بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدییّن سیّما بقیة الله فی الارضین.
خیر مقدم ہے آپ برادران عزیز اور خواہران گرامی کا، قوم کے شجاع و دلیر عوام محترم علما اور دینی رہنماؤں کا۔ انیس دی (مطابق 9 جنوری) کا دن ہر سال اس حقیر کے لئے اس خوشخبری کے ساتھ آتا ہے کہ اس دن آپ مومن، شجاع و با شرف حضرات سے یہاں ملاقات ہونی ہے۔
قم جوش و جذبے سے سرشار ہے، امید و نشاط سے سرشار ہے، خود بھی جذبہ امید سے آراستہ ہے اور امید بخش بھی ہے۔ قم پیش پیش رہنے والا شہر ہے اور اس شہر کے عوام بھی یقینی طور پر ملک میں پیش پیش رہنے والے عوام ہیں۔ انیس دی 1356 ہجری شمسی (مطابق 9 جنوری 1978 عیسوی) میں، جس وقت ہم نے دور سے قم کے واقعات کے بارے میں سنا اور ابھی ملک میں عوامی اجتماعات، عوامی اضطراب کی کوئی خبر نہیں تھی جبکہ قم نے قیام کیا، سینہ سپر ہو گیا، شہدا کی قربانی دی، اس وقت سے لیکر اب تک چالیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے اور قوم صراط مستقیم پر اپنی دائمی پیش قدمی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سال بھی آپ نے دیکھا کہ 9 دی (مطابق 30 دسمبر) کو قم کے عوام نے وہ ریلیاں نکالیں جو ملک میں ہر جگہ نکلیں، لیکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ 13 دی (مطابق 3 جنوری) کو بھی جوش و خروش سے چھلکتی وہ ریلی نکالی اور ایک عظیم کارنامہ رقم کیا۔
ہماری قوم کا دائمی پیغام یہی ہے۔ ہمارے عزیز عوام، ہمارے مختلف طبقات، ہمارے مختلف شہروں، ہمارے نوجوانوں کا پیغام ہے انقلاب، اسلامی نظام، دھونس دھمکی کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹ جانا اور بڑی طاقتوں کے دباؤ میں نہ آنا۔ ان تمام برسوں میں قوم کا یہ واضح پیغام رہا اور آج بھی جب اس واقعے کو چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو ہماری قوم اسی منطق، اسی روش اور اسی ہدف پر کاربند ہے۔ البتہ اب مزید پختگی کے ساتھ، مزید تجربے اور زیادہ مہارت کے ساتھ۔ جوش و جذبے کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو آج کے نوجوان اگر اس زمانے کے نوجوانوں سے زیادہ پرجوش نہیں تو ان کے مساوی ضرور ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ یعنی اس وقت پرخطر وادیوں میں سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جانے والے مومن و پرجوش نوجوانوں کی تعداد انقلاب سے پہلے کے دور اور انقلاب کے بعد کے ابتدائی دور کے نوجوانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ اس ملک کی مسلسل جاری روش ہے۔ میں اگر اس طرح کی باتیں کرتا ہوں تو ہمیشہ کچھ شواہد اور قرائن کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ تاہم ان ایام میں جو کچھ ہوا وہ اپنے آپ میں واضح اور روشن دلیل ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ملت ایران نے ملک کے گوشے گوشے میں، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں، 30 دسمبر سے ہی، جب کچھ افراد کی یہ پٹاخے بازی اور شیطنت شروع ہوئی تھی، پورے ملک میں اس مہم کا آغاز کر دیا۔ جب عوام نے دیکھا کہ دشمنوں کے یہ مہرے باز نہیں آ رہے ہیں تو پھر عوام نے پے در پے کئی دن تک ریلیاں نکالیں۔ تین جنوری سے قم میں، اہواز میں، ہمدان میں، کرمان شاہ میں اور چار، پانچ، چھے اور سات جنوری کو مختلف شہروں میں، بڑے شہروں میں، دوبارہ مشہد میں، شیراز میں، اصفہان میں، تبریز میں ہر جگہ ریلیاں نکالیں۔ یہ معمولی واقعات نہیں ہیں۔ اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔ میں یہ بات اطلاعات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں اس انداز کی منظم عوامی مہم جس میں یہ نظم و ترتیب، بصیرت، یہ جذبہ اور یہ جوش و خروش ہو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ چالیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک سال، دو سال یا پانچ سال کی بات نہیں ہے۔ یہ ملت کا پیکار ملت دشمن عناصر سے ہے، ایران کا پیکار ایران دشمن عناصر سے ہے، اسلام کا پیکار اسلام دشمن عناصر سے ہے۔ یہ لڑائی اب تک جاری رہی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ ملت ایران اگر پیکار، استقامت اور ثابت قدمی میں مصروف ہے تو اس کی وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبوں اور پہلوؤں سے غافل نہیں ہے۔ بلکہ آپ کے یہی نوجوان، آپ کے یہی بچے علمی و سائنسی پیشرفت کی منزلیں بھی طے کر رہے ہیں۔ آپ کے یہی اہلکار ملک کے اندر اور علاقے میں ملت ایران کے وقار کو چار چاند لگانے والے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ یعنی ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک زندہ قوم ہے، جوش و جذبے سے سرشار قوم ہے، اللہ کی راہ پر چلنے والی قوم ہے اور اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے۔
