قرآن مجید کی بہت سی آيات میں پیغمبروں کی ذمہ داری اس طرح سے بیان کی گئي ہے کہ وہ آ کر لوگوں کو خوش خبری دیں اور ڈرائيں: مبشراً و نذیراً۔ یا بعض آيات میں کہا گيا ہے: نذیراً للعالمین، اے پیغمبر ہم نے آپ کو (جہنم سے) ڈرانے کے لیے بھیجا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ ہمارے پیغمبر کے لیے بھی اور پچھلے پیغمبروں کے لیے بھی کئي بار استعمال ہوا ہے۔ بشارت یعنی اچھی روزی کی خوش خبری، انذار یعنی بری روزی سے ڈرانا اور یہ بالکل صحیح بات ہے۔ تو پیغمبر اس لیے آئے ہیں کہ وہ دین خدا کی پیروی کی صورت میں انسانوں کو اس اچھی روزی کی خوش خبری دیں جو اس کے انتظار میں ہے اور اس اچھی روزی میں دنیوی روزی بھی شامل ہے اور مرنے کے بعد ملنے والی اچھی روزی بھی شامل ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ پیغمبروں کی راہ کی پیروی کریں گے ان کی دنیا بھی اچھی ہوگي اور جو لوگ انبیاء کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلیں گے ان کی دنیا بھی بری ہوگي۔ وَمَنْ اَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَاِنَّ لَہُ مَعِيشَۃً ضَنكًا (سورۂ طہ، آيت 124، اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لیے تنگ زندگی ہوگی۔) ان کے لیے زندگي بھی بڑی سخت اور تنگدستی کی ہوگي۔

امام خامنہ ای
13/5/1992