بسم‌ اللّہ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران عزیز! خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ محترم امام جمعہ کے اس مختصر اور جامع بیان اور اسی طرح محترم کمانڈر کی خوبصورت اور مکمل تحریر کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔

دین، شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش، ایرانی تمدن کی ایک خصوصیت

ہمارے وطن عزیز  کی تمدنی خصوصیات میں سے ایک، جس پر ہمیشہ توجہ دینی چاہیے، یہ ہے کہ یہ دین، شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش میں کامیاب رہا ہے۔ دنیا کی بہت سی جگہوں پر دین اپنے راستے پر الگ چلتا ہے، البتہ اگر ہو تو، فن و ہنر اپنا کام کرتا ہے، شجاعت بھی اگر کہیں ہوتی ہے تو اس کی اپنی جگہ ہے۔ ایران اسلامی میں ان تینوں عناصر کی آمیزش ایک دلکش اور دلچسپ چیز جو آج کل کی نہیں ہے، یہ خود اسلام سے ماخوذ ہے۔ خود قرآن مجید میں "وَ الَّذينَ آمَنوا اَشَدُّ حُبًّا لِلَّہ"(2) بھی ہے، "يُحِبُّھُم وَ يُحِبّونَہ"(3) ہے، ساتھ ہی "فَليُقاتِل فی سَبيلِ اللَّہ"(4) بھی ہے، جہاں کہا گيا ہے: "اَلَّذينَ آمَنوا يُقاتِلونَ فی سَبيلِ اللَّہِ وَ الَّذينَ كَفَروا يُقاتِلونَ فی سَبيلِ الطّاغوت"(5) "اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار"(6) بھی ہے اور "رُحَماءُ بَينَھُم"(7) بھی ہے۔ مطلب یہ کہ خود قرآن مجید، دین و الہی مکتب، عظیم شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش ہے، خود قرآن مجید فن و ہنر کا ایک شاہکار ہے، ایک بہت اعلی فن پارہ ہے، اس کے علاوہ قرآن مجید میں عشق و محبت وغیرہ کی طرف بھی اشارہ کیا گيا ہے اور اس کے پڑھنے والوں کے لیے تصویر کشی کی گئي ہے۔ یہ ہماری تاریخ میں موجود ہے۔

شیراز دین، شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش کا بہترین آئينہ

اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو میں عرض کروں کہ شاید ہمارے ملک کی وہ بہترین جگہ جہاں ان تینوں عناصر کی آمیزش اور امتزاج بہت واضح طور پر نظر آتا ہے، فارس اور شیراز ہے۔ یہ بات ہم کہیں یا کوئي اور کہے واقعی سو فیصدی صحیح ہے۔ شیراز ایک ایسی جگہ ہے جہاں یہ تینوں عناصر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دکھائي دیتے ہیں۔ حضرت احمد ابن موسیٰ (شاہ چراغ) علیہ السلام سے لے کر دوسرے شہید امام زادوں تک جو اس صوبے اور اس شہر میں ہیں، بعد کے زمانوں تک اور آج تک اور اس شہیدہ کرباسی(8) جو کچھ دن پہلے شہید ہوئي، یہ تینوں عناصر، ان تمام ادوار میں ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

