پہلی مئی 2019 کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے تعلیم و تربیت کے شعبے کے تعلق سے اہم سفارشات کیں اور کچھ انتباہات دئے۔ آپ نے اساتذہ کے معیشتی مسائل اور تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کی دستاویز کے نفاذ کے بارے میں گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اساتذہ کسی بھی قوم کے سب سے قیمتی سرمائے یعنی افرادی قوت کو پروان چڑھانے والے ہیں۔ (۱)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو، محترم و معزز حاضرین خوش آمدید! یہاں تشریف فرما آپ تمام عزیزوں، تعلیم و تربیت کے شعبے کے عہدیداروں، عزیز اساتذہ، کارکنان اور وزیر محترم، اسی طرح ملک کے تمام اساتذہ کو یوم اساتذہ یا ہفتہ اساتذہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس حقیر کی نظر میں اس اجلاس کی کئی اعتبار سے حد درجہ اہمیت ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ اجلاس ہمارے سب سے اہم تمدنی موضوع یعنی تعلیم و تربیت سے متعلق ہے۔ دوسرے یہ کہ یوم اساتذہ ایک شہید اور شہادت کے نام سے بھی وابستہ ہے۔ اسی طرح دوسرے بھی بہت سے پہلو ہیں جو اپنی گفتگو کے دوران میں عرض کروں گا۔ ہمارے عزیز شہید آقای مطہری مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ حقیقی معنی میں ایک ہمدرد استاد تھے۔ بہت اچھی فکر کے مالک تھے، بہترین طرز بیان تھا، بڑی لگن سے علمی کام کرتے تھے، ایسے انسان نہیں تھے کہ بس کہہ دیا اور اپنی ذمہ داری ختم سمجھ کر بیٹھ رہے۔ ہم انھیں قریب سے دیکھتے تھے کہ کس جذبہ ہمدردی کے ساتھ اس زمانے کے نوجوانوں کے ذہنوں میں عمیق اسلامی افکار و نظریات کو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود گہرائی تک اتارنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ اسی راہ میں وہ شہید بھی ہوئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ شہادت ہمارے اس عزیز شہید کی جفاکشی پر اللہ تعالی کی جانب سے قبولیت کی حتمی مہر لگنے کی مانند ہے۔

اساتذہ کی صنف در حقیقت بڑی با شرف اور محترم صنف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے، کسی بھی تمدن کے لئے، کسی بھی قوم کے لئے ہر سرمائے سے زیادہ اہم انسانی سرمایہ ہے۔ یعنی اگر آپ کے پاس پیسے ہیں، لیکن اچھی افرادی قوت اور انسانی وسائل نہیں ہیں تو آپ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ جیسے یہی دولتمند ممالک جنھیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پیسے کہاں خرچ ہو رہے ہیں، کن افراد کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔ پیسے سے بھری ہوئی ان کی جیبوں کے بڑے بڑے منہ کس بے شرمانہ انداز سے ان عناصر کے ہاتھوں میں ہیں جو انسانیت سے خیانت کر رہے ہیں۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ اس صورت حال کا نتیجہ ہے کہ ان کے پاس پیسے ہیں لیکن انسانی وسائل کی قلت ہے، پیسے ہیں لیکن مفکر نہیں ہیں، افرادی قوت نہیں ہے، ان کے انسانی وسائل بہت محدود اور کمزور ہیں۔ اگر ہمارے پاس زیر زمین ذخائر کی بڑی مقدار ہو لیکن افرادی قوت نہ ہو تو ان ذخائر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمارا ملک تیل کے سمندر پر سو رہا تھا لیکن ہمیں اس کی خبر ہی نہیں تھی، کچھ معلوم ہی نہیں تھا، نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ جن کو خبر تھی، جن کو علم تھا وہ آئے اور آکر ہمارے تیل پر قابض ہو گئے۔ وہ ہمارا تیل لے جاتے تھے اور اپنا معاشرہ سنوارتے تھے، اپنے کارخانے چلاتے تھے۔ جب جنگ کا وقت آیا تو اسی تیل کو انھوں نے اپنی فتح یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا اور ایک مختصر رقم ہمیں دے دیتے تھے۔ طاغوتی شاہی دور میں یہ حالات تھے۔ یہ انسانی وسائل پر سرمایہ کاری نہ کئے جانے کا خمیازہ ہے۔ آپ آج یہی انسانی وسائل پیدا کر رہے ہیں تو آپ غور کیجئے کہ اس عمل کی اہمیت کتنی ہے؟ آپ  تربیت کر رہے ہیں، آپ اسے سنوار رہے ہیں۔ میں تکلف میں کچھ نہیں کہتا، ان برسوں میں میں نے استاد کے کردار، طلبہ کے کردار اور تعلیم و تربیت کے شعبے کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں وہ اسی عمیق احساس کی بنیاد پر کہی ہیں۔ اس کی بنیاد یہ یقین ہے کہ استاد اس عظیم کردار کا مالک ہے۔  در حقیقت جدید تمدن کے  معمار آپ ہیں۔ اس لئے کہ اگر مناسب افرادی قوت نہ ہو تو تمدن بھی باقی نہیں رہے گا۔ آپ جہل و عدم آگاہی کے خلاف کارزار کے میدان کے سپاہی ہیں۔ آپ دیکھئے کہ آپ ایک نوجوان کو، ایک بچے کو، ایک نوخیز کو جہالت اور تاریکی کی وادی سے اپنے جہاد کے ذریعے باہر نکالتے ہیں اور نور و علم کی وادی میں پہنچاتے ہیں۔ یہ بڑا سخت کام ہے۔ آپ در حقیقت ثقافتی تشخص کی تعمیر کرتے ہیں۔ تشخص کی تعمیر بڑی اہم چیز ہے۔ کسی بھی معاشرے میں انسانوں کے لئے تشخص کی تعمیر بڑی اہم ہوتی ہے۔ انسانوں کے اندر اپنی شناخت کا احساس ہونا چاہئے اور انسان کی شناخت اس کی ثقافت سے وابستہ ہوتی ہے، اس کے علم و آگاہی سے وابستہ ہوتی ہے، اس کے طرز زندگی سے وابستہ ہوتی ہے۔ تمدن کا تکیہ ثقافت پر ہوتا ہے۔ اگر مضبوط اور مستغنی ثقافت نہ ہو تو جسے رائج اصطلاح میں تمدن کہا جاتا ہے اس کی تشکیل نہیں ہو پائے گی۔ ثقافت کیا ہے؟ انسان کی فکر اور اس کے عمل کا خاکہ تیار کرنے والے عناصر کا مجموعہ۔ یہ ثقافت ہے۔ اس کا سرچشمہ کیا ہے؟ ثقافت خود اپنی جگہ پر فکر و نظر اور آئيڈیالوجی سے وابستہ ہوتی ہے۔ یعنی دنیا، عالم وجود، عالم تخلیق وغیرہ کے تعلق سے انسانوں کا جو ادراک و شعور  ہوتا ہے ثقافت اس سے نکلتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ ثقافت کی اصلی بنیاد اور تمدن کا ستون ہے۔

