بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

میں خوش آمدید کہتا ہوں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو۔ واقعی اساتذہ کی صنف ہر اس شخص کے لئے جو تعلیم و تربیت کی قدر جانتا ہے بڑی عزیز اور پسندیدہ صنف ہے۔

یہ شعبان کا مہینہ ہے، توسل، دعا اور تدبر کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ مبارک رمضان کا مقدمہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں پڑھی جانے والی خاص دعاؤں میں ہمارے لئے سعادت و خوش بختی کا راستہ روشن اور نمایاں ہے۔ اِلَهی هَب لی قَلباً یُدنیهِ مِنکَ شَوقُهُ وَ لِساناً یُرفَعُ اِلَیکَ صِدقُهُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُهُ مِنکَ حَقُّه ... اِلَهی هَب لی کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیک.(۲) یہ اولیائے خدا کی اعلی و ارفع آرزوئیں ہیں جو الفاظ کے قالب میں ہمیں سکھائی گئی ہیں تا کہ ہمارے ذہنوں کی رہنمائی ہو ان اہداف کی جانب جن کا مطالبہ کیا جانا چاہئے، اس راستے کی جانب جس پر گامزن ہونا چاہئے، رابطے کی اس نوعیت کی جانب جو اللہ اور بندے کے رابطے میں ہونی چاہئے۔ میرے عزیزو، میرے نوجوانو، عزیز اساتذہ! اس دستیاب موقع کی قدر کیجئے، ماہ شعبان سے بھرپور کسب فیض کیجئے۔ نیمہ شعبان حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کا یوم ولادت ہے۔ اس مقدس یوم ولادت کی وجہ سے شب و روز برکتوں سے معمور ہیں۔ اس کے علاوہ بھی شب نیمہ شعبان بھی اپنی جگہ پر بڑی با عظمت رات ہے۔ بعض کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ یہ شب قدر ہے۔ آپ شب نیمہ شعبان کو یاد رکھئے اور دعا سے، توسل سے، ذکر الہی سے اور یاد پروردگار سے اپنی روح میں شادابی پیدا کیجئے اور بارگاہ خداوندی میں اپنی حاجتیں بیان کیجئے، اللہ سے ہمکلام ہوئیے!

یوم استاد کی مناسبت سے ہم اپنے عظیم اور عزیز شہید آیت اللہ مطہری رضوان اللہ تعالی علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیں گے۔ وہ واقعی ایک حقیقی استاد تھے۔ زبان و بیان میں بھی، عمل میں بھی، طرز زندگی میں بھی، ہم عصروں اور حالات سے پیش آنے کی اپنی خاص روش کے اعتبار سے بھی۔ وہ واقعی حقیقی معنی میں ایک معلم اور سکھانے والے تھے۔ ہم نے انھیں کھو دیا۔ بشریت کے دشمنوں نے، وطن عزیز کے دشمنوں نے اور اسلام کے دشمنوں نے ہم سے انھیں چھین لیا، لیکن بحمد اللہ ان کی علمی کاوشیں محفوظ ہیں۔ وزیر محترم نے بھی اشارہ کیا جو بالکل درست ہے اور میں بھی یہی سفارش کروں گا کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ ہو یا دیگر میدان ہوں ہر جگہ اس عظیم ہستی کے نظریات سے ضرور استفادہ کیجئے، ان سے بہرہ مند ہوئیے۔ ان کی کتابیں ذہنوں کی رہنمائی کرتی ہیں، تربیت کرتی ہیں، ذہنوں کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہیں کہ ان سے صحیح و متین اسلامی تعلیمات کی شکل میں ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

تین موضوعات ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں میں چند جملے آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک تو اساتذہ سے متعلق  ہے، دوسرے کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہے اور تیسری بات انتخابات کے تعلق سے کہنی ہے جو ہمارا آج کل کا اہم موضوع ہے، میں ان شاء اللہ اس کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔

سب سے پہلے استاد کے بارے میں؛ استاد کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ ملک کے سارے ہی تعلیم یافتہ افراد اساتذہ کی صنف کے احسان مند ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ کو جو بھی فرزانہ، صاحب علم، اعلی تعلیم یافتہ اور آگاہ انسان نظر آتا ہے وہ استاد کا ممنون کرم ہے۔ اساتذہ کی صنف کا یہ مقام و مرتبہ ہے۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی طاقت، توانائی، اعتبار اور وقار، ہر چیز سے بڑھ کر، وہاں کی افرادی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے نا؟ اسے سب مانتے ہیں۔ افرادی قوت کون تیار کرتا ہے؟ افرادی قوت کو کون آمادہ کرتا ہے؟ کون اس قوت کو عملی شکل عطا کرتا ہے؟ استاد! یہ چیزیں استاد کی قدر و قیمت کی بنیادی علامتیں ہیں۔

ہم یہ بات کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ سب سے پہلے خود اساتذہ کی صنف اپنے اس مقام و مرتبے اور اپنے اس پیشے کی قدر و قیمت کو سمجھے، یہ بہت ضروری ہے۔ وزیر محترم نے بہت اچھی بات کہی۔ میں واقعی اس سے محظوظ ہوا کہ تدریس صرف کسی ادارے کی ملازمت نہیں ہے، بلکہ تدریس ایک مرتبہ و مقام  اور ایک وقار ہے، یہ بات سب سے پہلے خود استاد کو سمجھنا چاہئے۔ ہم کسی بھی شعبے میں اگر اپنے وقار کو محسوس کر رہے ہیں تو کبھی بھی تساہلی اور پستی سے خود کو آلودہ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ پہلی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معاشرہ بھی استاد کی قدر کرے، اس کا احترام کرے، اس کے بعد عہدیداران کو چاہئے کہ وہ استاد کی اس اہمیت کا ادراک کریں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ تعلیم و تربیت اور استاد پر آنے والے اخراجات یہ سب سرمایہ کاری ہے۔ استاد پر سرمایہ خرچ کیا جانا چاہئے۔ یہ ملک کے عہدیداران اور حکومت کا فریضہ ہے، یہ ہمارا فرض ہے۔

 استاد کے اس عظیم مقام و مرتبے کے ذکر کے ساتھ ہی ایک نکتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اساتذہ خود کو اس عظیم ذمہ داری کے لئے آمادہ کریں۔ استاد کیسے خود کو آمادہ کر سکتا ہے؟ ان وسائل کی مدد سے جو ملکی ادارہ اس کے اختیار میں دیتا ہے۔ میں یہاں تاکید کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ 'دانشگاہ فرھنگیان' (ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی) پر عہدیداران خود توجہ دیں، یہ یونیورسٹی جو استاد پیدا کرتی ہے خاص توجہ کی متقاضی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس پر سرمایہ کاری کی جائے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس یونیورسٹی کی اہمیت دیگر یونیورسٹیوں سے زیادہ ہے۔

ہر استاد ایک تربیت کنندہ یا معلم اخلاق بھی ہوتا ہے۔ ریاضیات کا استاد ہو، فزیکس کا استاد ہو یا طبیعیات کا استاد، وہ ساتھ ہی ساتھ معلم اخلاق بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی استاد اپنی کلاس میں، مثال کے طور پر وہ ارتھمیٹک کا استاد ہے یا کیمسٹری کا استاد ہے، اگر کبھی خداشناسی کے تعلق سے یا روحانیت کے  تعلق سے کوئی بات کہتا ہے تو بسا اوقات وہی ایک جملہ ایک کتاب سے زیادہ تاثیر پیدا کرتا ہے اور شاگرد کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ استاد اپنے اخلاقیات سے، اپنے برتاؤ سے، طالب علم کے لئے تربیت کنندہ اور معلم اخلاق بن جاتا ہے۔ بلند حوصلہ استاد، متحمل مزاج استاد، دیندار استاد، متین و با وقار استاد اپنے طرز سلوک سے، اپنے یہ خصائص طالب علم کے اندر منتقل کرتا ہے، خواہ وہ اس بارے میں ایک جملہ بھی زبان سے بیان نہ کرے، یہ استاد کا رول ہے۔ بنابریں استاد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں برسوں سے ان لوگوں پر اعتراض کرتا آ رہا ہوں جو اساتذہ کو سیاسی میدان میں حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، یہ ناانصافی ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، یہ سنہ اسی کے عشرے کی بات ہے ، جب اس قسم کے کچھ کام کئے جا رہے تھے۔ یہ استاد کی شان و منزلت ہے، اس ہیرے کو حربہ اور کھلونا نہیں بنایا جانا چاہئے۔ استاد کا ایک خاص مرتبہ و مقام ہوتا ہے۔

البتہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ مستقبل قریب میں ہی کافی تعداد میں اساتذہ ریٹائرڈ ہو جائیں گے، میں یہاں تعداد کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، بہرحال اساتذہ کی ضرورت پڑے گی۔ یہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی مستقبل قریب کی ضرورتیں ہیں۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ فرض کیجئے کہ 'دانشگاہ فرھنگیان' اور شہید رجائی یونیورسٹی اساتذہ کی اس  تعداد میں پیدا ہونے والی ضرورت کی تکمیل نہیں کر پاتی تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیا ہم راستہ کھول دیں اور یونہی تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے افراد کو بھرتی کرتے چلے جائیں؟ نہیں، اس پر غور کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹیوں کی گنجائش میں جہاں تک ممکن ہو اضافہ کیا جائے۔ یہ پہلی ترجیح ہے۔ اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو ضوابط وضع کرنا چاہئے، کلیدی مراکز بیٹھ کر مشاورت کریں، ضوابط طے کریں استاد کی تقرری کے لئے۔ تو یہ ہیں وہ چند باتیں جو مجھے اساتذہ کے تعلق سے عرض کرنا تھیں۔

اب اگر تعلیم و تربیت کے شعبے کی بات کی جائے تو یہ شعبہ ملک میں علم و تحقیق کا انفراسٹرکچر ہے۔ ملک کا انفراسٹرکچر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ملک میں انجینیئرنگ کا انفراسٹرکچر، علمی انفراسٹرکچر، ادبی و ثقافتی انفراسٹرکچر، یہ سب بہت اہمیت کی حامل چیزیں ہیں۔ جب کسی بھی ملک میں کسی بھی شعبے کا انفراسٹرکچر تیار ہو جاتا ہے تو اس شعبے میں پیداوار کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ سائنس اور ریسرچ کا انفراسٹرکچر ہے تعلیم و تربیت۔ اگر تعلیم و تربیت کا شعبہ اپنے طرز عمل سے، اپنی منصوبہ بندی سے بالکل صحیح پیش قدمی انجام دے تو یہ انفراسٹرکچر روز بروز زیادہ مستحکم ہوگا۔ سائنس اور ریسرچ کے میدان میں جو ہماری اصلی و بنیادی دراز مدتی، کوتاہ مدتی اور میانہ مدتی ضرورتیں وہ پوری ہوں گی اور ملک بے نیازی کی جانب بڑھے گا۔ تعلیم و تربیت کی یہ اہمیت ہے۔ اگر ہم تعلیم و تربیت کے شعبے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں، باریک بینی سے توجہ نہ دیں تو تعلیم و تربیت کے شعبے میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچے کا اور پھر اس نقصان کا تدارک ممکن نہیں ہوگا۔

