انھوں نے صیہونی حکومت کو دنیا کی سب سے الگ تھلگ اور نفرت انگیز حکومت بتایا اور کہا کہ ہماری ڈپلومیسی کی ایک اصل اور اہم لائن، اس مجرم حکومت سے تجارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے کے لیے حکومتوں کو ترغیب دلانا ہو۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے صدر مملکت، اعلیٰ عہدیداران اور حکومت میں سرگرم افراد، خاص طور پر بارہ روزہ جنگ کے امتحان میں حقیقی معنی میں قربانی دینے والے اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، صدر مملکت کے جوش، جذبے اور انتھک محنت کی قدردانی کی اور کہا کہ پزشکیان صاحب کے چین کے بہت اچھے دورے نے معاشی اور سیاسی میدانوں میں بہت سے مواقع فراہم کر دیے ہیں اور ان کے مفید نتائج کے حصول کے لیے مسلسل کوشش کی جانی چاہیے۔

انھوں نے عوام کے اقتصاد اور معیشت کے میدان میں بہت زیادہ سنجیدہ اقدامات کو ضروری بتایا اور کہا کہ مسائل کے حل کے لیے باہری تبدیلیوں کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے، البتہ ہر کوئی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے لیکن جوش، حوصلے، امید، کام اور جدوجہد کے جذبے کے ساتھ، "نہ جنگ، نہ امن" کی صورتحال پر، جسے مسلط کرنے کی دشمن کوشش کر رہا ہے، غلبہ حاصل کرنا چاہیے کیونکہ یہ صورتحال ملک کے لیے نقصاندہ اور خطرناک ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے قومی قوت و عزت کے عناصر کی تقویت کو حکومتوں کی ذمہ داری بتایا اور کہا کہ ان عناصر میں سب سے اہم، قوم کا جوش و جذبہ، اتحاد و یکجہتی اور امید ہے جسے زبانی اور عملی طور پر وجود میں لانا اور مضبوط بنانا چاہیے اور ان عناصر کو کمزور نہیں پڑنے دینا چاہیے۔

انھوں نے اسلامی اہداف، تعلیمات اور شریعت کے نفاذ کو، اسلامی نظام کی تشکیل کی بنیاد بتایا اور کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے پہلے دن سے ہی ان باتوں کو پیش کر دیا تھا اور اگر کوئي شخص، کوئي دوسری بات کہتا ہے تو وہ غلط کہتا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ملک میں اتفاق رائے کے امکان پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کی ہمدلی، ہمراہی اور تعاون قابل ستائش ہے لیکن اس عمل میں فیصلے تیار کرنے اور فیصلے کرنے والے شعبوں کو بھی سرگرم ہونا چاہیے۔

انھوں نے عوام کی معیشت کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی معیشت کے سلسلے میں اس طرح کام کیجیے کہ عوام، قیمت میں اضافے کی تشویش کے بغیر بنیادی ضرورت کی کم از کم دس چیزیں خرید سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پرانے طریقوں اور پرانے سازوسامان جیسے تیل کی پیداوار میں کمی کا سبب بننے والے عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی پیداوار اور تیل نکالنے کے سلسلے میں پائے جانے والے مسائل کے حل اور تبدیلیوں کے لیے پڑھے لکھے جوانوں کے علم سے فائدہ اٹھائیے۔ اسی طرح تیل برآمد کرنے کے میدان میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور تیل کے خریداروں کا تنوع اور تعداد بڑھانی چاہیے۔

اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت مسعود پزشکیان نے گزشتہ ایک سال میں اپنی حکومت کے اہم پروگراموں اور کاموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے روس، چین، عراق، ترکیے اور یوریشیائی ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے اہم سمجھوتوں اور معاہدوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ فریقین، کاغذ پر لکھی ہوئی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کا عزم رکھتے ہیں۔