10 مئی 2020 اتوار کی صبح ویڈیو کانفرنس کی شکل میں منعقد ہونے والی اس نشست میں صدر حسن روحانی کی قیادت والے انسداد کورونا قومی کمیشن کے ارکان کے ساتھ ہی ملک کے اکتیس صوبوں کے گورنروں نے بھی شرکت کی (1)۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

تمام محترم حاضرین کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ محترم صدر مملکت اور دیگر حضرات کو جو اس اجلاس میں شریک ہیں، اسی طرح ان لوگوں کو جو ہماری یہ گفتگو سنیں گے۔ جو رپورٹیں پیش کی گئیں، خاص طور پر جناب صدر مملکت کی جامع رپورٹ بہت ضروری تھیں، اچھی تھیں، حقائق پر روشنی ڈالنے والی تھیں۔ ہم سب کو ضرورت ہے کہ یہ رپورٹیں اور یہ خاص  باتیں سنیں اور ان سے آگاہ ہوں۔ اس اجلاس اور اس پروگرام کے انعقاد سے ہمارا پہلا مقصد یہ تھا کہ تمام متعلقہ افراد کا اور آپ برادران گرامی کا شکریہ ادا کروں۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ایک مدت سے آپ برادران عزیز شب و روز محنت اور کاموں میں مصروف ہیں۔ ہمارا دوسرا مقصد تھا اللہ کی بارگاہ میں شکر ادا کرنا کہ اس نے ملت ایران اور ملک کے عہدیداران کو یہ بڑی کامیابی عطا فرمائی۔

اپنے معروضات پیش کرنے سے قبل میں تعزیت پیش کرنا چاہتا ہوں اس سانحے کے تمام سوگواروں کو، جنہوں نے اپنے عزیزوں کو گنوایا ہے۔ میں اس بیماری اور دوسری بیماریوں میں مبتلا افراد کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی انھیں شفائے عاجل عطا فرمائے۔ جاں بحق ہو جانے والے افراد اور خاص طور پر اس راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جانے والے افراد کے لئے رحمت خداوندی اور بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں۔

اس وسیع اور کثیر الجہتی میدان میں جہاد اور عظیم سعی و کوشش

جس چیز کا واقعی شکر ادا کرنا چاہئے وہ ملت ایران اور عہدیداران کو اس حادثے کے سلسلے میں اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی توفیقات ہیں۔ بڑا عظیم کام انجام پایا ہے۔ ملک میں ایک عظیم جہاد رونما ہوا اور حقیقی معنی میں مجاہدانہ اقدامات ہوئے، یہ جہادی تحریک تھی۔ تاریخ میں اسے درج ہونا چاہئے اور اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے، میں بعد میں اس سلسلے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ یہ عظیم جہاد ایک وسیع اور کثیر الجہتی میدان میں انجام دیا گيا۔ بیماری کے سد باب کے سلسلے میں، ٹیسٹ کے سلسلے میں، گردو پیش کی فضا کی صفائی، پبلک ہیلتھ کیئر، راستوں، سڑکوں اور عوامی مقامات کو اسٹرلائیز کرنے کے لئے (جہادی کام انجام پایا) میں اس سلسلے میں بھی ابھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

اسی طرح مختلف کمپنیوں کے ذریعے ضرورت کی اشیاء اور وسائل کے پروڈکشن کے سلسلے میں نالج بیسڈ کمپنیوں، گوناگوں اداروں، بلکہ خود عوام الناس نے ملکی سطح پر جہاد انجام دیا۔ بڑی سرعت کے ساتھ لوگوں کی ضرورت کے وسائل اور سامان مہیا ہو گئے اور ان کی سپلائی شروع ہو گئی۔ بسا اوقات یہ کام مفت انجام دیا گیا۔ یہ بھی بڑا عظیم پہلو ہے جو واقعی قابل فخر ہے۔ رفاہ عامہ کے اقدامات اور نیکوکاری، یہ مومنانہ تحریک اور ملکی سطح پر شروع ہو جانے والا یہ کام اپنی وسعت اور تنوع کے لحاظ سے واقعی حیرت انگیز ہے۔ ملک میں مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک بیشتر شہروں میں، غالبا تمام صوبوں میں عوام نے، اسی طرح عہدیداران، مسلح فورسز، رضاکار فورس اور دیگر گوناگوں متعلقہ اداروں نے یہ عظیم مہم شروع کر دی۔ آپ عوام کو دیکھ رہے ہیں، رپورٹوں میں دکھایا جاتا ہے کہ عوام ان مساجد میں کیسی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ بھی بڑا عظیم کام تھا جو ارادہ خداوندی کے بغیر، دست قدرت خداوندی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا، اس انداز سے عوام کو میدان میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔

سخت اور پرخطر کاموں میں رضاکار فورسز کی بھرپور موجودگی کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ہے۔ ہم نے نرسوں اور ڈاکٹروں کا بار بار شکریہ ادا کیا، واقعی شکریہ ادا کرنا ضروری تھا لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ رضاکار فورسز بھی میدان میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ نوجوان، رضاکار، دینی طالب علم سب اسپتالوں میں پہنچ گئے اور اس سخت اور خطرناک کام کے سلسلے میں انھوں نے تعاون شروع کر دیا۔ یا جیسا کہ بعض دوستوں نے بھی اپنی رپورٹوں میں ذکر کیا کہ کفن اور دفن کے سلسلے میں جو واقعی بہت سخت کام تھا، ایسے وقت جب بعض افراد یہ تجویز دے رہے تھے کہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کو بغیر کفن اور بغیر غسل کے ہی دفن کر دیا جائے تو کچھ لوگ سامنے آئے اور انھوں نے اس عظیم کام کو، اس سخت کام کو، اس پر خطر ذمہ داری کو سنبھال لیا۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کے مراکز میں اور نالج بیسڈ کمپنیوں میں علمی و تحقیقاتی کام شروع ہو گيا تاکہ اس وائرس کی مکمل شناخت حاصل ہو، مسلسل خود کو تبدیل کرنے والے اس وائرس کی شناخت حاصل ہو جس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی شناخت حاصل کر پانا کافی دشوار کام ہے، اس سے لڑنے کا طریقہ معلوم ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ اس میدان میں بھی ہم دوسرے بہت سخت میدانوں کی مانند ایرانی استعداد کا مظاہرہ ساری دنیا کے سامنے کر سکیں گے اور ہمارے نوجوان حقیقت میں جلد از جلد وائرس کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس کے سد باب کے لئے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوں گے، اس بیماری کا علاج کر دینے والی دوا بنا لے جائیں گے۔

ان افتخارات کو اسلامی و انقلابی کلچر کی جھلکیوں کے طور پر درج کیا جائے

یہ سارے کام مختلف شعبوں میں انجام پائے ہیں لیکن منصوبہ بندی اور مینیجمنٹ کے میدان میں واقعی بہت اچھا کام ہوا ہے۔ یعنی آپ کے اسی کمیشن نے، وزارت صحت نے حقیقت میں منصوبہ بندی اور امور کو سنبھالنے کے سلسلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ قومی افتخارات ہیں۔ واقعی یہ قومی افتخارات ہیں۔ ان میں اسلامی و انقلابی کلچر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ یہ عمومی مشقیں جو مختلف حصوں میں انجام پائیں، یہ سارے کام بہت سے میدانوں میں واقعی اسلامی اور خدائی کام تھے۔ ان افتخارات کو ثبت کیا جانا چاہئے، انھیں محفوظ کر لیا جانا چاہئے۔ اس وسیع محاذ پر سرگرم افراد کے احساسات وہی مقدس دفاع والے احساسات تھے۔ یعنی جن لوگوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ مقدس دفاع کے دور کی خدمت رسانی اور پشت پناہی کی خوشبو اس دفعہ بھی محسوس کی گئی۔

میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ایک اہم مطالبہ اور آرزو بھی ہے۔ ان شاء اللہ یہ آرزو پوری ہو۔ کاش کچھ لوگ ہوں جو شہید آوینی کی طرح اس عظیم اور ہمہ گیر جہاد کو منعکس کر سکیں۔ جس طرح شہید آوینی نے اپنی شیریں بیانی اور پرکشش و موثر انداز سے محاذ جنگ کی تمام تفصیلات لوگوں کے سامنے پیش کر دیں اور وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئیں، کاش کچھ لوگ اس موقع پر بھی یہ کام انجام دیں۔ بیان کی شکل میں، تحریر کی شکل میں، اسی طرح فلموں وغیرہ کی شکل میں۔

