رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں جو مورخہ 17 جون 2019 کو کردستان کے مرکزی شہر سنندج میں سیمینار ہال میں پیش کیا گیا، فرمایا کہ کردستان کے مجاہدین نے بیرونی دشمن سے جنگ کے ساتھ ہی اپنے گھر اور اپنے ماحول کے اندر بھی انقلاب مخالف عناصر سے جنگ کی، بنابریں اس علاقے میں پیش کی جانی والی قربانیاں صادقانہ جدوجہد کے ہمراہ انجام پائیں۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ رب العالمین و الصلواۃ و السلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین

 یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ شہدائے کردستان کی یاد منانے کے لئے جن کی تعداد کئی ہزار ہے، ثقافتی اور تبلیغی پروگرام تیار کیا گیا ہے؛ یہ بہت ضروری اور مفید کام ہے جو ملک کے ہر علاقے، خاص طور پر کردستان جیسے بعض علاقوں کے سمجھدار عوام، سرگرم و فعال افراد اور حکام کا فریضہ ہے۔

شہدائے کردستان کا مسئلہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے اور ملک کے دیگر مراکز یا اکثر مراکز سے مختلف ہے۔ ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ مجاہدین کردستان کی، چاہے وہ لوگ ہوں جو دفاع مقدس، جنگ اور فوجی میدان میں سرگرم رہے جیسے پیشمرگان (جانثاران) کرد، سرداران (مجاہدت) وغیرہ،  یا وہ لوگ ہوں جنھوں نے ثقافتی میدان میں کام کیا، جیسے شیخ الاسلام(2) وغیرہ، فعالیت کا میدان دیگر علاقوں کی طرح ہموار اور آ‎سان نہیں تھا۔ انقلاب دشمن، خود ان کے شہروں اور ان کے مراکز میں موجود تھے۔ مثال کے طور پر میں مرحوم شیخ الاسلام کی وہ محکم اور اہم  تقریر فراموش نہیں کر سکتا جو انھوں نے اس وقت جب ہم وہاں گئے تھے(3)، سنندج کی جامع مسجد میں ، ہزاروں لوگوں کے درمیان کی تھی (4)۔ جب وہ یہ تقریر کر رہے تھے تو یقینا جانتے تھے کہ خود سنندج میں یا سنندج سے باہر یا خود اس اجتماع میں ایسے لوگ ہوں گے جو ان باتوں کے مخالف ہیں جو وہ بیان کر رہے تھے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے شجاعت اور روحانی قوت سے کام لیتے ہوئے وہ زبردست تقریرکی۔ یا 'کرد  پیشمرگ ملیشیا' کے جوان جنہیں میں نے سن اٹھاون یا انسٹھ ( ہجری شمسی مطابق 79-80 عیسوی) میں نزدیک سے دیکھا؛ یہ وہ لوگ تھے جن کا سامنا سرحدوں سے باہر کے عناصر سے نہیں تھا، بلکہ اپنے گھر کے اندر کے عناصر، ان کے اپنے شہروں میں موجود عناصر سے تھا ۔ مثال کے طور پر مشہد جیسے علاقے کو دیکھیں، وہاں مجاہد بہت تھے، جو محاذوں کی طرف جا رہے تھے، بہت سے شہید ہوئے  یا جانبازی کے دوران جسمانی طور پر معذور ہوکے واپس آتے تھے؛ یہ لوگ اس طرح نہیں تھے؛ اسی جگہ جہاں وہ رہتے تھے، وہیں ایسے لوگ تھے جو ان کے مخالف تھے، ان سے جنگ کرتے تھے، ان کے خلاف سازشیں کرتے تھے، ان کے مقابلے میں یہ ڈٹ گئے اور ان سے جنگ کی ؛ میری نظر میں یہ بہت اہم نکتہ ہے ۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کا منصوبہ یہ تھا کہ اسلامی جمہوری نظام کو شکست دینے کے لئے مذہبی اختلافات اور قومی اختلافات دونوں سے الگ الگ فائدہ اٹھائیں۔ چونکہ قومی تنوع کے لحاظ سے ہمارا ملک کم نظیر ملکوں میں ہے، یہاں ایران عظیم اور عظیم ایرانی قوم کے نام سے، مختلف اقوام ایک ساتھ رہتی ہیں۔ بہت کم جگہوں پر یہ صورت حال پائی جاتی ہے اور جہاں یہ بات ہے وہاں ٹکراؤ اور تصادم بہت ہے۔ ہمارے بعض پڑوسی ملکوں میں آپ دیکھیں کہ لوگوں اور اقوام کے درمیان جو وہاں ہیں، کتنے اختلافات ہیں ، کیسے سخت اختلافات ہیں۔  میں یہاں ان ملکوں کا نام نہیں لینا چاہتا- دشمن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایران کے سماجی ماحول، قومی و مذہبی اختلافات- شیعہ و سنی مسئلے سے فائدہ اٹھالیں گے ۔ اس وقت میں کردستان کی مثال پیش کر رہا ہوں ، بعض دیگر علاقے بھی کردستان کی طرح ہی ہیں ، لیکن کردستان اس کی واضح مثال ہے ۔ کردستان میں یہ ہوا کہ وہاں مومن، ہوشیار اور انقلاب اسلامی سے محبت کرنے والے افراد نے دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ یعنی انھوں نے وہاں کرد اور فارس یا کرد اور ترک لڑائی نہیں ہونے دی۔ کچھ تھوڑے سے لوگ جو بیرونی دشمن کے زیر اثر تھے، کچھ باتیں کرتے تھے۔ میں مہا باد آیا تھا ، یہ ساری دکانیں بند تھیں، جہاں مجھے تقریر کرنی تھی ، شہر کے سبھی لوگ وہاں میری تقریر سننے کے لئے  جمع تھے اور نعرے لگا کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے وہاں اپنی تقریر میں انقلاب کے دشمنوں کو جو کرد قوم کے نام پر بولتے تھے،  مخاطب کرکے کہا کہ آئيں اور اس جگہ کو دیکھیں، یہ کرد قوم ہے۔ کرد یہ ہیں ، وہ زر خرید نہیں جو ملک سے باہر چلے گئے یا کسی جگہ بیٹھ کے کرد قوم کے نام پر بولتے ہیں ، کرد قوم کا یہ اجتماع ہے۔ سنندج اور دوسری جگہیں بھی اسی طرح تھیں ۔

