قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج سہ پہر کو یونیورسٹیوں اور اعلی تعلمی مراکز کے ایک ہزار طلباء نے بڑی اپنائیت کے ماحول میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں طلباء نے سیاسی، سماجی، علمی ، ثقافتی ، اقتصادی اور یونیورسٹیوں کے مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔ ملاقات کا آغاز سہ پہر 5 بجے سے ہوا اوراس کا سلسلہ نماز مغرب و عشا تک جاری رہا۔ طلباء کی مختلف یونینوں کے 12 نمائندوں نے اپنے مسائل، مطالبات اور موقف کو پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بیان شدہ مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئے اہم نکات بیان کئے، حقائق اور اہداف کی تشریح، طلباء کی ذمہ داریوں، فرائض اور یونیورسٹیوں میں جوش و جذبہ و نشاط پیدا کرنے کی راہوں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے ساتھ اپنی ملاقات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اس ملاقات میں بیان شدہ موضوعات اور مطالب کو پختہ اور نپے تلے موضوعات سے تعبیر کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو طلباء کی تجاویز پر عملدرآمد کے طریقوں کا جائزہ لینے کی سفارش فرمائي۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے اعتدال کے معنی کے سلسلے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ منتخب صدر محترم نے اس نعرے کو پیش کیا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے اس نعرے اور اعتدال کے معنی اور مفہوم کو بھی بیان کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے منتخب صدر کی حکومت کے ساتھ تعاون پر مبنی سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ تمام حکومتوں کے ساتھ تعاون جاری رہا ہے اس حکومت کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایسا کرےگی تو تعاون کریں گے ورنہ تنقید کریں گے، میں تنقید کے خلاف نہیں ہوں لیکن تنقید اور عیب جوئی میں بڑا فرق ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کام کرنے، سعی و کوشش اور خدمت کا موقع دینا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مجریہ کے کام کو حقیقت میں سخت اور دشوار کام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کوئی خامی موجود نہ ہو، لہذا توقعات کو اتنا نہیں بڑھانا چاہئے کہ ان پر پورا اترنا انسان کی توانائی سے خارج ہو جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حقائق اور مشکلات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام سرگرم سیاسی جماعتوں اور یونیورسٹیوں کے افراد کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تمام اموردرست اور صحیح طریقے سے انجام پائیں۔ ایک اور طالب علم نے سیاسی اور سماجی تجزيہ و تحلیل کی بنا پر طلباء کے درمیان کینہ، عداوت اورکدورت پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی کہ سیاسی اور سماجی تجزيہ و تبصرے کو دشمنی اور کدورت میں نہیں بدلنے دینا چاہئےآپ نے فرمایا کہ مختلف فکر اور نظرئے کے حامی طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی امور کے تجزيہ کو خصومت، دشمنی اور بغض و کینہ میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی سفارش کے مطابق دینی طلباء کی طرح رہیں جو مباحثہ کے وقت بہت ہی بڑے سخت نظر آتے ہیں لیکن دوسرے اوقات میں آپس میں ایک دوسرے سے بڑی محبت اور اپنائیت سے پیش آتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے سن 1388 ہجری شمسی مطابق 2009 کے فتنہ کے بارے میں بعض طلباء کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس تلخ و ناگوار واقعہ میں کچھ لوگ قانون شکنی پر اتر آئے اور وہ قانون کے مد مقابل میں کھڑے ہو گئے جس کی وجہ سے ایران کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ ممکن ہے کہ ایک بڑے واقعہ کے ساتھ کچھ دوسرے واقعات بھی رونما ہوں جن میں ایک شخص ظالم یا مظلوم واقع ہو جائے لیکن ہر حال میں اس مسئلہ کی بنا پر ان دیگر مسائل کی قانونی راہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں بنیادی اور اساسی سوال اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں دھاندلی کے مدعی افراد نے قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سڑکوں کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم نے متعدد بار اس سوال کو عام اجتماعات میں پیش کرنے کے بجائے جواب کی شکل میں پیش کیا ہے پھر وہ کیوں جواب نہیں دیتے اور معذرت طلب نہیں کرتے ہیں؟ قائد انقلاب اسلامی نےفرمایا: وہ خصوصی نشستوں میں انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں پھر انھوں نے کس بنا پر ملک کو اتنے بڑے نقصان اور خطرے سے دوچار کیا؟
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بعض علاقائی ممالک میں بحران اور خونریزی کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر سن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت شامل حال نہ ہوتی اور عوامی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہو جاتے تو ملک کو کیسے سخت اور ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا؟! البتہ اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی اور قوم نے بھی بصیرت سے کام لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے سخت برتاؤ پر مبنی سوال کے جواب میں فرمایا کہ منطقی بحث میں قطعیت اور سختی در حقیقت سنجیدگی اور استقامت سے عبارت ہے اور یہ قابل قبول امر ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر سختی کرنے سے مراد طاقت اور زور کے بل بوتے پر کسی چیز کی مخالفت ہو تو میں اس کے خلاف ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے تمام اداروں بالخصوص پارلیمنٹ، عدلیہ اور ریڈیو ٹی وی پر نگرانی کے سسٹم کے بارے میں سوال کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ پر نگرانی اور نظارت کیسے ہو یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور فعال طلباء اس سلسلے میں کام کر سکتے ہیں اور اپنی تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کچھ سوالات اور ان کے جوابات پیش کئے اور طلباء پر زوردیا کہ وہ یونیورسٹیوں میں ان موضوعات کے بارے میں بحث اور تبادلہ خیال کریں۔