قم میں ہماری طالب علمی کے زمانے میں ایک بڑا فہیم و دانا خیاط ہوا کرتا تھا جو طلبہ کے لباس سیتا تھا، قبا سیتا تھا۔ اس زمانے کے قم کے ایک معروف عالم دین کے لئے اس خیاط نے قبا تیار کی۔ عالم دین نے غالبا اس قبا میں کوئی خامی نکالی، جس پر درزی نے جواب میں کہا؛ «جناب! اِذا فسد الخیّاط، فَسَدَ القَبا؛ امّا اِذا فَسَدَ العالِم، فَسَدَ العالَم» (3) اگر میں اپنے کام میں کوئی کوتاہی کرتا ہوں تو نتیجے میں آپ کی قبا میں ممکن ہے کہ کوئی خرابی ہو جائے لیکن اگر خدانخواستہ آپ کے اندر کوئی خامی پیدا ہو گئی تب تو «فَسَدَ العالَم» ساری دنیا خراب ہو جائے گی۔ اسی طرح آپ دیکھئے کہ خدا نخواستہ اگر تعلیم و تربیت کے شعبے میں خرابی آ گئی تو ملک میں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟!

تعلیم و تربیت کے شعبے کے دوش پر پوری نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے، میانہ مدتی نگاہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مستقبل کے لئے یہ شعبہ ایک نسل کی تربیت کرنے جا رہا ہے۔ کس طرح کی تربیت کرے گا؟ کیا سکھائے گا؟ تعلیم و تربیت کے شعبے کو ایسی تربیت کرنا چاہئے کہ وہ نسل زیور ایمان سے آراستہ ہو، ایمان بنیادی چیز ہے۔ ایسے بچے جو لا ابالی ہیں اور بے راہروی کا شکار ہیں، جو کسی بھی چیز کے پابند نہیں ہیں، وہ مستقبل میں نہ تو خود اپنی ذات کے لئے مفید واقع ہوں گے اور نہ ملک کے لئے مفید ہوں گے اور نہ ہی سماج کو ان سے کوئی فیض پہنچے گا۔ اولیں شرط ہے ایمان۔ صاحب ایمان، وفادار اور فرض شناس نسل، خود اعتمادی کے جذبے اور خلاقانہ توانائیوں سے سرشار نسل، راستگو، شجاع اور با حیا نسل، صاحب فکر، صاحب تدبر اور عقلی تقاضوں کے مطابق کام کرنے والی نسل، ملک سے پیار کرنے والی، نظام سے محبت کرنے والی، عوام سے قلبی وابستگی رکھنے والی قوم اور اپنے وطن کو چاہنے والی نسل ہی اپنے ملک کے مفادات، اپنے ذاتی مفادات کی پاسباں بن سکتی ہے، ان کا دفاع کر سکتی ہے۔ ایسی نسل تیار کی جانی چاہئے۔ محکم، قوی، پرعزم اور پختہ قوت ارادی کی مالک، اختراعی صلاحیتیں رکھنے والی، مسلسل آگے بڑھنے والی، محنتی نسل کی ضرورت ہے۔ یہ کام تعلیم و تربیت کے شعبے کو انجام دینا ہے۔ اس طرح آپ دیکھئے تو یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔ میں تدریس کے پیشے کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں کہہ رہا ہوں تعلیم و تربیت! حالانکہ وسیلہ تو استاد ہی ہوتا ہے، مگر صرف استاد ایسی نسل  تیار نہیں کر سکتا۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کی جانب سے استاد کو سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے، طالب علم کو سازگار ماحول ملتا ہے، سرپرستوں کے لئے، منصوبہ سازوں کے لئے، نصاب کی کتابوں کے مصنفین کے لئے سازگار ماحول فراہم کرایا جاتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اپنا اثر رکھتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کو یہ سارے کام انجام دینا ہیں۔

