بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میرے عزیزو، بھائیو، بہنو! آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرے لئے یہ جلسہ، آپ سے ملاقات بھی اور یہاں جو باتیں بیان کی گئیں ان کے اعتبار سے بھی بڑا لذت بخش اور شیریں ہے۔ آپ حضرات نے جو باتیں ذکر کیں ان میں بہت سی باتیں ہمارے دل کی باتیں ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اچھی عبارتیں، اچھے جملے، فکری گہرائی کا احساس دلانے والی پختہ عبارت دینی درسگاہوں کے نوجوانوں کی زبان سے نکلتی ہے تو واقعی بڑا لطف آتا ہے اور میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

ایک صاحب نے ہماری نوجوانی کے دور کی جانب اشارہ کیا۔ میں یہ عرض کروں گا کہ جس سطح کا ذکر آپ نے کیا اور جس سطح کی باتیں کی ہیں وہ اس فکری سطح سے بالاتر ہے جو ہم اپنی نوجوانی کے ایام میں رکھتے تھے۔ یعنی واقعی ایسا ہی ہے۔ میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا ہوں۔ نوجوانی کے دور میں ہمارے بھی ذہنوں میں کچھ خیالات آتے تھے، ہم کچھ باتیں کرتے تھے، لیکن آج آپ جس سطح کا کام کر رہے ہیں، آپ کی جو فکری سطح ہے، آپ کا جو انداز بیان اور بیان کی جو سطح ہے وہ اس سے بہت بلند ہے جو نوجوانی کے ایام میں ہماری تھی۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے پیشرفت، اس کا مطلب ہے تحرک پیدا ہونا۔ یہ تحرک بہت مبارک چیز ہے۔ البتہ تحرک کا سرچشمہ داخلی ہونا چاہئے اور مقامی اصول و ضوابط پر اس کا تکیہ ہونا چاہئے۔ ایک صاحب نے بڑا خوبصورت شعر پڑھا میں نے اس سے قبل یہ شعر نہیں سنا تھا، میں نے نوٹ کر لیا ہے؛

آب طلب‌ نکرده همیشه مراد نیست   گاهی بهانه ‌ای است که قربانی ‌ات کنند (۲)

یہ بغیر طلب کیا ہوا پانی، یہ چیز جو باہر سے لاکر ہمیں دیتے ہیں وہ تو پانی بھی نہیں ہے، آلودہ پانی ہے، اندرونی طور پر تحرک کا چشمہ ابلنا چاہئے، ہمیں بھی چشمے کی مانند ابلنا اور آگے بڑھنا چاہئے، آبیاری کرنا چاہئے۔ تو یہ جلسہ میرے لئے بہت اچھا رہا۔

جو باتیں آپ حضرات نے ذکر کیں ان کی جانب ایک اشارہ کرتا چلوں۔ جناب اعرافی صاحب نے اس پروگرام کا ذکر کیا جو تیار ہو رہا ہے یا تیار ہو چکا ہے اور اسے نافذ کیا جانا ہے۔ جو خصوصیات آپ نے بیان کیں ان کا حامل پروگرام بہت اچھا ہے اور بہت سے وہ مطالبات جو یہاں بیان کئے گئے اس سے پورے ہو جائیں گے۔ چونکہ جناب اعرافی صاحب نے یہ بیان کیا ہے اس لئے مجھے پوری امید ہے کہ یہ عملی جامہ پہنے گا۔ اس لئے کہ بحمد اللہ آپ خود بڑی قابل قدر صلاحیتوں کے مالک ہیں، مجھے بڑی امیدیں ہیں کہ یہ کام انجام پائیں گے۔ البتہ حرکت میں آنا چاہئے، اقدام کرنا چاہئے، تعاون کرنا چاہئے، ہمت و حوصلہ دکھانا چاہئے۔ یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اس پروگرام پر عمل ہو۔ پروگرام کی تیاری اور پروگرام کی تدوین آدھا کام ہے۔ بہت اہم حصہ ہے۔ تاہم پروگرام پر عمدرآمد اس کے بعد کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے۔

ایک صاحب نے ایک نکتہ بیان کیا کہ حوزہ علمیہ (دینی درسگاہ) سے متعلق نظریات اور منصوبے خود طلبہ کی مدد اور تعاون سے طے پانے چاہئے۔ تجویز دی کہ نئے نئے نظریات کی تدوین پر کام کرنے والا مرکز قائم ہو۔ اچھی بات ہے۔ میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ اچھا خیال ہے۔ البتہ اس کے امکانات کا جائزہ لینا اور اس کی تفصیلات پر غور کرنا حوزہ علمیہ کے اکابرین کا کام ہے۔ تاہم یہ خیال کہ ایک مرکز ہو جو نوجوان طلاب کی توانائیوں کو، ان کی خلاقانہ صلاحیتوں کو زیر غور لائے، انھیں جمع کرے، اس کے پاس اطلاعات کا ذخیرہ ہو اور ضرورت کے وقت اس ذخیرے سے استفادہ کرے، یہ بہت اچھا خیال ہے۔ اگر ہو سکے تو بہت اچھی چیز ہے۔

