رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں بوشہر کو ایک حساس اور فوجی مسائل میں فخریہ کارناموں کا حامل خطہ قرار دیا اور فرمایا:بوشہر کو ایک عرصۂ دراز تک ایران کے دشمن سامراجیت کے خوگروں کی جانب سے خطرات کا سامنا رہا مگر علمائے کرام کی رہنمائی اور شہید رئیس علی دلواری جیسے والا مقام شہدا کی جانفشانیوں کے نتیجے میں ان خطرات کے مقابلے یہ صوبہ ڈٹا رہا۔

آپ نے خطۂ بوشہر میں پروان چڑھنے والے دلواری، مہدوی، عاشوری اور گنجی جیسے عظیم اور نامور شہدا کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ان شہدا کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ بوشہر میں دین اسلام کے جہادی و انقلابی تصور کی صحیح شناخت پائی جاتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے شہدا اور نمایاں شخصیتوں کے تذکرے کو باقی رکھنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ شہدا کی یاد اور انکے تذکرے کو نئی نسل کے ذہن و دل میں بسانے کی ضرورت ہے۔

آپ نے برطانوی جارحیت کے مقابلے میں پاسبان وطن، مرد مجاہد شہید رئیس علی دلواری کی جانفشانیوں نیز بین الاقوامی سطح کے مرد مجاہد شہید نادر مہدوی کی نمونہ شخصیت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اگر ہماری نئی نسل ان عظیم شخصیتوں کے نام تک سے واقف نہ ہو تو یہ افسوس کا مقام ہے ، یہ تشہیراتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ استقامت  و جہاد کے جذبے سے لبریز ان عظیم شخصیتوں سے عوام کو روشناس کرا کے ان میں استقامت و جہاد کے جذبے کو فروغ دیں اور اسکی جڑوں کو مضبوط بنائیں۔

آپ نے جذبۂ استقامت کو ملک کے لئے واحد  راہ نجات قرار دیا اور فرمایا: آٹھ کروڑ آبادی والا ایک ایسا ملک جو معدنیات و توانائی سمیت مختلف وسائل کے علاوہ حساس اور اہم جغرافیائی پوزیشن کا حامل اور موسمیاتی تنوع والا ملک ہو اور جس پر بڑی طاقتوں کی لالچی نظریں بھی جمی ہوئی ہوں، اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ خود اپنے عمل اور جذبۂ جہاد کے سہارے آگے بڑھے تاکہ اسکی عزت کو پامال نہ کیا جا سکے، البتہ آج اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم میدان میں کھڑی اور ڈٹی ہوئی ہے مگر یہ جذبۂ جہاد و استقامت اس طرح سے راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ نسلیں بھی یقینی طور سے اس راہ پر گامزن رہ سکیں۔