بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدییّن سیّما بقیّة ‌الله فی الارضین.

بڑی شیریں اور دلنشیں نشست ہے اس اعتبار سے کہ یہ نشست شہادت کی خوشبو سے معمور ہے۔ بے شک تمام شہدا کے اہل خانہ یہاں نہیں ہیں، لیکن ہمارے عزیز شہیدوں، خواہ وہ حرم اہل بیت کے شہید محافظ ہوں، سرحدی حفاظتی فورس کے شہید اہلکار ہوں، بری فوج کے شہید اہلکار ہوں، پاسداران انقلاب فورس کے شہید اہلکار ہوں، پولیس فورس کے شہید اہلکار ہوں یا دیگر شہدا ہوں، ان کے اہل خانہ کا یہاں اجتماع ہے اور یہ حسینیہ شہیدوں کی خوشبو سے معطر ہو گیا ہے۔

شہادت ایک عجیب مفہوم ہے، ایک عجیب نظریہ ہے، بہت عمیق نظریہ ہے۔ شہادت یعنی اللہ سے لین دین، اللہ تعالی سے اطمینان قلب کے ساتھ انجام دیا جانے والا دو طرفہ لین دین۔ فروخت ہونے والا مال بھی واضح ہے اور اس مال کی قیمت بھی واضح ہے۔ فروخت ہونے والا مال ہے 'جان'۔ جان یعنی اس مادی دنیا میں ہر انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ۔ یہ ہے مال۔ اسے آپ دیتے ہیں تو اس کے عوض آپ کو کیا ملتا ہے؟ اس کے عوض آپ کو ابدی سعادت اور اللہ تعالی کی اعلی ترین نعمتوں کے سائے میں ابدی زندگی ملتی ہے۔ شہادت میں آپ جو چیز دے رہے ہیں وہ ابدی چیز نہیں ہے۔ یہ مال تو اس برف کی طرح ہے کہ برف بیچنے والا گرمی کے موسم میں آیا، برف رکھ دی اور آواز لگانے لگا؛ صاحبان! میرا مال خرید لیجئے۔ اگر آپ نے نہ خریدا تو میری پونجی ضائع ہو جائے گی۔ یہی تو حالت ہے! آجکل کے زمانے میں تو گھروں میں برف موجود ہوتی ہے، پرانے زمانے میں برف بازار سے خریدی جاتی تھی۔ برف فروش برف کے ٹکڑوں کو بوری وغیرہ کے اندر لپیٹ کر رکھتا تھا کہ پگھل نہ جائے اور لوگ آکر خرید لیں۔ اگر وہ برف کوئی نہ خریدتا تو کیا ہوتا تھا؟ اگر کوئی خریدار نہیں ملتا تھا جو برف خریدے تو کیا ہوتا تھا؟ برف پانی بن کر بہہ جاتی تھی، ضائع ہو جاتی تھی۔ اب اگر کوئی خریدار آکر آپ کا یہ مال خرید لیتا ہے تو واقعی وہ بڑا اہم خریدار ہے۔ یہ 'جان' جو ہمارے اور آپ کے پاس ہے، اسی برف کی مانند ہے۔ یہ رفتہ رفتہ ختم ہوتی جاتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم اس نقطہ اختتام سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ یعنی قبر سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ یہ پونجی روز بروز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سرمایہ کب تک چلے گا؟ بعض لوگوں کا نقطہ اختتام چالیس سال کی عمر میں ہے، بعض کا پچاس سال کی عمر میں ہے، بعض کا اسی سال کی عمر میں ہے، لیکن آخرکار ختم ہونا ہی ہے۔ اس میں دیر سویر تو ہو سکتی ہے لیکن ختم ہو جانا طے ہے۔ سرمایہ لگاتار ختم ہو رہا ہے۔ آپ اپنا یہ مال فروخت کریں یا نہ کریں یہ ہہر حال میں ختم ہو جائے گا۔ آپ کو ایک خریدار مل گیا ہے جو کہہ رہا ہے کہ میں یہ مال تم سے خرید لوں گا وہ بھی بہت اونچی قیمت پر۔ وہ اونچی قیمت کیا ہے؟ جنت۔ ہمارے اس خوش الحان قاری (2) نے جس آیت کی تلاوت کی: اِنَّ اللهَ اشتَرىٰ‌ ‌مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّة؛(3) آپ کا یہ مال بہشت کی قیمت پر خریدا جا رہا ہے۔ یُقاتِلُونَ فی‌ سَبیلِ اللهِ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون (4) یعنی جب آپ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ آپ جاکر اپنی زندگی طبق میں سجاکر دشمن کے سامنے پیش کر دیں کہ لو مجھے قتل کر دو۔ نہیں جناب! آپ بھی دشمن پر وار کیجئے۔ ہمارے سرحدی حفاظتی گارڈ جو سرحدوں پر شہید ہوتے ہیں، شہید ہونے سے پہلے دشمن پر کافی وار کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ دشمن کی دراندازی کا راستہ روکتے ہیں، دشمن کی سا‌زشوں کو ناکام بناتے ہیں، دشمن کے فتنہ و فساد کا سد باب کرتے ہیں۔ ہمارا یہ جوان جو حرم (اہل بیت علیہم السلام) کی  حفاظت کے لئے دوسرے ملک میں جاکر داعش کے مد مقابل ڈٹ گیا اور شہید ہوا، اس نے شہید ہونے سے پہلے دشمن پر ضرب لگائی ہے، اس نے دشمن کا راستہ روکا ہے، دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا ہے، اس کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔ اب ممکن ہے کہ اسی دوران وہ شہید کر دیا جائے۔ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلُون؛ قتل بھی کرتے ہیں اور خود بھی قتل کر دئے جاتے ہیں۔  وَعدًا عَلَیه‌؛ یہ وعدہ خداوندی ہے۔ اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ آپ سے وہ آپ کا مال بہشت کی قیمت پر خریدے گا۔ بہشت یعنی ابدی خوش بختی۔ ایسی خوش بختی جو اس برف کی طرح نہیں ہے کہ لمحہ بہ لمحہ پگھلتی جائے۔ نہیں، اسے بقائے دائمی ہے، وہ ہمیشہ رہنے والی ہے، اس کی لذت دائمی ہے، یہ لازوال نعمت ہے۔ یہ اجر و صلہ دیکر آپ کی وہ جان خریدی جا رہی ہے جو چلی جانے والی ہے۔ یہ وعدہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ بر حق وعدہ ہے جو اللہ نے آپ سے کیا ہے۔ ویسے یہ صرف آپ کے دین سے مختص نہیں ہے۔ اللہ نے یہ وعدہ سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی کیا ہے۔ وَعداً عَلَیهِ حَقًّا فِی التَّوراةِ وَ الاِنجیلِ وَ القُرءان (5) یہ ہے شہادت۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ وَ مَن اَوفىٰ‌ بِعَهدِهِ مِنَ الله (6) کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو وفا کرنے والا ہو؟ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ تو شہادت اس قسم کا مفہوم ہے۔ اس کے ظاہر کو اگر آپ دیکھیں گے تو اس کا ظاہر دردناک ہے، تلخ ہے؛ باپ، ماں، بیوی، بچہ، بھائی، بہن سب سوگ میں ڈوب جاتے ہیں، غم طاری ہو جاتا ہے۔ یہ ظاہری شکل ہے، لیکن اس کا باطن کیا ہے؟ اس کا باطن یہ ہے کہ ضائع ہو جانے والا، خراب ہو جانے والا اور ایسا مال جسے بچا کر رکھا نہیں جا سکتا، اس کو غیر معمولی قیمت پر فروخت کر دیا گيا ہے۔ میں قدیم زمانے سے ہی دوستوں کے ساتھ گفتگو میں اور تقاریر کے دوران یہ کہتا رہا ہوں کہ شہادت ایک طرح کا سودا ہے۔ یعنی اس میں ایک طرح کی ذہانت ہے۔ جو لوگ شہید ہوتے ہیں اللہ ان پر سب سے زیادہ اور بہترین لطف کرتا ہے۔ یہ ہے شہادت کا درجہ۔