یہ بات ہوئی کہ مہارت کو فوقیت اور مرکزیت دی جائے۔ چند افراد نے، ایک دو لوگوں نے تفصیل کے ساتھ مہارت کی مرکزیت کی ضرورت پر گفتگو کی۔ خوش قسمتی سے یہ کام ہو رہا ہے یعنی اسپیشل فقہی بحثیں قم میں شروع ہوئی ہیں۔ البتہ فقہ کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں۔ فقہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فقہ کا نام چونکہ فروع دین میں ہے تو اس سے مراد فروعی کام ہیں۔ جی نہیں، فقہ در حقیقت سماجی زندگی کا ڈھانچہ بلکہ ستون ہے۔ فقہ کا یہ مقام ہے۔ فقہ کی یہ ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس کے بہت سے پہلوؤں پر توجہ نہیں دیتے تو یہ ہماری کوتاہی ہے، ورنہ فقہ کا مطلب ہے زندگی کے امور کو چلانا، یعنی سیاسی و سماجی زندگی کے نظام کی تشریح۔ اب اگر ہم اس میدان میں اسپیشلائیزیشن کے گوشے معین کریں، پھر اسپیشلائیزیشن کے لئے نئی نئی باریکیاں معین کریں تو یہ فکر تو اچھی ہے اور یہ کام ہو بھی رہا ہے لیکن اسپیشلائیزیشن کے جو بعض نقائص ہیں ان سے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ برسوں قبل دنیا کے کچھ مفکرین اس نتیجے پر پہنچے کہ اسپیشلائیزیشن کے جہاں کچھ فوائد ہیں وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ بعض علوم اور ذیلی موضوعات اس لئے ہوتے ہیں کہ ان نقائص کی بھرپائی ہو سکے۔ اب اگر آپ اسپیشلائیزیشن کی طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ کی توجہ اس بات پر ضروری ہونی چاہئے کہ اسپیشلائیزیشن اچھی چیز ہے لیکن اس میں ہو سکتا ہے کہ کچھ نقائص بھی ہوں جنھیں دور کیا جانا ضروری ہے۔

جستجو اور شناخت کے لئے ایک مرکز قائم کرنے کی بات ہوئی۔ کوئی مرکز تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی دینی درسگاہ مرکز بھی ہے۔ یہی دینی علوم کے مرکز کی انتظامیہ اپنے آپ میں مرکز ہے۔ مسلسل نئے موازی ادارے قائم کرنا، ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ، کارساز نہیں ہے۔

ایک اور نکتہ جو میری نظر میں اہمیت کا حامل ہے وہ سوال ہے جو یہاں فاضلہ خاتون نے کیا کہ دینی طالبات کی سماجی جگہ کیا ہے؟ جی ہاں، واقعی یہ بجا سوال ہے۔ البتہ اجمالی طور پر مجھے معلوم ہے۔ یہ دینی طالبات جب دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں، ہمارے یہاں ایسی عالمہ و فاضلہ خواتین کی کافی تعداد ہے، تو خاندانوں کے اندر اور اجتماعات میں ان کا وجود بہت مفید ہے۔ ایک اصفہانی خاتون تھیں، بہت اچھی عالمہ تھیں، علوم عقلیہ میں کافی مہارت رکھتی تھیں، بڑی محترم خاتون تھیں۔ آقائے طباطبائی مرحوم ایک دن ان سے ملاقات کے لئے گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی، علمی بحث وغیرہ بھی ہوئی۔ ہم اس پر فخر کرتے تھے کہ ہمارے یہاں ایسی عالمہ و فاضلہ خاتون موجود ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ دسیوں ہزار دینی طالبات ہیں۔ ان میں ایک اچھی خاصی تعداد عالمہ و فاضلہ خواتین کی ہے، علوم عقلیہ میں بھی، فقہ اور دیگر علوم میں بھی جو دینی درسگاہوں میں رائج ہیں۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہ واضح ہونا چاہئے کہ معاشرے میں ان کا مقام اور مشن کیا ہے۔

آخر میں ایک صاحبہ نے اسی سلسلے میں کچھ تجاویز بھی دیں جو اہم ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ دینی طالبات کے اندر جو صلاحیتیں ہیں، انھیں تسلیم کیا جائے اور گوناگوں فکری و ثقافتی مراکز وغیرہ میں، کمیشنوں، کمیٹیوں، کونسلوں اور سرکاری مراکز میں ان کی خدمات لی جائیں۔ یہ میرے خیال میں ان اہم کاموں میں ہے جنھیں دینی علوم کے مرکز میں انجام دیا جانا چاہئے۔ اجرائی اعتبار سے اگر ہمارے کسی تعاون کی ضرورت ہے تو وہ ہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ دینی درسگاہ کا کام ہے۔ لیکن اجرائی اعتبار سے ہم سفارش کر سکتے ہیں، مدد کر سکتے ہیں اور وہ ہم کریں گے۔

ایک بات اور بھی آپ حضرات نے کہی کہ دینی درسگاہوں سے تعلق رکھنے والوں کے ادراک و آگاہی میں ایک فاصلہ تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ الحمد للہ دینی علوم کے مرکز سے تعلق رکھنے والوں کے فہم و ادراک کی بلند سطح کا مظہر خود آپ ہیں۔ آپ حضرات جو مشہد کی دینی درسگاہ، اصفہان کی دینی درسگاہ اور تہران کی دینی درسگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ قم کی دینی درسگاہ ہے۔ دینی علوم کے ان مراکز کے فہم و ادراک کی سطح وہی ہے جو آپ حضرات بیان کر رہے ہیں۔ البتہ ہر جگہ اختلاف نظر ہوتا ہے، لوگوں کی سطح الگ الگ ہوتی ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے، اس کے لئے راہ حل بھی ہے، لیکن میرے خیال میں یہ اچھی چیز ہے۔

بہرحال دوستوں نے بہت اچھی باتیں بیان کیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ حضرات جو کچھ لکھ کر لائے ہیں وہ سب ہمیں ضرور دیں۔ یعنی چونکہ میں نے دیکھا کہ سب کاغذ دیکھ کر بول رہے تھے، یہ بہت اچھی چیز ہے۔ یہی کاغذ جس پر آپ کی تحریر ہے ہمیں دیجئے۔ دینی درسگاہ کے عہدیداران بھی اس پر غور کریں،  کام کریں، ہمیں بھی مطلع کر دیں اور ان کاموں سے آگاہ کرتے رہیں۔

میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور نوٹ کرکے لایا ہوں ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ میرے عزیزو! آپ یاد رکھئے کہ آج دینی درسگاہ کی ذمہ داری ماضی سے کہیں زیادہ سنگیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج احتیاج اور پذیرائی پہلے سے زیادہ ہے۔ احتیاج بھی زیادہ ہے اور پذیرائی بھی زیادہ ہے۔ آج نوجوانوں کے درمیان، صرف ہمارے نوجوانوں کے درمیان نہیں بلکہ عالم اسلام کے نوجوانوں، یہاں تک کہ دنیائے اسلام سے باہر کے نوجوانوں کے درمیان بھی اعلی دینی مفاہیم و تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کی پذیرائی کافی زیادہ ہے۔ میں مبالغہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اسلامی ممالک میں، بعض جگہوں پر واقعی لوگوں کے رجحان بہت زیادہ ہے۔ کچھ جگہوں پر قدرے کم ہے لیکن پھر بھی موجود ضرور ہے۔ غیر اسلامی ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے مغربی ممالک کے نوجوانوں کے نام ایک خط لکھا تو اس کو پذیرائی ملی۔ یعنی کچھ جگہوں پر اس کا انعکاس دیکھنے میں آيا۔ البتہ بعض لوگوں نے اس میں مبالغہ بھی کیا کہ اسے نشر کیا  گيا، ایسا کیا گيا، ویسا کیا گيا! نہیں ایسا نہیں تھا، لیکن اس پر توجہ گئی، جواب دیا گيا۔ ہمیں پیغام دیا گيا، خطوط بھیجے گئے، تحریریں آئیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان باتوں کو سننے والے موجود ہیں، اس کے طلبگار موجود ہیں۔ لہذا اعلی دینی مفاہیم و معارف کی آج بہت ضرورت ہے اور لوگوں میں انھیں پذیرائی بھی خوب ملتی ہے۔

شاید ان لوگوں کے اندر جو سو سال پہلے کے زمانے میں تھے بڑا محکم ایمان تھا، بڑے دیندار لوگ تھے لیکن اس کا عملی انعکاس نہیں تھا۔ آپ غور کیجئے کہ شیخ فضل اللہ نوری جیسی عظیم ہستی، جلیل القدر عالم دین کو یہیں تہران کے اندر پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ انھیں جس شخص نے پھانسی پر چڑھایا ایک ارمنی عیسائی تھا، ایک ایرانی ارمنی افسر، یعنی غیر مسلم تھا۔ کچھ لوگوں نے گوشہ و کنار میں چار آنسو بہا لئے۔ لیکن کوئی اقدام انجام نہیں دیا گيا۔ حالانکہ اس وقت رضاخان کی حکومت نہیں تھی کہ آپ کہیں کہ بہت بے رحم ڈکٹیٹر تخت اقتدار پر تھا۔ یعنی بیداری نہیں تھی۔ اب آپ اس کا موازنہ ہمدان کے اس شہید طالب علم سے کیجئے (4)۔ ایک ہمدانی طالب علم سڑک پر مظلومیت کے عالم میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اس پر ہمدان میں کیسا ہنگامہ تھا تشییع جنازہ میں۔ ایران میں کس پیمانے پر اس واقعے کا ذکر ہوا؟ سب نے ہمدردی کا اظہار کیا، سب کو دکھ ہوا۔ اگر اس پاکیزہ جنازے کی تشییع تہران میں، مشہد میں، اصفہان میں یا تبریز میں ہوئی ہوتی تب بھی اتنا ہی بڑا مجمع ہوتا۔ آج لوگ اس طرح بیدار ہیں۔ اب کچھ لوگ ہیں جو پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عوام دین سے دور ہو گئے ہیں۔ جی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے۔ اس زمانے میں ہم طالب علم تھے۔

بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے بعد علمائے دین کی صنف میں تنزل پیدا ہوا ہے۔ یہ کیسی فضول بات ہے؟ اس زمانے میں عالم دین کا گلی کوچے میں مذاق اڑایا جاتا تھا۔ میں مشہد کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا، چند نوجوان وہاں سے گزر رہے تھے، اس زمانے میں میں ایک طالب علم تھا، مشہد کے حوزہ علمیہ میں رسائل اور مکاسب کا مدرس تھا، انھوں نے میری توہین شروع کر دی، میرا مذاق اڑانے لگے، قہقہے لگا کر ہنستے تھے۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ میں نے سوچا کہ اسے ہو سکتا ہے کہ ٹھیک سے لکھنا پڑھنا بھی نہ آتا ہو لیکن میرا مذاق اڑا رہا ہے جبکہ میں ایک مدرس ہوں۔ یہ اس زمانے کی سماجی حالت تھی۔ آج علمائے دین کی صنف پر اتنے حملے ہو رہے ہیں۔ مگر تبلیغی اداروں میں اور اس طرح کے دیگر مراکز میں آپ دیکھئے کہ عوام الناس کس طرح استقبال کرتے ہیں۔ آپ نماز جماعت کو دیکھئے، آپ موعظے کی نشستوں میں دیکھئے۔ کبھی بھی، کسی وقت بھی کسی شہر میں بھی اور کسی پرگرام میں بھی وہ مجمع نہیں ہوتا تھا جو آج مجالس و محافل اور موعظے کی نشستوں میں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے اجتماعات ہوتے ہی نہیں تھے۔ ہوتے تھے لیکن مجمع اس کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہوتا تھا۔ مشہد میں، اصفہان میں، تہران میں اور دیگر جگہوں پر ہم مجلسوں میں ہوتے تھے۔ ہم خود بھی تقریریں کرتے تھے۔ ہم بڑے خطباء و ذاکرین کو بھی دیکھتے تھے۔ آج مجالس اور تقاریر میں جو مجمع ہو جاتا ہے اور اس میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے، پہلے ایسا نہیں ہوتا  تھا۔ نماز جماعت کا بھی یہی حال تھا۔ مالی حالت بھی ایک اچھا معیار ہے۔ آج عوام کی حالت مالی اعتبار سے اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی آتے ہیں اور رقوم شرعیہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں دیتے ہیں، دیگر مراجع تقلید کو دیتے ہیں۔ یعنی عوام دیندار ہیں۔ دین کی راہ پر ہیں۔ یہ کیسی باتیں لوگ کرتے ہیں؟ علماء کی صنف کا احترام ہے۔ علماء پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو سامنے موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ان حقائق کے برخلاف بات کی جاتی ہے اور تاریک تصویر پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ زمینی سطح پر تحقیق کے بغیر، توجہ اور تفکر کے بغیر، کسی بھی علمی معیار کے بغیر کچھ باتیں یونہی کہہ دی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں۔ کچھ لوگ ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ لیکن حقیقت وہی ہے جو اس حقیر نے عرض کیا اور یہ صورت حال دینی درسگاہوں کے فریضے کو اور زیادہ سنگین بنا دیتی ہے۔