ہمارے خلاف چالیس سال کے عرصے میں دشمن نے جو بھی اقدامات کئے ہیں وہ انقلاب کے پاس جوابی حملے کے تجربات ہیں۔ انقلاب نے ملک کے اندر سیاسی اعتبار سے دشمن کی جڑیں اکھاڑ دیں۔ دشمن اب بار بار حملہ کر رہا ہے اور شکست کھا رہا ہے، اقدامات کرتا ہے لیکن کچھ حاصل نہیں کر پاتا اسی استقامت کی وجہ سے، اسی مستحکم عوامی و ملی فصیل کی وجہ سے۔ اس بار بھی یہ ملت پورے اعتماد سے امریکہ، برطانیہ اور لندن نشینوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس بار بھی آپ کچھ نہ بگاڑ سکے اور آئندہ بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ انھوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے۔ برسوں تک نیٹ ورک تیار کرتے رہے، مہرے تیار کرتے رہے کہ کسی طرح اندرونی طور پر مشکلات پیدا کر دیں۔ پہلے یہ بات وہ کہتے نہیں تھے، لیکن امریکہ کے موجودہ حکام نے کہ سیاسی امور میں جن کی ناپختگی بالکل آشکارا ہے، خود ہی چہرے سے نقاب ہٹا دی اور کہا کہ باہر سے تو ایران کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، اندر سے ہمیں کوئی گڑبڑی پیدا کرنا چاہئے۔ یعنی کئی سال سے وہ جو کام کر رہے تھے؛ نیٹ ورک بناتے تھے، مہرے تیار کرتے تھے اور اس کے اخراجات کے لئے پٹھو حکومتوں سے پیسے وصولتے تھے۔ یہاں آتے ہیں، خلیج فارس کے علاقے کی ایک مالدار حکومت کے پاس جاتے ہیں اور ان سے پیسے وصولتے ہیں تاکہ یہاں وہاں سے اپنے اخراجات پورے کر لیں۔ ایران سے فرار ہونے والے کوڑ کباڑ پر کام کرکے اگر وہ کسی کام کے ہوئے تو انھیں دوبار میدان میں لائے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں چینل شروع کئے، درجنوں ٹی وی چینل شروع کر دئے، سیٹیلائٹ چینل کی نشریات شروع کیں، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں کے لئے اسکواڈ بنائے اور انھیں ملک کے اندر بھیجا۔ جنوب مشرقی سرحد سے اور شمال مغربی سرحد سے۔ اس ملت پر جھوٹ، تہمت اور افواہوں کی بوچھار کر دی تاکہ کسی طرح رائے عامہ کو اور خاص طور پر ہمارے نوخیز نوجوانوں کو بدل دیں۔ ہمارا عزیز نوجوان، جس نے نہ تو امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کا زمانہ دیکھا ہے، نہ مقدس دفاع کا دور دیکھا ہے، نہ ہمارے عظیم اور نامور شہدا کو دیکھا ہے، اس نوجوان کے ذہن و فکر پر وہ اثر انداز ہونا چاہتے تھے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ نکلتا ہے شہید حججی کی صورت میں، نجف آباد کے اس حالیہ شہید کی صورت میں اور ان دو تین دنوں میں شہید ہونے والے نوجوانوں کی صورت میں۔ یہ سب اسی زمانے کے نوجوان ہیں۔ ملک کے اندر کچھ لوگوں کو لالچ دینا، بعض اداروں میں جگہ بنانے کی کوشش، ویسے وہ براہ راست بھی میدان میں آئے ہیں، آپ نے دیکھا بھی ہے، بعد میں اس بارے میں عرض کروں گا۔ ان چند دنوں میں ویب سائٹوں وغیرہ کے ذریعے امریکی حکام نے مداخلت کی لیکن پھر ناکام ہو گئے، ان تمام تر کوششوں کے باوجود شکست سے دوچار ہوئے۔
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے عزیز عوام کا شکریہ ادا کروں۔ ہزار دفعہ شکریہ ادا کرنا چاہئے، ایک بار نہیں۔ یہ قوم واقعی شجاع، وفادار، صاحب بصیرت، بلند ہمت، وقت شناس، لمحہ شناس قوم ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اقدام کا لمحہ کیا ہے۔ جمعرات کو (1) مشہد میں وہ واقعات شروع ہوئے اور ہفتے کے روز وہ عجیب ریلیاں نکلیں، شاید کئی سال سے مشہد میں اس جوش و خروش کے ساتھ جلوس نہیں نکلے تھے۔ ایک دو دن کچھ پراگندہ واقعات ہوئے جس سے آپ سب واقف ہیں۔ تین جنوری سے لیکر سات جنوری تک کم از کم پانچ دن لگاتار عوام سڑکوں پر نکلے۔ واقعی عوام کی یہ وفاداری، یہ لمحہ شناسی، یہ ادراک کہ کس وقت کیا قدم اٹھانا ہے، قابل قدردانی ہے۔ دوسروں تک یہ پیغام پہنچتا ہے۔ بے شک وہ اپنے پروپیگنڈے میں تو کچھ سو تخریبی عناصر کو کئی ہزار ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں! جبکہ ملت کے ملین مارچ کو کسی چھوٹی سی جماعت کے مظاہرے یا کچھ ہزار لوگوں کے جلوس کا نام دیتے ہیں، اپنے پروپیگنڈوں میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن انھیں بخوبی علم ہے، ان کے سیاستداں اسے دیکھتے ہیں، بس اعتراف نہیں کرتے۔ یعنی ملت اپنا کام کر جاتی ہے اور اپنا اثر بھی چھوڑ جاتی ہے۔ دشمن سیاستدانوں پر اپنا رعب بٹھا جاتی ہے اپنے اس عظیم کارنامے کے ذریعے۔ عوام نے واقعی اپنی بصیرت کو اوج پر پہنچایا، اس ملت نے واقعی اپنی بصیرت بہت بلند کر لی ہے اور ان چند دنوں میں اپنے جذبات کا بخوبی اظہار کیا ہے۔
جہاں تک تجزئے کا سوال ہے، ان چند دنوں میں مختلف افراد اور مختلف دھڑوں کی جانب سے اخبارات میں، ویب سائٹوں پر، ان واقعات کے بارے میں مختلف تجزئے پیش کئے گئے۔ ان تجزئوں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ چیز صحیح بھی ہے۔ وہ ہے عوام کے صادقانہ اور برحق مطالبات اور ایک خاص گروہ کے وحشیانہ و تخریبی اقدامات کے درمیان فرق۔ ان دونوں کے درمیان فرق رکھا جانا چاہئے۔ یہ بات کہ کوئی شخص جو اپنے حق سے محروم ہو اور اعتراص کرے یا سو لوگ، پانچ سو لوگ جنھیں اعتراض ہے کسی جگہ پر جمع ہو جائیں اور اپنی بات کہیں تو یہ ایک الگ صورت ہے اور اگر کچھ افراد اس اجتماع اور اس جذبے کا غلط فائدہ اٹھائیں، آکر قرآن کو گالیاں دیں، اسلام کو گالیاں دیں، قومی پرچم کی توہین کریں، مسجد میں آگ لگا دیں، اسے نقصان پہچائیں، دوسری چیزوں کو جلائیں، یہ ایک الگ چیز ہے۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ان میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ وہ عوامی خواہشات، عوامی اعتراضات، عوامی مطالبات تو اس ملک میں ہمیشہ سے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض مالیاتی ادارے جن کے اندر خامیاں ہیں یا بعض ادارے جن میں کمیاں ہیں، انھوں نے بعض لوگوں کو ناراض کیا ہے۔ ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصے سے ہمیں ان کی خبریں مل رہی ہیں، خبریں عام طور پر ہم تک پہنچ جاتی ہیں، یہ لوگ اجتماع کرتے ہیں، کسی شہر میں، کسی ادارے کے سامنے، گورنریٹ کے سامنے، یہاں پارلیمنٹ کے سامنے۔ یہ چیزیں، ہمیشہ رہی ہیں، اس سے کسی کو اختلاف بھی نہیں ہے۔ ان کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے، ان کی بات سنی جانی چاہئے، حتی المقدور ان کی مشکلات کو حل کیا جانا چاہئے۔ البتہ ان درخواستوں میں، مثلا اگر دس مطالبات ہیں تو ممکن ہے دو مطالبات بجا نہ ہوں۔ لیکن جو بجا مطالبات ہیں، جو صحیح مطالبات ہیں، ان کے سلسلے میں ہم سب کو کام کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عہدیداران اس پر کام کریں، کیونکہ خود یہ حقیر بھی جوابدہ ہے۔ تو ہم سب کو اس پر کام کرنا چاہئے۔ البتہ ابھی عہدیداران سے بھی مجھے کچھ باتیں کہنی ہیں وہ میں کہوں گا۔ یہ ایک الگ چیز ہے۔ اس کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کوئی شخص آکر قومی پرچم کو جلا دے یا کچھ افراد آکر عوام کے اجتماع کا فائدہ اٹھائیں اور عوام کے عقائد کے خلاف باتیں کریں، شور مچائیں، قرآن کے خلاف، اسلام کے خلاف اسلامی جمہوری نظام کے خلاف شور شرابا کریں۔
میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان واقعات میں ایک 'مثلث' سرگرم عمل تھا۔ یہ دو چار دن کی بات نہیں ہے۔ اسے پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں تو اطلاعاتی شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ ان میں بعض آشکارا ہیں خود انھوں نے اپنے منہ سے ان کا ذکر کیا ہے اور بعض کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ایک مثلث سرگرم عمل تھا۔ منصوبہ بندی امریکیوں اور صیہونیوں کی تھی، منصوبہ بندی انھوں نے کی تھی۔ کئی مہینے سے اس منصوبے پر وہ کام کر رہے ہیں۔ یہ سارا ماجرا کہ 'پہلے چھوٹے شہروں سے شروع کرتے ہیں، پھر مرکز کی طرف بڑھیں گے اور عوام کو ان کے مطالبات کے سلسلے میں متحرک کر دیتے ہیں، حالات کو گرماتے ہیں' یہ ایک منصوبہ تھا جس پر کئی مہینے سے کام ہو رہا تھا۔ یہ منصوبہ امریکیوں اور صیہونی حکومت سے وابستہ عناصر کا تھا۔
پیسہ خلیج فارس کی ایک 'خرپول' (ایسا مالدار جسے پیسہ صحیح خرچ کرنے کا شعور نہ ہو)حکومت کا تھا (2)۔ ظاہر ہے اس طرح کے کاموں پر پیسہ خرچ ہوتا ہے، پیسہ دینا پڑتا ہے۔ جب تک یہ افراد موجود ہیں، امریکی کوئی پیسہ خرچ کرنے والے نہیں ہیں، پیسے انھوں نے دئے۔ یہ مثلث کے دو اضلاع ہوئے۔ تیسرا ضلع بھاگ دوڑ کا ہے۔ بھاگ دوڑ کا کام منافقین کی تنظیم، قاتل منافقین کی تنظیم (ایم کے او) نے کیا، دوڑ دھوپ کرنا ان کا کام تھا۔ کئی مہینہ پہلے وہ لوگ آئے تھے، اس کا اعتراف خود ان کے ذرائع ابلاغ نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ کئی مہینے پہلے سے اس قضیئے کے سلسلے میں امریکیوں سے ہمارا رابطہ تھا۔ وہ بھاگ دوڑ کر رہے تھے، تیاریاں کر رہے تھے، لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے، ملک کے اندر کچھ لوگوں کی نشاندہی کرکے، پتہ لگا کر ان کی مدد کر رہے تھے تاکہ وہ عوام کو دعوت دیں، انھوں نے عوام کو دعوت بھی دی۔ مہنگائی مردہ باد کا نعرہ طے کیا گيا۔ ظاہر ہے یہ نعرہ تو سب کو پسند آنے والا ہے، اس نعرے سے کچھ لوگوں کو مائل کیا جا سکتا ہے۔ جب یہ سب ہو تو اسی دوران وہ میدان میں اتر آئیں اور اپنے منحوس اہداف پورے کریں، عوام کو بھی اپنے پیچھے گھسیٹیں، ان کا یہ ہدف تھا۔
اس مرحلے پر عوام نے جو کام کیا وہ یہ ہے؛ پہلے تو کچھ لوگ باہر نکل آئے، البتہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی، لیکن جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ ان عناصر کا ہدف کیا ہے اور ان کے نعروں کا علم ہوا عوام نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ جن لوگوں نے جمعرات کو اور جمعے کو مہنگائی مردہ باد کے نعروں والے اجتماعات وغیرہ میں شرکت کی تھی، وہی 30 دسمبر کی عظیم الشان ملک گیر عوامی ریلیوں میں شریک ہوئے، آشوب پسند عناصر کے خلاف نعرے لگائے، امریکہ کے خلاف اور منافقین کے خلاف نعرے لگائے۔ عوام نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔
ایران کے پڑوس میں دو آپریشنل کمانڈ بنائی گئی۔ اس کا اعتراف خود انھوں نے کیا ہے۔ یہ خود ان کے اعترافات ہیں۔ یہاں کے اعترافات نہیں ہیں، بلکہ ان لوگوں کے اعترافات ہیں جو ذرائع ابلاغ میں کچھ باتیں لیک کرتے ہیں، کسی انٹرویو کے دوران کچھ باتیں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے پڑوس میں امریکیوں اور صیہونی حکومت کے عناصر کے ذریعے دو آپریشنل کمانیں بنائی گئي تھیں سوشل میڈیا کے لئے اور آشوب کو مینیج کرنے کے لئے۔ یہ اعتراف خود انھوں نے کیا ہے۔ یعنی پہلے ہی ساری تیاری کر لی تھی اور پہلے سے ہی اپنی کامیابی کو یقینی بھی سمجھ لیا تھا۔ الحمد لله الّذی جعل اعدائنا من الحمقاء، خدا کا شکر ہے کہ پے در پے اتنے واقعات کے بعد بھی وہ اس قوم کو نہیں پہچان سکے ہیں۔ وہ اب بھی سمجھ نہیں سکے ہیں کہ ملی ایمان، ملی استقامت اور ملی شجاعت کی شکل میں موجود فصیل کا کیا مطلب ہے۔ وہ ابھی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہاں ملک کے اندر فریب خوردہ، بدبخت و روسیاہ بیچارے عناصر ایک طرف نعرہ لگاتے ہیں؛ 'ہماری جان ایران پر قربان' اور دوسری طرف ایران کے قومی پرچم کو آگ لگاتے ہیں! ان نادانوں کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ انھوں نے کہا کہ؛' ہماری جان ایران پر قربان' ٹھیک ہے ان شاء اللہ آپ ایران پر قربان ہوں! (3) لیکن آپ حضرات کب سے قربان ہونے لگے، اس ہیئت میں، اس وضع قطع میں، ایران کے دشمنوں کے مد مقابل کب سے سینہ سپر ہونے لگے؟ ایران کے دشمنوں کے مد مقابل سینہ سپر ہوکر یہی 'حزب اللہی' نوجوان ہی کھڑے ہوتے آئے ہیں، انقلابی نوجوان ہی سینہ سپر ہوئے ہیں۔ مقدس دفاع کے دوران کے تین لاکھ شہدا، کون لوگ تھے؟ اس کے بعد جن شہدا کی قربانی ہم نے دی وہ کون لوگ تھے؟ یہی مومن و انقلابی نوجوان تھے جنھوں نے اپنے ملک کا دفاع کیا۔ انقلاب دشمنوں کے مقابل، غیر ملکی حملہ آوروں کے مقابل، امریکہ کے مقابل کھڑے ہوئے۔ آپ نے کب ایران پر جان قربان کی جو آج فرما رہے ہیں؛ 'جانم فدائے ایران'؟ ایک طرف کہتے ہیں ' ایران پر قربان' اور دوسری طرف قومی پرچم جلاتے ہیں! یہ بے عقلی کی نشانی نہیں ہے، نادانی اور ناپختگی کی علامت نہیں ہے؟
امریکہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہت غصے میں ہے، شدید ناراض ہے۔ کس بات پر غصے میں ہے؟ صرف اس حقیر سے ناراض نہیں ہے، آپ سب سے بھی ناراض ہے، ملت ایران سے ناراض ہے، ایران کی حکومت سے ناراض ہے، ایران کے انقلاب سے ناراض ہے، کیوں؟ اس لئے کہ اسے شکست کھانی پڑی ہے۔ اس عظیم تحریک سے ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ اب امریکی حکام مہمل بیانی میں لگ گئے ہیں۔ امریکہ کے صدر کہتے ہیں کہ؛'ایران کی حکومت اپنے عوام سے ڈرتی ہے'، جی نہیں، ایران کی حکومت تو عوام کے اندر سے نکل کر آئی ہے، عوام کی اپنی حکومت ہے، انھیں عوام کے ہاتھوں تشکیل پائی ہے۔ اس کا تکیہ انھیں عوام پر ہے تو پھر وہ کیوں ڈرے گی؟ اگر یہ عوام نہ ہوتے تو یہ حکومت بھی نہ ہوتی، یہ جو چالیس سال سے آپ کے مد مقابل یہ حکومت ثابت قدمی سے کھڑی ہے تو عوام کی مدد سے کھڑی ہے۔ عوام ہی نے آگے بڑھ کر مدد کی اور یہ حکومت آپ کے مقابلے میں ڈٹ گئی۔ کہتے ہیں کہ ایران کی حکومت امریکہ کی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ اچھا! اگر ہمیں آپ کا حوف ہے تو ہم نے کیسے 1970 کے عشرے میں آپ کو ایران سے بے دخل کر دیا اور اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اس پورے علاقے سے نکال باہر کیا! وہ کہتے ہیں کہ ایران کے عوام بھوکے ہیں اور انھیں دو وقت کی روٹی چاہئے۔ جبکہ امریکہ میں خود ان کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ کروڑ بھوکے ہیں جنھیں نان شبینہ میسر نہیں ہے۔ پھر بھی جناب فرماتے ہیں کہ ایران کے عوام بھوکے ہیں۔ ایران کے عوام نے ہمیشہ عزت و شرف کی زندگی گزاری ہے۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے، نصرت پروردگار سے روز بروز ان کے حالات بہتر ہی ہوں گے، ان کی اقتصادی مشکلات بھی بہ کوری چشم دشمن حل ہو جائیں گی۔
امریکہ کے صدر تشویش ظاہر کر رہے ہیں! ان پانچ چھے دنوں میں، تقریبا ہر روز انھوں نے اظہار خیال فرمایا (4)۔ فکرمندی ظاہر کرتے ہیں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ طرز سلوک کے بارے میں، کہ 'ہمیں نہیں پتہ کہ ایران کی حکومت اعتراض کرنے والوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے'۔ آپ کو شرم نہیں آتی؟! (5)۔ ایک سال کے اندر آپ کی پولیس نے خود آپ کے عوام میں سے آٹھ سو لوگوں کو قتل کر دیا! کسی ملک میں، ایک سال کے اندر پولیس جو عوام کی سیکورٹی کی ضامن ہے، آٹھ سو انسانوں کو قتل کر دیتی ہے؟ آپ لوگ وہی ہیں جنھوں نے وال اسٹریٹ کے قیام کے دوران جو بھی ہو سکتا تھا عوام کے خلاف کیا۔ انھیں کچلا، مارا پیٹا، لوگوں پر تہمت لگا کر یا شک کی بنیاد پر انھیں قتل کر دیا۔ ایک عورت گاڑی چلا رہی ہے۔ پولیس اہلکار کو کوئی گمان ہو جاتا ہے اور وہ اس عورت کو اس کے چھوٹے سے بچے کے سامنے قتل کر دیتا ہے۔ یہ اتفاقات امریکہ میں پے در پے ہو رہے ہیں۔
اور برطانیہ! خبیث برطانیہ کے حکام کو بھی تشویش لاحق ہو گئی۔ مسلمانوں پر حملے اور اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنے کی مسلمانوں کی کوشش کے قضیئے میں جو حال ہی مں سامنے آیا، برطانوی جج نے حکم دیا کہ اگر کوئی مسلمان پتھر اٹھاتا ہے لیکن مارتا نہیں، تب بھی اسے چار سال کی جیل ہوگی۔ اگر پتھر مارتا ہے تو سات سال کی جیل ہوگی! یہ ہے آپ کا جج۔ جو حضرات ہالی وڈ کی فلموں میں بعض اوقات جو فیصلے کئے جاتے ہیں، فلموں میں جو دکھایا جاتا ہے کہ جج نے یہ کہا اور پولیس نے ایسا کیا، اس پر یقین کر لیتے ہیں اور انھیں یہ لگتا ہے کہ مغربی ملکوں کی عدلیہ اس طرح کی ہے، وہ اس بات کو غور سے سن لیں! برطانوی جج نے حکم دیا کہ اگر تم نے پتھر اٹھایا مگر چلایا نہیں تو چار سال کی جیل ہوگی اور اگر پتھر مار دیا تو سات سال۔ اگر مولوٹوف کاکٹیل بنا لی اور ہاتھ میں اٹھا لیا لیکن پھینکا نہیں ہے تو سات سال کی جیل ہوگی، اگر پھینک دیا تو پندرہ سال کی جیل ہوگی۔ ان کا یہ برتاؤ ہوتا ہے۔ اور آج وہ ایران میں معترضین کے بڑے ہمدرد بن گئے ہیں کہ ان پر کوئی ظلم نہ ہو جائے!
