بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ  ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ارواحنا فداه.

برادران و خواہران عزیز، خوش آمدید! امید ہے کہ ان شاء اللہ توفیقات الہی آپ کے شامل ہوں اور یہ جو اہم طولانی فہرست جناب مومنی نے پیش کی ہے، ان شاء اللہ اس پر عمل ہو اور آپ کی کارکردگی میں شمار ہو۔ خداوند عالم سے توفیق طلب کریں کہ اس کی ایک ایک شق پر عمل کرسکیں۔

ٹائم فریم اہم ہے؛ اپنے لئے ایک ٹائم فریم تیار کریں۔ ممکن ہے کہ بعض معاملات میں ٹائم فریم کے تعین میں وزارت داخلہ کی مشارکت بھی ضروری ہو اور بعض معاملات میں اس کی ضرورت نہ ہو، ان معاملات میں آپ گورنر صاحبان خود اپنے لئے ٹائم فریم کا تعین کریں۔

مثال کے طور پر، کہا گیا ہے کہ ایک دن روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی سرمایہ کاری کے موضوع کے لئے مخصوص کیا جائے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس ایک دن میں دوسرے کاموں کی چھٹی نہ ہو۔ ایک وقت کوئی کسی کمرے میں، کسی جگہ کسی جلسے میں جاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کو کرنا کیا ہے۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ خود اس موقع سے استفادے کے لئے پلاننگ کی ضرورت ہے۔ میں نے بھی چند باتیں لکھی ہیں جنہیں عرض کروں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ  گورنر حضرات صوبے کے سبھی امور کے منتظم ہیں۔ یہ میرا محکم نظریہ ہے۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں، میں نے تسلسل کے ساتھ، ایک اصول کے طور پر اس کو بیان کیا ہے کہ گورنروں کو اختیار دیا جائے، لیکن صدور بعض وزیروں کی مخالفتوں پر غلبہ حاصل نہ کر سکے۔ وزیروں کی کوشش ہوتی ہے کہ صوبوں میں ان کے اپنے ڈائریکٹر جنرل حضرات امور کو چلائیں، ہدایات دیں، بنابریں یہ بات بعض حضرات کے مزاج سے  سازگار نہیں ہے کہ گورنر حضرات مکمل طور پر صاحب اختیار ہوں۔ البتہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ملک کی بھلائی کے لئے بہت سی باتوں سے صرف نظر کرنے پر تیار ہيں۔ بنابریں میری نظر ميں اور میرے نظریے کے مطابق آپ(گورنرحضرات) اپنے اپنے صوبوں کے سبھی امور کے منتظم ہیں۔ یعنی شہری خدمات سے لے کر، ماحولیات، پیداوار، نیز سرحدی بازار، جن صوبوں میں یہ بازار ہیں، اور اپنے اپنے صوبوں کی ڈپلومیسی سے متعلق سبھی امور،  سبھی امور کے ذمہ دار آپ ہیں، یعنی ان کے بارے میں آپ کو فیصلہ کرنا ہے، آپ ہی کو اقدام کرنا ہے اور آپ ہی کو ان کی پیروی بھی کرنی ہے۔  

  خوش  قسمتی سے اس وقت ملک میں مواقع بہت ہیں؛ یعنی آپ کا وقت آیا ہے تو مواقع بڑھ گئے ہیں۔ مواقع کا مطلب کیا ہے؟ یعنی مملکت کی عام صورتحال ایسی ہے کہ کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ جنگ ہے نہ کوئي وبائی بیماری ہے۔ کورونا کی وبا کے دور میں اتنے سکون سے کام کرنا ممکن تھا؟ یہ مشکل آپ کو درپیش نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی سخت سیکورٹی کا مسئلہ درپیش  ہے۔ گوشہ وکنار میں کچھ باتیں ہیں، ہم ان سے بے خبر نہیں ہیں، لیکن کوئي سخت سیکورٹی ایشو نہیں ہے۔ سیاسی اور جماعتی اختلافات بھی اس طرح، جس طرح کہ ایک زمانے میں اوج پر تھے، اس وقت نہیں ہیں۔ بنابریں ملک کا مجموعی ماحول بہت اچھا ہے۔

  اس  کے علاوہ آپ کے پاس افرادی قوت بھی کافی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ کو اپنی افرادی قوت کی شناخت ہے یا نہیں ہے؛ مجھ سے تو بہت لوگ رجوع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک میں  ایجادات کی صلاحیت اور کام کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جن کی گنتی بھی مشکل ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، اس طرح کے نوجوانوں نے مجھ سے بہت رجوع کیا ہے اور جب بھی انھوں نے مجھ سے رجوع کیا ہے، میں نے کسی نہ کسی وزارت خانے میں ان کی سفارش  کی ہے۔ وزارتخانوں نے بھی انہیں قبول کیا ہے اور یہ وہاں گئے ہیں۔ جس کے بعد ان وزارت خانوں نے مجھے پیشرفت کی خوش خبری بھی دی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

