آپ نے 3 جولائی 2019 کو ہونے والی اس ملاقات میں حج میں اتحاد، مظلومین کے دفاع، مشرکین سے اظہار بیزاری جیسے لازمی سیاسی پہلوؤں کی شمولیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ہر ایرانی حاجی اپنے عمل، اپنی گفتار اور اپنی متانت سے اپنی قومیت، اپنے تشخص اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار میں اضافہ کرے۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اپنے پورے وجود سے ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ توفیق عطا کی اور لطف فرمایا کہ گزشتہ برسوں کی مانند اس سال بھی عزیز ملت ایران اپنی ایک تعداد کو فریضہ حج کی ادائيگی کے لئے روانہ کرنے جا رہی ہے اور امت اسلامیہ کے اس عظیم الشان اجتماع میں شرکت کرے گی۔

آپ حج کے امور کے کارگزاران اور آپ کی بالکل درست اور مستحسن تعبیر کے مطابق ضیوف الرحمان کے خدمت گزاران کو چاہئے کہ آپ جو عمل انجام دے رہے ہیں اس کی قدر و منزلت کو سمجھیں۔ یہ بڑا اہم کام ہے۔ اس لئے کہ حج ایک منفرد فریضہ ہے۔ حج میں اسلامی اقدار کا ایک مجموعہ جمع ہو گیا ہے جو ایک ساتھ کسی بھی دوسرے واجب میں مجتمع نظر نہیں آتا۔ دوسرے کسی بھی دینی فریضے میں اسلام کی پسندیدہ خصوصیت اتنی کثرت کے ساتھ نظر نہیں آتیں۔ در حقیقت حج اعلی اسلامی معاشرے کا ایک چھوٹا مظہر اور اس چیز کا ایک نمونہ ہے جو اسلامی تمدن میں ہمارے مد نظر ہے۔ اسلامی تمدن سے بشریت کو یہی تحفہ ملنا چاہئے۔ اسلامی تمدن میں مادیت کے ساتھ ساتھ روحانیت ہے اور مادی زندگی کی پیشرفت کے ہمراہ اخلاقی و روحانی ارتقاء، تضرع اور خشوع بھی ہے۔ حج بھی اسی تمدن کا ایک آئینہ ہے۔

آپ واضح طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ حج میں بندگی و خشوع کی نمائش بھی ہے، حج کے اعمال شروع سے آخر تک خشوع، بندگی اور تضرع سے عبارت ہیں، اس سو فیصدی روحانی پہلو کے ہمراہ ایک سماجی پہلو بھی آپ کو نظر آتا ہے اور وہ ہے اتحاد و یکجہتی، اخوت، یک رنگی۔ فقیر و غنی، گوناگوں قومیتیں، گوناگوں ملتیں، گوناگوں نسلیں ایک دوسرے کے ساتھ، ایک ہی جذبے کے تحت، ہدف واحد کی خاطر یکساں عمل انجام دیتی ہیں۔ ہم یہ خصوصیت اور کہاں دیکھ سکتے ہیں؟ اسلامی واجبات ہوں یا گوناگوں ادیان کے فرائض کہ جن کے بارے میں ہمیں کچھ اطلاعات ہیں، کہیں بھی یہ خصوصیت موجود نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود حج کے اندر ایک تحرک موجود ہے۔ عبادت ہے لیکن اسی عبادت میں انسان دیکھتا ہے کہ تحرک بھی موجود ہے۔ طواف ہے، سعی ہے، آمد و رفت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اجتماعیت بھی نظر آتے ہیں۔ عرفات میں یا مشعر الحرام میں یا منیٰ میں جو یہ عجیب عوامی اجتماعات ہوتے ہیں یہ بھی اسلام کی سماجی زندگی کے مظاہر ہیں۔ یہ ساری چیزیں حج کے اندر موجود ہیں۔ حج اخلاقیات کا مظہر بھی ہے۔ فَلا رَفَثَ وَ لا فُسوقَ وَ لا جِدالَ فِی الحَجّ؛ (2) یہ اخوت کا مقام ہے، یہ اخلاق سے پیش آنے کی جگہ ہے، یہ در گزشت کرنے کی جگہ ہے، یہ آپس میں جھگڑنے کی جگہ نہیں ہے، بحث و جدل کرنے کا مقام نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ تمام عجیب، تعمیری اور سبق آموز عناصر حج کے اندر مجتمع ہیں۔ فریضہ حج اس طرح کا واجب ہے۔

