بسم ‌اللہ الرّحمن‌ الرّحیم

آج حججی کا نام پورے ملک میں ممتاز، نمایاں اور درخشاں نام بن چکا ہے۔ یہ آپ کے نوجوان کی مجاہدت اور اس کی مظلومانہ شہادت کی برکت ہے۔ بے شک ہمارے سارے ہی شہدا بہت عزیز ہیں اور سب مظلوم ہیں۔ آپ کے محسن  اور ہمارے محسن کے علاوہ دیگر شہدا بھی ہیں جو اسی انداز سے درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ یعنی دشمن نے ان کا سر بھی تن سے جدا کر دیا، ان پر بھی جیتے جی مہلک ضربیں ماریں۔ اس انداز سے قتل کئے جانے والے شہدا موجود ہیں، ان سب کے درجات بہت بلند ہیں، وہ سب اللہ تعالی کی بارگاہ میں بہت عزیز ہیں۔ تاہم بالکل اسی طرح جیسے کوئی گروہ، کوئی جماعت کسی جگہ پر موجود ہے اور ان میں سے کوئی ایک شخص ان کے نمائندے یا ترجمان کے طور پر گفتگو کرتا ہے، اسی طرح یہ محسن شہید بھی ان تمام مظلوم شہدا کے نمائندہ بن گئے، در حقیقت ان کے ترجمان بن گئے۔ اللہ تعالی نے اس شہید کو خاص عزت دی، خاص عظمت دی۔ البتہ جب اللہ کسی کو عزت عطا کرتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، اس میں کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ یعنی بلا وجہ اور بے سبب نہیں ہوتا۔ اس نوجوان میں کچھ الگ خصوصیات ضرور تھیں جن میں بعض سے ممکن ہے کہ ہم با خبر ہوں اور بہت سی خصوصیات سے آگاہ نہ ہوں۔ اس طرح کی خصوصیات کی وجہ سے اللہ تعالی اس نوجوان کو اس خاص عزت سے نواز رہا ہے۔ جب عزت مل گئی تو وہ ان تمام شہیدوں کا نمائندہ اور ترجمان بن گیا۔ یعنی ایران، افغانستان، عراق اور دیگر ممالک کے شہدا جو تکفیری شرپسندوں اور امریکہ و برطانیہ کے مہروں کے خلاف جہاد کے محاذ پر شہید ہوئے، در حقیقت وہ سب اس نوجوان کی صورت میں منعکس ہوتے ہیں، نظر آتے ہیں اور یہ نوجوان ان سب کا نمائندہ بن گیا، مظلومانہ شہادت کا نشان بن گیا، مظہر بن گيا۔ اللہ تعالی نے آپ کے بچے کو، آپ کے فرزند کو آپ کے نوجوان کو مظلومانہ و شجاعانہ شہادت کا مظہر قرار دیا۔

بحمد اللہ ملت ایران نے بھی واقعی اپنے قدرداں ہونے کا ثبوت دیا۔ خواہ تہران میں، خواہ مشہد میں، خواہ اصفہان میں خواہ نجف آباد میں اس نوجوان کی تشییع جنازہ کے لئے یہ جو جم غفیر نظر آیا اس میں بڑے معانی پوشید ہیں، یہ اجتماعات بڑے معنی خیز ہیں۔ تہران میں جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی شہید کی تشییع جنازہ میں مختلف طرح کے افراد، عورتیں، مرد، حتی ایسی وضع قطع کے افراد بھی شریک ہوئے اور اس نوجوان کی تصویریں اپنے ہاتھوں میں لئے دکھائی دئے جو بظاہر شہادت اور جہاد وغیرہ جیسے مفاہیم سے مطابقت بھی نہیں رکھتی۔ یعنی اللہ تعالی نے دلوں کو اس سمت مائل کر دیا، اللہ تعالی نے دلوں کو اس شہید کا گرویدہ بنا دیا۔ اللہ تعالی نے اس نوجوان کو جو عزت دی در حقیقت وہ عزت ملت ایران کو ملی۔ اس عمل سے جو انجام پایا ملت ایران کا وقار بڑھا۔

