1 جنوری 2020 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب نے جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کو تاریخ بشریت کی ممتاز شخصیتوں میں شمار کیا اور فرمایا کہ عظیم و والامقام شخصیت و عظمت کی حامل یہ خاتون ایک نمونۂ عمل ہیں اور آپ کی شخصیت اور نرس طبقے کے درمیان نسبت اور وابستگی، حقیقتاً ایک مبارک اور بجا اقدام ہے۔(1)

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

والحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! مریضوں کی تیمارداری کرنے والی اہم صنف سے آپ کا تعلق ہے، میں آپ کو یوم تیمارداراں ( نرس ڈے) کی بھی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعات کی بھی مبارکباد پیش کرتاہوں۔ آپ کا کام بہت اہم ہے۔ جن لوگوں نے عقل و فہم سے کام لے کر اس دن کے لئے، یوم تیمارداراں (نرس ڈے) کے نام کا انتخاب کیا ہے، انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے، بہت مناسب اور بجا انتخاب ہے۔

حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا)  پوری تاریخ بشریت کی ممتاز خاتون ہیں، صرف تاریخ اسلام کی نہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ وہ محکم اور قوی ہستی، وہ عظیم ہستی کہ:

" زن نگر دست خدا در آستین" ( عورت غلاف آستین میں دست خدا ہے) (2)

جو کارنامہ انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے لئے بہت کم انسان، چاہے مرد ہوں  یا عورت، اس طاقت اور استحکام کے ساتھ اس دشوار میدان میں قدم رکھنے کی جرائت کر سکتے  ہیں۔

یہ عظیم خاتون تیمارداری کی علامت بھی ہیں۔ اس نام سے آپ تیمارداروں کی برداری اور اس عظیم خاتون کے درمیان ایک خصوصی رابطہ وجود میں آ گیا ہے ، میں آپ کو اس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 

دو تین باتیں عرض کروں گا۔  کچھ تیمارداری (نرسنگ) کے مسائل کے بارے میں، چند جملے 9 دی (مطابق تیس دسمبر) کے مسائل کے بارے میں عرض کروں گا اور اسی کے ساتھ موجودہ مسائل کی طرف بھی اشارہ کروں گا۔

تیمارداری (نرسنگ) کے بارے میں جو میرا نظریہ اور مشاہدہ ہے اس کی بنیاد پر میں عرض کروں گا کہ تیمارداری انسانی اور اخلاقی فضائل کا ایک مجموعہ ہے۔ شفقت اور ہمدردی سے لے کر (مریضوں کی) بے تابی اور تند خوئی پر احساس ذمہ داری، تحمل اور بردباری (کامجموعہ ہے)۔ یہ سب عظیم انسانی فضائل ہیں اور انسانی معاشروں کی مشکلات و مسائل انہیں فضائل کے فقدان کی وجہ سے باقی ہیں۔ تیمارداری انہیں فضائل کا مجموعہ ہے۔ اسی کے ساتھ اس انسان کے لئے جو اس کی تیمارداری میں ہے، پوری توجہ، دقت نظر اور اعتنا بھی لازم ہے۔ اس پیشے میں، دقت نظری، پابندی، التزام، تحمل، استقامت اور سختیوں کا سامنا کرنے پر بد دل نہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔

بعض پیشے ایسے ہیں جن میں کام کرنے والے کے سامنے زندگی کی خوبیاں اور خوبصورت مناظر ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کا پیشہ ایسا ہے کہ آپ کا  سروکار مستقل طور پر بیماریوں سے ہوتا ہے، بیماروں سے ہوتا ہے، درد سے ہوتا ہے، رنج و الم سے ہوتا ہے اور آپ انہیں برداشت کرتے ہیں، بد دل نہیں ہوتے ہیں، آپ کا حوصلہ ختم نہیں ہوتا ہے  اور اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ یہ اخلاقی بلندیاں ہیں۔ یہ (باتیں) جو میں عرض کر رہا ہوں، پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ تیمارداری کے پیشے سے  وابستہ افراد کی تکریم انسانی فضائل کا احترام کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم ایک تیماردار (نرس) کی شخصیت کو ممتاز قرار دیتے ہیں، تیماردار کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں _ البتہ میں نے بارہا یہ باتیں عرض کی ہیں_ تو در حقیقت کمیاب انسانی اور اخلاقی فضائل کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہ اخلاقی فضائل ہیں۔

