت کا اقرار کرتے ہیں، "لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ"۔ پھر احرام کی حالت میں داخل ہوتے ہیں۔ احرام ہے، دعا ہے، ذکر ہے، عبادت ہے۔ ہر عمل، ہر حرکت کا تعلق روحانیت اور بندگی سے ہے۔ یعنی یہ سیاسی قالب اپنے اندر خالص عبادت کی حقیقت سموئے ہوئے ہے۔
غور فرمائیے! یہ تمام پہلو حج کے مختلف جہات کو نمایاں کرتے ہیں۔ اور بھی باتیں ابھی باقی ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ: یہ تمام عبادتی مواد، یہ روحانی مضمون، درحقیقت انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی علامتی نشاندہی کرتے ہیں۔ حج کے دوران انجام دیے جانے والے ہر عمل کا ایک علامتی پہلو ہے۔ فرنگی اصطلاح میں جسے میں عام طور پر دہرانا نہیں چاہتا، "سمبولک" کہتے ہیں۔ اور یہ ہر عمل انسانیت کے کسی نہ کسی اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مثال کے طور پر "طواف" جو آپ انجام دیتے ہیں، یہ درحقیقت توحید کے مرکز کے گرد چکر لگانے کا عملی سبق ہے۔ یہ انسانیت کو سکھاتا ہے کہ تمہاری زندگی کی تمام حرکت اسی توحید کے مرکز کے گرد گھومنی چاہیے۔ زندگی، توحیدی زندگی ہو، حکومت، توحیدی حکومت ہو، معیشت، توحیدی معیشت ہو، بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ برتاؤ توحیدی اخلاق پر مبنی ہو ، خاندان، توحیدی خاندان ہو، زندگی کے تمام معاملات کا محور توحید ہونا چاہیے۔ طواف کا یہ عمل، درحقیقت زندگی کا ایک جامع سبق پیش کرتا ہے۔ البتہ، ہم اس معیار سے بہت دور ہیں۔ ہم جو خود کو مسلمان اور مومن سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خدا کے راستے پر چل رہے ہیں، وہ بھی اس کمال سے کوسوں دور ہیں۔ جنہیں خدا کا تعارف ہی نہیں، اُن کا تو ذکر ہی کیا!
اگر انسانیت کو یہ توفیق مل جائے کہ اس کی زندگی، اس کی حکومت، اس کی تعلیم، اس کی جنگ و صلح، اس کی دوستی اور دشمنی سب کچھ خدا کے محور پر ہو، تو پوری دنیا گلستان بن جائے۔ اگر توحید معیار بن جائے، تو یہ خود غرضیاں، یہ بے رحمیاں، یہ ظلم، یہ قتل و غارت، یہ معصوم بچوں کی خونریزی، یہ استعماریت، یہ دوسرے ممالک میں دخل اندازی، سب ختم ہو جائیں۔
طواف آپ کو یہی سبق دیتا ہے: زندگی کا اصل مقصود توحید ہے۔ اور یہ سبق صرف مومنین ہی کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے: "وَ أَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ قِيَامًا لِّلنَّاسِ"۔
سعیِ صفا و مروہ ایک عبادت ہے جس میں آپ ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں، لیکن اس کا ایک گہرا علامتی پیغام بھی ہے۔ زندگی کی مشکلات کے پہاڑوں کے درمیان مسلسل جدوجہد کیجئے، حرکت کیجئے۔"سعی" کا مطلب ہے تیز رفتاری سے چلنا، جیسے قرآن میں ہے: "وَ جَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ" (7) دوڑ رہا تھا۔ سعی یعنی تیز چلنا۔ زندگی کی مشکلات کے پہاڑوں کے درمیان کبھی رکیں نہیں، کبھی گھبراہٹ یا سست روی کا شکار نہ ہوں، بلکہ مستقل حرکت کریں، تیزی سے آگے بڑھیں۔ سعی کا سبق اور علامتی پیغام یہ ہے۔
عرفات، مشعر اور منیٰ کی طرف سفر کا مطلب یہ ہے کہ حاجی صرف مکہ میں ٹھہر کر نہیں رہ جائے۔ "سکون" (جمود) انسان کے سلسلے میں اللہ کی مرضی کے خلاف ہے۔ انسان حرکت کے لیے بنائے گئے ہیں! ہمارے پاس ہاتھ، پاؤں، زبان، عقل، صلاحیتیں اور طاقت ہے۔ ان سب کو متحرک رہنا چاہیے، حرکت کرنا چاہئے۔ عرفات کی طرف جانا، مشعر کی طرف حرکت اور منیٰ کی جانب سفر۔
قربانی ایک گہرا علامتی پیغام رکھتی ہے۔ یہ سکھاتی ہے کہ انسان کو کبھی کبھی اپنی عزیز ترین چیزوں کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دینا چاہیے۔ اس کی مکمل ترین مثال اولیا کی جانب سے پیش کی جانے والی قربانی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کا واقعہ ہے۔"فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ" (8) کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ایک باپ اپنے جوان بیٹے کے ہاتھ پاؤں باندھے، اسے زمین پر لٹائے اور اللہ کے حکم پر اس کی گردن پر چھری چلانے لگے! قربانی! زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جب آپ کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ آپ کو قربانی کرنی پڑتی ہے۔ بلکہ کبھی آپ خود قربان ہو جاتے ہیں۔ یہ علامتی پیغام ہے۔
رَمی جمرات (کنکریاں مارنا) کا مطلب ہے شیطان کو مارو، وہ کہیں بھی ہو، کسی بھی شکل میں ہو، جہاں کہیں بھی شیطان نظر آئے، اسے کچل دو! شیطان کو پہچانو اور اسے مارو۔ شیطانِ انس بھی ہوتے ہیں، شیطانِ جنّ بھی ہوتے ہیں۔"وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحی بَعضُھُم اِلىٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا (9) ، شیطان کو مارنا۔ غور کریں! یہ سب عملی سبق ہیں۔ حج کے یہ تمام اعمال، حج میں انجام پانے والے یہ سارے کام، یہ عبادتیں جن کے بارے میں ہم نے کہا کہ یہ مل کر حج کو تشکیل دیتی ہیں، یہ سب سبق ہیں۔
احرام ایک سبق ہے۔ احرام خدائے متعال کے سامنے عاجزی کا اظہار ہے۔ زندگی کے مختلف لباسوں، زیوروں اور آرائشوں کو ایک سادہ کپڑے میں بدل دینا عبادت ہے، عجز ہے، مگر یہ ایک درس بھی ہے۔ یہ کام دنیا کا سب سے امیر شخص بھی کرے گا اور حج میں موجود سب سے غریب فرد بھ، دونوں یکساں طریقے سے کریں گے، ان میں کوئی فرق نہیں۔ بادشاہ ہو تو یہی حالت، رعایا ہو تو یہی صورت، جو بھی ہو، یہی قانون ہے،خدا کے سامنے تمام انسانوں کو یکساں کر دینا۔
دیکھیے، ہماری بیان کردہ تیسری بات یہ تھی کہ یہ تمام اعمال، اگرچہ عبادت ہیں، لیکن درحقیقت ان میں انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارے اور علامتیں پوشیدہ ہی۔ ہر ایک کے اندر اپنے مخصوص انداز سے۔ جیسا کہ میں نے مختصراً بیان کیا۔
اگلا نکتہ: یہ اجتماع اصل میں انسانوں کے فائدے کے لیے ہے: "لیشھدوا منافع لھم" (10)۔ یہاں "لام" درحقیقت سببیت کا ہے۔ لوگ مکہ میں، بیت اللہ الحرام میں، حج کے مختلف مقامات پر کیوں جمع ہوتے ہیں؟ "لیشھدوا منافع لھم"—تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کریں۔ اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فائدہ صرف تجارت یا لین دین تک محدود ہے، لیکن نہیں، ہر وہ چیز جو "منفعت" (فائدہ) کہلائے، اس میں شامل ہے۔
آج سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ "اتحاد امت اسلامی"۔ میرے خیال میں، امت اسلامی کے لیے اتحاد سے بڑھ کر کوئی فائدہ نہیں۔ اگر امت مسلمہ متحد ہو جائے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لے، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کرے، تو غزہ کا المیہ پیش نہ آئے، فلسطین کی تباہی نہ ہو، یمن اس طرح ظلم کا شکار نہ بنے۔ جب ہم جدا ہوتے ہیں، تو استعماری طاقتیں—خواہ امریکہ ہو، صہیونی حکومت ہو، یا یورپ اور دیگر ممالک—اپنے مفادات اور لالچ کو قوموں کے مفادات پر مسلط کر دیتے ہیں۔ نتیجہ وہ ہوتا ہے جو آج ہم ان مظلوم ممالک میں دیکھ رہے ہیں، جیسے غزہ کا حال۔
