سنت کا مطلب قانون اور قاعدہ ہے۔ خداوند متعال نے عالم فطرت میں، عالم بشریت میں قاعدے معین کئے ہیں، قوانین رکھے ہیں: ’’وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ . وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ‘‘ (اور (ایک نشانی) سورج ہے جو اپنے مقررہ ٹھکانے (مدار) کی طرف چل رہا ہے (گردش کر رہا ہے) یہ اندازہ اس (خدا) کا مقرر کیا ہوا ہے جو غالب ہے (اور) بڑا علم والا۔ اور (ایک نشانی) چاند بھی ہے جس کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ (آخر میں) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے)؛ (سورہ یس / آیات ۳۸ اور ۳۹) یہ سب سراسر قانون ہے، دوسری جگہ: ’’لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَھاَاَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّھَارِ۔۔۔‘‘ (نہ سورج کے بس میں ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات کیلئے ممکن ہے کہ وہ دن پر سبقت لے جائے۔۔۔)؛ (سورہ یس کی چالسیوں آیت کا ایک حصہ) یہ سب قانون ہے۔ قوانین جاریہ ہیں، لیکن وہ قوانین ہیں جو آنکھوں کے سامنے ہیں۔ کشش کا قانون، ایک قانون ہے جو آنکھوں کے سامنے ہے، سب کی سمجھ میں آتے ہیں لیکن ایسے بھی قوانین ہیں کہ سب ان کو سمجھنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کا پورا قرآن ان قوانین کے بیان سے بھرا پڑا ہے۔ (مثال کے طور پر) ’’۔۔۔ انَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِينَ‘‘ (۔۔۔ اللہ یقینا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔)؛ (سورہ بقرہ/ آیت نمبر ۱۹۴ کا ایک حصہ) ؛ ’’وَمَنْ جَاَھدَ فاِنَّمَا يُجَاھِدُ لِنَفْسِہِ‘‘ (اور جو کوئی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے جہاد کرتا ہے۔۔۔)؛ (سورہ عنکبوت کی چھٹی آیت کا ایک حصہ) اور اسی طرح کی دوسری آیات۔ یہ سب بھی قانون ہیں۔ ’’۔۔۔ وَمَنْ َاصْدَقُ مِنَ اللّہِ قِيلًا‘‘ ( ۔۔۔اور اللہ سے بڑھ کر کون بات کا سچا ہے)؛ (سورہ نساء کی آیت ۱۲۲ کا ایک حصہ) کون ہے جو سب زیادہ سچا ہے، خدا کہتا ہے یہ قانون ہے۔

امام خامنہ ای 

28/ جون /2022