ملت ایران کا صبر، تحمل، متانت اور درخشندگی

ملت ایران کی کارکردگی ایک اور میدان میں بھی شاندار رہی۔ یعنی ہم نے یہ جو باتیں عرض کیں یہ میدانوں میں ملت ایران اور عہدیداران کی فعالیت اور موجودگی سے متعلق تھیں لیکن ایک اور میدان میں بھی ملت ایران نے واقعی بہترین مثال قائم کی ہے اور وہ ہے متانت دکھانا اور سراسیمہ نہ ہونا۔ جب اس طرح کا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو فطری طور پر ضروریات زندگی اور عمومی امور کے سلسلے میں تشویش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے نمونے آپ نے ٹیلی ویزن پر دیکھے۔ دوسرے ممالک میں شاپنگ مالز پر حملہ، وہاں موجود سامان خالی کر دینا اور لاکر گھروں میں بھر لینا۔ لیکن ہمارے ملک میں ہرگز یہ صورت حال نہیں دیکھی گئی۔ عوام نے متانت کا مظاہرہ کیا، صبر و تحمل سے کام لیا، سراسیمگی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔

اس دوران خاندان کا رول بھی بہت واضح نظر آیا۔ خانہ نشینی کے اس دور میں، کہا جا سکتا ہے کہ عمومی خانہ نشینی تھی، یہاں خاندان کا رول اور خاندان کی اہمیت نظر آئی۔ جن ملکوں میں گھریلو زندگی کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں، جہاں اب ان کا صحیح تصور ہی نہیں ہے، وہاں یہ خانہ نشینی اس انداز سے نہیں ہوئی، اس طرح قابل فہم، قابل تحمل اور قابل قبول نہیں رہی۔ ہمارے یہاں گھر کے افراد ایک ساتھ جمع ہو گئے۔ خاص طور پر خاندان میں عورت کے رول پر توجہ دینا چاہئے، عورت کے صبر و تحمل، زحمت و بردباری کی گہری تاثیر اور گھر کو بہترین انداز میں چلانے کے سلسلے میں اس کے کردار پر ضرور توجہ دینا چاہئے۔

اس عظیم امتحان میں مغربی ممالک کی کئی پہلوؤں سے شکست

الف: انتظامی پہلو سے شکست

اس عالمی امتحان میں مغربی ممالک کو شکست ہوئی! یہ بہت اہم نکتہ ہے اور میری  تاکید ہے کہ یہ نکتہ نظرانداز نہ ہو ناگفتہ نہ رہ جائے۔ یہ بڑا امتحان جو ساری دنیا میں، مشرق سے مغرب تک ہر جگہ رونما ہوا مغربی ممالک کئی پہلوؤں سے ناکام ثابت ہوئے۔ سب سے پہلی شسکت انھیں انتظامی سطح پر ہوئی۔ مغربی ممالک میں، یعنی یورپی ممالک اور امریکہ میں ہمارے ملک اور بعض دیگر ممالک کے مقابلے میں تاخیر سے، کچھ ملکوں میں ایک مہینہ یا اس سے بھی زیادہ تاخیر سے یہ وبا پھیلی۔ ان کے پاس خود کو آمادہ کرنے کا موقع تھا، خود کو اس مقابلے کے لئے تیار کرنے کا موقع تھا لیکن پھر بھی وہ انسدادی اقدامات اس انداز سے نہیں کر پائے جس طرح انھیں کرنا چاہئے تھا۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد کتنی زیادہ ہے، بعض یورپی ممالک میں بھی کتنی زیادہ ہے! متاثرین کی تعداد کتنی زیادہ ہے۔ ان ممالک میں جو دولت اور دوسری بہت سی چیزوں میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں لیکن یہ ممالک عوام کی زندگی کی گوناگوں مشکلات کے سلسلے میں خواہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ ہو، بیماری میں مبتلا ہونے کا مسئلہ ہو، اسپتالوں میں جگہ نہ مل پانے کی مشکل ہو، اسپتالوں کے باہر سونے کی مجبوری کا مسئلہ ہو، بے شمار مسائل میں الجھ گئے۔ یعنی مغربی حکومتیں انتظامی توانائی اور صلاحیت کے میدان میں شکست سے دوچار ہوئیں۔

۲) سماجی طرز فکر اور فلسفے کی سطح پر شکست

سماجی طرز فکر کی سطح پر بھی انھیں شکست ہوئی۔ مغرب کا سماجی فلسفہ یعنی در حقیقت روح اور مشمولات کے اعتبار سے یہ مادہ پرست فلسفہ ہر چیز کو پیسے سے تولتا ہے۔ سن رسیدہ افراد اور بوڑھوں کے بارے میں ان کی جو سوچ ہے، ان کے ملک اور معاشرے کے لئے جو افراد کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، بیمار افراد کے بارے میں، جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں، ذہنی بیماروں کے بارے میں ان کی جو سوچ ہے وہ برملا ہو گئی۔ بعض ممالک میں اولڈ ایج ہومز کو یکسر نظر انداز کر دیا گيا اور کچھ لوگ اسی بے توجہی کے باعث ہلاک ہو گئے، یا کچھ بوڑھے افراد کو، بزرگوں کو اور جسمانی معذوروں کو ایڈمٹ ہی نہیں کیا گيا۔ اس سے مغربی ممالک پر حکمفرما سوچ اور سماجی فلسلفے کی شکست عیاں ہوتی ہے جو دعوے بہت بڑے بڑے کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں پیسہ ہی معیار ہے۔ ہر چیز کو پیسے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جب یہ صورت حال ہوگی تو ظاہر ہے کہ اس بزرگ پر کوئی کیوں توجہ دینے لگا جو معاشرے کے لئے دولت پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ سن رسیدہ بزرگ خاتون پرکوئی کیوں توجہ دینے لگا، کیوں کوئی اعتنا کرنے لگا! یہ اس سماجی فلسفے کی شکست کا شاخسانہ ہے۔

۳) عمومی اخلاقیات کی سطح پر شکست

عمومی اخلاقیات میں بھی انھیں شکست ہوئی۔ یعنی وہ سارے دعوے جو وہ کرتے ہیں اور غیر مغربی ممالک میں اور افسوس کہ خود ہمارے ملک میں بھی کچھ مغرب زدہ افراد بھی کرتے ہی، مغربی اخلاقیات کے بارے میں جو مبالغہ آرائی کرتے ہیں، وہ سارے دعوے دھرے رہ گئے۔ آپ نے خود دیکھا، اس کی ایک مثال یہی شاپنگ مالز کو خالی کر دینا ہے۔ صدر محترم نے مجھے بتایا کہ ایک یورپی ملک میں، جس کا نام بھی انھوں نے ذکر کیا البتہ میں نام نہیں لوں گا، صبح سویرے ٹرکوں سے ایک شاپنگ مال میں سامان پہنچایا گيا لیکن ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ سارا سامان صاف ہو گيا۔ عوام الناس ٹوٹ پڑتے ہیں اور سب اٹھا لے جاتے ہیں۔ کہاں لے جاتے ہیں؟ گھر کے اسٹور میں۔ در حقیقت دوسروں کی پہنچ سے دور کر دیتے ہیں۔ یہ اخلاقی انحطاط ہے۔ یہ ان ملکوں میں عمومی اخلاقیات کی پستی کی علامت ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ خود مغربی حکام اور مغرب زدہ حلقے یہ نہیں چاہتے کہ لوگوں کی توجہ اس طرف جائے لیکن ضروری ہے کہ ان چیزوں کو سامنے لایا جائے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے دیکھیں اور اس کے بارے میں آگاہ رہیں۔ قوموں کے لئے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے سلسلے میں ان چیزوں سے آگاہی ضروری ہے۔

ہیلتھ کیئر اور میڈیکل شعبے کو ترجیح

میں اپنی گفتگو ختم کر رہا ہوں۔ بس آخر میں دو باتیں اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہیلتھ کیئر اور میڈیکل شعبے کو خاص اہمیت دیجئے۔ اس چیز کی اہمیت سے وزیر محترم جناب ڈاکٹر نمکی بخوبی آگاہ ہیں۔ کیونکہ وہ کئی سال وزارت صحت کے ہیلتھ کیئر اور میڈیکل نیٹ ورک کے سربراہ رہے ہیں۔ یہ نیٹ ورک بہت اہم ہے۔ اگر کسی اور وقت یہ وائرس دوبارہ پھیلتا ہے جیسا کہ اس کے بارے میں اندازہ لگایا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں ہیلتھ کیئر اور میڈیکل نیٹ ورک کافی حد تک ملک کا یہ بوجھ سنبھال لے گا۔ موجودہ بحران میں بھی اس نیٹ ورک نے بڑی مدد کی۔ البتہ اواسط سے اس نے کام شروع کیا۔ رضاکار فورس نے بھی بڑی مدد کی۔ مختلف اداروں نے بڑا تعاون کیا۔ یہ نیٹ ورک بہت اہم ہے۔ اسے ترجیح دی جانی چاہئے۔ یہ تو رہا ایک نکتہ۔

عوام کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے مساجد اور دعا و عبادات کے مراکز کھولنے پر غور

دوسرا نکتہ در حقیقت ایک سوال ہے جس کا جواب نہیں ملا۔ یہ دعا، نماز اور عبادات کے پروگراموں سے متعلق ہے۔ میں مساجد، دعا کے مراکز وغیرہ کے بارے میں کوئی تجویز انسداد کورونا قومی کمیشن کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا۔ یعنی میں قومی کمیشن کی ماہرانہ رائے اور ماہرانہ تشخیص کا پابند ہوں، لیکن یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دعا و عبادت کا معاملہ خاص طور پر رمضان کے مہینے میں اور خصوصا شب قدر میں جو قریب ہے، عوام الناس کی ایک حتمی اور بنیادی ضرورت ہے۔ ایک اعتبار سے اس ضرورت اور مادی ضروریات میں فرق نہیں ہے، بلکہ ایک اعتبار سے تو یہ لوگوں کی مادی ضروریات سے بالاتر ہے۔ عوام کو اس چیز کی سخت ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اہم مسائل میں، اہم واقعات و حوادث میں اللہ سے توسل کریں، اس کی طرف توجہ مرکوز کریں، اس سے رابطہ برقرار کریں اور اس سے التجا کریں۔ اس بارے میں سوچنا ضروری ہے۔ ویسے میرا یہ خیال ہے کہ اگر سخت گیر ضوابط نافذ کئے گئے، لگائے گئے تو مومن اور اہل مسجد افراد دوسروں سے زیادہ ان ضوابط کی پابندی کریں گے۔ یعنی مومنین سے اگر مثال کے طور پر کہا جائے کہ روضوں کے صحن میں، مراکز میں، مساجد میں یا امام بارگاہوں میں اس خاص انداز سے جائیں، تو مجھے یقین ہے کہ یہ افراد جو اہل مسجد ہیں پوری توجہ کے ساتھ ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، میری کوئی تجویز نہیں ہے۔ کمیشن کی تحقیقاتی رائے اور جائزے کو معتبر سمجھتا ہوں، تاہم میری سفارش یہ ہے کہ ان امور کا جائزہ لینے کی ذمہ داری ان افراد کو سونپئے جنہیں دعا، توسل اور روحانی امور کی اہمیت کا حقیقی معنی میں ادراک ہو۔ ایسے افراد جائزہ لیں اور فیصلہ کریں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے میری اور تمام عوام کی ذمہ داری ہوگی کے اس کے مطابق عمل کریں۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے۔ میں صدر محترم کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، آپ تمام دوستوں کو اللہ تعالی قوت و توانائی دے، ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے گا اور آپ اس کام کو جسے آپ نے شروع کیا ہے بہترین شکل میں انجام تک پہنچائيں گے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ملت ایران کے افتخارات کی فہرست میں ایک تاریخی کارنامے کا ان شاء اللہ اضافہ ہوگا اور وہ تمام مشکلات جو اس قضیئے کے ذیل میں پیش آ رہی ہیں، جیسے مالیاتی مشکلات وغیرہ ہیں، ان شاء اللہ کارگر تدابیر کے ذریعے دور ہوں گی۔ آپ سب کا شکر گزار ہوں، اس نشست میں شرکت کے لئے بھی شکر گزار ہوں، دوستوں نے جو رپورٹیں دیں ان پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت مفید رپورٹیں تھیں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و برکاته

 ۱) اس ویڈیو کانفرنس رابطے میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے سربراہ جنرل محمد باقری، وزیر صحت ڈاکٹر سعید نمکی اور وزیر داخلہ عبد الرضا رحمانی فضلی نے رپورٹیں پیش کیں۔