بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سےپہلے تو میں شکریہ ادا کروں گا اپنے بھائیوں اور بہنوں کا جو دور دراز سے طویل راستہ طے کرکے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں، دوستانہ فضا میں یہ اجتماع ہو۔ آپ کا خیر مقدم ہے، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
آذربائيجان کے عوام کے حریت پسندانہ اور دانشمندانہ کارنامے ملت ایران کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں یادگار کارناموں میں ایک انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ( اٹھارہ فروری انیس سو ستتر) کا واقعہ ہے۔ آپ کی تاریخ کے مختلف ادوار، خواہ وہ انقلاب سے قبل کا دور ہو، تحریک انقلاب کا دور ہو، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کا دور ہو یا اس کے بعد سے اب تک کا دور ہو، آپ کے ایسے ہی کارناموں سے پر ہیں۔ البتہ آذربائيجان کے عوام نے بعض مواقع پر اپنی جد و جہد کو نقطہ کمال تک پہنچایا ہے، انتیس بہمن کا شمار ایسے ہی مواقع میں کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو، جو اس وقت موجود نہیں تھے، اس عظیم واقعے سے اگر روشناس کرانا چاہیں تو مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ، شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف ملک کے ایک گوشے یعنی قم سے آواز بلند ہوئي، امریکا کے رحم و کرم پر منحصر، غدار شاہی حکومت نے اس کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لوگ سمجھے کہ مخالفت کی آواز نابود ہو گئي لیکن جس واقعے نے اس آواز کو ختم ہونے سے بچا لیا اور اس واقعے کو ایک تحریک کی شکل دے دی وہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کا کارنامہ تھا۔ تبریز کے عوام نے اس آواز کو قم میں ہی دفن ہو جانے سے بچا لیا۔ اگر ہم صدر اسلام سے اس کی مثال پیش کرنا چاہیں تو فرزند رسول حضرت امام زین العابدین اور زینب کبری سلام اللہ علیھما کے کارنامے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کو سر زمین کربلا میں دفن ہو جانے اور محو ہو جانے سے بچایا۔ آپ نے قم کی تحریک کا پرچم بلند کیا اور یہ پرچم اس تحریک کی پہچان بن گيا، اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انتیس بہمن کے واقعے کی اہمیت کیا ہے۔
اس واقعے کی روشنی میں آذربائیجان کے عوام کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان کے عوام میں جوش و خروش ہے، اعلی سطح کا شعور اور ہوشیاری ہے، انہیں علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ شجاعت و حمیت سے سرشار یہ عوام ہر خطرے سے ٹکرا جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ بیداری کا پیکر و سرچشمہ ہیں۔ میں بیداری کے آپ کے نعرے کی تائید کرتا ہوں میں برسوں سے کہتا آیا ہوں کہ آپ کے نعرے کی صداقت کی تائيد میں میں کہوں گا آذربائیجان اوباخسان، انقلابا دایاخسان ( آذربائیجان تو بیدار ہے، انقلاب کا پشت پناہ ہے)
یہ پورا واقعہ ہی، بیداری و ہوشیاری، ادراک و موقع شناسی، شجاعانہ و بر وقت کاروائي سے عبارت ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک زمانے تک حکومت کے ظلم و استبداد اور فتنہ و فساد کے باعث ایک قوم، پسماندگي کا شکار ہو جاتی ہے، اسے حالات کی خبر نہیں رہ جاتی، علم و دانش سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر سامراجی طاقتیں وارد میدان ہوتی ہیں۔ پیچیدہ، گوناگوں اور پر اسرار حربوں سے اس قوم کو اسی صورت حال میں قید رکھنے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کے قدرتی ذخائر، تاریخی و ثقافتی اقدار کو نابود کر دیتی ہیں۔ اس قوم کی باگڈور اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کی تقدیر بدل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سامراجی طاقتوں سے درخواست کی جائے کہ آپ سامراجیت کی بساط سمیٹ لیں، اپنے مفادات کو نظر انداز کر دیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس کا کوئي نتیجہ نکلے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ درخواست کرنا بے فائدہ ہے، مذاکرات کئے جائيں۔ تو کیا مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ منطقی و مدلل گفتگو اور درخواست سے آیا بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کرانا ممکن ہے؟
