بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے شعرا و مداحان اہل بیت علیہم السلام تہران میں حسینیہ امام خمینی میں جمع ہوئے۔ اس دن کی مناسبت سے منعقدہ جشن میں شعرا و مقررین کے ساتھ ہی  رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی شرکت کی۔ شعرا نے اپنا منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا اور مقررین نے ذکر اہل بیت کیا۔

7 اسفند 1397 ہجری شمسی مطابق 26 فروری 2019 کو منعقد ہونے والے اس جشن میں رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اپنے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شعرا و ذاکرین اہل بیت علیہم السلام کو اسلام و انقلاب کے اہداف کا مبلغ اور پاسباں قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس فن کو حسینی و فاطمی اہداف کی تبلیغ اور انقلاب کی تعلیمات کی ترویج کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا  خطاب

بسم ‌الله الرّحمن ‌الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا‌ و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

سب سے پہلے تو آپ سب کو اس عید کی مبارکباد! دوسرے یہ کہ اتنے سارے ذاکرین اور شعرا کو دیکھ کر، حسینی خطباء کو دیکھ کر ہمیں بے حد خوشی ہے۔ تقریبا سینتیس اڑتیس سال سے اس دن یہ جشن منعقد ہوتا آ رہا ہے، بحمد اللہ روز بروز اس کی کیفیت اور معیار میں بہتری آ رہی ہے۔ عزیز نوجوانو! یہ میں آپ سے کہہ رہا ہوں، یہ ایک سرمایہ ہے، ایک قیمتی انسانی سرمایہ ہے۔ اگر یہ یونہی پڑا رہے اور اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے تو اس کے ساتھ گویا ظلم ہوا ہے۔ اگر یہ سرمایہ خدا نخواستہ غلط راستے میں استعمال کیا جائے تب تو بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ اگر ہمارے  پاس اتنا بڑا سرمایہ موجود نہ ہوتا تو ہمارے دوش پر اتنی بڑی ذمہ داری بھی نہ ہوتی۔ مگر یہ سرمایہ موجود ہے۔ یہ انقلاب کی دین ہے، یہ اسلام کا عطیہ ہے، یہ سید الشہدا کا فیضان ہے، یہ حضرت فاطمہ زہرا کا انعام ہے، اس سرمائے کو ہمیں حسینی و فاطمی اہداف کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے۔

یہاں پڑھے گئے اکثر اشعار بہت اچھے تھے اور مجھے واقعی بہت مفید محسوس ہوئے۔ اشعار سے، انداز سے مجھے لطف آیا، تاہم آج جو مرحلہ ہماری قوم کے سامنے ہے وہ اسلامی انقلاب کی تعلیمات کی تشریح و تشہیر کا مرحلہ ہے اور یہ کام آپ کر سکتے ہیں۔ میں نے اسی نشست میں بارہا یہ بات کہی ہے کہ کبھی کبھی آپ کا ایک قصیدہ، آپ کی ایک غزل، آپ کی ایک مثنوی، بلکہ کبھی تو آپ کا ایک شعر پوری ایک تقریر کے برابر سامعین پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ آپ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔ اشعار میں قرآنی و اسلامی مضمون اور آپ کی آج کی اصطلاح کے مطابق فاطمی و حسینی مندرجات ہونے چاہئے۔ انقلاب کے اہداف کو کھلی نگاہ کے ساتھ، کھلی فکر کے ساتھ، گہرے افکار کے ساتھ اپنے اشعار میں جگہ دیجئے اور ان اشعار کو اپنی اچھی آواز میں، اپنے اچھے انداز میں، اپنی فنکارانہ روش سے نشستوں میں پیش کیجئے۔ اس کا ملت ایران کی عظیم پیش قدمی میں، اسلامی رجحان اور امت اسلامیہ پر بہت گہرا اثر مرتب ہوگا۔

میں بعض اوقات سنتا ہوں کہ صاحب فن مدح خواں کی محفل میں معرفت افزا اشعار اور مضمون کا فقدان ہوتا ہے! یہ گناہ ہے، یہ ظلم ہے! آپ کے پاس فن ہے، توانائی ہے، اسلامی سماج میں آپ کو بہترین موقع دستیاب ہے، یہ موقع ہمیشہ سے فراہم نہیں تھا۔ تاریخ کی عمر کے ادوار میں یہ موقع جس گھڑی اور جس لمحہ بھی ہاتھ آ جائے اسے غنیمت جانئے اور ہرگز ضائع نہ ہونے دیجئے! آج ہم اسلام کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ ایک دور تھا جب صرف کتاب سے، منبر سے اور تقریر سے ہی یہ کام ہو پاتا تھا، مگر آج یہ کام مدح سرائی کرنے والے افراد بھی کر سکتے ہیں۔ ماضی میں، طاغوتی شاہی دور میں اس کثرت کے ساتھ، اس بڑی تعداد میں شعرا اور گلوکار حضرات اہل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی نہیں کرتے تھے، آج بحمد اللہ ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ تعداد بھی بہت اچھی ہے، معیار بھی بہت اچھا ہے، معیار کو روز بروز مزید بلند کیجئے۔