 بنابریں کردستان میں بھی اور مغربی آذربائیجان میں بھی کرد عوام نے جو کام کیا وہ بہت اہم تھا۔ انھوں نے واقعی انقلاب کی خدمت کی اور دشمن کو مایوس کیا جو بہت اہم کام ہے۔ اس راہ میں انھوں نے شہیدوں کی قربانیاں دیں، مسلط کردہ جنگ میں بھی شہید پیش کئے، انقلاب کے دشمنوں سے مجاہدت میں بھی شہید پیش کئے، اسلامی جمہوری نظام کی حمایت میں انھوں نے شہید شیخ الاسلام جن کا میں نے نام لیا اور شہید عالی  جو وہاں کے علماء میں تھے اور شہید ذبیحی(5) جیسے شہید پیش کئے، یہ کردستان کے معروف علما اور ائمہ جمعہ  و جماعت میں تھے۔ یہ جمہوری اسلامی نظام کی حمایت میں شہید ہوئے۔ انھوں نے جمہوری اسلامی نظام کی حمایت میں کام کیا اور شہید ہوئے۔ کردستان اور مغربی آذربائیجان کے دیہی علاقوں میں بہت سے لوگ اسلامی جمہوری حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ سرگرم تھے جو انقلاب مخالف عناصر کے انتقام کا نشانہ بنے اور شہید ہوئے۔ یعنی اس علاقے میں شہادت ایسی شہادت تھی جس میں زیادہ فدکاری اور صادقانہ مجاہدت تھی۔ خداوند عالم ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے۔    

 اب یہ رپورٹ جو سپاہ کے کمانڈر صاحب نے پیش کی ہے، یہ بہت اچھی رپورٹ ہے لیکن یہ اعداد و شمار ہیں۔ جس بات کی میں سفارش کرتا ہوں، جس پر میں زور دیتا ہوں، وہ اس کام کا نتیجہ ہے جو آپ انجام دیتے ہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انجمنوں کی تشکیل یا بعض تحریروں کی نشر و اشاعت اور ایسے ہی دیگر کاموں کے جو اعداد و شمار آپ نے بیان کئے ہیں وہ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے اذہان میں شہیدوں کے لئے احترام و تکریم کا جذبہ پیدا کرنے میں کتنے موثر واقع ہوئے ہیں؟ یہ اہم ہے۔ آج ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے عوام ان شہیدوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ جوان جو شہید ہوا، یہ عالم دین جو شہید ہوا، یہ کاروباری،  محنت کش یا  محنتی کاشتکار جو شہید ہوا، اس نے ملک، اسلام اور جمہوری اسلامی نظام کی کیا خدمت کی ہے۔

