رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی استکباری طاقتوں کے مقابلے میں ملت ایران کی چالیس سالہ استقامت کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ مظلوم اور مقتدر ملت ایران دنیا کی سب سے بڑی شر انگیز حکومت یعنی امریکہ کے دباؤ، تہمتوں اور توہین سے متاثر ہوکر اپنے اہداف سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ (۱)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ 

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین‌.

عزیز بھائیو اور بہنو! ایک بے حد اہم ادارے یعنی عدلیہ کے فعال ارکان! عدلیہ سے مربوط اس ہفتے کی میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم یہاں شہید بہشتی کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ واقعی یہ با عظمت شہید ایک بڑی نعمت تھے، انقلاب کے لئے بھی اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ کی عدلیہ کی افرادی قوت کے لئے بھی۔ صاحب فکر انسان، محکم ارادے کے مالک، نظم و ضبط والے انسان، محنتی اور امید و نشاط سے مملو۔ بہت بڑی نعمت تھے۔ ہم انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اللہ  تعالی ان کے درجات ان شاء اللہ بلند کرے۔ مختلف ادوار میں عدلیہ کے الگ الگ جو بقیہ سربراہ رہے ہیں ان کا بھی ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنے دور میں اس عدلیہ کے لئے خدمات انجام دیں، کام کئے، محنت کی۔

عدلیہ کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ ہم نے بھی کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ دوسرے افراد نے بھی عدلیہ کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ بالکل واضح حقیقت ہے۔ اس اہمیت کا بنیادی نقطہ ہے عدل جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے؛ وَ اِذا حَکَمتُم بَینَ النّاسِ اَن تَحکُموا بِالعَدل (۲) عدل، انسانی حیات طیبہ کی بنیاد ہے۔ آپ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل کی دعا بھی جب کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ آپ تشریف لائیں تاکہ انصاف قائم ہو۔ یہی تو ہے نا! یَملَاُ اللهُ‌ بِه الاَرضَ‌ عَدلًا وَ قِسطاً بعدَ ما مُلِئَت ظُلما وَ جَورا (۳) حالانکہ امام معاشرے میں دین بھی، تقوی بھی، اخلاقیات بھی پھیلائیں گے لیکن آپ یہ نہیں کہتے: «یملا الله به الارض دیناً» بلکہ یہ کہتے ہیں کہ «عدلاً» یہ اس بات کی علامت ہے کہ عدل انسانی حیات طیبہ کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ سب بھی عدلیہ کا حصہ ہیں، آپ کی اصلی ذمہ داری عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ عدلیہ کی اہمیت کا راز بھی یہی ہے۔ البتہ آئین میں کچھ دوسرے نکات بھی ہیں جو میں ابھی عرض کروں گا۔

اسلامی جمہوریہ میں عدلیہ ایک نئی عمارت تھی، نئے پودے کی مانند تھی۔ اسلامی انقلاب سے قبل کی عدلیہ میں اور اس میں     بڑے اساسی فرق تھے۔ اس پودے کو روز بروز نمو کے مراحل طے کرنا ہیں۔ پیشرفت کے اعتبار سے ہر دور گزشتہ دور کی نسبت بہتر ہونا چاہئے۔ اس وقت بھی ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ اس میں پیشروؤں سے عدلیہ کو ملنے والی خصوصیات و ثمرات کے بعد اب ایک نئی خصوصیت، کوئی نیا امتیاز اور کوئی نئی کامیابی ملنی چاہئے۔ یہ نئی کامیابی کیا ہو سکتی ہے؟ تبدیلی، عدلیہ کے اندر تبدیلی۔ تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟ تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے اسلام، قرآن اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد پر کچھ واضح اور معینہ اصول ہیں جن کی آپ کو پابندی کرنا ہے۔ آپ کو ان کا پابند رہنا ہے اور ان کے دائرے میں آپ کو آگے بڑھنا ہے۔ یہ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ ان میں تو کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ یہ وہی ہیں جو روز اول سے چلی آ رہی ہیں، اس وقت بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ان اصولوں پر بھرپور توجہ دی جائے، ان ذمہ داریوں کو انجام دیا جائے، ان اہداف تک پہنچا جائے لیکن اس کے لئے جدید، اختراعی اور موثر روشوں اور طریقوں کو ایجاد اور استعمال کیجئے۔ اس سے وہ نقائص اور عیوب بھی دور ہو جائیں گے جو ماضی میں تھے۔ تبدیلی کا یہ مطلب ہے۔