آج دشمنوں کی نگاہیں ہم پر اور آپ پر، اس انقلابی قوم پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ بڑی توجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید کہیں سے کوئی کمزوری نظر آ جائے اور وہیں سے وہ دراندازی کریں۔ دشمن کی دراندازی کے امکانات والے پہلوؤں اور جگہوں کی شناخت حاصل کیجئے اور وہیں پر دشمن کے مقابل صف آرائی کیجئے۔ ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ آج ہم سب کے دوش پر ذمہ داری ہے، ہم سب کے دوش پر فرائض ہیں، شعرا اور مدح سرائی کرنے والوں کی صنف بھی ملک کے ذمہ دار طبقات میں سے ایک ہے۔ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کیجئے۔

البتہ شعر اور مدح سرائی کی زبان تقریر اور خطابت کی زبان سے الگ ہوتی ہے۔ اس میں اشعار ہوتے ہیں، تخیل ہوتا ہے، ہنر نمائی ہوتی ہے، فنکارانہ پیشکش ہوتی ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، تاہم اس کا رخ اور مضمون وہی ہونا چاہئے جس کی توقع ہم ایک اچھی مجلس، اچھی خطابت، اچھی کتاب، اچھی فلم سے کرتے ہیں۔ رخ وہی ہونا چاہئے۔ دشمنان اسلام کا وجود کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حقیقت و دین خدا کے دشمن تو دین کی پیدائش کے وقت سے ہی محاذ آرا رہے ہیں اور آج بھی وہی محاذ آرائی جاری ہے۔

رگ‌ رگ است این آب شیرین و آب شور- بر خلایق میرود تا نفخ صور (۲)

یہ سلسلہ آئندہ بھی رہے گا۔ یہ محاذ آرائی وہی ابراہیم، موسی، عیسی، پیغمبر ختمی مرتبت علیہم السلام کی محاذ آرائی ہے۔ آج آپ اسی محاذ میں کھڑے ہیں جس میں ایک دن حضرت موسی، ایک دن حضرت ابراہیم، ایک دن پیغمبر اکرم، ایک دن عمار یاسر، ایک دن امیر المومنین تھے۔ اگر ہم اپنی صف اور اپنے محاذ کو نہیں پہچانیں گے تو ہم سے غلطیاں ہوں گی۔ اگر دشمن کے محاذ اور صف کی ہمیں شناخت نہ ہوگی تو ہم سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ جناب عمار یاسر نے جنگ صفین میں دیکھا لشکر کے کچھ افراد مضطرب ہیں، پریشان ہیں، سمت اور ہدف کو بخوبی سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ حضرت عمار یاسر کو فورا اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا، آپ امیر المومنین علیہ السلام کی 'زبان گویا' کا کام کرتے تھے۔ وہ آکر اس جماعت کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا: مد مقابل محاذ کے پرچم کو، بنی امیہ کے پرچم کو آپ لوگ دیکھ رہے ہیں؟ جنگ بدر اور جنگ احد میں یہی پرچم ہمارے مقابل تھا، یہ وہی پرچم ہے!

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج بھی جو پرچم ایشیا کے علاقے میں، یورپ اور امریکہ کے علاقوں میں یا دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلامی انقلاب کے مقابل بلند ہوا ہے وہ وہی پرچم ہے۔ یہ وہی پرچم ہے جو حضرت ابراہم، حضرت موسی اور حضرت عیسی کے مد مقابل لہرایا گیا۔ وہ پرچم لہرانے والے نابود ہو گئے مگر حضرت موسی، عیسی و ابراہیم آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے زندہ و پائندہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی سے فرمایا: اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ وَ اَرى (۳)، ڈرو نہیں، خو‌فزدہ نہ ہو، گھبراؤ نہیں، اندازے کی غلطی نہ کرو، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ ارشاد ہوا؛ اِنَّنی مَعَکُما، فرعون کے فوجیوں کی اس عظیم تعداد کے مقابلے میں ظاہری طور پر دو غیر مسلح افراد کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن باطنی طور پر ساری طاقتیں انھیں دونوں کے ہاتھ میں تھیں۔ اس لئے کہ قوت و طاقت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کہہ رہا ہے کہ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ وَ اَرى، میں دیکھ رہا ہوں، سن رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارا قضیہ بھی یہی ہے۔ جسے یقین نہیں ہے وہ ان چالیس برسوں پر ایک نظر ڈال لے۔ ان چالیس برسوں میں ہمارے دشمن جو دنیا کی مادی قوت کا مرکز تھے اپنی پوری توانائی کے ساتھ اس انقلاب اور اس تحریک کے خلاف کھڑے ہو گئے، اس پر وار کئے اور اپنی ہر کوشش کر لی۔ واقعی انھوں نے سارا زور لگا دیا اور جو کچھ ان کے بس میں تھا کیا۔ آج چالیس سال بعد وہ پہلے سے کمزور ہو چکے ہیں اور ہم روز اول کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور بن چکے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ «اِنَّنی مَعَکُما»، اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے۔ «اَسمَعُ وَ اَرى» لیکن ایک شرط ہے کہ آپ بھی خدا کے ساتھ رہئے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (۴) ہمیں یہ سبق ہمارے بزرگوار امام سے ملا، ہم بھی اس وقت یہ چیز صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پاتے تھے، ہم بھی اس زمانے میں اس ماجرا کی گہرائی کو محسوس نہیں کر پاتے تھے، مگر وہ بزرگوار پوری گہرائی سے اس کا ادراک رکھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ خدا کے ساتھ رہئے اور وہ خود بھی خدا کے ساتھ تھے۔ اللہ کے ساتھ ہونے کا مطلب وہی ہے جو میں نے شروع میں آپ سے عرض کیا کہ آپ اپنے فرض پر عمل کیجئے۔ آپ ثنا خواں اور شاعر ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک افتخار ہے۔ آپ اگر امام حسین کی مدح کرتے ہیں، اگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مدح کرتے ہیں تو گویا آپ اپنی بھی مدح کرتے ہیں؛

