رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب 3 اکتوبر 2019 کو اراک میں سیمینار کے دوران مطبوعہ شکل میں جاری کیا گيا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی اس گفتگو میں شہیدوں کے والدین اور شریکہ حیات کے تاثرات اور یادگار واقعات کو قلمبند کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ شہادت ایک الہی عطیہ اور امتیاز ہے جسے اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شہیدوں اور میدان جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والوں، نیز اس وادی میں اپنے جوہر دکھانے والے سپاہیوں کے حالات زندگی سراپا درس اور ان کے بلند درجات کا آئینہ ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرکزی صوبے کے مختلف علاقوں میں سرگرم افراد اور اپنے بھائيوں کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے یہ سوچا کہ اس مفید کام کو انجام دیں، اس صوبے میں ہمارے عزیز شہداء کی یاد تازہ کریں اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں۔ مرکزی صوبے میں، جیسا کہ آپ حضرات نے فرمایا کہ اس دور کے چھے ہزار دو سو شہداء وہاں ہیں، شاید ماضی میں بھی اس صوبے میں بڑے بڑے شہداء رہے ہیں؛ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس صوبے میں جگہ جگہ دفن ان امام زادوں میں بہت سے شہید ہوئے ہیں۔ میں خود ہزاوہ میں دفن جناب سلطان سید احمد کے مقبرے میں جا چکا ہوں جو ہمارے اجداد میں سے ہیں۔ مقبرے کی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عظیم المرتبت سید وہاں، معمول کے مطابق دفن نہیں ہوئے ہیں، یعنی صورت حال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہاں کوئی حادثہ ہوا ہے، کوئی جھڑپ ہوئی ہے، کوئی بات ضرور ہوئی ہے۔ دیگر امام زادروں کی صورت حال بھی یہی ہے، کیونکہ صوبۂ اراک میں بڑی تعداد میں امام زادے دفن ہیں۔ ہم اس صوبے میں کئی بار جاکر ان امام زادوں کی زیارت کر چکے ہیں، جن میں ساروق میں دفن امام زادے بھی ہیں، وہاں کے مختلف علاقوں میں کئی امام زادے مدفون ہیں۔ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ شہادت کا مرکز رہا ہے۔ یعنی عظیم المرتبت سادات جب محفوظ علاقے کی طرف آتے تھے، ایران اس وقت ان کے لئے محفوظ علاقہ تھا، تو ان کے قریب اور ان کے راستے میں پڑنے والا ایک محفوظ خطہ، وہی علاقہ ہے جسے آج ہم مرکزی صوبہ کہتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد یا تو ان کا تعاقب کیا جاتا تھا اور وہ شہید ہو جاتے تھے یا پھر وہ یہاں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتے تھے، اس بات کا امکان ہے کہ وہ کوئی مہم شروع کر دیتے تھے، اس وقت کی ظالم حکومت کے خلاف کوئی کام کرتے تھے اور جھڑپوں میں شہید ہو جاتے تھے۔ خداوند عالم اس خطے کے لوگوں کو اس علاقے کے شہداء کی برکتوں سے مالامال کرے، ان شاء اللہ، جس طرح بحمد اللہ پوری ایرانی قوم شہداء کی برکتوں سے مستفیض ہو رہی ہے۔
شہیدوں پر سیمینار کے کام کے بارے میں، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا اور ان جناب نے جن جن کاموں کا ذکر کیا، وہ سب اچھے کام ہیں۔ ان میں سے بعض بہت ہی اچھے اور انتہائی ضروری کام ہیں۔ اچھا لگتا ہے جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ بحمد اللہ یہ توجہ ان حساس مقامات اور مراکز کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔ فرض کیجئے کہ مسجد کے سلسلے میں یہ جو منصوبہ ہے کہ اس میں (شہیدوں سے متعلق) کوئی ایک واقعہ بیان کیا جائے، یہ بہت اہم کام ہے۔ مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے شہداء کے والدین اور ان کی بیویوں کے یادگار واقعات قیمتی جواہرات کی طرح ہمارے ہاتھوں میں ہیں اور اگر ہم نے غفلت کی تو یہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائيں گے جیسا کہ ان میں سے بہت سے ہمارے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں؛ بہت سے شہیدوں کے والدین اس دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے لوگ فراموشی کا شکار ہو گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شہید، ہر اس شخص کے لئے دروس کا ایک مجموعہ ہے جو اس شہید کے حالات کے بارے میں غور و فکر کرے۔ ان میں سے جس شہید کے بھی حالات کا مطالعہ کیا جائے، ہمیں ان شہیدوں کے حالات زندگی میں، مقدس دفاع کے دوران اور جنگ کے میدان میں ان کے حالات میں ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو سب کی سب درس ہیں۔