ایسے مواقع پر قوموں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اپنی طاقت کو منظم کریں اور اپنی توانائيوں کو بروی کار لائيں تاکہ دشمن ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ قوموں کے پاس کوئي چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے لئے بیدار ہونا ضروری ہے، آکاہ رہنا ضروری ہے، ہر قسم کی کوتاہی سے بچنا ضروری ہے، بے وقعت مادی آ‎سائش اور خواہشات کے دام میں نہ آنا ضروری ہے، بلند اہداف و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانا ضروری ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایرانی قوم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
بائيس بہمن اس شجاعانہ اقدام کا نقطہ اوج تھا۔ عوام کو بیدار کرنے کے لئے برسوں جس شخصیت نے جد و جہد کی وہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی۔ اس عظیم کام میں تمام مخلص دانشوروں، اور علما کا تعاون ملا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بتدریج اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ پھر کیا تھا ہماری قوم جس نے دور قاجاریہ کے ظلم و استبداد برداشت کئے تھے اور جسے پہلوی دور حکومت میں کچل کر رکھ دیا گيا تھا، ایک زندہ و بیدار قوم بن گئي۔ یہ قوم میدان عمل میں اتر آئی اور دنیا نے اس کی بے مثال قوت کا مشاہدہ کیا۔ یہ قومی طاقت تھی یہ قوم کے ایک ایک فرد کی طاقت تھی، اس قوت کا سامنا کرنے کی کون جرئت کر سکتا ہے؟ قومیں اس کا تجربہ تو کریں، البتہ یہ تجربہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ایثار و قربانی کی ضرورت ہے۔ صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شرطیں پوری ہو جائيں تو دنیا میں کوئي بھی قوم ظلم کے پنجے میں قید نہیں رہ سکتی۔ غربت کا شکار نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ شرطیں پوری کی گئيں۔
اس بیداری میں سچے ایمان کا کردار بھی کلیدی رہا۔ ایمان نے کسی طاقتور انجن کی طرح لوگوں کے پیکر میں توانائياں بھر دیں۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو موت کو بازیچہ اطفال میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ایمان ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے کی جرئت پیدا کرتا ہے۔ موت کی کوئي وقعت نہیں رہ جاتی۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان، موت کو ایسی معمولی شیء بنا دیتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ موت سے وحشت کیسی میں تو اس سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ ( آنس للموت من الطفل بثدی امہ) مجھے تو موت سے محبت ہے، اس سے ڈرنا کیسا میں تو اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایمان کا اثر ہے۔ اگر ایمان ہے تو موت کو زندگي کا خاتمہ تصور نہیں کیا جاتا۔
وقت مردن آمد و جستن ز جو کل شیء ھالک الی وجہہ
مومن انسان موت کی جانب جھپٹ کر آگے بڑھتا ہے۔ موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک لکیر ہے۔کچھ لوگوں کو، کشاں کشاں اس طرف سے اس طرف لے جانا پڑتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی میں غرق ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو چھلانگ مار کر اس لکیر سے گذر جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہے۔ وہ وعدہ الھی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عزیز شہدا، جن کے نام آپ کے ذہنوں میں ہیں، آپ بہتوں سے آشنا ہیں، آپ ان کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذار چکے ہیں۔ یہ شہدا موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہیں اپنی زندگي سے پیار تھا۔ ان کے وصیتنامے پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ کسی قوم کا مثالی راستہ یہ ہے اور ہماری قوم نے اس راستے کے خد و خال واضح کئے ہیں۔
