بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جو دوست یہاں تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نشست کو اچھے طریقے سے چلایا۔
اگرچہ میں نے بار بار اس نشست میں گذ شتہ برسوں میں اور اس سے ملتی جلتی نشستوں میں کہا ہے کہ ہماری اس سالانہ نشست میں ایک علامتی پہلو ہے؛ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملاقات ملک کے اساتذہ، یونیورسٹی سے منسلک افراد کے حکومتی احترام کا مظہر ہو؛لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نشست نمائشی پہلو کی حامل ہے بلکہ اس کے برعکس توقع اور امید یہ ہے کہ اس نشست میں اٹھائے جانے والے موضوعات، حکومت کے پالیسی سازوں، وزرا،مختلف حکام اور خود ہماری کہ جو یہاں پر موجود ہیں،اس چیز کی طرف رہنمائی کریں گے جو اس سلسلے میں ترقی و پیشرفت اور علمی کام کے شایان شان ہے۔یہ جو میں نے عرض کیا کہ میں صرف آپ کی گفتگو سنوں گا ،اس جہت سے ہے۔فرض یہ ہے کہ جو قابل قدر اساتذہ یہاں بات کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے لیا ہے اور ملک میں علم اور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی اہم تجویز آئی ہے وہ اسے یہاں بیان کریں؛ہمیں اس نشست سے یہ توقع ہے۔البتہ اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔
ہم کیوں یونیورسٹی اور علم و تحقیق سے متعلق مسائل کے بارے میں یہ اہتمام کر رہے ہیں؟کیونکہ ہم پیچھے ہیں؛ہم کو پیچھے رکھا گيا ہے اور ہماری عزت اور ہمارا قومی و اسلامی تشخص اس سے وابستہ ہے کہ ہم اس شعبے میں ٹھوس کام کریں۔یہ اس کی وجہ ہے۔ہم مختلف ہیں فلاں ملک سے کہ فرض کیجیے جو ایک قلیل مدت تمدن کا حامل ہے۔ بعض ملک ہیں جو ایک سو سال بھی نہیں ہوا کہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں؛اس جغرافیائی تشخص کا گزشتہ سو سال میں اس معنی میں اور اس نام کے ساتھ کوئی وجود نہیں تھا اور ہمارے ہی علاقے میں بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ جن کا تاریخ میں کوئی قابل ذکر ماضی نہیں ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں؛لاطینی امریکہ میں یورپ میں اور دیگر مختلف جگہوں پر ایسے ممالک موجود ہیں۔لیکن ہماری قوم اور ہمارا ملک ایک قدیم ملک ہے؛ہماری قدیم تاریخ ہے؛ہمارا ماضی ہے؛ہم تازہ وجود میں نہیں آئے ہیں؛ہم اپنے ماضی سے بھی رہنمائی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں رہنمائی اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔آپ اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری تک ملک کی علمی ترقی کے عمل پر نظر ڈالیے،اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے اور آگے بڑھتے تو آج چوٹی پر پہنچے ہوتے۔ہم نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی ہے؛کیوں نہیں کی ہے؟اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے؛ (شاہی) حکومتیں نالائق اور نااہل تھیں،ہمت کم تھی،اس کے بعد گزشتہ دو تین سو سال کے عرصے کے دوران غیر ملکی عوامل بھی دخیل رہے ہیں اور بالآخر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس رفتار سے حرکت اور ترقی نہیں کی ہے؛بلکہ پستی کی طرف ہی گئے ہیں۔
اب ہم ازالہ اور تلافی کرنا چاہتے ہیں،اب حکومت، ایک لائق اور اہل حکومت ہے؛قوم ایک بیدار قوم ہے؛دانشور ایسے ہیں جو مرد میدان ہیں؛اب ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک باعث افتخار سند کے طور پر جیب میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس کے بارے میں صرف باتیں کرتے ہیں،ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک دستورالعمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ہر جزء پر عمل درآمد کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اگر ہم دوسروں کے لیے نمونہ عمل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں علاقے میں علمی مرکز اور محور بننا ہوگا،اس کا ایک راستہ ہے۔اس کا راستہ مستقبل کے وژن میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے،عمل درآمد کے شعبے کے ذمہ داروں اور حکام کو اسے واضح اور مشخص کرنا چاہیے؛ہمارا اصرار یہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام علم و تحقیق کے میدان میں صحیح،اچھے اور کامل طریقے سے انجام پائے۔اس اہتمام و انصرام کی وجہ یہ ہے۔