جو چیز اس حقیر کے ذہن میں تھی اور جو میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ دینی درسگاہیں اسلام سکھانے کے مراکز ہیں۔ دین کو سمجھا جانا ضروری ہے، دین کی شناخت ضروری ہے، دین کا علم ضروری ہے، اس کی گہرائی تک پہنچنا ضروری ہے۔ تو اس کے لئے مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مرکز یہی حوزہ علمیہ ہے جو عالم دین پیدا کرتا ہے۔ دینی درسگاہیں اسلام کی تعلیم کے مراکز ہیں۔ اسلام صرف معرفت کا نام نہیں ہے۔ عمل کی پابندی اور اسلام کے احکامات کا نفاذ بھی اسلام کا جز ہے۔ یعنی کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہم اسلام کو جسے ہم دینی درسگاہ میں سیکھنا چاہتے ہیں، صرف اصول دین، فروع دین اور اخلاقیات وغیرہ تک محدود سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے۔ یعنی اصول دین، فروع دین، اخلاقی اقدار، طرز زندگی، حکمرانی کے ضوابط، یہ ساری چیزیں اسلام کا جز ہیں اور اسلامی معارف کا حصہ ہیں تو ان ساری چیزوں کو ہمیں دینی درسگاہ سے سیکھنا چاہئے۔ لیکن یہ تصور ٹھیک نہیں ہے۔ یہ دینی درسگاہوں کے کاموں کا صرف ایک حصہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے۔ اسلام کے دوسرے حصے بھی ہیں، جن میں ایک چیز ہے ان حقائق کو معاشرے کے اندر، عوام الناس کی زنگی کے اندر اتارنا اور نافذ کرنا۔ یعنی ہدایت۔ یہ بھی تو اسلام کا حصہ ہے نا! توحید کا ایک گہرا مفہوم ہے اس کے اندر ایک فلسفیانہ اور عرفانی گہرائی ہے لیکن اسلام صرف اسی توحید کے نظرئے تک محدود نہیں ہے۔ اسلام عبارت ہے معاشرے میں توحید کے نفاذ سے۔ یعنی پورا معاشرہ توحید کے رنگ میں ڈھلنا چاہئے۔ یہ بھی اسلام کا حصہ ہے۔

 کیا آپ یہ نہیں کہتے؛ اَلعُلَماءُ وَرَثَةُ الاَنبیاء؟(۵) علمائے دین انبیا کے وارث ہیں نا؟! یہاں علماء سے مراد علمائے دین ہی تو ہیں۔ یہ انبیا کے وارث ہیں۔ یہ لوگ کرتے تھے؟ کیا انبیا اس لئے آئے کہ صرف دینی معارف و تعلیمات کو بیان کر دیں، یا نہیں بلکہ وہ اس لئے آئے کہ ان معارف و تعلیمات کو معاشرے میں عملی جامہ پہنائیں؟ یقینا آخر الذکر بات درست ہے۔: لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط (۶)  یہ جو «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدل قائم کرنے کے لئے انبیاء کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی انبیاء کے مشن اور معاشرے میں عدل کے قیام میں ایک رابطہ ہے۔ یہ «لام» جو  «لِیَقومَ» میں ہے، یہ کون سا «لامِ» ہے؟ خواہ یہ  «لامِ» علّیّت (۷) ہو یا یہ «لامِ» غایت یعنی انجام و نتیجہ (۸) ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی نبی کو معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ چونکہ وہ معاشرے میں انصاف قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے جدوجہد کرتا ہے۔ ورنہ اگر نبی کو عدل و انصاف قائم کرنے سے غرض نہ ہوتی تو توحید کو عملی میدان میں نافذ کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ اندادا لله (۹) کو راستے سے ہٹانے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی، جہاد کی کوئی احتیاج ہی نہ ہوتی۔ یہ «وَ کَاَیِّن مِن نَبِیٍّ قاتَلَ مَعَه رِبِّیّونَ کَثیرٌ فَما وَهَنوا لِمآ اَصابَهُم فی سَبیلِ الله» (۱۰) کس لئے ہے؟ انہوں نے کیوں جدوجہد کی؟ جہاد تمام انبیاء نے کیا۔ اب ان میں سے کچھ نے اس قتال میں کامیابی حاصل کی۔: قاتَلَ مَعَه رِبِّیّونَ کَثیر، بعض کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمیں تمام انبیاء کی خبر نہیں ہے لیکن روایتوں میں ذکر ہوا ہے؛ اَوَّلُ مَن قاتَلَ فی‌ سَبیلِ‌ اللَهِ‌ اِبراهیم‌؛(۱۱)۔ ہم قرآن میں حضرت ابراہیم کے حالات سے متعلق آیتیں پڑھتے ہیں تو ان میں کہیں یہ جملہ نہیں کہا گيا ہے لیکن روایت میں ہے۔ بقیہ انبیاء نے بھی قتال کیا، راہ خدا میں جہاد کیا ہے۔«قاتِلُوا الَّذینَ یَلونَکُم مِنَ الکُفّار» (۱۲) یا پھر «اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الله» (۱۳) یہ قتال اور جہاد کس لئے ہے؟