ان کا آخری ہدف بھی ہمیں پتہ ہے۔ البتہ امریکہ کی سابق حکومت یہ بات زبان سے نہیں کہتی تھی، اس کے برخلاف بات کرتی تھی۔ لیکن ہدف ان کا بھی وہی تھا؛ اسلامی جمہوریہ کی سرنگونی۔ سابق حکومت کا بڑا اصرار ہوتا تھا، بار بار کہتی تھی کہ ہم اسلامی جمہوریہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس حقیر کو بھی کئی خط لکھے اور ان خطوط میں بھی ہمیشہ یہ بات دہرائی کہ ہم اسلامی جمہوریہ کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھ رہے تھے، انسان کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں، پتہ چلتا ہے، رویہ تو سرنگوں کرنے کا تھا۔ اب یہ لوگ ہیں جو یہی بات صریحی طور پر اور کسی بات کا لحاظ رکھے بغیر کہہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کا ہمیں خاتمہ کرنا ہے، یہ ان کا ہدف ہے۔
اس ہدف کے حصول کا ذریعہ کیا ہے؟ اس نکتے پر پوری توجہ دیجئے! ان کے پاس اس کا ذریعہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے اس کے قومی اقتدار اعلی کے وسائل کو چھین لیں۔ قومی اقتدار کے کچھ وسائل ہوتے ہیں۔ اقتدار کے اہم ترین وسائل میں سے ایک عوامی جذبات اور عوام کی رائے عامہ ہے جو ہمیشہ عوام اور حکومت کی مصلحت اور بھلائی کی سمت میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ رائے عامہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ سے اسے چھین لیں۔
قومی اقتدار کے وسائل میں ایک، میں اس کا تذکرہ اس لئے کر رہا ہوں کہ یہ لوگ اس کا ذکر بار بار کرتے ہیں، یہی علاقے میں ہماری موجودگی ہے۔ علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی مقتدرانہ موجودگی بھی قومی اقتدار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سے قوم کی قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور واقعی قوم طاقتور ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اسے ختم کر دیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کسی یورپی ملک کا صدر (6)، امریکیوں کے اندر تو اتنی جرئت ہے نہیں کہ وہ ہم سے مذاکرات کی بات کریں، کہتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ علاقے میں ایران کی موجودگی کے بارے میں بات کریں۔ ٹھیک ہے، مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے میں آپ کی موجودگی کے بارے میں بات کریں۔ آپ اس علاقے میں کیوں موجود رہنا چاہتے ہیں؟ تو یہ بھی قومی اقتدار کا ایک ذریعہ ہے۔ اسے وہ اسلامی جمہوریہ سے چھین لینا چاہتے ہیں۔
قومی اقتدار اعلی کے وسائل میں سے ایک دفاعی قوت ہے۔ وہ اسے بھی اسلامی جمہوریہ سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ میزائلوں کے مسئلے پر اتنا شور شرابا کرتے ہیں، ہنگامہ کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ اگر کوئی قوم اس حملہ آور پر جو دور سے میزائل حملہ کر رہا ہے مناسب جوابی حملہ کرنے پر قادر ہو تو یہ ایک توانائی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس آج یہ طاقت موجود ہے، وہ چاہتے ہیں کہ یہ طاقت موجود نہ رہے۔ قومی اقتدار اعلی کے ان وسائل کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
قومی اقتدار کے اہم ترین وسائل میں سے ایک ہے ہمارا مومن نوجوان۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان سے اس کا ایمان چھین لیں۔ یہ مومن نوجوان ہی ہے جو ایٹمی شعبے میں، سائنسی پیشرفت کے میدانوں میں، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں، رویان (سائنسی، تعلیمی و تحقیقاتی سینٹر) میں، علم و دانش کے دیگر تمام شعبوں میں راتوں کی نیند قربان کرتا ہے، سختیاں برداشت کرتا ہے تاکہ ایک سائنسی پروجیکٹ کو آخری منزل تک پہنچائے۔ یہ کام مومن نوجوان کر رہا ہے۔ یہ صاحب ایمان نوجوان ہیں، ان میں سے بہت سوں کو ہم قریب سے جانتے بھی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان نوجوانوں کا ایمان ختم کر دیں، نوجوان کا جذبہ ختم کر دیں۔
میں چند بس نکات اور عرض کر دوں تاکہ بات بہت طولانی نہ ہو۔ ایک بات مجھے امریکیوں سے کہنی ہے۔ امریکہ کی حکمراں ٹیم سے تعلق رکھنے والے حضرات! پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دفعہ تو آپ نے گویا پتھر سے سر ٹکرایا ہے، ممکن ہے آپ یہی عمل پھر دہرائیں تو جان لیجئے کہ آئندہ بھی آپ کا سر دیوار سے ہی ٹکرائے گا۔ دوسری بات، ان چند دنوں میں آپ نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے، ممکن ہے آئندہ بھی آپ ہمیں نقصان پہنچائیں، یقین رکھئے کہ اس کا جواب ہم ضرور دیں گے۔ تیسری بات؛ یہ صاحب جو وہاں اقتدار میں ہیں وہ بھی جان لیں، اگرچہ بظاہر وہ کوئی نارمل آدمی نہیں ہیں (7)، ان دنوں امریکہ میں ان کی نفسیاتی مشکلات کی باتیں ہو رہی ہیں، انھیں دماغ اور نفسیات کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے، یہ باتیں ہم نے بھی سنی ہیں، اسی طرح امریکی حکومت کے دیگر عہدیداران اور ان کے گرد و پیش کے افراد بھی سن لیں! پاگل پن کی ان حرکتوں کا بھی جواب ضرور دیا جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ اپنے ستونوں اور اپنے محکم اصولوں پر کھڑی رہے گی، ان کا دفاع کرے گی، اپنی قوم کا دفاع کرے گی، اپنے مفادات کا دفاع کرے گی، دھونس دھمکی جیسی چیزوں سے متاثر نہیں ہوگی۔ یہ باتیں ان کے بارے میں تھیں، یہ خطاب امریکہ سے تھا۔
وہ لوگ جن کا دل بہت چاہتا ہے کہ امریکیوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں، راتوں کی نشستوں میں شریک ہوں، ان سے وابستہ رہیں، خواہ وہ ایران سے باہر ہوں، یا پھر بد قسمتی سے ملک کے اندر جو کچھ لوگ ہیں جو اسی نہج پر سوچتے اور عمل کرتے ہیں، ہم نے جو باتیں ان سے کہی ہیں، یہ حضرات بھی سن لیں اور جان لیں کہ یہ قوم اور یہ نظام پورے استحکام سے اپنی جگہ پر کھڑا ہوا ہے اور توفیق خداوندی سے اپنی تمام مشکلات اور کمزوریوں کو دور کرے گا۔ اس نظام کے اندر یہ توانائی موجود ہے، ان شاء اللہ یہ کام وہ انجام دےگا۔ یہ بات امریکیوں سے کہنی تھی۔