برسوں سے دشمن ثقافتی دریچوں کے ذریعے یہ کوشش کر رہا ہے کہ ہماری قوم کو انقلاب کی راہ سے، جہاد کے راستے سے، مجاہدت کی ڈگر سے دور کر دے۔ آپ خود بھی دیکھ رہے ہیں، جانتے ہیں۔ نجف آباد کے عوام باشعور، مردم شناس، آگاہ اور خبر شناس ہیں۔ آپ سب خطوط اور سمت و جہت کی شناخت رکھتے ہیں، آپ کو بخوبی علم ہے کہ ملک کے اندر دشمن کی جانب سے کیا اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں کہ انقلاب کو لوگوں کے ذہنوں سے دور کر دیا جائے، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو بھلا دیا جائے، انقلاب کے روشن راستے کو دیگر گوناگوں راستوں کے بیچ گم کر دیا جائے، یہ کوشش ہو رہی ہے۔ ان حملوں کی آماجگاہ کون سے افراد ہیں؟ پہلا نشانہ نوجوان ہیں۔ یعنی کوشش کی جا رہی ہے کہ نوجوانوں کو، اس نسل کو جس نے نہ انقلاب کا زمانہ دیکھا ہے، نہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو دیکھا ہے، نہ مقدس دفاع کا دور دیکھا ہے اور آج نوجوانی کی دہلیز پر ہے اسے انقلاب سے دور کر دیں، اس نسل کے ذہنوں میں غیر انقلابی اور انقلاب مخالف افکار ڈال دیں۔ اس مقصد کے تحت کام کیا جا رہا ہے، برسوں سے کوشش ہو رہی ہے۔

ان تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود انھیں نوجوانوں کے اندر ایک عظیم عمومی تحریک موجود ہے، انھیں نوجوانوں کے اندر جنھوں نے جنگ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، مقدس دفاع کا دور نہیں دیکھا ہے، نہ اس زمانے کا جوش و خروش دیکھا ہے، نہ امام (خمینی) کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کا دور دیکھا ہے، انھیں نوجوانوں کے دل اس انداز سے انقلاب کے گرویدہ ہیں کہ انسان واقعی حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ انقلابی اقدار کی جانب قلبی میلان کے اعتبار سے، تعداد اور کیفیت کے اعتبار سے آج کے نوجوان مقدس دفاع کے زمانے اور سنہ 1980 کے عشرے کے نوجوانوں سے زیادہ اور بہتر نہیں تو پیچھے اور کمتر بھی نہیں ہیں۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ اس زمانے میں سارے نوجوان محاذ جنگ پر جاتے تھے۔ نہیں، جنگ کے زمانے میں بھی کچھ لوگ محاذ جنگ پر جاتے تھے، جہاد کرتے تھے، خود کو انواع و اقسام کی مشکلات و مسائل میں ڈالتے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جو فضولیات، وقت گزاری اور گوناگوں سرگرمیوں میں لگے رہتے تھے۔ یعنی بہت سے نوجوان اس قماش کے بھی تھے۔ آٹھ سال کی جنگ میں ہمارے تمام شہیدوں کی تعداد تین لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ ہے۔ جبکہ اس زمانے میں ایران کی آبادی تقریبا چار کروڑ تھی۔ اس چار کروڑ کی آبادی میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ بیس لاکھ، تیس لاکھ، چالیس لاکھ لوگ محاذ جنگ پر گئے اور تقریبا تین لاکھ لوگ شہید ہوئے۔ یہ ایران کی چار کروڑ کی آبادی کے مد نظر کوئی بہت بڑی تعداد نہیں تھی۔ یعنی اس زمانے میں بھی ایسا نہیں تھا کہ سارے نوجوان انقلابی رہے ہوں۔ اگر آپ آج انقلابی رجحان رکھنے والے اور انقلابی ادراک رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد دیکھئے تو یہ تناسب اس زمانے کے مقابلے میں اگر زیادہ نہیں ہے تو کم بھی ہرگز نہیں ہے۔ یہ صورت حال دشمن کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہے۔ یہ حقیقت کسی طرح ثابت ہونی چاہئے تھی۔ آپ کے اس نوجوان نے اسے ثابت کرکے دکھا دیا، اسے دکھا دیا۔ یعنی اللہ تعالی نے اس نوجوان کو عظمت دی، عزت دی، نمونہ بنایا، تاکہ ثابت کرے کہ آج کی نوجوان نسل ایسی ہے۔ اس نوجوان نے نہ تو امام (خمینی) کو دیکھا تھا، نہ جنگ کا زمانہ دیکھا تھا، نہ انقلاب کا دور دیکھا تھا، لیکن کس قدر خلوص اور صدق نیت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں گامزن ہوتا ہے، محنت کرتا ہے، التجا کرتا ہے، اللہ سے دعا کرتا ہے، امام رضا سے دعا کرتا ہے، والد سے درخواست کرتا ہے کہ اسے اجازت دیں اور اس کی مدد کریں۔ یہ اللہ کی نشانی ہے، یہ آیت خداوندی ہے، یہ انقلاب کے اعجاز کا نشانی ہے، بحمد اللہ یہ معجزہ رواں دواں ہے۔

اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ میری نگاہ میں سب سے پہلے تو آپ اہل خانہ، اس کے بعد ملک کے عہدیداران اور پھر پوری ملت ایران اس نوجوان کی مجاہدت کے احسانمند اور اس نوجوان کی مثالیں ہیں۔ واقعی سب اس مجاہدت کے مرہون منت ہیں۔ اس مجاہدت نے سب کی عزت بڑھائی، اسلامی جمہوریہ کی عزت بڑھائی، ملک کا وقار بڑھایا، ایران کو عزت دی، ملت کو عزت دی۔ اغیار کی نشریات اسے بیان نہیں کریں گی، وہ عمدا نہیں چاہتیں، اعتراف نہیں کرتیں، لیکن مسائل و واقعات کا تجزیہ کرنے والے افراد دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ملک کے اندر یہ کیسا واقعہ رونما ہوا ہے۔ تہران میں اس شہید کی تشییع جنازہ کے لئے جو بھیڑ اکٹھا ہوئی اور لوگ سڑکوں پر نکلے، اس بھیڑ کا موازنہ کس اجتماع سے کیا جا سکتا ہے؟ دنیا میں کہاں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں؟! خود ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے واقعات کتنے ہوتے ہیں؟ یا مشہد میں صحن کے اندر جو جم غفیر نظر آیا، یا اصفہان کے امام اسکوائر پر جو مجمع تھا، جس کی تصویر میں نے دیکھی، یا نجف آباد میں وہ وسیع و عریض میدان لوگوں سے چھلک اٹھا۔ اللہ تعالی دلوں کو اس طرح مائل کرتا ہے اور اس سمت میں موڑتا ہے۔ یہ دل اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، یہ کار خدا ہے۔ اس نے آپ کو عزت دی، یہی آپ کے لئے تعزیت ہے۔ یہ مصیبت یقینا بہت بڑی ہے، لیکن اللہ تعالی نے اس شہید کو جو عزت دی، آپ کو جو عزت دی، اس کی برکت سے ملک کو جو عزت دی وہ آپ کے لئے، والد کے لئے، والدہ کے لئے، اہلیہ کے لئے مایہ افتخار اور باعث تسلی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کے فرزند کی برکت سے، آپ کے نوجوان کی برکت سے یا ان خاتون کے شوہر کی برکت سے ملک کو ایسی عزت عطا فرمائی۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته