3 نومبر 2020 کو استکبار سے مقابلے کے قومی دن 13 آبان مطابق 3 نومبر کو اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے تسلط پسندانہ عزائم کے مقابلے میں دانشمندانہ مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی نپی تلی پالیسیاں امریکہ میں افراد کے اقتدار میں آنے جانے سے تبدیل نہیں ہوتیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب:

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌‌‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الطیّبین الطّاھرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

میلاد پیغمبر اکرم تاریخ انسانیت کے عظیم ترین باب کا آغاز

تمام عزیز ناظرین، ملت ایران، عظیم الشان مسلم امہ کو نبی اکرم، رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو بہت بڑی عید کا دن ہے۔ اس با شرف ولادت نے بعثت پیغمبر کے مقدمات فراہم کئے اور بعثت پیغمبر اکرم تاریخ بشر کا شروع سے آخر تک سب سے عظیم باب ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ عید ہمارے عزیز عوام کے لئے، ملت ایران کے لئے، تمام مسلمانوں اور مسلم امہ کے لئے بابرکت بنے اور انسانی معاشرے کو برکتیں عطا کرے۔

آج تین مناسبتیں ایک ساتھ آئی ہیں۔ ایک تو یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ ایک مناسبت ہفتہ اتحاد کی ہے جو بہت اہم مناسبت ہے۔ ایک مناسبت تیرہ آبان (مطابق 4 جون) کی ہے جو استکبار سے مقابلے کا قومی دن ہے۔ تینوں مناسبتوں کے بارے میں چند جملے عزیز ملت ایران کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

قرآن کریم کی بعض آیتوں کی بشر کی معروضی حالات سے واضح مناسبت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تعلق سے قرآن کریم میں متعدد آیات ہیں۔ ان میں بعض آیتیں انسان کی موجودہ حالت سے بڑی واضح مناسبت رکھتی ہیں۔ جب انسان آیت کو پڑھتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آیت آج ہی موجودہ دور کے انسان کے لئے نازل ہوئی ہے۔ ایسی ایک آیت سورہ برائت میں ہے:: لَقَد جاءَکُم رَسولٌ مِن اَنفُسِکُم عَزیزٌ عَلَیہ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنینَ رَءوفٌ رَحیم (1) آیت کے شروعاتی دو فقرے تمام انسانوں سے مربوط ہیں۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: یـاَ ایھا النّاسُ اِنّی رَسولُ اللہ اِلَیکُم [جَمیعًا] (2) پیغمبر اکرم کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ یہ دو جملے بہت اہم ہیں: عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم، آپ انسانوں کے رنج و آلام پیغمبر اعظم کے لئے بہت شاق ہیں، آپ کا رنج دیکھ کر پیغمبر کو بھی رنج ہوتا ہے۔ اگلا جملہ ہے؛ «حَریصٌ عَلَیکُم» وہ آپ کے بڑے ہمدرد ہیں، آپ کے مشتاق ہیں، آپ کے مستقبل سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے۔

آج یہ خطاب تمام انسانی معاشرے سے ہے۔ یعنی اس خطاب کی مناسبت انسانی معاشرے کی موجودہ صورت حال سے بہت زیادہ ہے۔ واقعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج انسان تاریخ کے تمام ادوار سے زیادہ رنج و آلام میں مبتلا ہے۔ عدم مساوات ہے، جنگ ہے، جنگ افروزی ہے، بے لگام مادہ پرستی ہے جس کی تاریخ کے گزشتہ ادوار میں کم ہی مثالیں ملیں گی کہ انسانوں کے اندر اتنی شدت کے ساتھ مادی رجحانات ہوں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال قوموں کی سرکوبی کے لئے کیا جا رہا ہے۔ سرکشی ہے، شرانگیزی ہے، طاغوتی قوتیں ہیں۔

طاغوتی قوت نافذ کرنے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے وسائل کا استعمال

ان میں بعض برائياں جیسے عدم مساوات، تفریق، بے انصافی، طاغوتی قوتیں تاریخ میں ہمیشہ رہی ہیں۔ یہ آج کی چیزیں نہیں ہیں لیکن آج طاغوتی قوت نافذ کرنے کے لئے علم و دانش کے وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یعنی مثال کے طور پر فرعون کہتا تھا «اَلَیسَ لی مُلکُ مِصر» (3) تو ٹھیک ہے، وہ مصر کے اندر اپنی ہر منمانی کرتا تھا۔ آج امریکہ اس زمانے کے مصر کی طرح ہے لیکن امریکہ کی سرزمین تک محدود نہیں ہے۔ وہ نہیں کہتا: «ا لیس لی ملک آمریکا»! بلکہ وہا‎ں سے اٹھتا ہے اور آکر دوسرے ملکوں میں داخل ہو جاتا ہے، جنگ چھیڑ دیتا ہے، تسلط قائم کر لیتا ہے، چھاونی بنا لیتا ہے۔ آج یہ صورت حال ہے۔ آج انسانی علم و دانش کے ذریعے اور سائنسی پیشرفت کے ذریعے طاغوتی طاقتیں یہ سب کر رہی ہیں۔ تفریق بھی ہے، عدم مساوات بھی ہے، جنگ افروزی بھی ہے، بلکہ ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ واقعی: «عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم» (4) نبی اکرم کی روح مطہرہ آج انسانی رنج و آلام کے باعث آزردہ ہے۔ وہ انسانیت کی خوش بختی کی آرزو رکھتے ہیں، انسان کی ہدایت کے مشتاق ہیں۔ حقیقی معنی میں ایک شفیق باپ کی طرح اس کوشش میں ہیں کہ انسان کی قسمت سنور جائے، اسے صراط مستقیم مل جائے اور وہ اس انجام کو پہنچے جو اس کے لئے منفعت بخش ہو۔

کفار اور ان کے سرغناؤں سے قرآن کریم کا خطاب

اس آیہ کریمہ میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہ آیت سورہ برائت کے آخر میں آئی ہے۔ سورہ برائت جنگ کا سورہ ہے۔ کفار سے بیزاری کے اعلان کا سورہ ہے۔ جنگ وغیرہ کا حکم دینے والا سورہ ہے۔ اس سورے کے آخر میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے: عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم (5) خطاب ہم نے عرض کیا کہ تمام انسانوں سے ہے۔ اس سے ایک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو خطاب اس سے پہلے ہیں وہ غافل و بے خبر عام کفار سے نہیں ہیں، وہ کفار کے عمائدین سے ہیں، کفار کے سرداروں سے ہیں۔ اس نظام سے خطاب ہے جو انسانی معاشرے پر مسلط تھا اور ایک جگہ قرآن نے ان افراد کے لئے: «ائمّہ کفر» کا لفظ استعمال کیا ہے: فَقاتِلوا اَئِمَّةَ الکُفرِ اِنَّهُم لا اَیمٰنَ لَهُم (6) ایک جگہ سورہ قصص میں انھیں نار دوزخ کی جانب بلانے والے امام کہا ہے: «وَ جَعَلنٰهُم اَئِمَّةً یَدعونَ اِلَی النّار» (7) جو عام انسانوں کو جہنم کی جانب کھینچتے ہیں اور دوزخ کی دعوت دیتے ہیں۔ در حقیقت وہ تندی اور شدت جو دشمنان اسلام اور کفار کے بارے میں قرآن ظاہر کرتا ہے اس کا تعلق انھیں گروہوں سے ہے۔ کفر میں مبتلا عوام الناس، یعنی وہ افراد جو حق کے متلاشی ہیں، حق کی چاہت رکھتے ہیں، عناد نہیں رکھتے، دشمنی نہیں رکھتے انھیں سے اس خوبصورت جملے میں خطاب کیا گیا ہے: عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم ( 8)۔

آج اسلام کے دشمن اور وہ اصلی دشمن، وہ لوگ کہ جو «اَئِمَّةً یَدعونَ اِلَی النّار» کے مصداق ہیں، وہ یہی استکبار اور صیہونزم ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنی پوری طاقت سے اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس دشمنی کی تازہ مثال یہ افسوسناک ڈراما ہے جو گزشتہ ہفتے پیرس میں نظر آیا (9)۔ یہ مکروہ ڈراما جو پیرس میں نظر آیا بہت قابل غور ہے۔

فرانس کے آرٹ کا انحطاط اور فرانسیسی حکومت کی مذموم سیاسی پشت پناہی

ایک کارٹونسٹ کوئی حماقت کرتا ہے، پیغمبر کو خاکے کی زبان میں ناسزا کہتا ہے۔ یہ معاملہ صرف اتنا نہیں ہے کہ کوئی آرٹسٹ گمراہ ہو گیا ہے، منحرف ہو گيا ہے اور احمقانہ حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے۔ صرف یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس واقعے کی پشت پر کچھ عناصر کارفرما ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے: دلیل یہی ہے کہ یکبارگی ہم دیکھتے ہیں کہ اس آرٹ کے معمولی اقدام کے دفاع میں ایک ملک کا صدر، ایک ملک کی حکومت کھڑی ہو جاتی ہے، کچھ دوسری حکومتیں بھی اس کی حمایت کرتی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس قضیئے کی پشت پر پورا نظام کام کر رہا ہے۔ صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ فرانس کا آرٹ پستی میں چلا گیا ہے، اس کی یہ درگت ہو گئی ہے۔ یہ مسئلہ اس حکومت کی پالیسیوں کا ہے جو اس غلط حرکت کی حمایت کر رہی ہے اور سیاسی عہدیدار آکر صریحی طور پر اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ ٹھیک ہے، آپ کہتے ہیں کہ اس شخص نے فلاں انسان کو قتل کر دیا۔ تو ٹھیک ہے! آپ مقتول سے اظہار ہمدردی  کیجئے، واقعے پر افسوس کا اظہار کیجئے۔ آپ ان خاکوں کو اس انداز سے لاکر ایسی نمایاں جگہ پر کیوں نصب کرتے ہیں اور اس کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ یہ بڑا تلخ  اور قابل مذمت عمل ہے جو ایک حکومت کی سطح پر انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ ایک آرٹسٹ، ایک کارٹونسٹ یہ کام کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی جب یہ قضیہ پیش آیا تھا، تب بھی یہی ہوا تھا۔ اس موقع پر بھی ہم نے دیکھا کہ حکومتی عمائدین اور سیاسی شخصیات اس کی پشت پناہی کے لئے آ گئیں، اس کا دفاع کیا، اس کی حمایت کی۔

مسلم امہ کی ناراضگی اور اعتراض اسلامی معاشروں کے زندہ ہونے کی دلیل

امت اسلامیہ آج سراپا اشتعال و احتجاج ہے۔ یہ اسلامی معاشروں میں زندگی کی رمق کی علامت ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ دنیائے اسلام کے مشرق و مغرب میں عوام، عہدیداران اور بہت سے اسلامی سیاسی رہنما سب نے، البتہ بعض نے تو اس مسئلے میں بھی حقارت کا مظاہرہ کیا، لیکن اکثر نے اس مسئلے میں اسلامی تشخص اور نبی اکرم کی عظیم ہستی کا دفاع کیا اور اپنی ناراضگی اور احتجاج درج کرایا۔ یہ قوموں کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ تاہم اس مسئلے میں ایک عبرت بھی ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ان چیزوں میں ہے جن پر دنیا کے سیاسی امور سے سروکار رکھنے والے اور اس میدان میں  کام کرنے والے افراد کو توجہ دینا چاہئے۔ اس مسئلے میں فرانسیسی حکومت سامنے آتی ہے اور اسے انسانی حقوق او آزادی  وغیرہ جیسی چیزوں سے جوڑ دیتی ہے۔ عبرت کا مقام یہی ہے۔

دنیا کے سب سے وحشی اور سب سے خونخوار دہشت گردوں کی حامی فرانسیسی حکومت

یہ فرانسیسی حکومت کیسی حکومت ہے؟ یہ پالیسی کیسی ہے؟ یہ وہی سیاست ہے جس کے تحت دنیا کے سب سے وحشی اور خونخوار دہشت گردوں کو جگہ دی جاتی ہے، پناہ دی جاتی ہے۔ یعنی وہ دہشت گرد جنہوں نے ہمارے ملک کے صدر کو شہید کر دیا، وزیر اعظم کو شہید کر دیا، عدلیہ کے سربراہ کو شہید کر دیا، ارکان پارلیمنٹ، حکومتی عہدیداروں اور عدلیہ کے اہلکاروں کو شہید کیا اور ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق انہوں نے سترہ ہزار بے گناہ انسانوں کو، گلی کوچوں میں اور سڑکوں پر عام انسانوں کو شہید کیا، یہ کوئی معمولی دہشت گرد نہیں ہیں، مگر ان کی پناہ گاہ فرانس اور پیرس ہے۔ اس کے بعد بھی یہ فرانسیسی عہدیدار انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں، آزادی کے دعوے کرتے ہیں۔ اسی حکومت نے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران صدام جیسے خونخوار بھیڑئے کی سب سے زیادہ مدد کی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ دوسری تمام حکومتوں سے اس نے زیادہ مدد کی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس جنگ میں صدام کی سب سے زیادہ مدد کرنے والی حکومتوں میں ایک یہی حکومت تھی۔ اس نے پیشرفتہ طیارے اور جنگی وسائل اس خونخوار بھیڑئے کو دے دئے اور اسے شرم بھی نہیں آئی، دیا اور اس کے بعد اس کا اعلان بھی کیا، اعتراف بھی کیا۔ تو یہ دہشت گردوں وغیرہ کے ساتھ ان کے طرز سلوک کی داستان ہے۔ خود اپنے عوام کے ساتھ ان کا جو رویہ ہے وہ ہر ہفتے کے روز ہونے والے مظاہرین کے سلسلے میں آپ نے دیکھا کہ خود اپنے عوام کے ساتھ انھوں نے کیا کیا؟! اس کے باوجود ان کا دعوی ہے کہ وہ آزادی، انسانی حقوق وغیرہ کے علمبردار ہیں۔

 ثقافتی درندگی کا دفاع، دہشت گرد تنظیم 'ایم کے او' اور صدام کی حمایت ایک ہی سکے کے دو رخ

میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یعنی ثقافتی وحشی پنے کا دفاع، ایک کارٹونسٹ کے مجرمانہ اقدام کا دفاع سکے کا ایک رخ ہے اور اسی سکے کا دوسرا رخ دہشت گرد تنظیم ایم کے او اور صدام کا دفاع ہے۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

یہ واقعہ ان چند برسوں میں یورپی ممالک میں اور امریکہ میں بار بار رونما ہوا ہے۔ قرآن کی توہین کا واقعہ، پیغمبر اکرم کی شان میں گستاخی کا واقعہ ان چند برسوں میں مغربی ممالک میں، امریکہ میں بھی اور یورپی ممالک میں بھی بار بار دیکھنے میں آیا۔ لیکن یہ عناصر پیغمبر اکرم کی عظمت و جلالت او عز و وقار کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ بہت واضح ہے کہ پیغمبر رحمت کا نورانی چہرہ ان حرکتوں سے داغدار نہیں ہوگا بلکہ یہ آفتاب روز بروز اور بھی ضو فشاں ہوگا۔ جس طرح اس زمانے میں مکہ و طائف کے بڑے بڑے لوگ اپنی  تمام تر کوششوں کے باوجود پیغمبر اکرم کے مقدس نام کو چھپا نہیں سکے، اسی طرح آج یہ حضرات جو بالکل اسی انداز سے کام کر رہے ہیں، پیغمبر اکرم کے وقار کو کم نہیں کر سکیں گے۔

مغرب کی ماڈرن جاہلیت اور وحشی تمدن کا نظارہ

البتہ ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ حرکتیں مغربی تمدن کی تاریک ماہیت کی علامتیں ہیں۔ یہ اس بات کی علامتیں ہیں کہ یہ تمدن اور یہ ثقافت اپنی ماہیت کے اعتبار سے، اسی طرح یہ ماڈرن جاہلیت اتنی تاریک اور اس قدر وحشی ہے۔ البتہ وہ اس وحشی پن کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ بھی ہے اس لئے اس پر سائنس و ٹیکنالوجی کا پردہ ڈال دیتے ہیں اور اپنا وحشی پن اسی پردے میں چھپا لیتے ہیں۔ بھلے انسانوں جیسی باتیں، انسان دوستانہ چہرے کے ساتھ، ٹائی اور پرفیوم سے آراستہ ہوکر سامنے آتے ہیں اور ان چیزوں کے ذریعے اس حقیقی درندگی کو جو ان کی ذات میں موجود ہے چھپا لیتے ہیں۔ بنابریں اسلام اور پیغمبر کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے، لیکن یہ حرکتیں ہمارے اور آپ کے لئے اس تمدن کی حقیقت جاننے کا اچھا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ تہذیب واقعی وحشی پنے کی تہذیب ہے۔ یہ تمدن وہ ہے جس نے خود اپنی قوموں کو تباہ کر ڈالا۔ اس وقت جب اس تہذیب کے آغاز کو، نشئات ثانیہ کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں، عدم مساوات کی صورت حال، غربت کی حالت، نا انصافی کی صورت حال، شرمناک اخلاقی بے راہروی کی حالت کو یورپی ممالک میں اور امریکہ میں، اسی طرح ان ملکوں میں جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس تہذیب اور اس ثقافت کی یہی ماہیت ہے۔ یہ تو رہی پہلی چیز۔

ہفتہ وحدت کا اعلان امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم جدت عملی

ہفتہ وحدت کے بارے میں کچھ باتیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم جدت عملی کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ جب امام خمینی نے ہفتہ وحدت کا اعلان کیا تھا اور اپنے سیاسی اور سماجی فیصلوں اور رجحانات میں اسلامی مسلکوں کے اتحاد اور وحدت کی بات کی تو اس وقت بہت سے وہ افراد جنھیں مد نظر رکھ کر یہ پیغام دیا جا رہا تھا، اس پیغام کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ منجملہ بہت سے اسلامی ممالک کے عہدیداران بالکل سمجھ نہ سکے کہ یہ پیغام کتنا اہم ہے۔ بہت سے تو سمجھ نہیں سکے اور بہت سوں نے سمجھنے کے بعد بھی اپنی ضد نہیں چھوڑی۔ یعنی اپنے گوناگوں مفادات کی وجہ سے اس پیغام کو نظر انداز کر دیا۔ آج ہماری سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ پیغام کتنا اہم تھا۔ جو واقعات آج ہو رہے ہیں، اسلامی ممالک میں جو گوناکوں اختلافات رونما ہو رہے ہیں، یہ ہولناک واقعات جو علاقے کے بعض ممالک میں، شام میں، عراق میں، ایک دور میں لیبیا کے اندر، یمن میں، افغانستان میں ہوئے انھیں دیکھنے کے بعد انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیائے اسلام کا اتحاد کس قدر اہم تھا اور امت اسلامیہ کی یکجہتی کتنی قیمتی شئے تھی جس کا امام خمینی نے اعلان کیا، جس کی اپیل کی اور جسے پیش کیا۔ اگر اتحاد ہوتا تو یہ سانحے نہ ہوتے۔

صیہونیوں سے روابط معمول پر لانے کی خیانت آمیز حرکت دنیائے اسلام میں تفرقے کا نتیجہ

واقعی آج دنیائے اسلام میں جو ہو رہا ہے، خاص طور پر اس کے ایک حصے میں، یعنی اس علاقے میں وہ المیہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کو کم رنگ کر دیا ہے، صیہونیوں سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کا خیانت آمیز اور ذلت آمیز  ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ سب دنیائے اسلام کے متحد نہ ہونے کے نتائج اور عواقب ہیں کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی، مذموم عزائم اور غلط مقاصد کے تحت یہ پست حرکت انجام دی گئی، در حقیقت کچھ لوگوں نے ملت فلسطین کے حق پر ڈاکا ڈالا۔

البتہ فلسطین کا قضیہ ختم ہونے والا نہیں ہے، ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ حقیر ہیں کہ اس قضیئے کو ختم کر سکیں۔ بالکل نہیں، فلسطین کا موضوع جاری رہے گا اور فلسطین، فلسطین بنے گا جبکہ جعلی صیہونی حکومت ختم ہوگی۔ اس میں کوئی شک ہے ہی نہیں۔ البتہ یہ لوگ اس مشن کی راہ میں اپنی توانائی بھر رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ انھیں میں سے ایک غاصب، قاتل اور مجرم سے روابط قائم کرنا ہے، صیہونی حکومت کی یہی تو حقیقت ہے۔ اس نے زمین بھی غصب کی ہے، لوگوں کو قتل بھی کیا ہے، اس نے کتنے فلسطینیوں کو قتل کیا! کیسے کیسے جرائم کئے ہیں! وہ اس پر خوش ہوتے تھے، فخر کرتے تھے اور اس کے جواز تراشتے تھے، مضحکہ خیز بہانے تراشتے تھے!

اسلامی مسلکوں کے اتحاد کی اہمیت کا دشمن کو بخوبی علم ہے اور وہ اس کے خلاف سرگرم عمل ہے

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ افسوس کی بات ہے کہ بہت سی اسلامی حکومتیں اور پیغام کا حقیقی خطاب جن لوگوں  سے ہے وہ اب بھی اس جدت عملی کی اہمیت سے بیگانہ ہیں، لیکن دشمن کو اس کی اہمیت بخوبی معلوم ہے۔ دشمن سمجھ گیا کہ امام خمینی اسلامی فرقوں کے اتحاد کی بات کر رہے ہیں کہ ان کے بڑے فیصلے اور ان کا کلی رخ ایک ہو، ہر فرقے کے عقائد اس کے لئے ہوں، ہر کوئی اپنا عقیدہ اور اپنے مناسک محفوظ رکھے! یہ چیز امت اسلامیہ کے لئے کتنی اہم ہے اور اس سے ان کے اندر دشمنوں کے قدم جمانے کا راستہ کیسے بند ہو جاتا ہے! چونکہ دشمن یہ بات سمجھ گیا تھا اس لئے اس نے اس پہل کے خلاف منصوبہ بندی شروع کر دی۔ دشمن نے ہمارے عظیم قائد کے اتحاد کے پیغام کا مقابلہ کرنے کے لئے عملی منصوبے تیار کئے۔ منجملہ مسلکوں کی ہم آہنگی کے خلاف نظریات و افکار پیدا کرنے والے مراکز کا قیام تھا۔ اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی ہماری مہم کے خلاف۔ انھوں نے بیٹھ کر کچھ مراکز قائم کئے۔ کچھ خریدے ہوئے مہروں کو پیسے دئے اور انھیں ان مراکز میں بٹھا دیا کہ وہ اسلامی فرقوں کی ہم آہنگی و یکجہتی کے خلاف نظریات و افکار تیار کریں۔ یعنی وہ اس طرح کام کریں کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم پیغام اور آپ کی عظیم الہی تدبیر بے اثر ہو جائے۔ افکار تیار کرنے والے مراکز کا قیام اور تکفیری گروہوں کی تشکیل۔ اس خونخوار گروہ داعش کی تشکیل اسلام دشمن طاقتوں نے کی۔ امریکیوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ البتہ ہمارے پاس ایسی اطلاعات تھیں لیکن اگر ہم کہتے تو ممکن ہے کہ کسی کو شک ہوتا لیکن اس کا اعتراف تو خود انہوں نے کیا۔ اس حکومت کا حصہ رہنے والے افراد نے بھی اعتراف کیا جس نے اس کی تشکیل کی، اسی طرح بعد کی حکومت نے بھی، اس شخص نے جو اس وقت اقتدار میں ہے (10) صریحی طور پر کہا کہ داعش کی تشکیل انھیں لوگوں نے کی اور اس کی حمایت کی۔ علاقے میں اپنے مہروں کو، ان کے اشارے پر کام کرنے والی حکومتوں کو حکم دیا تو انھوں نے اس گروہ کو پیسے دئے، مختلف جگہوں سے اس کے لئے اسلحے خریدے، وسائل مہیا کئے، ساز و سامان کا انتظام کیا۔ یہ بھی کیا۔

گمراہ کن افکار کے مراکز اور تکفیری و دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل

تو انہوں نے گمراہ کن افکار کی ترویج کے مراکز بھی قائم کئے اور دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل بھی کی۔ ان عناصر کو بھی جو نہیں جانتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ اس کھیل کا حصہ بنیں، غفلت اور نادانستگی میں انھیں اس میدان میں گھسیٹ لیا، ان کو ناراض کیا اور ایک دوسرے کے خلاف بدکلامی پر آمادہ کر دیا۔ چنانچہ آپ یکبارگی دیکھتے ہیں کہ ہمارے کسی ہمسایہ ملک میں ایک شخص منبر کا خطیب ہے منبر پر جاتا ہے اور دوسرے فرقے کے مقدسات کی توہین کرتا ہے اور منبر سے اترنے کے بعد برطانیہ کے سفارت خانے میں جاکر پناہ لے لیتا ہے۔ ایسا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں، کم نہیں ہیں۔ کچھ افراد کو ورغلاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو اشتعال دلائیں، اپنے مخاطب افراد کو طیش دلائیں اور وہ ایک دوسرے سے متصادم ہو جائیں۔ ان لوگوں نے صریحی طور پر یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ یہ انھیں کی حرکت ہے۔ تاہم میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علاقے کی جن حکومتوں نے ان افراد کی مالی مدد کی ہے ان کا گناہ ان گروہوں میں شامل ہونے والے عناصر سے زیادہ ہے۔ یعنی وہ شخص جو دنیائے اسلام کے کسی گوشے سے آتا ہے اور دینی حمیت اور تعصب کے نام پر جاہلانہ طور پر کسی دہشت گرد گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اس کا گناہ اس صدر، اس عہدیداران اور اس بادشاہ سے کم ہے جو اسے پیسے دے رہا ہے اور اس راستے پر ڈال رہا ہے، اس کے لئے ہتھیار وغیرہ فراہم کر رہا ہے۔ البتہ اصلی مجرم تو امریکہ ہی ہے۔ یہ حقیقت ہے۔

تکفیری دہشت گرد تنظیموں کے قضیئے میں اصلی مجرم امریکہ اور سعودی حکومت

اس علاقے میں تکفیری دہشت گرد تنظیموں کے مسئلے میں اصلی جرم امریکیوں نے کیا اور سعودی عرب کے حکام ان کے پیچھے پیچھے لگے رہے، انہوں نے پیسے دئے، مدد کی، پشت پناہی کی۔ امریکیوں نے اس کے علاوہ ایک اور جرم کا بھی ارتکاب کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے تکفیری گروہوں کی موجودگی کو وجہ قرار دیکر مسلم ممالک پر لشکر کشی کی۔ افغانستان پر، شام پر، بعض دیگر ممالک جیسے عراق پر بھی حملے کی فکر میں تھے اور ہیں۔ البتہ عراقی نوجوان اور عراقی مومنین انھیں یہ موقع نہیں دیں گے۔ عراقیوں کی غیرت و حمیت ان شاء اللہ امریکیوں کو قدم جمانے کا موقع نہیں دے گی۔ البتہ امریکیوں نے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے اور اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان ممالک میں قدم جمائیں۔ ویسے انہوں نے جہاں بھی قدم رکھا ہے بدامنی اور تباہی پھیلائی ہے۔ واقعی ان ممالک میں انہوں نے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا ہے، بدامنی پھیلائی ہے، خانہ جنگی کی آگ بھڑکائی ہے اور حکومتوں کو اس طرح الجھا دیا کہ وہ اپنے بنیادی امور اور اصلی ذمہ داریوں پر توجہ نہ دے سکیں۔ واقعی انہوں نے کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ «وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَ النَّسل» (11) اس آیت کے مصداق واقعی یہ لوگ ہیں، انہوں نے یہی کام کیا ہے۔

 مسئلہ فلسطین اور جنگ یمن کے المئے کا حل امت اسلامیہ کا اتحاد

میری نظر میں ہفتہ اتحاد بڑی اہمیت کا حامل ہے اور مسلمانوں کا اتحاد امت اسلامیہ کے بہت سے مصائب و آلام کا علاج ہے۔ اس وقت جنگ یمن کا یہ المیہ ہے، پانچ سال سے یہ مظلوم عوام کوچہ و بازار میں، گھر میں اسپتال میں، اسکولوں میں اور عوامی مقامات پر بمباری میں قتل کئے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ سعودی عرب اس مسئلے میں عجیب قسی القلبی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یا مسئلہ فلسطین میں چند کمزور اور ذلیل و خوار حکومتوں نے امت اسلامیہ کا مذاق اڑانے کی کوشش کی اور بخیال خود مسئلہ فلسطین کو نمٹا دیا اور غاصب و قاتل حکومت سے روابط قائم کر لئے۔ یقینا یہ سارے  مسائل مسلمانوں کے متحد ہو جانے کی صورت میں حل ہو جائیں گے۔ اسلامی حکومتوں اور مسلم اقوام کی مشکلات و مصائب بہت زیاد ہیں، کشمیر سے لیکر لیبیا تک اسلامی حکومتوں اور اقوام کی مشکلات جو ہر جگہ نظر آ رہی ہیں، یہ تمام مشکلات مسلمانوں کے اتحاد کی برکت سے ختم ہو جائیں گی۔ تو یہ کچھ باتیں تھیں ہفتہ اتحاد کے تعلق سے۔

امریکہ کی استکباری حکومت سے مقابلہ مدبرانہ اور عاقلانہ روش

جہاں تک 13 آبان (مطابق 4 نومبر) کے قومی دن کا سوال ہے تو اس سال دلچسپ بات یہ رہی کہ استکبار سے مقابلے کا قومی دن ولادت پیغمبر ختمی مرتبت کے ساتھ آیا ہے اور اس آیہ کریمہ «مُحَمَّدٌ رَسولُ اللهِ وَ الَّذینَ مَعَه، اَشِدّاٰءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماٰءُ بَینَهُم» (12) کی یاد دلاتا ہے۔ ایک طرف یوم ولادت اور دوسری جانب: «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار»۔ یہ بہت عظیم اقدام تھا جو ہمارے نوجوانوں نے انجام دیا۔ یہ تاریخ استکبار سے ملت ایران کی دشمنی کا مظہر ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ سفارت خانے میں موجود چند افراد سے کوئی تنازعہ پیش آ گیا تھا۔ یہ مسئلہ استکبار سے مقابلہ آرائی کے تناظر میں ایک عظیم علامتی اقدام سے عبارت تھا۔ امریکی حکومت ایک استکباری طاقت ہے اور استکباری طاقت بہت ساری شرانگیزی، شیطنت اور برائیوں کا مجموعہ ہے۔ استکباری حکومت جنگ پسند بھی ہے، دہشت گرد بھی ہے، دہشت گرد  پرور بھی ہے، مداخلت پسند بھی ہے، بدعنوان بھی ہے، تسلط پسند بھی ہے۔ یعنی جب ہم کہتے ہیں استکباری رژیم  تو استکبار ان تمام برائیوں، خرابیوں اور شرانگیزیوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے استکبار سے مقابلہ آرائی عین دانشمندی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دانشمندی کے خلاف ہے، حکمت کے خلاف ہے! جی نہیں، یہ عین حکمت ہے، یہ عین دانشمندی ہے۔ ہتھیار ڈال دینا اور دباؤ کے سامنے سر جھکا لینا غیر دانشمندی ہے۔

تنازعے کی شروعات کرنے والا امریکہ

شروعات ہم نے نہیں کی۔ ایسا نہیں تھا کہ شروعات ہماری طرف سے ہوئی ہو۔ قرآن کریم میں بھی اتفاق سے بالکل یہی بات کہی گئی ہے: «وَ هُم بَدَءوکُم اَوَّلَ مَرَّة» (13) شروعات انہوں نے کی۔ انقلاب کے فورا بعد تو ہم نے سفارت خانے پر حملہ نہیں کیا۔ انقلاب کے بعد شروعاتی دور میں امریکہ کا سفارت خانہ موجود تھا اور وہ اپنے کام میں مشغول تھے۔ لیکن پھر انہوں نے انقلاب کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا: امریکہ کے اندر قرارداد کی منظوری، تقریریں کرنا، کانگریس میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف جس کی نئی نئی تشکیل عمل میں آئی تھی فیصلے کئے گئے، دہشت گرد گروہ تشکیل دے دیا، باغی گروہوں کی تشکیل شروع کر دی، تیاریاں ہونے لگیں، منصوبے تیار کئے جانے لگے، خود سفارت خانے کے  اندر بھی جسے بجا طور پر جاسوسی کا اڈا کہا گیا، بہت وسیع پیمانے پر جاسوسی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ تو شروعات ان کی طرف سے ہوئی، شروع کرنے والے وہ تھے۔ جب انھوں نے شروعات کر دی تو طلبہ کی جانب سے سفارت خانے پر قبضے کے لئے جو کارروائی کی گئی وہ در حقیقت دفاعی کارروائی تھی، بالکل بجا اقدام تھا، بر محل اور پوری طرح دانشمندانہ اقدام تھا۔

امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا غلط تصور

یہ بھی عرض کر دوں کہ امریکی حکومت اور امریکی رژیم کے بارے میں کچھ لوگوں کا تصور بالکل غلط ہے جو سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت اس رژیم کے سامنے ہتھیار ڈال دے تو اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ بالکل نہیں، اگر کچھ ممالک کو آپ دیکھتے ہیں کہ امریکہ سے رابطہ ہے اور ان کی حالت قدرے بہتر ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ البتہ جس مقدار میں بھی امریکہ سے ان کا رابطہ ہے اور امریکہ کو مداخلت کا موقع مل رہا ہے اسی مقدار میں انھیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جن حکومتوں نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئے اور امریکہ کی پالیسیوں کو قبول کر لیا، اس کی دھونس میں آ گئے انھیں نقصان اٹھانا پڑا، اس کی مثال کیمپ ڈیوڈ ہے۔ واقعی وہ تیس چالیس سال پیچھے چلے گئے، ایک اور مثال خود ہمارے ملک کی پہلوی حکومت کی ہے جس نے امریکی پالیسیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ملک کو واقعی پسماندگی میں دھکیل دیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس طرح کی حکومتیں اور بھی مجبور اور مشکلات میں گرفتار ہوتی جاتی ہیں۔

امریکہ کے سلسلے میں ہماری مستقل اور طے شدہ پالیسی

ہماری امریکہ پالیسی طے شدہ اور واضح ہے۔ یہ پالیسی افراد کے آنے جانے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ آج امریکہ کے انتخابات ہیں۔ کچھ لوگ یونہی بات کرتے ہیں اس بارے میں کہ کون آئے گا، کون نہیں آئے گا۔ اگر فلاں آ گئے تو کیا ہوگا اور اگر فلاں آئے تب کیا ہوگا۔ ہاں، ممکن ہے کہ کچھ تغیرات ہوں لیکن ان کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہوگا۔ یعنی ہماری پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری پالیسی طے شدہ ہے، واضح ہے، افراد کے آنے جانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ البتہ خود ان کی حالت پر ذرا آپ نظر ڈالئے، واقعی قابل دید ہے۔ وہ صدر جو اس وقت اقتدار میں ہے اور جسے الیکشن کروانا ہے، وہی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات ہیں۔ یہ کون کہہ رہا ہے؟ یہ بات وہ صدر کہہ رہا ہے جو اس وقت اقتدار میں ہے اور در حقیقت وہی الیکشن کروا رہا ہے۔ خود وہ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات ہیں۔ جواب میں ان کے حریف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ بڑی دھاندلی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امریکی جمہوریت ہے۔ وہ خود اپنے الیکشن کے بارے میں اس طرح بات کرتے ہیں۔ یہ امریکہ میں لبرل ڈیموکریسی کا بدنما چہرہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان میں سے کون سا امیدوار منتخب ہوتا ہے، ممکن ہے کہ یہ منتخب ہو جائے اور ممکن ہے کہ اس دوسرے کا انتخاب ہو جائے، آج یہ واضح ہو جائے گا۔ لیکن ایک چیز بالکل واضح ہو گئی اور وہ ہے امریکی رژیم کا سیاسی،  تمدنی اور اخلاقیاتی زوال۔ جو بھی منتخب ہو جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

امریکی رژیم کا سیاسی، تمدنی اور اخلاقیاتی زوال

واقعی امریکی رژیم شدید طور پر سیاسی، زوال، تمدنی زوال اور اخلاقیاتی زوال کا شکار ہے۔ یہ قیاس آرائی نہیں ہے۔ میں جو بات کہہ رہا ہوں یہ تجزیہ نہیں ہے۔ یہ بات تو خود وہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ یہ بات خود ان کے ترجمان اور ان کے مصنفین اور اہل فکر حضرات امریکہ کے اندر کہہ رہے ہیں۔ یہ ان کی باتیں ہیں۔ ان چند برسوں میں کچھ کتابیں انھوں نے لکھی ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں یہ کتابیں شائع ہوئیں اور انھوں نے کچھ پردے ہٹائے۔ ان میں سے ایک کتاب جو فارسی میں ترجمہ ہوئی میں نے پڑھی۔ اسی زوال کی علامات سے بھری ہوئی ہے۔ یعنی واقعی اگر کوئی وہ کتاب پڑھے تو دیکھے گا کہ شروع سے آخر تک امریکی صدر کی سرگرمیاں امریکہ کے سیاسی نظام کے زوال کا آئینہ ہے۔ اس صورت حال میں یہ سامراجی قوت زیادہ دن باقی نہیں رہ پائے گی، منہدم ہو جائے گی۔ البتہ ان میں بعض ایسے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ گئے تو جلدی منہدم ہو جائے گی اور اگر دوسرے کو اقتدار مل گیا تو ممکن ہے کہ اس انہدام میں تھوڑی تاخیر ہو جائے۔ لیکن حقیقت حال یہی ہے۔

دشمنی کو ختم کرنے کا واحد راستہ ملک کو طاقتور بنانا ہے

ہم سے ان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ ہم نے ان کے ظالمانہ تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یعنی چونکہ ہم ان کے دباؤ میں نہیں آئے، چونکہ اس علاقے میں ان کے منصوبوں کو ہم نے قبول نہیں کیا، چونکہ فلسطین کے سلسلے میں ان کی  پالیسیوں کو ہم نے مسترد کر دیا، چونکہ ان کی ظالمانہ پالیسیوں کو ٹھکرا دیا اس لئے وہ ہم سے دشمنی کر رہے ہیں اور یہ دشمنی جاری رہنے والی ہے۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم ان کو مایوس کر دیں۔ یعنی ملت ایران، حکومت ایران اور اسلامی جمہوری نظام خود کو اس مقام پر پہنچائیں کہ فریق مقابل وار کرنے کے سلسلے میں مایوس ہو جائے۔ ہمیں طاقتور بننا چاہئے۔ میں نے اپنے عزیز عوام سے یہ بات بارہا کہی ہے اور عہدیداران سے بھی رسمی اجلاسوں میں اور نجی ملاقاتوں میں اسی طرح عوامی خطابات میں اسے میں نے بارہا ذکر کیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نمائشی نہیں بلکہ حقیقی قوت و طاقت کے ان ستونوں کو مستحکم بنائیں، قوم طاقتور بنے، مستحکم بنے تو دشمن مایوس ہو جائے گا۔ واقعی یہی ہوا ہے۔ عوام نے زبردست استقامت کا مظاہرہ کیا، پائیداری کا مظاہرہ کیا، مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہے۔

تین شعبوں اقتصادیات، امن و سلامتی اور ثقافت میں عہدیداران کی زیادہ محنت کی ضرورت

میرے خیال میں تین میدان ایسے ہیں جن میں عہدیداران کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو اقتصادی شعبہ ہے، ایک امن و سلامتی کا شعبہ ہے اور ایک ثقافت کا میدان ہے۔ ہم عہدیداروں کو ان تین میدانوں میں اپنی محنت بڑھانی ہوگی۔ اقتصادیات کے شعبے میں صحیح اور اصولی طرز فکر یہ ہے کہ ہمیں بیرون ملک ہرگز نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم اپنے رابطے ختم کر لیں۔ میں جب بھی کہتا ہوں کہ ہمیں ملک کے اندر علاج  تلاش کرنا چاہئے تو کچھ لوگ یہاں وہاں، سوشل میڈیا پر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کا تو نظریہ ہے کہ ہم بیرونی دنیا سے اپنے رابطے ختم کر لیں۔ جی نہیں، مقصد یہ نہیں ہے۔ ہمارے رابطے قائم رہنے چاہئے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم دوسروں سے علاج نہ مانگیں۔ اپنے ملک سے باہر جاکر علاج تلاش نہ کریں، خود اپنے ملک کے اندر علاج تلاش کریں۔ علاج ملک کے اندر موجود ہے اور ایک بنیادی علاج پیداوار کو فروغ دینا ہے جس پر میں بارہا  تاکید کر چکا ہوں۔ اقتصادیات کے میدان میں ایک منصوبہ بند کوشش ہونا چاہئے۔

اداروں میں مینیجمنٹ کی سطح  پر ہم آہنگی سے اقتصادی مشکلات کو حل کرنا ممکن

ہماری بہت سی موجودہ مشکلات کا پابندیوں وغیرہ جیسی چیزوں سے کوئی ربط نہیں ہے، ان کا تعلق خود ہم سے ہے، ہماری عدم ہم آہنگی سے ہے۔ اس حالیہ مہنگائی کا واقعی کوئی جواز نہیں ہے۔ حالیہ دنوں بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالا جانا چاہئے اور اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ عہدیداران ہم آہنگی کرکے اسے حل کریں۔ آپ غور کیجئے تو ریڈ میٹ، مرغ اور ٹماٹر سے لیکر بچوں کے ڈائپر تک ان ساری چیزوں کی مہنگائی کا علاج ہے۔ ان چیزوں کی مہنگائی کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس مہنگائی کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے۔ مال بھی موجود ہے۔ صنعت و معدنیات و تجارت کی وزارت، تعزیراتی عہدیداران، رضاکار فورس اور دیگر متعلقہ ادارے جیسے کسٹم وغیرہ آپس میں تعاون کریں اور عوام کو اس مشکل سے نجات دلائیں۔ یہ ساری چیزیں کنٹرول کی جا سکتی ہیں۔ اداروں کے ہم آہنگ مینیجمنٹ کے ذریعے ان مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔

اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کی اہمیت

سیکورٹی کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کرنا ہیں۔ مراد بیرونی سلامتی ہے جس کے لئے ملت کا دفاعی وسائل سے لیس ہونا ضروری ہے۔ جیسے یہی میزائل، ڈرون، طیارے وغیرہ جن کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ ان سے ملک کو بیرونی سیکورٹی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک دشمن کی حریصانہ نظر سے محفوظ رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میزائل بنا لینے سے تمام مشکلات رفع ہو جائیں گی۔ نہیں، بالکل نہیں، کچھ مشکلات ایسی ہیں جن کا میزائل سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن بہت سی مشکلات ایسی بھی ہیں جو انھیں دفاعی وسائل سے ہی دور ہوتی ہیں۔

داخلی سیکورٹی کے بارے میں ہمارے سیکورٹی اداروں کو چوکنا رہنا ہے کہ دشمن دراندازی نہ کرنے پائے۔ بنیادی مشکل دراندازی ہے۔ دشمن مختلف اداروں میں اپنا رسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وسوسے پھیلاتا ہے۔ بنیادی مشکل یہی ہے۔ اس مشکل کی طرف توجہ رہنا چاہئے۔

ثقافتی امور میں دانشمندانہ کوششوں کی ضرورت

ثقافتی امور کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ عہدیداران کو چاہئے کہ بہت عاقلانہ انداز سے کوشش کریں۔ کبھی ہمارے ثقافتی کاموں کا حجم تو بہت ہوتا ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ مدبرانہ انداز میں کام ہو۔ یعنی ہمیں معلوم ہو کہ کہاں کس چیز کی ضرورت ہے، کس طرح کے ثقافتی کاموں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر یہ ہو جاتا ہے تو میرے  خیال میں ان تینوں شعبوں میں، یعنی اقتصاد، سیکورٹی اور ثقافت کا شعبہ بڑی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، مدبرانہ کاموں، باہمی ہم آہنگی اور لگن سے کام کرکے تینوں میدانوں میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ بحمد اللہ عہدیداران محنت سے لگے ہوئے ہیں، مزید سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کام انجام پا سکے۔

آذربائيجان کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی اور ارمنی عیسائيوں کا تحفظ لازمی ہے

ایک آخری بات اس جنگ کے بارے میں کہنا ہے جو ہمارے پڑوس میں ہمارے دو پڑوسی ممالک یعنی آذربائیجان اور آرمینیا کے ما بین جاری ہے۔ یہ جنگ بہت تلخ حادثہ ہے۔ یہ علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور ہمارے ملک کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسے جلد از جلد ختم ہو جانا چاہئے۔ البتہ آذربائیجان کے وہ  تمام علاقے جن پر آرمینیا نے قبضہ کیا ہے آزاد ہونا چاہئیں۔ یعنی یہ تمام علاقے آذربائيجان کو لوٹائے جائیں۔ ایک بنیادی شرط یہی ہے۔ کیونکہ یہ علاقے آذربائیجان کے ہیں، جمہوریہ آذربائیجان کو ان علاقوں کو آزاد کرانے کا حق ہے، انھیں آزاد ہونا چاہئے۔ البتہ ان علاقوں میں جو ارمنی عیسائی آباد ہیں انھیں مکمل تحفظ ملنا چاہئے اور بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یعنی دونوں ممالک بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کریں، سرحدیں محفوظ رہیں اور ہماری سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کو قدم جمانے کا موقع بھی نہیں ملنا چاہئے۔ جیسا کہ رپورٹوں میں ہے، حالانکہ بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، لیکن اطمینان بخش رپورٹوں میں ہے کہ یہاں وہاں سے کچھ دہشت گرد اس قضیے میں کود پڑے ہیں۔ اگر وہ سرحد کے قریب آئے اور خطرہ محسوس ہوا تو یقینا کارروائی کی جائے گی، انھیں یہاں نہیں آنا چاہئے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ تمام مسلم اقوام، علاقے کی تمام اقوام اور تمام افراد کو ان مشکلات سے نجات ملے اور عزیز ملت ایران اس عظیم ہستی کے یوم ولادت، نبی اکرم اور امام صادق علیہما السلام کی روح مطہرہ کی برکت سے، نیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہرہ کی برکت سے مستقبل میں بہترین ایام کا مشاہدہ کرے، ہمیں بہت قریب آ چکے اس مستقبل کا پورا یقین ہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌الله و برکاتہ

۱) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲۸؛ «یقینا تمہارے لئے خود تمہارے درمیان سے رسول آیا، اس کے لئے یہ بہت شاق ہے کہ تم رنج و آلام میں گرفتار رہو، وہ تمہاری ہدایت کا مشتاق اور مومنین کا ہمدرد ہے۔

۲) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۵۸ کا ایک حصہ؛ «...اے لوگو! میں تمہارے درمیان اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔..»

۳) سوره‌ زخرف، آیت نمبر ۵۱ کا ایک حصہ

۴) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ

۵) ایضا

۶) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲کا ایک حصہ

۷) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۴۱ کا ایک حصہ

۸) سوره‌ توبه،آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ

۹)  پیغمبر اکرم کی شان میں گستاخی پر مبنی فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو کے خاکے اور فرانس کے صدر ایمینوئل میکراں کی جانب سے آزادی اظہار کے بہانے اس کی حمایت

10) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ

11) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۰۵ کا ایک حصہ؛ «... اور کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ کرتا ہے ...»

12) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں کفار کے سلسلے میں سختگیر اور آپس میں مہربان ہیں۔...»

13) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۳ کا ایک حصہ؛ «...اور وہی تھے جنہوں نے پہلی بار تمہارے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔..»