ہم نے کردستان میں ایسے گھرانے دیکھے ہیں جنہوں نے چھے شہیدوں کو قربان کیا! یہ کم نظیر مثالیں ہیں، یعنی اس کی مثال ہمارے ملک میں کم ہے۔ ایک کنبے نے اپنے چھے بیٹے راہ خدا میں دے دئے! ریلیوں اور جلوسوں میں شرکت میں شہید ہوئے، انقلاب دشمنوں سے مجاہدت میں بھی شہید ہوئے اور مسلط کردہ جنگ میں بھی شہید ہوئے۔  یہ باتیں آج کی نسل کو معلوم ہونی چاہئيں۔ ہمارے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ آج ہم جو اس پوزیشن میں پہنچے ہیں، انقلاب کا شجرہ طیبہ تناور اور پھل دار ہوا ہے اور جو کام انجام پائے ہیں تو اس راہ میں کیا کوششیں ہوئی ہیں؟! اہم ترین سعی و کوشش ہمارے شہیدوں کی ہے۔ یہ بات ہماری نوجوان نسل کو معلوم ہونی چاہئے۔ بنابریں ایک بات تو یہ ہے کہ یہ کام جو کئے گئے ہیں اس طرح انجام پانے چاہئيں کہ ان سے مطلوبہ نتیجہ حاصل ہو۔ یعنی نوجوانوں کے افکار اور ملک کے مسائل نیز ماضی کے مسائل کے بارے میں ان کے تاثرات پر اثرات مرتب ہوں۔ انقلاب کو چالیس سال ہو رہے ہیں۔ یہ بات آج کے نوجوانوں کو معلوم ہونی چاہئے۔ جن لوگوں نے نزدیک سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بھی بعض فراموشی میں مبتلا ہوکے کج روی اختیار کر لیتے ہیں اور اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، لیکن میری نگاہیں نوجوانوں پر ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیا کام انجام پائے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کے ستون محکم ہوئے ہیں اور وہ سرافرازی کے ساتھ  احساس افتخار کر سکتا ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ ترقیاتی کاموں سے تعلق رکھتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ترقیاتی کام بہت ہوئے ہیں لیکن کرد علاقوں میں اب بھی پسماندگی تھی۔ یہ شاہی حکومت کے دور کی ایک غلط پالیسی تھی جس کے تحت ان کی یہ سوچ اور کام کرنے کی روش بنی تھی۔ اس کے علاوہ اس حکومت میں ملی مصلحتوں کی طرف سے بھی بے اعتنائی بھی تھی۔ اس لئے پسماندگی تھی۔ یہ پسماندگی آپ کو دور کرنی ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم سفارش کریں، ہم سفارش کریں گے، اس میں  ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ اپنا خط دیں، آپ کے ذہن میں جو کچھ آئے وہ اس خط میں لکھیں، ہم اس کو حکام کے حوالے کریں گے، سفارش بھی کریں گے، تاکید بھی کریں گے لیکن کام کرنے والے آپ حکام ہیں۔ یعنی کام آپ ہی لوگوں کو کرنا ہے۔ اجرائی امور رہبر انقلاب کے دفتر کے پاس نہیں ہیں۔ یہ  دفتر مجریہ نہیں ہے؛ مجریہ آپ لوگ ہیں۔ آپ لوگ یہ کام انجام دیں۔ ہم ملک کے کسی وزارت خانے یا کسی اعلی عہدیدار کے لئے حکم نامہ صادر کر سکتے ہیں، تاکید کر سکتے ہیں، لیکن اس کام  کی پیروی جس کو کرنی ہے وہ خود آپ ہیں۔ آئیں جائيں، تاکید کریں، اصرار کریں تاکہ ان شاء اللہ عوام کے فائدے میں جو آپ چاہتے ہیں وہ انجام پائے۔

شہدا کا احترام و تکریم ہمارا فرض ہے، ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ شہیدوں کے لواحقین بھی اپنے صبر اور کام کی اہمیت کے لحاظ سے پہلی صف میں ہیں۔ ان کی تکریم اور احترام بھی ضروری ہے اور یہ تکریم صرف زبانی نہیں ہونی چاہئے، اگرچہ زبانی احترام بھی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں زبانی تکلف (اچھا نہیں ہے)! جی نہیں، بلکہ ہم اپنی زبان سے اور اپنے بیانات میں بھی شہیدوں اور ان کے مرتبے کی جو بات کرتے ہیں وہ بھی اہم ہے۔ بعض لوگ ہیں جنہیں یہ بھی برداشت نہیں ہے۔ ہمیں یہ روش جاری رکھنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ  ہی شہیدوں کے اہل خاندان، راہ خدا میں جسمانی طور  پر معذور ہونے والے جانبازوں اور مجاہدین کے لواحقین کی مختلف طریقے سے مدد اور انہیں رفاہ پہنچانے کے لئے عملی اقدامات بھی ان شاء اللہ انجام دیئے جائيں۔

خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو توفیق عطا کرے کہ آپ یہ کام کر سکیں، خدمت کریں اور اس عظیم کام کو آگے بڑھائيں اور شہیدوں کی ارواح طیبہ کے ساتھ ہی اپنے آپ کو بھی خوشنود کریں۔

 و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) اس اجتماعی ملاقات کے آغاز میں، صوبہ کردستان کے لئے نمائندہ ولی فقیہ  حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسینی شاہرودی کردستان کے گورنر بہمن راد نیا اور سپاہ کردستان کے کمانڈر بریگیڈیئرمحمد حسین رجبی نے رپورٹیں پیش کیں۔ یہ سیمینار 20-6-2019 کو سنندج میں منعقد ہوا۔

2) ماموستا محمد شیخ الاسلام (رہبر انقلاب کے انتخاب کی اسمبلی مجلس خبرگان رہبری میں کردستان کے عوام کے نمائندے )

3) 12 سے 18 مئی 2009 تک) رہبر انقلاب اسلامی کا آٹھ روزہ دورہ کردستان

4) 13-5- 2009 کو رہبر انقلاب اسلامی سے کردستان کے شیعہ وسنی علمائے کرام کی ایک جماعت کی ملاقات

5) ملّا محمّد ذبیحی