ہمارے پاس ایک ادارہ ہے جس کے کام کرنے کے اپنے کچھ طریقے ہیں، اس کے پاس کچھ اجرائی پروگرام ہیں اور اس کے ساتھ ہی کچھ خامیاں بھی ہیں، نقائص ہیں، کمیاں ہیں۔ آپ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہونا یہ چاہئے کہ کام کے ان طریقوں کو نتیجہ بخش بنایا جائے، انھیں موثر، کارآمد اور سہل طریقوں میں بدل دیا جائے۔ جو رکاوٹیں ہیں، جو نقائص ہیں جو کمیاں ہیں انھیں دور کیا جائے۔ یہ کہلائے گی تبدیلی۔ اس کے لئے بے شک پروگرام کی ضرورت ہے۔ پروگرام کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ روز مرہ کی بنیاد پر یہ عمل انجام نہیں پا سکتا۔ ضروری ہے کہ کوئی مفکر اور مدبر ٹیم بیٹھے اور اپنے ذہن میں اس بنیادی تبدیلی کا ایک خاکہ تیار کرے، اسے کاغذ پر اتارے اور پھر فیصلہ کرے۔ بحمد اللہ یہ کام ہو چکا ہے۔ عدلیہ کے نئے محترم سربراہ جناب رئیسی صاحب نے عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک تقاضے کی بنیاد پر کام کا یہ حصہ انجام دیا۔ آپ نے اصلاحات کا جامع اور قابل قبول پروگرام تیار کر دیا۔ تو یہ کام انجام پا چکا ہے۔ کام کا یہ حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ پروگرام ہنوز ذہنی خاکے اور تصورات تک محدود ہے۔ اگر ہم اسے عملی طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تو عدلیہ کے محترم سربراہ، عہدیداران اور ارکان سے میری پہلی سفارش یہ ہے کہ یہی اچھا پروگرام جو آپ نے ترتیب دیا ہے، تیار کیا ہے اور پیش کیا ہے، اسے آپ ایک نظام الاوقات کے تحت بغیر چشم پوشی کے انجام دیجئے۔ اسے رکنے نہ دیجئے۔ کسی چیز سے نہ ڈرئے، آگے بڑھئے، اللہ پر توکل کیجئے، اقدام کیجئے اور اس پرگرام کو عملی شکل میں ڈھالئے۔ اس انداز سے کام کیجئے کہ ایک معقول مدت گزرنے کے بعد، البتہ یہ جو کوتاہ مدت اور چند مہینے کے پروگرام ہوتے ہیں عملی اقدامات اس مفہوم میں نہیں ہیں۔ بالکل واضح طور پر محسوس ہونا چاہئے کہ عدلیہ میں تبدیلی آ رہی ہے، ادارہ تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ یہ آپ کی محنت سے ہو سکتا ہے۔ البتہ کوتاہ مدتی پروگرام بھی بہت اہم ہے۔ تو پروگرام تیار کرنا۔

کسی زمانے میں میرا تصور یہ تھا کہ پروگرام تیار کر لینے کا مطلب ہے کہ پچاس فیصدی کام ہو گیا ہے۔ لیکن اس پچاس فیصدی کو اگر بعد والے پچاس فیصدی سے نہ ملایا جائے تو ایسا ہی ہے کہ گویا کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کنوے کی گہرائی سے  پانی نکال رہا ہے، گہرائی مثال کے طور پر سو میٹر ہے۔ آپ پچاس میٹر تک پانی اوپر بھر کر لائے لیکن اس کے بعد وہیں اٹک جائے۔ تو اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا پانی اوپر آیا ہی نہیں۔ دونوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر آپ نتیجہ اور ثمرہ حاصل کرنا چاہے ہیں تو بقیہ پچاس فیصدی کو بھی جو تحرک، عمل، اقدام اور بقیہ شرائط سے عبارت ہے، انجام دیجئے تاکہ نتیجہ حاصل ہو، ویسے میں اس سلسلے میں پرامید ہوں۔ میں جس نظر سے ملک کے عدالتی نظام اور عدلیہ کو دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق آپ ان شاء اللہ یہ مہم انجام دینے میں کامیاب ہوں گے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس کو اسی ابتدائی دور میں ہی شروع کر دیجئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم سوچیں کہ جناب ابھی تو کافی وقت پڑا ہے، ہمارے پاس ابھی موقع ہے، ابھی تو بہت وقت بچا ہے، ان شاء اللہ یہ کام ہم انجام دیں گے۔ بعد میں جب آدھا وقت گزر چکا ہوتا ہے یا آخری ایام ہوتے ہیں تب ہم مسلسل یہی دہراتے رہتے ہیں کہ "یہ کام کرنا چاہئے، وہ کام انجام پانا چاہئے!" یہ روش مفید نہیں ہے۔ پہلے دن سے ہی آغاز ہو جانا چاہئے۔ اپنے کام میں کسی بھی تاخیر کو جائز نہ سمجھئے۔ یہ رہی ایک بات۔

میں نے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں عدلیہ کے تعلق سے۔ البتہ رئیسی صاحب نے جو باتیں بیان کیں بہت اچھی تھیں، ہمارا بھی وہی کہنا ہے جو جناب عالی نے بیان کیا۔ چند نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ آپ آئين کی جانب رجوع کیجئے اور قانون کے دائرے میں اپنے فرائض کو محسوس کیجئے۔ عدلیہ کا فریضہ صرف فیصلہ کرنا اور عدالت چلانا نہیں ہے۔ عدلیہ کا فریضہ اس سے بالاتر ہے۔ آئین میں عوام الناس کے حقوق کی بازیابی عدلیہ کے فرائض کا جز ہے۔ عوام الناس کے حقوق کی بازیابی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کا دائرہ اقتصادیات سے لیکر سلامتی اور بین الاقوامی امور تک پھیلا ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر عوام الناس کے حق کا دفاع بہت اہم چیز ہے۔ یہ آپ کے اہم فرائض میں شامل ہے۔ یا مثال کے طور پر عدل و آزادی کی ترویج، ظاہر ہے کہ انصاف کی ترویج آزادی کی ترویج کے ساتھ ہوتی ہے۔ البتہ آئین میں آزادی سے مراد ہے جائز اور قانونی آزادی ہے، یہ تو ظاہر سی بات ہے۔ آزادی کی ترویج بھی آپ کا فریضہ ہے۔ آپ اسے کیسے انجام دیں گے؟ کیا روش اپنائیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ جو روش اپنائیں وہ جدید اور اختراعی ہونا چاہئے۔

