فتوحات کے سلسلے میں قرآن مجید ہمیں تعلیم دیتا ہے: "اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہُ كَانَ تَوَّابًا." (جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح آجائے اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو (اس وقت) اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سورۂ نصر) قرآن نہیں کہتا کہ خوشی مناؤ، مثال کے طور پر میدان میں جا کر نعرے لگاؤ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ، وہ کہتا ہے کہ جاؤ پروردگار کی تسبیح کرو، یہ تم نے نہیں حاصل کی ہے، اللہ نے عطا کی ہے، استغفار کرو۔ ممکن ہے کہ اس کام میں تم سے کوئي غفلت ہوئي ہو، اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرو، مثبت واقعات کے سلسلے میں اس طرح سے عمل کرنا چاہیے، مغرور نہ ہونا اور انھیں خدا کی طرف سے سمجھنا کہ "وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّہَ رَمَىٰ" (اور (اے رسول! جب آپ نے وہ سنگریزے پھینکے تھے تو وہ آپ نے نہیں پھینکے تھے بلکہ خدا نے پھینکے تھے۔ سورۂ انفال، آيت 17) اپنے آپ پر یہ گھمنڈ اور خدا کی نسبت گھمنڈ صحیح نہیں ہے۔ "فحقّ لک ان لا یغتر بک الصّدّیقون" (صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 39) صحیفۂ سجادیہ کی دعا میں ہے کہ صدیقوں (سچوں) کو بھی تجھ پر گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کہیں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق تو واضح ہے وغیرہ وغیرہ، جی نہیں! خداوند متعال صدیقین کے مسئلے میں بھی تکلف سے کام نہیں لیتا، اگر کبھی ان سے بھی کوئي خطا ہوئي تو وہ بھی چوٹ کھائيں گے۔
امام خامنہ ای
14/3/2019