مادح خورشید مدّاح خود است - که دو چشمم روشن و نامُرمَد است (۵)

یعنی ہم صحیح دیکھ سکتے ہیں، صحیح ادراک رکھتے ہیں، آپ خود اپنی بھی مدح سرائی کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑا افتخار ہے۔ اس افتخار سے، اس مقام سے، اس مرتبے سے بنحو احسن استفادہ کیجئے۔ لوگوں کو انقلاب کے اہداف کی جانب، ان مقاصد کی جانب جن کی وجہ سے انقلاب کی تحریک شروع ہوئی، آنے کی دعوت دیجئے۔ جس مقصد کے لئے یہ تحریک شروع ہوئی وہ ہے ایمان سے آراستہ دنیا، صحیح دنیا، امن و امان سے مزین دنیا، ایسی دنیا کی تعمیر جو حقیقی معنی میں آخرت کی کھیتی ہو۔ ایسی دنیا کی تعمیر اسلامی انقلاب کا ہدف ہے جس میں مادی آسائشیں بھی ہوں، بین الاقوامی وقار بھی ہو، روحانی مسرت بھی ہو۔ اس عظیم تحریک میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں جس کی کوشش میں ہم لگے ہوئے ہیں۔ ہم سب کے دوش پر ذمہ داریاں ہیں، آپ کے دوش پر بھی ذمہ داریاں ہیں، ان ذمہ داریوں پر عمل کیجئے۔

اس وقت میں خاص طور پر یہ تاکید کرنا چاہوں گا کہ خاندان اور کنبے کے موضوع پر خاص توجہ دیجئے۔ دشمن نے، ایران یا انقلاب کے دشمن نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن نے فیصلہ کر لیا ہے کہ نوع بشر کے اندر کنبے اور خاندان کے نظام کو پوری طرح نابود کر دینا ہے۔ کنبہ و خاندان سنت پروردگار ہے۔ انسانیت کا دشمن یعنی یہی بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام اور یہ صیہونیت تقریبا سو سال پہلے یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ بشریت کے اندر خاندان اور کنبے کے نظام کو ختم کر دیں۔ کہیں کہیں انھیں کامیابی بھی ملی ہے۔ جہاں لوگ اللہ سے دور تھے وہاں ان طاقتوں کو کامیابی مل گئی۔ ہمارے وطن عزیز ایران سمیت کچھ جگہوں پر وہ ناکام رہے لیکن اب بھی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ شادیوں کو بہت دشوار بنا دینا، تاخیر سے شادی کرنا، بہت کم بچے پیدا کرنا، وہ ازدواجی زندگی جسے وہ بالکل بے تکے طور پر 'وائٹ میریج' کہتے ہیں جو در حقیقت ازدواجی زندگی کی سب سے تاریک شکل ہے، یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خاندان اور کنبے کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ شہوت پرستی کی ترویج، حیا و عفت کو ختم کر دینا آج دشمن کا اہم منصوبہ ہے۔ آپ ان کے خلاف اپنا مشن شروع کیجئے۔ اس ملک کے نوجوانوں کی پاکیزگی اور اعلی کردار کو اپنا مقصد بنائیے، اس پر محنت سے کام کیجئے۔ یہ انقلاب کی حفاظت، انقلاب کے فروغ اور اسلامی نظام کی پاسبانی کا بہترین طریقہ اور سب سے موثر کام ہے۔

آپ سے ملاقات کی مجھے خوشی ہے۔ اللہ تعالی آپ سب پر لطف و کرم کا سایہ رکھے۔ آپ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعاؤں کے مستحق اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عنایت کے حقدار قرار پائيں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا نے منظوم کلام پیش کیا اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل بیان کئے۔

۲) مولوی، مثنوی معنوی، دفتر اوّل

۳) سوره‌ طه، آیت نمبر ۴۶ کا ایک حصہ

۴) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛‌«...اگر اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔»

۵) مولوى. مثنوى، دفتر پنجم؛ نامُرمَد: بےعیب، صحیح و سالم