نئے شمسی سال1384 کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا خطاب
بسم اللہ الرحمان الرحیم
یا مقلب القلوب و الابصار، یا مدبر اللیل والنھار، یا محول الحول والاحوال، حول حالنا الی احسن الحال
معزز مہمانوں، ایرانی قوم شہدا کے اہل خانہ جانبازوں اور وطن کے دفاع میں اپنے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے جاں نثاروں کو عید نوروز اور سال نو کی آمد کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اسی طرح ان تمام اقوام کی خدمت میں عید نوروز کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو نوروز کا جشن مناتی ہیں۔ ہم ایسے عالم میں نئے شمسی سال تیرہ سو چوراسی میں داخل ہو رہے ہیں کہ جب گذشتہ سال کو ہم نے کچھ تلخ واقعات اور کچھ شیریں واقعات کے ساتھ گذارا۔ اس سال زلزلہ، سیلاب اور آگ لگنے جیسی قدرتی آفات نہ ہوتیں تو ہماری قوم اور بھی شادمانی کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتی۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ نئے سال کو ایرانی قوم کے لئے امن و سلامتی، مسرت وشادمانی اور کامیابی و کامرانی کا سال قرار دے۔ گذشتہ سال جوابدہی کا سال تھا، عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی جوابدہی کا سال، بعض حکام نے بہت مناسب انداز میں اپنے فرائض انجام دئے۔ بہرحال گذشتہ سال کے لئے جوابدہی کا جو ہدف مقرر کیا گيا تھا بنیادی طور پر وہ پورا ہوا، کیونکہ سکے کے دوسرے رخ پر سوالات و مطالبات ہیں، شمسی سال تیرہ سو تراسی کو جوابدہی کا سال قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ قوم کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں اور حکام کویہ احساس ہو کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ جوابدہی اور سوالات و مطالبات کا جذبہ اور عوامی مطالبات کے سلسلے میں ہمارے حکام کی فرض شناسی اور فرائض کی ادائگي سن تیرہ سو تراسی سے ہی مخصوص نہیں تھی، ہر سال ایسا ہی ہونا چاہئے۔ البتہ عوام کے سامنے جوابدہی کی پالیسی کے تعلق سے حکام کی کارکردگي یقینی طور پر مستقبل میں عوام کے مزاج پر اثر انداز ہوگی۔ یہ جو سال آیا ہے، بڑا اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس سال کے دوران ایسے انتخابات ہونے والے ہیں جو ملت ایران کے لئے ایک چار سالہ دور میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اسی طرح اس بیس سالہ منصوبے کے لحاظ سے جسے اسلامی نظام نے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے تیار کیا ہے۔ اسی سال سے بیس سالہ منصوبے کے تحت آئندہ پانچ سال کے پروگرام طے کئے جائيں گے۔ اسی کی بنیاد پر بجٹ تیار کئے جائيں گے اور حکام اسی تناظر میں اپنی کاوشیں اور کوششیں کریں گے۔ اس بنا پر یہ نیا سال انتخابات کے لحاظ سے بھی اور بیس سالہ منصوبے کے تحت پانچ سالہ پروگراموں کے تعین کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام اپنے فرائض کو پور ی ذمہ داری سے محسوس کریں اور مجریہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں، بیس سالہ منصوبے کے تحت عائد ہونے والی بڑی ذمہ داریوں کو ملک کے مستقبل کے لئے ایک عظیم فریضہ تصور کریں۔ اگرچہ اس بیس سالہ منصوبے کے تحت چار سالہ یا اس سے کم مدت کے پروگرام رکھے گئے ہیں تاہم ہر مرحلے کو وطن عزیز اور ملک کے مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے خاص کر ابتدائي برسوں میں اس منصوبے کے اقدامات مضبوطی سے انجام دئے جانے چاہئیں تا کہ ان کی بنیاد پر ایک مستحکم عمارت کھڑی کی جا سکے جو ملک و قوم کے لئے پیش رفت و ترقی کا زینہ ثابت ہو۔ ہمارے عوام اور حکام دونوں کو لئے جو بات اہم ہے وہ باہمی تعاون، قومی اتحاد اور حکام کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں عوامی یکجہتی ہے۔ اس عمل کا بحسن و خوبی آگے بڑھنے کا عمل اور عوام و حکام کے درمیان تعاون ، مطلوبہ اہداف تک رسائی میں ہماری مدد کر سکتاہے ۔ اس بنا پر نئے سال میں ایرانی قوم کا نعرہ ہے قومی یکجہتی اور عوامی تعاون ۔ انتخابات اور ان تمام امور اور منصوبوں میں جو موجودہ حکومت نے طے کئے ہیں یا جسے آئندہ حکومت اپنے ایجنڈے میں جگہ دے گي عوام کی شراکت اور یکجہتی، قومی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں حکومت و عوام کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی سے ایرانی قوم کی شادمانی و کامرانی اور حکام کے لئے قوم کی خدمت کی توفیق کی دعا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ایرانی قوم کے شامل حال ہوں ۔ میں درود بھیجتا ہوں اس قوم کے عظیم امام کی روح مقدسہ پر جس نے اس عظیم نظام کی بنیاد رکھی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