یہاں میں ایک جملہ معترضہ اپنی اس بات کے بارے میں عرض کروں گا کہ یہ فضائل معاشرے میں کمیاب ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہمیں تیمارداروں (نرسوں)  کی قدردانی کرنی چاہئے،  تکریم کرنی چاہئے، ان کا احترام کرنا چاہئے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کے ہمیں معاشرے میں ان فضائل کو بھی فروغ دینا چاہئے کہ تیمار داری کو میں نے جن کا حامل قرار دیا ہے۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے، ہمارے معاشرے کو ان کی ضرورت ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو افراد معاشرہ کے درمیان شفقت کی ضرورت ہے، آج ہمارے معاشرے کو ہمدلی  کی ضرورت ہے، احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے، بردباری کی ضرورت ہے، تحمل کی ضرورت ہے، ایسی چیزوں کی ضرورت ہے۔

آج ہم بہت ہی پر افتخار اور اہم راستے پر گامزن ہیں۔ ہمارا ایرانی معاشرہ بلندی کی جانب بڑھ رہا ہے، بلندی کی جانب بڑھنے کے لئے بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے خاص حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ صاف ستھری اور ہموار شاہراہوں پر اتنا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن جب انسان بلندی کی جانب بڑھ رہا ہو تو بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو، ہمارے ملک کو اور ہمارے عوام کو ان خصوصیات کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو تحمل کریں، باہم بردبار رہیں، مہربان رہیں، شفیق رہیں، ایک دوسرے کی مدد کریں۔ البتہ ایرانی جبلّت (3) اور ایرانی مسلمانوں کی اخلاقی بنیادیں یہی ہیں۔ آپ نے قدرتی آفات کے موقع پر دیکھا ہے کہ عوام کس طرح دل و جان سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ تو ہے لیکن پھر بھی اس کی ترویج اور فروغ کی ضرورت ہے۔ وہ سبھی جو اس مہم میں  کچھ کرسکتے ہوں، جیسے مختلف انتظامی ادارے، تشہیراتی ادارے، ذرائع ابلاغ، دینی معلمین، حتی سیاسی کارکن، سبھی ان فضائل اور ان سے متصف لوگوں کی ترویج کریں تاکہ ہمارے معاشرے  میں ان فضائل کو فروغ حاصل ہو۔

 میں نے چند شب قبل ٹیلی ویژن پر ایک محترم کو دیکھا تھا کہ نہ وہ ارب پتی تھے، نہ کسی ادارے کے ڈائریکٹر تھے اورنہ ہی بے انتہا دولت کے مالک تھے لیکن اپنی سعی پیہم اور لوگوں کے تعاون سے انھوں نے سیکڑوں جوڑوں کی شادی کے جہیز کا انتظام کیا تھا۔ اس گودام کو دکھایا گیا جہاں انھوں نے جہیز کا سامان جمع کیا تھا، میں  ٹیلی ویژن پر دیکھ رہا تھا۔ ان کاموں کی ترویج ہونی چاہئے۔ ان لوگوں کی تشہیر کی ضرورت ہے  اور اس طرح کے کاموں کے فروغ کی ضرورت ہے۔  فضائل کی ترویج سبھی افراد معاشرہ اور ان لوگوں کے فرائض میں شامل ہے جو یہ کام کر سکتے ہیں۔

تیمارداروں (نرسوں) کے بارے میں ایک اہم بات _ خوش قسمتی سے وزیر صاحب نے کچھ باتیں بیان کی ہیں ، بہت اہم نکات بیان کئے، کچھ کام انجام دیئے ہیں اور کچھ کام انجام دینا چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ ضروری سرعت اور لازمی حکمت کے ساتھ یہ کام انجام دیئے جائيں _ یہ ہے کہ  ہم جو اپنے مریضوں کو دیکھ بھال کے لئے، تیمارداروں (نرسوں) کے سپرد کرتے ہیں، خود ہمیں بھی تیمارداروں کا جسمانی اور  نفسیاتی لحاظ سے خیال رکھنا چاہئے۔ خود اس نرس اور تیماردار کا بھی جس پر ہم اعتماد کرکے اپنے مریض کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں، خیال رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کو تھکن  نہیں ہونا چاہئے، اس کا حوصلہ کم نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اس کے لئے ایسے حالات نہیں پیدا کرنا چاہئے کہ وہ تھک جائے اور اس کا (تیمارداری کا) شوق و ذوق اور حوصلہ ختم ہو جائے۔ فرض کریں اگر کوئی تیماردار (نرس) لگاتار دو شفٹ کام کرنے پر مجبور ہو، اس کے اندر حوصلہ باقی نہیں رہے گا پھر اس کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ خاص طور پر خاتون نرسوں کے گھریلو مسائل، ان کے بچوں اور شوہر کے مسائل گھر کے ماحول، ان سب باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اس جلسے میں آنے سے پہلے وزیر صاحب سے ان کاموں کے بارے میں بات کر رہا تھا جو تیمارداروں (نرسوں) کی آسودگی کے لئے ضروری ہیں۔ تیمارداروں (نرسوں) میں پیشہ ورانہ ذوق و شوق، تیمارداری کا حوصلہ اور وقت پر ڈیوٹی پر آنے کا جذبہ بڑھانے اور ان کی گھریلو ضروریات کی تکمیل پر ان شاء اللہ افسران بالا، ضروری توجہ دیں گے تاکہ وہ اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے سکیں۔ البتہ یہ دشوار امور ہیں، ان کے لئے وقت بھی درکار ہے، مگر بہرحال توفیق الہی سے ان کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ تیماردار معاشرے کا بہت عزیز اور اہم طبقہ ہے۔ اس طبقے کی مشکلات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے حقوق کو سمجھا اور تسلیم کیا جائے اور ان کے ساتھ پوری طرح انصاف کیا جائے۔

 یہ جو انھوں نے کہا ہے کہ نرسوں  کے، پیرا میڈکس کے بجائے مستقل تشخص کو تسلیم کیا جائے، اہم ہے۔ اس طرح کے کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔

خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس وقت دسیوں ہزار طلبا و طالبات، تیمارداری (نرسنگ) کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو نرسنگ کے پیشے میں آئيں گے۔ ٹریننگ کے مسائل میں بھی اور اس کے بعد ملک کی سطح پر تیمارداروں کی متوازن تقسیم کے معاملے میں بھی اچھے مینیجمنٹ اور بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ نرسوں کی تنخواہوں کی سطح پر بھی توجہ ضروری ہے۔ یہ شعبہ صحت عامہ کی ترجیحات میں ہے۔

ڈاکٹروں اور نرسوں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ نرس اور ڈاکٹر ایک دوسرے کے رقیب نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ نرسوں کے بغیر ڈاکٹروں کا کام پورا نہیں ہو سکتا اور ڈاکٹروں کے بغیر نرسوں کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ اپنی اپنی جگہ پر دونوں کا کام اہم ہے۔

ایک اور اہم بات، اسپتالوں میں شرعی حدود کی پابندی ہے۔ میری گزارش ہے کہ ذمہ دار حضرات اس پر توجہ دیں۔ بعض اوقات اسپتال میں خاتون مریض اصرار کرتی ہے کہ اس کی تیمار دار (نرس) خاتون ہو، مگر اس کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا ہے۔ ان باتوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

  یہ نرسوں اور تیمارداروں کے بارے میں کچھ باتیں ہیں جن کا بیان میری نظر میں ضروری تھا۔ ہم چاہتے ہیں، ہمارا اصرار ہے، ہماری کوشش ہے اور ہم اس کے لئے دعا بھی کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہمارا تیمارداروں (نرسوں) کا طبقہ زیادہ ذوق و شوق، زیادہ جذبے، اور زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام انجام دے۔

اب کچھ باتیں، دو دن قبل گزرنے والی نو دی (تیس دسمبر)  کی تاریخ کے بارے میں۔   قوم کے بڑے امتحانات اور آزمائشوں کو یاد رکھنا بہت اہم ہے۔ اقوام اور ممالک امتحانات اور آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان آزمائشوں سے کامیاب و کامران باہر آتے ہیں۔ یہ صرف ہماری قوم سے مخصوص نہیں ہے، لیکن انقلاب کے دوران اور انقلاب کامیاب ہونے کے بعد سے لیکر آج تک ہماری قوم بہت زیادہ آزمائشوں میں مبتلا ہوئی اور بہت  زیادہ کامیاب بھی رہی ہے۔ انہی میں سے ایک 9 دی 1388 (ہجری شمسی مطابق 30 دسمبر 2009) کی تاریخ بھی ہے۔ اس دن ایرانی قوم نے سڑکوں پر نکل کے ایک بڑی اور گہری سازش کو ناکام بنا دیا۔ پرسوں پورے ملک میں عوام نے، اس تاریخ اور اس عوامی انقلابی تحریک کو یاد کیا۔ اس عظیم تحریک اور بڑی آزمائش میں عظیم کامیابی کی یاد منانا بہت ضروری ہے۔ 

 ایک بات جو بہت اہم ہے اور ایرانی قوم خوش قسمتی سے اس بصیرت کی وجہ سے جو اس کے اندر موجود ہے، اس بات کی طرف پوری طرح متوجہ ہے، یہ ہے کہ عوام کے کچھ مطالبات ہوتے ہیں۔ اکثر معاملات میں عوام حق پر ہوتے ہیں۔ ان کے مطالبات ہوتے ہیں اور توقعات ہوتی ہیں جو پوری نہ ہوں تو وہ احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن عوام کے مطالبات کا مسئلہ اور ہے اور عوام کے مطالبات کی آڑ میں  فتنہ انگیزی کا مسئلہ اور ہے۔ یہ دوسرا امر، یعنی فتنہ انگیزی دشمن کا کام ہے، دوست کا کام نہیں ہو سکتا۔ دوست جب دیکھتا ہے کہ گاڑی کی رفتار سست ہو گئی ہے، چڑھائی ہے اور گاڑی صحیح نہیں چل رہی ہے تو وہ مدد کرتا ہے، گاڑی کو دھکا دیتا ہے تاکہ گاڑی آگے بڑھے یا گاڑی کا انجن اگر بند ہو گیا تو اسٹارٹ ہو جائے۔ دوست ایسا ہوتا ہے، سامنے تو آتا ہے لیکن اس طرح کام کرتا ہے۔

دشمن کیا کرتا ہے؟ جب دیکھتا ہے کہ گاڑی آگے نہیں بڑھ رہی ہے تو اس کے پہئے کی ہوا نکال دیتا ہے، یا گاڑی کا وہ پرزہ خراب کر دیتا ہے جس سے گاڑی چلتی ہے۔ دشمن  یہ ہوتا ہے۔ ابتدائے انقلاب سے دشمن ہمیشہ اسی کام میں مشغول رہے ہیں۔

اس سال بھی آپ نے نومبر کے اواسط میں دیکھا۔ اس سلسلے میں بھی ایک بہت دلچسپ جملہ ہے جو میں بعد میں عرض کروں گا۔ عوام کے مطالبات تھے۔ دشمن نے اپنے افراد کو تیار رکھا تھا اور اس نے عوام کے ان مطالبات سے فائدہ اٹھایا، فورا سرگرم ہو گیا اور تخریب کاری شروع کر دی۔ یہ عوام کی بصیرت تھی کہ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ تخریب کاری، آتش زنی تخریب کاری اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی بربادی شروع ہو گئی ہے تو انھوں نے خود کو الگ کر لیا۔

عوام کے مطالبات تھے اور ہیں، لیکن وہ فتنہ پروروں کا ساتھ دینے پر تیار نہیں ہوئے، خود کو الگ کر لیا، فتنہ پرور تنہا پڑ گئے۔ یہ اہم ہے۔ فتنہ پرور خود کو عوام کے درمیان پنہاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام کی بصیرت اور ہوشیاری نے فتنہ ختم کر دیا۔ رواں سال کے نومبر کے اواسط میں بھی اور سن دو ہزار نو کے اواخر میں بھی یہ ہوا اور یہ سلسلہ ابتدائے انقلاب سے آج تک جاری ہے۔ یہ عوام کی  بصیرت کی وجہ سے ہوا۔ ابھی آج سے ایک مہینہ قبل عوام نے خود کو فتنہ پرور عناصرسے الگ کر لیا اور پھر دو تین دن بعد مختلف شہروں میں عوام نے سڑکوں پر عظیم الشان اجتماعات اور مظاہرے کئے۔ یہ عوام کی بصیرت اور آگہی ہے۔

 میرے خیال میں اور میں جو محسوس کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو لوگ عوام کے مطالبات سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ زیادہ تر دشمنوں کی جاسوسی کی خفیہ تنظیموں سے وابستہ افراد ہیں۔ عام طور پر یہی ہے۔ اب ممکن ہے کہ کچھ لوگ ہیجان زدہ ہوکے نکل پڑیں لیکن جو اپنے چہرے چھپا کے پیٹرول کے ذخائر پر حملہ کرتے ہیں، گندم کے گوداموں پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں آگ لگاتے ہیں، چاہے وہ سرکاری ہوں یا عوام کے ہوں، ان کے درمیان ایسے افراد کے موجود ہونے کا امکان بہت کم ہے جو صرف ہیجان زدہ ہوکے نکل پڑتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے بلؤوں میں آگے رہنے والے اور بلوائیوں کو جمع کرنے والے عناصر اغیار کی جاسوسی کی خفیہ تنظیموں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جاسوسی کی یہ خفیہ تنظیمیں جانتی  ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انہیں صرف اس لئے رکھتی ہیں کہ کوئی بہانہ ملتے ہی یہ لوگ میدان میں آ جائيں۔

وہ بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ملک کے ایک اعلی رتبہ عہدیدار نے، ابھی حال ہی میں مجھ سے ملاقات میں کہا ہے کہ ایک بیرونی سیاستداں نے اس عہدیدار کو بتایا ہے کہ گزشتہ نومبر کے اواسط کے حادثے کے پہلے دن، جو سنیچر کا دن تھا، وہ واشنگٹن میں تھا، امریکی یعنی امریکا کے یہی احمق حکام خوش تھے اور خوشی کا اظہار کر رہے تھے، ایران سے انہیں جو خبریں مل رہی تھیں ان سے وہ بہت زیادہ خوش تھے۔ وہ سیاستداں کہتا ہے کہ امریکیوں نے اس سے کہا کہ ایران کا کام ختم ہے(4)۔ اس سیاستداں نے کہا تھا کہ نہیں ایران  ان حوادث سے نمٹنے کے لئے کافی مضبوط ہے، ان سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ نہیں یہ قضیہ ماضی کے معاملات سے مختلف ہے، اس وقت بات بالکل مختلف ہے، اب ختم ہے۔ اس کے دوسرے اور تیسرے دن معاملہ ختم ہو گيا۔ یہ سیاستداں ابھی وہیں تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ "امریکی بہت غمگین تھے، ان کا موڈ بہت خراب تھا کہ کچھ نہیں ہوا اور معاملہ ختم ہو گيا۔" امریکی ایسے ہیں۔

اب آپ دیکھیں کہ وہ عراق میں کیا کر رہے ہیں۔ شام میں وہ کیا کر رہے ہیں۔ عوامی رضاکار فور الحشد الشعبی سے داعش کا بدلہ لے رہے ہیں (5)۔ اس لئے کہ الحشد الشعبی نے میدان میں آکے داعش کو شکست دے دی اور اس کو ختم کر دیا جس کو خود امریکیوں نے بنایا اور پروان چڑھایا تھا۔ امریکی اس کا انتقام لے رہے ہیں۔ بہانہ بناکے عراق پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو شہید کر دیتے ہیں۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ میں بھی حکومت بھی اور ایرانی عوام بھی امریکیوں کے ان جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔

ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ جب امریکیوں کے لئے اس طرح کے واقعات و حوادث رونما ہوتے ہیں تو آپ دیکھیں کہ بغداد میں اور پورے عراق میں امریکیوں کے خلاف کیسے جذبات پائے جاتے ہیں لیکن وہ حضرت (ٹرمپ) ٹوئیٹ کرتے ہیں (6) تقریر کرتے ہیں، یا ٹوئیٹ کرتے ہیں یا مقالہ لکھتے ہیں کہ ہم انہیں ایران کا کام سمجھتے ہیں، ان میں ایران کا ہاتھ ہے اور ہم ایران کو جواب دیں گے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تمہاری سراسر حماقت ہوگی،  ان کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معقولیت کی بات کرنا سیکھو، جو تم نہیں جانتے، امریکی معقول بنیں جو نہیں ہیں، اور اس بات کو سمجھیں کہ اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر (7) جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالبا عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کئے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں شادی کی بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی ۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔ اب میں نام نہیں لینا چاہتا، بعض ممالک ایسے ہیں کہ جن کی حکومتیں تھوڑا بہت خیال رکھتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ ان کے عوام امریکا سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ عوام نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں، اس کا ایران سے کیا تعلق ہے؟ یہ بات معقول نہیں ہے، وہ اس کو نہیں سمجھتے۔ اس علاقے میں امریکی جو سیاسی اور سیکورٹی اقدامات کر رہے ہیں ان کا نتیجہ یہ نفرت ہے۔ تم عوام پر ظلم کرتے ہو، عوام کے مفادات کو غارت کرتے ہو، عوام پر زیادتی کرتے ہو۔ امریکی صدر کسی ملک میں جاتا ہے تو سیدھے اپنے فوجیوں کے اڈے میں پہنچتا ہے اور اس ملک کی اجازت کے بغیر ہی اس ملک میں داخل ہوتا ہے اور پھر اس ملک کے سربراہ سے کہتا ہے کہ وہ اس اڈے میں جاکے اس سے ملاقات کرے! یہ دوسروں کا گھر ہے تو کس کی اجازت سے، کس جواز کے تحت، کس سیاسی اصول کے تحت تم یہ سمجھتے ہو کہ اس ملک میں امریکیوں کے اڈے میں جاؤگے اور اس ملک کے سربراہ کو ملاقات کے لئے وہاں بلاؤگے؟! نہ آئے تو برہمی اور ناراضگی کا اظہار کروگے؟! یہ امریکی اس طرح ہیں اور اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب وہ اس طرح کا طرزعمل اپنائيں گے تو عوام میں نفرت پیدا ہوگی۔ امریکا سے عوام میں برہمی پیدا ہوگی تو  پھر کہیں نہ کہیں یہ نفرت اور برہمی ظاہر ہوگی۔ موقع ملنے پر عوام اپنی اس برہمی کو ظاہر کریں گے(8)۔

اسلامی جمہوریہ ایران اگر کسی ملک سے لڑنے کا فیصلہ کرے گا، جنگ کا فیصلہ کرے گا تو صراحت کے ساتھ یہ کام کرے گا۔ ہم اپنے ملک اور عوام کی بھلائی اور مفادات کے تحفظ کے سخت پابند ہیں۔ ہم ایرانی قوم کی پیشرفت اور  عظمت کے تحفظ کے سخت پابند ہیں۔ جو بھی انہیں خطرات میں ڈالے گا کسی رو رعایت کے بغیر اس کے مقابلے پر آئيں گے اور اس پر وار کریں گے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے عزیز عوام، ایرانی قوم، ایرانی عوام شجاع ہیں، صاحب بصیرت ہیں، اہل عمل ہیں، اس قوم کی عورتیں، مرد، جوان ، غیر جوان سبھی آمادہ اور میدان عمل میں موجود ہیں۔

اب یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنگ ہوگی، لڑائی ہوگی، نہیں ہم ملک کو جنگ کی طرف ہرگز نہیں لے جائيں گے، لیکن اگر دوسروں نے اس ملک پر کسی چیز کو مسلط کرنا چاہا تو ہم پوری قوت سے اس کا مقابلہ کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کامیابی ہمارے لئے ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح اس ملک کا زمانہ حال اس کے ماضی سے بہت بہتر ہے اسی طرح اس کا مستقبل بھی حال سے بہت اچھا ہوگا۔

شہیدان عزیز اور امام شہیداں (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر خدا کی رحمت ہو جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا اور خدا کا فضل و کرم آپ سبھی عزیزوں کے شامل حال ہو۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 1۔ اس موقع پر پہلے ایران کے صحت، علاج معالجے اور طبی تعلیم کے وزیر جناب ڈاکٹر سعید نمکی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

2۔ عمّان سامانی کے دیوان گنجینۃ الاسرار سے ماخوذ ( تھوڑے سے فرق کے ساتھ )؛

"زن مگوخاک  درش نقش جبین    زن مگو دست خدا در آستین"

3۔  سرشت ، فطرت

4۔ حاضرین نے اس موقع پر  امریکا مردہ باد کے نعرے  لگائے

5۔ امریکی جنگی طیاروں نے انتیس دسمبر کو شام کی سرحد پرعراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے چند مراکز پر بمباری کر دی تھی جس میں کچھ لوگ شہید اور زخمی ہو گئے تھے۔

6۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹوئیٹ کی طرف اشارہ ہے جس میں انھوں نے ایران کو دھمکی دی تھی۔

7۔ امریکا کی ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی

8۔ اکتیس دسمبر دو ہزار انیس کو عراقی عوام نے الحشد الشعبی کے مراکز پر امریکی بمباری پر مشتعل ہوکے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا تھا۔