'موکب' عراق میں ان خاص جگہوں کو کہا جاتا ہے جو پیدل زیارت کے لئے کربلا جانے والے زائرین کی خدمت کی خاطر بنائی گئی ہیں اور جہاں زائرین کے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے۔ (1)
بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
برادران عزیز آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ میرے لئے یہ نشست یادگار اور تاریخی ہے۔ اس نشست میں جو کچھ کہا گيا، جو اشعار پڑھے گئے، جو مرثیہ خوانی ہوئی، ان میں سے ہر ایک چیز واقعہ کربلا کی عظمت اور حسین ابن علی علیہما السلام کی عظمت کی آئینہ دار ہے۔ ہمارے لئے بہت مفید نشست رہی، ہم نے کسب فیض کیا۔ امید کرتے ہیں کہ آپ کا یہ سفر جو اپنے گھر کا سفر ہے، اپنے بھائیوں کے درمیان انجام پانے والا سفر ہے، آپ کے لئے اچھا سفر ثابت ہوگا۔ میں نے چند باتیں نوٹ کی ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو شکریہ ادا کرنا ہے۔ تہہ دل سے اپنی جانب سے اور عظیم الشان ملت ایران کی جانب سے میں شکریہ ادا کرتا ہوں آپ 'موکب داروں' کا جو اربعین کے ایام میں اپنی سخاوت، اپنی محبت و عقیدت کو ایک نئی بلندی پر پہنچا دیتے ہیں۔ اسی طرح عظیم الشان ملت عراق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، عراقی حکومت کے عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے تحفظ، اچھی فضا اور سازگار حالات فراہم کئے ہیں۔ خاص طور پرعراق کے علمائے کرام اور مراجع محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے زیارت کی فضا کو دونوں اقوام کے درمیان اور عوام کے ما بین اخوت اور بھائی چارے کی فضا میں تبدیل کر دیا ہے۔ واقعی اس پر شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ راستے میں بنے مواکب میں آپ عزیز عراقی بھائیوں کے سلوک کے بارے میں، حسینی زائرین سے آپ کے فراخدلانہ برتاؤ کے بارے میں ہمیں جو اطلاعات ملتی ہیں وہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں یہ چیزیں عدیم المثال ہیں۔ اسی طرح اربعین کی پیادہ زیارت کی مثال پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، آپ کے سخاوت مندانہ برتاؤ کی بھی کوئی مثال اور نظیر نہیں ہے۔ آپ نے اپنے برتاؤ میں اور اپنے سلوک میں اسلامی سخاوت اور عربی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ سب کچھ سید الشہدا سلام اللہ علیہ کے عشق کی وجہ سے ہے، عشق حسین ابن علی میں ہو رہا ہے۔ آپ امام حسین سے عشق و محبت کی وجہ سے امام حسین کے زائر کے پاؤں دھوتے ہیں، اس کے تھکے ہوئے بدن کی خدمت اور مدد کرتے ہیں، مالش کرتے ہیں، اسے غذا فراہم کرتے ہیں، اسے سونے کی جگہ مہیا کراتے ہیں، اس لئے کہ وہ زائر حسین ہے۔ حسین ابن علی سے یہ عشق غیر معمولی چیز ہے۔ کسی بھی دور میں اس کی نظیر نہ دیکھی گئی اور نہ آج نظر آتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے دلوں میں اور ہمارے دلوں میں اس عشق میں روز بروز اضافہ کرے۔
البتہ آپ کو اس سلسلے میں جو توفیق حاصل ہوئی ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے آپ کو عطا کی جانے والی ایک نعمت ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے مہمانوں کی ضیافت کی جو توفیق آپ کو حاصل ہوئی ہے یہ بڑی قیمتی ہے، یہ اللہ کی نعمت ہے، یہ رحمت خداوندی ہے، اس کی بھی قدر کرنا چاہئے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ اس کی قدر و منزلت بخوبی سمجھتے ہیں۔
دوسرا نکتہ اربعین کے اس مارچ سے متعلق ہے جو واقعی بے مثال شئے ہے۔ صرف آج کی دنیا میں نہیں بلکہ پوری تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی اور اجتماع نظر نہیں آتا۔ ؛یہ عمل جو ہر سال، بلکہ ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ پرجوش انداز میں انجام پاتا ہے، عدیم المثال ہے۔ اس حسینی عمل کا امام حسین علیہ السلام کی معرفت کی ترویج میں موثر رول ہے۔ اربعین اس عمل کے ساتھ جو بنیادی طور پر نجف و کربلا کے درمیان پیدل مارچ کی صورت میں انجام پاتا آفاقی موضوع بن چکا ہے۔ ساری دنیا کی نگاہیں اس عمل پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ اس عظیم عوامی عمل کی برکت سے امام حسین علیہ السلام کی ذات اور حسینی معرفت بین الاقوامی و آفاقی بن گئی ہے۔
آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا کو حسین ابن علی سے متعارف کرائیں۔ ظلم، بدعنوانی، پستی و رذالت میں مبتلا دنیا کو حسینی آزادی اور حسینی حریت کی معرفت کی شدید احتیاج ہے۔ آج دنیا کے عوام، دنیا کے نوجوانوں، غیر جانب دار اقوام کے دل ایسی حقیقت کے لئے تڑپتے ہیں۔ اگر امام حسین علیہ السلام کا تعارف دنیا بھر میں کرایا جائے تو گویا در حقیقت اسلام کا تعارف کرا دیا گیا ہے، قرآن کا تعارف کرا دیا گيا ہے۔ آج سیکڑوں وسائل و ذرائع کی مدد سے اسلام کے خلاف اور اسلامی تعلیمات کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ کفر و استکبار کے محاذ کی اس معاندانہ مہم کے مقابلے میں حسینی معرفت کی مہم اکیلے ہی سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے، ڈھال بن سکتی ہے، اسلام کی حقیقت کو اور قرآن کی حقیقت کو دنیا میں عام کر سکتی ہے۔ حسین ابن علی علیہما السلام کی روش حق کے دفاع کی روش ہے، ظلم و طغیان و گمراہی و استکبار کے مد مقابل مزاحمت کی روش ہے۔ یہ امام حسین کی روش ہے۔ آج دنیا کو اس روش کی ضرورت ہے۔
آج دنیا کفر و استکبار کی حکمرانی اور فساد و بدعنوانی کی فرماں روائی دیکھ رہی ہے، ظلم کی حکمرانی کا منظر دیکھ رہی ہے، امام حسین کا پیغام دنیا کی نجات کا پیغام ہے، اربعین کا عظیم عمل اس پیغام کو ساری دنیا میں عام کرتا ہے۔ فضل پروردگار سے، نصرت خداوندی سے، توفیق الہی سے اس عظیم عمل کو روز بروز تقویت پہنچائی جانی چاہئے۔
اربعین ایک عالمی حقیقت بن چکا ہے اور اس کی ہمہ گیریت میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ یہ خون حسین ابن علی ہے جو چودہ سو سال بعد بھی جوش مار رہا ہے اور روز بروز اس کی تازگی بڑھتی جا رہی ہے، روز بروز اسے نئی زندگی مل رہی ہے، یہی وہ عاشورا کا پیغام ہے جو غربت و تنہائی کے عالم میں آقا حسین کے حلقوم سے اور زینب کبری کے حلقوم سے نکلا اور آج آفاق عالم پر چھا گیا ہے اور پوری دنیا کا احاطہ کرتا جا رہا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا تعلق ساری انسانیت سے ہے۔ ہم شیعہ اس پر مفتخر محسوس کرتے ہیں کہ امام حسین کے پیروکار ہیں، لیکن امام حسین کا تعلق صرف ہم سے نہیں ہے۔ اسلامی مکاتب فکر، شیعہ و سنی سب امام حسین کے پرچم تلے جمع ہیں۔ اس عظیم مارچ میں وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ عظیم الہی نشانی ہے جسے اللہ تعالی ظاہر کر رہا ہے۔ ایسے زمانے میں جب دشمنان اسلام اور امت اسلامیہ کے مخالفین گوناگوں وسائل و ذرائع کی مدد سے، پیسے سے، سیاست سے، اسلحے سے امت اسلامیہ کے خلاف کام کر رہے ہیں، اللہ تعالی یکبارگی اربعین کے مارچ کو وہ عظمت عطا کر دیتا ہے کہ یہ منظر رونما ہو جاتا ہے۔ یہ عظیم آیت خداوندی ہے۔ یہ امت مسلمہ کی نصرت کرنے کے ارادہ پروردگار کی علامت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا ارادہ امت اسلامیہ کی نصرت کرنے کا ہے۔
تیسری بات جو آپ برادران عزیز کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس پروگرام کو جہاں تک آپ سے بن پڑے، ہم سب سے بن پڑے زیادہ سے زیادہ پرمغز اور روحانی بنائیں۔ اس پروگرام کی معنویت اور گہرائی کو روز بروز بڑھائیں۔ اہل فکر حضرات، ثقافتی شعبے کے افراد، ثقافتی و فکری شعبے میں مصروف عمل افراد، اس عظیم عمل کے لئے بیٹھ کر منصوبہ بندی کریں۔ آج ہرمسلمان کا مقصد جدید اسلامی تمدن کی تشکیل ہونا چاہئے۔ آج ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اسلامی اقوام کے پاس بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ان صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے تو امت مسلمہ عز و وقار کے اوج پر پہنچ جائے گی۔ ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے، اس پر غور کرنا چاہئے۔ عظیم اسلامی تمدن کی تشکیل ہمارا نصب العین ہے۔
آج بحمد اللہ مسلم اقوام بیدار ہو چکی ہیں۔ ملت عراق ایک عظیم ملت ہے، با وقار ملت ہے، خاص ثقافت کی مالک قوم ہے، عزم و ارادے کی مالک قوم ہے۔ عراقی نوجوانوں نے ان چند برسوں کے مسائل میں ثابت کر دیا کہ ان کے پاس عالمی سازشوں کے مقابلے میں اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ عراقی نوجوانوں نے بہت بڑی داخلی سازش کو جو خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتی تھی عراق میں ناکام بنا دیا، ختم کر دیا۔ داعش اور تکفیریوں کی سازش کوئی معمولی سازش نہیں تھی۔ بڑے پیسے خرچ کئے گئے تھے، منصوبے تیار کئے گئے تھے کہ عراق کو جو ایک اصلی عرب و اسلامی ملک ہے، خانہ جنگی کے دہانے میں جھونک دیں، شیعہ و سنی کو دست و گریباں کر دیں۔ عراق کی عظیم دینی مرجعیت کے فتوے سے عراقی نوجوان سینہ سپر ہو گئے اور انھوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ یہ معمولی کام نہیں تھا، یہ چھوٹا کام نہیں تھا۔ عظیم ملت عراق اپنے ملک کو عزت و وقار کی بلندی پر لے جا سکتی ہے۔ یہ صلاحیتیں منصہ ظہور میں آنا چاہئيں۔ اگر اسلامی ممالک کی صلاحیتیں، عراق کی صلاحیتیں، ایران کی صلاحیتیں، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے دیگر ممالک کی صلاحیتیں ایک ساتھ جمع ہو جائیں، اگر یہ صلاحیتیں ایک دوسرے سے متصل ہو جائیں، اگر یہ ہاتھ ایک دوسرے سے مل جائیں تو امت مسلمہ دکھا دیگی کہ عزت الہی کیا ہوتی ہے۔ وہ عظیم اسلامی تمدن دنیا کے تمام معاشروں کے سامنے پیش کر دیں گی۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے اور اربعین کا یہ مارچ اس ہدف کو عملی جامہ پہنانے کا نمایاں ذریعہ بن سکتا ہے۔
درجنوں ممالک کے لوگ اربعین کے مارچ میں شرکت کرتے ہیں اور عراق کے عوام کے مہمان بنتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان بھائیوں کے رشتے اس پیدل زیارت کی مدد سے مزید مستحکم ہوں۔ عراقیوں اور غیر عراقیوں کا رشتہ، شیعہ و سنی کا رشتہ، عرب و فارس و ترک و کرد کا رشتہ، یہ رشتے باعث سعادت و خوش بختی ہیں۔ یہ رشتے رحمت پروردگار کی نشانی ہیں۔ دشمن کی کوشش تفرقے کے بیج ہونے کی ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا اور نصرت خداوندی سے وہ آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوگا۔ ہم ایران و عراق کی قومیں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ ہمارے جسم الگ ہیں لیکن ہمارے دل، ہماری جانیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ یہ رشتہ و رابطہ جس چیز نے پیدا کیا ہے وہ اللہ پر ایمان ہے، اہل بیت سے محبت ہے، حسین ابن علی علیہ السلام سے محبت ہے۔ اس میں ان شاء اللہ روز بروز اضافہ ہوگا۔ دشمن سازشیں کر رہے ہیں لیکن دشمنوں کی ان سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک چالیس سال سے امریکہ اور اس کے مہرے، اس کے بہی خواہ اور اس کے ایجنٹ اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں رچنے میں مصروف ہیں، تگ و دو کرتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، پابندیاں لگاتے ہیں، مگر یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں پھوٹ جاتی ہیں کہ ایک باریک پودا آج تناور درخت بن چکا ہے کہ «اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّماء» (۲) ان شاء اللہ یہ نعرہ (۳) جو آپ لگا رہے ہیں امریکہ کے خلاف اور صیہونی حکومت کے خلاف، دشمنوں کے خلاف اور مستکبرین کے خلاف وہ بہت جلد عملی جامہ پہنے گا اور ان شاء اللہ آپ کامیاب ہوں گے۔
میں ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملت ایران اپنے پورے وجود سے آپ عزیز عراقی بھائیوں کی شکر گزار ہے، خاص طور پر آپ مالکان موکب اربعین کی شکر گزار ہے۔ ہم تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مجھے متنبی (۴) کا یہ مصرع یاد آ رہا ہے؛ «اذا انت اکرمت الکریم مَلَکْته» (۵)
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) اس ملاقات کے آغاز میں آستانہ امام رضا علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام احمد مروی نے تقریر کی، اسی طرح بعض عراقی موکب داروں، خطبا و شعرا نے بھی تقریریں کیں اور اپنا کلام پیش کیا۔
۲) سوره ابراهیم، آیت نمبر ۲۴ کا ایک حصہ؛ «...اس کی جڑ محکم اور اس کی شاخ آسمان میں ہے»
۳) حاضرین نے امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے۔
۴) معروف عرب شاعر ابو الطّیّب متنبّی
۵) اگر سخی و کریم انسان کے ساتھ سخاوت کی تو سمجھو تم اس کے مالک بن گئے۔