ہمیں بنیادی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ جن لوگوں نے جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے وہ اہم افراد تھے؛ عمر کی کمی یا بیشی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ اہم نہیں ہوتے تو خداوند عالم انھیں شہادت کا تحفہ عطا نہ کرتا۔ یہ بات ہی، کہ خداوند متعال نے اس نوجوان کو، اس جوان کو، اس مرد کو اور اس ادھیڑ عمر شخص کو اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں شہادت کے درجے پر فائز کر دیا، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس شخص میں کوئی نہ کوئی اہم بات تھی۔ جب کوئی اس کے حالات کا مطالعہ کرتا ہے، اس کی زندگی کی تفصیلات پڑھتا ہے، اگر انھیں باریک بینی سے لکھا گيا ہو، تو دیکھتا ہے کہ واقعی اس کے حالات میں، اس کے حرکات و سکنات میں، اس کی باتوں میں، اس کی اہمیت کی نشانیاں موجود ہیں۔ کبھی کبھی تو اس عظیم اور اعلی درجے پر فائز ہونے والے ان افراد کی حکمت کی اعلی سطح دیکھ کر، ان کی باتیں سن کر، ان کے ذریعے استعمال ہونے والے الفاظ سن کر انسان واقعی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
البتہ یہ شہداء سے متعلق ہے، جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والوں کا باب الگ ہے؛ وہ بھی اسی طرح ہیں۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جنھوں نے راستہ نہیں کھویا ہے اور وہ مسلسل اسی راہ پر چل رہے ہیں، اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا ایک الگ ہی باب ہے۔ ان میں سے ہر ایک، ایک الگ باب ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ملک میں ان کی یاد روز بروز زیادہ نمایاں ہوتی جائے، زیادہ درخشاں ہوتی جائے۔ حقیقت میں یہ حوصلہ افزا، امید افزا اور راستہ دکھانے والا کام ہے۔ شہیدوں اور ان کے اہل خانہ کے ذریعے بیان کئے جانے والے واقعات، ان کے انٹرویوز اور اسی طرح کی چیزوں میں جن چیزوں پر توجہ دینی چاہئے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان سے سوال کیا جائے اور وہ تشریح کریں کہ اس نوجوان کا جذبہ کیا تھا کہ وہ محاذ پر گيا؟ اس کی جوان بیوی کا جذبہ کیا تھا کہ وہ اس بات پر تیار ہو گئی کہ اس کا شوہر چلا جائے؟ ان والدین کا جذبہ کیا تھا جنھوں نے اس کی پرورش کی تھی اور اب اسے راہ خدا میں اور میدان جنگ میں جانے دے رہے ہیں؟ ان کا جذبہ اور محرک خدا تھا، ان کا جذبہ خدا کی خوشنودی تھا، ان کا جذبہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا ذکر اور ان کا نام تھا۔ جنگ کے میدانوں میں ہماری صورتحال، یہی ظاہر کرتی ہے۔ اس چیز پر غبار نہ بیٹھنے دیجئے، اسے فراموش نہ ہونے دیجئے، دوسروں کو ان چیزوں کے انکار کی گنجائش حاصل نہ کرنے دیجئے، جس طرح سے کہ آج کچھ لوگ جسارت کرکے منہ کھولتے ہیں اور اسلامی انقلاب کی بہت سی واضح باتوں کا انکار کر دیتے ہیں، وہ اس کا بھی انکار کر دیں گے، ان چیزوں کو مزید نمایاں کرنا چاہئے، دکھانا چاہئے۔ بہرحال آپ لوگوں کو حاصل ہونے والی یہ توفیق، ایک بڑی توفیق ہے، یعنی آپ لوگ اسے اپنے لئے ایک توفیق سمجھئے۔