اس وقت ملک میں موجود جملہ سہولتوں میں سے ایک تو یہ ہے؛ انہیں تلاش کیجئے۔ آسانی سے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔(2)

  کہا گیا کہ گویا، بعض پروجکٹ تیار کرکے، ایسے لوگوں کے اختیار میں  دیئے جا رہے ہیں، جن کے نام معلوم نہیں ہیں، مثلا، رضاکارانہ طور پر یہی نالج بیسڈ کمپنیاں، یہی نوجوان، یہ آئیں، ان پروجکٹوں کا خیر مقدم کریں، ان کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ پروجکٹ انہیں مل سکتے ہیں اور ان کے ساتھ وسائل اور سہولتیں بھی ہیں جن سے وہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ بنابریں ان اہم مواقع میں سے ایک یہ افرادی قوت ہے۔ 

 بریکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی علاقائی تنظیموں  میں رکنیت بھی انہیں مواقع میں سے ایک ہے۔ آج ہمیں یہ موقع دستیاب ہے، کل نہیں تھا اور آئندہ کل  کیا ہوگا، یہ ہم نہیں جانتے؛ لیکن آج ہمیں یہ موقع دستیاب ہے اور انہیں  جملہ مواقع میں سے ایک ہمارے پڑوسی بھی ہیں۔

 تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک کے سامنے مواقع موجود ہیں۔ اور میں یہ بھی عرض کر دوں کہ واقعی حق بات یہ ہے کہ جناب مومنی بھی انہیں مواقع میں سے ایک ہیں؛ کیسے؟ اس طرح کہ یہ اپنے گزشتہ کام کی وجہ سے پورے ملک کو پہچانتے ہیں۔(3) سبھی شہروں، تحصیلوں اور سبھی جگہوں سے واقف ہیں۔ یہ بذات خود ایک امتیاز ہے؛ اس سے استفادہ کریں۔

 دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم خدمت ميں کامیابی حاصل کرنا چاہیں تو ہمارے اندر خدمت کا جذبہ بھی ہونا چاہئے۔ جو توفیق چاہتا ہے خود اس کے اندر بھی اور اس کے کام میں بھی، اچھائی اور درستگی ہونی چاہئے۔

 آپ حضرات تو الحمد للہ، امتحان سے گزر کر کام کے لئے ان عہدوں پر منتخب کئے گئے ہیں، لیکن آپ کے ماتحت دسیوں افسران ہیں کہ جن کا انتخاب آپ کے ذمہ ہے۔ کاؤنٹی کے حاکم سے لے کر، تحصیلوں کے حاکم  اور ان کے معاونین اور دیگر افسران ہیں جن کا انتخاب آپ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جن کے اندر یہ خصوصیات موجود ہوں: سب سے پہلے تو اس کے اندر خدمت کا جذبہ ہو، خدمت کرنا چاہتا ہو اور کام کا عاشق ہو؛ اور دوسرے اس کا نفس صاف ستھرا اور سالم ہو۔ اب میں ایک ایک کرکے نا مناسب چیزوں کو گنوا تو نہیں سکتا، لیکن ایسی بہت سی باتیں ہيں جو افسران کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ اگر خدمت کا عہدہ، ایسے افسران کے پاس ہو تو، ہم کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیں گے؛ یعنی سبھی مواقع سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اور جن لوگوں کے لئے میں یہ سفارش کر رہا ہوں، ان کے لئے یہ اور ذمہ دار عہدیدارن چاہے جس شعبے میں بھی ہوں اور جس سطح کے بھی ہوں، اگر اس طرح آگے بڑھیں، جس طرح میں نے کہا ہے، اگر اس صراط مستقیم پر چلیں، یہ صراط مستقیم ہے، اس پر چل کر عوام کی مشکلات حل کریں تو وہ کچھ کھوئيں گے نہيں۔ خدمت کا دور، طولانی نہیں ہے، کوتاہ ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے کام کے ساتھ ذاتی تجارت بھی کر سکتے ہیں؛ نہ کریں! تو کچھ کھوئيں گے نہيں۔ ہماری گورنری کا دور، چار سال یا زیادہ سے زیادہ آٹھ سال ہے؛ اس سے زیادہ تو نہیں ہے۔ ان آٹھ برسوں میں ہم خیال رکھیں کہ خود کو اس گڈھے ميں نہ گرنے دیں؛ پھر جب یہ دور ختم ہو جائے تو جو بھی کریں، اس سے ملک کو نقصان نہيں پہنچے گا۔ لیکن اگر کوئی ایسا کام کیا کہ مفادات ٹکرا گئے تو پھر ملک کے لئے مشکل ہوگی۔ خدمت کا دور ایسا ہے؛ مشکل کھڑی ہو جائے گی۔ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ خدمت کے دور میں اس طرح کے مسائل ميں پھنسے ہیں۔ لہذا اگر سیدھے راستے پر چلیں تو ملک کی خدمت کی اور کچھ کھویا نہیں۔

