قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اہل بیت عالمی اسمبلی اور اسلامی ملکوں کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کی یونین کے اجلاس کے مندوبین اور علما و دانشوروں سے ملاقات میں کہا کہ علاقے میں استکبار کی سازشوں کا مقابلہ جہاد فی سبیل اللہ کا واضح مصداق ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے نتائج سے غلط فائدہ اٹھانے اور ایران میں سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی اثر و رسوخ قائم کرنے کی امریکی کوششوں کا سنجیدگی سے مقابلہ کئے جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا: علاقے میں سامراج کے منصوبے تفرقہ انگیزی اور اپنا اثر قائم کرنے جیسے دو ستونوں پر استوار ہیں، چنانچہ صحیح دفاعی اور اقدامی منصوبوں کے ذریعے ہوشیاری سے اس کا دائمی طور پر مقابلہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اہل بیت (علیہم السلام) عالمی اسمبلی کے چھٹے اجلاس کے انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اہل بیت پیغمبر صلوات اللہ اجمعین کے اتباع کا لازمہ اسلامی تعلیمات کی ترویج، احکام الہیہ کا نفاذ، پورے وجود سے راہ خدا میں جدوجہد اور ظلم و ظالم کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ راہ خدا میں جہاد کے معنی صرف جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ اس میں ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مقابلہ آرائی بھی شامل ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج راہ خدا میں جہاد کا عینی مصداق، اسلامی خطے اور خاص طور پر مغربی ایشیا کے حساس اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقے میں استکبار کی سازشوں کی شناخت اور اس کے مقابلے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہے اور اس مقابلہ آرائی میں دفاعی اور اقدامی دونوں منصوبے شامل ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ سو سال کے دوران اس علاقے میں جاری رہنے والی استکبار کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگرچہ اسلامی خطے میں استکبار کی سازشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد سازشوں اور دباؤ میں زیادہ شدت آ گئی تا کہ اس انقلاب کا تجربہ دوسرے ملکوں میں دہرایا نہ جائے۔ آپ نے مزید فرمایا: گزشتہ پینتیس سال سے اسلامی جمہوری نظام دائمی بنیادوں پر دھمکیوں، پابندیوں، سیکورٹی دباؤ اور گوناگوں سیاسی سازشوں کی زد پر رہا ہے اور ملت ایران کو اس دباؤ کی عادت پڑ چکی ہے، تاہم چند سال قبل شمالی افریقا سے اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے کے بعد سے دشمن کی سراسیمگی کی وجہ سے مغربی ایشیا کے علاقے میں دشمن کی سازشوں میں اور بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن اس تصور میں ہیں کہ اسلامی بیداری کی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہو جائيں گے، لیکن یہ تحریک کچلی جانے والی نہیں ہے، بلکہ یہ بدستور جاری ہے اور کبھی نہ کبھی اپنی حقیقت کو ظاہر کر دے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی نظام اور اس میں سر فہرست ریاستہائے متحدہ امریکا کو دشمن کے مفہوم کا حقیقی مصداق قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ امریکا انسانی اخلاقیات سے پوری طرح بے بہرہ ہے اور بڑے خوبصورت الفاظ اور مسکراہٹ کی آڑ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خباثتیں اور جرائم انجام دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد موجودہ حالات میں دشمن کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سازش اختلاف بھڑکانے اور اپنا نفوذ قائم کرنے جیسے دو ستونوں پر استوار ہے۔ اختلاف انگیزی کے لئے دشمن کے منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ حکومتوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا اور اس سے زیادہ خطرناک سازش قوموں کے درمیان تنازعہ کھڑا کر دینا استکبار کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق موجودہ دور میں قوموں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانے کے لئے شیعہ اور سنی جیسے عناوین کو استعمال کیا جا رہا ہے اور برطانوی تفرقہ انگیزی میں ماہر ہیں جبکہ امریکی ان کے شاگرد ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ خونخوار و ظالم تکفیری گروہ کہ امریکیوں نے جن کی تشکیل میں اپنا ہاتھ ہونے کی بات قبول بھی کی ہے، قوموں کے درمیان بظاہر مذہبی اختلافات پیدا کرنے کا سب سے اہم حربہ ہیں اور بد قسمتی سے بعض سادہ لوح مسلمان بے بصیرتی کی وجہ سے اس سازش کے فریب میں آ جاتے ہیں اور دشمن کے منصوبے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس کی واضح مثال شام کا مسئلہ ہے۔ آپ نے فرمایا: جب تیونس اور مصر میں طاغوتی حکومتیں اسلامی نعروں کی گونج سے سرنگوں ہو گئیں تو امریکیوں اور صیوہنیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مزاحمتی محاذ میں شامل ممالک کو نابود کرنے کے لئے اس حربے کو استعمال کیا جائے، اسی لئے وہ شام کی طرف بڑھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شام کا بحران شروع ہو جانے کے بعد کچھ بے بصیرت مسلمان دشمن کی سازش کا جز بن گئے اور دشمن کے منصوبے کا حصہ بن کے انھوں نے مملکت شام کی یہ حالت کر دی۔
آپ نے زور دیکر کہا کہ آج جو کچھ عراق، شام، یمن اور دیگر علاقوں میں رونما ہو رہا ہے اور جسے مذہبی جنگ کا نام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہرگز مذہبی جنگ نہیں بلکہ سیاسی رسہ کشی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج سب سے بڑا فریضہ ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ آپ نے فرمایا: ہم نے صریحی طور پر اور اعلانیہ کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران علاقے کی تمام حکومتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلاتا ہے اور اسے کسی بھی مسلمان حکومت سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اکثر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے دوستانہ تعلقات ہیں، البتہ بعض ممالک ہیں جن سے ہمارے اختلافات ہیں اور وہ ضد اور خباثت پر تلے ہوئے ہیں، لیکن ایران ہمسایہ ممالک، اسلامی حکومتوں اور خاص طور پر علاقے کی قوموں سے اچھے روابط کا خواہشمند ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقدامات کی بنیاد وہ اصول ہے جس کی پابندی کرکے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور استحکام کی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے «اشداء علی الکفار و رحماء بینهم» (مومنین کفار کے سلسلے میں بہت سخت اور آپس میں بہت رحمدل ہوتے ہیں) کو اسلامی نظام کا بہت محکم اصول قرار دیا اور زور دیکر فرمایا: ہم اپنے عظیم قائد رضوان اللہ تعالی علیہ سے ملنے والے سبق اور اسلامی جمہوریہ کی مسلمہ سمت و جہت کی بنیاد پر استکبار سے کوئی مفاہمت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جبکہ مسلم بھائیوں کے ساتھ دوستی و رفاقت کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ہم مظلوم کی حمایت کے مسئلے میں مذہب کو بنیاد نہیں بناتے اور جس طرح لبنان میں اپنے شیعہ بھائیوں کی حمایت ہم نے کی، غزہ میں اپنے سنی بھائیوں کی بھی اسی طرح پشت پناہی کی ہے اور ہم مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا اولیں مسئلہ سمجھتے ہیں۔
مغربی ایشیا کے اسلامی علاقے میں دشمن کی سازش کے پہلے ستون یعنی تفرقہ انگیزی کے سلسلے میں اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ دنیائے اسلام میں اختلاف کو ہوا دینا ہماری نظر میں ممنوع ہے اور ہم ایسے ہر اقدام کے خلاف ہیں جو اختلاف کا باعث بنے خواہ وہ بعض شیعہ گروہوں کی جانب سے ہی کیوں نہ انجام دیا جائے اور ہم اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی مذمت کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے ممالک میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کو منحوس امریکی سازش کا دوسرا اہم حصہ قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ریاستہائے متحدہ امریکا اس علاقے میں دسیوں سال سے چلے آ رہے اپنے اثر رسوخ کو بحال کرنے اور ختم ہو چکی آبرو کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی مذاکرات کے نتائج کا غلط فائدہ اٹھانے کی امریکی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اس اتفاق رائے کو جس کا انجام ایران یا امریکا میں ہنوز واضح نہیں ہے اور اس کے قبول یا مسترد کر دئے جانے کے بارے میں ابھی کچھ بھی معلوم نہیں ہے، امریکی ایران میں اپنے اثر و نفوذ کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں، مگر ہم نے اس راستے کو سختی کے ساتھ بند کر دیا ہے اور اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لاکر ہم امریکیوں کو ایران میں اقصادی، سیاسی، ثقافتی یا سیاسی دراندازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسیوں کو اس علاقے کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں سے بالکل مختلف قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی، علاقے کے ملکوں کی تقسیم اور چھوٹے چھوٹے تابعدار ممالک کی