آپ اس پر توجہ رکھئے! جو رپورٹیں مجھے ملتی ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اندر ایک فکری رجحان یہ کوشش کر رہا ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کو نظروں سے گرا دے، تعلیم و تربیت کے شعبے کی قدر و قیمت اور اس شعبے سے اعتماد ختم کر دے، خاص مقاصد کے تحت یہ کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ فکری رجحان بیرون ملک سے ہدایات حاصل کرتا ہے۔ بعض لوگ ہیں جو برا مان جاتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کہتے ہیں بیرونی ہاتھ! وہ فورا ناراض ہو جاتے ہیں کہ آپ تو ہمیشہ غیر ملکیوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ جی نہیں! ہم تو اپنی خامیوں کو دیکھتے ہیں۔ اگر ہم مستحکم ہوں تو غیر ملکی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لیکن وہ ہماری انھیں کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، سازشیں رچتے ہیں، دراندازی کی کوشش کرتے ہیں، سیدھے راستوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں۔

ہمارے تعلیم و تربیت کے ادارے کی ایک اہم خامی یونیورسٹیوں پر ارتکاز ہے۔ ہمارے تعلیمی شعبے میں تمام امور یونیورسٹیوں کے ارد گرد مرکوز نظر آتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی پڑھنا چاہتا ہے اور یونیورسٹی نہ جائے تو گویا اس نے تعلیم ہی نہیں حاصل کی ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت بڑے پیمانے پر فوری ضرورتیں ہیں جن کے لئے یونیورسٹی کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹریٹ اور پوسٹ گریجوئیشن کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کئی سال سے 'ہنرستان' (Vocational school) اور 'اسکلڈ مین پاور' پر تاکید کر رہا ہوں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ 'ٹیکنیکل اور اسکلڈ مین پاور' سے متعلق شعبے کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے، ان میں توسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جنھوں نے ہنرستان سے متعلق تعلیم کے میدان میں کام کیا ہے، کافی کچھ سیکھا ہے، انھیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے، یہ لوگ روزگار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے اور اس وقت اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فکری و ذہنی اعتبار سے آسودہ ہیں اور سماج کی حدمت بھی کر رہے ہیں۔ یہ بہتر ہے یا یہ کہ لاکھ جتن کرکے یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی ہے اور اب بیکار بیٹھے ہوئے ہیں، کام نہیں مل رہا ہے۔ اگر کام مل رہا ہے تو کسی یونیورسٹی یا ادارے میں معمولی سا کام مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر مشیر وغیرہ کی حیثیت سے کوئی کام مل گیا ہے۔ اتنی محنت کرنے اور اس جفاکشی سے تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ یونیورسٹی پر مرکوز ہوکر رہ جانا ٹھیک نہیں ہے۔

بے شک ہمیں علم کی ضرورت ہے، تحقیق کی ضرورت ہے، علم کے میدان میں جتنا بھی آگے جائیں کم ہے۔ یہ تو میں برسوں سے کہتا آ رہا ہوں اور بحمد اللہ پیشرفت بھی ہوئی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی اسکول اور ہائی اسکول تک پہنچے اس کی اگلی منزل لازمی طور پر یونیورسٹی ہی ہو۔ نہیں، ہزاروں کام ہیں جن کے لئے یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت زیادہ اخراجات بھی نہیں ہوتے، یونیورسٹی والا جوش و خروش اور اعلی استعداد بھی ضروری نہیں ہوتی۔ ہمیں ان چیزوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، یہ ہماری ثروت ہے، ہمارا سرمایہ ہے۔ جو شخص ووکیشنل شعبے میں آگے جا سکتا ہے، آرٹ، صنعت اور ٹیکنیکل میدانوں میں کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے وہ بھی قومی سرمایہ ہے، اس ملک کا سرمایہ ہے، اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔

ایک اور اہم مسئلہ اصلاحات کی دستاویز کا ہے۔ تجربہ کار عہدیداران اور احباب نے بیٹھ کر، محنت کرکے اس دستاویز کو تیار کیا، یہ بہت اچھا کام ہوا اور نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گيا۔ اس پر عملدرآمد کی تیاری بھی ہو گئی لیکن پانچ چھے سال گزر گئے اور اب تک عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ کیوں؟ کب تک انتظار کرنا پڑے گا کہ یہ کوڈ آف کنڈکٹ تیار ہو جو دستاویز کے اجرا کے لئے لازمی ہے؟ یہ کام جلد انجام دے دیا جانا چاہئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لازمی اشتیاق اور جذبہ نہیں ہے، عزم نہیں ہے۔ میں وزیر محترم سے اور عہدیداران سے بالکل سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس مسئلے پر محنت سے کام کریں۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے شعبے میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کی دستاویز اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصلاح کا مطلب صرف ظاہری طور پر چیزوں کو تبدیل کر دینا نہیں ہے۔ عمیق اصلاحات ہونی چاہئے۔ اس شعبے کے ماہرین، کہہ رہے ہیں، میں تو اس شعبے کا ماہر نہیں ہوں، کہ اصلاحات کی یہ دستاویز یہ کام انجام دے سکتی ہے۔ تو اس پر عمل ہونا چاہئے۔

میں یہیں پر ایک اور بات بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ اقوام متحدہ اور یونسکو کا 2030 ایجنڈا؛ سسٹینیبل ڈیولپمنٹ گولز (SDGs) اور اس طرح کی دوسری باتیں (4) یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈال سکیں اور جھکا سکیں۔ یہ کیا تک ہے کہ ایک نام نہاد بین الاقوامی گروپ جو یقینی طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں کے دباؤ میں کام کرتا ہے، اپنے کو اس بات کا حقدار سمجھے کہ مختلف ملکوں کے لئے، مختلف قوموں کے لئے جن کے الگ الگ تمدن، الگ الگ تاریخ اور ثفافت ہے، فرائض کا تعین کرے کہ آپ کو اس طرح عمل کرنا ہے؟! یہ طریقہ ہی غلط ہے۔ اگر آپ خود اس عمل کی مخالفت نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ کیجئے کہ اپنی جگہ پر ڈٹ جائیے اور کہئے کہ اسلامی جمہوریہ کی اپنی خاص روش ہے، خاص سمت ہے، ہمارے پاس اعلی سطحی دستاویزات موجود ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں، اخلاقیات کے میدان میں اور طرز زندگی کے میدان میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیں اس دستاویز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔  ہم جائیں اور کسی دستاویز پر دستخط کر آئیں اور پھر چپکے سے اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیں! یہ ہرگز درست نہیں ہے۔ ہم نے متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا ہے۔ مجھے سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب سے بھی شکوہ ہے، اسے توجہ دینا چاہئے تھی، اس قضیئے کو اس حد تک آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی تاکہ ہمیں آگے بڑھ کر اس کا سد باب کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی، ہمیں اس قضیئے میں دخل نہ دینا پڑتا۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں معیار اور بنیاد اسلام ہے، اساس و ستون قرآن ہے، یہ ایسا ملک نہیں ہے جہاں مغرب کا معیوب اور تباہ کن طرز زندگی نافذ ہو۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، مختلف راستوں سے دراندازی کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس طرح رسمی طور پر ہمیں دستاویز دیں کہ آپ آئندہ پندرہ سال کے اندر اس طرح سے عمل کیجئے! تو ہمارا جواب ہوگا کہ یہ سب عبث اور بے معنی ہے۔

بات ذرا طولانی ہو گئی۔ تعلیم تربیت کے شعبے سے وابستہ آپ حضرات سے مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں نے جو کچھ عرض کیا اس سے دس گنا زیادہ باتیں عرض کرنا باقی رہ گیا ہے لیکن وقت نہیں ہے کہ ان ساری باتوں کو بیان کیا جائے۔ بات لمبی ہو گئی ہے لیکن چند جملے انتخابات کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا۔