آپ شہدا کے اہل خانہ ہیں۔ بے شک آپ رنج و الم برداشت کر رہے ہیں۔ آپ کا بیٹا، آپ کا بھائی، آپ کے والد، آپ کا شوہر آپ سے جدا ہو گیا ہے۔ آپ ان سے محبت کرتے ہیں، انھیں چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ سوگوار ہوں گے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ لیکن جب آپ اس زاویہ نگاہ سے دیکھیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ آپ بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ جسے معراج ملی اور جو بارگاہ خداوندی کی سمت پرواز کر گیا اس کے پاس شفاعت کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ وہ برزخ میں اور قیامت میں مدد کر سکتا ہے۔ آج بھی اسی دنیاوی زندگی میں جو لوگ بقید حیات ہیں اور شہدا سے خاص انس رکھتے ہیں، زندگی میں مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہونے پر شہدا کو وسیلہ قرار دیتے ہیں اور شہدا ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ہم شہدا کے اہل خانہ کے حالات کے بارے میں پڑھتے ہیں تو اس طرح کی مثالیں بہت نظر آتی ہیں کہ شہید کی بیوی، شہید کے والد، شہید کی ماں کسی مشکل سے دوچار ہوتی ہیں تو شہید سے توسل کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ؛ 'تمہارے تو ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، تمہارے تو بس میں ہے، تو ہماری مدد کرو!' اور شہید مدد بھی کرتے ہیں۔ برزخ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ کو بھی جانا ہے، بقاء آپ کو بھی نہیں ہے۔ ہم اور آپ سب جانے والے ہیں۔  ہمارے بھی سامنے عالم برزخ ہے، یہ مرحلہ اور یہ وادی ہمارے بھی سامنے ہے۔ ہمیں وہاں جانا ہے۔ جب وہاں جائیں گے تو بے شمار مشکلات در پیش ہوں گی۔ اب اگر وہاں انسان کو کوئی شفاعت کرنے والا مل جائے جو وہاں اس کی مدد کرے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ یہ شہید وہاں آپ کی شفاعت کرے گا۔

شہدا کے اہل خانہ کے بارے میں مجھے بہت کچھ کہنا ہے اور میں بہت کچھ بیان بھی کر چکا ہوں۔ تاہم ہنوز شہدا کے اہل خانہ کے بارے میں میرے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ شہدا کے اہل خانہ کا معاملہ بس اتنا سا نہیں ہے کہ ان کے درمیان سے ایک شخص راہ حق میں شہید ہو گیا ہے۔ ان کا صبر بھی اپنی جگہ قیمتی پہاڑ ہے۔ شہید کے والد، شہید کی والدہ، شہید کی بیوی، شہید کے بچے کا اس داغ مفارقت پر صبر کرنا بہت عظیم عمل ہے، اس کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ اُولٰئِکَ‌ عَلَیهِم‌ صَلَوٰتٌ‌ مِن رَبِّهِم وَ رَحمَة (7) آپ کو یقین آئے گا کہ اللہ تعالی آپ پر صلوات بھیجتا ہے؟ اللہ آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ آپ جو شہید کے اہل خانہ ہیں، جب اس مصیبت پر صبر و ضبط کرتے ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ پر چھوڑتے ہیں تو آپ کا یہ صبر اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خدائے عز و جل جو ملک و ملکوت کا مالک ہے، عالم وجود کا مالک ہے، وہ آپ پر صلوات بھیجے۔ یہ بڑی گراں قدر چیز ہے۔ ہمیں ان مفاہیم کو بخوبی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مفاہیم ہمارے وجود میں ایک عجیب سی قوت پیدا کر دیتے ہیں اور ہمیں بہت سے عظیم کاموں کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

