اس اہم موڑ پر پہنچنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'انقلاب کا دوسرا قدم' کے عنوان سے ایک بیان جاری کرکے اس راستے پر سفر کے دوران گزشتہ چار عشروں میں حاصل ہونے والی حیرت  انگیز کامیابیوں کو بیان کیا اور عظیم الشان اسلامی مملکت ایران کی تعمیر و ترقی کے لئے عظیم جہاد کے مقصد سے کچھ کلیدی سفارشات کیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا بیان 'انقلاب کا دوسرا قدم' در حقیقت ملت ایران اور خاص طور پر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس افق کی تجدید ہے جو 'خودسازی، سماج سازی اور تمدن سازی' کے دوسرے مرحلے کے لئے ایک منشور ہوگا اور 'اسلامی جمہوریہ کی زندگی کا نیا باب' رقم کرے گا۔

یہ دوسرا قدم انقلاب کو اس کے سب سے بڑے ہدف یعنی جدید اسلامی تمدن کی تعمیر اور ولایت عظمی کے خورشید (ارواحنا فداہ) کے طلوع سے قریب کرے گا۔

اس بیان کا متن حسب ذیل ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله‌ الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین۔

اسلامی انقلاب خود سازی، سماج سازی اور تمدن سازی کے دوسرے مرحلے میں

ظلم کی چکی میں پسنے والی تمام اقوام میں بہت کم ہی قومیں ایسی ہیں جو انقلاب کی ہمت کر پاتی ہیں۔ جو قومیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور انقلاب برپا کر دیتی ہیں ان میں بھی بہت کم قومیں نظر آتی ہیں جو اپنے مشن کو پورا کر سکی ہوں اور حکومت تبدیل کرنے کے علاوہ انقلابی اہداف و مقاصد کی پاسداری میں بھی کامیاب رہی ہوں۔ مگر ملت ایران کا پرشکوہ انقلاب جو عصر حاضر کا سب سے بڑا اور سب سے عوامی انقلاب شمار ہوتا ہے، واحد ایسا انقلاب ہے جو اپنے اعلی اہداف کے سلسلے میں کوئی بھی خیانت کئے بغیر پرافتخار چالیس سال گزار چکا ہے اور ان تمام وسوسوں کے مقابلے میں جن کی مزاحمت ناممکن معلوم ہوتی تھی، اپنے وقار اور اپنے نعروں کی اصلیت کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوا اور اب خود سازی، سماج سازی اور تمدن سازی کے دوسرے مرحلے میں وارد ہوا ہے۔ اس ملت پر دل کی گہرائیوں سے درود و سلام! اس نسل پر بھی جس نے یہ شروعات کی اسے جاری رکھا اور اس نسل پر بھی جو اس وقت دوسرے عظیم اور عالمی سطح کے چالیس سالہ عمل میں قدم رکھ رہی ہے۔

اسلامی انقلاب کی فتح دنیا میں نئے زمانے کا سرآغاز

جس زمانے میں دنیا مادہ پرست مشرق و مغرب میں منقسم تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی عظیم دینی تحریک کا خیال پیدا نہیں ہوتا تھا، اس دور میں ایران کا اسلامی انقلاب بھرپور عظمت و قدرت کے ساتھ میدان میں نمایاں ہوا، حصاروں کو توڑا، دقیانوسی اصولوں کی بوسیدگی سے دنیا کو آگاہ کیا، دین و دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر پیش کیا اور نئے زمانے کی شروعات کی منادی کر دی۔ فطری تھا کہ اس پر گمراہی و ستم کے عمائدین اپنا رد عمل ظاہر کرتے، لیکن یہ رد عمل بھی ناکام رہا۔ ماڈرن لیفٹسٹ و رائٹسٹ دھڑوں نے اس منفرد اور جدید پیغام کے سلسلے میں تجاہل عارفانہ کرنے سے لیکر اسے کچل دینے کی وسیع اور گوناگوں کوششوں تک سب کچھ کر ڈالا لیکن وہ اپنی حتمی اجل کے قریب ہوتے گئے۔ اب انقلاب کا چالیسواں جشن منائے جانے اور چالیسویں عشرہ فجر کے انعقاد کے وقت دشمنی کے ان دو مراکز میں سے ایک نابود ہو چکا ہے اور دوسرا مرکز ایسی مشکلات سے دست و گریباں ہے جو اس کی جانکنی کا لمحہ قریب آ پہنچنے کی خبر دے رہی ہیں۔ جبکہ اسلامی انقلاب اپنے نعروں کی حفاظت اور ان کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا ہے۔

اسلامی انقلاب کے عالمی، فطری، درخشاں اور زندہ جاوید نعرے

ہر چیز کی افادی زندگی کی حد اور استعمال کی میعاد تصور کی جا سکتی ہے لیکن اس دینی انقلاب کے عالمی نعرے اس اصول سے مستثنی ہیں۔ وہ کبھی بھی خارج المیعاد اور غیر مفید نہیں ہوں گے۔ اس لئے کہ تمام ادوار میں انسانی فطرت ان سے آمیختہ ہے۔ آزادی، اخلاق، روحانیت، انصاف، خود مختاری، عزت، عقل پسندی، اخوت، ان میں سے کوئی بھی کسی ایک نسل یا ایک سماج سے مختص نہیں ہے کہ کسی خاص دور میں درخشاں نظر آئے لیکن دوسرے دور میں اس کا زوال ہو جائے۔ کہیں بھی ایسے عوام کے بارے میں نہیں سوچا جا سکتا جو ان مبارک آفاق سے دل برداشتہ ہو چکے ہوں۔ جب بھی لوگ دل برداشتہ ہوئے ہیں ان اعلی اقدار سے عہدیداران کی روگردانی کی وجہ سے ہوئے ہیں، ان کی پابندی اور ان کی عمل آوری کی کوششوں کی وجہ سے نہیں۔

انقلابی نظام کے نظرئے کا ابدی دفاع

اسلامی انقلاب کسی زندہ اور صاحب ارادہ مخلوق کی مانند ہمیشہ لچک دکھانے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لئے آمادہ ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ پسپا ہو جائے یا اس پر نظر ثانی کی جائے۔ تنقیدوں کو کھلے دل سے قبول کرتا ہے اور اسے اللہ کی نعمت اور عمل سے عاری باتیں کرنے والوں کے لئے انتباہ مانتا ہے لیکن ہرگز کسی بھی وجہ سے ان اقدار سے پیچھے نہیں ہٹتا جو بحمد اللہ عوام کے دینی عقیدے سے آمیختہ ہیں۔ اسلامی انقلاب نظام کی تشکیل ہو جانے کے بعد بھی ہرگز جمود کا شکار نہیں ہوا اور نہ ہوگا، سیاسی و سماجی نظام اور انقلاب کے چشمے کے جاری رہنے میں کوئی  تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ یہ انقلاب انقلابی نظام کا تا ابد دفاع کرتا رہے گا۔

اسلامی جمہوریہ اور زمینی حقائق و مطلوبہ اہداف کے درمیان فاصلہ

اسلامی جمہوریہ رجعت پسند اور دم بدم پیدا ہونے والے حقائق اور مواقع کے سلسلے میں احساس و ادراک سے عاری نہیں ہے، لیکن اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند اور حریفوں اور دشمنوں سے اپنے فاصلے اور حدود کے سلسلے میں بہت محتاط ہے۔ اپنے اصلی خطوط کے سلسلے میں ہرگز بے توجہی نہیں برتتا، اس کے لئے یہ چیز حیاتی ہے کہ اسے کیوں باقی رہنا ہے اور کس طرح باقی رہنا ہے۔ بے شک زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کے درمیان فاصلہ ہمیشہ امنگیں رکھنے والے ضمیروں کو رنج دیتا رہا ہے اور دیتا رہے گا، لیکن یہ فاصلہ طے ہو جانے والا ہے، چالیس سال کی اس مدت میں بارہا یہ فاصلہ طے بھی کیا گيا ہے اور بلا شبہ مستقبل میں مومن، دانا اور پرجوش نوجوان نسل کے وجود کی برکت سے یہ فاصلہ اور تیزی سے ختم ہوگا۔

