خداوند عالم نے انسان کی تخلیق ایسی کی ہے کہ اسے تربیت کی ضرورت ہے۔ باہر سے بھی اس کی تربیت ہونی چاہیے اور اندر سے وہ خود اپنی تربیت کرے۔ روحانی مسائل کے سلسلے میں یہ تربیت دو طرح کی ہے۔ ایک، انسان کی سوچ اور اس کی فکری قوتوں کی تربیت ہے جو تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسری، نفس اور روحانی قوتوں، غضب اور شہوت کو کنٹرول کرنے کی تربیت ہے جسے تزکیہ کہا جاتا ہے۔ اگر انسان کی تعلیم صحیح ہو اور اس کا تزکیہ صحیح ہو تو وہ اس تیار مادے کی طرح ہے جس نے کسی مناسب کارخانے میں اپنی مطلوبہ شکل حاصل کر لی ہو اور کمال کو پہنچ گيا ہو۔ اس دنیا میں بھی اس کا وجود، خیر و برکت، دنیا کے سنورنے اور انسانوں کے دلوں کے آباد ہونے کا موجب ہے اور جب وہ دوسری دنیا میں پہنچے گا اور عالم آخرت میں قدم رکھے گا تو اس کا مرتبہ وہی ہوگا، جس کی تمام انسان، شروع سے لے کر اب تک تمنا رکھتے رہے ہیں، یعنی نجات، سعادت مند ابدی زندگي اور جنت۔
امام خامنہ ای
1998/01/02