تشکیل کی کوشش میں ہیں، لیکن اللہ کی نصرت و مدد رہی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عراق کو تقسیم کرنے کی امریکی کوششوں کے بارے میں اپنے انتباہات کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد پہلے ان انتباہات پر تعجب کرتے تھے لیکن آج امریکی صریحی طور پر عراق کی تقسیم کی بات کر رہے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ عراق کی تقسیم اور اگر ممکن ہو تو شام کی بھی تقسیم امریکیوں کا طے شدہ ہدف ہے لیکن علاقے کے ملکوں، عراق اور شام کی ارضی سالمیت ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکی حکومت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسیوں کے ٹکراؤ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران علاقے میں مزاحتمی تنطیموں منجملہ فلسطین کے مزاحتمی محاذ کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور اسرائیل کے خلاف جد و جہد کرنے والے اور صیہونی حکومت کی سرکوبی کے لئے کوشاں ہر شخص کی حمایت کرتا رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا اور اختلافات کو ہوا دینے والے مراکز کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کے مقابلے کو ایران کی بنیادی حکمت عملی قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ہم اس تشیع کو جس کا تشہیراتی مرکز اور ٹھکانا لندن ہے اور جو استکبار کا راستہ صاف کرنے کا کام کرتا ہے، سرے سے تشیع ہی نہیں مانتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے تمام مظلومین منجملہ بحرین اور یمن کے عوام کی حمایت و پشت پناہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بے بنیاد دعوے کئے جاتے ہیں ان کے بالکل برخلاف ہم ان ملکوں میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے ہیں، لیکن مظلوم عوام کی حمایت ہم جاری رکھیں گے۔
آپ نے یمن کے مظلوم عوام کے قتل عام اور ملک کی مسماری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض سیاسی اہداف کے حصول کی کوشش وہ بھی احمقانہ روشوں کے ذریعے، یمن کے عوام کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے جاری رہنے کا سبب بنی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ عالم اسلام کے دیگر علاقوں منجملہ پاکستان اور افغانستان میں بھی دردناک واقعات رونما ہو رہے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ بصیرت و ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ان مشکلات کا تصفیہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کی یونین کو امریکی اور صیہونی ذرائع ابلاغ کے خطرناک سامراج اور پیچیدہ مافیا کے مقابلے کا بہت اہم مرکز قرار دیا اور فرمایا کہ اس تحریک کو تقویت پہنچانے اور اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسلمان عوام کی مرضی و منشا سے اسلامی ملکوں کے اکثر ذرائع ابلاغ کی بہت زیادہ دوری اور ان ذرائع ابلاغ میں استکبار کی خطرناک پالیسیوں پر عملدرآمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ظالموں کا تشہیراتی سامراج غیر جانبداری کے دعوے کرنے کے ساتھ ہی ساتھ تحریف، دروغگوئی اور گوناگوں پیچیدہ روشوں کے ذریعے دنیا کی توسیع پسند طاقتوں کی خدمت کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ استکبار اور اس کے آلہ کار لاکھ رجز خوانی کر لیں، مگر یقینی طور پر مجاہد مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے تعاون کی برکت سے اسلام کی قدرت و عزت کی ضمانت مل چکی ہے اور علاقے کا مستقبل مسلم اقوام کے ہاتھ میں ہے۔
اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے بعض مہمانوں سے قریب سے ملاقات اور گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے اہل بیت عالمی اسمبلی کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن اختری نے اسمبلی کے چھٹے عمومی اجلاس کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ دنیا کے 130 سے زائد ملکوں کے علماء و دانشوروں نے اجلاس میں شرکت کی۔
اسلامی ملکوں کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کی یونین کے سکریٹری جنرل حجت الاسلام کریمیان نے بھی یونین کے اجلاس کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ذرائع ابلاغ کی سطح پر اسلامی معیاروں کے مطابق جدید لب و لہجے کی ترویج، عوام کا اعتماد جیتنا، افرادی قوت کی تربیت پر توجہ، خبروں کی تدوین، تقسیم اور نشر و اشاعت کے لئے نیٹ ورک کی تشکیل اور مندرجات پر نظر رکھنا اسلامی ملکوں کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات کی یونین کی اہم خدمات رہی ہیں۔