اس سلسلے میں البتہ بہت سی باتیں اور نصیحتیں ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر ان نشستوں میں عرض کرتے ہیں،آج بھی میں چند باتیں عرض کروں گا:
ایک بات جامع علمی منصوبے کے بارے میں ہے۔میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اسے ذکر کروں،خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار افراد نے اپنی تقریروں میں جامع علمی منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے، جناب ڈاکٹر لاریجانی نے بھی اس سلسلے میں بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جامع علمی منصوبہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور یہ علمی منصوبہ بندی کے لیے ایک دستورالعمل قرار پائے۔یہ ایک اچھی خوش خبری ہے؛لیکن مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع نہیں تھی ۔میں یہ جانتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے؛یعنی کچھ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے؛لیکن جس کام کی توقع ہے اور جو ہماری نظر میں انجام پانا چاہیے،وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو اور زیادہ عرصہ لگے؛ایک دو سال ہم بیٹھیں اور بالآخر ایک جامع علمی منصوبہ پیش کریں؛نہیں،ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی مدد سے دانشور،محققین اور اہم افراد بیٹھیں اور اسے پورا کریں اور ایک ایسی پختہ اور کامل چیز پیش کریں کہ جس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور ملک کے مستقبل کے لیے علمی منصوبہ بندی کی جا سکے۔میں یہیں پر محترم وزراء اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے محترم عہدیداروں کو کہ جو یہاں تشریف فرما ہیں،ہدایت کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل کے وژن پر عمل درآمد ہو اور وہ علمی مقام و مرتبہ جو ملک کے لیے پیش نظر رکھا گيا ہے،وجود میں آئے تو ان کاموں کو انجام دینا ناگزیر ہے کہ جن میں سے اہم ترین ایک جامع علمی منصوبہ تیار کرنا ہے۔ یعنی ان اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم اور باب ہے کہ جن کا ذکر کیا گيا اور بحمداللہ علمی ماحول میں یہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
دوسری بات جو محترم اساتذہ سے متعلق ہے،یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک کام یہ ہونا چاہیے کو شاگردوں کی تربیت کریں۔ استاد کی قدروقیمت اور استاد کا اعتبار اس کے شاگردوں سے ہے۔ہمارے اعلی دینی مراکز(حوزہ ہائے علمیہ)میں بھی ایسا ہی ہے۔اس استاد،اس فقیہ یا اصولی یا حکیم کی لوگوں میں زیادہ قدر ہے کہ جس کے وجودی آثار اس کے ممتاز شاگردوں میں نمایاں ہوں۔شاگردوں کی تربیت کیجیے۔یہ افراد جو آپ کی کلاسوں میں آتے ہیں _ چاہے وہ گریجویشن کی کلاسیں ہوں یا اس کے بعد اعلی تعلیم کی _ وہ آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں،انہیں صرف ایک تقریر سننے والا نہیں سمجھنا چاہیے؛نہیں،آپ جیسا انہیں چاہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائیے،ان کے ساتھ میل جول رکھیے۔البتہ استعداد اور صلاحیت برابر نہیں ہے،جوش و ولولہ ایک جیسا نہیں ہے،مختلف قسم کی فضا اور ماحول یکساں نہیں ہے؛لیکن اساتذہ کے لیے یہ ہدف و مقصد میری نظر میں ایک سنجیدہ ہدف ہونا چاہیے،دیکھیے کہ آپ نے کتنے شاگردوں کی تربیت کی ہے۔شاگرد صرف وہی نہیں ہے کہ جو آپ کی کلاس میں حاضر ہوتا ہے؛وہ بھی ہے جسے آپ بناتے ہیں اور اسے ایک کارآمد اور علمی فرد کی حیثیت سے علمی دنیا کے حوالے کرتے ہیں۔