پہلا سوال: انقلاب کے اہداف کے ساتھ انقلابی عنصر اور طالب علم کی نسبت کیا ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر انقلاب کے اہداف کی تشریح اور معاشرتی حقائق کے ساتھ ان کی نسبت کے بارے میں بحث کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں کی ہمت، شجاعت، نشاط اور طاقت کے بغیر انقلاب کے اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نوجوانوں کے کردار پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا چاہیے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کے اندر گرہیں کھولنے کی طاقت اور توانائی موجود ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کے اہداف اور اصولوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کئی اہداف اور اصولوں پر مشتمل ہے اور ان تمام اہداف تک پہنچنے کےسلسلے میں سعی و کوشش کی ضرورت ہے، لیکن ان اہداف کے مختلف درجات اور مراحل ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عادلانہ، پیشرفتہ اور معنوی معاشرے کو اسلامی نظام کے سرفہرست اہداف میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عادلانہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں حکام کی رفتار منصفانہ اور عادلانہ ہوتی ہے اورعوام بھی ایک دوسرے کے ساتھ عدل و انصاف کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ علمی سیاسی اور ثقافتی سطح پر بھی پیشرفتہ اور معنوی لحاظ سے بھی مالامال ہوتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایسے اہداف تک پہنچنے کو ممکن اور قابل عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تک اس سلسلے میں اہم اور اچھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور ایسا معاشرہ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اصلی اہداف کے بعد اسلامی نظام کے بعض دیگر اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پائیدار اور مزاحمتی اقتصاد، معاشرے میں امن و سلامتی، پیشرفتہ صنعت و پیشرفتہ زراعت، بارونق و با نشاط تجارت، علمی پیشرفت، عالمی سطح پر سیاسی اور ثقافتی نفوذ یہ سب کے سب اسلامی نظام کے اہداف ہیں جو عملی ہو سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دوسرا سوال حقائق کے ساتھ اہداف کی نسبت کے بارے میں طلباء کے سامنے پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مثال کے طور پراقتصادی پابندیاں ایک حقیقت ہیں اور دوسری طرف اقتصادی ترقی و پیشرفت انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اقتصادی پیشرفت کیسے ممکن ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقائق کے ساتھ اہداف اور اصول کے موضوع میں ہمیں اصول و ہدف کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت پر توجہ کئے بغیر ہدف وہم اور خیالی تصور میں تبدیل ہو جائے گا، البتہ اصلی حقائق میں اورمصنوعی حقائق میں نمایاں فرق ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے نفسیاتی جنگ میں غیر واقعی حقائق کو پیش کرنے کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بصیرت کا ایک اہم کام یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اس کو حقیقت کے طور پر دیکھے اور اس میں کسی غلطی اور اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض حقائق کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور بعض دیگر حقائق کو نظر انداز کرنے کو نفسیاتی جنگ کی دوسری ٹیکٹک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مثال کے طور پر ایک حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز دانشور ملک سے باہر جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ملک میں دانشور طلباء کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن دشمن کے پروپیگنڈے میں پہلی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس بحث کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا کہ حقائق پر نظر رکھنے والے طلباء کامیابی اور ناکامی کسی بھی حالت میں مایوس اور پسپا نہیں ہوتے ہیں کیونکہ صحیح اصولوں پر گامزن رہنے میں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عزیز طلباء سے مجھے توقع یہ ہے کہ وہ تمام حالات میں حقیقت پسندانہ نگاہ کے ساتھ اہداف کی جانب گامزن رہیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے تیسرے سوال کو اس طرح پیش کیا، فریضہ و ذمہ داری اور نتیجے تک پہنچنے کا باہمی رابطہ کیا ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے معروف جملے ہم ذمہ داری اور فریضہ انجام دینے کی کوشش میں ہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کئی سال تک ان تمام سختیوں اور زحمتوں کو برداشت کرنے کے باوجود نتیجے کی تلاش میں نہیں تھے؟ یقینی طور پر ایسا سوچنا غلط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فریصے اور ذمہ داری پر صحیح عمل یہ ہے کہ انسان مطلوب نتیجے تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور فریضے پر عمل کرے اور غلط اور غیرذمہ دارانہ کام کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر انسان نتیجہ تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور فریضے کی بنیاد پر عمل کرےگا تو اگر وہ مطلوبہ نتیجے تک نہ بھی پہنچ پائے تو بھی اسے پشیمانی اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا۔ فریضے پرعمل اور نتیجے کی تلاش میں رہنے میں کوئی منافات نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد یونیورسٹیوں میں جوش و جذبے اور شوق و نشاط کے موضوع پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے مختلف سیاسی، سماجی اور علمی شعبوں میں شوق و نشاط کی فضا کو نمایاں رہنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو ملک کے مختلف سیاسی مسائل میں تحقیق و جستجو کا اہم مرکز قراردیتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹیوں میں مختلف داخلی اور عالمی مسائل کے صحیح فہم و ادراک اور تجزیہ و تحلیل کا طریقہ شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم راستہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اصلی مسائل کی شناخت و پہچان اور انھیں فروعی اور جزوی مسائل سے جدا کرنے اور غیر ترجیحی مسائل میں سرگرم نہ الجھنے کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا دوسرا راستہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے طلباء شوق انگیز اور تعمیری مباحث کے ذریعہ مسائل کی ترجیحات کی بنیاد پر درجہ بندی میں ملکی حکام کی مدد کر سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی جہاد کے موضوع کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم مصداق قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اقتصادی جہاد ملک کے اہم مسائل میں ہے اور یونیورسٹی کے طلباء اس موضوع کے بارے میں تحقیق کرکے ملک کی پیشرفت میں بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں۔