دین، شجاعت اور فن و ہنر کے امتزاج کے نمونے

ملک کے سب سے مشہور اور سب سے ہر دلعزیز شاعر یعنی حافظ شیرازی، قرآن کے حافظ ہیں جو "قرآن ز بر بخواند با چاردہ روایت"(9) اس غزل گو اور شیریں سخن شاعر کو قرآن مجید، چودہ قرائتوں یعنی قرائت کے چودہ الگ الگ انداز کے ساتھ ازبر تھا، حفظ تھا۔ قرائتوں کے اختلاف کے ساتھ جو تلاوت کی جاتی ہے ہم نے بہت کم ایسے قاری دیکھے ہیں جو تاریخ کے مشہور سات قاریوں کی قرائت پر تسلط رکھتے ہوں جن میں سے ہر ایک کے دو دو راوی ہیں اور اس طرح چودہ روایت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ (ایک دوسری غزل میں) کہتے ہیں: "ہر چہ دارم ہمہ از دولت قرآن دارم"(10) مطلب یہ کہ ان کے اشعار بھی قرآن ہی کے ہیں، ان کا فن بھی قرآن ہی کا ہے، ان کی معرفت بھی قرآن ہی کی ہے، ان کا عرفان بھی قرآن ہی کا ہے، ان کی بیخودی بھی قرآن ہی کی ہے، انھیں ہر چیز قرآن سے ملی ہے۔ کیا دین اور فن و ہنر کا اس سے حسیں امتزاج کچھ ہو سکتا ہے کہ دین اور فن و ہنر کی اس طرح سے بہم آمیزش ہو جائے؟ اسی طرح ان کے ساتھ شجاعت اور رزمیہ کارنامے بھی ہیں۔ خود حضرت احمد ابن موسیٰ (شاہ چراغ) علیہ السلام سے لے کر عباس دوران(11) تک اور معروف شہیدوں تک منجملہ شہید مرتضیٰ جاویدی، شہید شیر علی سلطانی اور یہی محترمہ معصومہ کرباسی سے لے کر صوبے کے بڑے شہیدوں تک جن میں سے بعض کا ہمارے محترم کمانڈر(12) نے نام لیا، یہ پندرہ ہزار شہید، پندرہ ہزار آئيڈیل اور مختلف میدانوں میں شہیدوں کے پندرہ ہزار رول ماڈل ہیں۔

ملک اور خطے کے واقعات میں صوبے کی مایہ ناز اور مؤثر شخصیات کا رول

یورپی سامراج کے ساتھ پہلی مسلحانہ جنگ، فارس کے حکمراں امام قلی خان نے کی تھی اور وہ پرتگالیوں کو ہرمز سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ہمارے ملک میں پہلی نرم جنگ (سافٹ وار) میرزا شیرازی نے کی تھی؛ تمباکو کو حرام قرار دینا، نرم جنگ تھی، سب سے بڑی جنگ اور وہ بھی ایسی جنگ جس نے ملک میں انگریزوں کے معاشی تسلط کی بساط لپیٹ دی۔ یہی کام گاندھی نے ہندوستان میں کیا لیکن میرزا شیرازی کے تیس سال بعد، یعنی اس بے نظیر نرم جنگ کی جدت عمل میرزا شیرازی نے دکھائي۔ برطانوی حکومت کے مقابلے میں عراقیوں کی سب سے مضبوط مزاحمت کی کمان میرزا محمد تقی شیرازی نے سنبھالی تھی۔ اسلامی حکومت کا پہلا سکہ مرحوم سید عبد الحسین لاری نے شیراز، جہرم اور لار میں ڈھالا، اسلامی حکومت تشکیل دی۔ البتہ وہ حکومت پائيدار نہ رہ سکی اور وہ اسے جاری نہ رکھ سکے لیکن انھوں نے اقدام کیا، شروعات کی۔ یہ سب بڑے افتخارات ہیں۔ اگر ہم خود اپنے زمانے کی طرف لوٹیں تو ہم شہید دستغیب جیسے عالم، عارف اور سالک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ واقعی شہید دستغیب معنویت و روحانیت کا مظہر تھے، وہ اخلاق کا بھی مظہر تھے اور جہاد کا بھی مظہر تھے۔ سنہ 1962 اور 1963 میں جب یہ جدوجہد شروع ہی ہوئي تھی اور ہم قم میں تھے، اس وقت کچھ لوگ شیراز سے مرحوم دستغیب کی کیسیٹس قم لے کر آتے تھے اور ہم سنتے تھے۔ مرحوم شیخ بہاء الدین محلاتی اور شیراز کے دیگر علماء نشستیں منعقد کیا کرتے تھے جن کے ترجمان مرحوم دستغیب تھے اور جہاں تک مجھے یاد ہے شیراز کی جامع مسجد میں اکٹھا ہوتے تھے اور تقریر وغیرہ کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ان کی شہادت تک جاری رہا۔ مطلب یہ کہ فارس میں ہر طرح کے شہید ہیں، ہر میدان میں اس سرزمین کے شہیدوں نے اپنی قربانی پیش کی ہے اور خود کو نمایاں بنا کر پیش کیا ہے، یہ شیراز کا شناختی کارڈ ہے، یہ فارس کا شناختی کارڈ ہے۔

دین، شجاعت اور فن و ہنر کے امتزاج کا تسلسل

ان لوگوں نے بیوقوفی کی جنھوں نے یہ سوچا کہ وہ ہنر شیراز کے اوچھے جشن جیسی چیز کے ذریعے شیراز کو اہلبیت کا حرم اور دین و ایمان کا مرکز ہونے سے دور کرکے  اسے بے راہ روی کی جگہ بنا سکتے ہیں، یہ ان کی غلط فہمی تھی، حقیقی معنی میں انھوں نے بیوقوفی کی! شیراز کے عظیم عالم یعنی ملا صدرا رحمۃ اللہ علیہ نے، جو ہماری نظر میں دنیا میں فلسفے کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک ہیں، انھوں نے اپنے شعر میں، ان کے بہت کم شعر باقی رہ گئے ہیں، کہا ہے:

در معرکۂ دو کَون، فتح از عشق است (دونوں جہاں کے معرکے میں فتح عشق کی ہی ہے)

ہر چند سپاہ او شہیدند ہمہ(13) (اگرچہ اس میں اس کے سارے سپاہی شہید ہوں گے)

یہ ایک فلسفی عالم دین کا شعر ہے۔ مطلب یہ کہ یہ جذبہ، دین، شجاعت اور فن و ہنر کا یہ حسین امتزاج بدستور جاری ہے۔ مرحوم دستغیب بھی عارف بھی تھے، شاعری بھی کرتے تھے اور معنویت وغیرہ کی وادی میں بھی رہتے تھے، ہم ان کے بارے میں قریب سے ان چیزوں کو جانتے تھے، دوسرے لوگ بھی جانتے تھے، یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔

ہماری تمدن یافتہ قوم کی خصوصیات کی حیثیت سے دینداری، شجاعت اور فن و ہنر کو پیش کرنے کی ضرورت

آپ کی کانفرنس ملک کو یہ دکھائے، اس چیز کو ملک میں لازوال بنائے، آپ کو یہ دکھانا چاہیے کہ ایک متمدن، معرفت رکھنے والی اور آگے بڑھنے والی قوم کے لیے جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ دیندار ہو، شجاع ہو اور فن و ہنر کی مالک ہو، یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ ہوں۔ فن و ہنر، دین کی خدمت میں، دین، شجاعت کی خدمت میں اور شجاعت، قوم کی پیشرفت کی راہ میں، یہ چیزیں اہم ہیں۔ آپ کی کانفرنس سے یہ بات نکل کر آنی چاہیے، یہ چیز دکھائي دینی چاہیے۔ اب آپ اسے کتاب کے ذریعے سامنے لائیے، شعر کے ذریعے سامنے لائیے، ترانے کے ذریعے سامنے لائيے یا مثال کے طور پر ڈرامے کے ذریعے سامنے لائیے، بہرحال یہ چیز سامنے آنی چاہیے، آپ کو اسے دکھانا چاہیے، یہ وہ چیز ہے جس کی ہماری قوم کو ضرورت ہے۔ آج بھی پہلوی دور کے بیوقوفوں کی طرح کے لوگ موجود ہیں جو فن و ہنر کو معنویت سے الگ کرنا چاہتے ہیں، فن و ہنر کو شجاعت سے الگ کرنا چاہتے ہیں، انھیں کبھی ایک دوسرے کے مخالف راستوں پر لے جانا چاہتے ہیں، آج بھی ہمارے عزیز ملک میں اور ہماری اس گرانقدر چار دیواری میں ان لوگوں کی صورت میں اس مشینری کا بچا کھچا کچرا پایا جاتا ہے۔ ہمیں ان تینوں پہلوؤں کی حفاظت کرنی چاہیے۔