یہیں پر میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حاضری اور موجودگي کے مسئلے کی طرف اشارہ کروں،جو یونیورسٹی کے قوانین کا حصہ بن گيا ہے،کہ اساتذہ کو ہفتے میں معین گھنٹوں میں حتما یونیورسٹی میں موجود ہونا چاہیے۔یہ بہت اہم چیز ہے؛اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک بات جو میں نے گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بار بار کہی ہے اور اتنا زیادہ دہرایا ہے کہ اسے دوبارہ کہنا نہیں چاہتا تھا،طلبہ کے ساتھ استاد کی ہمراہی ہے؛سوال کا جواب دینا۔یعنی استاد اور شاگرد کا تعلق اور رابطہ صرف کلاس تک ہی نہیں ہونا چاہیے،طالب علم کے پاس موقع ہونا چاہیے کہ وہ استاد سے رجوع کرے اور اس سے معلوم کرے ،اس سے تشریح پوچھے،اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرے؛بلکہ بعض مواقع پر استاد شاگرد کو اپنے کمرے میں بلائے اور ایک اضافی اور تکمیلی بات اسے سمجھائے یا اس کے ذمہ کوئی کام لگائے۔اسے کوئی علمی اور تحقیقی کام دے۔یہ سب کچھ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی موجودگي پر منحصر ہے۔ایک دن میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس اساتذہ کم ہیں،آج بحمداللہ اساتذہ کی ایک اچھی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اہمیت دینی چاہیے۔کلاس روم میں طالب علم کی تربیت _ جو میری نظر میں شاگرد اور دانشور کی تربیت ہے _ اس کا ایک حصہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انہی چند گھنٹوں _ قوانین میں چالیس گھنٹے ہیں کی موجودگي پر منحصر ہے یعنی اساتذہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اسے اہمیت دینی چاہیے۔
ایک اور مسئلہ کہ البتہ یہ مسئلہ تکراری ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، لیکن اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دوبارہ عرض کر رہا ہوں _ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے، خود صدر جیسے حکام کے ساتھ خصوصی اجلاسوں میں بھی کہا ہے؛لیکن مسئلے کا ایک حصہ خود یونیورسٹیوں سے متعلق ہے کہ تحقیق کے بجٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کریں؛خود اس کے مقام پر صرف کریں؛کیونکہ تحقیق تعلیم حاصل کرنے کا مآخذ و منبع ہے۔ہم اگر تحقیق کو سنجیدگي سے نہ لیں،تو ہمیں پھر برسوں غیرملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا اور انتظار کرنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس کی تحقیق سے یا اس کی کتابوں سے استفادہ کریں اور یہاں تعلیم دیں۔یہ نہیں ہو گا؛یہ وابستگي ہے؛یہ وہی ترجمہ کا کام اور کسی ملک اور یونیورسٹیوں کے لیے علمی شخصیت کا آزاد و خودمختار نہ ہونا ہے۔کسی ملک کی یونیورسٹی،کسی ملک کا علمی ماحول دنیا کے ساتھ اپنے علمی تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے علم حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم ( کسی اور کا ) شاگرد بننے سے شرم محسوس نہیں کرتے؛استاد مل جائے،ہم اس کی شاگردی اختیار کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر شاگرد ہی رہیں؛یہ نہیں ہو گا۔ایک علمی حلقے کے لیے یہ کمی اور نقصان کا باعث ہے کہ وہ تحقیق میں کہ جو علمی رشدوترقی کا مآخذ اور ذریعہ ہے،کمزور ہو؛اسے علمی لحاظ سے خود پر بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔البتہ دوسروں سے بھی استفادہ کرے،دنیا سے بھی تبادلہ کرے،اس وقت اور اس صورت میں دنیا میں علمی تبادلوں میں اپنا مناسب مقام پیدا کرے گا؛جب وہ اپنے علمی کام اور علم و دانش پر بھروسہ کرتا ہے۔یہ دنیا اور علمی تبادلوں میں اپنا اثر رکھتی ہے۔یہ ہے تحقیق کے بارے میں ہماری بار بار کی تاکید۔۔۔
وہ افراد جو یونیورسٹیوں میں علمائے دین کی حیثیت سے اور(میرے) نمائندہ ادارے کے دفتر کے عنوان کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں،انہیں خود کو یونیورسٹی میں دینی ارتقاء کا اصل ذمہ دار سمجھنا چاہیے ہم نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ ان کے کاندھوں پر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے ماحول کو دینی کرنے کے سلسلے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛یہ اپنی جگہ پر محفوظ،لیکن اگر تمام ضروری ابتدائی کام اور اقدامات انجام پائیں لیکن وہ عالم دین جو یونیورسٹی میں ( بحیثیت ہمارے نمائندے کے ) تعینات ہے، طلبہ کی نظر میں ایک گہری،بااستدلال،لائق تحسین اور دوسروں کو قائل کرنے والی دینی فکروسوچ کا منشا،منبع اور مرکز نہ ہو تو وہ تمام کام اور اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔آپ کو یونیورسٹی کے ماحول میں مسلسل نئی اور مستدل دینی فکر پیش کرنی چاہیے اور طلبہ کی دینی سوچ کو بلند کرنا چاہیے۔ صرف متدین مذہبی اور حزب اللہی طلبہ کو ہی اپنے مخاطبین نہ سمجھیے؛البتہ وہ تو ہیں ہی۔