میرے عزیزو! توجہ فرمائیے! خاص طور پر یہاں تشریف فرما ہمارے عزیز اور محترم عہدیداران توجہ فرمائیں۔ یہیں سے دستاویز 2030 کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 2030 سے موسوم دستاویز جس کی اہم فصل تعلیم و تربیت سے مربوط ہے اس کا لب کلام اور ما حصل یہ ہے کہ تعلیمی نظام کے ذریعے بچوں کو مغربی معیاروں کے مطابق طرز زندگی اور فلسفہ حیات سکھایا جائے۔ یہ 2030 دستاویز کا نچوڑ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی آپ حضرات جو اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں، اپنے مستقبل سے لگاؤ رکھنے والے ہیں، اپنی کلاس میں مغرب کے لئے سپاہی تیار کیجئے (2)۔ یہ جو دستاویز 2030 پر اتنا اصرار ہے اور اس کے لئے کام کیا جا رہا ہے، آشکارا اور خفیہ طور پر کوششیں کی جا رہی ہیں، ہمارے وطن عزیز سمیت مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کے مسئلے میں اس کو مضبوطی سے شامل کیا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے۔ اس لئے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے اس دستاویز میں جو سفارشات اور کلیدی نکات ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ بچوں کا زاویہ فکر اس انداز سے ڈیولپ کرے کہ ان کی زندگی کا فلسفہ، ان کی زندگی کی بنیاد، ان کی نظر میں زندگی کا مفہوم سب کچھ مغربی طرز  فکر کے مطابق ہو۔ اسی لئے میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہاں بیٹھ کر برطانیہ کے لئے، فرانس کے لئے، امریکہ اور بقیہ ممالک کے لئے انھیں سفید کالر، ٹائی اور پرفیوم سے آراستہ درندوں کے لئے سپاہی تیار کریں۔ انھیں عناصر کے لئے جو  بڑی آسانی سے انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی پیشانی پر بل تک نہیں پرتا، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قاتلوں کی مدد کرتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ جناب آپ سعودی عرب کی کیوں مدد کر رہے ہیں؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمیں اس کے پیسوں کی ضرورت ہے۔ انھیں سب پتہ ہے کہ وہ یمن میں کیا کر رہا ہے، لیکن پھر بھی مدد کر رہے ہیں۔ اب یہ لوگ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم یہاں ایران میں، ایشیائی ممالک میں، مغربی ایشیا کے ملکوں میں، اسلامی ممالک اور دیگر علاقوں میں ان کے لئے سپاہی  تیار کریں! دستاویز 2030 کی حقیقت یہ ہے۔

ایک نکتہ جس پر ضرور توجہ دینا چاہئے یہ ہے کہ ثقافتی برادری یعنی اساتذہ اور علم و ثقافت کے شعبے کے کارکنان نے انقلاب کے بعد اس چالیس سالہ دور میں بہت بڑے کام انجام دئے، بڑے ثمر بخش اقدامات کئے۔ غور سے سنئے! کچھ لوگ گوناگوں سیاسی وجوہات کی بنا پر تعلیم و تربیت کے شعبے کو بے وقعت بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہ ناانصافی ہے، یہ حقیقت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ بے شک مجھے تعلیم و تربیت کے شعبے کی خامیوں کا علم ہے۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی موجودہ حالت مطلوبہ آئیڈیل حالت سے ابھی کتنی دور ہے لیکن مجھے اس شعبے کی موجودہ حالت اور اسلامی انقلاب سے قبل اس کی افسوسناک حالت کا فرق بھی بخوبی معلوم ہے۔ انقلاب کے دور میں، انقلاب کے بعد کے ان چالیس برسوں میں بہت بڑے کام انجام پائے ہیں۔ یہی سائنسداں جنہوں نے آپ کے ملک کو نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا میں صف اول کے پانچ ملکوں کے زمرے میں شامل کر دیا وہ تعلیم و تربیت کے اسی شعبے کے پروردہ ہیں۔ انقلاب کی اس تیسری اور چوتھی نسل کے نوجوان جنہوں نے نہ تو امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ مقدس دفاع کا زمانہ دیکھا ہے، نہ آٹھ سالہ جنگ کے نامور شہیدوں کو دیکھا ہے، آج دشمن کے مد مقابل کہسار کی مانند ڈٹ جاتے ہیں، حرم اہل بیت کے دفاع کے لئے جانے کی خاطر التجائیں کرتے ہیں، جاکر دفاع کرتے ہیں۔ ان میں ایک شہید ہو جاتا ہے، دس لوگ شہید نہیں ہوتے بلکہ وطن لوٹتے ہیں۔ جدوجہد کا یہ جذبہ معمولی چیز نہیں ہے۔ ان کی تربیت کس نے کی ہے؟ تعلیم و تربیت کے اسی شعبے نے کی ہے وہ بھی آج کی اس دنیا میں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں، گوناگوں اخلاقی بے راہروی سے بھری اس دنیا میں، سیٹیلائٹ ٹی وی چینلوں کی دنیا میں اس طرح کے نوجوانوں کی تربیت و پرورش آپ کے ذریعے ہو رہی ہے تو یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ تعمیراتی جہادی کیمپنگ کا پروگرام کون چلا رہا ہے؟ اس کیمپنگ میں کون سے افراد جاتے ہیں؟ یہی نوجوان جاتے ہیں۔ ان کو اسی تعلیم و تربیت کے شعبے نے پال کر بڑا کیا ہے۔ اس ملک میں اتنے بڑے علمی کام ہوئے ہیں۔ معاشرے میں دینداری کے علامات اور مظاہر اس کثرت کے ساتھ موجود ہیں، میں نے بارہا عرض بھی کیا ہے کہ آج کے نوجوان قرآن کے ساتھ، دعائے ندبہ کے ساتھ، ماہ رمضان کے ساتھ، گریہ و توسل کے ساتھ، تضرع اور کربلا کی پیادہ زیارت کے ساتھ، اس جیسے دیگر روحانی اعمال کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پہلے کہاں تھیں یہ باتیں، کہاں تھیں یہ چیزیں؟ ہمارے یہاں شہید ہونے والے اسکولی طلبہ کی بڑی تعداد ہے۔ ہمارے یہاں یہ تعداد کئی ہزار ہے۔ ہمارے یہاں شہید اساتذہ کی کتنی بڑی تعداد ہے، شہادت کا جام نوش کرنے والے ان طلبہ کی تربیت کس نے کی؟ انھیں اساتذہ نے کی۔ تعلیم و تربیت کے اسی شعبے نے کی۔ انقلاب کے دور کے تعلیم و تربیت کے شعبے کو معمولی نہ سمجھئے، الگ الگ ادوار میں بڑے کام ہوئے ہیں۔

البتہ خامیاں بھی ہیں، میں نے عرض کیا کہ خامیاں اور عیوب بھی ہیں۔ ہم ان کے لئے کوشش بھی کر رہے ہیں اور اللہ تعالی کی مدد و توفیق اور فضل پروردگار سے ہم یہ نقص اور خامیاں دور کریں گے۔ یعنی ان شاء اللہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے۔ یعنی یہ قوم پہنچ جائے گی، میں کہتا ہوں کہ ہم پہنچ جائیں گے تو مراد یہ حقیر اور مجھ جیسے دیگر افراد نہیں ہیں، ہم کون ہوتے ہیں پہنچانے والے، خود یہ قوم، یہ مجموعہ، یہ نظام تعلیم و تربیت کو اس منزل پر پہنچائے گا۔

ہماری نظر میں جو مطلوبہ اور مثالی پوزیشن ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ ایسے انسانوں کی تربیت کرنے پر قادر ہو  جو صاحب علم ہوں، جو توانائی رکھتے ہوں، صاحب عقل و خرد ہوں، پارسا ہوں، پرہیزگار ہوں، پاک دامن ہوں، کارآمد ہوں، اختراعی صلاحیت رکھتے ہوں، شجاع ہوں، اقدام کی جرئت رکھتے ہوں، دشمن سے ہرگز نہ ڈریں، دھمکیوں سے نہ گھبرائیں، خواب غفلت کا شکار نہ ہوں، ایسے انسانوں کی تربیت کی جائے۔ اگر ایسا ہو گيا تو یہ ملک ان شاء اللہ اسی منزل پر پہنچ جائے گا جس کی میں نے آرزو کی ہے، جس کے بارے میں میں نے کہا ہے، وعدہ کیا ہے، ان شاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ یعنی ہم چند عشروں کے بعد، ایک موقع پر میں نے کہا تھا پچاس سال بعد جس میں سے کچھ سال گزر چکے ہیں، پچاس سال میں ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا میں اگر کوئی بھی علم و دانش کی نئی سرحدوں کو چھونا چاہتا ہے تو وہ فارسی سیکھنے پر مجبور ہو۔ اس طرح کے افراد اور اس طرح کے نوجوانوں کی تربیت مستقبل کے سرفراز ایران اور جدید اسلامی تمدن کا اصلی ستون ہے۔

