رہبر انقلاب اسلامی نے اس خطاب میں شہیدوں کو یاد کرنے، راہ خدا کے مجاہدوں اور جہاد کی قدردانی اور ان کے افتخار آمیز راستے پر گامزن ہونے کی ترغیب دلانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مقدس دفاع کے دوران شہیدوں اور مجاہدوں کے خاص احترام اور ان پر فخر کئے جانے کی وجہ سے ملک کے اندر لوگوں کے درمیان مقدس دفاع کے میدان میں اترنے کا جذبہ بڑھا اور آج شہیدوں کی یاد منائے جانے پر دشمنوں کی جانب سے مخالفت کا مقصد شہادت کے افتخار آمیز راستے کو مسدود کرنا اور عوام الناس کے اندر مجاہدانہ عمل کے شوق کو روکنا ہے۔ (۱)

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

بسم الله الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

سب سے پہلے میں آپ محترم حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ بڑا مناسب قدم اٹھایا جو ان شاء اللہ نتیجہ خیز بھی ثابت ہوگا۔ میری مراد شہیدوں کی قدردانی اور شہیدوں کے پاکیزہ ناموں کا تذکرہ ہے۔ اگر ہم کوئی عمل انجام دینے والے شخص کو یا کسی عمل کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے خاص اہمیت دیتے ہیں تو یہ صرف اس شخص اور عمل کی تعظیم نہیں بلکہ یہ اس عمل میں تسلسل لانے اور اسے آگے جاری رکھنے میں بھی بہت موثر ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ جب کوئی شخص جہاد کے میدان میں جاتا ہے اور آپ اس کی قدردانی کرتے ہیں تو اس صورت میں ایک تیسرا عمل بھی انجام پاتا ہے اور وہ ہے دوسروں کو اسی راہ پر چلنے کی ترغیب دلانا۔ مسلط کردہ جنگ میں، ہمارے آٹھ سالہ مقدس دفاع میں ایسا ہوا ہے۔ یعنی کوئی نوجوان محاذ جنگ پر گیا اور شہید ہوا۔ اس کے والد، اس کی والدہ اور دیگر افراد نے سب نے اس پر فخر کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سارے افراد میدان جہاد کی سمت چل پڑے۔ اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ مقدس دفاع کے دور میں مجاہدین کا ذکر بڑے احترام سے کیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عمل اور اس میدان کی جانب مائل ہوئی۔ ایسا مقدس دفاع میں ہوا ہے اور یہ سلسلہ کم و بیش تا حال جاری رہا ہے۔

توجہ فرمائيے! اسی تیسری خصوصیت کی وجہ سے، اسی تیسری چیز کی وجہ سے آپ کے مخالفین، آپ کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ شہدا کی یاد نہ منائی جائے، شہدا کا احترام اور ان پر افتخار نہ کیا جائے تاکہ شہادت کا راستہ مسدود ہو جائے، بند ہو جائے، تاکہ دوسروں کو مجاہدانہ عمل انجام دینے کی ترغیب نہ ملے۔ انھوں نے بھی دیکھا اور تجربہ کیا ہے، اسی طرح ہم نے اور آپ نے بھی دیکھا اور تجربہ کیا ہے جب شہیدوں کا نام، شہیدوں کی یاد تعظیم و احترام سے منائی جاتی ہے تو آج کا نوجوان جس نے نہ تو جنگ کا زمانہ دیکھا ہے اور نہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا دور دیکھا ہے، نہ اسے اس دور کی کوئی بات یاد ہے، جب سنتا ہے کہ علاقے کے دوسرے حصے میں، ہزاروں فرسخ کے فاصلے پر دشمنوں سے پیکار جاری ہے تو اس کے اندر میدان جہاد میں پہنچ جانے کی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اٹھتا ہے اور روانہ ہو جاتا ہے، حلب میں، البو کمال میں، زینبیہ میں جاکر لڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور جام شہادت بھی نوش کرتا ہے۔ آپ دیکھئے! اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے شہیدوں کا احترام کیا۔ چونکہ شہادت کی اس قدر تعظیم کی جاتی ہے اس لئے فطری طور پر ملک کے اندر شہادت پسندی اور مجاہدانہ عمل کے جذبے کو تقویت ملتی ہے۔

اور کسی بھی قوم کی قوت و توانائی کا راز یہی ہے کہ اس کے نوجوان، اس کے فعال افراد مختلف میدانوں میں دلیری کے ساتھ قدم رکھیں، بے جگری سے وارد ہوں اور خوف کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے دلیر افراد ہر حال میں شہید ہو جائیں! نہیں، ہم اس کوشش میں نہیں ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم سب کے سب گوناگوں اور دشوار میدانوں میں سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جانے کی توانائی کا مظاہرہ کریں، استقامت و پائيداری کی توانائی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ قوم فتحیاب ہو جائے گی۔ یہ طاقتور قوم ہے۔ یہ قوم ہرگز رسوائی برداشت نہیں کرے گی۔ کوئی بھی اس پر مسلط نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے کہ شہیدوں کی یاد منانا کتنا اہم ہے؟!