پیغمبر اکرم نے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل، مدینے سے آنے والے افراد سے، اوس و خزرج کے نمائندوں سے بیعت لی اور کہا کہ اپنی جان و مال ہر چیز سے میرا ساتھ دو۔ انھوں نے قبول کیا۔ پیغمبر ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ جب مدینے میں داخل ہوئے تو ایک دفعہ بھی یہ سوال نہیں کیا کہ حکمرانی بھی ہمارے ہاتھ میں ہے یا نہیں؟ سوال نہیں کیا۔ کیونکہ پہلے سے ظاہر تھا، سب جانتے تھے کہ وہ آئے ہیں تو حاکمیت، حکمرانی اور حکومت چلانے کی ذمہ داری ان کے دوش پر ہے۔ دین اسی لئے ہے۔: ما اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا لِیُطاعَ بِاِذنِ الله (۱۴)«لِیُطاعَ» کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اگر پیغمبر نے کہہ دیا کہ نماز پڑھو تو آپ نماز پڑھیں۔ نہیں، اس کا مطلب ہے زندگی کے تمام امور میں اطاعت و فرماں برداری، یعنی حکمرانی۔ تو یہ اسلام کا ایک حصہ ہے۔ یعنی اسلام کا ایک حصہ عبارت ہے اسلامی معارف و تعلیمات سے، ان معارف میں علوم عقلیہ، علوم نقلیہ، اخلاقی قدریں، طرز زندگی اور طرز حکومت کی تشریح شامل ہیں۔ یہ سب اسلامی معارف کا جز ہیں اور ان کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہ اسلام کا حصہ ہے۔ اسلام کا ایک اور حصہ ہے ان معارف کا زمینی سطح پر نفاذ۔ یعنی توحید عملی میدان میں نافذ ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عملی طور پر نظر آئے کہ نبوت معاشرے کی قیادت کر رہی ہے۔ «اَلعُلَماءُ وَرَثَةُ الاَنبیاء» کو عملی جامہ پہنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حال میں سماج کی قیادت سنبھالیں، حکومت کی شکل ممکن ہے کہ الگ الگ ہو، اس کی کئی قسمیں ہوں۔ لیکن آپ عالم دین کی حیثیت سے اور دینی امور کے ماہر کی حیثیت سے اپنا فریضہ سمجھیں کہ اسلام کو متن معاشرہ میں، لوگوں کی زندگی میں نافذ کریں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہی کام ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا۔ ایک صاحب نے علماء کی صنف کے منشور کی بات کی (15) اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اس تفصیلی خط کا ذکر کیا۔ علماء کی صنف کے منشور کو پڑھئے، بار بار پڑھئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) حقیقت میں مدبر اور صاحب حکمت انسان تھے، صاحب حکمت صرف وہ نہیں ہے جو فلسفے سے آشنا ہو، حکمت و فلسفہ اس کے عمل میں، اس کی گفتار میں اور اس کی تحریر میں جھلکنا چاہئے۔

بنابریں دینی درسگاہوں نے جو حالیہ جدوجہد کی، یعنی وہ جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی وہ جدوجہد امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے زیر قیادت انجام دی۔ یہ بعینہ وہی فریضہ ہے جو دینی مدارس کو انجام دینا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ دینی درسگاہوں نے انقلابی تحریک کے دوران کوئی ایسا عمل انجام دیا جو ان کے فرائض کے دائرے سے باہر تھا۔ بالکل نہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ)  کے ہاتھ میں قیادت تھی اور طلبہ، افاضل اور دینی درسگاہ سے بہت سے اکابرین ان کے ساتھ تھے، سب امام خمینی کی قیادت میں آگے بڑھے۔ ایک موقع پر میں نے ملک بھر میں وسیع سطح پر طلبہ کے حرکت میں آ جانے کے اس عمل کی تشبیہ اس چيز سے دی جو اس آیہ کریمہ میں ذکر کی گئی ہے: وَ اَوحیٰ رَبُّکَ اِلَی النَّحلِ اَنِ اتَّخِذی مِنَ الجِبالِ بُیوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمّا یَعرِشونَ، ثُمَّ کُلی مِن کُلِّ الثَّمَراتِ فَاسلُکی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخرُجُ مِن بُطونِها شَراب مُختَلِفٌ اَلوانُه فیه (۱۶) میں نے کہا کہ ان کے پاس شہد بھی تھا اور ڈنک بھی تھا، شہد کی مکھی کی طرح۔ اس زمانے کا طالب علم جاکر لوگوں کو خبردار بھی کرتا تھا، بیدار بھی کرتا تھا، نوجوانوں کو انقلابی اقدار سے سیراب بھی کرتا تھا، راہ خدا میں اور راہ اسلام میں جہاد بھی کرتا تھا۔ جس پر حملہ کرنا ہوتا تھا اسے ڈنک بھی مارتا تھا۔ یہ حقیقت امر ہے۔ یہ حوزہ علمیہ کی ذمہ داری تھی اور اس نے اس ذمہ داری پر عمل کیا۔ اس زمانے میں اسے وہ کام کرنا تھا اور آج جب بحمد اللہ اسلامی نظام وجود میں آ چکا ہے، تشکیل پا چکا ہے اور ہم اس کوشش میں ہیں کہ حقیقی معنی میں اسلامی حکومت اور اس کے بعد حقیقی معنی میں اسلامی معاشرہ اور پھر اسلامی تمدن وجود میں آئے تو اس عظیم مشن کے تناسب سے دینی درسگاہیں بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ انھیں کیا کرنا چاہئے؟ انھیں بیٹھ کر غور کرنا چاہئے۔ یہ آپ کے فکری موضوعات اور بحثوں میں سے ایک ہے۔