ایک بات مجھے اپنے ملک کے حکومتی عہدیداران، البتہ یہ حقیر بھی اسی زمرے میں آتا ہے، سیاسی رہنماؤں، سیاست کے میدان میں سرگرمیاں انجام دینے والے، لکھنے والے، تقریریں کرنے والے، اقدامات انجام دینے والے افراد سے بھی اور حکومتی عہدیداروں سے بھی کہنی ہے؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بیرونی دشمن کے بارے میں بات کی، جو باتیں ہم نے کہیں وہ تجزیہ نہیں تھا، مصدقہ اطلاعات تھیں۔ ہمارے اندر بھی بعض جگہوں پر خامیاں اور بد انتظامی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر کوئی نقص نہیں ہے، ہمارے کام میں کوئی خامی نہیں ہے۔ بس بیرونی دشمن ہی ساری مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ نہیں، مکھی تو زخم پر بیٹھتی ہے، زخم کا علاج کیجئے، زخم پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اگر ہمارے داخلی مسائل و مشکلات نہ ہوں تو نہ یہ چینل کچھ بگاڑ پائیں گے، نہ امریکہ کوئی حماقت کرنے کی جرئت کرے گا۔ ہمیں اپنی مشکلات خود حل کرنا چاہئے، داخلی مشکلات کو ہمیں حل کرنا چاہئے۔ اپنی کمزوری کو دور کرنا چاہئے، ہمارے اندر کچھ کمزوریاں ہیں۔ مظلومین کے حق کا دفاع ہم سب کا فریضہ ہے۔ خاص طور پر کمزور طبقے کا دفاع، عوام کے حقوق کا دفاع ہمارا فریضہ ہے۔ ملت کے کمزور طبقات کا دفاع، ہم سب کو اس کا خیال رکھنا ہے۔ اب کچھ طبقات ایسے ہیں جو خوشحال ہیں، زندگی کی مشکلات کا ان پر دباؤ نہیں ہے، لیکن ملک کے اندر ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو زندگی کے دباؤ میں ہیں اور بڑی سختیاں برداشت کر رہا ہے۔ ہمارا سارا ہم و غم یہ ہونا چاہئے کہ انھیں سختیوں سے باہر نکالیں، ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تینوں شعبے (عدلیہ، مجریہ، مقننہ) ملک کی مشکلات سے باخبر رہیں اور ہر ایک مشکل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ اگر ہم مشکلات کی فہرست تیار کریں تو مثال کے طور پر دس پندرہ بنیادی مشکلات کی ایک فہرست تیار ہوگی۔ ہمیں ان مشکلات کو کاغذ پر لکھ لینا چاہئے۔ کاموں کو آپس میں تقسیم کرکے ہمیں ساری توجہ انھیں مشکلات پر مرکوز کر دینی چاہئے۔ ان کے حل کے لئے وقت نکالیں اور انہیں دور کریں۔ میں نے سماجی مشکلات کی نشاندہی کے لئے کئی اجلاس کئے۔ دو سال یا ڈھائی سال سے ہم ہر تھوڑے وقفے سے یہاں سماجی مشکلات کے موضوع پر ملک کے بنیادی اور پہلے درجے کے عہدیداران، وزرا، نمائندوں، اداروں کے عہدیداران، مجریہ، عدلیہ، مقننہ کے سربراہوں وغیرہ کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ سماجی مشکلات کے بارے میں بحث کرتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے وہاں بھی حضرات سے یہ بات کہی کہ ذمہ داریوں کو آپس میں تقسیم کر لیں۔ البتہ بعض کاموں کے سلسلے میں واقعی بڑے اچھے اقدامات کئے گئے ہیں، پیشرفت حاصل ہوئی ہے، بعض مسائل پر سب نے توجہ مرکوز کی، کام کیا اور کامیابی بھی ملی۔ ملک کے اندر ہمارے سامنے کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جو ناقابل حل ہو اور جس کے بارے میں کہا جائے کہ اسے حل کرنا ممکن نہیں ہے، یا یہ ایسی گرہ ہے جو کھولی نہیں جا سکتی، یہ صورت حال نہیں ہے، اسے سب بخوبی جان لیں۔ یہ مشکلات حل ہونے والی ہیں، البتہ اس کے لئے ہمیں مزید خود کو آمادہ کرنا ہوگا، مزید مستعدی سے کام کرنا ہوگا، زیادہ محنت کرنی ہوگی اور درستگی سے کام کرنا ہوگا۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ سب ایک ساتھ رہیں۔ ملک کے عہدیداران متحد رہیں۔ جی ہاں، ملک کے ہر شعبے میں ذمہ داران کا ایک طبقہ ہے جسے جوابدہ ہونا ہے، دوسرے شعبے کا اس سے تعلق نہیں ہے، یہ ہم جانتے ہیں۔ مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ)، عدلیہ، مجریہ، دیگر شعبے اور ادارے، سب کی ذمہ داری کا ایک دائرہ ہے، دوسرے شعبوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان شعبوں کے بارے میں ان سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ عام حالات کی بات ہے۔ جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن آپ کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے، ضدی دشمن ہے، اڑا ہوا ہے، مشکلات پیدا کر رہا ہے ان کاموں کے سلسلے میں جو ملک کے اندر انجام دئے گئے ہیں تو ایسے وقت میں سب کو چاہئے کہ شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں، سب ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ یہ بات میں سب سے کہہ رہا ہوں۔ ملک کے عہدیداران سے بھی اور سیاسی گروہوں سے بھی۔ سب آپس میں تعاون کریں، محنت کریں، امداد باہمی کریں، ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی عہدیدار کوئی ایسی بات کہے کہ دوسرے کے بخئے ادھیڑ دے اور پھر وہ دوسرا عہدیدار ایسا جواب دے کہ پہلے کو نابود کرکے رکھ دے۔ امداد باہمی کریں۔ یہ نظام بہم مربوط ہے، اسلامی جمہوری نطام ایک متحدہ نظام ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر شعبے کی الگ ذمہ داریاں ہیں، لیکن نظام تو ایک متحدہ نظام ہے۔ مجریہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے، عدلیہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے، پارلیمنٹ بھی اسی نظام کا جز ہے، مسلح فورسز بھی اسی نظام کا جز ہیں، سیکورٹی فورس بھی اسی نظام کا جز ہے، علمی ادارے بھی اسی نظام کا حصہ ہیں، سب ایک ساتھ ہیں۔
اگلا نکتہ؛ قانون کو سب کسوٹی سمجھیں۔ بے قانونی سے ہم سب کو نقصان پہنچے گا، سب کو ضرب لگے گی۔ 2009 میں آپ نے دیکھا۔ 2009 میں یہ جو ملک کو نقصان پہنچا، 2009 میں ہمیں مادی نقصان بھی پہنچا اور دنیا میں ہماری آبرو بھی خطرے میں پڑ گئی، اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ تھی بے قانونی۔ ہم نے ان سے کہا کہ آئیے قانون کے مطابق کام کرتے ہیں، قانون بالکل واضح ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ انتخابات میں خامیاں ہیں، ٹھیک ہے، انتخابات میں جہاں کوئی خامی ہو اس کا قانونی راستہ موجود ہے کہ اس قضیئے کو کیسے حل کرنا ہے۔ تو آئیے قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ نہیں مانے، قانون کی بالادستی قبول نہیں کی، قانون کے خلاف کام کیا۔ ظاہر ہے مشکلات پیدا کر دیں، ملک کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں، خود اپنے لئے بھی مشکلات کھڑی کر لیں، عوام کے لئے بھی مشکلات پیدا کیں، سات آٹھ مہینے تک مسلسل بدامنی اور گوناگوں مشکلات پیدا کرتے رہے۔ یہ قانون کی بالادستی کو قبول نہ کرنے کا نتیجہ تھا۔ مختلف اداروں سے اس حقیر کی سفارش، تاکید اور درخواست یہی ہے کہ سب قانون کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ تنقید اچھا اور ضروری عمل ہے۔ انتباہ اچھا اور ضروری کام ہے۔ لیکن انتباہ اور تنقید ڈھنڈورا پیٹنے والے انداز میں نہیں ہونی چاہئے۔ مجریہ کے اندر کئی ہزار عہدیدار ہیں۔ ان کئی ہزار عہدیداروں میں ممکن ہے کہ مثال کے طور پر دس بارہ بدعنوان عہدیدار ہوں۔ اب اگر ہم اسی کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں، مبالغہ آرائی کریں، تمام عہدیداران کو کرپٹ سمجھنے لگیں، تو ہمارا نوجوان جب ہماری اور آپ کی زبان سے یہ بات سنے گا تو اس کا حوصلہ پست ہوگا، وہ کہے گا؛ 'عجیب صورت حال ہے، ہمارے تمام عہدیداران کے اندر یہ خامی ہے۔' جی نہیں! کچھ سو یا کچھ ہزار مجریہ یا عدلیہ کے عہدیداران میں چند لوگ بدعنوان ہیں۔ عدلیہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اتنے سارے شریف اور محنتی جج خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بے شک ان میں چند جج ایسے بھی ہیں جو نابکار ہیں۔ ہمیں اس کی خبر ہے۔ یہ چیز ہمیشہ رہی ہے اور آج بھی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔ مجریہ کے اندر بھی ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، عدلیہ کے اندر بھی ایسے افراد کے خلاف اقدام ہوتا ہے اور مقننہ، پارلیمنٹ کے اندر بھی ایسے افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ ہم مان سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے دو سو تین سو ارکان میں ایک یا دو رکن پارلیمنٹ ایسا ہوگا جو اپنے فرائض پر عمل نہیں کرتا، یا غلط انداز سے عمل کرتا ہے، تو سارے ارکان کو مورد الزام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اگر ہم انتباہ دے رہے ہیں، اگر تنقید کر رہے ہیں تو وہ منصفانہ ہو، ایسا نہ ہو کہ اس میں مبالغہ آرائی کرنے لگیں، سب کو گنہگار ٹھہرائیں، تصویر مسخ کریں۔ یہی ڈھنڈورا پیٹنا ہی تصویر مسخ کرنا ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ ملک کے عہدیداران کو چاہئے کہ روزگار اور پیداوار کے موضوع کو، ہم نے اس سال کو روزگار اور داخلی پیداوار کا سال قرار دیا ہے، اہمیت دیں۔ یہ کلیدی مسائل ہیں۔ یہ بات میں خاص طور پر اجرائی عہدیداران سے کہہ رہا ہوں۔ البتہ بقیہ عہدیداران کا بھی اس میں ممکن ہے کہ رول ہو۔ ہم نے درآمدات کی مشکل کے بارے میں مجریہ کے محترم عہدیداران سے بارہا بات کی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ شکایت ہو جاتی ہے کہ فلاں صاحب، انتباہ کیوں نہیں دیتے؟! تو ایسا نہیں ہے۔ میں بہت زیادہ انتباہ دیتا ہوں۔ یہ جو میں علی الاعلان کچھ کہتا ہوں، یہ ان حضرات کو ہماری طرف سے دئے جانے والے انتباہات، تلخ بحثوں اور وارننگ کا شاید دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔ حکومتی اجلاسوں میں، عام طور پر میرے انتباہات اور مطالبات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں مسائل کا علم نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب کو ان مسائل کی خبر نہیں ہے۔ وہ سماجی، عمومی اور بنیادی مسائل جن سے عوام باخبر ہیں، ان کے بارے میں مجھے دس گنا زیادہ با خبر رہنا چاہئے اور الحمد للہ میں باخبر ہوں۔ ہمارے پاس مختلف جگہوں سے، عوامی سطح کی، حکومتی سطح، رسمی اور غیر رسمی، ہر طرح کی رپورٹیں پہنچتی ہیں۔ ہم انھیں دیکھتے ہیں، مسائل کو سمجھتے ہیں، مشکلات پر ہماری توجہ ہے۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے، ان چیزوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ان میں روزگار کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ اگر روزگار کی مشکل حل ہو جائے تو بہت سے سماجی مسائل اور برائياں دور ہو جائیں گی۔ ان میں بہت سی برائیاں نوجوانوں کی بے روزگاری کی وجہ سے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں تو ہمیں پیداوار کو اہمیت دینی ہوگی۔ داخلی پیداوار کو صحیح روشوں کے ذریعے، درست پالیسیوں کے ذریعے آگے لے جانا ہوگا۔ بغیر حساب کتاب کے پیسے بانٹ دینے سے کچھ بھی حل ہونے والا نہیں ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر کام کرنا ہوگا، پوری توجہ سے کام کرنا ہوگا۔ الحمد للہ مجریہ کے اندر عہدیداران ان مسائل پر کام کر رہے ہیں، انھیں انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں، جہاں تک ممکن ہے ہم بھی مدد کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ نتائج بھی حاصل ہوں گے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہمارے محکمہ پولیس کے عہدیداران، سیکورٹی افسران، ہماری پاسداران انقلاب فورس، ہماری رضاکار فورس نے ان مسائل کے دوران اپنے فرائض پر عمل کیا اور بنحو احسن عمل کیا۔ ملک کے اعلی حکام نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تاہم توجہ دی جانی چاہئے کہ وہ نوجوان یا کم عمر لڑکا کسی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا کے ہیجان سے متاثر ہو گيا اور اس نے کوئی اقدام کر دیا یا کوئی بات کہہ دی، اس شخص سے الگ ہے جو منظم تنظیموں سے وابستہ ہے اور ان 'دوڑ دھوپ' کرنے والوں میں شامل ہے۔ دونوں کو ایک ہی خانے میں نہ رکھا جائے۔ بعض لوگ طلبہ کا نام بھی لے رہے ہیں۔ طالب علم اور غیر طالب علم میں فرق نہیں ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کا ماحول بحمد اللہ بہت بہترین اور صحیح و سالم ماحول ہے۔ دسیوں لاکھ طالب ہیں جو درس میں، تحقیق میں اور علمی کاموں میں مصروف ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں کوئی مشکل نہیں رہی ہے۔ اب ممکن ہے کہ چند افراد نے آکر اس قضیئے میں خود کو الجھا لیا ہو، تو بلا وجہ اس معاملے میں طلبہ کا نام نہیں گھسیٹا جانا چاہئے۔ اگر کوئی واقعی مجرم ہے تو پھر دینی طالب علم، اسٹوڈنٹ، معمم، غیر معمم، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ جو بھی ہو کوئی فرق نہیں ہے۔ تاہم عہدیداران کو چاہئے کہ اس فرق کو مد نظر رکھیں جو میں نے عرض کیا کہ وہ نوجوان جو سوشل میڈیا کے ہیجان کی وجہ سے جذبات میں آ گیا اور کوئی اقدام اس نے کر دیا یا کوئی بات کہہ دی اور وہ شخص جو امریکیوں کے لئے 'بھاگ دوڑ' کا کام کرنے والے گروہ سے وابستہ ہے، منافقین سے وابستہ ہے دونوں الگ ہیں، دونوں یکساں نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ اول الذکر افراد کو سمجھایا جانا چاہئے۔ ان سے بات کی جانی چاہئے۔ لیکن جن لوگوں نے قتل کئے ہیں۔ جن لوگوں نے دورود میں، تویسرکان میں یا خمین شہر میں قتل کا ارتکاب کیا ہے، تخریبی کارروائياں کی ہیں ان کا معاملہ الگ ہے۔ یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ تو یہ عہدیداران سے ہماری درخواست ہے۔