آپ کے مخاطبین پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے تمام طلبہ ہیں؛حتی کہ وہ بھی جو دل میں دین کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں،وہ بھی آپ کے مخاطب ہیں؛ان کو بھی اپنی طرف کھینچیے اور قوی منطق،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا جا سکتا ہے،عناد و دشمنی کو حتی کم کیا جا سکتا ہے یا بہت سے مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہی موضوع جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، کولمبیا یونیورسٹی کا واقعہ ،ایک اچھی مثال ہے۔انصافا اس قوی منطق،نفس پر تسلط یعنی اچھے جذبے،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد نے اپنا کام کر دکھایا۔البتہ ظاہر ہے کہ ابتدائی کام کیے گئے تھے؛اس تقریب کو براہ راست نشر کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کے بیس سے زائد ٹی وی چینلوں کو بلایا گيا تھا،جو کام انجام دیا گیا اور اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو افسوسناک رویہ اختیار کیا کہ حقا اور انصافا نامناسب رویہ تھا اور یونیورسٹی کی ایک شخصیت کا رویہ نہیں تھا؛بلکہ ایک نفیس انسان کا رویہ نہیں تھا۔بنا برایں واضح تھا کہ انہوں نے ایسے کام انجام دیے تھے تاکہ مقابل (صدر احمدی نژاد ) کو غصہ دلایاجائے یا شرمندہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے ایک ثبوت اور دستاویز کے طور پر سیاسی و تشہیراتی شوروغل میں اپنے ہاتھ میں رکھیں؛لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تائید و تصدیق بھی کی۔میرا اعتقاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ مسئلہ اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا،ایک سوال کے طور پر،ایک مسئلے کے عنوان سے اور ایک بات کی حیثیت سے کہ مسئلہ کیا تھا،جاری رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی منطق وہاں بیان کی گئی؛دین کی منطق بیان کی گئی؛علم،علم کے نور ہونے اور علم کے نورافگن کے ، خدا کے ہاتھ میں ہونے کے بارے میں اسلام اور دین کی نظر کے موضوع پر بات کی گئی۔ کہ یہ اچھی بحثیں ہیں _ اچھی بحث کی گئی۔وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ فرنگی(یورپی،امریکی) ماحول میں جب وہ جاتے ہیں تو وہ خود انہی کی باتوں کو جو گزشتہ سو دو سو سال سے کی جا رہی ہیں،تکرار کریں اور اپنے آپ سے کہیں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اسلام کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔
آج حقا اور انصافا فکروسوچ کی دنیا میں _ جو لوگ فکروسوچ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے _ ایک خلا اور ایک سوال مغربی دنیا میں موجود ہے؛اس خلا کو لبرل ڈیموکریسی کے نظریات پُر نہیں کر سکتے،جس طرح سوشلزم پر نہیں کر سکتا۔اس خلا کو ایک انسانی اور معنوی منطق پر کر سکتی ہے اور یہ اسلام کے پاس ہے۔ڈاکٹر زریاب مرحوم سے _ جنہوں نے یونیورسٹی کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی تھی،اورایک اچھے دینی طالب علم بھی تھے انہوں نے بہترین دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی علوم سے آشنا تھے اور امام(خمینی) کے شاگرد تھے _ میرے ایک دوست نقل کر رہے تھے _ میں نے خود ان سے نہیں سنا _ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ایک مطالعاتی دورے پر یورپ گئے تھے،جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کہا کہ آج جو چیز میں نے یورپ کی یونیورسٹیوں کے علمی ماحول میں مشاہدہ کی ہے،اس کو ملا صدرا اور شیخ انصاری کی ضرورت ہے۔شیخ انصاری کا کام قانون اور فقہ کے موضوع پر ہے اور ملا صدرا نے حکمت الہی میں کام کیا ہے۔وہ(ڈاکٹر زریاب)کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ملا صدرا اور شیخ انصاری کی تعلیمات کے پیاسے ہیں۔یہ خیال ایک مغرب شناس اور کئی یورپی زبانیں جاننے والے استاد کا ہے کہ جس نے برسوں وہاں زندگي گزاری اور علم حاصل کیا تھا اور اسلامی علوم سے بھی آشنا تھا۔یہ ان کا خیال ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