ابھی جب آپ میں سے چند حضرات باری باری تقریر کر رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ پرکشش بیان، یہ آہنگ اور یہ انداز، یہ مناسب عبارتیں جو بحمد اللہ ہمارے نوجوان طلاب کے یہاں نظر آتی ہیں، آج اس کی بڑی شدید ضرورت ہے۔ جائیے پورے ملک میں پھیل جائیے۔ آج بھی مجلسیں  پڑھنے اور تقریریں کرنے کی روایت قائم ہے۔ ان اچھی باتوں کو، ان عالی مضامین کو جو مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، عوام کے درمیان بیان کیجئے۔ طرز زندگی کا مسئلہ، اسلامی حکمرانی کا مسئلہ، طاغوت کے خلاف جدوجہد جہاد کا مسئلہ، حقیقی معنی میں معاشرے کے اندر توحید جاگزیں کرنے کا مسئلہ، اسی طرح عدل و مساوات کا مسئلہ جو کلیدی ترین مسائل میں ہے، آپ جاکر ان چیزوں کو بیان کیجئے، لوگوں کی معرفت اور آگاہی کی سطح کو بلند کیجئے۔ عوام کے درمیان انقلابی بحث کو پھیلائيے۔ البتہ یہ بحث موجود ہے، آپ اس کی تقویت کیجئے۔ دینی درسگاہ بہت سے کام انجام دے سکتی ہے۔ اس کا ایک حصہ حوزہ علمیہ کے اندر اور باہر اس عمل پر مامور اداروں سے متعلق ہے اور اس کے ایک حصے کا تعلق خود طلاب سے ہے۔

تو دیکھئے! ہمارے سامنے ایک مسئلہ حوزہ علمیہ کی شناخت، اس کی ماہیت کا ہے کہ حوزہ علمیہ کیا ہے؟ حوزہ علمیہ وہ مرکز ہے جہاں عالم دین کی تربیت کی جاتی ہے اور عالم دین وہ شخص ہے جو دینی معارف و تعلیمات کا درس حاصل کرتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں اترتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس طالب علم کا تخصص اور اسپیشلائیزیشن  فقہ ہے یا علوم عقلیہ جیسے فلسفہ ہے یا پھر علم کلام اور عقائد کی بحثوں پر اس نے کام کیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے بزرگوار امام ایک عظیم فقیہ تھے۔ واقعی آپ ایک بڑے فقیہ تھے اور ساتھ ہی 'عرفان نظری' میں بھی آپ ایک مکمل مجتہد اور صاحب نظر انسان تھے۔ یا آپ کے استاد مرحوم شاہ آبادی، ایک دفعہ امام (خمینی) نے یہ بات خود مجھ سے کہی تھی کہ "آپ یہ نہ سمجھئے کہ آقای شاہ آبادی جد وجہد اور تحریک سے الگ تھے، وہ بھی جد و جہد کرتے تھے۔" اب مجھے خود ان کے الفاظ یاد نہیں ہیں، البتہ میں نے کسی جگہ نوٹ کیا ہے کہ مرحوم شاہ آبادی جو اتنے عظیم عارف تھے، امام خمینی سے کہتے تھے؛ "اگر میرے کچھ مددگار ہوتے تو میں قیام کر دیتا۔" اس طرح کے الفاظ تھے اور اس مضمون کا جملہ کہا تھا۔ تو قم کے حوزہ علمیہ اور دیگر دینی درسگاہوں کی یہ ماہیت و شناخت ہے۔ یہ حوزہ علمیہ کی اصلی شناخت ہے۔ حوزہ علمیہ میں جو کام بھی ہو رہا ہے وہ اس فکر و نظر کے ساتھ انجام پانا چاہئے۔ جس مہارت کی بات آپ کرتے ہیں، جن نظاموں کا آپ مطالبہ کرتے ہیں، صلاحیتوں کی نشان دہی کے لئے جو تجاویز آپ دے رہے ہیں، یہ ساری اچھی باتیں اسی دائرے اور تناظر میں انجام پانی چاہئیں۔

ان مسائل و موضوعات کے بارے میں بھی جن کا دین سے براہ راست رابطہ نہیں ہے، جیسے علم طبیعیات وغیرہ جن کا دینی فکری ڈھانچے سے براہ راست رابطہ نہیں ہے، حوزہ علمیہ کو چاہئے کہ سمت کا تعین کرے۔ یعنی علمی و سائنسی سرگرمیوں اور کاوشں کی سمت کے تعین میں دینی درسگاہیں اپنا کردار ادا کریں۔ اس لئے کہ یہ دین کا کام ہے۔ علم و سائنس کو دین ہی صحیح سمت دکھاتا ہے۔علم بشر کی خدمت بھی کر سکتا ہے اور بشریت کے خلاف بھی کام کر سکتا ہے، انصاف کی خدمت کر سکتا ہے اور ظالمین، مستکبرین اور طاغوتوں کا مددگار بھی واقع ہو سکتا ہے، چنانچہ آج یہی ہو رہا ہے۔ تو علم و سائنس کو صحیح سمت دکھانا بھی حوزہ علیہ کا کام ہے

میں نے یہاں کچھ آیتیں نوٹ کی تھیں جو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ اب اذان کو چند منٹ سے زیادہ نہیں بچے ہیں لہذا اب اس کا موقع نہیں ہے۔