میں کچھ انتباہات بھی دیتا چلوں۔ پہلا انتباہ اصلاحاتی دستاویز کے بارے میں جس کی رپورٹ وزیر محترم نے دی۔ ہمیں تحریری شکل میں یہ رپورٹ پہلے بھی ملی اور ہم نے اسے دیکھا۔ میرے عزیزو! اصلاحاتی دستاویز ریل کی پٹری بچھانے کے مانند ہے۔ یہ اصلاحاتی دستاویز تعلیم و تربیت کے شعبے کو ہماری اس مطلوبہ منزل پر پہنچا سکتی ہے۔ ہمیں اس ہدف کے حصول کے لئے کچھ کام کرنا چاہئے۔ بتایا گیا کہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گيا ہے، یہ بات صحیح بھی ہے لیکن صرف نوٹیفکیشن جاری کر دینا کافی نہیں ہے، یہ تو پہلا قدم اٹھایا گیا ہے۔ ہمیں اس دستاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ میں نے گزشتہ سال کہا تھا (3) کہ اس انداز سے کام کیجئے کہ تعلیم و تربیت کا پورا ڈھانچہ اس دستاویز کا مطالعہ کرے، اس سے آگاہ ہو، اسے سمجھے، یہ ادراک ہو کہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کیا کام ہونے جا رہا ہے۔ دستاویز تو بہت اچھا ہے۔ لیکن اس کو پوری توجہ سے نافذ کروانے کی ضرورت ہے، لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی چیز جو ضروری ہے اور اس تحریک کی کلیدی احتیاج ہے وہ ہے انقلابی جذبہ۔ اللہ تعالی انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا جو اپنے قلم سے اور اپنی زبان سے ہمارے عوام کے درمیان اور ہمارے نوجوانوں کے درمیان انقلابی جذبے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ انھیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ انقلاب اسی ملک کے عوام کی جانوں کی قربانی سے رونما ہوا۔ انقلاب نے ہی اس ملک کو اغیار کے ذریعے اس ملک پر مسلط کی گئی اور انھیں کے لئے کام کرنے والی حکومت کے تسلط اور سنگین بوجھ کے نیچے سے نکالا۔ میرے عزیزو! عوام کے ذریعے جس پہلوی حکومت کو سرنگوں کیا گيا اس کے دو بادشاہ تھے، رضاخان اور محمد رضا۔ رضا خان کو برطانیہ نے اقتدار میں پہنچایا اور محمد رضا کو برطانیہ اور امریکہ نے تخت پر بٹھایا۔ اب آپ سوچئے کہ جو حکومت اغیار کے ہاتھوں اقتدار میں پہنچی ہے اپنے عوام سے اس کی کیا نسبت ہوگی اور ان اغیار سے اس کی کیا نسبت ہوگی؟ رضا پہلوی، رضاخان برطانیہ کے ذریعے اقتدار میں پہنچا۔ اس کے بعد ہٹلر کے ذریعے پیدا کئے جانے والے خلفشار کے نتیجے میں جنگ کی شروعات ہونے کے دور میں چونکہ اس کا مزاج بھی ہٹلری مزاج تھا لہذا اس کا رجحان جرمنی کی طرف کچھ زیادہ ہو گيا، جرمنی سے تعلقات بڑھنے لگے۔ جرمن ڈیولپر آنے لگے، جرمن انجینیئر آنے لگے۔ اس پر برطانیہ کو غصہ آ گيا۔ وہی لوگ اسے اقتدار میں لائے تھے اور انھوں نے رضاخان سے کہا کہ اب تم جاؤ! وہ چلا گيا! کسی بھی ملک کے لئے، کسی بھی قوم کے لئے اس سے بڑی بے عزتی کیا ہو سکتی ہے کہ جس شخص کے ہاتھوں میں امور مملکت کی باگڈور ہے اسے برطانیہ نے اقتدار میں پہنچایا ہو! جب برطانیہ اس سے ناخوش ہو جائے، وہ برطانیہ کی مرضی کے خلاف کام کرنے لگے تو اسے اقتدار چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیا جائے۔ ٹھیک ہے اگر برطانیہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اب  تم چلے جاؤ! تو اگر تمہارے اندر ہمت ہے، اگر تم انسان ہو، اگر تمہارے اندر کوئی غیرت و حمیت ہے، ذرہ برابر غیرت ہے تو کہہ دو میں نہیں جاؤں گا! اگر وہ تمہیں قتل کر دیتے ہیں تو کرنے دو! مگر یہ نہیں کیا، اٹھا اور محمد علی فروغی کے گھر چلا گيا جو برطانیہ کا ایجنٹ اور دلال تھا۔ اس نے کہا کہ "ہاں میں جانے کے لئے تیار ہوں۔" اسے گاڑی دے دی گئی، وہ اصفہان پہنچ گيا۔ مختلف راستوں سے گزر کر ساحل سمندر پر  پہنچا۔ اسے جہاز پر بٹھا کر لے گئے۔ کسی بھی قوم کے لئے اس سے بڑی بے عزتی کیا ہو سکتی ہے؟ انقلاب نے اس  حکومت کو سرنگوں کر دیا، انقلاب نے آکر ملک کو ان حقیر، پست اور ظالم افراد کے چنگل سے نجات دلا دی۔ انقلابی جذبہ اس ملت کی جان ہے، اس کی روح ہے۔ اب اگر کوئی قلم عوام کے درمیان اس انقلابی جذبے کو کمزور کرتا ہے یا انقلاب کے بارے میں شکوک پیدا کرتا ہے تو کیا اللہ اسے معاف کرے گا؟