اسلامی انقلاب ایران و ایرانیت کی سربلندی کا ضامن

ملت ایران کا اسلامی انقلاب طاقتور لیکن مہربان، یہاں تک کہ مظلوم واقع ہوا ہے۔ وہ اس زیادہ روی اور انحراف کا مرتکب ہرگز نہیں ہوا جس کا ارتکاب بہت سے قیاموں اور تحریکوں کی شرمساری کا باعث بن چکا ہے۔ کسی بھی پیکار میں یہاں تک کہ امریکہ اور صدام کے خلاف معرکے میں بھی اس نے کبھی بھی پہلی گولی نہیں چلائی، بلکہ تمام مواقع پر دشمن کا حملہ ہو جانے کی صورت میں اس نے اپنا دفاع کیا ہے، البتہ جوابی ضرب پوری طاقت سے لگائی ہے۔ شروع سے آج تک یہ انقلاب کبھی بھی نہ تو بے رحم اور نہ ہی خون آشام ثابت ہوا اور نہ ہی کبھی پسپا اور شک و تردد میں مبتلا ہوا ہے۔ استبدادی اور سرکش طاقتوں کے مد مقابل شجاعت اور صراحت کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس نے مظلوموں اور مستضعفین کا دفاع کیا ہے۔ یہ انقلابی فراخدلی اور مروت، یہ صداقت و صراحت و اقتدار، دنیا کے مظلومین کی پشت پناہی میں عالمی اور علاقائی اقدامات کا یہ دائرہ، ایران و ایرانیت کی سربلندی کا ضامن ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے۔

مستقبل مین محکم قدم اٹھانے کے لئے ماضی کی صحیح شناخت کی ضرورت

اس وقت اسلامی جمہوریہ کی زندگی کے نئے باب کے آغاز میں یہ بندہ ناچیز اپنے عزیز نوجوانوں سے، اس نسل سے جو میدان عمل میں قدم رکھ رہی ہے تاکہ عظیم اسلامی مملکت ایران کی تعمیر کے لئے بڑے جہاد کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرے، کچھ کہنا چاہتا ہے۔ پہلی بات ماضی کے بارے میں ہے۔

عزیزو! نا معلوم باتوں کو خود تجربہ کرکے یا دوسروں کے تجربات کو سن کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سی چیزیں جو ہم نے دیکھی اور آزمائی ہیں آپ کی نسل نے ہنوز نہیں دیکھی اور نہیں آزمائی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے اور آپ دیکھیں گے۔ آئندہ دہائیاں آپ کی دہائیاں ہیں، آپ ہی کو تجربات حاصل کرکے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے انقلاب کی حفاظت کرنی ہے اور اسے جہاں تک ممکن ہو اس سب سے بڑے ہدف کے قریب پہنچانا ہے جو اسلامی تمدن کی تشکیل اور ولایت عظمی کے خورشید (امام زمانہ ارواحنا فداہ) کے طلوع سے عبارت ہے۔ مستقبل میں پائيدار قدم اٹھانے کے لئے ماضی کی درست شناخت اور تجربات سے درس لینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس اصول کو نظر انداز کیا گيا تو حقیقت کی جگہ جھوٹ لے لیگا اور مستقبل نا شناختہ خطرات میں پڑ جائے گا۔ انقلاب کے دشمن پختہ ارادے کے ساتھ ماضی کے بارے میں بلکہ زمانہ حال کے بارے میں بھی تحریف اور دروغگوئی میں لگے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لئے پیسہ اور تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ فکر و عقیدہ و آگاہی کی راہ پر راہزن بہت ہیں۔ حقیقت کو دشمن اور اس کے مہروں کی زبان سے نہیں سنا جا سکتا۔

انقلاب اور اسلامی نظام کا صفر سے آغاز

اسلامی انقلاب اور اس سے نکلنے والا اسلامی نظام صفر سے شروع ہوا۔ پہلی چیز یہ کہ سب کچھ ہمارے خلاف تھا، وہ بدعنوان طاغوتی حکومت بھی کہ جو اغیار پر منحصر، بدعنوان اور بغاوت سے وجود میں آنے جیسی برائیوں کے علاوہ ایران کی پہلی  ایسی حکومت تھی جو زور شمشیر سے نہیں بلکہ اغیار کے ذریعے اقتدار میں پہنچی تھی، اسی طرح امریکہ کی حکومت بھی، بعض دیگر مغربی حکومتیں بھی، درہم برہم داخلی صورت حال اور علم و ٹیکنالوجی، سیاست و روحانیت اور تمام فضیلتوں میں شرمناک پسماندگی بھی۔

دوسرے یہ کہ ہمارے پاس ماضی کا تجربہ اور وہ راستہ نہیں تھا جو طے کیا جا چکا ہو۔ ظاہر ہے کہ مارکسی اور اس جیسے دیگر انقلابات اس انقلاب کے لئے جو اسلامی ایمان و معرفت کے بطن سے نکلا تھا نمونہ عمل قرار نہیں پا سکتے تھے۔ اسلامی انقلابیوں نے بغیر کسی نمونہ عمل اور تجربے کے اپنا کام شروع کیا اور جمہوریت و اسلامیت کی باہمی ترکیب اور اس کی تشکیل و پیشرفت کے وسائل، ہدایت الہی اور امام خمینی کے نورانی قلب اور عظیم افکار سے ہی ممکن ہو پائے اور یہ انقلاب کی پہلی جلوہ گری تھی۔

اسلام و استکبار کا جدید باہمی مقابلہ معاصر دنیا کی نمایاں حقیقت

اس کے بعد ملت ایران کے انقلاب نے اس وقت کی دو بلاکوں میں منقسم دنیا کو سہ رخی کر دیا۔ اس کے بعد سوویت یونین اور اس کے ہم نواؤں کے سقوط و خاتمے اور طاقت کے نئے مراکز کے ظہور کے ساتھ ہی اسلام و استکبار کا جدید دو طرفہ مقابلہ معاصر دنیا کی نمایاں حقیقت اور دنیا والوں کی توجہ کا مرکز بن گيا۔ ایک طرف ستمدیدہ اقوام، دنیا کی حریت پسند تحریکوں اور خود مختاری کی طرف مائل بعض حکومتوں کی پر امید نگاہیں اور دوسری طرف دنیا کی باج خواہ، غنڈہ گردی اور زور زبردستی کرنے والی حکومتوں کی کینہ توز اور بد خواہانہ نگاہیں اس پر مرکوز ہو گئیں۔ اس طرح دنیا کا رخ تبدیل ہو گیا اور انقلاب کے جھٹکوں نے آرام دہ بستروں پر پڑے فرعونوں کو بیدار کر دیا اور پوری شدت کے ساتھ دشمنیاں شروع ہو گئیں۔ اگر اس ملت کے ایمان و جذبے کی عظیم طاقت اور ہمارے عظیم الشان امام کی آسمانی اور غیب سے تائيد شدہ قیادت نہ ہوتی تو اس خصومت، بے رحمی، سازش اور خباثت کا سامنا کر پانا ممکن نہ ہو پاتا۔

جہادی مینیجمنٹ اور 'ہم کر سکتے ہیں' کے جذبے پر یقین تمام میدانوں میں ایران کی پیشرفت و سربلندی کا ضامن

ان تمام طاقت فرسا مشکلات کے باوجود اسلامی جمہوریہ روز بروز زیادہ پائیدار اور بڑے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھی۔ یہ چالیس سال اسلامی مملکت ایران میں عظیم جہاد، درخشاں افتخارات اور حیرت انگیز ارتقاء کے شاہد رہے ہیں۔ ملت ایران کی چالیس سالہ پیشرفت کی عظمت تب بخوبی دکھائی دیتی ہے جب اس دورانئے کا موازنہ فرانس کے انقلاب، سوویت یونین کے اکتوبر انقلاب اور ہندوستان کے انقلاب کے ایسے ہی دورانئے سے کیا جاتا ہے۔ اسلامی عقیدے سے ماخوذ جہادی مینیجمنٹ اور 'ہم کر سکتے ہیں' کے جذبے پر یقین نے جس کی تعلیم ہمیں بزرگوار امام سے ملی، ایران کو تمام میدانوں میں وقار و پیشرفت کی بلندی پر پہنچایا۔

٭اسلامی انقلاب کے عظیم ثمرات؛

انقلاب نے ایک طولانی تاریخی انحطاط کو ختم کیا اور پہلوی و قاجاریہ دور میں شدید تحقیر و پسماندگی سے دوچار ملک کو تیز رفتار پیشرفت کے راستے پر پہنچا دیا۔ پہلے مرحلے میں شرمناک استبدادی سلطنتی نظام کو عوامی اور جمہوری حکومت میں تبدیل کیا اور قومی ارادے کو جو حقیقی اور ہمہ جہتی پیشرفت کا ضامن ہوتا ہے ملکی امور و انتظامات کے مرکز میں پہنچایا، نوجوانوں کو واقعات و تغیرات کا کلیدی علمبردار بنایا اور انھیں ملکی نظم و نسق کے میدان میں پہنچایا۔ 'ہم کر سکتے ہیں' کا جذبہ اور یقین سب کے اندر منتقل کیا۔ دشمن کی پابندیوں کی وجہ سے داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کا درس سب کو سکھایا اور یہ چیز بہت بڑی کامیابیوں کا سرچشمہ بن گئی۔

ایک: ایران میں سلامتی و استحکام اور ارضی سالمیت کی حفاظت

سب سے پہلے ملک کے امن و استحکام اور ارضی سالمیت نیز سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جو دشمنوں کے سنجیدہ خطرات کی آماج گاہ بنی ہوئی تھیں اور آٹھ سالہ جنگ میں فتحیابی کا معجزہ، بعثی حکومت اور اس کے حامیوں امریکہ، یورپ اور مشرقی بلاک کو شکست سے دوچار کیا۔

دو: سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اور کلیدی، اقتصادی و تعمیراتی انفراسٹرکچر تیار کرنے میں طاقتور انجن کا کام

دوسرے یہ کہ انقلاب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اور کلیدی، اقتصادی و تعمیراتی انفراسٹرکچر تیار کرنے میں گاڑی کو آگے لے جانے والا انجن بن گیا اور اس کے عظیم ثمرات روز بروز وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہزاروں نالج بیسڈ کمپنیاں، تعمیرات، نقل و حمل، صنعت، انرجی، معدنیات، حفظان صحت، زراعت اور پانی کے میدانوں میں ملک کے لئے ہزاروں ضروری اور ساختیاتی پروجیکٹ، دسیوں لاکھ اعلی تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم افراد، ملک بھر میں ہزاروں یونیورسٹیاں اور کالج، ایٹمی فیول سائيکل، اسٹیم سیلز، نینو ٹیکنالوجی، بایو ٹیکنالوجی وغیرہ کے میدانوں میں عالمی سطح  پر پہلی پوزیشن رکھنے والے درجنوں بڑے پروجیکٹ، غیر پیٹرولیئم برآمدات میں ساٹھ گنا کا اضافہ، صنعتی یونٹوں کی تعداد میں دس گنا کا اضافہ، کوالٹی کے اعتبار سے صنعتوں میں دسیوں گنا کا ارتقاء، اسمبلنگ کی جگہ مقامی ٹیکنالوجی کا ڈیولپ ہو جانا، انجینیئرنگ کے گوناگوں شعبوں منجملہ دفاعی صنعت میں قابل قدر ارتقاء، میڈیکل سائنس کے اہم اور حساس شعبوں میں درخشاں پیشرفت اور ان شعبوں میں مرکزیت حاصل ہو جانا، اسی طرح پیشرفت کے دوسرے درجنوں نمونے اس جذبے، اس شراکت اور اجتماعیت کے احساس کا نتیجہ ہے جو اس ملک کو انقلاب سے ملا ہے۔ انقلاب سے پہلے ایران سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار میں صفر تھا۔ صنعت کے میدان میں اسمبلنگ اور علم کے میدان میں ترجمے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔

تین: عوامی شراکت اور خدمت رسانی کے کمپٹیشن کو اوج پر پہنچانا

تیسری چیز یہ ہے کہ انقلاب نے سیاسی امور جیسے انتخابات، داخلی فتنوں کے سد باب، قومی حیثیت رکھنے والے معاملات میں شراکت اور استکبار کی مخالفت میں عوامی شراکت کو اوج پر پہنچا دیا۔ سماجی امور جیسے امداد رسانی اور فلاحی سرگرمیوں میں جو انقلاب سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھیں، نمایاں اضافہ کیا۔ انقلاب کے بعد عوام قدرتی آفات اور سماجی مشکلات کے موقع پر امداد رسانی میں مشتاقانہ انداز میں شرکت کرتے ہیں۔

چار: عوام الناس کے سیاسی شعور کا حیرت انگیز ارتقاء

چوتھی چیز یہ ہے کہ انقلاب نے عوام کے سیاسی شعور اور بین الاقوامی امور کے سلسلے میں ان کی نظر کو حیرت انگیز طور پر ارتقاء کے مراحل سے گزارا۔ سیاسی تجزیہ اور بین الاقوامی مسائل جیسے مغرب بالخصوص امریکہ کے جرائم، مسئلہ فلسطین، وہاں کے عوام پر ہونے والے تاریخی مظالم، قوموں کے امور میں تسلط پسند طاقتوں کی مداخلت، رذالت اور جنگ افروزی اور اسی طرح  کے دیگر مسائل میں فہم و ادراک کو روشن فکر کہے جانے والے محدود اور گوشہ نشین طبقے کے دائرے سے باہر نکالا اور روشن خیالی پورے ملک میں اور زندگی کے ہر شعبے میں عوام الناس کے درمیان پھیل گئی اور اس قسم کے مسائل نوجوانوں بلکہ کمسن بچوں کے لئے بھی قابل فہم و ادراک بن گئے۔

پانچ: ملک کے عمومی وسائل کی تقسیم میں انصاف و مساوات کو ترجیح

پانچویں چیز یہ ہے کہ ملک کے عمومی وسائل کی تقسیم میں انصاف و مساوات کو ترجیح دی۔ ملک میں انصاف و مساوات کے سلسلے میں کی جانے والی کارکردگی سے اس حقیر کا عدم اطمینان اس وجہ سے ہے کہ یہ عظیم مقصد اسلامی جمہوری نظام کی پیشانی پر بے مثل گوہر کی مانند درخشاں ہو جبکہ ہنوز ایسا نہیں ہو سکا، لیکن اس عدم رضامندی کو اس معنی میں نہ لیا جائے کہ انصاف و مساوات قائم کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چار عشروں میں عدم مساوات کو رفع کرنے کے سلسلے میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ان کا کسی بھی دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ طاغوتی شاہی حکومت میں ملکی آمدنی اور سروسیز کا بیشتر حصہ دار الحکومت میں رہنے والے یا ملک کے بعض دیگر علاقوں میں ان کے جیسے بہت تھوڑے سے افراد کے اختیار میں تھا۔ بیشتر شہروں کے عوام خاص طور پر دور دراز کے خطوں اور دیہی علاقوں کے لوگ عام طور پر فہرست میں سب سے نیچے رہنے والی اور ابتدائی ساختیاتی ضروریات اور سروسیز سے محروم تھے۔ دار الحکومت سے ملک کے ہر علاقے میں اور شہروں میں امراء کے علاقوں سے غریب علاقوں میں دولت اور سروسیز کی منتقلی میں اسلامی جمہوریہ کا شمار دنیا کی سب سے کامیاب حکومتوں میں ہوتا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر، مکانات کی تعمیر، صنعتی مراکز کی تعمیر، زرعی اصلاحات، ملک کے دور دراز کے علاقوں تک بجلی، پانی، طبی مراکز، یونیورسٹیاں، ڈیم، بجلی گھر وغیرہ لے جانے کے اعداد و شمار حقیقت میں قابل فخر ہیں۔ بے شک یہ ساری چیزیں نہ تو عہدیداران کی ناقص اطلاع رسانی میں منعکس ہو پاتی ہیں اور نہ اندرونی اور غیر ملکی بدخواہوں کی زبان سے ان کا اعتراف کیا جاتا ہے، لیکن یہ حقیقت موجود ہے اور اللہ تعالی اور خلق خدا کے نزدیک جہادی اور مخلص عہدیداروں کا یہ نیک عمل محفوظ ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ میں انصاف و مساوات کی سطح جو خود کو علوی حکومت کی پیروکار کے طور پر متعارف کرانا چاہتی ہے موجودہ سطح سے بہت زیادہ بلند ہونی چاہئے اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے امیدیں آپ نوجوانوں سے وابستہ ہیں، میں اپنی اس گفتگو میں آگے چل کر اس بارے میں بھی بحث کروں گا۔

چھے: معاشرے کی عمومی فضا میں روحانیت اور اخلاقیات میں قابل لحاظ اضافہ

چھٹی چیز یہ ہے کہ اس نے معاشرے کی عمومی فضا میں اخلاقیات اور روحانیت کو قابل لحاظ طور پر بڑھایا ہے۔ اس مبارک نعمت کو پوری تحریک کے دوران اور اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے کردار اور طرز عمل سے رواج ملا۔ وہ روحانی، عارف اور مادی آلائشوں سے پاکیزہ انسان اس ملک کا قائد بنا جہاں کے عوام کے ایمان کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ حالانکہ پہلوی حکمرانوں کے دور حکومت میں بے راہروی اور بد کرداری کی ترویج سے ایمان کی گہری جڑوں پر سخت ضربیں پڑیں اور سماج کے مڈل کلاس خاص طور پر نوجوانوں کے اندر مغرب کی اخلاقی آلودگی اور گندگی پھیلا دی گئی تھی، لیکن اسلامی جمہوریہ میں دینی و اخلاقی رجحان نے آمادہ اور نورانی دلوں خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ لیا اور ماحول پر دین و اخلاق کا رنگ چڑھ گیا۔ سخت میدانوں جیسے مقدس دفاع میں نوجوانوں کا جہاد و پیکار ذکر الہی، دعا، جذبہ اخوت و ایثار سے آراستہ ہو گیا اور صدر اسلام کے واقعات و حالات سب کی نگاہوں کے سامنے ایک بار پھر تازہ اور نمایاں ہو گئے۔ ماں، باپ اور بیویوں نے اپنے دینی فریضے کو محسوس کرتے ہوئے جہاد کے گوناگوں محاذوں کی جانب روانہ ہونے والے اپنے عزیزوں کی جدائی برداشت کی اور جب ان عزیزوں کا خون آلود جنازہ یا معذور ہو چکا جسم دیکھا تو اس مصیبت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ مساجد اور دینی مقامات میں بے مثال رونق پیدا ہو گئی۔ اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے ہزاروں نوجوانوں، اساتذہ، طلبہ، مردوں اور عورتوں کی صفیں، (محروم علاقوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر تعمیراتی خدمات کے لئے) جہادی کیمپنگ میں شرکت، تعمیراتی جہاد، تعمیراتی رضاکاری کے لئے ہزاروں نوجوانوں کی صفیں تیار ہو گئیں۔ نماز، حج، روزہ داری، پا پیادہ زیارت، گوناگوں دینی پروگرام، واجب و مستحب صدقہ و انفاق ہر جگہ خاص طور پر نوجوانوں میں کافی بڑھ گیا اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی کیفیت بھی بہتر ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے دور میں ہوا جب مغربی دنیا اور اس کی راہ پر چلنے والوں کے یہاں اخلاقی تنزلی ہوئی اور انھوں نے مرد و زن سب کو بے راہروی کی دلدل میں کھینچنے کے لئے بھرپور تشہیرات کیں اور دنیا کے بڑے حصے میں انھوں نے اخلاقیات اور روحانیت کو الگ تھلگ کر دیا۔ یہ انقلاب اور سرگرم و پیش قدم اسلامی نظام کا ایک اور معجزہ ہے۔

سات: دنیا کے مستکبرین، عالمی غنڈوں اور تسلط پسندوں کے مقابلے میں روز افزوں استقامت

ساتویں چیز دنیا کے مستکبرین، عالمی غنڈوں، تسلط پسندوں اور ان میں سر فہرست مجرم اور دنیا کو ہڑپ جانے کے لئے کوشاں امریکہ کے مقابلے میں پرشکوہ، با عظمت اور افتخار آمیز استقامت روز بروز زیادہ نمایاں ہوئی۔ ان چالیس برسوں میں عدم پسپائی، انقلاب کی حفاظت و پاسبانی، اس کی الہی ہیبت و عظمت اور متکبر و استکباری حکومتوں کے مقابلے میں اس کی سربلندی ایران اور ایرانیت اور بالخصوص اس سرزمین کے نوجوانوں کی معروف خصوصیات ہیں۔ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں جو دیگر ملکوں کی خود مختاری پر دست درازی اور اپنے شوم مقاصد کے لئے ان کے حیاتی مفادات کی پامالی میں ہی اپنی بقا دیکھتی ہیں، انقلابی و اسلامی ایران کے سامنے اپنی ناتوانی و عاجزی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئیں۔ انقلاب کی حیات بخش فضا میں ملت ایران سب سے پہلے تو امریکہ کے مہرے اور ملک سے  خیانت کرنے والے حاکم کو ملک بدر کیا اور اس کے بعد سے آج تک عالمی غنڈہ صفت طاقتوں کو ملک پر تسلط قائم کرنے کا ہرگز موقع نہیں دیا ہے۔

٭چالیس سالہ انقلاب اور دوسرا بڑا قدم

میرے عزیز نوجوانو! یہ اسلامی انقلاب کی چالیس سالہ سرگزشت کے کچھ اہم ابواب ہیں۔ وہ عظیم، پائیدار اور درخشاں انقلاب جسے آگے لے جانے کے لئے توفیق خداوندی سے دوسرا بڑا قدم آپ کو اٹھانا ہے۔

چالیس سالہ محنت و کوشش کا ثمرہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ خود مختار، آزاد، مقتدر، با وقار، دیندار، علم میں پیشرفتہ، گراں بہا تجربات سے آراستہ، مطمئن و پرامید، علاقے میں گہرے اثر و رسوخ کا مالک، عالمی مسائل میں محکم موقف نقطہ نگاہ کا مالک، سائنسی پیشرفت کی سرعت میں ریکارڈ بنانے والا، ایٹمی، اسٹیم سیلز، نینو اور ایروناٹیکل وغیرہ ٹیکنالوجیوں میں بلند پوزیشن کا ریکارڈ بنانے والا، سماجی خدمات کا دائرہ وسیع تر کرنے میں نمایاں، نوجوانوں میں مجاہدانہ جذبات کے اعتبار سے بلند سطح پر فائز، کارآمد نوجوان آبادی والا اور دوسری بھی گوناگوں افتخار آمیز خصوصیات کا حامل ملک اور قوم یہ سب کچھ انقلاب کا ثمرہ اور انقلابی و مجاہدانہ سمت و جہت کا نتیجہ ہے۔ آپ یاد رکھئے کہ اس چالیس سالہ تاریخ کے دوران بعض ادوار میں اگر انقلاب کے نعروں سے بے توجہی اور انقلابی رجحان سے غفلت نہ برتی گئی ہوتی تو یقینا انقلاب کے ثمرات اس سے کہیں زیادہ ہوتے اور اپنے اعلی اہداف و مقاصد تک رسائی میں ملک کافی آگے  ہوتا اور بہت سی موجودہ مشکلات آج نہ ہوتیں، لیکن افسوس کہ غفلت برتی گئی جو ضرر ر‎ساں ثابت ہوئی۔

