بسم اللہ الرحمن الرحیم

 آج کی نشست بھی ماضی میں منعقد ہونے والی اس قسم کی نشستوں کی مانند اچھی تھی۔ یونیورسٹیوں کے محترم اساتذہ، طلباء اور اہل علم کا ایک جگہ پر جمع ہونا، اپنی باتیں بیان کرنا، مجھ سمیت حکام اور پھر عوام تک اپنی باتیں پہنچانا خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک مقرر نے کہا کہ نشست میں موجود لوگوں کو پچھلے سال کی نشست میں پیش کیے جانے والے موضوعات کے نتائج کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے۔ ایسا ہونا چاہیے۔ البتہ مجھ سے کہا گيا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں۔
 آج ہونے والی نشست کے بارے میں دو تین مختصر سے نکات عرض کرنا چاہتا ہوں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ نشست اور اس میں ہونے والی باتیں میرے لیے، حکومت کے لیے، عہدیداروں کے لیے اور عوام کے لیے ان شاء اللہ مفید اور گرانقدر ہوں گی۔ اول یہ کہ اس قسم کی نشستوں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں کے بجائے اساتذہ بات کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ جب عہدیدار بات کرتے ہیں یا کوئي مطالبہ کرتے ہیں تو خود انہیں کو ان باتوں کا جواب دینا چاہیے اور انہیں سے مطالبہ ہونا چاہیے۔ یہ، صرف اسی نشست سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ ایک دو نشستوں سے یونیورسٹی کے عہدیدار کچھ ایسی باتیں شکوے کے طور پر کرتے ہیں جن کا جواب درحقیقت خود انہیں کو دینا ہوتا ہے۔ ان سے اوپر والے لوگوں سے ان باتوں کا بہت زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔ یا یہ کہ وہ کچھ ایسی برحق باتیں کرتے ہیں جن کے مخاطب اس جگہ اور اس میٹنگ میں شامل لوگ نہیں بلکہ حکومت ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر ایسی ہی نشست ہو اور اس میں صدر مملکت یا وزیر تعلیم یا وزیر صحت موجود ہوں تو اس نشست میں اس طرح کی باتیں کرنا اچھا ہے لیکن یہاں پر ان باتوں کو پیش کرنے کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ حاضرین تو کچھ نہیں کر سکتے، حقیر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ آپ کی باتوں کو متعلقہ افراد تک منتقل کر دے۔ لیکن جب یونیورسٹی کا استاد کوئی بحث پیش کرتا ہے تو وہ انتظامیہ کی بحث نہیں ہوتی؛ وہ ایسی بحث ہوتی ہے جو علم کی پیشرفت کے لیے، یونیورسٹیوں کے منتظمین کے لیے، سرکاری حکام کے لیے اور میرے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ منتظمین سے زیادہ اساتذہ بات کریں۔
 دوسری بات یہ کہ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹی کی بحث عوامی سطح تک نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ یہ انتہائي بری بات ہے۔ کچھ حضرات نے غیر سرکاری یونیورسٹی کے بارے میں جو باتیں کیں تو ان کا زیادہ تر وقت گلے شکوے میں گزر گیا۔ ان بحثوں کی جگہ پارلیمنٹ کے کمیشن، سرکاری کمیشن، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے متعلقہ کمیشن اور اسی طرح کے دوسرے کمیشن ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ مطالبے ہوں اور حق بھی ہوں، ممکن ہے کچھ تجاويز ہوں اور ان میں سے بعض صحیح بھی ہوں، لیکن ان کی جگہ یہاں نہیں ہے۔ یہاں پر اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہے کہ انسان ایک عمومی جگہ پر اپنے گلے شکوے کو دوسروں تک پہنچا دے۔ البتہ گزشتہ نشستوں میں یہ شکوے اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اس نشست میں دیکھے گئے لیکن میری اپیل ہے کہ عام جگہوں پر اس مسئلے کو مت اٹھائیے۔ غیر سرکاری یونیورسٹی بھی ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کا ہی ایک حصہ ہے، اپنے خوبیوں اور عیوب نیز اصلاح کی راہوں اور مختلف تجاویز کے ساتھ۔ اس   سلسلے میں عہدیداروں کو مناسب سطح پر بحث کرنی چاہیے اور مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
 غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کو جمع کرنے کے جس دفتر کی بات کی گئی وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کے اُس انسٹی ٹیوٹ سے الگ ہے جس کا خیال ہم نے پیش کیا ہے۔ اس دفتر کی تجویز بھی ہم نے ہی پیش کی ہے۔ اس وقت میں ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کا سربراہ تھا اور وہیں پر اس دفتر کی تجویز سامنے آئی تھی۔ اس وقت ہمارے سامنے جو مسئلہ تھا وہ آج ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کافی تعداد میں ڈاکٹر نہیں تھے، یونیورسٹی کے اساتذہ نہیں تھے، اہم کام رکے ہوئے تھے۔ یہی ماہر افراد کو جمع کرنے کا مطلب تھا۔ تمام شعبوں میں ہمراے سامنے مسائل تھے، پڑھے لکھے افراد، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ تھا۔ خوش قسمتی سے آج وہ کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں اور ان کا نتیجہ وہ چیز ہے جسے آپ بیان کر رہے ہیں۔ بحمداللہ آج ملک کے سو فیصد علمی اور سائنسی شعبوں، تجربہ جاتی شعبوں اور دیگر شعبوں میں مختلف قسم کی پیشرفت ہو رہی ہے۔ البتہ جیسا کہ آپ لوگوں نے بارہا کہا اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے ملک کی گنجائش اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات لفاظی نہیں ہے بلکہ میں علمی اور یقینی شواہد کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کا انسٹی ٹیوٹ، جو بدقسمتی سے اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے، اس لیے ہے کہ ملک کے تمام متعلقہ اداروں سے استفادہ کرکے غیر معمولی صلاحیت کے اور ماہر افراد کو ترغیب دلانے اور ان میں اطمینان پیدا کرنے کے احساس کے مسئلے کو برطرف کرے اور ان کی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرے۔
باقی بچے کچھ منٹوں میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معزز اساتذہ اور یونیورسٹی سے متعلق ا فراد کو یہ جاننا چاہیے کہ ٹھوس عقیدہ اس بات پر استوار ہے کہ ملک کی پیشرفت کے تمام بنیادی کاموں میں علمی ترقی و پیشرفت کو سب سے آگے ہونا چاہیے؛ یعنی ملک کا سب سے بنیادی کام، علم و سائنس کے توسط سے انسان کی بنیادی ترقی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو علمی غربت سے دور کرنا ہوگا، یہ ہمارا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے کےتجربے نے بارہا یہ بات ہمارے سامنے ثابت کی ہے۔
 دنیا کی جنگوں اور جغرافیائی نیز سیاسی اختلافات کے ہنگامے میں ایسا ہوا کہ پچھلے عرصے میں مغرب یعنی یورپ ماڈرن سائنس تک جلدی پہنچ گیا۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یورپ والوں کا دماغ اہل مشرق سے زیادہ بہتر کام کرتا ہے اسی طرح سے یہ اس بات کی بھی دلیل نہیں ہے کہ اُن اقوام اور ممالک میں ایسے وسائل موجود ہیں جو جغرافیائي اور دیگر لحاظ سے اِس طرف نہیں ہیں؛ نہیں، ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے، یہ صرف ایک اتفاق تھا جو سامنے آيا۔ ایک زمانے میں مشرق علمی لحاظ سے آگے تھا اور مغرب جہل کی تاریکیوں میں غوطہ زن تھا۔ تاریخ میں یہ مرحلہ بھی گزر چکا ہے۔ وقت کے اس زمانے میں یعنی مغرب میں انسانیت کی جدید علمی و سائنسی تحریک کے زمانے میں جو کام ہوا، اور جو ممکنہ طور پر بے نظیر ہے، یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ علم و سائنس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ ترقی و پیشرفت کے اس ذریعے کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھیں اور اس سے سیاسی اور اقتصادی قوت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں کہ جس میں علم و تمدن ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا رہا ہے، ہمیں اس قسم کی کوئي بات نظر نہیں آتی۔
 سامراج کے ظلم کی چکی میں پسنے والے ممالک کے سلسلے میں ایک کام یہ کیا گيا کہ انہیں علمی و سائنسی لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا۔ عملی طور پر بھی انہیں پیشرفت سے روکا گیا اور معنوی طور پر بھی ان کے ترقی کے جذبات کو کمزور بنایا گیا تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان میں پیشرفت کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ یہ رویہ کافی طویل مدت تک روا رکھا گیا اور ہماری ترقی و پشرفت میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سارے کام علم کے علمبرداروں نے انجام دیئے اور ملکی طاقتوں، مطلق العنان پالیسیوں اور حکومتوں کی نااہلی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا، مسئلے کے اس پہلو کے ہم منکر نہیں ہیں لیکن اُس پہلو نے بھی سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ قاجار دور حکومت میں بڑی شخصیات کی بےتدبیری، کج فہمی، حرص و طمع اور سستی ملک کے حالات پر اثرانداز ہو رہی تھی لیکن جب اسی زمانے میں امیر کبیر جیسا کوئي شخص سامنے آتا ہے اور سیاسی شخصیات کے درمیان علم کی ترقی و پیشرفت اور اس کے اثرات کے کردار کے بارے میں بات کرتا ہے تو دوسرا عنصر، جو بیرونی عنصر ہے، اپنے آپ کو واضح طور پر سامنے لے آتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس شعلے کو خاموش کر دے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس بات کی جانب متوجہ ہیں کہ اگر کسی ملک کو سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنے زیرنگیں رکھنا ہو تو اسے علمی پیشرفت نہیں کرنے دینا چاہیے۔ پہلوی دور حکومت میں بھی یہ بات بالکل اسی انداز میں موجود رہی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں بیان کرنا اور جن کا تجزیہ کرنا طویل المدت کاموں کا حصہ ہے۔ البتہ اس طرح کے کام ہوئے بھی ہیں، یہ صرف دعوے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ دلیل بھی موجود ہے۔
 آج خوش قسمتی سے ہمارا ملک ایسے دور میں ہے جس میں دو باتوں کی مکمل آگہی ہے۔ ایک اپنی صلاحیتوں اور استعداد کی آگاہی اور دوسرے اس بات کی آگاہی کہ ہمارے ملک اور ہمارے جیسے ممالک کو اپنے تسلط میں لینے کی خواہاں طاقتیں ہمارے ملک کی علمی اور سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یعنی اپنی شناخت کے بارے میں آگاہی اور دشمن اور اس کی سازشوں کی شناخت سے آگاہی۔ ان دونوں آگہیوں کی برکت سے اس بات کی امید ہے کہ ہم عظیم علمی پیشرفت کے مدارج طے کریں گے۔
 حال ہی میں میں ایرانی اخبارات و جرائد کا مطالعہ کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ امریکہ میں اعداد و شمار کے ایک اہم ادارے نے امریکہ میں مقیم ایرانیوں یا ان کے بقول ایرانی نژاد امریکیوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی علمی اور سائنسی معلومات امریکی عوام کی اوسط معلومات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ بات بعید نہیں ہے کہ جو لوگ ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے تھے اور ہمارے ملک کی علمی تحریک کو مسائل میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ ایرانیوں کی اس عظیم استعداد اور صلاحیت سے واقف تھے اور بخوبی جانتےتھے کہ اگر ایرانی علم وسائنس کے میدان میں آ گئے تو اس میدان سے ان ( اغیار ) کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
 آج اسلامی جمہوری نظام بر سر اقتدار ہے کہ جو عدل و انصاف، ظلم سے جنگ اور عظیم انسانی اقدار کے دفاع کا علمبردار ہے۔ اگر یہ نظام اپنے عوام کو علم کے اوج پر پہنچا سکا تو یقینی طور پر عالمی سامراج کے سامنے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا؛ یہ ایسی حقیقت ہے جو آج بخوبی نظر آ رہی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں علم اور علمی و سائنسی پیشرفت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ البتہ علمی پیشرفت، کسی کی نقل سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اسے جدت عمل، سرحدوں کو توڑنے اور غیر مفتوحہ میدانوں میں جانے اور انہیں فتح کرنے سے حاصل کیا جا سکے گا۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں بعض دوستوں نے تحقیق کی اہمیت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل بجا اور صحیح ہے۔ سرکاری حکام کو بھی اس بنیادی کام یعنی تحقیق پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ سرگرم تحقیقاتی مراکز کے بغیر نہ تو علم و سائنس میں ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور یونیورسٹیوں سے باہر تحقیقاتی مراکز کی حمایت کی جانی چاہیے اور ان پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
بظاہر وقت ختم ہو چکا ہے اور مجھے اپنی گفتگو ختم کرنی چاہیے۔ غروب اور افطار کا وقت ہے۔ آخر میں میں صرف چند دعائیں کرنا چاہتا ہوں جو ان شاء اللہ آپ لوگوں کے نورانی اور پاکیزہ قلوب کی برکت سے مستجاب ہوں گی۔
 خدایا! جو کچھ ہمارے دل میں ہے، جو کچھ ہماری زبانوں پر ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں سب کو اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے اور انہیں ہماری جانب سے قبول فرما۔ خدایا! ہمیں حقیقی معنی میں اسلام اور اسلامی اہداف کی خدمت کی توفیق عنایت کر۔ خدایا! ہماری قوم کو روزبروز مزید علمی و عملی عزت عطا کر۔ خدایا! امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی رکھ۔ خدایا! مغتنم اور اکسیر صفات ان لمحوں، ان گھنٹوں، ان دنوں اور راتوں کو ہمارے لیے، ہمارے دلوں کے لیے، ہماری بصیرتوں کے لیے، ہمارے لیے اور ہمارے عمل کے لیے مبارک قرار دے اور ہم سب کو اس مہینے میں اپنی ضیافت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