تعلیم و تربیت کے شعبے کو بدلنے کے لئے انقلابی جذبے کی ضرورت ہے۔ انقلابی جذبے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ڈریں نہیں، بے جا مروت میں نہ پڑیں، گو مگو کی کیفیت میں رہ کر کام نہ کریں، جب آپ نے کسی چیز کی تشخیص کر لی تو پھر اقدام کیجئے، آگے بڑھئے، ٹھہرنے پر آمادہ نہ ہوئیے۔ کاموں کو صرف ظاہری طور پر اور نمائش کے لئے انجام نہ دیجئے۔ کبھی انسان کوئی کام کرتا ہے جس کی حیثیت تزئینی اور سجاوٹی کام کی ہوتی ہے۔ یہ چیز زہر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے، کام کو سنجیدگی کے ساتھ انجام دیجئے۔ اس طرح تبدیلی عملی ہوگی، ممکن ہو پائے گی، جامہ عمل پہنے گی۔ میں جو کہتا ہوں کہ ٹھہرئے نہیں، آگے جائيے، بڑھتے رہئے، اقدام کیجئے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر آپ پر عالمانہ تنقید کی جائے تو اس پر کان نہ دھرئے۔ جی نہیں۔ انقلابی طریقہ کار کی ایک خصوصیت یہی ہے کہ عالمانہ و ماہرانہ تنقید کو توجہ سے سنئے، اس کی قدر کیجئے، تنقید کرنے والے کا خیر مقدم کیجئے۔ ایک نکتہ یہ ہے جو میں نے عرض کر دیا۔

دوسرا نکتہ: تعلیم و تربیت کے شعبے میں تعلیمی منصوبہ بندی اور تحقیقات کا ادارہ تعلیم و تربیت کا قلب ہے۔ اس مرکز کی قدر کیجے، اسے خاص اہمیت دیجئے اور اس کی حفاظت کیجئے۔ تعلیمی منصوبہ بندی بہت اہم چیز ہے۔ اس مرکز میں، اس ادارے میں جو نصاب کی کتابیں تیار ہوتی ہیں وہ اسی اصلاحاتی دستاویز کی روش کے مطابق تیار کی جانی چاہئے۔ یہ بہت ضروری کام ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ کام شروع ہو گیا ہے۔ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہ کام انجام دیا جا رہا ہے لیکن اسے سرعت عمل اور بھرپور سنجیدگي سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق بارہ سال کی مدت معین کی گئی ہے۔ جی نہیں، بارہ سال قابل قبول نہیں ہے۔ بارہ سال بعد نصاب کی کتابوں کے متون اصلاحاتی دستاویز کے مطابق ہوں گے؟ جی نہیں، یہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں معاشروں کی پیشرفت میں گھنٹوں کا بھی کردار ہے، گھنٹے کا! بارہ سال؟ جی نہیں! وقت معین کیجئے، کم مدت معین کیجئے اور محنت اور لگن میں اضافہ کیجئے۔

یہ متن جیسا کہ میں نے عرض کیا نوجوان کو اسی نہج پر آگے لے جانے والی ہو۔ ان کتب میں جن چیزوں پر ضرور توجہ دینا چاہئے ان میں ایک یہ ہے کہ ان متون میں انقلاب کے پیغامات اور انقلاب کی تعلیمات کو شامل کیا جائے۔ انقلابی تعلیمات صرف دینی کتب وغیرہ تک محدود نہیں ہیں، یا مثال کے طور پر ادب کی کتب وغیرہ سے مختص نہیں ہیں۔ تمام متون میں مناسبت اور مطابقت کو مد نظر رکھتے ہوئے انقلابی تعلیمات کو، انقلابی اشاروں کو، انقلابی دروس کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ کبھی ریاضیات کا کوئی استاد، فزیکس کا کوئی استاد اپنی کلاس میں ممکن ہے کہ کوئی ایک جملہ کہے جس کا طلبہ پر اثر اس حقیر کی ایک گھنٹے کی تقریر سے زیادہ ہو۔ یہ صحیح ہے۔ انقلابی تعلیمات کو شامل کیا جائے۔ تو ایک موضوع یہ بھی ہے۔ بنابریں آپ تعلیمی منصوبہ بندی و تحقیقات کے ادارے کے مسئلے پر پوری سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔ اسے اہمیت دیجئے۔ اسے صاحب علم، آگاہ، مفکر، دیندار اور انقلابی افکار والے افراد سے آراستہ کیجئے۔

ایک مسئلہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی اور شہید رجائی یونیورسٹی کا ہے جس کا ذکر وزیر محترم نے کیا۔ جی ہاں، مجھے بھی اطلاع ہے کہ تعداد کافی بڑھ گئی ہے، بڑھنا بھی چاہئے، اس کے باوجود تعداد کم ہے، تعلیم و تربیت کے شعبے میں بہت سے افراد ریٹائر ہونے والے ہیں، اس کمی کی بھرپائی ہونا چاہئے۔ تعداد میں مزید اضافہ کرنا چاہئے، ساتھ ہی کوالٹی اور معیار کو بھی بہتر بنانا چاہئے۔ ٹیچرز ٹریننگ کی ان دونوں یونیورسٹیوں میں طریقہ کار ایسا ہونا چاہئے کہ وہاں اساتذہ کو انقلابی اور دینی تربیت دی جائے۔ ایسا انتظام کیجئے کہ اسکول اور کلاس میں ایسا استاد ہو جو خود حقیقی معنی میں معلم دین و تقوا و پارسائی و انقلاب ہو۔ کسی کے بھی دباؤ میں نہ آئے۔ میں نے سنا ہے کہ طاقت کے بعض مراکز کی جانب سے بعض اوقات دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ہرگز دباؤ میں نہ آئیے، قانون پر من و عن عمل کیجئے، قانون کے مطابق کام کیجئے۔