ایک بڑی غلطی جس کے بارے میں ہم ہمیشہ سنتے تھے اور آج بھی اسلامی حقائق سے بے اعتنائی برتنے والے بعض افراد کی زبانوں سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ "حج کو سیاسی نہ بنائیے!" اس کا کیا مطلب ہے کہ سیاسی نہ بنائیے؟ حج میں جن سیاسی امور کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے وہ تو عین اسلامی تعلیمات ہیں۔ اتحاد قائم کرنا ایک سیاسی مسئلہ ہے اور یہ اسلام کا فرمان بھی ہے اور یہ عبادت ہے؛ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا (3)۔ ہم اگر حج میں ملت فلسطین یا دنیائے اسلام کے مظلومین جیسے یمن کے مظلومین یا دوسروں کا دفاع کرتے ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں تو بے شک یہ ایک سیاسی عمل ہے، لیکن یہ ایسی سیاست ہے جو بعینہ اسلامی تعلیمات سے عبارت ہے۔ مظلومین کا دفاع خود ایک دینی فریضہ ہے، ایک واجب عمل ہے۔ یہ واجب عمل انجام دیا جاتا ہے۔ یا مشرکین سے اظہار برائت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اظہار برائت پر زور دیتے ہیں اور اسے انجام دینے پر ہمارا اصرار ہوتا ہے، یہ عمل ہر سال بہترین انداز میں انجام پانا چاہئے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک اسلامی فریضہ ہے۔ أَنَّ اللَّهَ بَریءٌ مِنَ المُشرِکینَ وَ رَسولُه؛(4) اسی طرح مومنین بھی «بُرَآءِ» ہیں مشرکین سے؛ إِنَّا بُرَآؤُا مِنکُم وَ مِمَّا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ کَفَرنا بِکُم وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ الْعَداوَةُ وَ الْبَغضاءُ أَبَداً حَتَّی تُؤمِنُوا بِاللَّهِ وَحدَهُ (5) یہ سب دین کی باتیں ہیں۔ بے شک یہ سیاست ہے، حج کے اعمال کے اندر سیاسی عمل ہے۔ لیکن یہ سیاسی عمل بعینہ دینی فریضہ بھی ہے، یہ بعینہ عبادت بھی ہے۔ آپ توجہ فرمائیے کہ یہ بڑے اہم نکات ہیں۔ اب اگر کچھ لوگ آتے ہیں اور اس سیاسی عمل کو روکتے ہیں تو یہ امتناعی اقدام بھی سیاسی عمل ہی ہے، البتہ غیر دینی سیاسی عمل، دین مخالف سیاست۔ یہ جو کہتے ہیں کہ حج میں آپ کو امریکہ کے ‍خلاف ایک لفظ بھی بولنے کا حق نہیں ہے یہ امتناع بھی ایک سیاسی اقدام ہے، ایسا سیاسی اقدام جو شیطانی عمل سے عبارت ہے، یہ غیر اسلامی سیاسی حرکت ہے۔ یہ جو آپ وہاں مشرکین سے اظہار بیزاری کرتے ہیں، ہر اسلام مخالف سے برائت کا اظہار کرتے ہیں یہ سیاسی عمل تو ضرور ہے لیکن یہ سیاسی عمل بعینہ دینی عمل بھی ہے۔ یہ دینی سیاست ہے۔ حج کے سلسلے میں یہ کچھ نکات ہیں جن سے ہمیں آگاہی ہونا چاہئے۔

حج میں ایک اور بھی اہم چیز یہی محبت و اخوت کا مسئلہ ہے۔ ائمہ ہدی علیہم السلام سے منقول روایتوں میں تاکید کی گئی ہے، ترغیب دلائی گئی ہے کہ مسجد الحرام میں یا مسجد النبی میں ان لوگوں کے ساتھ نماز ادا کیجئے جو شیعہ نہیں ہیں۔ ان کی نمازوں میں شرکت کیجئے۔ نماز میں ان کی اقتدا کیجئے۔ یہ ہماری روایتیں کہتی ہیں۔ یہ محبت ہے، یہ مسلمان بھائیوں میں محبت کا جذبہ بیدار کرنے والا عمل ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ یہ ضد کرتے ہیں کہ کارواں کے قیام والی جگہوں پر، ہوٹل وغیرہ میں نماز جماعت قائم کی جائے، یہ مناسب سیاست نہیں ہے، یہ ٹھیک روش نہیں ہے۔ لوگوں کے درمیان سب جائیں، مسجد الحرام میں مسجد النبی میں نماز کی منظم صفوں میں جاکر شریک ہوں۔ مسلمانوں کے بڑے اجتماعات میں امت اسلامیہ کی جھلک پیش کرنا ان چیزوں میں شامل ہے جو حج کے اندر موجود ہیں۔

