قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترقی و مساوات کے مواقع، میدانوں اور ضرورتوں کی وضاحت اور استعمال و خرچ کے معیار میں اصلاح کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے دسویں دور کے صدارتی انتخابات کے موضوع پر گفتگو کی اور ساتھ ہی ایران اور امریکہ کے مسئلے کا جائزہ لیا۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران دستیاب مواقع اور تیاریوں کی بنا پر انقلاب کے چوتھے عشرے کو بنیادی ترین ہدف یعنی ترقی و مساوات کی سمت پیشرفت کے اہم قدم اور چھلانگ میں تبدیل کر دے گی۔ فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں منعقدہ اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے عید نوروز اور سال نو کی مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ دسیوں لاکھ تعلیم یافتہ دانشمند اور بلند ہمت نوجوانوں کی موجودگی، در پیش مسائل سے نمٹنے کے سلسلے میں حکام، عہدہ داروں اور برجستہ شخصیات کے گراں قدر تجربات جو آئین کی دفعہ چوالیس پر عملدرآمد، سبسڈی کو با ہدف بنانے اور صوبوں اور دور دراز کے علاقوں کے دورے کرنے جیسے اہم فیصلوں پر منتج ہوئے اور مختلف سائنسی اور مواصلاتی شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کی تکمیل کا باعث بنے، ایسے عوامل کا درجہ رکھتے ہیں جن کی مدد سے ملک کی زیادہ تیز رفتاری پیش قدمی کے لئے تیاریاں مکمل ہوئی ہیں اور اس طرح چوتھا عشرہ جو آج سے شروع ہوا ہے، منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوششوں کے زیر سایہ حقیقی معنی میں ترقی و مساوات کا عشرہ بن جائےگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ترقی و مساوات پر باہم توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید فرمائی اور طبقاتی فاصلے مٹانے، وسائل اور مواقع سے استفادے میں مساوات اور ملک کے مختلف علاقوں کے وسائل و امکانات میں فاصلے اور فرق کو ختم کرنے کی کوششوں کو مساوات و انصاف کا حقیقی معیار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان بڑی ارزوؤں کی تکمیل دشوار لیکن ممکن ہے اور اجتماعی کوشش، بلند ہمتی اور قوت ارادی کے ساتھ ہمیں اس منزل تک پہنچنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسراف و فضول خرچی سے پرہیز اور استعمال و خرچ کے معیار کی اصلاح کو ایک عقلی اور دینی مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ فضول خرچی سے اجتناب اور حقیقی کفایت شعاری صرف کہنے سے ممکن نہیں بلکہ مقننہ اور انتظامیہ کا فریضہ ہے کہ درست قانون سازی اور اس کے صحیح نفاذ و نگرانی کے ذریعے پیداوار، استعمال اور بازیابی کے مراحل میں مثالی استعمال کے معیار کی اصلاح پر توجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے اسے اسلامی نظام کا ایک ستون قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریت صرف بیان سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے عوام کی شراکت، ارادے اور تعاون کی ضرورت ہے اور ملک کی تبدیلیوں سے عوام کا جذباتی و فکری رابطہ ضروری ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب وسیع البنیاد انتخابات منعقد ہوں اور اس میں بھرپور عوامی شرکت ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات ملک کے صحیح انتظام اور تابناک مستقبل کے حصول کے لئے قوم کی سرمایہ کاری اور ڈپوزٹ ہے اور بیلٹ باکس میں پڑنے والا ہر ووٹ اہم ہے اور اس سے اس قومی سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ نے انتخابات کے امیدواروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : آپ توجہ رکھئے کہ انتخابات محض اقتدار کے حصول کا وسیلہ نہیں بلکہ ملک کی توانائی اور صلاحیت کے ارتقاء کا ذریعہ ہے، قومی اقتدار کی مضبوطی اور قوم کی سربلندی کا ذریعہ ہے، بنابریں اپنے انتخابی مشن میں ان مسائل کو اہمیت دیجئے اورایسا نہ ہو کہ کوئی اپنی انتخابی تحریک میں ایسی بات یا ایسا کوئی کام کر دے جس سے دشمن کی امید بڑھ جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایران اور امریکہ کے مسئلے کا جائزہ لیا۔ آپ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ سے متعلق پالیسی اور حکمت عملی کو انقلاب کے آغاز سے ملت ایران اور اسلامی نطام کا امتحان قرار دیا اور اسلامی نطام کے ساتھ امریکہ کی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں ہی حکومتوں کی بد سلوکی اور دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مخالفین کو اشتعال دلانا اور ملک کی تقسیم کی تحریکوں اور دہشت گردانہ اقدامات کی مدد اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی پہلی حکمت عملی تھی اور ٹھوس اطلاعات کے مطابق ایران-پاکستان سرحدی علاقوں کے شر پسند عناصر کے تعاون سے امریکہ کی یہ پالیسی اب بھی جاری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے اربوں ڈالر کے سرمائے اور سامان کو ضبظ کر لینے کے امریکہ کے فیصلے کو صدام کے لئے ایران پر حملے کا سبز چراغ قرار دیا اور آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران حکومت صدام کی مکمل حمایت کو جو اس سرزمین کے تقریبا تین لاکھ افراد کی شہادت پر منتج ہوئی اسی طرح مسلط کردہ جنگ کے آخری سال میں ایران کے مسافر بردار طیارے پر میزائل سے حملے اور تقریبا تین سو مردوں عورتوں اور بچوں کے قتل عام کو ملت ایران کے خلاف امریکہ کے دیگر مخاصمانہ اقدامات سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ کیا کبھی بھی ملت ایران ان باتوں کو فراموش کر سکتی ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران پر تیس سال سے جاری پابندیوں، ایران میں بہت سے لوگوں کو قتل کر دینے والے دہشت گردوں کی امریکہ کی جانب سے حمایت اور ایران پر حملے کی دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے ملت ایران سے امریکہ کی بے تکان دشمنی کا ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ گزشتہ تیس برسوں میں امریکی حکام نے بار بار ملت ایران اور ایران کے حکام کی شان میں گستاخی کی ہے حتی بعض نے تو اس عظیم قوم کی بیخ کنی تک کی بات کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ میں نئی حکومت کی تشکیل اوراقتدار میں نئے صدر کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ایران کی جانب ہاتھ بڑھایا ہے جبکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر امریکہ نے مخملیں دستانے کے اندر سخت ہاتھ پنہاں کر رکھا ہے تو یہ اقدام بے معنی و بے ارزش ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کی جانب سے ملت ایران کی عید نوروز کی مبارکباد پیش کئے جانے کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مبارکبادی کے اس پیغام میں بھی ملت ایران کو دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیاروں کا حامی قرار دیا گيا ہے۔ تو کیا یہ مبارکباد ہے یا الزام تراشی کا وہی پرانا سلسلہ۔
قائد انقلاب اسلامی نے مذاکرات اور نئے امریکی صدر کے تبدیلی کے نعرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر انداز تخاطب کے علاوہ آپ کے ہاں کوئی حقیقی تبدیلی ہوئی ہے تو ہمیں دکھائیے۔ کیا ملت ایران سے آپ کی دشمنی ختم ہو گئی ہے؟ کیا آپ نے ملت ایران کا ضبط شدہ سرمایہ واپس کر دیا ہے؟ کیا آپ نے پابندیاں اٹھا لی ہیں؟ کیا آپ نے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت کا سلسلہ روک دیا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تبدیلی صرف لفاظی نہیں بلکہ نیک نیتی پر استوار ہونا چاہئے اور اگر آپ نے پرانے اہداف کو ہی ذہن میں رکھا اور صرف ٹیکٹک تبدیل کی تو یہ فریب کہلائے گا تبدیلی نہیں۔ اگر آپ حقیقتا تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کے عمل میں وہ نظر آنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کو مشورہ دیا کہ وہ عالمی رای عامہ کے نزدیک امریکہ کے قابل نفرت بن جانے کی وجہ پر غور کریں۔