عزیز بھائیو اور بہنو اور تمام ملت ایران! آپ یاد رکھئے کہ انتخابات بہت حیاتی مسئلہ ہے، صرف اس دفعہ کے انتخابات نہیں بلکہ سارے ہی انتخابات جو ملک میں منعقد ہوتے ہیں، خاص طور پر صدارتی انتخابات تو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، تمام ادوار میں واقعی ملک کے لئے یہ بڑا حیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ انتخابات بذات خود بھی انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، یہ بڑا اہم عمل ہے، ظاہر ہے یہ اسلامی جمہوری نظام ہے، جمہوریت ہے، ہمارے عہدیداران اور حکام، عوام کے اندر سے نکلے ہیں، عوام میں سے ہیں، اس صورت حال کی ہمیں پوری توجہ سے حفاظت کرنا چاہئے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اگر اسلامی جمہوری نظام میں انتخابات نہ ہوتے تو آج یہ نظام بھی نہ ہوتا جو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں تشکیل پایا تھا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ مفہوم خود اسلام سے ماخوذ ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جمہوری لفط کو لے لیا ہو اور اسے اسلام سے جوڑ دیا ہو۔ نہیں، خود اسلام سے ہمیں اس کی تعلیم ملتی ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ اس سے الگ ہٹ کر بھی ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے، ملک کی حفاظت اور قومی مفادات کی حفاظت کے لئے جو چیز بہت ضروری ہے عوامی شرکت اور عوامی موجودگی ہے۔ عوام کی شراکت گرہیں کھولتی ہے، عوامی شراکت دشمن  کو اسلامی جمہوریہ سے خوفزدہ کر دیتی ہے، یہ حقیقت ہے، اسے آپ بخوبی ذہن نشین کر لیجئے!

دشمنوں پر اسلامی جمہوریہ کی ہیبت طاری ہے، اس ہیبت کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس حقیر سے یا ایسے کچھ افراد سے ہے؟ ہرگز نہیں، یہ ہیبت عوام کی وجہ سے ہے، عوام کی اس عظیم شراکت کی وجہ سے ہے، ان احساسات و جذبات کی وجہ سے ہے جو تمام میداوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ میں یہ بات صریحی طور پر کہہ رہا ہوں، پوری صراحت کے ساتھ بیان کی گئی اس بات کی کوئی الگ تاویل نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ نہیں، اس سے مراد فلاں شخص ہے، یعنی مثلا عوام کی اس شراکت کے نتیجے میں ایک حکومت تشکیل پاتی ہے اور اسی حکومت کی وجہ سے دشمن پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ جی نہیں جناب! حکومتوں کا اس میں کوئي اثر نہیں ہے۔ کیا آپ بھول گئے کہ نوے کے عشرے میں ایک یورپی حکومت نے ہمارے صدر جمہوریہ پر الزام لگا دیا  تھا اور اپنے ملک کی عدالت میں طلب کیا تھا؟ (5)، ایران کے صدر جمہوریہ کو! حالانکہ اس یورپی حکومت کے ساتھ اس صدر کے بڑے قریبی روابط تھے، آپس میں ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے تھے، مکتوب ارسال کرتے تھے، شاید کبھی کبھی ٹیلی فونی گفتگو بھی ہو جایا کرتی تھی، البتہ ٹیلی فونی گفتگو کی بات مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، مگر مراسلات کا سلسلہ تھا، وہ یورپی حکومت دوستی کا دم بھی بھرتی تھی اور اسی حکومت نے ہمارے صدر کو دوستی، محبت اور لگاؤ کے اظہار کے باوجود اپنے ملک کی عدالتوں میں ملزم کو طور پر پیش کرنے کے لئے کہہ دیا! ہم نے ایسا زناٹے دار تھپڑ رسید کیا کہ اس حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا، اگر اس طرح طمانچہ نہ رسید کیا گيا ہوتا تو وہ سر پر سوار رہتے۔ دشمن تو دشمن ہوتا ہے، اس سلسلے میں حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر دشمن معاندانہ اقدام کرنے اور ڈنک مارنے کا موقع پا جائے تو وہ ضرور ایسا کرتا ہے، کسی کا خیال نہیں کرتا۔ لفاظی، بیان بازی اور سیاسی موقف وغیرہ کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھتا، ظاہر ہے وہ دشمن ہے! اسے معاندانہ کارروائی سے جو چیز باز رکھتی ہے وہ عوام کی شراکت و تعاون کا خوف ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر اس نے معاندانہ کارروائی کی تو بالکل برعکس نتیجہ نکلے گا، آٹھ کروڑ کی آبادی والا ایک ملک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا، یہ کوئی معمولی بات ہے؟! ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی، ہمارا با عظمت ملک، بیدار، با شعور عوام، مستحکم افرادی قوت، نوجوانوں کی کثیر تعداد ان چیزوں سے دشمن پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے، اسلامی جمہوری نظام کی عظمت بڑھتی ہے۔ اس پر آپ توجہ رکھئے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ احساس، یہ عظمت، یہ تحفظ اسی طرح قائم رہے تو آپ سب انتخابات میں شرکت کیجئے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام دنیا والوں کی نگاہوں میں خواہ و دوست ممالک ہوں یا دشمن ممالک ہوں، اپنی ہیبت و عظمت کو قائم رکھے تو انتخابات میں شرکت کیجئے۔ انتخابات میں عوام کی شرکت ملک کے اقتدار کی حفاظت ہے، ملکی وقار کی حفاظت ہے، ملکی تحفظ کی نگہبانی ہے۔ لہذا اگر انتخابات کے تعلق سے کوئی کوتاہی ہوئی، کچھ عناصر نے عوام کا جوش و جذبہ کم کرنے کی کوشش کی، مایوس کرنے کی کوشش کی اور نتیجے میں انتخابات میں کوتاہی ہوئی تو ملک کو نقصان پہنچے گا، دھچکا لگے گا اور جو بھی نقصان پہنچانے کے اس عمل میں شامل ہوگا، اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ انتخابات میں سب شرکت کریں۔ البتہ پسند الگ الگ ہو سکتی ہے، نظریات مختلف ہو سکتے ہیں، سیاسی رجحان میں فرق ہو سکتا ہے، آپ کسی امیدوار کو پسند کرتے ہیں اور دوسرا کسی اور امیدوار کو پسند کرتا ہے، آپ کسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں دوسرا کسی اور کو دیتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سب شرکت کریں، سب موجود رہیں، سب مل کر یہ پیغام دیں کہ وہ اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہیں اور ملکی سلامتی کے نگہبان ہیں۔ آپ یاد رکھئے کہ اگر ہمارے عوام کے اندر یہ جذبہ و عزم بفضل پروردگار اسی شدت کے ساتھ قائم رہتا ہے تو دشمن ہمارے وطن عزیز کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

پالنے والے! ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سنا اسے تو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ پالنے والے! شہیدوں کی پاکیزہ روحوں کو، ہمارے عظیم قائد امام خمینی کی روح کو اور اسلام کی عظیم ہستیوں کی پاکیزہ روحوں کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھ۔

و السّلام علیکم و رحمة الله

۱) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر تعلیم و تربیت فخر الدین احمدی دانش آشتیانی نے رپورٹ پیش کی۔

۲) اقبال الاعمال، جلد ۲، صفحہ ۶۸۷ (مناجات شعبانیّه)

3) حاضرین کی ہنسی

4) 2030 سے موسوم یہ دستاویز 2015 میں ملکوں کے تمام تعلیمی شعبوں پر اثر انداز ہونے کی غرض سے ملکوں کے علمی اقدامات کے لئے اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ملکوں میں اسلامی جمہوریہ ایران بھی تھا جس نے اس دستاویز پر عمل آوری کا وعدہ کیا، حکومت نے 2016 میں 'اسلامی جمہوریہ ایران قومی تعلیمی دستاویز 2030' کو منظوری دے دی۔

5) مارچ 1997 میں برلن میں میکنس کورٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سمیت چند افراد کو ملزم قرار دیا تھا۔