اپنے عزیز عوام سے بھی مجھے دو تین باتیں کہنا ہیں۔ البتہ اس سے پہلے کی بھی ساری باتوں میں عوام سے بھی میرا خطاب تھا۔ میں عوام کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ آپ سے خوش ہو، آپ نے بہترین انداز میں عمل کیا، بہترین عمل کیا۔ ان برسوں کے دوران جب بھی ملک کو ضرورت پڑی آپ میدان میں اتر پڑے۔ بے لوث ہوکر، بے غرض ہوکر، بصیرت کے ساتھ میدان میں اترے۔ ہماری عزیز قوم نے بہترین انداز میں عمل کیا۔ اللہ تعالی اس ملت کی توفیقات میں اضافہ کرے، اپنی رحمتیں اور اپنا فضل نازل فرمائے۔ آپ سینہ سپر ہو گئے، آپ نے اس ملک کو نجات دلائی، ملت ایران نے نجات دلائی۔ مقدس دفاع کے معاملات میں بھی ملت ایران نے ہی نجات دلائی، سیاسی میدان میں بھی اور علمی میدان میں بھی۔ علم و تحقیق کے سلسلے کو بھی آپ کے نوجوانوں نے بلندی پر پہنچایا۔ جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا، جن شعبوں میں علمی و سائنسی پیشرفت ہے وہاں عوام کے یہی نوجوان ہیں، وہ سب انہیں عوام کے نوجوان ہیں، آپ کے نوجوان ہیں جو علمی کام انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی شراکت سے ملک کو وقار ملا ہے۔ جب بھی عوام کی شراکت کی ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ 11 فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کا موقع ہو، یوم قدس کا موقع ہو، یا تیس دسمبر جیسے واقعات کا موقع ہو، عوام موجود رہتے ہیں۔ آپ نے اس ملک کو عزت عطا کی۔ انتخابات میں، ریلیوں میں، جہاں بھی عوام کی ضرورت پڑی، عوام کی شراکت نے اس ملک کے وقار کی حفاظت کی ہے۔
جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ آج ہمارے دشمنوں کی ایک اہم روش افواہیں پھیلانا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ عوام کی رائے عامہ اقتدار کی بنیاد ہے۔ رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے وہ کیا کرتے ہیں؟ جھوٹ پھیلاتے ہیں، افواہیں پھیلاتے ہیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ دشمن کی افواہوں کو آپ نہ پھیلائيے کہ کسی سے کوئی بے بنیاد بات سنی اور اسے پانچ چھے جگہ ہم نے نقل کر دیا۔ یہ وہی عمل ہے جو دشمن چاہتا ہے۔ تو یہ کام آپ نہ کیجئے۔ دشمن کے ذریعے پھیلائی گئی افواہوں کو ہم نہ دہرائیں۔ اس کے علاوہ افواہوں پر یقین نہ کریں۔ جب تک بات مصدقہ نہ ہو، جب تک اس کا کوئی منطقی ثبوت و دلیل نہ ہو تب تک دشمن کی اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہ بات سب ذہن نشین کر لیں کہ ملک کے اعلی حکام کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ حکام چین کی نیند سو رہے ہیں، کام نہیں کر رہے ہیں تو غلط ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میں قریب سے دیکھ رہا ہوں، مشاہدہ کر رہا ہوں۔ اعلی حکام اپنی توانائی بھر کام کر رہے ہیں۔ البتہ کچھ جگہوں پر خامیاں ہیں، کوتاہی بھی ہے، اس کا ہم انکار نہیں کرتے۔ اس حقیر کے یہاں بھی کچھ خامیاں ہیں، کوتاہیاں ہیں۔ اللہ معاف کرے۔ لیکن عہدیداران کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ یہ افواہ پھیلائی جائے کہ 'جناب! کوئی فائدہ نہیں، یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے، کچھ کر پانا ممکن ہی نہیں ہے، سارے دروازے بند ہیں' تو حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ بعض مشکلات حل ہونے والی ہیں، بعض مسائل قابل حل ہیں، بعض مسائل کا حل وقت طلب ہے۔ ان چیزوں پر توجہ رکھنا چاہئے۔ بعض مشکلات ایسی ہیں کہ انسان انھیں دور سے دیکھتا ہے تو حل بہت آسان نظر آتا ہے، لیکن جب قریب جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ حل اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی زندگی میں بعض لوگ آتے تھے اور آپ سے شکایت کرتے تھے کہ مثال کے طور پر فلاں حکومتی عہدیدار، اس وقت میں صدر جمہوریہ تھا، تو میرے بارے میں یا وزیر اعظم یا کسی وزیر کے بارے میں شکایت کرتے تھے، کہتے تھے کہ آقا ان لوگوں کو فلاں کام کرنا چاہئے تھا لیکن انھوں نے نہیں کیا، اس طرح کی باتیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سنتے تھے اور جب بات پوری ہو جاتی تھی تو فرماتے تھے کہ ملک چلانا بہت دشوار کام ہے۔ واقعی ایسا ہی تھا۔ سخت ہے، دشوار کام ہے، آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے، خلاقانہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، ہمیشہ اپ ڈیٹ رہنا ضروری ہوتا ہے۔ جسمانی آمادگی ضروری ہوتی ہے، محکم اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو عہدیداران ہیں وہ سب کے سب یا تو براہ راست یا بالواسطہ طور پر عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ کام بھی کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کرنا چاہئے۔ سب کو چاہئے کہ عہدیداران کی مدد کریں کہ وہ کاموں کو بخوبی انجام دے سکیں۔
البتہ میں متنبہ کرتا رہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ میں بعض اوقات عوامی سطح پر جو باتیں کہتا ہوں وہ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے جو ان حضرات سے خصوصی نشستوں میں کہتا ہوں۔ کبھی خبردار کرتا ہوں، کبھی جھگڑتا ہوں، مختلف مسائل کے بارے میں عموما میں انتباہات دیتا ہوں۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، توانائی بھر۔ میں یہ بات سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے دینی جمہوریت کو دل سے قبول کیا ہے، ہم واقعی دینی جمہوریت کو مانتے ہیں۔ یہ عوام جسے بھی منتخب کر لیں ہم اسے سربراہ مانتے ہیں، ذمہ دار مانتے ہیں، اس کی مدد کو ضروری اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ تمام حکومتوں کے سلسلے میں ایسا ہی تھا۔ موجودہ حکومت کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے تمام حکومتوں کی مدد کی۔ البتہ میں کاموں کی تفصیلات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ان کے جو خاص فرائض ہیں ان میں مداخلت نہیں کرتا تاہم ان کی مدد ضرور کرتا ہوں۔ میں نے تمام حکومتوں کی مدد کی ہے۔ موجودہ حکومت کی بھی مدد کرتا ہوں۔
اس ملک کے مستقبل کے بارے میں اس حقیر کی امیدیں اور نظر بالکل واضح ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالی نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس ملت کو بلند ترین درجات پر پہنچائے اور یقین رکھئے ان شاء اللہ ملت ایران اسلام کی برکت سے، اسلامی نظام کی برکت سے، بلا شبہ اپنے جیسی اقوام کے درمیان بلند ترین مقام پر پہنچے گی، یقین رکھئے کہ دشمن کی سازشوں، دشمن کی تخریبی حرکتوں، دشمن کے حملوں اور دشمن کے وار کا کوئی اثر نہیں ہوگا واقعی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔
و السّلام علیکم و رحمة الله
۱) 28 دسمبر 2017
۲) حاضرین کی ہنسی
۳) حاضرین کی ہنسی
۴) حاضرین کی ہنسی
۵) حاضرین کی ہنسی
۶) فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں
۷) حاضرین کی ہنسی