جو باتیں آپ حضرات نے بیان کیں، جو کام انجام دئے گئے وہ سب بہت اچھے اور کئی قسم کے کام ہیں، آپ کا انتخاب بہت اچھا ہے۔ بہت سے کام ہیں جن میں فنکاری کا پہلو بھی ہے، علمی پہلو بھی ہے، تشہیراتی پہلو بھی ہے، خدمت رسانی کا پہلو بھی ہے، آپ نے تمام چیزوں کو ملحوظ رکھا ہے اور بہت اچھے کام انجام پائے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ بہترین انداز میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہماری توجہ اس بات پر ہو کہ شہیدوں کا پیغام ہمارے لئے کیا ہے؟ یہ بہت اہم چیز ہے۔ وَیَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون؛(2) یہ شہیدوں کا پیغام ہے۔ آج 'سافٹ وار' میں ملت ایران کے دشمنوں کی ساری کوشش کس بات پر مرکوز ہے؟ اس بات پر مرکوز ہے کہ ملت ایران کو غمگین، مایوس اور خوفزدہ کر دے۔ ملت ایران کے اندر ایسی کیفیت پیدا کر دے کہ وہ کسی اہم میدان میں قدم رکھنے سے ڈرے، مایوسی میں مبتلا رہے۔ شہیدوں کا پیغام اس کے بالکل برعکس ہے؛ اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون، میدان شہادت میں خوف و حزن نہیں ہے۔

یہ پیغام شہیدوں کی شہادت والے دن تک محدود نہیں ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ مثال کے طور پر تیس سال، پینتیس سال پہلے شہید نے یہ پیغام دیا تھا۔ جی نہیں، یہ پیغام شہیدوں کا دائمی پیغام ہے۔ یعنی وہ اس وقت جب جوار الہی میں اور نعمت خداوندی کے جوار میں ہیں تب بھی دائمی طور پر ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں، یہ بشارت دے رہے ہیں؛ وَیَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون، یہ شہیدوں کا پیغام ہے۔ اگر ہم مقابلے کے میدان میں اترتے ہیں۔ یعنی وہ کام کرتے ہیں جس سے ہمارے دشمن خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی ہم سے خوف و ہراس اور غم و اندوہ دور کر دیتا ہے۔ چنانچہ مقدس دفاع کے زمانے میں یہی صورت حال تھی۔ جو لوگ محاذ جنگ پر جاتے تھے اور کچھ عرصہ وہاں رہ جاتے تھے تو جب وہ اپنے گھر اور اپنے شہر لوٹ کر آتے تھے تو شہر کی فضا انھیں بڑی بوجھل لگتی تھی، وہ واقعی دباؤ میں رہتے تھے۔ جبکہ محاذ جنگ انھیں بہشت جھونکوں کا احساس دلاتا تھا، وہاں ایک طرح کی روحانیت تھی، ایک معنویت تھی، بہت خوش رہتے تھے، یہ خوشی روحانی اور معنوی خوشی ہوتی تھی، ذکر خداوندی میں غرق رہنے کی خوشی ہوتی تھی۔ وہ ایسے تھے۔ وہاں واقعی یہ نوجوان گولیوں کی بارش میں، گولوں کی بارش میں، شدید فائرنگ میں بڑے مطمئن نظر آتے تھے، یہ جذبہ قربانی کی خصوصیت ہے، یہ جہاد فی سبیل اللہ اور خوشنودی پروردگار کے لئے انجام دی جانے والی مجاہدت کے میدان میں شرکت کی خصوصیت ہے۔ جب وہ شہر واپس آتے تھے اور یہاں کے روابط، شہری انتظامات، الگ الگ طرح کے تعلقات کو دیکھتے تھے جو ماحول میں ہوتے ہیں تو ان کی طبیعت مکدر ہو جاتی تھی۔ وہ ہم سے کہتے بھی تھے اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایک خاص پاکیزگی ہوتی تھی، وہاں روحانیت کا ماحول ہوتا تھا، وہاں بہشت ہوتی تھی، «لا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون» کا حقیقی مصداق وہیں ہے۔

الحمد للہ کرمان کے عوام ہمیشہ امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کرمان کے بارے میں، کرمان کے عوام، وہاں کے علما اور نوجوانوں کے بارے میں میری بہت اچھی یادیں ہیں۔ سنہ 63، 64 سے کرمان کے لوگوں سے میرے روابط ہوئے اور وہاں میری آمد و رفت شروع ہوئی۔ وہاں ہمیشہ یہی ماحول تھا۔ مومن، شریف، حقیقت میں با نجابت اور کام کی لگن رکھنے والے افراد تھے جو صحیح راستے پر چلے۔ یعنی وہاں اکثریت ایسی تھی۔ بحمد اللہ ان کے اندر سے بڑی ہستیاں نکلیں۔ ان کے علما میں بھی ایسی بڑی ہستیاں ہیں۔ ہم نے کرمان میں جن علما کو دیکھا وہ واقعی بہت اچھے، مومن اور نجیب افراد تھے۔ اہل کرمان کی نجابت بہت مشہور ہے۔ آج بھی بحمد اللہ کرمان کے عوام اسلام اور انقلاب کی خدمت کر رہے ہیں۔ انھیں چاہئے کہ اسی طرح زیادہ سے زیادہ محنت کریں، کام کریں۔ خاص طور پر نوجوان، بالخصوص نوجوان۔ تاکہ ملک کی پیشرفت میں اپنا رول ادا کر سکیں جس طرح ماضی میں انھوں نے یہ رول ادا کیا ہے۔

اور ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے کہ آپ ان بڑے فرائض منجملہ شہیدوں کی قدردانی کے فریضے کو بنحو احسن ادا کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقات کی صورت میں انجام  پائی صوبہ کرمان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور کرمان کے امام جمعہ آنجنابان حجت الاسلام و المسلمین حسن علی دادی سلیمانی اور صوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی ابو حمزہ نے بریفنگ دی۔

2) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر۱۷۰ کا ایک حصہ «... اور ان لوگوں کو جو ان کی راہ پر گامزن ہے مگر ہنوز ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں بشارت دیتے ہیں کہ ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔‌»