قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علما کے اثرات کے دائرے میں آنے والی وسعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ماضی کے برخلاف موجودہ دور میں علما کے اثرات کا دائرہ کچھ افراد اور چھوٹے سے طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے زیر سایہ علما انسانی معاشرے کی معنوی ہدایت کے علمبردار ہیں جس کے نتیجے میں بہت فکرمندی اور ذمہ داریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب سے پہلے مرحلے میں علما کی ذمہ داری تقوا و خود سازی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ علماء اور دینی طلبا کو چاہئے کہ خود سازی اور تہذیب نفس پر خاص توجہ دیں کیونکہ جس کے پاس تقوا نہ ہو وہ دوسروں کی ہدایت نہیں کر سکتا۔
آپ نے اسی طرح حصول تعلیم و معرفت الہی کو علما کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا اور مایہ ناز مسلم دانشور شہید مرتضی مطہری کی برسی کی جانب اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ یہ بزرگوار شہید دین کے حقائق اور تعلیمات سے بخوبی آشنا تھے اور آپ کی گرانقدر تحریریں آپ پر نازل ہونے والی خاص الہی عنایات کی آئینہ دار ہیں، نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ شہید مطہری کی کتابوں کا ایک دفعہ ضرور مطالعہ کریں تاکہ اسلامی حقائق اور تعلیمات کے ایک حصے سے بخوبی آشنا ہو سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فقہ اور علوم عقلیہ (معقولات) پر عبور کو دینی طلبا کے لئے لازمی قرار دیا اور فلسفیانہ بحثوں اور اس زمرے میں آنے والے موضوعات سے قوموں کی توجہ ہٹانے کی بعض طاقتوں کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کوششوں کے مقابلے کا راستہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینا گالم گلوچ اور غیظ و غضب نہیں ہے بلکہ دینی تعلیمات اور عقلی حقائق پر اتکا کرتے ہوئے ذہن انسانی کو منحرف نظریات اور مکتب فکر سے نجات دلائي جانی چاہئے البتہ اس کے لئے علما اور نظریہ پرداز مفکرین کی تعلیم و تربیت لازمی ہے۔
آپ نے اسی سلسلے میں علم منطق اور عصری زبان سے آگاہی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ تبلیغ میں جدید پیش رفتہ وسائل کا استعمال کیا جانا چاہئے اور منطق اور عصری زبان کے ذریعے مخاطب افراد کی ذہنی کیفیت کا ادراک اور فکری مسائل کا عالمانہ حل پیش کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز کے فرائض اور ذمہ داریوں کا مزید تذکرہ فرماتے ہوئے عالمی سیاست کے سلسلے میں صحیح زاویہ نگاہ اور ملکی و عالمی سیاسی مکاتب فکر سے مکمل آشنائی کو علما کے فرائض کی انجام دہی کے لئے بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ ایک باخبر عالم دین کو عالمی سیاسی رجحانات سے مکمل واقفیت کے ذریعے گمراہی اور ہدایت کے نکات کی صحیح نشاندہی کرنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بڑی طاقتوں پر حکم فرما سیاست کو دنیا میں ظلم و فساد کی ترویج کے لئے ممد و معاون اور جنگ و خونریزی کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا میں ایسی سیاست کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی سامراج کے محاذ سے اس ملک پر وسیع پیمانے پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایسے سادہ لوح افراد پر تنقید کی جو تدبیر و تدبر کو اصولوں سے بیگانگی کی وجہ سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بنیادی معیار یہ ہے کہ ہم آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے آگاہانہ انداز میں اسلام سے درس لیں، اپنے اہداف کو شجاعانہ انداز میں معین کریں اور پھر ان کی جانب چل پڑیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمن سے ہوشیاری کو تقوا کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریت معنوی اور روحانی لحاظ سے بڑے پیمانے پر وسعت کی گنجائش رکھتی ہے۔ علما کو چاہئے کہ متقی، آگاہ و با خبر اور شجاع و دلیر شخصیات کی پرورش کریں۔ یہی متقی علما مستحکم ستون کی حیثیت سے اسلامی جمہوریت کی عظیم عمارت کے ایک حصے کو اپنے دوش پر سنبھالے ہوئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں صوبہ فارس کو علمی توانائي اور دینی علما کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہت مالا مال قرار دیا اور علما کی تعلیم و تربیت اور گرانقدر علمی خزانے کی ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان حقائق سے ماضی حال اور مستقبل میں خطے کے عوام کی دینی اور روحانی آمادگی اور صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس خطاب سے قبل صوبہ فارس میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شیراز کے امام جعمہ آیت اللہ حائری نے مغربی دنیا میں ظاہری قوت میں اضافے کے باوجود امن عامہ کے فقدان کی بڑی مشکل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امن عامہ، ظاہری قوت اور نفس پر قابو کے اندرونی عمل کے دو اہم ترین عناصر سے تشکیل پاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں معنویت اور روحانیت کے فقدان کے نتیجے میں امن عامہ روز بروز ناپید ہوتا جا رہا ہے۔