اس قوم اور اس قوم کے انقلاب کا دنیا کی دیگر اقوام اور انقلابوں کے مقابلے میں طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو بڑی مضبوط پناہ گاہ سے وابستہ کر لیا۔ ( قد استمسک بالعروۃ الوثقی) عروہ وثقی کو آپ یوں سمجھئے کہ بالفرض آپ کو کسی گہری کھائي سے گذرنا ہے، اگر آپ کسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں تو آپ مطمئن ہیں کہ گریں گے نہیں۔ عروہ وثقی اسی کو کہتے ہیں۔ ( فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی) ، طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان کی خصوصیات سے ہماری قوم آراستہ تھی۔ نتیجتا یہ قوم کھائي سے عبور کر گئي۔ اس پر خوف و دشہت طاری نہیں ہوئي اور یہی وجہ ہےکہ یہ عظیم تحریک آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، اہل معرفت اس پر غور فرمائيں۔ انقلاب ایک طویل تحریک ہے، یہ یکبارگي رونما ہوکر ختم ہو جانے والا کوئي واقعہ نہیں ہے۔ البتہ یہ تحریک دنیا کے بہت سے خطوں میں بیچ راہ میں ہی رک گئي۔ آپ گوناگوں انقلابوں کی تاریخ پڑھئے۔ یہ انقلاب بیچ راہ میں ٹھہر گئے۔ انقلاب آئے، کچھ لوگوں کو زبردست فائدہ ہوا اور وہ مست ہوکر رہ گئے، رفتہ رفتہ عوام نے میدان سے کنارہ کشی کر لی، پھر سب کچھ ختم ہو گيا۔
فرانس کا انقلاب جو اٹھارہویں صدی کے آواخر میں شروع ہو، انیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو گیا اس کا کوئي نام ونشان باقی نہ رہا۔ ایک مطلق العنان سلطنت کے خلاف بغاوت کی گئي اور سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن تقریبا پندرہ سال گذرے تھے کہ نیپولین نامی ایک دوسرے آمر نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کئي دہائيوں تک عوام مسائل سے دوچار رہے پھر رفتہ رفتہ کسی طرح بعض مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انقلاب ادھورے رہ جاتے ہیں، بیچ ہی میں مٹ جاتے ہیں، اس لئے کہ ایمان کے عنصر سے خالی ہیں۔ چونکہ عروہ وثقی سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا انقلاب عوام کے درمیان ہے اور روز بروز اس پر مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس کی افادیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے، اس سال انقلاب کو انتیس سال پورے ہو گئے۔ اس سال بھی جیسا کہ احباب نے بتایا اور میں نے خود بھی تہران سمیت ملک کے مختلف علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیا، جو لوگ صاحب نظر ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال جشن انقلاب کے مظاہروں میں عوام کی شرکت گذشتہ برسوں سے زیادہ تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم بیدار ہے اور یہ انقلاب زندہ ہے۔
جو افراد گذشتہ برسوں کے دوران کبھی کبھی ہیجان زدہ ہوکر کہنے لگے کہ انقلاب کی کہانی ختم ہو چکی ہے، انقلاب طاق نسیاں کی زینت بن گیا ہے۔ ان سے اندازے کی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب پر اور بھی نکھار آیا ہے۔ انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ جو شخص عوام کے درمیان جاکر انقلاب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتا ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں کہ انقلاب کے اثرات و ثمرات ان کے سامنے ہیں۔ انقلاب نے ملک کی جو خدمت کی ہے، قوم کو دنیا میں جو مقام دلایا ہے، نوجوانوں میں جو خود اعتمادی، نئي روح پھونک دی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لئے سیکڑوں سال جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انقلاب نے یہ کارنامے کئے ہیں، مسائل کو اس طرح حل کیا ہے۔
اندرونی صلاحیتیں، توانائیاں، رفتہ رفتہ انگڑائياں لےکر باہر آ رہی ہیں، ادھوری شخصیتوں کے مالک انسان، قابل رشک شخصیت کے مالک بن رہے ہیں۔ انتظامی صلاحیتیں، خلاقیت، پیداواری توانائیاں، عالمی مقابلوں کے لئے ضروری مہارتیں سب یکجا ہوکر قوم کو آگے لے جا رہی ہیں۔ یہ سب انقلاب ہی کے ثمرات ہیں، انقلابی اقدار ہی کا نتیجہ ہے۔
ان قدروں کو استحکام و دوام حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک یہ قدریں محفوظ رہی ہیں، زندہ رہی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان، انیس سو اسی کی نوجوان نسل کے مقابلے میں میدان کارزار کے لئے اگر زیادہ صلاحیت مند اور آمادہ نہیں ہے تو اس نسل سے کم بھی نہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا راستہ طے ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے طولانی مدت منصوبوں میں انقلابی تشخص کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے آئندہ پروگرام پوری طرح واضح ہیں۔