یا جرائم کی پیشگی روک تھام کا مسئلہ ہے۔ انسداد جرم بہت اہم چیز ہے۔ بے شک یہ بات درست ہے کہ ہم عدلیہ کے ایک حصے کو جرائم کی پیشگی روک تھام پر مامور کر دیں گے، یہ ضروری ہے لیکن پیشگی روک تھام بہت وسیع کام ہے۔ اس کے لئے جرم کی شناخت ضروری ہے، جرم کو وجود میں لانے والے عناصر کی شناخت ضروری ہے، انسداد جرم کے اقدامات سے آپ کو بخوبی آگاہی ہونا چاہئے۔ اس مرحلے کے لئے لازمی اقدامات کا ایک وسیع باب ہے۔ ان میں سے ہر کام کو انجام دینے کے لئے ایک فاعل کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مثال کے طور پر ہم کہیں کہ چلئے ہم نے اس کے لئے ایک ٹیم معین کر دی ہے۔ جی نہیں، الگ الگ ہر کام پر نظر اور توجہ رکھنا ضروری ہے۔

یا قانون کے حسن نفاذ کا مسئلہ ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کون کرتا ہے؟ قانون صرف ٹریفک کے ضوابط تک محدود نہیں ہے یا صرف اس قانون تک محدود نہیں ہے کہ جسے کوئی لا ابالی قسم کا شخص توڑتا ہے۔ کبھی کبھی بہت اونچی سطح پر قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہاں عدلیہ کو چاہئے کہ سینہ سپر ہوکر کھڑی جائے۔ الغرض یہ کہ انسان جب عدلیہ کو غور سے دیکھتا ہے تو اس کی عظمت اور اس کے وسیع دائرہ کار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ شعبہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا تعلق آپ سے ہے۔ آپ نے یہ سنگین بوجھ اپنے دوش پر اٹھایا ہے۔ اگر آپ کچھ کام انجام دینے اور نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تو گویا آپ نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ آپ اپنے اس عمل سے اللہ کی خوشنودی حاصل کریں گے۔ یعنی اگر آپ نے ان شاء اللہ اپنے فرائض منصبی بحسن و خوبی ادا کئے تو یہ بے مثال صدقہ اور راہ خدا میں انفاق ثابت ہوگا۔

ایک نکتہ اور بھی ہے جس کی جانب جناب رئیسی صاحب نے بھی اشارہ کیا، وہ ہے کرپشن سے لڑنے کا مسئلہ۔ بدعنوانی کا مقابلہ خود عدلیہ کے اندر بھی توجہ طلب مسئلہ ہے اور عدلیہ کے باہر بھی۔ تاہم ترجیح عدلیہ کے اندرونی مسئلے کو حاصل ہے۔ عدلیہ کے پورے ادارے میں ہزاروں شریف و با کردار جج اور دیانتدار کارکن موجود ہیں جو کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ کسی شہر میں کسی عدالت میں کوئی نابکار عنصر ہوتا ہے جو غلط حرکت کرتا ہے اور ان پاکیزہ و شریف شخصیات کو بدنام کرتا ہے۔ یہ معمولی بات ہے؟ یہ چھوٹی چیز ہے؟ شاید عدلیہ کے اندر موجود نابکار افراد کی شرح پاکیزگی و شرافت کی بلندی پر فائز افراد کی تعداد کے مقابلے میں بہت معمولی ہو، ہمارے یہاں ایسے جج موجود ہیں جو بڑی دشواریوں اور عسرت میں زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں بہت بڑے اور اہم کیس بھی ہوتے ہیں، لیکن کیا مجال ہے کہ ذرہ برابر بھی راہ راست سے ہٹ جائیں! اگر اتنے با کردار نہ ہوتے تو شاید اس سے بہتر اور زیادہ آسودہ زندگی کے مالک ہوتے، لیکن وہ ہرگز راہ راست سے نہیں ہٹتے۔ دوسرے بہت سے عام جج ہیں جو پوری دیانتداری اور صداقت کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔ بدعنوان اور نابکار افراد کی تعداد ایسے پاکیزہ لوگوں کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن یہی بہت کم تعداد، یہی بہت معمولی شرح بھی تباہ کن اثرات ڈالتی ہے۔ میں عدلیہ کی تصویر اور شبیہ کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے بعد میں اس کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ عدلیہ کے اندر کرپشن کی روک تھام کے لئے سخت رویہ اپنائیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کی ذمہ داری ہے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا۔ اب اگر خود اس کے اندر بدعنوانی ہوگی تو اس کا یہ گناہ نا قابل معافی ہے۔ انسان کا رتبہ اور قانونی حیثیت جتنی زیادہ بلند ہو اس کے کام کی اہمیت بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے، مثبت کاموں کی بھی اور منفی کاموں کی بھی۔

آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالی قرآن میں پیغمبر کی ازواج کو مخاطب کرکے فرماتا ہے: «یٰنِساءَ النَّبِیِّ‌ مَن‌ یَأتِ ‌مِنکُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ یُضٰعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَینِ»(4) – تم میں سے جو بھی گناہ کا ارتکاب کرے گی اس کا عذاب دگنا ہوگا۔ یعنی وہی گناہ جسے انجام دینے پر ایک عام عورت کو سو کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے اگر تم نے انجام دیا تو تم کو دو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ تم پیغمبر کی زوجہ ہو۔ «وَمَن یَقنُت مِنکُنَّ لِله وَ رَسولِه»(5) اسی طرح انھیں ملنے والا صلہ اور انعام بھی دگنا ہے۔ یہ انسان کی منزلت کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔

بسا اوقات مجھے حضرت یونس سلام اللہ علیہ پر بڑا ترس آتا ہے۔ انھوں نے آخر کیا کیا تھا کہ کہنا پڑا: سُبحٰنَکَ اِنّی کُنتُ مِنَ الظٰلِمینَ‌ (6) وہ بھی اتنی سخت سزا کے بعد جو اللہ تعالی نے حضرت یونس کو دی۔ آپ نے اپنی قوم کو راہ حق کی لاکھ دعوت دی، بار بار نصیحت کی لیکن انھوں نے سنا ہی نہیں تو آپ اپنی قوم کے لوگوں سے ناراض ہو گئے، سب کو چھوڑ کر شہر سے باہر چلے گئے۔ انھوں نے یہی تو کیا تھا۔ اگر مثال کے طور پر کو‏ئی عالم دین کسی شہر میں وعظ و نصیحت میں مصروف ہے، لیکن وہاں کے لوگ اس کی بات ہی نہیں سننا چاہتے تو وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گا، اٹھے اور چلا جائے۔ یہ برا اقدام تو ہے لیکن کیا اس کی سزا یہ ہے کہ سمندر میں پہنچ جائیں، مچھلی انھیں نگل لے اور اللہ تعالی کہے کہ اگر وہ تسبیح و تہلیل نہ کرتے تو «لَلَبِثَ فی بَطنِه اِلی یَومِ یُبعَثونَ»؟(7) قیامت تک شکم ماہی میں ہی پڑے رہتے! اس عمل کی سزا یہ ہے؟ مگر پھر بھی اللہ تعالی نے حضرت یونس کو اس طرح سزا دی۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ پیغمبر ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ آپ پیغمبر ہیں؛ فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَیهِ‌، انھیں یہ گمان ہو گیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ «نَقدِرَ» کا مطلب ہے سختی سے پیش آنا، سختی کرنا۔ فَنادیٰ فِی الظُّلمٰتِ اَن لا اِلهَ اِلّا اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنّی کُنتُ مِنَ الظٰلِمینَ (8) خود کو ظالم مانا اور اعتراف کیا۔ فَاستَجَبنا لَهُ وَ نَجَّیناهُ مِنَ الغَمِّ (9) یہ صورت حال ہے۔ آپ میں اور عام انسانوں میں فرق ہے۔ اگر عام شخص کوئی ایسا عمل انجام دے جو قابل مذمت ہے تو اگر آپ نے وہی غلطی کر دی تو آپ کی دوگنا یا کئی گنا زیادہ مذمت کی جائے گی۔ کیونکہ دونوں میں فرق ہے۔ آپ عدلیہ کے اندر پائے جانے والے کرپشن کو اس نگاہ سے دیکھئے۔

البتہ عدلیہ پر حملہ شدید ہے، اس کے خلاف الزام تراشی ہوتی ہے، اس پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں، ہمیں اس کا بھی علم ہے۔ یعنی واقعی جو امر واقع ہے اس سے کہیں زیادہ عدلیہ کے خلاف باتیں ہوتی ہیں اور لکھا بھی جاتا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا بھی موجود ہے، ایسا پلیٹ فارم کہ جہاں ہر کوئی بے روک ٹوک جو چاہے لکھ دے۔ ان چیزوں کی اہمیت نہیں ہے۔ ان چیزوں سے آپ کی حوصلہ شکنی نہیں ہونا چاہئے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے بڑا عادل آپ کو ساری دنیا میں، پوری تاریخ انسانیت میں کوئی ملے گا؟ عدل و انصاف کے پیکر امیر المومنین علیہ السلام پر ناانصافی کی تہمت لگائی گئی۔ لوگ تو کہتے ہی ہیں، ہر کسی کے خلاف بولتے ہیں، پیغمبر کے خلاف، انبیاء کے خلاف، امیر المومنین کے خلاف، اللہ کے خلاف، اسی طرح آپ کے بھی خلاف باتیں کرتے ہیں تو کرنے دیجئے۔ اس سے آپ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آنا چاہئے۔

ایک اور نکتہ جو بہت اہم ہے عدلیہ کی تصویر اور ساکھ کا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ بہت اچھے اور با شرف ہوں لیکن ایک واقعہ یا چند واقعات ایسے رونما ہو جائیں کہ جن سے لوگوں کی نگاہ میں وہ صداقت و دیانت داری نہ آئے بلکہ اس کے برعکس تصویر ابھرے تو یہ بہت بری چیز ہے۔ لوگوں کی نگاہ کے سامنے عدلیہ کی جو تصویر ہو اس میں یہ خصوصیات ہونا چاہئیں:

پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہ مدبرانہ صلاحیت رکھتی ہے۔ تقرریوں میں بھی، صادر ہونے والے احکام میں بھی، اپنے برتاؤ میں بھی، اپنی گفتار میں بھی وہ ثابت کرے کہ مدبرانہ صلاحیت رکھتی ہے۔ اس مسئلے میں خاص طور پر عدلیہ کے اعلی رتبہ عہدیداران اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہ ثبوت دے کہ عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کا اسے پورا علم ہے۔ یہ ظاہر ہونا چاہئے۔ واضح ہونا چاہئے کہ یہ ایک صاحب علم ادارہ ہے، علم کی بنیاد پر کام کرتا ہے، ماہرانہ علمی کام کرتا ہے۔ یہاں علم سے مراد قانون ہے یا فقہ ہے۔ عدلیہ میں عدل و انصاف کی بنیاد فقہ ہے اور قانون۔

یہ ظاہر ہونا چاہئے کہ عدلیہ کے پاس سننے والے کان ہیں۔ اس میں سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ دادسرا (پبلک پراسیکیوٹر آفس) میں اس تحمل کا مظاہرہ پبلک پراسیکیوٹر کے ذریعے ہو، اس کا مظاہرہ اٹارنی کے ذریعے بھی ہونا چاہئے اور عدالت میں جج کے ذریعے بھی ہونا چاہئے۔ سننے والے کان ہوں۔ سنئے! جو شاکی ہے اور شکایت لیکر آیا ہے اس کی بات بھی سنئے اور غور کیجئے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے، اسی طرح اس کی بات بھی سنئے جس پر الزام لگایا گيا ہے اور جو اپنا دفاع کر رہا ہے، پوری بات سنئے اور دیکھئے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ یہ باتیں سنی جانی چاہئے۔ ممکن ہے کہ آپ اس کی بات سے متفق نہ ہوں لیکن پھر بھی اس کی بات سنئے۔

ایک اور لازمی صفت ہے مقتدرانہ روش۔ آپ کے اندر تدبر ہونا چاہئے، علم ہونا چاہئے، سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی مقتدرانہ انداز ہونا چاہئے۔ یہ بات سب کو محسوس ہونا چاہئے کہ عدلیہ کے پاس اختیارات ہیں، وہ جس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے اس کے مطابق عمل ضرور کرتی ہے۔ کیسز کا التوا میں پڑے رہنا جس کے بارے میں عدلیہ کے عہدیداران سے اپنی اسی ملاقات میں میں بار بار انتباہ دے چکا ہوں، عدلیہ کی ہیبت پر کاری ضرب ہے۔ جب کوئی کیس ایک سال، دو سال، پانچ سال اور دس سال تک التواء میں پڑا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں عدلیہ پس و پیش کا شکار ہو گئی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ عدلیہ جس نتیجے پر بھی پہنچی ہے اس پر اسے پوری قطعیت سے عمل کرنا چاہئے۔

ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کی یہ تصویر قائم ہو؟ یہ چیز آپ کی رفتار، آپ کی گفتار، آپ کی کارکردگی اور آپ کی درست تشہیراتی پالیسیوں کے ذریعے ہونا چاہئے۔ البتہ دوسرے مختلف ادارے قومی نشریاتی ادارہ اور دیگر ادارہ جات بھی اس میں مدد کریں۔ عدلیہ انقلاب کا ادارہ ہے، عوام کا ادارہ ہے، ملک کا سرمایہ ہے، اس پہلو سے تمام اداروں کو چاہئے کہ اس سے تعاون کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ٹیلی ویژن میں یا کسی اخبار میں یا سوشل میڈیا پر جہاں ہر کوئی بے پروائی کے ساتھ جو چاہتا ہے کہتا ہے، کوئی چھوٹی سی چیز ہو تو بھی اس کو بیان کرنا شروع کر دیں، معمولی سی چیز کو، ایسی بات کو جس کا ثبوت نہیں ہے، یونہی پھیلانا شروع کر دیں اور نتیجے میں عدلیہ کمزور ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تصویر قائم کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ خود آپ کی بھی ذمہ داری ہے، اسی طرح دوسروں کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک نکتہ تقرریوں کے بارے میں ہے۔ آپ دیکھئے کہ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام مالک اشتر کو دئے گئے اپنے معروف فرمان میں، جو آپ کی سب سے طولانی تحریر ہے اور جس کا ایک حصہ عدلیہ سے متعلق ہے، اسے غلطی سے لوگ عہد نامہ کہتے ہیں، یہ عہد نامہ نہیں ہے، یہ ایک فرمان ہے جسے «عهد» کہا جاتا ہے۔ امام اس طرح فرماتے ہیں: «ثُمَّ اختَر لِلحُکمِ بَینَ النّاسِ اَفضَلَ رَعِیَّتِکَ فی نَفسِک‌» (10) فیصلے کرنے کے لئے سب سے افضل شخص کا انتخاب کرو، سب سے افضل! یہ بہت اہم بات ہے۔ اس کے بعد حضرت اس افضل شخص کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔ دس بارہ خصوصیات آپ نے بیان کی ہیں۔ آپ اس سے رجوع کیجئے۔ میں گزارش کروں گا کہ ضرور تمام افراد خاص طور پر عدلیہ کے عہدیداران، وہ افراد جن کا تقرریوں میں عمل دخل ہوتا ہے، اس طرح کے افراد سے رجوع کریں، اسے دیکھیں۔ حضرت نے جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ بعینہ ان ضرورتوں سے مطابقت رکھتی ہیں جنھیں انسان محسوس کرتا ہے۔ حضرت نے ان ساری چیزوں کا احاطہ فرمایا ہے اور بیان کر دیا ہے کہ قاضی کے اندر کیا خصوصیات ہونا چاہئیں(11)۔ تو تقرریوں کا مسئلہ بہت اہم ہے، تقرری سے قبل ہونے والی تحقیق بہت اہم ہے۔ تقرری بھی اور  اس سے پہلے انجام پانے والی تحقیق بھی۔ آپ جج کی تقرری کرنا چاہتے ہیں، خاص ہدف کے لئے تقرری کرنا چاہتے ہیں تو ان خصوصیات کو ضرور دیکھ لیں، ان سے رجوع کر لیں۔ میری گزارش ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مکتوب کے اس حصے کا، مالک اشتر کو دئے گئے فرمان کے اس حصے کا ضرور مطالعہ کیجئے۔