اسلامی انقلاب کا استحکام، چیلنجز میں تبدیلی اور استکباری قوتوں کی شکست

مقتدر ایران آج بھی اوائل انقلاب کی مانند استکباری طاقتوں کی طرف سے پیدا کردہ چیلنجوں سے روبرو ہے لیکن کافی معنی خیز تبدیلی کے ساتھ۔ اس زمانے میں اگر چیلنج یہ تھا کہ ملک کو امریکہ کی دست برد سے بچایا جائے، تہران میں صیہونی حکومت کا سفارت خانہ بند کرایا جائے، امریکی جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانہ) کو بے نقاب کیا جائے تو آج چیلنج صیہونی حکومت کی سرحدوں پر ایران کی موجودگی کے بارے میں، مغربی ایشیا کے علاقے سے امریکہ کے ناجائز تسلط کی بساط سمیٹنے کے سلسلے میں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر فلسطینی مجاہدین کی اسلامی جمہوریہ کی طرف سے حمایت و پشت پناہی کے سلسلے میں، حزب اللہ اور پورے علاقے میں مزاحمتی محاذ کے لہراتے پرچم کے دفاع کے سلسلے میں ہے۔ اس زمانے میں مغرب کی مہم ایران کو بالکل ابتدائی ہتھیاروں کی خریداری سے محروم کرنا تھا تو آج مغرب کا درد سر ایران کے پیشرفتہ ہتھیاروں کی مزاحمتی محاذ کی فورسز تک منتقلی کو روکنا ہے۔ اگر اس زمانے میں امریکہ اس گمان میں تھا کہ چند ضمیر فروش ایرانیوں کی مدد سے یا چند طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اسلامی نظام اور ملت ایران پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے تو آج اسلامی جمہوریہ کا سیاسی اور سیکورٹی کے میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے اسے درجنوں دشمن یا مرعوب حکومتوں کے ساتھ الاینس بنانے کی ضرورت پڑ رہی ہے، البتہ اس کے بعد بھی مقابلہ آرائی ہوتی ہے تو اسے شکست ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایران آج ایک بلند اور ملت ایران کے شایان شان مقام پر ہے اور کلیدی مسائل میں دشوار گزار راستوں کو عبور کر چکا ہے۔

نوجوان: پیشرفتہ اسلامی نظام کو عملی جامہ پہنانے والا ستون

تاہم اب تک جو راستہ طے ہوا ہے وہ اسلامی جمہوری نظام کے اعلی اہداف تک رسائی کے پرافتخار راستے کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ یہ راستہ آگے بھی، جس کے بارے میں گمان غالب یہ ہے کہ ماضی جیسی دشواریوں والا نہیں ہوگا، آپ نوجوانوں کی بلندی ہمتی، ہوشیاری، سرعت عمل اور جدت عملی کے ذریعے طے ہونا چاہئے۔ نوجوان عہدیداران، نوجوان کارکنان، نوجوان مفکرین، نوجوان سرگرم عناصر تمام سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، بین الاقوامی میدانوں اور دین و اخلاق و روحانیت و مساوات کے شعبوں میں اپنے دوش پر ذمہ داریاں سنبھالیں، اپنے پیش رو افراد کے تجربات سے اساتفادہ کریں، انقلابی نگاہ، انقلابی جذبہ، جہادی طرز عمل کو بروئے کار لائیں اور وطن عزیز ایران کو پیشرفتہ اسلامی نظام کا مکمل نمونہ بنائیں۔

حقیقی اور عمیق دینی و ایمانی بنیادوں والی کارآمد اور با استعداد افرادی قوت، ملک کا سب سے اہم اور امید افزا سرمایہ

مستقبل کے معماروں کو جو اہم نکتہ مد نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ وہ ایسے ملک میں زندگی گزار رہے ہیں جو قدرتی اور انسانی وسائل کے اعتبار سے کم نظیر ہے اور ذمہ داران کی غفلت کی وجہ سے ان صلاحیتوں اور توانائیوں کا بڑا حصہ تا حال بے توجہی یا کم توجہی کا شکار رہا ہے۔ بلند ہمتی اور نوجوان و انقلابی جذبہ ان صلاحیتوں کو متحرک اور اس سے ملک کی مادی و روحانی پیشرفت میں حقیقی معنی میں ایک لمبی جست کا مقدمہ فراہم کر سکتا ہے۔

حقیقی اور عمیق دینی و ایمانی بنیادوں والی کارآمد اور صاحب استعداد افرادی قوت، ملک کا سب سے اہم اور امید افزا سرمایہ ہے۔ چالیس سال سے کم عمر کی نوجوان آبادی کہ جس کا بڑا حصہ 1980 کے عشرے میں شروع ہونے والی آبادی کی لہر کا نتیجہ ہے ملک کا بہت عظیم سرمایہ ہے۔ 15 سے 40 سال کی عمر کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد، اعلی تعلیم یافتہ ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد، سائنس و انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے اعتبار سے دنیا میں وطن عزیز کی دوسری پوزیشن، نوجوانوں کی کثیر تعداد جو انقلابی جذبے کے ساتھ پروان چڑھی ہے اور ملک کے لئے مجاہدانہ سعی و کوشش کے لئے آمادہ ہے، مفکر اور محقق نوجوانوں کی قابل لحاظ تعداد جو علمی، ثقافتی اور صنعتی میدانوں میں نئی ایجادات میں مصروف ہے، یہ سب ملک کے لئے بڑے عظیم سرمائے ہیں جن کا موازنہ کسی بھی دوسرے سرمائے سے نہیں ہو سکتا۔

ملک کے اندر مادی وسائل و مواقع کی طویل فہرست

ان ساری چیزوں کے ساتھ ہی ملک کے مادی وسائل و مواقع کی فہرست بھی کافی طولانی ہے، کارآمد، محنتی اور دانشمند عہدیداران انھیں متحرک کرکے اور بروئے کار لاکر قومی آمدنی میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور ملک کو دولتمند، بے نیاز اور حقیقی معنی میں خود اعتمادی سے سرشار بنا کر در پیش مشکلات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ ایران کے پاس دنیا کی ایک فیصدی آبادی اور دنیا کے سات فیصدی معدنیاتی ذخائر ہیں۔ زیر زمین عظیم ذخائر، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے رابطہ پل کا درجہ رکھنے والا منفرد جغرافیائی محل وقوع، گوناگوں، زرعی پیداوار اور باغات کے لئے زرخیز زمین، بڑی اور کثیر الجہتی معیشت، یہ سب ملک کے اندر موجود توانائیاں ہیں۔ بہت سی توانائیاں ہنوز ایسی ہیں جنہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اچھوتے قدرتی اور انسانی وسائل کے اعتبار سے ایران دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ بے شک آپ مومن اور محنتی نوجوان اس بڑی خامی کو دور کریں گے۔ آئندہ ترقیاتی پروگرام کا دوسرا عشرہ ماضی کی کامیابیوں اور استعمال نشدہ توانائیوں کو بروئے کار لانے پر توجہ مرکوز کرنے کا عشرہ قرار پائے اور پیداواری شعبے میں وسعت کے ساتھ قومی معیشت کو ارتقاء حاصل ہو۔

٭دوسرا قدم اور مستقبل کے تعلق سے امید و نشاط کے زیر سایہ کلیدی سفارشات اور اہم موضوعات

اب میں اپنے عزیز بچوں سے چند کلیدی موضوعات کے بارے میں کچھ سفارشات کروں گا۔ یہ موضوعات ہیں؛ علم و تحقیق، روحانیت و اخلاق، معیشت، مساوات، بد عنوانی سے جنگ، خود مختاری و آزادی، قومی وقار، خارجہ تعلقات، دشمن سے فاصلہ اور طرز زندگی۔ لیکن سب سے پہلے میری سفارش ہے مستقبل کے سلسلے میں پرامید رہنے کی۔ تمام بند راستوں کو کھولنے والی اس اہم چابی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ ایک سچی امید اور زمینی حقائق پر مبنی امید ہے۔ میں نے ہمیشہ جھوٹی اور خود فریبی پر مبنی امید سے خود کو دور رکھا ہے، البتہ خود کو بھی اور تمام لوگوں کو بھی بے جا مایوسی اور جھوٹے خوف سے بھی ہمیشہ دور رکھا اور اب بھی دور رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس پورے چالیس سال میں اور ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی دشمن کی تشہیراتی پالیسی اور سب سے فعال منصوبہ مستقبل کے سلسلے میں عوام، یہاں تک کہ ہمارے عہدیداران اور ذمہ داران کو مایوسی میں مبتلا کرنا ہے۔ جھوٹی خبریں، معاندانہ تجزئے، حقائق کو مسخ کرنا، امید بخش تغیرات کو چھپانا، معمولی خامیوں کو بہت بڑا ظاہر کرنا، بڑی خوبیوں کو معمولی ظاہر کرنا یا سرے سے ان کا انکار کر دینا ملت ایران کے دشمنوں کے ہزاروں ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کا دائمی منصوبہ ہے۔ البتہ ملک کے اندر ان کے حاشیہ بردار بھی نظر آتے ہیں جو آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کی خدمت کرتے ہیں۔ آپ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس تشہیراتی محاصرے کو توڑنے کے عمل میں پیش پیش رہیں۔ اپنے اندر اور دوسروں کے اندر مستقبل کے تعلق سے جذبہ امید کو پروان چڑھائیے۔ خوف اور مایوسی کو خود سے بھی اور دوسروں سے بھی دور کیجئے۔ یہ آپ کا سب سے پہلا اور سب سے بنیادی جہاد ہے۔ امید آفریں علامات جن میں بعض کا ذکر ہوا، آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے اس درخت کا عالم یہ ہے کہ نئے نکلنے والے پتے خشک ہوکر گرنے والوں پتوں سے بہت زیادہ ہیں۔ دیانت دار اور خدمت گزار ہاتھ اور دل بدعنوان اور خائن ہاتھوں اور دلوں اور مفاد پرستوں سے بہت زیادہ ہیں۔ دنیا ایرانی نوجوان کو، ایرانی استقامت کو، ایرانی جدت عملی کو گوناگوں میدانوں میں احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اپنی قدر کیجئے۔ اللہ کی عطا کردہ قوت سے مستقبل ساز قدم اٹھائیے اور کارنامے انجام دیجئے۔

اور اب کچھ سفارشات:

1۔علم و تحقیق: علم، ملک کی عزت و طاقت کا بالکل نمایاں وسیلہ ہے۔ دانائی کا دوسرا رخ توانائی ہے ۔ مغربی دنیا نے اپنے علم و دانش کے ذریعے ہی اپنے لئے دو سو سالہ اقتدار، دولت و ثروت اور اثر و رسوخ  فراہم کیا اور اعتقادی و اخلاقی بنیادیں نہ ہونے کے باوجود پسماندہ معاشروں پر مغربی طرز زندگی مسلط کرکے، کاروان علم کے ذریعے، ان کی معیشت و سیاست کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہم مغرب کی طرح علم سے غلط فائدہ اٹھانے کی سفارش نہیں کرتے، لیکن تاکید کے ساتھ اس بات پر زور دیتے  ہیں کہ ملک میں علم و دانش کے چشمے جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ ہماری قوم کے اندر علم و تحقیق کی صلاحیت دنیا کی اوسط صلاحیت سے زیادہ ہے۔ تقریبا دو عشرے سے ملک کے اندر علمی انقلاب جاری ہے اور دنیا کو حیرت میں ڈال دینے والی رفتار سے، یعنی دنیا میں علمی پیشرفت کی اوسط رفتار سے گیارہ گنا زیادہ تیزی کے ساتھ، یہ علمی انقلاب آگے بڑھ رہا ہے۔ اس عرصے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری کامیابیاں دنیا کے دو سو ملکوں میں ہمیں سولہویں پوزیشن پر لے گئی ہیں اور عالمی مبصرین اس پر انگشت بدنداں ہیں۔ بعض جدید سائنسی شعبوں میں ملک پہلی پوزیشن پر پہنچ چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہوا کہ وطن عزیز اقتصادی اور علمی بائیکاٹ سے روبرو تھا۔ ہم مخالف سمت میں جس کے دشمن بہت ہیں، آگے بڑھتے ہوئے بڑے ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے اس پر شب و روز ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ راستہ جو اب تک طے کیا گيا ہے، اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود ابھی صرف ایک شروعات ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہم دنیا میں علم و دانش کی بلند چوٹیوں سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں تک پہنچنا ہے۔ اہم ترین علمی و سائنسی شعبوں میں ہمیں موجودہ حدوں سے گزر جانا ہے۔ اس مرحلے سے ہم ابھی کافی پیچھے ہیں۔ ہم نے صفر سے شروعات کی ہے۔ اس دور میں جب دنیا میں نئی نئی علمی رقابت شروع ہوئی تھی، پہلویوں اور قاجاروں کے دور کی شرمناک علمی پسماندگی ہمارے اوپر کاری ضرب ثابت ہوئی اور اس نے ہمیں اس تیز رفتار علمی کارواں سے میلوں پیچھے روک دیا۔ ہم نے ابھی سفر شروع کیا ہے اور تیز رفتاری سے آگے جا رہے ہیں، لیکن کئی سال تک اسی رفتار سے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا تاکہ اس پسماندگی کی بھرپائی ہو سکے۔ میں نے ہمیشہ یونیورسٹیوں کو، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو، تحقیقاتی مراکز اور محققین کو، اس بارے میں بہت سنجیدگی سے اور دو ٹوک انداز میں انتباہ دیا ہے اور انھیں خبردار کیا ہے، تاہم اس وقت میرا یہی مطالبہ آپ نوجوانوں سے ہے کہ مزید احساس ذمہ داری کے ساتھ، کسی جہاد کی مانند اس راہ پر گامزن رہئے۔ ملک کے اندر ایک علمی انقلاب کی داغ بیل رکھی جا چکی ہے اور یہ انقلاب ایٹمی سائنسدانوں جیسے افراد کی قیمتی قربانی دے چکا ہے۔ اٹھ کھڑے ہوئیے اور بدخواہ اور کینہ توز دشمن کو جو آپ کے علمی جہاد سے سخت ہراساں ہے، ناکام بنا دیجئے۔

 2۔ روحانیت اور اخلاق: 'روحانیت' یعنی اپنے اور معاشرے کے اندر اخلاص، ایثار، توکّل اور ایمان جیسے اقدار کو بڑھانا اور نمایاں کرنا اور 'اخلاق' یعنی خیرخواہی، عفو و درگذشت، ضرورتمندوں کی مدد، صداقت، شجاعت، تواضع، خود اعتمادی اور دیگر اچھے خصائل۔ روحانیت و اخلاقیات تمام شخصی و سماجی سرگرمیوں اور اقدامات کو خاص رخ دینے والے اور سماج کی بہت اہم ضرورت ہیں۔ اگر یہ ہوں تو زندگی کی فضا مادی وسائل کی قلت کے باوجود جنت بن جاتی ہے اور اگر ان کا فقدان ہو تو مادی وسائل کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں زندگی جہنم بن جاتی ہے۔

روحانی شعور اور اخلاقی ضمیر معاشرے میں جتنا زیادہ بیدار ہوگا اتنی زیادہ برکتیں ہوں گی۔ بلا شبہ اس کے لئے مجاہدت اور سعی و کوشش کی ضرورت ہے اور حکومتوں کے تعاون اور شراکت کے بغیر اس کوشش اور مجاہدت میں کچھ خاص کامیابی نہیں مل سکتی۔ اخلاقیات و روحانیت حکم اور فرمان جاری کرنے سے حاصل نہیں ہوگی، یعنی حکومتیں تحکمانہ لہجہ استعمال کرکے اسے حاصل نہیں کر سکتیں۔ ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکومتی عمائدین اخلاقی و روحانی منش اپنے اندر پیدا کریں، دوسرے یہ کہ معاشرے میں ان کی ترویج کے لئے ماحول سازی کریں، اس سلسلے میں سماجی اداروں کو کام کرنے کا موقع اور جگہ دیں، ان کی مدد کریں۔ روحانیت و اخلاقیات کے خلاف کام کرنے والے مراکز کا عقلی روشوں سے مقابلہ کریں۔ مختصر یہ کہ یہ موقع نہ دیں کہ جہنمی افراد عوام کو فریب میں ڈال کر انھیں دوزخی بنائیں۔

پیشرفتہ اور وسیع ابلاغیاتی وسائل، روحانیت اور اخلاقیات کے دشمن مراکز کے ہاتھ میں بہت خطرناک ہتھیار کی مانند ہیں۔ آج دشمنوں کی جانب سے انھیں ہتھیاروں کی مدد سے نوجوانوں، کمسن لڑکے لڑکیوں یہاں تک کہ بچوں کے پاکیزہ دلوں پر کئے جانے والے حملوں کو ہم اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتی اداروں کے دوش پر بہت سنگین ذمہ داری ہے کہ بڑی ہوشیاری اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عام افراد اور غیر سرکاری اداروں کے دوش پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ در پیش دور میں ان امور کے بارے میں جامع کوتاہ مدتی اور میانہ مدتی منصوبے تیار کئے جائیں اور ان پر عمل ہو ان شاء اللہ۔

3۔اقتصاد: اقتصاد فیصلہ کن اور کلیدی شعبہ ہے ۔ مضبوط اقتصاد ملک کی ایک طاقت اور ملک کو بیرونی تسلط اور دراندازی سے محفوظ بنانے کا ذریعہ ہے۔ کمزور اقتصاد ایک ناتوانی ہے اور دشمنوں کے تسلط، مداخلت اور دراندازی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ خوشحالی اور غربت کا اثر انسان کی مادی زندگی اور روحانی زندگی دونوں پر پڑتا ہے۔ اقتصاد اسلامی معاشرے کا نصب العین تو نہیں لیکن ایسا ذریعہ ہے کہ جس کے بغیر اعلی اہداف تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ملک کے خود منحصر اقتصاد پر تاکید، ایسی معیشت پر تاکید جو بڑی مقدار میں اور اعلی کوالٹی والے پروڈکشن پر استوار ہو، جس میں منصفانہ تقسیم ہو، جس میں صرف و استعمال کفایت شعاری کے ساتھ اور فضول خرچی سے پاک ہو، جس میں خردمندانہ انتظامی تعلقات ہوں حالیہ چند برسوں میں اس حقیر کی جانب سے بار بار کی گئی ہے تو اس کی وجہ معاشرے کی آج کی زندگی اور مستقبل کی زندگی پر اقتصادیات کی حیرت انگیز تاثیر ہے۔

اسلامی انقلاب نے ہمیں طاغوتی دور کی کمزور، اغیار پر منحصر اور بدعنوان معیشت سے نجات کا راستہ دکھا دیا، لیکن کمزور کارکردگی نے ملکی معیشت کو اندر اور باہر سے مشکلات میں الجھا دیا۔ بیرونی مشکلات دشمن کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں اور اس کے وسوسے ہیں، اگر اندرونی مشکلات کو حل کر لیا جائے تو ان بیرونی مشکلات کا اثر کم یا ختم ہو جائے گا۔ اندرونی مشکلات ساختیاتی خامیاں اور انتظامی کمزوریاں ہیں۔

اہم ترین خامی اقتصاد کا تیل پر منحصر ہونا، اقتصاد کے ان شعبوں کا سرکاری ہونا جو حکومت کی ذمہ داریوں میں نہیں آتے، داخلی توانائیوں اور وسائل کے بجائے بیرونی دنیا کی طرف اس کا مائل ہونا، ملک کی افرادی قوت کی توانائیوں کے بہت کم حصے کا استعمال، غیر متوازن اور معیوب انداز میں بجٹ کی تقسیم، اقتصاد کی اجرائی پالیسیوں میں استقلال کا فقدان، ترجیحات کو ملحوظ نہ رکھنا اور بعض حکومتی شعبوں میں اضافی بلکہ اسراف کی حد تک بے جا اخراجات۔ ان سب کا نتیجہ عوام الناس کی زندگی کی مشکلات جیسے نوجوانوں کی بے روزگاری، کمزور طبقات میں آمدنی کی کمی وغیرہ ہے۔

ان مشکلات کا حل مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں ہیں، جس کے تمام حصوں کے لئے حکومتوں کے ذریعے اجرائی پروگرام ترتیب دینے اور جذبہ عمل، کام کی لگن اور فرض شناسی کے ساتھ کام اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کا داخلی ستونوں پر استوار ہونا، پیداواری یونٹوں پر مشتمل ہونا، نالج بیسڈ ہونا، معیشت کو عوامی بنانا، معیشت کو اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش سے حکومت کا اجتناب، مذکورہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو بیرونی دنیا کے ساتھ تعاون کے قابل بنانا، ان مشکلات کے اہم حل ہیں۔ بلا شبہ نوجوان، دانشمند، مومن اور اقتصادی علوم پر عبور رکھنے والی ٹیم کا حکومت کے اندر موجود ہونا ان اہداف کی تکمیل کر سکتا ہے۔ آنے والے وقت میں ایسے نوجوانوں کو موقع دیا جانا چاہئے۔

ملک بھر کے عزیز نوجوان یہ یاد رکھیں کہ تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اقتصادی مشکلات کی واحد وجہ پابندیاں ہیں اور پابندیوں کی وجہ استکباری طاقتوں کے مقابلے میں مزاحمت کرنا اور دشمن کے سامنے نہ جھکنا ہے اور مشکلات کو حل کرنے کا طریقہ دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا اور بھیڑئے کے پنجے کو چومنا ہے تو یہ ناقابل تلافی غلطی ہے۔ یہ سراسر غلط تجزیہ ہے۔ بے شک اس طرح کا تجزیہ ملک کے اندر کچھ غافل افراد کے قلم اور زبان سے نکلتا ہے لیکن اس کا سرچشمہ غیر ملکی فکری مراکز اور سازشیں ہیں جو سیکڑوں زبانوں کا استعمال کرکے ملک کے اندر پالیسی ساز افراد، پالیسیوں کے مقدمات فراہم کرنے والے افراد اور رائے عامہ کو تلقین کرتے ہیں۔

4۔   بدعنوانی کے خلاف مجاہدت اور سماجی انصاف:  بدعنوانی کے خلاف مجاہدت اور انصاف، لازم و ملزوم ہیں۔ اقتصادی، اخلاقی اور سیاسی بدعنوانی ملکوں اور نظاموں کے لئے ناسور کی طرح ہے اور اگر حکومتوں میں در آئے تو تباہ کن زلزلہ اور ان کی قانونی حیثیت پر ضرب ہے! اور یہ (بدعنوانی کے خلاف مجاہدت اور انصاف) اسلامی جمہوری نظام کے لئے دیگر نظاموں سے کہیں زیادہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کو دنیا میں رائج قانونی حیثیتوں سے بالاتر قانونی حیثیت اور سماجی مقبولیت سے زیادہ محکم بنیاد کی ضرورت ہے۔ دولت، عہدے اور سربراہی کا لالچ تاریخ میں سب سے زیادہ علوی حکومت یعنی خود حضرت المومنین علیہ السلام کی حکومت میں کچھ لوگوں کے پھسل جانے کا سبب بنا، لہذا اسلامی جمہوریہ میں بھی جس کے عہدیداران اور حکام کے درمیان ایک زمانے میں زہد، سادہ زیستی اور انقلابی زندگی کے سلسلے میں مقابلہ ہوا کرتا تھا، اس خطرے کا پیدا ہو جانا بعید نہیں ہے۔ لہذا مصلحت یہ ہے کہ تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) میں ایک فعال، گہری نظر رکھنے والا اور ٹھوس کارروائی کرنے والا ادارہ دائمی طور پر کام کرے اور حقیقی معنی میں بدعنوانی کا مقابلہ کرے، خاص طور پر حکومتی اداروں کے اندر۔

البتہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے ملازمین اور عہدیداران میں بہت سے دیگر ممالک اور خاص طور پر طاغوتی شاہی حکومت کے دور کے مقابلے میں جو  سراپا بدعنوانی کا گہوارا تھی، بدعنوانی بہت کم ہے اور بحمد اللہ اس نظام کے کارکنان نے اکثر و بیشتر اپنی پاکدامنی کی حفاظت کی ہے، لیکن اگر چھوٹی مقدار میں بھی بدعنوانی ہے تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ سب جان لیں کہ اقتصادی پاکیزگی اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے تمام عہدیداران کی قانونی حیثیت کی شرط ہے۔ سب لالچ کے ابلیس سے محتاط رہیں، لقمہ حرام سے اجتناب کریں۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی سے طلب نصرت کریں۔ حکومتی اور نگراں ادارے پوری توجہ اور سختی کے ساتھ بدعنوانی کو ابتدائی مرحلے میں ہی ختم کریں اور اسے بڑھنے کا موقع ہرگز نہ دیں۔ اس لڑائی کے لئے صاحب ایمان، مجاہد، سلیم الطبع، با کردار افراد اور نورانی قلوب کی ضرورت ہے۔ یہ لڑائی اسلامی جمہوریہ کی طرف سے معاشرے میں سماجی انصاف قائم کرنے کی ہمہ جہتی کوششوں کے سلسلے میں بہت موثر چیز ہے۔