ہمیں خود اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں میں اس قوی منطق کی ضرورت ہے۔یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کی زبان کے ساتھ اس منطق کو فروغ پانا چاہیے۔یہاں بعض اساتذہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے عزیز اساتذہ کو بھی ان کی ضرورت ہے۔اساتذہ بھی خود کو دینی تعلیمات و معارف سے آشنائی سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنے والے ایک محقق کہ جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہیں اور یورپ اور دیگر علاقوں میں ان کی کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہمیں اس کی اطلاع ہے _ میں ان کا نام لینا نہیں چاہتا _ مجھے بتا رہے تھے کہ جب میں خلیج فارس کے ممالک سمیت عرب ملکوں میں جاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دانشور اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے زیادہ آشنا ہیں۔انہوں نے یہ بات تقریبا دس سال قبل مجھ سے کہی تھی۔البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان ان کی زبان ہے؛یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذہن میں سعدی ، فردوسی یا حافظ (شیرازی) کی ضرب المثل ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کی زبان بھی وہی ہے،آپ کے ذہن میں باقی رہ گئی،اب آپ دیکھتے ہیں کہ جو مقررین حضرات آتے ہیں ان میں سے بعض شعر و ادب سے شروع کرتے ہیں۔ان کی زبان اور قرآن کی زبان چونکہ ایک ہے _ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کی زبان خود ان کی زبان ہے _ اس زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں؛اس لیے وہ قرآنی تعلیمات و معارف سے آشنا ہیں۔ان کے سیاستدانوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے،ایسے ہی ہیں؛ ان کے سیاستدان بھی آتے ہیں_ تو اب اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور معنویات سے دور افراد قرآن کی بعض آیات اور دین اور دینی کتابوں کے بارے میں بعض باتیں جانتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہیں۔یہ کمی ہے،ہمیں اس کو دور اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب اس کے بنیادی اور اصولی ازالہ کے لیے البتہ منصوبہ بندی ضروری ہے؛لیکن جو مقدار اساتذہ کے لیے فوری طور پر ضروری ہے _ کہ جنہوں نے ایک عمر گزاری ہے اور زحمتیں کی ہیں _ یہ ہے کہ وہ خود کو اسلامی مسائل اور اسلامی تعلیمات و معارف سے آشنا کریں۔واقعا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کریں؛خود اساتذہ بھی اور یونیورسٹی سے منسلک افراد بھی منصوبہ بندی کریں۔لیکن اصل مخاطب آپ طالب علم ہیں۔
بہرحال یونیورسٹیوں میں دینی فکر و سوچ کے ارتقاء کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگي سے لینا چاہیے اور ہوشیار رہیے کہ ہمارے طلبہ اور یونیورسٹی کے روشن خیال افراد کے لیے فکری خلا پیدا نہ ہو۔ ہمارے پاس کہنے اور قائل کرنے والی بہت سی باتیں ہیں۔روشن خیالی کے معیارات سے مطابقت رکھنے والی نئی اور قوی باتوں سے تبلیغ کو وسیع کرنا چاہیے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس دینی روشن خیالی ہے یا نہیں ہے؛میں ان بحثوں سے بیگانہ اور بیزار ہوں۔دینی مسائل اور اسلامی نظریاتی مسائل پر نئی اور تخلیقی نگاہ، بلاشبہ روشن خیالی کی نگاہ ہے اور اس کا مطلب بدعت کھڑی کرنا نہیں ہے۔انہی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کو نئے زادیوں سے کہ، انسان وقت گزرنے کی برکت سے ان زاویوں کو پہچانتا ہے،سمجھنا اور بیان کرنا ہے اس سے ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بہرحال امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو کامیاب کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔آج کی نشست بھی اچھی نشست تھی؛میرے لیے بھی مفید تھی۔بعض خصوصی باتوں کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں،انشاءاللہ اس کام کے ذمہ دار اداروں؛خود ہمارے دفتر میں اور ہمارے دفتر سے باہر ان کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں جو اقدام ہم سے مربوط ہے انشاءاللہ انجام دیا جائے گا،جو حکومتی عہدیداروں سے مربوط ہے _ وزرائے محترم خود یہاں تشریف فرما ہیں _ ان سے کہا جائے گا اور انشاءاللہ اس پر عمل درآمد ہو گا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