ایک اور نکتہ جو آخری نکتہ ہوگا یہ ہے کہ عدلیہ کا فریضہ ہے قانون اور حقوق کی پاسداری اور حدود کو معین کرنا۔ لیکن عدلیہ کے اس اہم فولادی نظام کے اندر نرمی و لطافت پیدا کرنے والے عناصر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسی چیزیں ہیں جو اس میں نرمی و لطافت پیدا کرتی ہیں۔ خود عدلیہ کے ڈھانچے کو بھی اور اس سے نکلنے والے ثمرات کو بھی لطیف بناتی ہیں۔ عدلیہ کے ڈھانچے کے سلسلے میں یہ کام اخلاقیات سے ہوتا ہے۔ خاص طور پر رجوع کرنے والے افراد سے بداخلاقی نہ کی جائے۔ ماتحت افراد کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ماتحت افراد سے زیادہ اس کی ضرورت رجوع کرنے والے افراد کے سلسلے میں ہے۔ خوش اخلاقی ضروری ہے۔ اپنا فرض سمجھئے کہ ان سے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ پبلک پراسیکیوٹر اپنی جگہ پر، اٹارنی عدالت کے اندر ملزم یا اس کے وکیل سے جرح کے دوران اپنا استدلال پیش کرے لیکن اخلاق کے ساتھ۔ بعض کام جو مغرب میں ہوتے ہیں اور ان کی ویڈیو بھی جاری کر دی جاتی ہے کہ مثال کے طور پر کسی اٹارنی نے کس لہجے میں بات کی یا توہین کر دی تو پہلی بات یہ ہے کہ ان میں بہت سی ویڈیو تو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مغرب والوں کے طور طریقوں کو معیار نہ بنائیے۔ آپ دیکھئے کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ اسلامی احکامات کیا ہیں۔ اخلاق سے پیش آئیے۔ بعض اوقات خود جج ملزم سے جرح کرنے لگتا ہے، بات کرتا ہے، کوئی سوال پوچھتا ہے، کوئی جواب دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اخلاق کے ساتھ، نرمی سے، تحمل اور بردباری سے ہونا چاہئے۔ یہ تو عدلیہ کے اندرونی برتاؤ اور سلوک کی بات ہے۔

کارکردگی اور ثمرات کی بات کی جائے تو جہاں تصادم کی کیفیت ہے وہاں عفو و درگزر کرنے کی سفارش کی جانی چاہئے۔ اسلام میں خاندانی مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے؛ وَ الصُّلحُ خَیر (12) آشتی کروا دیجئے، صلح کروا دیجئے۔ یہ جو 'حکمیت' (آربٹریشن) کے احیاء کا مسئلہ ہے یہ خاندانی مسائل سے مربوط ہے یا ازالہ اختلافات کونسلیں ہیں یہ سب عدلیہ کے امور میں اخلاقیات کو دخیل کرنے اور عدلیہ کے نظام میں اخلاقیات کو جگہ دینے کے اقدامات ہیں۔ یہ چیز خود عدلیہ کے ڈھانچے سے مربوط تھی۔

موجودہ سیاسی مسائل کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ملت ایران نے بحمد اللہ حقیقی معنی میں اپنے وقار، عظمت اور اقتدار کا مظاہرہ کیا۔ یہ صرف حالیہ مسائل کی بات نہیں ہے، یہ بھی ایک نمونہ ہے، تاہم پورے چالیس سال کے دوران واقعی اس نے اس کا مظاہرہ کیا۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی خبر رساں اداروں میں، سیاست دانوں اور سفارت کاروں وغیرہ کی زبان سے آج کل بار بار دہرایا جاتا ہے کہ ایران کو دباؤ، پابندیوں، دھمکیوں وغیرہ سے جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک مہینے، دو مہینے اور چھے مہینے کے اندر پیش آنے والے واقعات کی بات نہیں ہے۔ یہ ملت ایران کے اس چالیس سالہ سفر کا نتیجہ ہے۔ ملت ایران نے خود کو مسلط کردہ ذلت و حقارت سے انقلاب کے ذریعے نجات دلائی، حقارت کے اس خول کو توڑ دیا اور باہر نکلی۔ اس کے اندر ایرانی تشخص اسلامی اوصاف کے ساتھ نمایاں ہوا۔ وہ وقار پر زور دیتی ہے، وہ خود مختاری پر زور دیتی ہے، پیشرفت پر زور دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم دشمن جتنا بھی دباؤ ڈالیں اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آپ ان ریلیوں کو دیکھئے، آپ یوم قدس کو دیکھ لیجئے، آپ گیارہ فروری کو دیکھ لیجئے۔ چالیس سال ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ آپ انتخابات کو دیکھ لیجئے۔ ملک کے انتخابات کے خلاف کتنی ریشہ دوانیاں کی گئیں لیکن عوام واقعی قابل تعریف عزم و ارادے کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں۔ اس (ہجری شمسی) سال کے آخر میں بھی انتخابات ہوں گے۔ کچھ افراد کی جانب سے شک و شبہ پیدا کرنے کی مذموم کوششوں کے باوجود اس دفعہ بھی مجھے معلوم ہے کہ عوام بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں گے۔ اس سے ملت ایران کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ اس عظیم قوم کو، اتنی شجاع قوم کو، اس باوقار قوم کو مورد الزام قرار دیتے ہیں، کون لوگ؟ دنیا کی سب سے شرپسند حکومت، یعنی امریکی حکومت (13)۔ دنیا کی سب سے شرانگیز اور شیطانی صفت حکومت جو جنگ، خونریزی اور تفرقہ انگیزی کی جڑ ہے اور دس سال بیس سال نہیں بلکہ ایک طویل تاریخ کے دوران قوموں کو لوٹنے اور غارت کرنے میں ملوث رہی ہے۔ ایسی حکومت کے سب سے نفرت انگیز عناصر ملت ایران پر الزام لگاتے ہیں۔ آئے دن ملت ایران کے خلاف فحش کلامی اور توہین آمیز بات کرتے ہیں۔ ان توہین آمیز باتوں سے ملت ایران پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ اس توہین اور فحش کلامی سے ملت ایران پسپا ہونے والی نہیں ہے۔ ملت ایران پر ظلم ہوا ہے۔ یہی ظالمانہ پابندیاں، ملت ایران پر کھلا ہوا ظلم ہے، ملت ایران مظلوم واقع ہوئی ہے لیکن کمزور نہیں ہے، ملت ایران مقتدر ہے۔ فضل پروردگار سے، نصرت خداوندی سے ملت ایران ان تمام اہداف کو اپنی قوت و توانائی کی مدد سے حاصل کرے گی جو اس نے اپنے لئے معین کئے ہیں۔

ہم پر ظلم ہو رہا ہے، ہم مظلوم ہیں لیکن کمزور نہیں ہیں، ہم مقتدر ہیں۔ ملت ایران کی قوت و طاقت کا کلیدی پہلو اللہ کی حمایت و دست گیری پر مبنی ہے۔ قالَ لا تَخافا «اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ وَ اَرىٰ (14) اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہماری مدد کر رہا ہے، اس کا ثبوت یہ چالیس سالہ دور ہے جس میں ہمارے خلاف اتنی ساری سازشیں ہوئیں، اتنا شدید دباؤ ڈالا گیا، جنگ چھیڑ دی گئی، فتنہ کھڑا کر دیا گيا، دراندازی کی گئی، دہشت گرد عناصر کو ہمارے عوام پر حملے کے لئے مامور کر دیا گيا۔ اس ملت کے خلاف ہزاروں مذموم اور خیانت آمیز کام کئے گئے، لیکن یہ قوم کہسار کی مانند ثابت قدم ہے اور روز بروز اس کی ثابت قدمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ قوم دس سال اور بیس سال پہلے سے زیادہ قوی، طاقتور اور ثابت قدم ہے۔ جب وہ دباؤ  وغیرہ جیسے حربوں سے اپنا مقصد پورا نہ کر سکے  تو اس خام خیالی کے ساتھ کہ ملت ایران سادہ لوح ہے آسانی سے دھوکا کھا جائے گی، آکر کہنے لگے کہ: "آئیے ہم سے مذاکرات کر لیجئے، آپ میں پیش رفت حاصل کرنے کی توانائی ہے۔" جی ہاں، ملت ایران ضرور پیشرفت حاصل کرے گی لیکن آپ سے دور رہ کر۔ اگر آپ قریب آئے تب پیشرفت نہیں ہوگی۔ آپ، برطانیہ اور دوسرے ممالک پہلوی دور حکومت میں پچاس سال تک، خاص طور پر دوسرے پہلوی دور میں تقریبا تیس سال کے عرصے میں امریکہ اس مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک تھا۔ یہ مملکت روز بروز پسماندگی میں گرتی چلی گئی۔ آپ پیشرفت کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ آپ ملت ایران کی پسماندگی کی وجہ ہیں۔ ملت ایران کو پیشرفت حاصل ہوگی بشرطیکہ آپ قریب نہ آئیے۔