ایک اور بھی اہم چیز جس پر ایرانی حجاج کرام کو توجہ دینا چاہئے یہ ہے کہ ایرانی حاجی کو ایرانی قومیت، ایرانی تشخص اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار کا سبب بننا چاہئے۔ کونوا لَنا زَینا (6)۔ ایرانی حاجی کا سلوک، خواہ وہ دوستوں سے کیا جانے والا سلوک ہو یا خود اس کی اپنی زندگی کا فطری برتاؤ ہو وقار، متانت، عاقلانہ و خردمندانہ روش کا آئینہ ہونا چاہئے، اسی طرح بقیہ مسلکوں اور قومیتوں کے ساتھ بھی اس کا برتاؤ محبت آمیز، عاقلانہ اور مدلل ہونا چاہئے، محترمانہ برتاؤ ہونا چاہئے۔ ان تمام مراحل میں وہ ملت ایران کے سماجی اخلاقیات کا ممتاز نمونہ پیش کرے۔ یہ واقعی بہت اہم چیز ہے۔ اس بارے میں بھی ائمہ علیہم السلام سے منقول روایات میں شیعوں سے تاکید کے ساتھ کہا گیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنا برتاؤ، اپنی گفتار، اپنا سلوک اور اپنی رواداری اس انداز سے پیش کرو کہ ہماری عزت کا سبب بنو، آبرو کا باعث قرار پاؤ۔

جو لوگ حج کے مقامات، مکہ و مدینہ وغیرہ کے امور کے ذمہ داران ہیں۔ یعنی سعودی حکومت، ان کے دوش پر بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ ان کا فریضہ ہے کہ حجاج کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ حجاج کرام کے احترام اور وقار کا پورا خیال رکھیں۔ حاجی کا احترام بہت اہم ہے۔ یہ ضیوف الرحمان ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے مہمان ہیں۔ ان کا احترام کیا جانا چاہئے۔ جن اقدامات سے ان کے وقار کو ٹھیس پہنچے اور جو حاجی کی توہین کے معنی میں ہو انھیں ضرور ختم کیا جانا چاہئے۔ البتہ ماحول کو پولیس اسٹیٹ جیسا نہ بنایا جائے۔ ماحول پرسکون ہو، زندگی کا اچھا ماحول ہو۔ جس مدت میں حجاج کرام مکہ، مدینہ اور دیگر مقامات پر ہیں، کم و بیش ایک مہینے کی مدت ہے، اس دوران ان کے ساتھ بالکل مناسب برتاؤ کیا جائے۔

دعا، نماز، خشوع اور توسل کو بہت زیادہ اہمیت دیجئے۔ واقعی مسجد الحرام اور مسجد النبی میں پہنچنے کا یہ موقع بڑا غنیمت ہے۔ یہ عام انسان کو آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ آپ کو اور محترم ایرانی حجاج کرام کو یہ موقع ملا ہے، انھیں کامیابی ملی ہے، توفیق حاصل ہوئی کہ وہاں پہنچیں۔ دونوں مسجدوں میں دعا و مناجات، نماز، مسجد الحرام میں طواف، تضرع، توجہ، ان چیزوں کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔ بازاروں میں نکل جانا، خریداری کے لئے یہاں وہاں بھٹکنا ابراہیمی حج کے قدرداں مومن کی شان کے خلاف ہے۔

گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ حج ایک ممتاز اور منفرد فریصہ ہے۔ حج کے بارے میں جو آیتیں ہیں اور حج کے باب میں جو روایات منقول ہیں، وہ سب یہ بتاتی ہیں کہ اس فریضہ دینی کو اس شخص کے لئے گوناگوں شخصی و سماجی دروس و پیغامات کا سرچشمہ قرار پانا چاہئے، جو اس فریضے کو ادا کرنے کی توفیق سے بہرہ مند ہوا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حقیقی معنی میں اس عظیم فریضے کو، اس عمل کو بجا لائیں اور اطاعت پروردگار کریں تو ان نکات پر توجہ کرنا اور انھیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

مشرکین سے اظہار بیزاری بہت اہم اور لازمی عمل ہے۔ اسی طرح مسجد النبی اور مسجد الحرام میں نماز، میں نے عرض کیا کہ بہت ضروری ہے، دعا و مناجات بہت ضروری ہے۔ دعائے ندبہ بہترین انداز میں اور دعائے کمیل بہترین انداز میں جو ایرانی حجاج کرام منعقد کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ بہت اچھی چیز ہے۔ کوشش یہ ہو کہ ان شاء اللہ اسے انجام دیا جائے۔ کیونکہ یہ بہترین مقامات پر اجتماعی تضرع اور اللہ تعالی کی جانب توجہ مرکوز کرنے کا عمل ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ امت اسلامیہ کی مشکلات و مسائل کو، اسلامی معاشروں کی مشکلات کو دور کرے، دنیائے اسلام کو دشمنوں کے شر سے محفوظ کرے۔

آج یہی اسلامی معارف اور یہی اسلامی حقائق دشمنان اسلام کے شدید عناد کے نشانے پر ہیں۔ ان استکباری قوتوں، اسی امریکہ کو آپ دیکھتے ہیں کہ اس وحشیانہ انداز میں اسلامی ماحول، اسلامی فضا، گوناگوں ثقافتی و اقصادی و سیاسی و سیکورٹی کے میدانوں میں مسلمان عوام پر یلغار کرتے ہیں تو ان کی اصلی دشمنی انھیں اسلامی حقائق و معارف سے ہے۔ اگر مسلمان ان اسلامی حقائق کو ترک کر دیں اور انھیں کے انداز میں ڈھل جائیں اور انھیں کے طرز پر زندگی گزارنے لگیں تو یہ دشمنی ختم ہو جائے گی۔ ان کی دشمنی انھیں حقائق و معارف سے ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی حقائق ان کی ظالمانہ منش کے خلاف ہیں۔ جب آپ تضرع اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اِیّاکَ نَعبُدُ وَ اِیّاکَ نَستَعین،(7) اللہ کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر خدا کے سامنے، مادی طاقتوں کے سامنے آپ ہرگز ہراساں نہیں ہیں، ان کے سامنے سر جھکانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہی چیز ان کی دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور یہی چیز امت اسلامیہ کی فتح، پیشرفت، بھلائی اور نجات کی ضامن ہے۔ اسلامی اصولوں کی پابندی، شریعت اسلامیہ کی پابندی وہ چیز ہے جو ملت اسلام کو نجات دلا سکتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جو چیز بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے جس جگہ بھی جس مقدار میں بھی اسلامی اصولوں اور اسلامی ضوابط کی زیادہ پابندی کی اللہ تعالی نے اپنی نصرت میں اضافہ کر دیا اور ہم مشکلات پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوئے۔ جہاں بھی ہم سے غفلت ہوئی، ہمیں اس غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ میں اس ملک کے مستقبل اور یہاں تک کہ امت اسلامیہ کے مستقبل کے لئے جو کچھ محسوس کرتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ عالم اسلام، ملت ایران اور امت اسلامیہ کے وحشی، درندہ صفت اور ظالم دشمن آخرکار اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔ مستقبل میں جو چیز رونما ہونے جا رہی ہے وہ اسلام و مسلمین کے وقار میں اضافہ اور اسلامی معاشروں کی پیشرفت و ارتقاء ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ لیکن اس کے لئے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی مقصود اور کوئی بھی نتیجہ محنت کے بغیر، جدوجہد کے بغیر، درگزشت کے بغیر اور باہمی تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو، تمام ملت ایران کو، دنیا کے تمام مسلمانوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے کہ اس راہ پر اپنے تمام تر وجود کے ساتھ آگے بڑھیں اور توفیقات الہیہ ہمارا مقدر بنیں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں امور حج و زیارات میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام سید عبد الفتاح نوّاب اور ادارہ حج و زیارات کے سربراہ علی رضا رشیدیان نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

2) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۹۷ کا ایک حصہ؛ «...حج کے دوران ہمبستری، گناہ اور بحث و جدال جائز نہیں ہے۔..»

3) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۰۳ کا ایک حصہ؛ « سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور انتشار سے بچو»

4) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ « ... اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری و لا تعلق ہیں۔...»

5)  سوره‌ ممتحنه، آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ؛ «ہم تم سے اور اللہ کی جگہ جس کی پرستش کرتے ہو اس سے بیزار ہیں۔ ہم تمہاری نفی کرتے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان دائمی دشمنی و کینہ نمایاں ہو گیا ہے اس وقت تک کے لئے جب تم اللہ پر ایمان لاؤ۔»

6) امالی صدوق، صفحہ۴۰۰

7) سوره‌ حمد، آیت نمبر ۵؛ «صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں چاہتے۔ »