دشمن ان مفاہیم و نظریات کو ہم سے چھین لینا چاہتا ہے۔ بعض بکے ہوئے قلم جو اولیائے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اغیار کا دل جیتنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں، عجیب چیزیں لکھتے ہیں، عجیب باتیں رقم کرتے ہیں بعض اخبارات و جرائد میں یا سوشل میڈیا پر، انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟! شہادت کا نظریہ، جہاد فی سبیل اللہ کا نظریہ، اس پر صبر و ضبط کے مظاہرے کا نظریہ، یہ سب بڑے عظیم مفاہیم ہیں۔ اسلامی معاشرے کی روز مرہ کی زندگی پر ان مفاہیم کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ میرے بھائی، میری بہن! انھیں چیزوں نے انقلاب کو تا حال محفوظ رکھا ہے۔ انھیں چیزوں نے اس انقلاب کی حفاظت کی ہے۔

یہ انقلاب جب آیا تو شروع ہی سے اسے بڑی سخت دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صاحب جو امریکہ میں نئے نئے آئے ہیں (8) ان کے اس چیخنے چلانے پر آپ نہ جائیے! یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو شروع سے چلا آ رہا ہے۔ البتہ ان کی زبان میں اور لہجے میں فرق رہا ہے۔ مگر روز اول سے چیخنے چلانے کا یہ سلسلہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف تھا اور اب تک جاری ہے۔ تقریبا چالیس سال ہو رہے ہیں، وہ کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اس پودے کو وہ اس وقت بھی نہیں اکھاڑ سکے جب وہ باریک سا پودا تھا۔ آج تو یہ پودا تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کیا اب اسے وہ اکھاڑ سکتے ہیں؟! ان کی کیا مجال ہے؟!!

فرماتے ہیں کہ ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کو تبدیل کر دیں! کب ایسا ہوا کہ آپ نے یہ نہیں چاہا؟! آپ کی تو ہمیشہ سے یہی خواہش رہی اور ہمیشہ آپ کو منہ کی کھانی پڑی۔ ہمیشہ آپ کی ناک زمین پر رگڑی گئی۔ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ ملت ایران کو انھوں نے پہچانا ہی نہیں ہے! ان مفاہیم نے ملت ایران کو زندہ رکھا ہے۔ یہ لوگ جو امریکہ میں نئے نئے اقتدار میں آئے ہیں، ان اوباش افراد کی مانند ہیں جو ابھی نئے نئے اوباشوں کی بھیڑ میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ نو وارد اوباش۔ نا تجربہ کار! جو کہیں بھی جاتے ہیں توچاقی کی ایک خراش ضرور لگا دیتے ہیں۔ ابھی ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کر رہے ہیں؟! یہ تب تک رہے گا جب تک ان کے منہ پر طمانچہ نہیں پڑے گا۔ جس دن طمانچہ پڑا اس دن سمجھ میں آ جائے گا کہ حالات کیا ہیں؟! اسلامی جمہوریہ کو انھوں نے پہچانا ہی نہیں ہے، ملت ایران سے وہ واقف ہی نہیں ہیں، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کی ابھی انھیں شناخت نہیں ہے۔ ملت ایران تو وہ قوم ہے جو پہلے دن سے لیکر اب تک انھیں سازشوں اور انھیں بیان بازیوں کا سامنا کرتی آئی ہے۔ وہ ملت ایران پر ضرب لگانا چاہتے تھے لیکن الٹے ملت ایران نے ان کو تھپڑ رسید کر دیا! وہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کر دیں۔ مگر ایک ایک کرکے وہ اپنی یہ حسرت دل میں لئے قبر میں پہنچ گئے۔ آپ دیکھئے کہ انقلاب کے اوائل سے وہ لوگ جو اسلامی جمہوری نظام کی نابودی کی آرزو لئے بیٹھے تھے اور آج جہنم کی تہہ میں پڑے ہیں، اس دنیا سے اسی حسرت کے ساتھ رخصت ہو گئے، وہ کتنے ہیں؟! اسلامی جمہوریہ بھرپور قوت و توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ اسے وہ سمجھ لیں، اسے سب بخوبی سمجھ لیں! دشمن بھی سمجھ لیں! مخلص دوست بھی یقین رکھیں! اسی طرح وہ احباب بھی جان لیں جن کے دل کبھی کبھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پورے استحکام کے ساتھ ثابت قدم ہے اور وہ ہم پر ضرب نہیں لگا سکتے، بلکہ ہم انھیں طمانچہ رسید کریں گے۔