لوگوں پر کانفرنس کے اثرات کا جائزہ

میری ایک پرزور سفارش، جسے میں نے یہاں نوٹ کر رکھا ہے، یہ ہے: کانفرنس کے اثرات کا جائزہ لیجیے۔ چونکہ آپ اثر ڈالنا چاہتے ہیں نا، تو ٹھیک ہے، جائزہ لیجیے، دیکھیے کہ مثال کے طور پر ایک سال میں، اس کانفرنس نے، جسے آپ نے اتنی زحمتوں اور کوششوں سے منعقد کیا ہے، رائے عامہ پر، آپ کے جوانوں کے طرز عمل پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، آپ کے کتنے جوانوں کی دینداری، ان کے مسجد جانے، ان کی فکری مجاہدت، ان کے کتاب پڑھنے، صحیح سوچنے اور صحیح سمت میں ان کے بڑھنے میں پیشرفت ہوئی ہے، اس کا جائزہ لیجیے، اس کی راہ تلاش کیجیے، آپ یہ کر سکتے ہیں، البتہ یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس جائزہ لینے کو جاسوسی کرنے اور کسی کا ہاتھ پکڑنے وغیرہ کے مترادف نہ سمجھا جائے، ان راستوں پر نہیں جانا چاہیے، صحیح طریقے سے دیکھنا اور صحیح طریقے سے تعین کرنا مقصود ہونا چاہیے۔

خدمت کا رجحان، آپ کے کام کے اثر کا جائزہ لینے کی ایک کسوٹی

خدمت کا رجحان اس کانفرنس کے اثرات میں سے ایک ہے۔ آپ دیکھیے کہ جوان میں خدمت کا کتنا رجحان پیدا ہوا ہے، فکری خدمت، جہادی خدمت، خدمت کے میدانوں میں موجودگي: جہادی پکنک، تعمیری جہاد، جنگي مراکز میں جانے اور مقدس دفاع کے دوران ہمارے عزیز فوجیوں کی کوششوں اور رضاکاروں کی جدوجہد کے اثرات کا مشاہدہ کرنے والے کارواں، آپ دیکھیے کہ ان کے رجحان میں کتنی پیشرفت ہوئي ہے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ کوئي پیشرفت نہیں ہوئي ہے تو پھر اپنے کام پر لوٹ جائيے اور دیکھیے کہ مشکل کہاں ہے، اس کا کیوں اثر نہیں پڑا؟ اگر آپ نے دیکھا کہ پیشرفت ہوئي ہے تو دیکھیے کہ اس پیشرفت کا سبب کیا ہے؟ اسے مضبوط بنائيے۔ وہ چیز جو اس جوان کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئي ہے وہ کیا ہے؟

ہماری جانب سے واقعات اور کارناموں کو بیان کرنے میں کمزوری اور اسے مضبوط بنانے کی ضرورت

ہمارے آج کے جوانوں کو اپنے ملک کے پرافتخار ماضی کی شناخت کی ضرورت ہے، خاص طور پر انقلاب سے متعلق پچھلے کچھ عشروں کے ماضی کی شناخت۔ ہم واقعات کو صحیح طریقے سے بیان کرنے میں کمزور ہیں۔ مثال کے طور پر کیا ہمارے جوان، جاسوسی کے اڈے (امریکی سفارتخانے) پر قبضے کے پہلوؤں کو صحیح طریقے سے جانتے اور پہچانتے ہیں؟ کیا وہ آٹھ سالہ جنگ شروع ہونے کی اصل حقیقت سے واقف ہیں؟ اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ہم نے کیوں آٹھ سال تک جنگ کی کہ اتنے سارے جوان مارے گئے تو کیا انھیں اس کا جواب معلوم ہے؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ ایسا ہوا؟ یہ سب بیان ہونا چاہیے، صحیح طریقے سے بیان ہونا چاہیے۔ بحمد اللہ میں دیکھتا ہوں کہ اس سلسلے میں اچھے کام ہو رہے ہیں، بعض کتابوں، بعض تحریریوں اور بعض کاموں کا میں، جہاں تک مجھے موقع ملتا ہے، مشاہدہ کرتا ہوں۔ خیر تو یہ ان مسائل کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔

مغربی ایشیا کے واقعات، تاريخ ساز واقعات

آج ہمیں خطے میں ایک بنیادی اور اہم مسئلہ درپیش ہے۔ یہی مغربی ایشیا سے متعلق مسائل، لبنان کے مسائل، غزہ کے مسائل، غرب اردن کے مسائل، یہ تاریخ ساز واقعات ہیں۔ ان میں سے ہر واقعہ کسی ایک سمت ایک تحریک اور ایک تاریخی حرکت کا منبع بن سکتا ہے۔ اگر شہید سنوار(14) جیسے افراد نہ ہوتے جو آخری لمحے تک لڑتے رہتے تو خطے کا مستقبل کسی اور طرح کا ہوتا، اب کسی اور طرح کا ہے۔ اگر شہید سید حسن نصر اللہ جیسے باعظمت افراد نہ ہوتے جو جہاد، عقل، شجاعت اور ایثار و فدارکاری کو ایک ساتھ میدان جنگ میں لے آئے تو حرکت کسی اور طرح کی ہوتی، اب جب ایسے لوگ ہیں تو، حرکت کسی اور طرح کی ہے۔ یہ باتیں بہت اہم ہیں۔

اپنے اہداف کے حصول اور مزاحمتی محاذ کو ختم کرنے میں صیہونی حکومت کی ناکامی

جو چیز آج تک رونما ہوئي ہے، وہ ایک بڑی شکست ہے، صرف صیہونی حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ مغربی تمدن کے لیے، مغربی ثقافت کے لیے، مغرب کے دعووں کے لیے، ان کی ایک بڑی شکست ہوئي ہے۔ صیہونی حکومت کو شکست ہوئي اس لیے کہ وہ سوچ رہی تھی کہ بڑی آسانی سے مزاحمتی گروہوں کو، مزاحمت کو ختم کر دے گي، مٹا دے گي، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس نے پچاس ہزار سے زیادہ نہتے اور عام لوگوں کو شہید کیا ہے، مزاحمت کے کئي بڑے رہنماوؤں کو شہید کیا ہے لیکن مزاحمتی محاذ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں پڑا، مزاحمتی محاذ اسی طاقت کے ساتھ، اسی عزم کے ساتھ آج لڑ رہا ہے، کیا یہ صیہونی حکومت کی شکست نہیں ہے؟ یہ بہت بڑی شکست ہی تو ہے۔ اتنے پیسے بہائے، اتنی زیادہ کوششیں کیں، امریکا اپنی طاقت کے ساتھ ان کی مدد کے لیے آيا، بہت سے یورپی ممالک بھی آئے، صیہونیوں نے اتنے زیادہ جرائم کیے، پوری دنیا میں ان کی امیج اتنی سیاہ، بری اور نفرت انگيز ہو گئي کہ امریکا تک کی سڑکوں پر ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے، امریکا کی یونیورسٹیوں میں ان کے خلاف ریلیاں نکالی گئيں، جبکہ مزاحمتی گروہ بدستور باقی ہیں، حماس ہے، جہاد (اسلامی) ہے، حزب اللہ ہے، غرب اردن کے لوگ اور لڑنے والے جوان ہیں، دوسری جگہوں پر بھی لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک بڑی شکست ہے، یہ سب سے بڑی شکست ہے۔

مغربی ایشیا کے واقعات میں مغربی تمدن اور مغربی ثقافت کی شکست

لیکن صرف یہی نہیں ہے، اس سے بھی بڑی شکست، مغربی ثقافت کی شکست ہے، مغرب والوں نے دکھا دیا کہ ان کچھ برسوں میں یا کچھ صدیوں میں جو وہ انسانی حقوق اور حقوق بشر وغیرہ کا دم بھرتے ہیں، وہ سفید جھوٹ ہے؛ اس جنگ نے اسے دکھا دیا، اسے ثابت کر دیا، دس ہزار بچے قتل کر دیے گئے، کوئي مذاق ہے؟ بچہ، معصومیت کا مظہر ہے، لطافت کا مظہر ہے، وہ بنیادی نقطہ ہے جو انسانی جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے، ایسے دس ہزار معصوم بچوں کو اسرائيل نے دو ٹن والے بموں اور طرح طرح کے ہتھیاروں سے مار دیا اور مغرب والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگي۔ مغربی سیاستداں رسوا ہو گئے، مغرب کی سیاست ذلیل ہو گئی، انھیں شکست ہو گئي، یہ ایک بڑی شکست ہے۔ اب کوئي مغربی تمدن کی بات نہ کرے! مغربی تمدن یہ ہے۔ یہ مغربی تمدن ہے جس کے لیے اس بات کی کوئي اہمیت نہیں ہے کہ اپنے لوگوں سے مختلف طریقوں سے پیسے لے اور اسے چھوٹے اور معصوم بچوں کو قتل کرنے کے لیے بھیج دے، گھرانے تباہ ہو جائيں، دسیوں ہزار بچے شہید ہو جائيں، کئي ہزار بچے یتیم ہو جائيں، یہ مغربی تمدن ہے۔ اب اگر کوئي مغربی کلچر پر اعتراض کرے اور اسے بے حیثیت بتائے تو کسی کو اس کی ملامت نہیں کرنی چاہیے کہ جناب آپ ایسا نہ کہیے، نہیں، مغربی کلچر یہ ہے، مغربی تمدن یہ ہے، اسی کا نتیجہ ہے۔ یہ مغرب کو ہونے والی سب سے بڑی شکست ہے۔

صیہونی حکومت کے پشت پناہ شیطنت کے محاذ کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی صف آرائي

صیہونی حکومت کی پشت پر ایک شیطانی محاذ ہے، ایک شیطانی محاذ نے صیہونی حکومت کی پشت پناہی میں صف آرائي کر رکھی ہے اور مزاحمتی محاذ، اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں ہے۔ یہ مزاحمتی محاذ، اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے اور خداوند عالم کی توفیق سے فتح، مزاحمتی محاذ کی ہی ہے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں شیراز کے امام جمعہ اور کانفرنس کی پالیسی میکر ٹیم کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین لطف اللہ دژکام اور صوبۂ فارس میں سپاہ فجر کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری جنرل بریگیڈیر ید اللہ بو علی نے کچھ باتیں بیان کیں۔
  2. سورۂ بقرہ، آيت 165، مگر جو صاحب ایمان ہیں وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت کرتے ہیں۔
  3. سورۂ مائدہ، آيت 54، جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔
  4. سورۂ نساء، آيت 74، اللہ کی راہ میں ان لوگوں کو جنگ کرنا چاہیے۔
  5. سورۂ نساء، آيت 76، جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔
  6. سورۂ فتح، آيت 29، وہ کافروں پر سخت ہیں۔
  7. سورۂ فتح، آيت 29، وہ آپس میں مہربان ہیں۔
  8. محترمہ معصومہ کرباسی اور ان کے شوہر جناب رضا عواضہ (لبنانی شہری) 19 اکتوبر 2024 کو لبنان میں صیہونی حکومت کے ڈرون حملے اور ان کی گاڑی پر راکٹ فائر کیے جانے کے سبب شہید ہو گئے۔
  9. حافظ کی ایک غزل کے مقطع کی طرف اشارہ: عشقت رسد بہ فریاد، ار خود بہ سان حافظ / قرآن ز بر بخوانی در چاردہ روایت (حافظ اگر تم قرآن کو چودہ روایتوں کے مطابق بھی پڑھتے ہو تب بھی حق تک پہنچنے کی راہ عشق و محبت ہی ہے۔)
  10. حافظ کی ایک غزل کا مقطع: صبح خیزی و سلامت طلبی چون حافظ / ہرچہ کردم ہمہ از دولت قرآن کردم (حافظ کی طرح علی الصباح بیدار ہونا اور صحت طلب کرنا، میں نے جو کچھ بھی کیا وہ قرآن کی دولت سے کیا۔)
  11. فضائيہ کے ایک پائلٹ شہید عباس دوران جو بغداد پر حملے کے اپنے مشن کے دوران شہید ہوئے۔
  12. صوبۂ فارس میں سپاہ فجر کے کمانڈر
  13. رضا قلی خان ہدایت، ریاض العارفین، صدر شیرازی
  14. حماس کے پولیت بیورو کے سربراہ شہید یحییٰ سنوار جو 17 اکتوبر 2024 کو غزہ میں صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