اسی ذیل میں درخشاں صلاحیتوں کے مدارس کا موضوع بھی بہت اہم ہے۔ ممتاز صلاحیتوں کی پرورش بہت اچھی چیز ہے۔ درخشاں صلاحیتوں کے مدارس کو ہرگز کمزور نہیں کیا جانا چاہئے، انھیں جہاں تک ممکن ہو تقویت پہنچائی جائے اور دنیا میں ہونے والے اولمپیاڈوں میں ایران کی پوزیشن کی حفاظت کی جائے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ کچھ موضوعات میں پوزیشن نیچے آ گئی ہے۔ ریاضیات میں، فزیکس میں اور کیمسٹری میں ہماری پوزیشن نیچے آئی ہے۔ اس کی بھرپائی ہونا چاہئے۔ وطن عزیز کے افتخارات میں سے ایک یہی اولمپیاڈوں میں شرکت کرنے والے بچے ہیں جو دنیا میں بہت اونچی پوزیشن حاصل کرکے آتے ہیں۔ ان کی پوزیشن نیچے نہ آنے دیجئے۔

ایک اور موضوع اور اہم نکتہ طلبہ کے ماحول میں شادابی اور جوش و خروش کے ماحول کا ہے۔ میں نے یہ بات بارہا کہی ہے، ملک کے یونیورسٹی طلبہ کے لئے بھی اور تمام نوجوانوں کے لئے بھی اسی طرح اسکولی طلبہ کے لئے بھی کہ ان کے ماحول میں جوش و خروش اور امید و نشاط ہونا ضروری ہے۔ اس بات کا کچھ لوگوں نے غلط مطلب نکالا۔ انھیں یہ لگا کہ ہم اگر جوش و خروش اور نشاط کی بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے رقص وغیرہ کے پروگرام۔ یہ نشاط نہیں ہے۔ نشاط یعنی نوجوان میں جوش و خروش ہو، اس پر اضمحلال طاری نہ ہو۔ ورزش کے ذریعے پرکشش تعلیمی پروگراموں کے ذریعے، اس طرح کی چیزوں سے جوش و خروش پیدا کیا جائے، ان چیزوں سے نہیں جو سننے میں آیا ہے کہ بعض اسکولوں میں ہوتی ہیں۔ البتہ ان چیزوں کا خیال رکھنا خود آپ کا کام ہے، اس پر آپ نظر رکھئے۔ یعنی اس کی براہ راست ذمہ داری خود تعلیم و تربیت کے شعبے پر ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس اعتبار سے بعض اسکولوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ نشاط کے نام پر معلوم نہیں کیا کیا کرتے ہیں؟! نشاط کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسا ماحول بنائیں جس میں یہ طالب علم جوش و جذبے کے ساتھ، تازگی کے ساتھ، امید کے ساتھ، کام کی مکمل تیاری کے ساتھ، بھرپور انرجی کے ساتھ درس پڑھے۔

بعض اوقات  درس کا دباؤ امید و نشاط  کی کیفیت کو متاثر کرتا ہے۔ بعض اسکولوں میں بچوں اور نوجوانوں پر پڑھائی کا اتنا زیادہ دباؤ ڈال دیا جاتا ہے کہ ان کے اندر پژمردگی کی کیفیت نظر آنے لگتی ہے۔ بے شک ان کی نیت اچھی ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیشنل انٹرینس ایگزام میں اپنے کوچنگ سینٹر کا نام روشن کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ یعنی انھیں اس نوجوان کی فکر نہیں ہے، کوچنگ سینٹرز کی فکر ہے کہ یہ کہہ سکیں کہ اس سال نیشنل انٹرینس ایگزام میں ہمارے اتنے بچے کامیاب ہوئے، 100 کے اندر رینک حاصل کرنے والے ہمارے بچوں کی یہ تعداد رہی۔ بچے پر نوجوان پر سخت دباؤ ڈال دیتے ہیں، اپنا نام نمایاں کرنے کے لئے۔ میرے خیال میں آپ بیٹھ کر اس پر غور کیجئے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، غور کرنے کی ضرورت ہے، توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اہم نکتہ ہے۔

میں نے 'کنکور' (نیشنل انٹرینس ایگزام) کا موضوع اٹھایا۔ اس قومی اختبار کے لئے بھی کچھ سوچئے۔ میں اس بارے میں کوئی اظہار خیال نہیں کروں گا۔ یعنی میں واقعی اس میدان کا نظریہ پرداز نہیں ہوں، تاہم تعلیم و تربیت کے شعبے کے ماہرین غور کریں اور دیکھیں کہ واقعی اس وقت ہماری یونیورسٹیاں کہہ رہی ہیں کہ ہمارے یہاں خالی سیٹیں ہیں۔ ہر سال اعلان ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کی کلاسوں میں سیٹیں خالی رہ گئی ہیں۔ تو یہ ایگزام رہے یا نہ رہے، اگر رہے تو اسی شکل میں رہے یا اس میں تبدیلی کی جائے، بہتر کیا ہے۔ بہرحال بیٹھ کر ایک صحیح، عمیق اور عملی تدبیر سوچئے، پھر اسے نافذ کرنے کے لئے کام کیجئے اور اس مسئلے کو حل کیجئے۔

ایک اور اہم مسئلہ تربیتی ڈائریکٹوریٹ کا ہے۔ میں نے گزشتہ برسوں میں اسی اجلاس میں بارہا تربیتی ڈائریکٹوریٹ پر تاکید کی ہے۔ ایک غیر تحریری بلکہ بعض اوقات تو تحریری سیاست تھی کہ تربیتی ڈائریکٹوریٹ کو ختم کر دیا جائے۔ گزشتہ برسوں میں یہ بات نہیں تھی، الحمد للہ کچھ کام بھی ہوا۔ تربیتی ڈائریکٹوریٹ موجود تو ہے لیکن اس وقت تک جن امور کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے وہ اس حقیر کی نظر میں کافی نہیں ہیں۔ تربیتی ڈائریکٹوریٹ کے اندر کچھ خامیاں ہیں، اس کی محکمہ جاتی ساخت میں بھی، پرجوش اور انقلابی افرادی قوت کے اندر بھی، مالی وسائل کے اندر بھی۔ ان شاء اللہ ان چیزوں پر وزیر محترم جناب بطحائی صاحب توجہ دیں کہ تربیتی ڈائریکٹوریٹ پورے تعلیم و تربیت کے شعبے میں عملی اثرات مرتب کر سکے۔