ایک نکتہ درس پڑھنے کے تعلق سے بھی عرض کر دوں۔ درس پر بڑی سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔ فقہ کے درس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے۔ آپ دیکھئے کہ عالم دین اسلامی معارف و تعلیمات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کہاں سے؟ کتاب سے، سنت سے اور عقل سے۔ یہی تو ہے نا۔ اس کا کچھ حصہ عقل سے مربوط ہے، کچھ حصہ قرآن سے مربوط ہے اور کچھ حصہ سنت اور روایتوں سے مربوط ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کیسے حاصل کرنا ہے۔ یہی اجتہاد ہے۔ اجتہاد یعنی مآخذ سے معارف اور تعلیمات کو اخذ کرنے کا طریقہ۔ یعنی وہ میتھڈ، انگریزی اصطلاح کے مطابق، البتہ میری پوری کوشش رہتی ہے کہ انگریزی الفاظ استعمال نہ کروں لیکن یہاں مجبور ہوں، جس کی مدد سے متعلقہ مآخذ سے معارف و حقائق کو نکالا جائے، یہی اجتہاد ہے۔ اگر انسان اس اجتہاد کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو مشق ضروری ہے، اسے علمی کام کرنا ہوگا۔ یہ فقہی دروس جو آپ پڑھتے ہیں چاہے وہ طہارت کا سبق ہی کیوں نہ ہو، ویسے اب بعض طلاب کہتے ہیں کہ "جناب ہمیشہ طہارت اور نماز وغیرہ کی ہی بحث ہوتی ہے؟" اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ چیز جو آپ کو استنباط کی یہ روش سکھاتی ہے اور جو آپ کی ضرورت ہے۔ وہ کبھی طہارت کے مسئلے میں استعمال ہوتی ہے، کبھی نماز کے مسئلے میں استعمال کی جاتی ہے، کبھی تجارتی مسائل میں استعمال کی جاتی ہے، کبھی کرایہ کے مسئلے میں استعمال کی جاتی ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ استنباط کیسے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے استنباط  کا طریقہ سمجھ لیا تو آپ قرآن و سنت سے اخلاقی اقدار کے سلسلے میں بھی استنباط  کر سکتے ہیں۔ بعض کم علم افراد کی طرح نہیں جو چند باتیں پڑھ لیتے ہیں اور دینی مسائل کے بارے میں اظہار خیال کرنے لگتے ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہوئے انھیں کم علم کہہ رہے ہیں، جاہل نہیں کہہ رہے ہیں۔ کبھی کسی آیت سے کچھ استنباط کرتے ہیں، جبکہ اس آيت کا مفہوم کچھ اور ہے، اس کی وجہ آیت کو سمجھنے میں ان کی نا پختگی اور ان کا ناقص استنباط ہے۔ اسی وجہ سے اجتہاد ہو ہی نہیں پاتا۔ لہذا اجتہاد کے لئے خوب اچھی طرح درس پڑھنا ضروری ہے۔ البتہ میں نے یہ نہیں کہا کہ سب کے سب اجتہاد کریں، در حقیقت یہ تو واجب کفائی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو مجتہد بننے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ لیکن اسلامی معارف کو سمجھنے کے لئے اجتہاد ضروری ہے۔ تو ایک نکتہ یہ ہے کہ طالب علم درس بہت اچھی طرح پڑھے۔ آج کے روشن خیال طالب علم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے؛ "جناب ہٹائیے ان باتوں کو، ان دروس کو!" نہیں یہ مناسب نہیں۔ درس پڑھنا چاہئے۔ آج کے زمانے کے روشن خیال طالب علم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ "جناب چھوڑئے یہ باتیں اور ہٹائيے یہ درس وغیرہ!" بالکل نہیں، درس پڑھنا ضروری ہے۔ خالی ہاتھ انسان محتاج ہوتا ہے۔ انقلاب کی تحریک کے زمانے میں ہم مکاسب اور کفایہ کا درس دیتے تھے۔ ہمارے ارد گرد کچھ بڑے جوشیلے طلبہ تھے مشہد میں جو واقعی بڑی محنت سے تحریک میں شامل تھے۔ لیکن میں کبھی کبھی ان کو باتیں  کرتے سنتا تھا کہ "ارے بھئی یہ کیا ہے؟" میں ان سے کہتا تھا کہ اگر آپ یہ بحثیں نہیں پڑھیں گے تو کل اسلامی نظام کے کسی کام نہیں آ سکیں گے، استفادہ نہیں کر سکیں گے، لوگوں کو آپ کچھ سکھا نہیں سکتے۔ اسی لئے درس پڑھنا ایک بہت ضروری چیز ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ حوزہ علمیہ میں ممکن ہے کہ گوناگوں مسائل کے بارے میں اختلاف نظر ہو۔ علمی مسائل میں تو اختلاف رائے رہتا ہی ہے، فکری سمت و رجحان میں اختلاف رائے رہتا ہی ہے، اسی طرح سیاسی مسائل کے بارے میں بھی اختلاف رائے ہونا ممکن ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اختلاف رائے کو کنٹرول میں رکھا جانا چاہئے۔ یہ خیال رکھئے کہ یہ اختلاف نظر ٹکراؤ، کشیدگی اور ایک دوسرے پر حملے کا سبب نہ بنے۔ ہمارے دینی مدارس میں اس کی متعدد مثالیں رہی ہیں۔ میں اس کی ایک نسبتا تازہ مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مرحوم الحاج شیخ مرتضی قزوینی رضوان اللہ علیہ مشہد میں ایک جید عالم دین تھے فلسفہ و عرفان کے مخالف تھے۔ یہ حقیر خود بھی ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور آج بھی ہے۔ واقعی بڑے عظیم انسان تھے۔ مگر ان کا فکری رجحان یہی تھا۔ فلسفہ و عرفان کے مخالف تھے اور اس سلسلے میں کتاب بھی لکھی تھی اور اسے پڑھاتے بھی تھے۔ وہ مرحوم آقا میرزا مہدی اصفہانی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات کی جائے تو وہ فلسفہ و عرفان کا ماحصل تھے، فلسفہ و عرفان کا نچوڑ تھے۔ ان دونوں میں بہت زیادہ فکری فاصلہ ہے۔ یعنی دو متضاد محور کی مانند ہیں۔ جب تحریک کا آغاز ہوا اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ظاہر کر دیا کہ وہ اس تحریک کے قائد ہیں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے روز اول سے ہی یہ ثابت کر دیا تھا، تو آقا الحاج شیخ مجتبی قزوینی نے تمام تر فکری اختلافات کے باوجود مشہد سے اپنے ہمراہ ایک گروہ کو لیا اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے ملنے قم آ گئے۔ انھوں نے آکر اظہار عقیدت کیا۔ 1967 میں ان کا انتقال ہوا، اس وقت تک وہ انقلاب کی حمایت کرتے رہے۔ واقعی اس زمانے میں تحریک کا حصہ بننے والے ہم طلاب کے لئے مرکز امید مرحوم الحاج شیخ مجتبی تھے۔ حالانکہ امام (خمینی) سے ان کا فکری اختلاف نظر بھی تھا۔

آقا میرزا جواد آقا تہرانی مرحوم بھی ایک اور جلیل القدر عالم دین جو بعد کے دور میں تھے، وہ بھی فلسفہ و عرفان کے مخالفین میں سے تھے، ہم نے ان سے درس بھی پڑھا ہے۔ یہ اس کے مخالف تھے۔ آپ انقلاب سے قبل امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے بڑی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی سے پہلے میں نے خود ان سے سنا تھا کہ کس طرح وہ امام سے اپنی محبت ظاہر کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ اٹھے اور محاذ جنگ پر پہنچ گئے۔ ستر اسی سال کا سن تھا، اٹھے، رضاکاروں والا لباس پہنا اور مارٹر گولوں کے سامنے جاکر ڈٹ گئے، جنگ میں مصروف ہو گئے۔ یعنی ہمارے یہاں اس طرح کے افراد تھے۔ یعنی فکری اختلاف رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود حقیقی معنی میں اتحاد و یکجہتی کے پاسباں تھے۔ ان کا عمل للہ، فی اللہ اور فی سبیل اللہ تھا۔

زمانہ قدیم میں بھی ایسے افراد تھے۔ صاحب حدائق مرحوم (17)  اخباری تھے۔ البتہ ایسے اخباری جو واقعی بڑے جید عالم دین تھے۔ صاحب حدائق بہت بڑے علم دین تھے۔ اسی طرح محروم آقا بہبہانی، خالص 'اصولی عالم دین' تھے۔ وہ در حقیقت دینی علوم کے مرکز کی تاریخ کے ایک دور میں علم اصول کے پاسبانوں اور اس کا احیاء کرنے والوں میں تھے۔ یہ دونوں ہی افراد کربلا  میں تھے۔ آپس میں بڑی سخت اور تند بحثیں ہوتی تھیں۔ مرحوم صاحب حدائق نے وصیت کی کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں  تو میری نماز جنازہ آقا باقر بہبہانی پڑھائیں اور ایسا ہی ہوا۔ یعنی دینی علوم کے مرکز میں یہ مثالیں موجود ہیں۔ البتہ اس کے الٹ بھی کچھ مثالیں ہیں، بلا وجہ کے تصادم، بے وجہ مخالفت، یہ چیزیں بھی رہی ہیں، لیکن ہمارے علمی اکابرین و عمائدین کا یہ شیوا رہا ہے۔

دینی درسگاہ میں طلاب کو چاہئے کہ ایک طرف بزرگ افاضل اور مراجع تقلید کے سلسلے میں ادب و احترام کا خیال رکھیں، چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے علمائے دین کی صنف کے لئے جو منشور پیش کیا ہے اس میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔ اکابرین اور بزرگ علماء کو بھی چاہئے وہ نوجوان اور نوخیز طلاب کے سلسلے میں تحمل اور رواداری کا ثبوت دیں۔ ایک جانب سے حلم و تحمل ضروری ہے اور دوسری جانب ادب و احترام ضروری ہے۔ (اذان ہو گئی؟ (۱۸) معاف کیجئےگا! )

و السّلام علیکم و‌ رحمة‌ الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں ملک بھر کے دینی مدارس کے سرپرست اعلی حجت الاسلام و المسلمین علی رضا اعرافی اور بارہ طلبہ نے کچھ نکات بیان کئے۔

۲) فاضل نظری کی غزل کا شعر

۴) حجّت ‌الاسلام‌ و المسلمین‌ مصطفیٰ قاسمی

۵) کافی، جلد ۱، صفحہ ۳۲

۶) سوره‌ حدید، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ «یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو روشن دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ ...»

۷) «لام علّیّت» عربی زبان میں وہ «لام» ہے جو کسی فعل کے واقع ہونے کی وجہ بیان کرتا ہے۔

۸) «لام عاقبت»  عربی زبان میں وہ «لام» ہے جو کسی فعل کے واقع ہونے کا نتیجہ بیان کرتا ہے۔

۹) اللہ کے ہم پلہ

۱۰) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۴۶ کا ایک حصہ؛ «کتنے ایسے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت بڑے گروہوں نے کارزار کیا اور اللہ کی طرف سے انھیں جو چیز سونپی گئی اس کے بارے میں کوئی تساہلی نہیں برتی۔...»

۱۱) بحارالانوار، جلد ۱۲، صفحہ ۱۰؛ «پہلا شخص جس نے راہ خدا میں جہاد اور قتال کیا وہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم تھے۔»

۱۲) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲۳ کا ایک حصہ؛ «...جو کفار تمہارے پڑوسی ہیں ان کے خلاف کارزار کرو۔...»

۱۳) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۶ کا ایک حصہ؛ «جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ راہ خدا میں قتال کرتے ہیں۔...»

۱۴) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۶۴ کا ایک حصہ «...ہم نے کسی بھی پیغمبر کو نہیں بھیجا سوائے اس مقصد سے کہ اذن پروردگار سے اس کی اطاعت کی جائے۔...»

۱۵) صحیفه‌ امام، جلد ۲۱، صفحہ ۲۷۳؛ علمائے دین، مراجع تقلید، مدرسین، طلاب اور ائمہ جمعہ و الجماعت کے نام پیغام (علماء کا منشور) (مورخہ 22 فروری 1989)

۱۶) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۶۸  اور آیت نمبر۶۹ کا ایک حصہ «اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو الہام کر دیا کہ پہاڑوں، درختوں اور ان چیزوں سے جو انسان اپنے لئے اٹھا لیتے ہیں، اپنا گھر بنا اور اس کے بعد تمام ثمرات اور پھلوں سے غذاحاصل کر، اس کے بعد اپنے پروردگار کی راہوں میں جو تیرے لئے ہموار کی گئی ہیں اپنے چھتے کی جانب بڑھ۔ ان کے شکم سے گوناگوں رنگوں کا مشروب نکلتا ہے۔...»

۱۷) شیخ یوسف بحرانی

۱۸) حاضرین میں سے ایک نے جواب دیا، 'ہاں'۔