کہتے ہیں کہ مذاکرات کے لئے آئیے۔ مذاکرات کی بات ایک دھوکا ہے۔ کس چیز کے بارے میں مذاکرات؟ اس چیز پر مذاکرات جس کی اسے ضرورت ہے۔ یعنی اس ہتھیار کے بارے میں گفتگو جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جس کے ڈر سے دشمن کی آگے آنے کی اس کی ہمت نہیں پڑ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ جناب وہ ہتھیار مجھے دے دیجئے، وہ ہتھیار پھینک دیجئے تاکہ میرا جو دل چاہے وہ آپ کے ساتھ کر سکوں، جیسی مصیبت چاہوں آپ پر مسلط کر دوں، وہ یہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس طرح کے مذاکرات میں شامل ہونے کی بات آپ نے قبول کر لی تو آپ کی درگت ہو جائے گی۔ اگر پیشکش کو قبول نہ کیا تو یہی حالات رہیں گے جو اس وقت ہیں۔ یعنی جھگڑا، شور شرابا، پروپیگںڈا، "بھئی یہ لوگ کچھ ماننے کو تیار نہیں ہیں!" امریکی انسانی حقوق اور اسی طرح کی دوسری واہیات چیزوں کا ذکر۔ یہ لوگ حملہ کرکے ہوا میں تقریبا تین سو افراد کی جان لے لیتے ہیں اور اس کے باوجود امریکی انسانی حقوق کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ سعودیوں کی مدد سے جاکر یمن میں عوام پر بازار میں، مسجد میں، تعزیتی پروگرام میں، شادی کی تقریب میں، اسپتال وغیرہ میں بمباری کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے دعویدار بھی بنے رہتے ہیں۔ یہ اس قماش کے لوگ ہیں۔

جی نہیں، ملت ایران نے اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ ہمارے راستے کا تعین انقلاب نے کر دیا ہے، ہمارے عظیم الشان امام نے کر دیا ہے، ہمارے اہداف واضح ہیں۔ ان دسیوں برسوں کے دوران بارہا ان اہداف کو بیان کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اہداف بڑے قیمتی اور پرکشش ہیں۔ مادی آسائش کا حصول، سماجی وقار کا حصول، بلند تر عاقلانہ مقام تک رسائی، ممتاز علم و سائنس کا حصول، سماجی سکون اور سلامتی کا حصول۔ یہی ہمارے اہداف ہیں جو اسلام نے ہر قوم کے لئے رکھے ہیں۔ ہمارے لئے بھی اسلام نے یہ اہداف معین کئے ہیں اور ہم انھیں کی جانب رواں دواں ہیں اور ان شاء اللہ دشمن بھی دیکھیں گے کہ ہم ان اہداف تک پہنچ گئے۔ خداوند عالم آپ کو اور ہم کو اپنے فرائض پر بنحو احسن عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو 'ہفتہ عدلیہ' کی مناسبت سے انجام  پائی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے بریفنگ دی۔

۲) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۵۸ کا ایک حصہ؛ «...جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔»

۳) بحارالانوار، جلد ۳۶، صفحہ ۳۱۶

4) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳۰ کا ایک حصہ

5) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳۱ کا ایک حصہ؛ «اور تم میں سے جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے۔...»

6) سوره‌ انبیاء، آیت نمبر ۸۷ کا ایک حصہ؛ «تو منزہ ہے، بے شک میں ظالمین میں سے تھا۔‌»

7) سوره‌ِ صافات، ‌ آیت نمبر ۱۴۴

8) سوره‌ِ انبیاء، آیت نمبر ۸۷ کا ایک حصہ؛ «... یہاں تک کہ تاریکی کی گہرائی میں آواز دی کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک و منزہ ہے، بے شک میں ظالمین میں سے تھا۔»

9) سوره‌ِ انبیاء، آیت نمبر ۸۸ کا ایک حصہ؛ «تو ہم نے ان کی دعا کو مستجاب کیا اور انھیں کرب سے نجات دلائی۔...»‌

10) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۵۳

11) یہ خصوصیات ہیں: قضاوت کے کام کی توانائی، تنازعے کے فریقوں سے مرعوب نہ ہونا، اپنے اندر کسی لغزش کا امکان نہ ہونے پر مصر نہ رہنا، لالچ سے اجتناب، سطحی نتیجہ اخذ کرنے پر اکتفا نہ کرنا، جہاں شبہات ہوں وہاں بہت احتیاط سے عمل کرنا، دلائل کو بنیاد بنانا، تنازعے کے فریقوں کے مسلسل رجوع سے تھک نہ جانا، حقیقت کو سامنے لانے کے سلسلے میں بردباری سے کام لینا، حقیقت سامنے آ جانے کے بعد واضح فیصلہ سنانا، تعریف و تحسین سے کسی فریب میں نہ آنا، دوسروں کی حمایت کی وجہ سے تنازعے کے کسی ایک فریق کی جانب رجحان بڑھنے سے روکنا۔

12) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ

13) حاضرین نے 'امریکہ مردہ باد' کے نعرے لگائے تو جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ صاحب تو کہہ رہے تھے کہ اب ملت ایران 'امریکہ مردہ باد' کے نعرے نہیں لگاتی۔ اس پر حاضرین ہنس پڑے اور مزید نعرے بازی کی۔

14) سوره‌ طه، آیت نمبر ۴۶ «کہا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔‌»