رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں سیکورٹی کی حفاظت کو اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کا مقدس اور حساس فریضہ قرار دیا اورعلاقے کے بعض ملکوں کی امن و سلامتی سلب کر لینے کے لئے دشمنوں کی جانب سے جاری سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق و لبنان کے خیر خواہ افراد سمجھ لیں کہ ان کی اولیں ترجیح بدامنی کا علاج ہے اور ان ملکوں کے عوام کو بھی جان لینا چاہئے کہ ان کے بجا مطالبات قانونی ڈھانچے کے دائرے میں ہی پورے ہو سکیں گے۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیبین الطّاهرین المنتجبین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین.

سب سے پہلے تو میں آپ تمام عزیز نوجوانوں کو، اپنے پیارے نور چشموں کو، رینک حاصل کرنے اور فارغ التحصیل ہو جانے والے نوجوانوں کو بھی جو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے نوجوان افسران میں شامل ہوئے اور ان نوجوانوں کو بھی جنہوں نے آج شولڈر مارک حاصل کیا اور فرائض منصبی کے نقطہ آغاز تک پہنچانے والے سفر کی شروعات کی، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔ جو لوگ آج رینک حاصل کرنے والے ہیں، جنہیں آج رینک ملی ہے، کل انھیں شولڈر مارک دیا گيا تھا، آج وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے نوجوان افسر بن گئے ہیں۔ کل ان شاء اللہ، توفیق خداوندی سے، اللہ کے لطف سے آپ اپنے ملک کی مسلح فورسز کے طاقتور کمانڈر، افسر اور عہدیدار بنیں گے۔ گراؤنڈ کو بھی آپ نے بہت اچھے انداز میں سنوارا۔ میدان مین بہت اچھے پروگرام پیش کئے گئے۔ اس پروگرام کو ترتیب دینے والوں اور اسے اجرائی مراحل تک پہنچانے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

پہلے ایک کلیدی نکتہ عرض کرتا چلوں، بعد مین آپ عزیز نوجوانوں کے سامنے چند دیگر نکات بھی بیان کروں گا۔ کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج میں جگہ پانا صرف ایک ملازمت نہیں ہے جیسے بقیہ ملازمتیں ہوتی ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لئے انسان محنت کرتا ہے اور حاصل ہو جانے کے بعد مشغول ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ اپنے دوش پر اٹھانے کا معاملہ ہے۔ وہ مقدس فریضہ کیا ہے؟ امن و سلامتی کی حفاظت۔ کسی بھی معاشرے کے لئے بہت ضروری چیزوں میں سب سے اہم اور موثر ہے امن و سلامتی۔ اگر کسی معاشرے میں سیکورٹی نہ ہو تو وہاں کوئی بھی مثبت اور درست کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کسی معاشرے میں سیکورٹی کا فقدان ہو اور ملک دشمنوں کے خطرات کی زد پر ہو تو اس ملک میں نہ تو علمی و تحقیقی کام ہو سکتا ہے، نہ تو اقتصادی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں اور نہ کوئی فکری و ثقافتی کام کیا جا سکتا ہے۔ بدامنی کے ماحول میں ہر انسان کو اپنی جان بچانے کی فکر لگی رہتی ہے۔ آپ مسلح فورسز اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا یہ مجموعہ اس ملک کی سلامتی کا محافظ ہے۔ یہ انتہائی غیر معمولی، حساس، مقدس اور اہم ذمہ داری ہے۔ اس کی قدر و منزلت کو سمجھئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نوجوان جن کے دل پاکیزہ ہیں، جن کے دل منور ہیں، اسی لمحے سے اپنے اس عمل کے ساتھ قصد قربت بھی کر لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گویا آپ عبادت انجام دے رہے ہیں۔ یعنی آپ کی یہی مشق، یہی آپ کا کلاس میں جانا، وہ مہم جو آپ انجام دیں گے، وہ بڑے کام جو آپ کرتے ہیں، یہ سب کچھ عبادت میں شمار ہوگا۔ جب کام مقدس بن جاتا ہے اور انسان قربت کی نیت بھی کر لے تو وہی کام عبادت بن جاتا ہے۔ بنابریں یہ بہت اہم  فرق ہے۔

سلامتی کا مسئلہ جیسا کہ میں نے اشارہ کیا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کسی بھی ملک پر دشمن سب سے بڑی جو ضرب لگا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیکورٹی سلب کر لیں۔ وہی کام جو آج آپ ہمارے علاقے کے بعض ملکوں میں دیکھ رہے ہیں کہ دشمنوں نے شروع کر دیا ہے، وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ عوام کو امن و سلامتی سے محروم کر رہے ہیں۔ ان خباثتوں میں ملوث عناصر بھی جانے پہچانے ہیں۔ دنیا میں آج کی استکباری طاقتیں اور سب سے بڑھ کر امریکہ، مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں علاقے کے بعض رجعت پسند ممالک کے پیسوں کی مدد سے ہمارے ہمسایہ ممالک میں، قریب کے ممالک میں، علاقے کے ملکوں میں، آشوب پھیلا رہی ہیں، امن و سلامتی کو نابود کر رہی ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کے خلاف بد ترین دشمنی اور خطرناک ترین کینہ  توزی ہے۔

میں یہیں پر اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے مشکلات سے رو برو عراق اور لبنان جیسے ممالک کے خیر خواہوں کو بتا دینا  چاہتا ہوں کہ ان کی پہلی ترجیح بدامنی کی مشکل کا ازالہ ہے۔ وہاں کے عوام کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ بے شک ان کے کچھ مطالبات ہیں اور مطالبات بجا بھی ہیں لیکن یہ مطالبات قانونی ڈھانچوں کے دائرے کے اندر ہی پورے ہو سکیں گے۔ دشمن قانونی سسٹم  کو بھی درہم برہم کر دینا چاہتا ہے۔ جب کسی ملک کا قانونی سسٹم ختم ہو جائے، خلا پیدا ہو جائے تو وہاں کچھ نہیں کیا جا سکتا، کوئی مثبت اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے وطن عزیز کے لئے بھی یہی ساری منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ خوش قسمتی یہ رہی کہ عوام بر وقت میدان میں آ گئے، قوم بیدار تھی، مسلح فورسز موجود تھیں تو اسے نقش بر آب کر دیا گيا۔ اس مشکل سے روبرو تمام ممالک کے لئے یہ راہ حل موجود ہے۔ یہ پہلا نکتہ ہے کہ آپ یاد رکھئے کہ آپ ملک کی سیکورٹی کے محافظ ہیں، یعنی کسی بھی قوم کی سب سے اہم پونجی کے محافظ جو دیگر سرمایوں کی کنجی ہے۔

اگلا نکتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا استکباری طاقتوں کی افواج سے موازنہ ہے۔ مجھے دنیا کی تمام افواج سے کوئی سروکار نہیں۔ نہ تو میں سب کو پہچانتا ہوں اور نہ ہی ان کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میری بحث استکباری افواج سے ہے۔ آئیے ایک موازنہ کرتے ہیں اپنی فوج کا کہ آپ نوجوان، آپ نونہال جس کے غنچے ہیں، استکباری افواج سے۔ دونوں میں ماہیت کا فرق ہے، ایک بنیادی جوہری فرق ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج جیسا کہ ہم نے تعریف کی، خود کو اپنے ملک کی سلامتی کی محافظ جانتی ہے۔ اس کا بنیادی فریضہ یہی ہے۔ استکباری طاقتوں کی افواج کی اولیں ذمہ داری ہے جارحیت، غاصبانہ قبضہ، ان ملکوں پر وار کرنا جن پر بعض وجوہات کی بنیاد پر اور کچھ مفادات حاصل کرنے کے لئے ضرب لگانا ممکن ہے۔ یہ فرق ہے۔

ہم نے اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے بعد سے کسی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ دفاع تو خیر اپنی جگہ پر پوری مضبوطی سے اور مقتدرانہ انداز میں لیکن حملہ اور جارحیت ہرگز نہیں! اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور مسلح فورسز کی منطق اور فکر میں جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن آپ گزشتہ سو سال کے دوران سامراجی ملکوں کی افواج پر ایک نظر ڈالئے، میں جو سو سال کی بات کر رہا ہوں تو اس سو سال کے ایک بڑے حصے کی خود مجھے اطلاع ہے، میں خود اس کا گواہ ہوں، یعنی یہ ہمارے زمانے میں ہوا۔ ان سو برسوں میں تقریبا ہر جگہ استکباری طاقتوں کی افواج کے جرائم کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔

برطانوی فوج نے بر صغیر ہند یعنی آج کے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں، برما میں، بحر ہند کے چھوٹے ممالک میں، اسی صدی یعنی بیسویں صدی میں ایسے مجرمانہ اقدامات کئے کہ واقعی انسان انھیں یاد کرکے کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے کہ انھوں نے فوج کی مدد سے کس طرح ایک قوم پر یلغار کر دی۔ یہاں قتل عام کے بڑے حیرت انگیز واقعات ہوئے۔ جبکہ یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ برطانوی فوج نے مشرقی علاقے میں یہ سب کیا جبکہ اسی صدی کے دوران یہی سب کچھ مغربی ایشیا میں بھی اس نے انجام دیا۔ بالکل یہی کام اس نے شمالی افریقا میں کیا۔ قوموں کے خلاف اس قدر جرائم کئے کہ قومیں ہرگز فراموش نہیں کر سکتیں۔ البتہ سیاست داں، خواہ خود ان کمزور ملکوں کے سیاست داں ہوں یا برطانیہ کے سیاسی رہنما ہوں اس کوشش میں  تھے کہ یہ چیزیں کہیں گم ہو جائیں، کسی طرف فراموش کر دی جائیں لیکن یہ ناقابل فراموش ہیں۔ یہ تاریخ میں ثبت ہو چکی ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گی۔

یہی سب کچھ فرانس کی فوج کے بارے میں بھی ہے۔ فرانسیسیوں نے جو آج انسانی حقوق کے دعوؤں اور جمہوریت نوازی کی باتوں وغیرہ سے آسمان سر پر اٹھائے رہتے ہیں، شمالی افریقا میں، الجزائر میں، مراکش میں، تیونس میں بے پناہ جرائم کئے! مشرقی ایشیا میں، ویتنام میں امریکیوں کے پہنچنے سے پہلے فرانسیسیوں نے مجرمانہ اقدامات کئے۔ انھوں نے بہت جرائم کئے  ہیں۔ مشرقی ایشیا میں وہ آئے اور وہاں بھی جرائم کا ارتکاب کیا۔ اسی شام میں، موجودہ لبنان میں فرانس کی فوج نے بڑے عجیب مجرمانہ اقدامات کئے۔ ان عوام پر بے پناہ سختیاں کیں۔ یہ اسی گزشتہ صدی کی بات ہے۔ استکباری طاقتوں کی افواج کی خاصیت ہی یہ ہے۔

امریکہ کی باری آئی تو وہ بھی بالکل ظاہر ہے۔ امریکہ نے اگست 1945 میں ہیروشیما شہر پر ایٹم بم گرایا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ  افراد مارے گئے۔ جب یہ بم ہیروشیما پر گرا تو پہلے ہی گھنٹے میں ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جبکہ بعد میں بھی دسیوں ہزار افراد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر ریڈیئیشن کی زد میں آکر ہلاک یا جسمانی طور پر معذور ہو گئے۔ حملے کے تین دن بعد ناگاساکی پر ایک اور ایٹم بم گرا دیا۔ پچاس ہزار لوگ وہاں موت کے منہ میں چلے گئے۔ سوال کیا گيا کہ اگر آپ جنگ ختم کرنا چاہتے تھے، چونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جنگ ختم کرنا چاہ رہے تھے، عالمی جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اس لئے ہم نے یہ اقدام کرکے جنگ ختم کی، تو پہلا ہی بام کافی تھا۔ دوسرا ایٹم بم ناگاساکی پر کیوں گرایا؟ جواب یہ ہے کہ پہلا بم یورینیم سے بنایا گیا تھا اور دوسرا بم پلوٹونیم سے تیار کیا گيا تھا، ہم اس کا ٹیسٹ کرنا چاہتے تھے! آپ دیکھئے کہ بم کا ٹیسٹ کرنے کے لئے ایک گھنٹے میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو مار دیا جاتا ہے، ختم کر دیا جاتا ہے! استکباری فوج، بے دین فوج، اللہ کو نہ پہچاننے والی فوج اور اخلاقیات سے بے بہرہ فوج ایسی ہوتی ہے۔ افواج کے درمیان فرق یہیں سے پتہ چلتا ہے۔ البتہ یہ تو محض چند مثالیں میں نے دی ہیں۔ اگر کوئی استکباری طاقتوں کی افواج کے جرائم کے بارے میں بات کرنا چاہے اور اس سو سال سے، جس کی میں نے بات کی، آگے جائے، دو سو سال اور تین سو سال کا جائزہ لے تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی جانی چاہئے۔

ان افواج کا تکیہ و اعتماد کس چیز پر ہے؟ ان افواج کو وسائل کہاں سے ملتے ہیں؟ ان افواج کا تکیہ و تعلق استکباری حکومتوں سے ہے۔ یعنی مشکل خود فوج کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ اس ادارے میں ہے جس پر فوج کا تکیہ ہے، یعنی استکباری نظام۔ اب آپ غور کیجئے! ہم اور آپ جو اتنا زور دیتے ہیں، تاکید کرتے ہیں، بار بار دہراتے ہیں کہ ہماری تکیہ گاہ قرآن ہے، ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں تو اس اصرار کا راز یہی ہے۔ جب انسانیت اخلاقیات کے دشمن، دین سے بے بہرہ، درست سمت و جہت سے نابلد نظاموں کے ہتھے چڑھ جاتی  ہے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے، اس کی فوج ایسی ہو جاتی ہے۔ اتنے سارے جرائم کرنے والی افواج کی پشت پناہی سیاسی طاقتوں کی طرف سے ہو رہی تھی جو ان ملکوں پر حکومت کر رہی تھیں۔ انھوں نے ہی اس فوج کی پشت پناہی کی جبکہ اس فوج نے ان نظاموں کو بچائے رکھنے اور ان کی حفاظت کا کام کیا۔ یہی ہوتا بھی ہے۔ جبکہ اس طرف یعنی اسلامی نظام کی طرف دیکھئے تو یہاں اسلامی نظام اپنی فوج کا، اپنی مسلح فورسز کا، اپنی سپاہ پاسداران کا، اپنی 'بسیج' (رضاکار فورس) کا اپنی پولیس فورس کا احترام کرتا ہے، ان کی قدر کرتا ہے، ان کو اہمیت دیتا ہے۔ اس خوبصورت اور پرکشش اسلامی جمہوری نظام کے اندر مسلح فورسز ایک موثر اور اہم حصہ ہیں جو اپنے طول و عرض میں اور نیچے سے اوپر تک گوناگوں عناصر سے مل کر بنا ہے۔ یہ اگلا نکتہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی فوج کی خصوصیت کے بارے میں تیسرا نکتہ؛ اسلامی جمہوریہ کی فوج نے ان 40 برسوں میں اپنے پورے وجود سے اسلامی انقلاب کی خدمت کی، اس نے اپنی پوری توانائی استعمال کی۔ ملک کے اندر اداروں کے سامنے کچھ سخت امتحانات آئے۔ ہر ادارے نے اپنے انداز سے یہ امتحان دیا۔ اس امتحان میں اسلامی جمہوریہ کی فوج سرخرو ہوئی۔ اسلامی جمہوریہ کی فوج کے تعلق سے میں یہی کہہ سکتا ہوں۔ انقلاب کی فتح کے ابتدائی لمحات سے بلکہ اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے ہی فوج کے اندر موجود انقلابی ٹیمیں سامنے آ گئیں۔ حقیر کو فوج کے مسائل کی بخوبی خبر ہے۔ آج 41 سال ہو رہے ہیں کہ یہ فوج اس میدان میں بڑی خوش اسلوبی سے اپنی کارکردگی انجام دیتی رہی ہے۔

پہلی چیز تو یہ ہے کہ فوج کے اندر موجود وہ بہت سے افراد جو طاغوتی (شاہی) دور میں اپنا ایمان محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے، وہ میدان میں اترے اور اسلامی جمہوریہ کی فوج کی تشکیل در حقیقت انھوں نے کی۔ شہید صیاد، شہید ستاری، شہید بابائی، ان سے کچھ اور قدیمی افراد میں شہید فلاحی، شہید فکوری، مرحوم ظہیر نژاد، مرحوم سلیمی، طاغوتی دور کی فوج کے افراد تھے۔ آپ دیکھئے کہ یہ درخشاں چہرے اسلامی جمہوری نظام کے استقبال کے لئے آئے اور اپنے ساتھ فوجیوں کی کثیر تعداد بھی لائے۔ جب شہید بابائی اصفہان کی فضائی چھاونی کے کمانڈر تھے، میں اس چھاونی کے معائنے کے لئے گیا تھا۔ چھاونی میں موجود افراد جن کے کمانڈر شہید بابائی تھے، جو ایک مومن اور انقلابی آدمی تھے، وہ ''بسیجی' (رضاکار) افراد کی ایک ٹیم کی طرح کام کرتے تھے۔ میں نے جاکر اس کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا۔ شہید صیاد انقلابی عمل اور دینی ایمان و عقیدے کا مظہر تھے۔ ایک اہم کام یہ تھا کہ پرانے اہلکار، بہت سے افراد، کثیر تعداد میں اسلامی جمہوری نظام کے استقبال کے لئے آگے آئے۔ میں نے تو صرف چند کا نام لیا۔ ان میں سے بڑی تعداد درجہ شہادت پر فائز ہو گئی، بعض ایسے تھے جو بعد تک خدمت کرتے رہے، کام کرتے رہے، محنت کرتے رہے، ہم ان کی محنت و جفاکشی کے گواہ ہیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ فوج نے تمام میدانوں میں جاں فشانی کی۔ اوائل انقلاب میں ملک کے بعض حصوں میں بیرونی طاقتوں سے وابستہ علاحدگی پسندوں کے مقابلے کے وقت جو فورسز میدان میں اتریں ان میں فوج شامل تھی اور اس نے محنت کی۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع میں فوج کی کارکردگی بہت نمایاں تھی۔ مقدس دفاع کے بعد سرحدوں کی حفاظت میں بھی وہی صورت حال رہی، استقامتی محاذ کی پشت پناہی میں بھی فوج نے اپنا کردار ادا کیا ہے جو ثبت ہو چکا ہے اور مستقبل میں یہ حقیقت سامنے آئے گی، اس کا اعلان کیا جائے گا، لکھا جائے گا اور لوگوں کے سامنے آئے گا۔

تیسری چیز یہ کہ فوج نے اپنی داخلی توانائیوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کی۔ تنظیمی اعتبار سے بھی، آپریشنل ٹیکٹکس کے اعتبار سے بھی، تعمیرات کی سطح پر بھی اور فوجی اہلکاروں کی سوچ اور کلچر کی سطح پر بھی بنیادی تبدیلی پیدا کی۔ یہ دینی جذبہ، یہ ایمانی جذبہ جو اسلامی جمہوریہ کی آفیسرز اکیڈمیوں میں پایا جاتا ہے، بہت نمایاں اور اہم چیز ہے۔ یہ چیز آسانی سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مومن و با لیاقت کمانڈروں نے ان روایات کو اس گہرائی اور پائیداری کے ساتھ نافذ کیا ہے۔ طاغوتی دور کی فوج کا دین مخالف رجحان ایک سو اسی درجہ تبدیل ہو گیا، دینی، ثقافتی اور اسلامی رجحان میں بدل گیا۔

اگلا نکتہ مستقبل کے بارے میں ہے۔ ہم نے اسلامی فوج کی فطرت و مزاج کو سمجھا۔ اسلامی جمہوریہ کی فوج کے وجود کے بارے میں بھی اختصار سے چند جملے عرض کئے۔ مستقبل کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ میرے عزیزو! آپ دیکھئے کہ ایک آزاد ملت کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جب آزادی کا شمار اقدار میں ہے تو ایک آزاد ملت کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کس قوم کو آزاد قوم کہا جاتا ہے؟ آزاد قوم وہ ہے جو آزادانہ ارادہ کرے، آزادانہ عمل کرے، اپنے حقیقی و ملی مفادات کو خود معین کرے اور ارادے کی خود مختاری اور عمل کی خود مختاری کے ساتھ اپنے مفادات، اپنے ملک کے مفادات کو حاصل کرے۔ ایسی آزاد ملت کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی خصوصیات اور یہی اوصاف کسی بھی قوم کو آزاد قوم کے طور پر ہمارے سامنے متعارف کراتے ہیں۔ اگر کوئی قوم صحیح تشخیص دینے اور فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئی اور فکر و تخمینوں کو درہم برہم کر دینے کی دشمن کی کوششوں سے متاثر نہ ہوئی تو بہت اچھے نتائج حاصل کرے گی۔ تخمینوں کو درہم برہم کرنا، دیکھئے دشمن کا ایک اہم حربہ یہ ہے کہ ملک کے عہدیداران اور نظریہ پرداز و دانشور طبقے کی سوچ اور تخمینوں کو اور دوسرے نمبر پر عوام الناس کی فکر اور اندازوں کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ان کے تخمینوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آپ اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے آپ کسی شخص کے کمپیوٹر میں کوئی وائرس ڈال دیں، اب یہ کمپیوٹر جو کچھ بھی دکھائے گا وہ حقیقت سے الگ ہوگا، غلط ہوگا۔ ملک کے کلی و عمومی سسٹم میں، فکر میں، تخمینوں میں کبھی دشمن اس طرح اثر ڈالتا ہے۔ ایک آزاد قوم وہ ہے جو اس سے متاثر نہ ہو، بلکہ حقیقی معنی میں آزادانہ سوچے، فکر کرے اور پوری شجاعت کے ساتھ کام کرے، اپنے قومی مفادات کی طرف قدم بڑھائے۔ اس کے لئے کیا ضروری ہے؟ بصیرت۔

اگر ہمارے پاس بصیرت نہیں ہے۔ اگر ہمارے پاس صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اگر ہماری آنکھیں کھلی ہوئی نہیں ہیں تو ہم اپنے حقیقی مفادات کی شناخت کر سکیں گے نہ ان مفادات کے حصول کے صحیح راستوں کی نشاندہی کر پائيں گے اور نہ ہی یہ عظیم ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھانے والے صحیح شخص کی شناخت کر پائیں گے۔ اگر بصیرت نہ ہو تو گویا انسان آنکھوں سے محروم ہو گیا ہے، راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ کسی بھی ملک کے لئے، ملت کے لئے، کسی بھی مجموعے کے افراد کے لئے بصیرت کی یہ اہمیت ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے اندر، کسی ملت کے اندر یہ خصوصیات موجود ہیں تو ملت اپنے مطلوبہ ہدف تک یقینا پہنچے گی۔ البتہ اس کے لئے تمام اداروں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔ ہماری مسلح فورسز کی بھی ذمہ داریاں ہوں گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کے اندر کچھ صاحب بصیرت افراد موجود ہوں اور مسلح فورسز اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کہیں کہ جو کچھ یہ افراد کہیں گے وہی صحیح ہے۔ نہیں، یہ بصیرت عمومی ہوتی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ طریقہ رائج ہے۔ اسلامی نظام میں آپ کو فردا فردا غور کرنا ہوگا، سوچنا ہوگا، تدبر کرنا ہوگا، پہچاننا ہوگا، نشاندہی کرنا ہوگی، اقدام کرنا ہوگا، ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آپ کے طرز فکر اور تخمینوں پر دشمن اثر انداز تو نہیں ہوا ہے۔

اس آخری نکتے کے تحت ہم نے جو باتیں عرض کیں ان سے چند نتیجے حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، سودہ لوحی میں پڑ بر خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ دشمن کی نقل و حرکت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ دائمی طور پر دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہئے۔ ہماری مسلح فورسز کا ایک بڑا حصہ انٹیلیجنس اور اطلاعات سے مربوط ہے۔ دشمن کی نقل و حرکت سے ایک لمحے کے لئے بھی نظر نہیں ہٹانا چاہئے۔ دشمن کے پروگراموں، منصوبوں اور نقل و حرکت پر ہمیشہ نظر رکھنا چاہئے۔

تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ دشمن کو حقیر و لاچار نہیں سمجھنا چاہئے۔ بقول سعدی؛ دشمن نتوان حقیر و بیچاره شمرد (۳) دشمن کو اس کی صحیح شکل میں پہچاننا چاہئے اور جارح دشمن کے مقابلے میں خود کو اپنے دفاع کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

میرے عزیزوں ایک اور ضروری چیز ہے فتوحات پر خوش ہوکر غفلت کا شکار نہ ہوا جائے۔ کامیابیاں بہت قیمتی ہیں۔ ان پر خوش ہونا بھی بجا ہے لیکن فتح سے کسی دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ بہت سے لوگ ہیں جو پہلے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب کامیابی مل جاتی ہے تو کسی خاص وجہ سے خود کو مشکل میں ڈال لیتے ہیں۔ تاریخ میں اس کی ایک مشہور مثال پیغمبر اکرم کے زمانے میں جنگ احد کی ہے۔ اس جنگ میں خود پیغمبر اسلام بھی موجود تھے۔ خود پیغمبر میدان جنگ میں تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے لیکن ایک غفلت کی وجہ سے یہ فتح شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے اور سید الشہدا حضرت حمزہ جیسے عظیم سردار شہید کر دئے گئے، دوسرے بھی بہت سے افراد شہید ہوئے، بہت سے زخمی ہوئے اور لشکر اسلام مغلوب ہو گیا۔ فتح کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ فتح کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ ہم فتح کے حصول میں موثر عوامل و عناصر کی حفاظت کریں۔ فتح کے عوامل میں ایمان ہے، دائمی جدوجہد ہے، سعی پیہم ہے، یکجہتی و امداد باہمی ہے۔ ان چیزوں کو ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔

میرے عزیزو! حقیر مادی مشغلوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہم انسانوں میں بہت سے افراد کے اندر اچھے جذبات بھی ہیں، بلند ہمتی بھی ہے لیکن بعض اوقات حقیر اور معمولی سی مادی سرگرمیاں ہمیں بہت بڑی نظر آتی ہیں، کسی عہدے کی فکر، مال و دولت کی تلاش اور خواہشات ہمیں اپنے میں الجھا لیتی ہیں۔ جب ہم خود کو اس طرح مصروف کر لیتے ہیں تو نصب العین سے دور رہ جاتے ہیں۔ وہ چیز جس کے لئے ہم نے کہا کہ دائمی کوشش ہونا چاہئے، ضائع ہو جائے گی اور کامیابی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ لہذا ہمیں توجہ رکھنا چاہئے، کامیابی کے کلیدی عناصر کی حفاظت کرنا چاہئے اور مشغلوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔

اس سلسلے میں جو چیز مسلح فورسز اور سیکورٹی کی پاسباں فورسز سے مختص ہے یہ ہے کہ فتنے کی طرف سے ہوشیار رہیں۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ اَلفِتنَةُ اَشَدُّ مِنَ القَتل (۴) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ اَلفِتنَةُ اَکبَرُ مِنَ القَتل (۵) «اَشَدّ» یعنی زیادہ سخت «اَکبَر» یعنی زیادہ بڑا۔ قتل ایک بری چیز ہے، ناپسندیدہ عمل ہے لیکن فتنہ اس سے بھی برا ہے۔ اگر فتنہ قتل سے زیادہ برا ہے تو سیکورٹی کی محافظ فورسز کے لئے ضروری ہے کہ فتنے کا مقابلہ کرنے کے لئے لازمی صف بندی اور لازمی نظم و ترتیب پر توجہ دیں۔ فتنے سے نمٹنے کی اپنی آمادگی قائم رکھیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر اداروں کو توجہ رکھنا چاہئے۔

آخری نکتہ جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ مستقبل کے تعلق سے پرامید رہنے سے مربوط ہے۔ آپ کے بیان میں، آپ کے عمل میں، ان تمام چیزوں میں جو انسان ملک کے مختلف شعبوں میں، خواہ وہ مسلح فورسز کا شعبہ ہو یا دیگر شعبے ہوں، نوجوانوں کے اندر دیکھتا ہے، نوجوان بحمد اللہ جذبہ امید سے سرشار نظر آتے ہیں۔ دشمن کی حسرت بھری نگاہوں کے سامنے جو دلوں سے امید ختم کر دینے کے لئے کوشاں ہے، دلوں سے اس شمع کو اور اس روشنی کو ختم کر دینے کی کوشش کر رہا ہے، بحمد اللہ ملک کے اندر امید کا جذبہ فروغ پا رہا ہے۔ اس امید کی حفاظت کرنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی وعدوں کو پورا کرے گا۔

آج ہم اپنی آنکھوں سے اللہ کے وعدوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ عزیزو! کون تصور کر سکتا تھا کہ صیہونی فوج، جس کا مقابلہ کئی ممالک کی مسلح فورسز نہ کر پائیں، ایک جنگ میں اسرائیلی فورسز نے چھے دن کے اندر تین عرب ممالک کی فورسز کو شکست دے دی، ایک اور جنگ میں دس بارہ دن کے اندر شکست دے دی، اسی غالب فوج  کو جس کا سامنا تین عرب ممالک کی فوجیں نہیں کر پائیں، حزب اللہ کے صاحب ایمان نوجوانوں کے سامنے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا، شکست کھانی پڑی، 33 دن کے اندر ہاتھ اٹھا کر ہار تسلیم کرنا پڑی! اس سے بھی بڑھ کر غزہ میں، بالشت بھر کے علاقے غزہ میں ہمتی فلسطینی نوجوانوں کے ہاتھوں بائیس دن کے اندر اسے شکست ہوئی، ایک دفعہ سات دن کے اندر ایک اور شکست کھانی پڑی اور اس نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یہ کون سوچ سکتا تھا؟ جب استقامت ہو، جب صبر ہو، جب اللہ پر توکل ہو، جب اللہ کے وعدوں پر یقین ہو تو یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ہم خود اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہیں۔ آئندہ بھی یہی ہوگا۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں، ہمارے اس علاقے میں سامراج نے بہت بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا لیکن اب تک اسے ناکامی ہی ملی ہے! یہ بات وہ خود کہہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ  ہم نے سات ہزار ارب ڈالر یہاں خرچ کر دئے اور ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ وہ خود اعتراف کر رہے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی روحانی قوت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، تکیہ کیا جا سکتا ہے اور مستقبل کے تعلق سے پرامید ہوا جا سکتا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ان دنوں غزہ میں جو واپسی مارچ ہو رہا ہے، ایک دن حقیقی طور پر فلسطینیوں کی ان کی سرزمینوں کی طرف واپسی پر منتج ہوگا۔ سرزمین کے اصلی مالکان ان شاء اللہ وہاں واپس جائیں گے۔ اللہ تعالی سے آپ سب کے لئے اور آپ کے اہل خانہ کے لئے توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) اس تقریب کے آغاز میں جو خاتم الانبیاء ایئر ڈیفنس یونیورسٹی کے اندر منعقد ہوئی، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل سید عبد الرحیم موسوی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۳) گلستان، باب اوّل؛ «دانی که چه گفت زال با رستم گرد / دشمن نتوان حقیر و بیچاره شمرد»

۴) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۹۱ کا ایک حصہ

۵) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۱۷ کا ایک حصہ