لیکن جب اتحاد ہوتا ہے، تو امن آتا ہے؛ جب اتحاد ہوتا ہے، پیشرفت ہوتی ہے؛ جب اتحاد ہوتا ہے، باہمی تعاون بڑھتا ہے۔ ہم کسی اسلامی ملک کی اس چیز میں مدد کر سکتے ہیں جس میں وہ کمی محسوس کر رہا ہو، اور وہ ہماری مدد کر سکتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں—یہی حقیقی فائدہ ہے۔ "لیشھدوا منافع لھم"—حج کو اسی نظر سے دیکھیے۔
مختصر یہ کہ حج کو ہم بخوبی پہچانیں۔ میں نے جو باتیں عرض کیں حج کی شناخت کے بعض نکات ہیں۔ سمجھ لیجیے کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔ البتہ اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ میزبان حکومت (جہاں حج ہوتا ہے) کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے، ان پر بہت بڑی اور گراں بار ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ملکوں کے حکام، علماء، دانشور، قلمکار، خطیب، اور وہ تمام بااثر شخصیات جو عوام میں اپنی بات کا وزن رکھتی ہیں — سب کا اہم کردار ہے۔ یہ لوگ حج کی حقیقت کو عوام کے سامنے واضح کر سکتے ہیں، انہیں سمجھا سکتے ہیں اور عوامی رائے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
اللہ تعالی سے طلب نصرت کریں۔ واقعی سفر کا آغاز ہوتے ہی کہئے «رَبِّ اَدخِلنی مُدخَلَ صِدقٍ وَ اَخرِجنی مُخرَجَ صِدق» (11) اللہ سے مدد چاہئے کہ اس عظیم کارزار میں آپ کا داخل ہونا اور اس سے باہر نکلنا توفیق خداوندی سے رضائے الہی کے مطابق قرار پائے۔ درست انداز میں حرکت کیجئے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم برکت دے گا۔
والسّلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ
1- اس ملاقات کے آغاز میں امور حج و زیارات میں ولی فقیہ کے نمائندے اور حجاج ایرانی کے امور کے سرپرست حجت الاسلام و المسلمین سید عبد الفتاح نوّاب اور ادارہ حج و زیارات کے سربراہ جناب علی رضا بیات نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
2- بندر عباس میں شہید رجائی بندرگاہ میں آتش زدگی کا سانحہ جو 26 اپریل 2025 کو رونما ہوا، جس میں متعدد ایرانی شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ اسی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے 27 اپریل 2025 کو ایک پیغام دیا تھا۔
3- سورہ بقرہ آیت نمبر 157 کا ایک حصہ
4- سورہ حج آیت نمبر 27 کا ایک حصہ "اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو"
5- سورہ مائدہ، آیت نمبر 97 کا ایک حصہ
6- سورہ آل عمران آیت نمبر 96 کا ایک حصہ
7- سورہ آل یس آیت نمبر 20 کا ایک حصہ "اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا"
8- سورہ صافّات آیت نمبر 103 "پس جب دونوں (باپ بیٹے) نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔"
9- سورہ انعام آیت نمبر 112 " اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو دھوکہ و فریب دینے کے لیے بناوٹی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں..."
10- سورہ حج آیت نمبر 28 کا ایک حصہ "تاکہ وہ اپنے فائدوں کے لئے حاضر ہوں..."
11- سورہ اسراء آیت نمبر 80 کا ایک حصہ "اور کہئے اے میرے پروردگار مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ۔۔"