ایک اور بات بھی جو آپ میں سے بعض حضرات کے بیان میں سامنے آئی اور وہ یہ ہے کہ یہ نشست اور یہ اجتماع جو منعقد ہوتا ہے اور اس سلسلے میں جو کام ہوتے ہیں وہ ابتدائی مرحلے کے ہیں۔ جی ہاں یہ صحیح ہے، یہ بات پوری طرح سے صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ہم نے ایک بڑا اجتماع منعقد کر دیا، کچھ کتابیں اور اسی طرح کی چیزیں شائع کرا دیں اور ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی، جی نہیں! یہ ابتدا ہے، اس راستے پر مسلسل چلتے رہئے، ہمارے نوجوانوں کو اسلامی انقلاب کے اقدار سے متعارف ہونا چاہئے، مقدس دفاع کے اقدار سے آگہی حاصل کرنی چاہئے۔ بحمد اللہ ان برسوں میں یہ کام ہوئے ہیں، ان میں سے بہت سے کام ہوئے ہیں، آج ہم ایسے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جنھوں نے اپنی ابتدائی عمر میں نہ مسلط کردہ جنگ دیکھی ہے، نہ امام خمینی کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان کے لئے یا ان کے اہل خانہ کے لئے اس دور کی کوئی یادگار موجود ہے لیکن وہ الہی اقدار سے اتنے ہی آگاہ ہیں جتنے انقلاب کے زمانے کے نوجوان آگاہ تھے بلکہ کبھی کبھی تو ان کی آگہی میں زیادہ گہرائی ہوتی ہے۔ یہ الہی عطیہ ہے، ہمیں اس راہ کو بھولنا نہیں چاہئے۔ خداوند عالم آپ کی مدد کرے اور توفیق عطا کرے۔
کربلائی کاظم مرحوم کا آپ نے ذکر کیا، میری دو بار ان سے ملاقات ہوئی تھی؛ میں نے انھیں دو بار مشہد میں دیکھا تھا۔ ایک بار وہ نواب صفوی مرحوم کے ساتھ آئے تھے اور میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف شخص ہے جس نے کندھوں پر عبا ڈال رکھی ہے اور ٹوپی بھی پہن رکھی ہے۔ جب وہ لوگ آ رہے تھے تو نواب صفوی مرحوم انھیں آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ مدرسۂ نواب میں آئے تھے جہاں میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ وہ اس مدرسے کے دینی طلباء سے ملنے کے لئے آئے تھے۔ سب کی توجہ ان کی طرف تھی۔ وہ مسلسل باتیں کر رہے تھے، چلتے ہوئے، کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے، پھر انھوں نے اس بوڑھے شخص کو آگے کر دیا اور خود چلے گئے۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتایا گيا کہ یہ کربلائی کاظم ہیں۔ ایک بار اور میں نے انھیں مسجد گوہر شاد میں دیکھا تھا، اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ یہ ان کا وہی سفر تھا یا کوئی دوسرا سفر تھا، کیونکہ اس واقعے کو کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ بہرحال وہ مسجد گوہر شاد میں ایوان مقصورہ سے متصل مینار کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے اطراف میں کچھ لوگ اکٹھا تھے۔ ہمارے قم کے ایک دوست نے، جو ان کو پہچانتے تھے، کہا کہ یہ کربلائی کاظم ہیں، چلئے ان سے ملتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ ہم قریب گئے، ان کے ہاتھ میں ایک قرآن تھا۔ کوئی شخص ایک آیت پڑھتا تھا اور وہ قرآن مجید کو کھولتے تھے، کبھی ایک ورق ادھر یا ادھر پلٹتے تھے اور آیت دکھا دیتے تھے، جبکہ انھیں پڑھنا نہیں آتا تھا یعنی وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے اور آيت نہیں پڑھ سکتے تھے لیکن وہ آیت جانتے تھے اور انگلی سے دکھا دیتے تھے۔ یہ چیز میں نے خود وہاں دیکھی تھی۔ قرآن انھیں کے ہاتھ میں تھا، انھیں کا قرآن تھا، جیسے ہی کوئی آیت پڑھی جاتی تھی وہ قرآن کھولتے تھے اور آیت دکھا دیتے تھے۔ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ ہماری بعض علمی کتب میں، جیسے فقہ یا اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن مجید کی کوئی آیت ہوتی ہے۔ اس کتاب کو کھول کر ان سے پوچھتے تھے کہ کیا یہ متن قرآن ہے؟ انھیں تو پڑھنا نہیں آتا تھا لیکن وہ آیت پر انگلی رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس متن کا بقیہ حصہ قرآن نہیں ہے، بس یہ ٹکڑا قرآن ہے۔ ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کیسے سمجھ جاتے ہیں؟ وہ کہتے تھے کہ اس میں نور ہے۔ جب اس صفحے میں کوئی آیت ہوتی ہے تو میں اسے منور دیکھتا ہوں، یہ چمکتی ہے، میں سمجھ جاتا ہوں کہ قرآن کی آیت ہے۔ جی ہاں! کربلائی کاظم مرحوم، قرآن مجید کے معجزات میں سے تھے۔ ہم نے جا کر انھیں، ان عظیم المرتبت امام زادے کے مزار میں دیکھا تھا، جہاں انھیں یہ کرامت حاصل ہوئی تھی۔ خداوند عالم آپ سب کو توفیق اور کامیابی عطا کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