میں دو نکتے اور پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد ایک کلی موضوع کے بارے میں بات کروں گا۔ ایک نکتہ اساتذہ کے معیشتی امور سے متعلق ہے جس کا ذکر وزیر محترم کی گفتگو میں بھی آیا۔ استاد ایک محترم، با شرف اور آبرو مند انسان ہے، استاد کی عزت نفس محفوظ رہنا چاہئے۔ اساتذہ کی مالی آمدنی کے موضوع میں ایسا رویہ اختیار کیا جانا چاہئے کہ استاد کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ جو لوگ گوناگوں جماعتی، سیاسی اور بعض اوقات تو اغیار کا ساتھ دیتے ہوئے اقدام کرتے ہیں، اسی نہج پر سوچتے ہیں، وہ اس کمزور پہلو کا فائدہ اٹھانے اور اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے قطع نظر بھی اگر ہم دیکھیں تو ہمیں اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ استاد کا وقار قائم رہے۔

دوسرا نکتہ سیلاب زدہ علاقوں کے طلبہ سے متعلق ہے۔ انھیں آپ تعلیمی اعتبار سے پیچھے نہ رہنے دیجئے۔ مدارس کی تعمیر کا کام بھی انجام پائے جس کا وعدہ کیا گيا ہے اور ان شاء اللہ اس عمل کی جو فطری روش ہے اس کے مطابق سنجیدگی سے اس پر کام ہو، اسکولوں کی تعمیر کرنے والے خیّر افراد جو واقعی ملک کے اندر بہت اچھے اور مفید رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں، آگے آئيں اور مدد کریں۔ بہت سے اسکول تباہ ہو گئے۔ انھیں دوبارہ تعمیر کرکے آباد کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت درکار ہے، پیسوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام حکومت، عوام اور خیر افراد کی مدد سے انجام دیا جائے۔ جب تک یہ کام پورا نہیں ہو جاتا اس وقت تک یہ طلبہ جو اپنے رہائشی مراکز میں یا کیمپوں میں ہیں، جہاں کہیں بھی ہیں، ان کے لئے ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ تعلیم کا مسئلہ نہایت اہم ہے۔

وہ کلی مسئلہ جس کے بارے میں میں نے کہا کہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر علم و تعلیم و تحقیق کے ادارے جن کی تعداد الحمد للہ کافی زیادہ ہے، آج وطن عزیز کے اندر تحقیق و علم وغیرہ سے وابستہ ادارے بہت زیادہ ہیں، وہ اپنے اوپر اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ انھوں نے علم و دین کے باہمی تصادم کے نظرئے پر خط بطلان کھینچ دیا۔ یہ ایسا وسوسہ تھا جس پر دنیا کی مادی طاقتوں نے دو تین صدیوں سے کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ علم و دین ایک دوسرے کے لئے سازگار نہیں ہو سکتے۔ آج اسلامی جمہوریہ میں دین کا پرچم دوسری کسی بھی جگہ سے زیادہ بلندی پر لہرا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی علمی اعتبار سے بھی ملک دنیا کے پیشرفتہ ممالک میں ہے۔ دین مخالف ممالک، امریکہ کے فرمان کے تحت کام کرنے والے ممالک، وہ ممالک جن کی پالیسیاں مغربی امریکی پالیسیوں سے متاثر رہتی ہیں، دین کے میدان میں بھی پیچھے رہ گئے اور ساتھ ہی علم کے میدان میں بھی بہت پیچھے چلے گئے۔ میں نے سنا ہے کہ ایک عرب صحافی نے اپنے حکام کو مخاطب کرکے لکھا تھا کہ "آپ اور ایران میں فرق یہ ہے کہ ایران ری ایکٹر تعمیر کرتا ہے اور آپ کیبرے تعمیر کرتے ہیں، ایرانی یورینیم افزودہ کر رہے ہیں، آپ شراب تقسیم کر رہے ہیں، اپنے معاشرے میں مغربی بے راہروی کی ترویج کر رہے ہیں۔" یہ ہمارے ملک کے لئے افتخار کی بات ہے۔

آج یونیورسٹیوں میں بھی اور دوسرے علمی مراکز میں بھی ہزاروں محقق اور سائنسداں تعلیم و تدریس اور کام میں مصروف ہیں۔ میں مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور ان میں بہت سے افراد بڑے عبادت گزار ہیں، دینی و اسلامی تشخص کے ساتھ اور سرفراز ایرانی تشخص کے ساتھ  گوناگوں میدانوں میں بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نئی ایجادات کر رہے ہیں۔ تعلیم دے رہے ہیں، تحقیق کر رہے ہیں، نئے علوم پیدا کر رہے ہی اور اس علم کی بنیاد پر گوناگوں میدانوں میں ٹیکنالوجی تیار کر رہے ہیں۔ البتہ چونکہ ہماری علمی پسماندگی زیادہ تھی اس لئے اس وقت ملک کے اندر جو علمی مہم جاری ہے وہ کئی سال تک اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ یہ بہت اچھی اور محنت طلب مہم ہے تاہم اسے جاری رہنا چاہئے تاکہ اس کے نتائج و ثمرات ہمیں نظر آئیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے۔

ایک مسئلہ ماہر افرادی قوت تیار کرنے کا ہے۔ میں نے پہلے بھی اس پر تاکید کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے جو علمی انکشافات کئے ہیں انھیں عملی طور پر نافذ کیا جائے، اسے بچوں اور نوجوان یونیورسٹی طلبہ کو سکھایا جائے۔ البتہ اس کا اصلی مرکز تو تعلیم و تربیت کا شعبہ ہی ہے، یعنی اس کا آغاز ہائی اسکول سے ہو جانا چاہئے، اس سے بھی پہلے کی کلاسوں سے ہو جانا چاہئے۔ اگر مہارت حاصل کرنے کا جذبہ نوجوان کے اندر متحرک ہو گیا، یعنی اگر اسے ادراک ہو گيا کہ علمی انکشافات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے تو آگے چل کر اس کی بڑی برکتیں اور ثمرات حاصل ہوں گے۔

میں آخری بات جو آپ عزیزوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ توجہ فرمائیے آج ہمارا دشمن ہر سمت سے حملے کر رہا ہے۔ اقتصادی پہلو آپ کے پیش نظر ہے، انٹیلیجنس کے میدان میں دشمن منصوبہ بندی میں مصروف ہے کہ دراندازی کرنے میں کامیاب ہو جائے، سوشل میڈیا کے لئے وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ اس راستے سے وطن عزیز کو نقصان پہنچا سکیں۔ ظاہر ہے وہ تو دشمن ہے! پہلے نمبر کا دشمن یعنی امریکہ اور صیہونزم، یہ امریکہ کی صرف موجودہ حکومت کی بات نہیں ہے، اس سے پہلے کے حکام بھی ایسے ہی تھے، البتہ ان کا انداز الگ تھا۔ اس وقت جو شخص اقتدار میں ہے اس نے ہماری یہ مدد کی جس پر ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے امریکہ کو بالکل بے نقاب کرکے سامنے پیش کر دیا۔ اس کے پیشرو جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ مخلمیں دستانے کے اندر کرخت فولادی ہاتھ آگے بڑھانا چاہتے تھے، بہت سے لوگ اس حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہے تھے اس لئے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے تھے۔ ان احمقوں نے اس مخملیں دستانے کو اتار دیا اور آج حقیقت امر سب کے سامنے آ گئی ہے۔ ان کے اقدامات بالکل آشکارا انجام پا رہے ہیں۔ دشمن ہر پہلو سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا ہے۔ ملک کے عہدیداران، با صلاحیت افراد اور عوام الناس کو چاہئے کہ اس دشمن کے مقابلے میں جو بھی ممکن ہو کریں۔ جس شعبے میں بھی اور جس موضوع میں بھی ممکن ہو خود کو تیار کریں اور میدان میں اتریں۔ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ دشمن کی صف آرائی جنگی صف آرائی ہے۔ اس نے اقتصادی میدان میں بھی جنگی صف آرائی کی ہے، سیاسی میدان میں بھی جنگی صف آرائی کی ہے، صرف عسکری میدان میں بظاہر اس نے جنگی صف آرائی نہیں کی ہے، البتہ اس میدان میں ہمارے فوجی پوری طرح مستعد ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، سوشل میڈیا پر اس کی صف آرائی جنگی صف آرائی ہے۔ اس دشمن کے خلاف جس نے ملت ایران کے مد مقابل جنگی صف آرائی کر رکھی ہے، ملت ایران کو بھی چاہئے کہ مناسب انداز میں صف آرا ہو جائے، تمام میدانوں میں خود کو تیار کرے۔

ایک بنیادی ترین ضرورت اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھنا ہے۔ عوام بہت محتاط رہیں کہ معمولی اختلاف رائے کی وجہ سے، پسند اور رجحان کے معمولی سے فرق کی وجہ سے ایک دوسرے کے مد مقابل نہ آ جائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اس ملت کی طاقت اس کے اتحاد میں مضمر ہے۔ عوام کا اتحاد، گوناگوں سماجی گروہوں کا اتحاد، ملک کے اندر بسنے والی مختلف قومیتوں کا اتحاد، عوام کے ساتھ عہدیداران کا اتحاد، عہدیداران کے ساتھ عوام کا اتحاد، یہ چیز اس ملک کو طاقت عطا کرتی ہے اور اب تک اسے مضبوطی عطا کرتی آئی ہے اور بحمد اللہ یہ قوت موجود ہے۔ اس قوت کی حفاظت کریں اور یاد رکھیں کہ توفیق خداوندی سے دشمن کی ساری سازشیں اور ملت ایران کے خلاف اس کی ساری تدبیریں ذہنوں کو مضطرب اور ماحول کو گنجلک بنانے والے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود خود اس دشمن کے لئے تباہ کن ثابت ہوں گی۔

آپ عزیز نوجوان توفیق خداوندی سے ان شاء اللہ امریکہ کی شکست کا نظارہ دیکھیں گے، آپ توفیق خداوندی سے صیہونزم کو گھٹنے ٹیکتے ہوئے دیکھیں گے، توفیق خداوندی سے آپ ملت ایران کی حتمی عزت و عظمت کا مشاہدہ کریں گے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم امام پر، اللہ کی رحمت کا نزول ہو ہمارے عزیز شہیدوں پر، اللہ کی رحمت نازل ہو راہ حق کے تمام مجاہدین پر۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر تعلیم و تربیت جناب سید محمد بطحائی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) حاضرین نے نعرے لگائے تو اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ نعرے لگانے نہیں غور سے سننے کی جگہ ہے، آپ توجہ سے سنئے۔

۳) مورخہ 9 مئی 2018 کو ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب