رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار 23 اگست 2020 کی صبح ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے اس خطاب میں عاشورا کے واقعے کو جہاد، قربانی اور شہادت کی بلند چوٹی سے تعبیر کیا اور محرم کے عشرہ اولی اور ہفتہ حکومت کی ایک ساتھ آمد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہفتہ حکومت کے تعین کی بنیاد جہاد اور شہادت ہی ہے کیونکہ رجائی (صدر مملکت) اور با ہنر (وزیر اعظم) نے دائمی جدوجہد، سخت کوشی، مشکلات کے ہجوم اور محاصرے کے وقت سعی و کوشش، ذاتی مفادات پر توجہ سے اجتناب، عوامی حمایت بٹورنے کے لئے اپنی ساکھ بنانے کوششوں سے پرہیز جیسے اصولوں پر کاربند رہ کر خود کو عظیم ترین جزائے الہی یعنی شہادت کا حقدار بنایا۔(1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین.

السّلام علیک یا ابا عبد اللہ و علی الارواح الّتی حلّت بفنائک علیکم منّی جمیعاً سلام اللہ ابداً ما بقیت و بقی اللیل و النّہار و لا جعلہ اللہ آخر العہد منّی لزیارتکم السّلام علی الحسین و علی علیّ بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین.

واقعۂ عاشورا، راہ خدا میں جہاد، ایثار اور شہادت کے جذبے کا نقطہ کمال

جناب صدر اور محترم وزراء کی تقاریر کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ہفتۂ حکومت کے یہ ایام اس سال عشرۂ محرم کے دوران پڑے ہیں جو جہاد و شہادت کی سب سے بلند چوٹی دکھاتے ہیں۔ حقیقت میں واقعۂ عاشورا، راہ خدا میں جہاد، ایثار اور شہادت کے جذبے کے نقطہ کمال کا مظہر ہے۔ اتفاق سے اس ہفتے یعنی ہفتۂ حکومت کی مناسبت بھی جہاد اور شہادت ہی ہے، یعنی ہمارے دو عزیز شہید، شہید باہنر اور شہید رجائي وہ لوگ تھے جنھوں نے جہاد کیا اور اس جہاد کی وجہ سے ہی خداوند عالم نے انھیں جزا کے طور شہادت دی۔ یہ دونوں، جیسا کہ ہم قریب سے جانتے ہیں، انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی، صرف خدا کے لیے کام کرتے تھے، بہت زیادہ کام کرتے تھے اور صرف خدا کے لیے کرتے تھے۔ مشکلات کے محاصرے میں کام کرتے تھے اور اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے تھے، اپنی شخصیت بنانے اور لوگوں کو دکھانے کی کوشش بالکل نہیں کرتے تھے۔ یہ بڑی نمایاں اور اہم خصوصیات ہیں بنابریں اس طرح کام کرنا اور اس طرح مجاہدت کرنا یقینی طور پر خداوند عالم کی بارگاہ میں مقبول ہے اور شہادت ان کا حق تھی، ان کی جزا تھی اور ان شاء اللہ آج خداوند عالم کے قریب ان کا مقام بہت اعلی ہے۔

ہفتۂ حکومت؛ کارکردگيوں پر نظر ڈالنے، کمزور اور مضبوط پہلوؤں کی تنقید، ان کی تشریح اور لوگوں تک پہنچانے کا ایک موقع

ہفتۂ حکومت ایک قابل توجہ ہفتہ ہے، اہم ہفتہ ہے۔ یہ ہفتہ حکومت کے اراکین کی ایک سالہ خدمات پر نظر ڈالنے اور کارکردگيوں پر نظر ڈالنے، کمزور اور مضبوط پہلوؤں کی تنقید کا موقع ہے۔ دوسروں سے پہلے اور دوسروں سے زیادہ اندرونی تنقید اور حکومت کی کارکردگي کی تشریح اور اسے لوگوں تک پہنچانے کا ایک موقع ہے۔  ہر حکومت کے کچھ مضبوط اور کچھ کمزور پہلو ہوتے ہیں۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ آج صدر محترم اور محترم وزراء کے ذریعے بڑی اور اہم خبریں دی گئيں جن میں سے کئی ہمارے لیے نئی تھیں۔ ان خبروں کو پیش کرنا اور ان پر تنقید کرنا اہم ہے۔ کارنامے بھی بیان کیجیے اور مشکلات بھی بتائيے، جو کچھ کرنے میں آپ کامیاب رہے ہیں اس کا بھی ذکر کیجیے اور جو کچھ آپ کو کرنا چاہیے تھا اور آپ نہیں کر سکے، وہ بھی بتائيے۔ یہ لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔ اگر انسان اس طرح معاملے کے تمام پہلوؤں کو بیان کر سکے تو یہ لوگوں کے لیے زیادہ شیریں اور دل پذیر ہے۔ خاص طور پر عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ، جہاں تک ممکن ہو، عوام کے ساتھ براہ راست بات کیجیے۔ البتہ آج کل تو محدودیت ہے لیکن ٹی وی کے ذریعے یا عوام کے ساتھ بالمشافہ رابطوں میں ان سے وضاحت کیجیے۔ البتہ یہ کام ہمیشہ ہونا چاہیے، یہ تشریح اور وضاحت صرف ہفتۂ حکومت سے مختص نہیں ہے بلکہ اسے ہمیشہ ہونا چاہیے۔ لوگ سچی رپورٹوں سے خوش ہوتے ہیں، پرامید ہوتے ہیں اور انھیں خوشی ہوتی ہے۔

حکومت کے آخری سال کی اہمیت: (1) خدمت کا آخری موقع

اگلا نکتہ جو قابل توجہ اور اہم ہے، یہ ہے کہ آج سے حکومت کا آخری سال شروع ہو رہا ہے۔ آخری سال بہت اہم ہوتا ہے، مختلف پہلوؤں سے اہم ہے۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ آپ حضرات، جنھیں آج اپنی قوم، اپنے ملک، خدا اور اسلام کے لیے کام کرنے کی توفیق حاصل ہے، یہ جان لیجیے کہ یہ آخری موقع ہے۔ یہ ایک سال آپ کے لیے آخری موقع ہے۔  البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں آپ حضرات کو کچھ ذمہ داریاں حاصل ہوں لیکن اس خاص ذمہ داری میں، جو بہت زیادہ اہم ہے یعنی ملک کا انتظام چلانا اور وہ بھی مختلف شعبوں میں، یہ آپ کا آخری موقع ہے۔ اس آخری موقع سے جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائيے۔ ایک سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، یعنی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ایک سال تو کچھ نہیں ہوتا، جی نہیں، ایک سال کافی عرصہ ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ معمول ہے جو اب ہمارے ملک میں بھی معمول بن گيا ہے کہ ذمہ داری سنبھالتے ہی، مختلف شعبوں کے سربراہان محترم، سو دن کا ایک ٹارگیٹ معین کرتے ہیں اور کہتے ہیں ان سو دنوں میں مثال کے طور پر ہم یہ کام کریں گے۔ عوام بھی سو دن کے عرصے کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ ان سو دنوں میں اس طرح کا کام ہوا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سو دن میں بھی اہم کام کیے جا سکتے ہیں۔ ایک سال میں سو سو دن کی تین مدتیں ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ پینسٹھ دن مزید ہوتے ہیں۔ بنابریں کام کرنے کے لیے یہ عرصہ کم نہیں ہے۔

(2) اگلی حکومت کے لیے اچھی یادگار

اس کے علاوہ بعض بنیادی کاموں کو، جو شاید آپ کی حکومت میں نہ ہو پائيں، اگلی حکومت کے لیے یادگار کے طور پر چھوڑ جائيے، اگلی حکومتوں میں آپ کا اچھا نام رہے اور آپ کو شکریے کے ساتھ یاد کیا جائے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاح، یہ ایک طویل مدتی کام ہے، اہم کام ہے؛ یا بینکاری کے نظام میں اصلاح، مالیاتی نظام میں اصلاح یا آئين کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کے نفاذ کے قانون میں اصلاح، یہ سب باقی رہنے والے کام ہیں، یہ ایسے بنیادی کام ہیں جو آگے بھی باقی رہیں گے۔

(3) جن کاموں کا وعدہ کیا گيا ہے ان کی انجام دہی میں سنجیدگي

حکومت کے آخری سال میں جو چیزیں قابل توجہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام شروع کیے جا چکے ہیں، یا جن کا وعدہ کیا گيا ہے، انھیں پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ سڑکوں اور شہری ترقی کے محترم وزیر (2) نے اپنے عہدے کے خاتمے سے پہلے تک چار لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا ہے جسے جناب صدر نے چھے لاکھ کہا، یہ اور بھی بہتر ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ کم تعداد نہیں ہے۔ اتنے سارے گھر، رہائش کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی لے آئيں گے۔ اس وقت آپ دیکھیے کہ گھر کا مسئلہ ملک کے سب سے مشکل مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کام سے ایک گرہ تو کھل ہی جائے گي، ایک بڑا کام انجام پائے گا۔ یا اسی طرح وزارت توانائي کی طرف سے افتتاح ہونے والے پروجیکٹس، جن کا بحمد اللہ ہر ہفتے افتتاح ہو رہا ہے۔ ان سارے پروجیکٹس کو سال کے خاتمے تک، جیسا کہ آپ نے پروگرام بنایا ہے، پوری سنجیدگي سے انجام دینے کی کوشش کیجیے تاکہ یہ سارے کام پورے ہو جائیں۔ یہ بنیادی کام ہیں۔ یا ریفائنری بنانے کی پالیسی جس کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ اس پالیسی کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ البتہ یہ وہ پالیسی ہے جسے کافی پہلے ہی نا‌فذ ہو جانا چاہیے تھا۔ کئي برس پہلے سے، پچھلی حکومتوں کے دوران، میں ریفائنریوں کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کرتا رہا ہوں لیکن خیر اس میں تھوڑی سی تاخیر ہوئي ہے۔ اب یہ پالیسی موجود ہے۔ بہت اچھی بات ہے، اسے آگے بڑھائيے، یہ بہت اہم کام ہے اور شاید ان شاء اللہ ہم اپنے قیمتی تیل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ خود حاصل کر سکیں۔ تیل کی برآمد کا جو اضافی فائدہ ہے وہ بھی ہمیں حاصل ہو یعنی ہم خود تیل کو ریفائن کریں، اس سے ڈیزل یا پیٹرول تیار کریں اور اسے برآمد کریں، اسے برآمد کرنا بھی آسان ہے، اس کی قیمت بھی زیادہ ہے اور اس سے ملک کو ہونے والا منافع بھی کہیں زیادہ ہے۔ یا اسی طرح نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں جو اقدامات شروع کیے گئے ہیں انھیں حکومت کے آخری دن تک پوری سنجیدگي سے آگے بڑھاتے رہیے، نالج بیسڈ کمپنیوں کا قیام، ملک کے لیے ایک مبارک اقدام ہے۔ اسی طرح حفظان صحت کے نظام سے متعلق اقدامات، خاص طور پر کورونا کی روک تھام اور اس سے مقابلے کے لیے بحمد اللہ بہت ہی اہم کام، بڑے اچھے مینیجمینٹ کے ساتھ انجام پائے ہیں، انھیں جاری رکھیے اور پوری سنجیدگي سے آگے بڑھاتے رہیے۔ ان میں سے بعض کام، جیسا کہ اشارہ کیا گيا، باقی رہنے والے کام ہیں، جیسے دواؤں کی تیاری یا اس جیسے دوسرے کام، یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ زرعی پیداوار میں ا‌ضافے کا مسئلہ بھی، جس کا وعدہ کیا گيا ہے، بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس میدان میں کچھ کام کیے گئے ہیں جو حکومت کی کامیابیوں اور کارناموں میں شامل ہیں، انھیں اس آخری سال میں جہاں تک ممکن ہو پوری سنجیدگي سے آگے بڑھائيے۔ خاص طور پر کورونا کے سلسلے میں جو سائنسی کام ہو رہے ہیں انھیں پوری لگن کے ساتھ سال کے آخر تک جاری رہنا چاہیے۔ بنابریں حکومت کا آخری سال بہت اہم سال ہے اور کسی بھی صورت میں اسے اضافی وقت کی حیثیت سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

ملک کے معاشی مسائل کے بارے میں کچھ جملے:

جناب صدر اور دیگر حضرات نے جو رپورٹیں پیش کی ہیں وہ زیادہ تر ملک کے معاشی مسائل کے بارے میں تھیں، میں بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور امید ہے ان پر توجہ دی جائے گي۔

(1) پیداوار؛ روزگار، افراط زر میں کمی اور قومی کرنسی کی قدر بڑھانے کی اصل کنجی

سب سے پہلے پیداوار کا موضوع۔ ہم نے بھی اشارہ کیا اور دوستوں نے بھی کہا کہ روزگار، معیشت، افراط زر میں کمی اور قومی کرنسی کی قدر بڑھانے کی اصل کنجی، پیداوار ہے۔ پیداوار حقیقت میں ان سب کی ماں ہے۔ پیداوار کے سلسلے میں ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، ہمیں کرنا چاہیے۔ ان کچھ برسوں میں ہم نے کئي بار اشارہ کیا ہے اور اس سال کا نعرہ بھی "پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت" ہے۔ اس وقت جو بات میں خصوصیت سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پیداوار میں کچھ رکاوٹیں ہوتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ انسان بڑی آسانی سے پیداوار میں اضافے یا ہمارے بقول پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت کی جانب چلا جائے، رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں کی طرف جائیے، انھیں دور کیجیے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچیں کہ رکاوٹیں تو ہمارے اختیار میں نہیں ہیں، مثال کے طور پر ہم پر غیر ملکی پابندی ہے؛ جی ہاں! بعض رکاوٹیں ایسی ہیں اور ہمارے اختیار میں نہیں ہیں، جیسے ہمارے تیل کے پیسوں کو روک رکھنا، ہمارے وسائل کو سیل کر دینا، ہمارے تیل کی فروخت کو روک دینا، ہماری درآمدات میں رکاوٹ ڈالنا، ہمیں گاڑیوں کی ضرورت ہے، پرزوں کی ضرورت ہے، یہ سب چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہیں لیکن بہت سی رکاوٹیں ایسی بھی ہیں جو ملک کے اندر ہیں اور یہ پیداوار اور پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت کی راہ میں سنجیدہ رکاوٹیں ہیں، انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ میں ان میں سے بعض کا ذکر کروں گا۔

پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت کی رکاوٹیں:

 (الف) بے تحاشا درآمدات

ایک مسئلہ بے تحاشا درآمدات کا ہے جس کے بارے میں ہم نے بارہا بات کی ہے۔ پیداوار کرنے والے مسلسل خط لکھتے ہیں، شکایت کرتے ہیں، آ کر کہتے ہیں، ان میں سے بعض سے ٹی وی پر انٹرویو کیا جاتا ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایک کارخانہ ہے، ملک کی ضرورت کے ایک سامان کی پیداوار کرتا ہے اور اسے اندرون ملک خریداروں کو فروخت کرنا چاہتا ہے، بہت سے مواقع پر خریدار خود حکومت ہوتی ہے، اب وہ دیکھتا ہے کہ یہی سامان باہر سے درآمد کیا جا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ زیادہ اچھی کوالٹی کے ساتھ یا پھر کم قیمت میں لیکن یہ اس پیداوار کرنے والے کے دیوالیہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ بے تحاشا درآمدات بہت خطرناک چیز ہے۔ کبھی کبھی یہ درآمدات لگژری چیزوں کی ہوتی ہے، یعنی جس کی کوئي ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں نے سنا کہ گزشتہ سال امریکا سے ایک مہنگے سیل فون کی درآمدات کے لیے تقریبا پچاس کروڑ ڈالر، جیسا کہ ہمیں رپورٹ دی گئي، خرچ کیے گئے ہیں! البتہ یہ کام پرائیویٹ سیکٹر کرتا ہے لیکن حکومت کو اسے روکنا چاہیے۔ یہ ایک رکاوٹ ہے۔

(ب) اسمگلنگ کا مسئلہ

ایک دوسری رکاوٹ اسمگلنگ سے متعلق ہے۔ اسمگلنگ کو روکنا خود ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے انسان دوسرے سے توقع نہیں رکھ سکتا۔ ملک کے سبھی اداروں کو، جن میں مجریہ سے متعلق ادارے، عدلیہ سے متعلق ادارے اور مسلح افواج سے متعلق ادارے شامل ہیں، ایک دوسرے کے تعاون سے پوری سنجیدگي سے اسمگلنگ کو روکنا چاہیے۔ اسمگلنگ کے اعداد و شمار دہلا دینے والے ہیں۔ اپریل میں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں جو تحقیقاتی رپورٹ پڑھی گئي اس میں بتایا گيا ہے کہ اسمگلنگ کی رقم سوا پانچ ارب ڈالر ہے! یہ بہت بڑی رقم ہے۔ یہ بات پارلیمنٹ کی تحقیق و تفتیش کی رپورٹ سے متعلق ہے۔

(ج) پرزے بنانے کی مشکلات

ایک اور رکاوٹ پرزوں کی ہے جس کے بارے میں ہم سے بار بار کہا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ فلاں گاڑی یا فلاں مشین کا فلاں پرزہ نہیں ہے، ہمیں نہیں دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں پرزے بنانے کی تحریک ہے جو بحمد اللہ چل پڑی ہے، کئي سال ہو گئے ہیں کہ مسلح افواج کے اداروں کی طرف سے، وزارت دفاع کی طرف سے اور کئي دیگر اداروں کی طرف سے پرزے بنانے کی تحریک جاری ہے۔ ٹھیک ہے آپ اپنی ضرورت کے پرزے بنانے کے آرڈر ان مراکز کو دیجیے جو پرزے بنا رہے ہیں، پرزوں کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں تاکہ وہ آپ کے لیے وہ پرزے تیار کریں اور وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ میں عرض کروں کہ ہم بحمد اللہ بہت ہی اچھے اور پیچیدہ پرزے بنانے میں کامیاب رہے ہیں، مسلح افواج میں بعض ایسے پرزے بھی تیار کیے گئے ہیں جن کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاتا تھا کہ تیار ہو پائيں گے۔ پرزے بنانے کی اس تحریک سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔

(د) ذیلی اداروں میں عدم ہماہنگي

ایک اور رکاوٹ بعض ذیلی اداروں میں پائي جانے والی عدم ہماہنگي ہے۔ محترم وزراء اعلی سطح پر ہماہنگي رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون سے کام کر رہے ہیں جن میں سے بعض کی رپورٹ آج دی گئي لیکن ذیلی اور نچلے اداروں میں بہت عجیب و غریب عدم ہماہنگي پائي جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ مثال کے طور پر اس ٹی وی رپورٹ میں اسٹیل کا ایک صارف شکایت کرتا ہے کہ مجھے اسٹیل کی شیٹس نہیں دیتے، اس کی ضرورت ہے، اسٹیل کی شیٹس ملک کے اندر ہی تیار ہوتی ہیں، اچھی کوالٹی کی تیار ہوتی ہیں۔ یہ ایک ذیلی اور نچلے سیکٹر میں فولاد کی پیداوار کرنے والا ہے، مثال کے طور پر گھریلو سامان کی پیداوار ہوتی ہے، اسے اسٹیل کی ضرورت ہے۔ یا اسی طرح پیٹرو کیمیکل مواد کا صارف، بہت سے ذیلی کارخانے ہیں جنھیں پیٹروکیمیکل مواد کی ضرورت ہے، یہ آ کر کہتے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بيچے نہیں جا رہے ہیں یا پھر مہنگے بیچے جا رہے یا مشکل سے بيچے جا رہے ہیں۔ اب آپ فرض کیجیے کہ ٹی وی کی خبروں میں اسے نشر کیا جاتا ہے، ہم سنتے رہتے ہیں، خبر تو عام طور پر سبھی سنتے ہیں، میری نظر میں جو وزیر یہ خبر سنتا ہے، اسے اسی رات اس ادارے سے رابطہ کرنا چاہیے جس کے سلسلے میں شکایت کی جا رہی ہے، ٹیلی فون کرنا چاہیے، اگلے دن ملنے کا وقت دینا چاہیے تاکہ شام تک مشکل برطرف ہو جائے، اس طرح حقیقت میں پیداوار کی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ البتہ بعض مشکلات زیادہ پیچیدہ ہیں، صبح سے شام تک کی بات نہیں ہے، مجھے اجرائي مسائل کی کسی حد تک خبر ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو ایک یا دوگھنٹے کی نشست سے برطرف ہو جائيں گے۔ بنابریں پیداوار کی رکاوٹوں کو برطرف کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایک بات ہے۔

(ہ) لائسنس یا پرمٹ دینے میں ادارہ جاتی پيچ و خم

ایک اور بات جو پیداوار کی رکاوٹوں میں سے ہے اور حضرات نے جو رپورٹیں دی ہیں، ان میں بھی اس کا تذکرہ ہے، لائسنس یا پرمٹ دینے کا مسئلہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب لائسنس دینے میں لگنے والا وقت کم ہوا ہے جو بہت اہم بات ہے۔ لائسنس یا پرمٹ کے بڑے عجیب و غریب ادارہ جاتی پیچ و خم ہیں۔ بتایا گيا کہ بہتّر دن لیکن بعض جگہوں پر بہتر دنوں سے کہیں زیادہ وقت لگتا تھا۔ اس سلسلے میں کام ہونا چاہیے، میری نظر میں بینکنگ سہولیات اور اسی طرح کی چیزوں میں زیادہ توجہ رکاوٹوں کو دور کرنے پر دی جانی چاہیے۔

(و) خام مال کی برآمدات یا تھوک میں کی جانے والی برآمدات

پیداوار کے سلسلے میں، میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو اس مسئلے سے غیر متعلق نہیں ہے اور وہ ہے خام مال کی برآمدات یا تھوک میں کی جانے والی برآمدات جس کی ایک مثال تیل کے سلسلے میں میں نے پہلے عرض کی تھی۔ ہماری ایک مشکل یہ ہے کہ ہم خام مال کو بغیر پروسیسنگ کے اور اس کی افزودہ قدر کو اپنے ملک کے لیے، اپنے سرمایہ کار کے لیے اور اپنے مزدور کے لیے فراہم کیے بغیر دوسرے ملک بھیج دیتے ہیں۔ ہمارے قیمتی معدنی پتھر باہر جاتے ہیں، وہاں ان کی پروسیسنگ ہوتی ہے اور پھر وہ بیچے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ پتھر جسے ہم نے خام صورت میں دیا تھا، دوبارہ کئي گنا قیمت کے ساتھ ملک میں لایا جاتا ہے! میں نے بارہا کانوں کے بارے میں، انھی قیمتی پتھروں کے بارے میں جو ہمارے ملک میں ہیں اور بعض کے بارے میں تو میں نے سنا ہے کہ وہ بہت نادر ہیں، تاکید کی ہے۔ یا فرض کیجیے کہ جزیرۂ ہرمز کی مٹی، جنوبی خراسان کا زعفران، گرم علاقوں کی کھجور۔ ایران کی کھجوریں واقعی بے مثال ہیں۔ کچھ سال قبل ایک عرب ملک سے کھجور کا ایک پیکٹ ہمارے لیے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ میں نے وہ اس وقت کی کابینہ کو دکھایا تھا، دنیا کی بہترین کھجوریں ایران میں ہوتی ہیں اور ایران کھجوروں کا مرکز ہے اور وہ ہمیں کھجور تحفے کے طور پر بھیج رہے ہیں۔ البتہ اس کا پیکٹ انتہائي خوبصورت اور پرکشش تھا جبکہ ہمارے یہاں کھجور کی چھال میں یا معمولی پیکٹ میں بیچتے ہیں، خیر اس وقت تو پیکٹ کچھ بہتر ہو گئے ہیں لیکن اس پر مزید کام کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی اہم ہے۔ کچھ دن قبل ٹی وی پر دھنیے کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ اسے تھوک کے حساب سے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے اور پروسیسنگ کے بعد کئی گنا زیادہ قیمت میں دنیا میں بیچا جاتا ہے۔ تو پیداوار کے مسائل کے بارے میں ہم جو باتیں عرض کرنا چاہتے تھے ان میں سے ایک پیداوار کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے اور رکاوٹیں یہ ہیں جو میں نے عرض کیں۔

پیداوار کی رکاوٹوں کے سلسلے میں ورکنگ گروپ کی تشکیل کی ضرورت

میں پہلے ہی تجویز دے چکا ہوں کہ پیداوار کی رکاوٹوں کی شناخت اور ان رکاوٹوں کو برطرف کرنے کے لیے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل ہونی چاہیے اور وہ بھی تینوں اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کی طرف سے کیونکہ یہ مسئلہ تینوں اداروں سے متعلق ہے اور تینوں اداروں کے سربراہوں نے اسے تسلیم کیا اور کہا تھا کہ یہ اچھا کام ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ ورکنگ گروپ تشکیل پایا یا نہیں، اگر نہیں بنا ہے تو بہت اچھا ہوگا کہ اسے تشکیل دیا جائے اور یہ دن رات کام کرے اور ان شاء اللہ پیداوار کی رکاوٹوں کو دور کرے کیونکہ معیشت کے شعبے میں پیداوار ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔

(2) سرمایہ کاری کا اہتمام

دوسرا موضوع جو میں معاشی مسائل کے سلسلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں، اور یہ بھی ایک طرح سے پیداوار سے ہی متعلق ہے، سرمایہ کاری کا مسئلہ ہے۔ معاشی رونق، پیداوار میں اضافے اور پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت کے لیے سرمایہ کاری ایک بہت ہی اہم موضوع ہے۔ بنیادی کام، سرمایہ کاری ہے۔ ہمارے ملک میں برسوں سے سرمایہ کاری میں رکاوٹیں آ رہی ہیں، ضروری سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں جو کام ہونا چاہیے وہ سرمایہ کاری کے لیے خاص اہتمام ہے۔ جو چیز میرے ذہن میں، رپورٹوں میں ہے اور ہمیں بتایا بھی گيا ہے، وہ یہ ہے کہ میرے خیال میں ہم سرمایہ کاری کے لحاظ سے تقریبا دس سال پیچھے ہیں، کمزور ہیں۔ اس سلسلے میں چند ضروری کام کیے جانے چاہیے:

(الف) ادھوری سرمایہ کاری کی تکمیل

سب سے پہلے تو یہ کہ ایک ابتدائي اور بنیادی کام، جو بہت ضروری ہے، یہ ہے کہ ہم نے بعض شعبوں میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کی ہے جو یا تو پوری نہیں ہوئی ہے، یا ادھوری رہ گئي ہے یا پھر بڑی دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم اس سرمائے کو زندہ کریں یعنی اس سرمایہ کاری کو مکمل کریں کیونکہ جب سرمایہ کاری ادھوری رہ جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی، قوم کی اور حکومت کی جیب سے کوئی رقم کسی جگہ لگائي گئي ہے لیکن اس کا نتیجہ نہیں مل رہا ہے۔ اسے نتیجہ خیز بنانا چاہیے تاکہ عوام اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ملک میں سرمایہ کاری کا کوئي بھی بڑا پروجیکٹ یوں ہی پڑا نہیں رہنا چاہیے اور یہ پہلے مرحلے میں پروگرام اور بجٹ کے ادارے کی ذمہ داری ہے اور بعد کے مرحلوں میں دیگر اداروں کی۔

 (ب) سرمایہ کاری کے لیے ترغیب

دوسری بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دلائيے کیونکہ سرمایہ کاری عام طور پر نجی سیکٹر کے ذریعے ہونی چاہیے۔ حکومت صرف وہیں سرمایہ کاری کرتی ہے جہاں نجی سیکٹر یا تو سرمایہ کاری نہیں کر سکتا، یا سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتا یا اس کے لیے اس میں کوئي خاص فائدہ نہیں ہے۔ آج نجی سیکٹر کے پاس بھی کافی وسائل ہیں یعنی آج ملک میں پیسے کم نہیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں لکویڈٹی کی صورتحال اور اس کے کئي گنا زیادہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، بنابریں پیسے ہیں، سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دلانا چاہیے۔ ترغیب دلانے کے بھی بہت سے راستے ہیں، ایسے راستے ہیں جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں: ٹیکس کی مشکلات برطرف کی جائيں، لائسنس اور پرمٹ کی مشکلات دور کی جائيں، بینکنگ سہولیات کی مشکلات ختم کی جائيں، یہ سب ایسے کام ہیں جو سب کو آتے ہیں لیکن اس کے لیے بیٹھیے، اہتمام کیجیے، ان شاء اللہ سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دلاتے رہیے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

(ج) لکویڈٹی کو پیداوار کی سمت لے جانا

لکویڈٹی کے مسئلے کو میں ایک بار پہلے بھی ایک عمومی مرکز(3) میں بیان کر چکا ہوں جبکہ حکام سے انفرادی طور پر بارہا یہ بات کہی گئي ہے کہ لکویڈٹی کو پیداوار کی سمت میں لے جائيے۔ البتہ میں نے دو سال قبل اسی کابینہ کے اجلاس میں اور ہفتۂ حکومت میں کہا تھا کہ دن رات کام کرنے والی ایک ماہر ٹیم کا تعین کیجیے جو بیٹھ کر لکویڈٹی کے مینجمنٹ کی راہوں کو تلاش کرے(4)۔ موجود لکویڈٹی کا مینجمنٹ ہونا چاہیے اور اسے پیداوار کی سمت بڑھایا جانا چاہیے، یہ آسان کام نہیں ہے، سخت کام ہے، اس کے لیے خصوصی راہوں کی ضرورت ہے، میں نے کہا تھا کہ ایک ٹیم بیٹھے اور اس کام کو انجام دے۔ پتہ نہیں یہ ٹیم تشکیل پائي یا نہیں، بہرحال اگر یہ ٹیم نہیں بنی ہے تو اب بھی وقت باقی ہے اور ان شاء اللہ یہ کام انجام پائے یہاں تک کہ ملک کی لکویڈٹی معیشت کے صحیح حصے کی طرف بڑھنے لگے اور پیداوار تک پہنچ جائے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

(د) قومی کرنسی کی قدر کی تقویت

معیشت کے شعبے سے متعلق تیسری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ قومی کرنسی کی قدر سے متعلق ہے اور یہ بھی پچھلی باتوں سے غیر مربوط نہیں ہے۔ البتہ قومی کرنسی کی قدر اصولی طور پر ایک ایسی چیز ہے جو ملک کی پیداوار میں اضافے، ملک کی پیشرفت، معاشی پیشرفت اور ملک کے اقتصادی ڈھانچے کی مضبوطی سے متعلق ہے، زیادہ تر تو یہی چیزیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی کچھ دوسری چیزیں بھی ہیں۔ البتہ اگر ہم پیداوار کو مضبوط بنائيں تو قومی کرنسی اپنے آپ مضبوط ہو جائے گي، اگر ہم اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنائيں گے تو قومی کرنسی اپنے آپ ہی مضبوط ہو جائے گي اور قومی کرنسی کی تقویت عوام کی معیشت پر غیر معمولی اثر ڈالتی ہے، عوام کی معیشت پر براہ راست اثر ڈالتی ہے لیکن ان طویل المدت کاموں کے ساتھ ہی، کیونکہ اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا قلیل المدت کام نہیں ہے، کچھ قلیل المدت کام بھی ہیں۔

ایک اور بات یہ کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زر مبادلہ کے کام میں بدنیتی سے مداخلت ہو رہی ہے اور یہ بات قومی کرنسی کی قیمت اور اس کی قدر پر اثر ڈالتی ہے۔ کبھی مداخلت بدنیتی کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی بدنیتی کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ فائدہ اٹھانے کے لیے ہوتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ برآمدات کی رقم میں سے ستائیس ارب ڈالر واپس نہیں آئے ہیں۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ البتہ کبھی ان پیسوں کا واپس نہ آنا بعض منطقی اسباب کی بنا پر ہوتا ہے لیکن کبھی اس لیے ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ اس پیسے کو، اس زر مبادلہ کو ان صاحب نے لے جا کر فلاں ملک میں زمین خرید لی ہے، جائیداد خرید لی ہے یا اسی طرح کے دوسرے کام کیے ہیں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بعض رپورٹیں ہیں کہ ہمارے ایک پڑوسی ملک میں سب سے زیادہ زمین ایرانیوں نے خریدی ہے، جائیداد خریدی ہے، یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یا اگر اس پیسے کو غیر ضروری یا لگژری اور پوری طرح سے غیر سود مند اشیاء کی درآمد کے لیے خرچ کریں، جس کا ایک نمونہ میں نے عرض کیا کہ ایک مہنگا سیل فون امریکا سے پچاس کروڑ یورو میں لایا گيا، اس کام کے لیے پچاس کروڑ یورو خرچ کیا جائے، مجھے تو اس پر بھی تعجب ہوتا ہے کہ وہ لوگ ہم پر اتنی پابندیاں لگاتے ہیں، اس چیز میں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں میں ہم پر پابندی نہیں ہے، یہ سب ایسے کام ہیں جو قابل قبول نہیں ہیں۔ ایک یہ ہے، دوسرا بعض اداروں کی طرف سے کیے جانے والے غیر سنجیدہ فیصلے ہیں۔ البتہ بحمد اللہ رزرو بینک نے اس سلسلے میں اچھا کام کیا ہے اور وہ ان پر نظر رکھ رہا ہے اور سبھی کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں تمام حکومتی اداروں کو رزرو بینک کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ پیسے، کرنسی، زر مبادلہ، کرنسی کی قدر میں کمی اور اضافے کا معاملہ، اس کی پالیسیوں سے مربوط ہے، لہذا سبھی کو مدد کرنی چاہیے تاکہ رزرو بینک اپنا کام کر سکے۔ بحمد اللہ اس سلسلے میں اچھا کام ہو رہا ہے۔

ڈیٹا بیس سسٹم شروع کرنے کی ضرورت

یہاں ایک بات جو ہم سے کہی گئی اور میں نے بھی کئي بار بعض متعلقہ عہدیداروں سے یہی بات کہی ہے، ڈیٹا بیس سسٹمز شروع کرنے کی ہے۔ ان سسٹمز کو رو بہ عمل لانے کی بات کافی عرصے اور کئي سال پہلے منظور ہو چکی ہے، ان میں سے بعض نے کام کرنا شروع بھی کر دیا ہے لیکن بعض ابھی تک شروع نہیں ہوئے ہیں۔ ڈیٹا بیس سسٹمز کو شروع کرنے اور انھیں ایک دوسرے سے جوڑنے سے حکومت کو اس بات میں مدد ملتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری معلومات حاصل کر سکے۔ یہ چیز بھی، لائسنس اور پرمٹ دینے، سرمایہ کاری، ٹیکس، اشیاء اور زر مبادلہ کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سسٹمز کی طرح ہی اہم ہے اور جس ڈھانچے کی بھی آپ اصلاح کرنا چاہیں گے، اس کے لیے یہ سسٹمز ضروری ہیں، اس کے علاوہ یہ مسلسل آپ کی مدد کر ہی رہے ہیں۔

-4 اقتصادی مسائل کے سلسلے میں ایک اور موضوع ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے اور جو اس سلسلے کی میری بحث کا آخری موضوع ہے، وہ موضوع یہ ہے کہ ملک کے اقتصادی معاملات کو بیرونی تغیرات سے ہرگز نہیں جوڑنا چاہئے۔ یعنی آپ اقتصادی منصوبہ بندی کو ہرگز اس بات پر موقوف نہ رکھئے کہ پابندیاں ہٹ جائیں گی یا کم ہو جائیں گی۔ بالکل نہیں، آپ یہ مان کر کام کیجئے کہ پابندیاں ابھی دس سال جاری رہیں گی۔ اقتصادی منصوبہ بندی داخلی وسائل اور جیسا کہ میں نے بارہا عرض کیا ہے، داخلی طور پر پروان چڑھنے والے وسائل اور داخلی صلاحیتوں کی بنیاد پر انجام پانا چاہئے۔ یہ درست نہیں ہے کہ مثلا ہم سوچیں کہ اگر فلاں ملک کے الیکشن کا نتیجہ یہ ہوا تو یہ  کریں گے۔ بالکل نہیں۔ وہاں کے الیکشن کا جو بھی نتیجہ ہو۔ ہمیں ملک کی اقتصادی منصوبہ بندی ملک کے داخلی مسائل کی بنیاد پر، ہمارے اپنے وسائل کی بنیاد پر انجام دینا چاہئے۔ واقعی یہ اسٹریٹیجک غلطی ہے کہ ہم اپنے اقتصادی امور کو بیرونی تغیرات پر منحصر رکھیں۔ بیرونی مسائل پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ جیسا چاہیں فیصلہ کریں۔ ممکن ہے وہ کسی دن اچھا فیصلہ کریں اور ممکن ہے کہ کبھی اچھا فیصلہ نہ کریں۔ اگر اچھا فیصلہ کیا تو ہم اس سے استفادہ کریں گے لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنے اقتصادی پروگرام کو ان کے فیصلوں پر منحصر کر دیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

سائیبر اسپیس کی اہمیت اور نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک کی تشکیل کی ضرورت

ملک میں دوسرے بھی کچھ اہم مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ جس پر میں ہمیشہ تاکید کرتا ہوں ورچوئل اسپیس کا مسئلہ ہے۔ ورچوئل اسپیس بہت اہم ہے۔ جو لوگ ورچوئل اسپیس کے سلسلے میں اہل نظر ہیں وہ کبھی کہتے ہیں کہ یہ عوام کی اصلی زندگی کا حصہ بن گيا ہے۔ ہم بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔ اس وقت واقعی ورچوئل اسپیس عوام کی حقیقی زندگی کا ایک حصہ بن گيا ہے۔ الیکٹرانک گورننس وغیرہ جیسی چیزیں تو اپنی جگہ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن مجھے جو عرض کرنا ہے اور جس چیز پر میری تاکید ہے یہ ہے کہ ورچوئل اسپیس ہمارے کنٹرول میں نہیں بلکہ بیرون ملک سے اسے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ بحث کا نکتہ یہی ہے۔ ورچوئل اسپیس ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان بہتے ہوئے پانی کی طرح اسے جیسے چاہے استعمال کرے۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اس پانی کو اپنی مرضی کے مطابق خاص سمت میں موڑ دیتے ہیں۔ وہ اس پوری فضا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ دوسرے افراد باہر سے ورچوئل اسپیس کو جس سے ہمارا بھی ربط ہے  اور جس میں ہم بھی مبتلا ہیں، باہر سے کنٹرول کر رہے ہیں تو ہم یونہی اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم اپنے عوام کو جو ورچوئل اسپیس سے ربط رکھتے ہیں یونہی نہیں چھوڑ سکتے، اس فضا کو پردے کے پیچھے سے کنٹرول کرنے والے خاص شخص کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ دنیا کے تسلط پسند عناصر اس فضا پر بری طرح مسلط ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ خبریں دینے کے اعتبار سے، اطلاع رسانی کے اعتبار سے، تجزیوں اور دوسری گوناگوں چیزوں کے اعتبار سے ہزاروں کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ اسی لئے میں نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک پر اس قدر تاکید کر رہا ہوں۔ ورچوئل اسپیس سپریم کونسل اور ورچوئل اسپیس نیشنل سینٹر کی جو ہم نے تشکیل کی اور میرا اصرار تھا اور آج بھی ہے کہ اس کونسل کا اجلاس ہو اور اس میں محترم سربراہان شرکت کریں، فیصلے کریں اور ان پر عملدرآمد ہو، تو اس کی وجہ اس مسئلے کی یہی اہمیت ہے۔ ہم اس مسئلے کو یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس پر بخوبی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک کے کچھ حصے ہیں معین ٹائم فریم کے مطابق اس پر عمل ہونا چاہئے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ معینہ ٹائم فریم سے ہم پیچھے چل رہے ہیں۔ یا براڈ بینڈ کے بارے میں اصولی پالیسیاں موجود ہیں جن کا نوٹیفکیشن بار بار جاری کیا جاتا ہے، ان پالیسیوں پرعمل ہونا چاہئے۔ یہ ہمارا مطالبہ اور تاکید ہے۔

اسلامی جمہوری نظام کے اندر رہ کر خدمت کی انجام دہی گراں قدر ہے

ایک نکتہ جس کا اقتصادی مسائل وغیرہ سے کوئی رطب نہیں لیکن میری نظر میں بہت اہم ہے اور آج کی گفتگو کا یہ آخری نکتہ ہے جو میں محترم حاضرین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میری مراد صرف مجریہ نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام عہدیداران اور کارکنان ہیں خواہ ان کا تعلق مجریہ سے ہو، یا عدلیہ سے ہو یا پارلیمنٹ سے ہو یا پھر دوسرے گوناگوں شعبوں سے ہو جو ان تینوں شعبوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ عزیزو! اس نظام کے اندر خدمت کی قدر و منزلت کو سمجھئے! اس نظام کے اندر رہ کر خدمت کرنا بہت اہم ہے۔ بے شک کہیں بھی خدمت کرنے کی اہمیت ہوتی ہے، کوئی بھی مسلمان اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی سطح پر لوگوں کی خدمت کر رہا ہے، انسانوں کی خدمت کر رہا ہے، انسانیت کی خدمت انجام دے رہا ہے تو اس کا یقینا ثواب ہے، بڑی ارزش ہے، ان شاء اللہ خداوند عالم اسے اس کا اجر دے گا لیکن اسلامی جمہوریہ میں صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں خدمت کے سلسلے میں اس نکتے کے علاوہ بھی ایک اور اہم نکتہ ہے اور وہ یہ کہ آپ کی خدمت، آپ کا عمل اور آپ کا کام معاشرہ سازی اور معاشرے کے انتظام و انصرام کے اسلامی نمونے کی رونمائی میں بھی مددگار ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

مغربی تمدن کے تحت پیدا ہونے والے نمونے اور سرمایہ دارانہ نظام کی شکست

مغربی تمدن نے انتظام و انصرام، معاشرے کی تشکیل، نظام کی تشکیل اور حکومت کے سلسلے میں کچھ نمونے تیار کئے، کمیونزم نے اپنے انداز سے کئے۔ سوشلزم اور کمیونزم نے اسی طرح سوشلزم کی مختلف شکلوں کے مکاتب فکر نے جو مختلف حکومتوں کی دین ہیں، اپنے اپنے انداز سے، سرمایہ دارانہ نظام اور لبرلزم وغیرہ نے اپنے انداز سے، یہ سب مغرب کے نظریات ہیں اور یہ شکست خوردہ نظریات ہیں۔ آج مغربی تمدن کے یہ مکاتب فکر معاشرے  کے انتظام و انصرام میں ناکام ہو چکے ہیں۔ وہ نظریہ (کمیونزم) تو ختم ہو گيا جبکہ اس نظرئے (سرمایہ دارانہ نظام) کی بساط اور اس کا بڑا مرکز آشوب اور نراجیت کی زد میں ہے جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی فلک بوس چوٹی امریکہ ہے جس کی حالت آپ کی نظر کے سامنے ہے۔ یہ واقعی ایک شکست خوردہ نمونے کی تصویر ہے۔ انسانی اقدار ہر جگہ سے زیادہ امریکہ میں پامال کئے جا رہے ہیں۔ ان حکومتی نظاموں کی مدد سے انھیں انسانی اقدار کا احیاء کرنا ممکن نہیں ہے، دینی اقدار کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے، روحانی اقدار پر تو ان کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے، ان کی ضرورت کا انھیں احساس تک نہیں ہے، یہ سارے اقدار تو اپنی جگہ ہیں، انسانی قدار، ایسے اقدار جنھیں عقل انسانی سمجھ سکتی ہے، یعنی امن و سلامتی کا مسئلہ، صحت و سلامتی کا مسئلہ، انصاف کا مسئلہ، مغرب کے ان مسلط کردہ فکری نظاموں میں یہ اقدار ہر جگہ سے زیادہ پامال کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں جرائم ساری دنیا سے زیادہ ہیں۔ یہ بات وہ خود کہہ رہے ہیں، اس کے اعداد و شمار وہ خود دے رہے ہیں۔ امریکہ میں مختلف طبقوں کے درمیان فاصلہ خوفناک حد تک بڑھ گيا ہے۔ امریکہ ایک دولتمند ملک ہے لیکن اس دولت کا بیشتر حصہ مٹھی بھر افراد کے قبضے میں ہے، واقعی معدودے چند افراد کے ہاتھ میں ہے۔ اس سرمائے کا بیشتر حصہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ میں بھکمری کے شکار، بے سہارا اور بے گھر افراد کی تعداد دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ البتہ افریقا کے بہت زیادہ غریب ممالک میرے مد نظر نہیں ہیں، میں دنیا کے عام ممالک کی بات کر رہا ہوں، ان میں خواہ وہ ممالک ہوں جنہیں پیشرفتہ ممالک کہا جاتا ہے یا وہ ممالک جنھیں ترقی پذیر کہا جاتا ہے، ان سب کے مقابلے میں امریکہ میں بے گھر افراد، غریب افراد اور بے سہارا افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ انتخابی معرکہ آرائی کے دوران حریف امیدواروں نے جو باتیں صریحی طور پر کہی ہیں ان کے مطابق ہر پانچواں امریکی بھکمری کا شکار ہے۔ واقعی دنیا میں اس کی مثالیں بہت کم ہیں۔

مغرب زدہ افراد کے آئيڈیل معاشرے میں بڑے پیمانے پر فکری انحطاط

امریکہ کے شہروں میں پھیلی بدامنی کی دنیا میں بہت کم مثالیں ملیں گی۔ یعنی واقعی سڑک پر نکلنے والے نوجوان کو یقین نہیں ہے کہ کوئی شخص، کوئی دیوانہ، کوئی نشے میں ڈوبا شخص، کوئی نفسیاتی بیمار اس پر بندوق نہیں تانے گا اور اسے تنہا یا چند دیگر افراد کے ساتھ ہلاک نہیں کر دے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ میں جرائم کے اعداد و شمار کتنے حیرت انگیز ہیں۔ ان کی شدت اور تیزی سے اضافے کو دیکھ کر انسان چکرا جائے! یہ چیزیں امریکہ کے داخلی حالات سے مربوط ہیں۔ جبکہ امریکہ کے داخلی مسائل و مشکلات اور امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے انتظامی مسائل و مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کی کافی تفیصلات ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ دنیا میں جو کر رہا ہے وہ قتل و غارت، جنگ افروزی، بد امنی پھیلانا وغیرہ جیسے اقدامات ہیں جو امریکہ کے معمولات کا حصہ ہیں۔ آج آپ شام میں، فلسطین میں، یمن میں دیکھئے تو امریکہ کی مداخلت صاف نظر آئے گی۔ آج ان ملکوں میں ہے اور کل عراق میں اور افغانستان میں تھی، بعض ممالک میں آج بھی جاری ہے۔ ان ملکوں سے پہلے ویتنام میں، اس سے پیش تر ہیروشیما میں۔ ہر جگہ ساری دنیا میں انسان امریکہ اور مغرب کے جرائم کو بہت واضح طور پر دیکھ سکتا ہے مغربی ممالک میں بنیادی طور پر امریکہ اس میں ملوث ہے۔ آپ دیکھئے کہ کون سے افراد نے کس قسم کے لوگوں کو امریکہ میں سب سے اہم عہدہ دلوا دیا اور دنیا کو دکھا رہے ہیں، البتہ دنیا نے اسے مسترد کر دیا اور اس شخص  کی تحقیر  کر رہی ہے! مغرب زدہ افراد کا آئیڈیل معاشرہ یہی ہے۔ یہی وہ یوٹوپیا ہے جسے ہمارے ملک کے اندر کچھ مغرب زدہ افراد اور دیگر ممالک کے مغرب زدہ افراد آئيڈیل معاشرے کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ امریکہ کی خصوصیات ہیں۔ یعنی انسان جب آئيڈیل بناتا ہے تو اسی شکل کا ہوتا ہے۔

تمدن سازی اور نظام کی تشکیل کے اسلامی نظرئے کے تین کلیدی عناصر: ایمان، علم اور مساوات

اسلام کے پاس اپنا الگ مثالیہ ہے۔ نظام کی تشکیل اور معاشرہ سازی کے لئے اسلامی آئيڈیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تشکیل ایمان، علم اور انصاف سے ہوتی ہے۔ یہ تینوں کلیدی عناصر ہیں۔ ایمان سے مراد خالص توحیدی ایمان ہے۔ خالص توحیدی ایمان انسانوں کی شخصیت کی تعمیر میں بھی موثر ہے اور معاشرے کی تشکیل اور معاشرے کے عمومی پیکر کی تشکیل میں بھی موثر ہے، انسان کے ذاتی عمل میں بھی اس کی تاثیر ہوتی ہے اور سماجی سرگرمیوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ علم اپنی بیکراں وسعتوں کے ساتھ، جس میں الوہی علم بھی شامل ہے اور وہ علم بھی شامل ہے جس میں اہل مغرب نے اپنی ہنرمندی دکھائی ہے، یعنی قدرت کو مسخر کرنے کا علم اور قدرت کو اپنے قابو میں کر لینے کا علم، ان چیزوں میں ہے جو اسلام کی نظر میں ممدوح ہیں۔ اس کے بعد انسان اس مرحلے سے بالاتر مرحلے کی جانب ارتقاء کا سفر طے کرتا ہے۔ انسان کی ماہیت کا علم، عالم ملکوت کا علم اور علوم الہیہ تو ان تمام چیزوں سے بالاتر ہیں۔ یہ علم ان تمام امور پر محیط ہے۔ انصاف سے بھی مراد اس کا وسیع البنیاد مفہوم ہے۔ اس میں اقتصادی مساوات بھی شامل ہے، عدالتی انصاف بھی شامل ہے، سماجی انصاف بھی شامل ہے۔ یعنی حقیقی معنی میں مساوات مراد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی تعلیم ہمیں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے دی۔

یقینا ان تینوں میدانوں میں ہم پیچھے ہیں۔ ہماری پیشرفت مناسب نہیں رہی ہے لیکن نمونے اور آئيڈیل کو انسان نعروں میں، بیانوں میں، فیصلوں میں، اقدامات میں جو ان اکتالیس برسوں میں اسلامی جمہوریہ کے اندر انجام پاتے رہے ہیں، شخصیت کی تعمیر کے سلسلے میں جو کچھ ہوا ہے اس میں محسوس کر سکتا ہے۔ اس کی مثالیں ہمارے عظیم شہدا ہیں۔ اس کے نمونے شہید بہشتی ہیں، شہید رجائی ہیں، شہید باہنر ہیں، شہید مطہری ہیں اور حالیہ وقت میں اس کا نمونہ شہید قاسم سلیمانی ہیں۔ یہ اسلامی نمونے اور آئیڈیل ہیں۔ آپ اپنی کارکردگی کے ذریعے دنیا والوں کی نظر میں ان نمونوں کی بہترین تصویر پیش کر سکتے ہیں، ان کی تبلیغ کر سکتے ہیں، انہیں نمایاں کر سکتے ہیں، اسی طرح خدانخواستہ اس کے برعکس عمل کر سکتے ہیں یعنی دنیا کی نظر سے انھیں گرا سکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے اندر خدمت انجام دینے کا یہی مزاج ہے۔ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی خدمت سے صرف کچھ عوام کی، کسی جماعت کی یا ملک کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے اس عمل سے، اپنی کارکردگی سے، اپنی خدمت سے اسلام کی تصویر اور اسلامی نمونے کا چہرا دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ نمونہ موجود ہے۔ استکباری طاقتوں کو اچھا لگے یا نہ لگے یہ نیا نمونہ ساری دنیا میں اپنا تعارف کرا چکا ہے اور وہ اسی سے ہراساں بھی ہیں۔ ان کی دشمنی کی یہی وجہ ہے کہ یہ آئيڈیل ایسا ہے کہ جو ان کے مسلمہ اصولوں کو مسترد کرتا ہے۔ ان کے عہدیداران اور کلیدی پالیسی ساز، زندگی کے بنیادی مسائل میں کج فکری اور کج عملی میں مبتلا ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کا نمونہ، اسلامی نمونہ اسے قبول نہیں کرتا بلکہ باطل کے مقابلے میں راہ مستقیم اور راہ حق پر چلنا پسند کرتا ہے۔ ان کی دشمنی اسی وجہ سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے امریکہ اور بعض دیگر طاقتیں جو کینہ توزی کر رہی ہیں وہ کچھ خاص افراد کے خاص عہدوں پر فائز ہونے یا کچھ مخصوص اقدامات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اور جڑ کے مخالف ہیں۔ البتہ ٹیکٹک کے طور پر کچھ اقدامات وہ ضرور کر لیتی ہیں۔ اسلامی نظام کے کارکنوں کے عمل میں اس نمونے کی جھلک دکھائی دینی چاہئے۔

اسلامی معاشرے کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کی ہدایات

مولائے متقیان کی ایک سفارش کا بھی ذکر کرتا چلوں جو آج کے دن کے لئے بہت اہم ہے۔ حضرت چونتیسویں خطبے میں فرماتے ہیں: غُلِبَ وَ اللهِ المُتَخاذِلون۔ حضرت قسم کھاتے ہیں کہ اگر مومنین نے ایک دوسرے کی مدد کرنا بند کر دیا تو ان سب کو ہزیمت ہوگی۔ «تخاذل» یعنی ایک شخص دوسرے شخص کی مدد نہ کرے۔ یہ «تخاذل» کے معنی ہیں۔ فرماتے ہیں: غُلِبَ وَ اللهِ المُتَخاذِلون۔ یہ بات اس زمانے کے لوگوں کو مخاطب کرکے کہی گئی ہے لیکن در حقیقت یہ خطاب تمام انسانیت سے ہے۔ مومنین کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ مومنین کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں۔ مومنین کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا دفاع کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن آپ کے خلاف سازش رچنے میں مصروف ہے۔ دشمن مسلسل سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ واقعی یہ نظر آتا ہے کہ وہ بے تکان سازش کر رہے ہیں۔ البتہ وہ بعض اوقات یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی سازش نظر نہیں آ رہی ہے جبکہ در حقیقت وہ نظر آ رہی ہوتی ہے، انسان محسوس کر لیتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی کے مقابلے میں آپ کی بھی منصوبہ بندی ہونا چاہئے۔ آپ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا نہیں چاہئے، خاموش نہیں رہنا چاہئے، ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئے۔ کیونکہ وہ مسلسل سازش میں مصروف ہیں تو ہمیں ان کی سازشوں کے سامنے ڈھیر نہیں ہو جانا چاہئے۔ حضرت اپنے خطبے میں لوگوں سے کہتے ہیں: «تُکادونَ وَ لا تَکیدون‌» وہ تمہارے خلاف منصوبے بنا رہے ہیں اور تم ان کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں بنا رہے ہو۔ اسلامی معاشرے میں ایسی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر وہ آپ کے خلاف جال بن رہے ہیں، اگر منصوبہ بندی اور سازش کر رہے ہیں تو آپ کو بھی چاہئے کہ ان کے خلاف منصوبہ بندی کیجئے، منصوبہ تیار کیجئے، اپنی چالیں طے کیجئے۔ اللہ آپ سب کو کامیاب رکھے۔

حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی کے ساتھ مجالس عزا اور عزاداری کے پروگراموں کے منتظمین کا شکریہ

میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں مجالس عزا کے منتظمین کا جنہوں نے تا حال بڑا خیال رکھا۔ ممکن ہے کہ کہیں کچھ لوگوں نے گوشہ و کنار میں خیال نہ رکھا ہو، میری ان سے بھی گزارش ہے کہ خیال رکھیں۔ لیکن منتظمین نے، اہل منبر حضرات نے، شعرا و مرثیہ خواں حضرات نے طبی ہدایات اور انسداد کورونا قومی کمیشن کی ہدایات پر عمل کیا۔ میں اس پر ایک بار پھر تاکید کروں گا۔ امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو اجر دے۔ آپ پر حضرت سید الشہدا کی خاص عنایت ہو اور یہ عزاداری اور عوام کا یہ جوش و جذبہ بارگاہ پروردگار میں اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی بارگاہ میں درجہ قبولیت حاصل کرے۔ اس خطرناک، خبیث اور متلون مزاج وائرس کا مقابلہ کرنے میں عوام کی مدد کرنے والوں کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خداوند عالم ان سب کی توفیقات میں اضافہ کرے۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی، وزیر پیٹرولیم بیژن زنگنے، وزیر توانائی رضا اردکانیان، وزیر صحت سعید نمکی، پلاننگ اور بجٹ کے ادارے کے سربراہ محمد باقر نوبخت نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲) جناب محمّد اسلامی

۳) عیدالاضحی کی مناسبت سے خطاب 31 جولائی 2020

۴) صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات 18 جولائی 2018