 ایک اور نکتہ بدعنوانی کے خلاف مہم ہے۔ جس طرح  کہ ہم اپنی جسمانی بیماری کے عوامل کے خلاف مہم چلاتے ہيں، خیال رکھتے ہیں کہ نزلہ زکام نہ ہو، وائرس سے بچے رہیں، اگر کوئی جراثیم ہے تو ختم ہو جائے، اپنے کھانے کا خیال رکھتے ہیں، اسی طرح ملک کی سلامتی، بالخصوص اداروں کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کی فکر کریں۔ بدعنوانی بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ بعض لوگوں نے دلیل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں، بدعنوانی سسٹمیٹک ہے! جھوٹ ہے؛ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ الحمد للہ نظام سالم ہے، لیکن بدعنوانی کی کچھ شریانیں، کمزور یا محکم، موجود ہیں؛ ان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سینئر افسران کے لئے ایک اہم کام بدعنوانی کے خلاف مہم ہے۔ 

لیکن بدعنوانی کے خلاف مہم کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کو اور اپنے لواحقین کو بدعنوانی پیدا کرنے والے عوامل سے دور رکھنے کی کوشش کریں؛ اہم یہ ہے۔ اگر خدا نخواستہ، جو ذمہ دار عہدیدار ہے، چاہے سیکورٹی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے اقتصاد سے، یا سیاست سے یا ثقافت سے، جس شعبے سے بھی تعلق رکھتا ہو، اگر وہ بدعنوانی میں مبتلا ہو گیا تو اس کا نقصان اور ضرر کئی گنا ہے اور اسی تناسب سے عذاب الہی بھی بڑھ جائے گا؛ اس کا حساب عام لوگوں سے مختلف ہوگا۔ خداوند عالم ازواج پیغمبر سے فرماتا ہے " (4) اگر تم نے کوئی گناہ کیا تو تمھارا عذاب دوگنا ہوگا۔ پیغمبر کی زوجہ کے لئے یہ ہے۔ البتہ اسی کے ساتھ یہ بھی فرماتا ہے کہ " وَ مَن یَقنُت مِنکُنَّ لِلَّہ وَ رَسولِہ وَ تَعمَل صالِحًا نُؤتھا اَجرَھا مَرَّتَین" (5) اور اگر نیکی کی تو اس کا اجر بھی دوگنا ہوگا۔ کیوں؟ اس لئے کہ پیغمبر کی زوجہ ہیں، اس لئے کہ حساس حیثیت میں ہیں۔ ہم اور آپ بھی اسی طرح ہیں؛ ہم بھی حساس حیثیت میں ہیں۔ ہم بھی اگر نیکی کریں تو اجر دوگنا ہے اور اگر خدا نخواستہ، مشکل میں پڑ جائيں(یعنی گناہ کا ارتکاب کریں) تو عذاب بھی دوگنا ہے۔ زیادہ ہوگا۔

جو لوگ آپ کے شعبے میں، کسی امر کے ذمہ دار ہیں، مثال کے طور پر فرض کریں، اسمگلنگ کی روک تھام ان کے ذمہ ہے، یا سرحد بند کرنے  کے ذمہ دار ہیں، کسی بھی کام کے ذمہ دار ہیں، اگر وہ خدانخواستہ  بدعنوان ہو گئے تو بدعنوانی روکنے کی راہیں بند ہو جائیں گی اور بدعنوانی کے راستے کھل جائيں گے۔ چند برس قبل میں نے اسی حوالے سے ایک تفصیلی بیانیہ جاری کیا تھا۔(6) کئی سال پہلے کی بات ہے۔ جہاں ہم نے کہا کہ بدعنوانی سات سر والا اژدہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جلدی ختم نہیں ہوگی ، اس کے لئے لگاتار مہم جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ تو ایک سفارش یہ بھی ہے۔

ایک اور سفارش عوام کے اس مسئلے میں ہے جس کی طرف اشارہ کیا ہے (7) ۔ عوام سے گرمجوشی سے ملیں۔ عوام کے درمیان جائيں؛ عوام کے بیچ جائيں، ان کے اجتماعات میں شرکت کریں۔ ان کی باتیں سنیں، اگرسخت بولیں تو تحمل کریں۔ اس کی مشق کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں ميں خداوند عالم کے لطف سے، تحمل پایا جاتا ہے۔ انہیں جو بھی کہیں وہ تحمل کرتے ہیں لیکن بعض لوگوں میں تحمل نہیں ہے، وہ بہت جلد مشتعل ہو جاتے ہیں، جواب دیتے ہیں، لڑائی کر لیتے ہیں، بنابریں اس کی مشق کریں۔ مشق کریں کہ بالفرض اگر کوئی دیہی یا شہری باشندہ، یا دکاندار یا کوئی بھی جو آپ کی خدمات سے واقف نہیں ہے، وہ آکر کوئی اعتراض کرتا ہے، وہ اعتراض صحیح نہیں ہے، تب بھی تحمل کریں، اور پھر اس کو وضاحت پیش کریں؛ عوام کے ساتھ اس طرح سلوک کریں۔ اگر یہ ہوگا تو اس کے دل میں آپ کے لئے محبت پیدا ہوگی، جب محبت ہوگئی تو کسی حساس موقع پر ضرورت پڑنے پر آپ کی مدد کریں گے۔  

ایک اور سفارش شریعت کی ہے۔ حکام کو سختی سے شریعت کا پابند ہونا چاہئے۔ حرام کاموں سے پرہیز کریں، دینی رسومات کا خیر مقدم کریں اور یہ شرع کی پابندی ایسی ہونی چاہئے کہ عوام بھی دیکھیں؛ یہ ریاکاری نہیں ہے۔  آپ اگر کسی مسجد کی نماز جماعت میں شرکت کریں تو یہ ریا نہیں ہے۔

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ریا نہیں کرنا چاہتے! تو ریا نہ کریں، خدا کے لئے شرکت کریں؛ واقعی خدا کے لئے۔ خدا کے لئے؛ آپ گورنر کی حیثیت سے کسی مجلس میں یا نماز جماعت میں یا  کسی جلوس میں شرکت کریں، تو اس سے عوام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ اچھا کام ہے۔ یہ نیکی ہے۔ یہ بڑی نیکی ہے۔ یہ خدا کے لئے انجام دیں اور ان شاء اللہ ثواب حاصل کریں۔ یہ بھی  ایک سفارش ہے۔

ایک اور مسئلہ، اس سال  کے سلوگن کا ہے جس کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے لئے پلانںگ  کی ہے۔

ایک اور مسئلہ اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ واقعی اس وقت اسمگلنگ ہمارے لئے ایک مشکل بن گئی ہے؛ اس کا تعلق آج سے نہیں ہے، برسوں سے ہے۔ کسی وقت مجھے رپورٹ دی گئی تھی کہ کتنی چیزیں اسمگل ہوکر ملک میں آتی ہیں، جو چیزیں یہاں سے اسمگل ہوکر باہر جاتی ہیں، ان کا حساب الگ ہے، جو اسمگل ہوکر آتی ہیں، ان کی رقم بیس ارب بتائی تھی۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ لیکن چند روز قبل عدلیہ کے سربراہ نے (8) یہ رقم پندرہ ارب بتائی ۔  یقینا انھوں نے تحقیق کی ہوگی۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے! یہاں سے باہر کے لئے اسمگلنگ کا مسئلہ بھی ہے۔ پیٹرول ، گیس اور ڈیزل وغیرہ کی اسمگلنگ۔ میرے خیال میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پولیس اور دیگر فورسز کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ تعاون کریں، ان کی مدد کریں کہ وہ یہ کام کر سکیں۔ ہم بھی آپ کے لئے دعا کریں گے۔  

  والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 

1۔ اس ملاقات کے شروع میں وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے رپورٹ پیش کی۔

2۔ وزير داخلہ

 3۔ ڈپٹی پولیس چیف

4۔ سورہ احزاب آیت نمبر 30

5۔ سورہ احزاب آیت نمبر 31

6۔ رجوع کریں، مالی اور اقتصادی بدعنوانی کی روک تھام کے لئے، مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے مکتوب مورخ 3-4-2001 سے

7۔وزیر داخلہ

8۔ حجت الاسلام والمسلمین غلام حسین محسنی اژہ ای