یہ مادی وسائل کی وجہ سے نہیں ہے۔ مادی وسائل کا کردار بنیادی اور فیصلہ کن نہیں ہوتا۔ کچھ دوسری چیزیں ہیں جو موجود ہیں۔ وہ دوسری چیز روحانی وسائل ہیں، یہ پختہ ارادہ اور عزم راسخ ہے، وہ آپ عوام الناس کی ہر فرد کے دل کے باطنی استحکام کے راستے ہیں، نوجوانوں کی تربیت کرنے کی وہ توانائی ہے جس کے نتیجے میں آج دنیا میں صیہونیوں اور ان کے جیسے دیگر عناصر کے ذریعے برپا فتنہ و فساد کے حالات میں بھی ایران صراط مستقیم پر پوری مضبوطی اور پورے استحکام کے ساتھ اٹل ہے۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی قوت، اسلامی نظام کے اندر نوجوانوں کی اس انداز سے تربیت کرنے کا ہنر ہے، اس نے آج تربیت کی ہے اور وہ موجود ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی قوت ہے، اس قوت کا مقابلہ کوئی بھی مادی طاقت نہیں کر سکتی۔ اور اس قوت کی روح جذبہ شہادت ہے۔

البتہ ان باتوں کے ذکر کے ساتھ ہی ہمارے شہدا کی قدر و منزلت بھی سب کے لئے واضح ہونا چاہئے۔ اگر حرم اہل بیت کا دفاع کرنے والے شہدا نہ ہوتے تو آج دشمن اہل بیت اور شیعوں کے دشمن خبیث فتنہ پرور عناصر سے ہم ایران کے شہروں کے اندر جنگ کرنے پر مجبور ہوتے۔ یہ دشمن کے منصوبوں کا حصہ تھا۔ عراق میں تو وہ موجود ہی تھے، یہ عناصر ایک علاقے میں تھے اور اس کوشش میں تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحد سے متصل علاقے کی جانب بڑھیں اور خود کو ان مشرقی علاقوں میں پہنچائیں جو ایران کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ اس کوشش میں تھے کہ ان صوبوں میں پہنچ جائیں جو ہماری سرحدوں سے ملتے ہیں۔ ان کا راستہ روک دیا گیا، انھیں سبق سکھایا گیا، ان پر موت کی بارش ہوئی، انھیں اوقات یاد آ گئی، اب تو وہ پوری طرح نابود ہو رہے ہیں، ان کا مکمل صفایا ہو رہا ہے۔ شام میں بھی یہی حالات ہیں۔ جو اہم کام پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں نے انجام دئے، اگر وہ انجام نہ دئے گئے ہوتے تو ان محترم مداح (9) کے بقول ہم اپنے گرد و پیش اور انھیں اطراف میں ان عناصر سے جنگ کرنے پر مجبور ہوتے۔ اپنے شہروں میں اور اپنی سڑکوں پر ان کا مقابلہ کرتے۔ آج جو سلامتی اور تحفظ کا ماحول ہے اس میں بہت بڑا کردار حرم اہلبیت کے انھیں محافظوں کا ہے۔

سیکورٹی میں دوسرا اہم کردار ہمارے سرحدی محافطین کا ہے۔ خواہ ان کا تعلق پولیس فورس سے ہو جو سرحدوں پر تعینات ہیں، یا پاسداران انقلاب فورس کی بری فوج سے ہو، یا دیگر فورسز سے ہو جن کے اہلکار سرحدوں پر آمد و رفت رکھتے ہیں اور تعینات ہوکر سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ یہ ان کی خدمات کی برکت ہے۔ یہ بیچارے گمنام ہی رہتے ہیں۔ آپ تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں، سرحدوں کے بارے میں آپ کو کیا خبر ہے؟ آپ اپنے بچوں کو، بیٹوں بیٹیوں کو اسکول بھیجتے ہیں، بچہ جاتا ہے اور آپ بے  فکر رہتے ہیں، آپ اپنے کام پر جاتے ہیں، آپ کو کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ پارک میں جاکر بیٹھتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کی فکرمندی نہیں ہوتی، جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں تو کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے، بدامنی کی کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ آپ سلامتی و تحفظ کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کو کیا خبر کہ سیکورٹی اہلکار سرحد پر ثبات قدم کے ساتھ تعینات ہیں اور دشمن کا راستہ روکے ہوئے ہیں، اسے وطن عزیز کے اندر دراندازی کا موقع نہیں دیتے، اس اہلکار کو کن حالات سے گزرنا  پڑ رہا ہے اس کی آپ کو کیا خبر ہے؟ عوام کو ان اہلکاروں کی کوئي خبر نہیں ہے، وہ مظلوم ہیں۔ شہید ہو جانے والے سرحدی محافظین مظلوم ہیں، خواہ وہ جنوب مشرقی سرحد پر یعنی بلوچستان اور کرمان وغیرہ جیسے علاقوں میں تعینات ہوں یا شمال مغربی سرحد پر یعنی کردستان، کرمانشاہ وغیرہ کے علاقے میں تعینات ہوں یا دیگر علاقوں میں جہاں سرحدی خطے میں مشکلات ہیں۔ ان تمام علاقوں میں ہمارے سرحدی محافطین اپنے پورے وجود سے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ اگر یہ سرحدی محا‌فطین نہ ہوں تو ہماری  بعض سرحدوں سے ایک ایک ٹن کی مقدار میں منشیات ہمارے ملک میں داخل ہونے لگے، اس میں ایک کلو ڈرگ سیکڑوں نوجوانوں کو نگوں بختی میں مبتلا کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ان کا سد باب کون کرتا ہے؟ ہمارے سرحدی محافظین! یہ لوگ قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ شہید ہو جاتے ہیں، اس شہید کی بڑی قیمت ہے۔ حرم اہلبیت کے شہید محافظوں کی الگ قدر و قیمت ہے اور سرحدوں کے شہید محافظوں کی اہمیت اور قدر و قیمت اس اعتبار سے ہے۔

ملک کے اندر سیکورٹی اور انٹیلیجنس خدمات کی انجام دہی کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے شہدا ایک الگ انداز سے۔ یہ جو اپنی تیز بیں نگاہوں سے چار سو جائزہ لیتے ہیں اور تخریب پسند گروہوں کو، دہشت گرد گروہوں کو جو شکل و صورت میں بقیہ لوگوں سے مختلف نہیں ہیں البتہ ان کا دل ضرور جہنمی ہے جو دکھائی نہیں دیتا، ڈھونڈ نکالتے ہیں، ہمارا یہ سیکورٹی اہلکار اپنے ان تجربات کی مدد سے، اپنے ہوش و ذکاوت کی وجہ سے، عوام الناس کے تعاون سے، اللہ کی ہدایت کی برکت سے، انھیں تلاش کر لیتا ہے، ان کی نشاندہی کر لیتا ہے۔ پھر آپ یکبارگی سنتے ہیں کہ چالیس ٹیموں کو منہدم کر دیا گيا۔ ان میں سے ایک ٹیم درجنوں افراد کو خون میں نہلا سکتی تھی۔ یہی خدمات انجام دیتے وقت ان میں سے کوئی اہلکار کبھی شہید بھی ہو جاتا ہے۔ اس خدمت کی بڑی قیمت ہے۔

آپ تو شہدا کے اہل خانہ ہیں، آپ سوگوار ہیں، آپ کو حالات کا علم ہے، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں نشر کی جائیں گی، بیان کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ہمارے یہ شہدا اس ملک کی کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔ خدمت صرف دانہ پانی دے دینا نہیں ہے۔ آب و نان سے بڑھ کر تحفظ اور سلامتی ہے۔ یہ لوگ ملک کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ ملک کی تمام سرحدوں پر یہ ہو رہا ہے۔ خواہ وہ مجاہدین ہوں جو ملک کے باہر حرم اہلبیت کا دفاع کر رہے ہیں، خواہ وہ لوگ ہوں جو سرحدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں، یا وہ افراد جو ملک کے اندر شہروں میں، سڑکوں پر سیکورٹی سے متعلق سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ملک کی گردن پر ان کا احسان ہے۔

ہمیں شہید کی قدر کرنا چاہئے۔ برادران عزیز خواہران گرامی! جو بھی شہیدوں کا ذکر فراموش کر دینے کی کوشش کرے اس نے اس ملک کے ساتھ خیانت کی ہے۔ جو بھی یہ کوشش کرے کہ شہدا کے اہل خانہ کی توہین ہو، ان کے سلسلے میں بے اعتنائی برتی جائے یا وہ زبانی حملوں کا نشانہ بنیں، اس نے اس ملک سے خیانت کی ہے۔ کیونکہ یہ صرف اسلامی نظام کا معاملہ نہیں، یہ وطن عزیز کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ ایسے شخص نے ملک سے ‍خیانت کی ہے۔ شہدا کا احترام کیا جانا چاہئے، ان کی قدر کی جانی چاہئے، شہدا کے اہل خانہ کا احترام کیا جانا چاہئے، ان کی قدر کی جانی چاہئے، خود کو شہدا کا احسانمند سمجھنا چاہئے۔ شہیدوں کا احسانمند سمجھنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بیوی نے اپنے شوہر کے میدان جنگ میں جاکر شہید ہونے کا غم برداشت کیا ہے، ہم اس خاتون کے بھی ممنون کرم ہیں۔ ہم اس ماں یا باپ کے بھی احسانمند ہیں جنھوں نے اپنے فرزند کو میدان میں جانے کی اجازت دی۔ سب پر ان کا احسان ہے۔ یہ بات سب سن لیں۔ انھیں چیزوں نے تو ہمارے ملک میں اقدار کو زندہ رکھا ہے۔

پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کی قسم دیتے ہیں ہمارے ملک میں ہمارے شہیدوں کی یاد اور ذکر میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پالنے والے! ہمارے ملک میں شہیدوں کے وقار اور شہدا کے اہل خانہ کی توقیر میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پروردگارا! بعض لوگوں کے دلوں میں یہ جو شہادت کا نور ہے، شہادت کی فضا ہے، شہادت کا جذبہ ہے، شہادت کا اشتیاق ہے اس چراغ کو خاموش نہ ہونے دے۔ جس کسی کے بھی دل میں یہ اشتیاق اور جذبہ حقیقی معنی میں ہے، اسے اس فضیلت سے آراستہ فرما، ان پر اپنے لطف و کرم میں اضافہ فرما۔ شہدا کو پیغمبر اکرم کے ساتھ محشور فرما، شہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی پاکیزہ روح کو جنھوں نے شہادت کی اس مہم کی بنیاد رکھی، ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے قلب مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما اور ہمیں ان کی خوشنودی و رضا سے روز بروز قریب تر کر۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱)  اس ملاقات میں جو ماہ رمضان کی 23 تاریخ کو انجام پائی حرم اہلبیت اطہار کے شہید محافظین، وزارت انٹیلیجنس، بارڈر سیکورٹی فورس کے شہید مجاہدوں کے اہل خانہ نے شرکت کی۔

۲) جناب محمد حسن موحدی قمی

۳) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۱۱ کا ایک حصہ؛ «بے شک اللہ تعالی نے مومنین سے ان کی جان و مال بہشت کے عوض خرید لیا ہے۔

۴) ایضا؛ «...وہی لوگ جو راہ خدا میں جنگ کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔...»

۵) ایضا؛ «...یہ اس کے ذمے سچا وعدہ ہے توریت میں انجیل میں اور قرآن میں۔...»

۶) ایضا؛ «...کون ہے جو اللہ سے زیادہ عہد کا پابند ہو؟ ...»

۷) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۵۷کا ایک حصہ؛ «ان پر ان کے پروردگار کی جانب سے درود و رحمت ہو۔ ...»

۸) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

9) جناب حسین سازوَر