انصاف و مساوات تمام انبیائے الہی کے ابتدائی اہداف میں ہے اور اسلامی جمہوریہ میں بھی اسے وہی شان و اہمیت حاصل ہے۔ یہ مقدس لفظ تمام ادوار اور تمام خطوں میں موجود رہا ہے لیکن حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے دور حکومت کے علاوہ کبھی بھی اس پر مکمل عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم ایک حد تک ہر جگہ اور ہر وقت یہ ممکن ہے اور یہ تمام افراد خاص طور پر عہدیداران اور حکمرانوں کے دوش پر اہم فریضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس راہ میں بہت اہم قدم اٹھائے ہیں جن میں بعض کا اختصار سے اوپر ذکر کیا گيا۔ البتہ اس کی توضیح اور تشریح کے لئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقائق کو مسخ کرنے کی سازش یا کم از کم سکوت یا پھر پردہ پوشی کی کوشش، جو اس وقت انقلاب کے دشمنوں کا ایک اہم منصوبہ ہے، ناکام ہو جائے۔

ان ساری چیزوں کے باوجود میں عزیز نوجوانوں سے جن سے ملک کے مستقبل کی توقعات وابستہ ہیں، صریحی طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ اب تک ہوا ہے اور جو کچھ ہونا چاہئے تھا اور ہونا چاہئے دونوں میں کافی فاصلہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں عہدیداران کو ہر لمحہ محرومیوں کو دور کرنے کی فکر ہونا چاہئے، انھیں گہرے طبقاتی فاصلوں کے سلسلے میں ہمیشہ فکرمند رہنا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ میں دولت کمانا نہ صرف یہ کہ جرم نہیں بلکہ قابل تعریف کام ہے، لیکن عمومی وسائل کی تقسیم میں تفریق، کچھ خاص لوگوں کو نوازنا، اقتصادی فریب کاروں سے مدارا کرنا، یہ سب کچھ نا انصافی پر منتج ہوتا ہے اور اس کی سخت مناہی ہے۔ اسی طرح مدد کے ضرورتمند طبقات سے بے توجہی کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ یہ باتیں پالیسیوں اور قوانین کی شکل میں متعدد دفعہ کہی جا چکی ہیں، تاہم ان کے مناسب نفاذ کے لئے آپ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ ہیں۔ اگر ملک کے مختلف شعبوں کا انتظام مومن، انقلابی، دانشمند اور ماہر نوجوانوں کو سونپا جائے جن کی تعداد بحمد اللہ کافی زیادہ ہے تو یہ امیدیں ان شاء اللہ ضرور پوری ہوں گی۔

5۔ آزادی وخود مختاری: قومی خود مختاری کا مطلب دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی زور زبردستی اور تسلط سے قوم اور حکومت کی آزادی ہے اور سماجی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ تمام افراد معاشرہ کو سوچنے اور فکر کرنے، عمل کرنے  اور فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو۔ اور یہ دونوں ( قومی خومختاری اور سماجی آزادی) جملہ اسلامی اقدار میں شامل ہیں اور انسان کے لئے عطیہ الہی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی عوام کے لئے حکومتوں کا احسان نہیں بلکہ حکومتوں کا فرض ہے کہ یہ دونوں چیزیں فراہم کریں۔ آزادی اور خود مختاری کی قدر و منزلت کو وہ لوگ زیادہ سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کے لئے جد و جہد کی ہے اور ایرانی عوام اپنی چالیس سالہ مجاہدت کے ساتھ ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔ ایران کی موجودہ آزادی و خود مختاری لاکھوں عظیم، شجاع اور جذبہ قربانی رکھنے والے انسانوں کے پسینے نہیں بلکہ خون کی کمائی ہے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی مگر وہ سب انسانیت کے عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ انقلاب کے شجرہ طیبہ کے اس ثمر کو سادہ لوحی پر مبنی اور بسا اوقات معاندانہ توجیہ و تاویل سے خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ سب خاص طور پر اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے پورے وجود سے اس کی حفاظت کرے۔ ظاہر ہے کہ خود مختاری کا مطلب ملک کی سیاست و معیشت کو اپنی سرحدوں کے اندر محصور کر لینا، آزادی کا مطلب اخلاقیات، قانون، الہی اقدار اور دوسرے کے حقوق سے ٹکرا جانا نہیں ہونا چاہئے۔

6۔ قومی عزت، خارجہ روابط،  دشمن سے فاصلہ:  قومی عزت، خارجہ روابط  اور دشمن سے فاصلہ، یہ تینوں بین الاقوامی روابط میں "عزت، حکمت اور مصلحت"  کے اصول اور معیار ہیں۔ عالمی میدان آج ایک ایسی چیز کا شاہد ہے جو واقع ہو چکی ہے یا وقوع پذیر ہے اور وہ ہے امریکا اور صیہونزم کے تسلط کے مقابلے میں استقامت پر استوار اسلامی بیداری کی تحریک! وہ ہے مغربی ایشیا کے خطے میں امریکی پالیسیوں کی شکست اور علاقے میں ان کے ساتھ تعاون کرنے والے خیانت کاروں کی ہزیمت، مغربی ایشیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مقتدرانہ موجودگی میں توسیع اور پوری تسلط پسند دنیا میں اس کا ردعمل ہے!

یہ اسلامی جمہوریہ کے وقار کے کچھ مناظر ہیں جو مجاہد عہدیداروں کی  شجاعت اور مدبرانہ کوششوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ استعماری نظام کے عمائدین فکرمند ہیں۔ ان کی تجاویز عام طور پر فریب، دھوکے اور دروغ گوئی پر مبنی ہیں۔ آج ملت ایران کی نظر میں جرائم پیشہ امریکہ کے علاوہ کچھ یورپی حکومتیں بھی دھوکے باز اور ناقبل اعتماد ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کو چاہئے کہ ان سے اپنے فاصلوں کو بڑی دقت نظری سے قائم رکھے، اپنی انقلابی و ملی اقدار سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے، ان کی کھوکھلی دھمکیوں سے نہ ڈرے اور ہر حال میں اپنے ملک اور قوم کے وقار کو مد نظر رکھے اور اپنے انقلابی موقف کو قائم رکھتے ہوئے حکیمانہ انداز میں اور مصلحت پسندی کے ساتھ ان سے اپنے مسائل کو حل کرے۔ امریکہ کے سلسلے میں کسی بھی مشکل کا کوئی حل نکلنے کی امید نہیں ہے اس سے مذاکرات کا مادی و معنوی نقصان ہونے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

7۔ طرز زندگی :  طرز زندگی کے بارے میں ضروری باتیں بہت ہیں۔ انہیں کسی اور موقع کے لئے چھوڑتا ہوں، یہاں صرف اس جملے پر اکتفا کروں گا کہ ایران میں مغربی طرز زندگی کی ترویج میں مغرب کی کوششوں نے ہمارے ملک و قوم کو نا قابل تلافی اخلاقی، اقتصادی، دینی اور سیاسی نقصانات پہنچائے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لئے پوری ہوشیاری کے ساتھ ہمہ گیر مجاہدت درکار ہے اور اس سلسلے میں میری امید آپ نوجوانوں سے وابستہ ہے۔

آخر میں عظیم اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے جشن مین عزیز ملت ایران کی پر وقار، افتخار آمیز اور دشمن کی کمر توڑ دینے والی شرکت پر اظہار تشکر کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ مین سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔ سلام ہو حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ پر، سلام ہو عظیم المرتبت شہیدوں کی پاکیزہ ارواح  اور ہمارے بزرگوار امام کی روح مطہرہ پر، سلام ہو عزیز ملت ایران اور بالخصوص نوجوانوں پر۔

 

آپ کا دعا گو

سید علی خامنہ ای

22 بہمن 1397 (ہجری شمسی مطابق 11 فروری 2019)