ایرانی قوم کے پاس ملک کے اندر عوام کی صلاحیتوں میں اور تاریخ کی گہرائیوں میں بڑے بیش بہا خزینے ہیں۔ ہم ان خزانوں کو بروی کار لانا چاہتے ہیں۔ اگر ان خزانوں کا استعمال شروع ہو گیا تو یہ قوم دولتمند ہو جائے گی۔ علم کے کارواں کا پرچم اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔ علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور قوت و طاقت کے میدان میں اسے ممتاز عالمی مقام حاصل ہوگا۔ پھر یہ قوم دنیا کی دیگر اقوام کے لئے مثالی نمونہ ہوگی۔ البتہ اس وقت بھی یہ قوم، ایک نمونہ قوم ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل تک فلسطینی قوم کو ہر موقع پر شکست ہوئي، اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مسلم قوموں میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن میں جوش و جذبہ تھا لیکن وہ بھی سیاسی تغیرات کے نتیجے میں دب کر رہ گئے۔ اسلامی انقلاب نے ان قوموں میں نئی روح ڈال دی۔ ان میں بیداری پیدا کر دی۔ ہم اپنے اطراف اور عالم اسلام کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی قوم اب تک بھی نمونہ عمل رہی ہے، لیکن جس دن آپ نوجوانوں نے ملک کے ذرے ذرے سے چھلکتی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروی کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی اس دن پوری دنیا ایرانی قوم کا اتباع شروع کر دے گی اور ایران ان ممالک کے لئے بہترین نمونہ عمل بن جائے گا جو ظلم و جور کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر اور دیگر اقوام کی تقدیر کی کنجی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہے۔ البتہ دشمن بھی اس سے آگاہ ہے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اس قوم کا رخ بدل دے۔
سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی کوششیں، مختلف زاویوں سے شدید دباؤ، پابندیاں، قراردادیں، سب کا ایک ہی ہدف ہے، ایرانی قوم کو اس راستے سے ہٹانا جس پر وہ گامزن ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ قوم کسی اور راستے پر چلے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ قوم اسی راستے پر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور قتل و غارت گری کا جو بازار عالم اسلام میں گرم ہے وہ باقی نہ رہے گا۔ امت مسلمہ کا جز شمار ہونے والے ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مفادات نابود ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنی ‎سازشوں میں مصروف ہے۔
آپ غور فرمائیں، ابھی چند ہی روز قبل امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران پر دباؤ بڑھائیں گے تاکہ ایران کے عوام اس نتیجے پر پہنچ جائيں کہ ایٹمی توانائی حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایرانی قوم نے سائنس و ٹکنالوجی کے اوج تک، جس کا ایک مظہر آج ایٹمی توانائی ہے، رسائی حاصل کر لی تو دیگر اقوام کے بھی حوصلے بلند ہوں گے۔ مسلم قومیں جاگ جائیں گی، انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر ان قوموں پر اغیار کا تسلط باقی نہیں رہ پائےگا۔ اس کے لئے وہ بڑی عیاری کے ساتھ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک آگاہ ہیں کہ ایٹم بم کا الزام بے بنیاد ہے۔ ان کی تشویش کی وجہ ایٹم بم نہیں ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایرانی قوم ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہی ان کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ کوئی قوم ان کی مرضی اور مدد کے بغیر ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں کے سہارے اس طرح ترقی کی منزلیں طے کر لے کہ ثریا اس کے قدم چومے تو یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں۔ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے۔ ان کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ اور فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئےکہ اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے اس سفر سے متفق نہیں ہے، استقامت سے متفق نہیں ہے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرے کہ آپ کی مرضی ہوئی تو ہم آگے بڑھیں گے ورنہ نہیں۔
بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کروانے کے لئے مذاکرات بے اثر ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہوگا۔
مہتری گر بہ کام شیر در است رو خطر کن ز کام شیر بجوی
ہمارے ملک میں بسا اوقات اس نصیحت پر عمل ہوا ہے اور بسا اوقات اسے نظر انداز کیا گيا ہے، لیکن آج ایرانی قوم پوری استقامت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہمارا سارا تنازعہ اسی بات کا ہے۔ سامراجی طاقتیں کہتی ہیں کہ آپ اپنا وجود، صلاحتیں اور توانائیاں منظر عام پر نہ لائیں تاکہ ہماری طاقت، ہمارے اسلحوں اور ہماری تشہیراتی مہم کا کوئی جواب نہ ہو، میدان ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔ ان طاقتوں کے لئے ہماری قوم کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں گے ، ہم آپ کی جارحیتوں کا راستہ بند کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اللہ تعالی کے سامنے ہم جوابدہ ہوں گے۔
ملت ایران نے بالکل صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میدان عمل میں ہمیشہ موجود رہنا، اب تک کے ثمرات اور کامیابیوں کا بھرپور تحفظ، یہ بالکل صحیح راستہ ہے۔ ضمنی باتوں اور چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جماعتوں اور افراد میں نظریات کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انقلاب کے ورثا کو چاہئے کہ اس عظیم وراثت کی حفاظت کریں۔ میں نے اس سال (1386 ہجری شمسی ) کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ قومی اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی کنبہ، انقلاب کا کنبہ اپنے اتحاد، باہمی انس و محبت اور لگاؤ کی حفاظت کرے۔ ایک دوسرے سے غفلت کا ماحول نہ بننے دیجئے۔ ہماری قوم اس سلسلے میں بیدار ہے اور ہماری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بھی اسی عظیم فکری ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ ہم نے قوم کے سامنے یہ باتیں پیش کیں اور قوم نے انہیں سچ کر دکھایا۔
انتخابات کی دستک سنائي دینے لگی ہے۔ انتخابات میں شرکت بھی اسی ماہیت کا فعل ہے۔ میں نے تمام انتخابات میں عوامی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حق رای دہی کے لئے باہر نکلنا چاہئے دشمن کو مزید مایوس کرنا ضروری ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ا؛ران میں انتخابات نہ ہوں، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر مظاہرے نہ ہوں۔ یوم قدس کے موقع پر مظاہرے نہ کئے جائيں۔ دینی پروگراموں میں عوام کی پر جوش شرکت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ دینی جذبات کی گرمی ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، لا پرواہ، مایوس اور بے حس ہو کر منشیات اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جائیں۔ دشمن کی دلی خواہش یہ ہے۔ دشمن کے لئے یہ سازگار ہے اس لئے اس کا خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کبھی نظریات اور آئیڈیالوجی، کبھی سیاسی دھمکی، کبھی فوجی دھونس، کبھی منشیات کی اسمگلنگ کے گروہوں اور کبھی غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے دشمن میدان میں آتا ہے اور اپنی سازشوں کو علمی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے راستے سے ہٹانے کے لئے جی توڑ کوشش کرتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو اشارے کنائے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ سادہ لوح افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، بکے ہوئے ضمیروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عوام اس عظیم اور اہم ترین پروگرام میں شرکت نہ کریں۔
عوام کو میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ ووٹنگ کے عمل کو پر رونق بنائیں۔ صفوں میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم زیادہ کھڑے رہنا ممکن ہے تکلیف دہ ہو لیکن یہ جہاد ہے۔ اس کا اللہ تعالی کے نزدیک اجر ہے۔ تو لوگ ضرور جائیں اور حق رای دہی کا استعمال کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے نعرے اور اہداف کو متعلقہ حکام بنیادی معیار کے طور پر پیش کریں۔ یہی سب سے اہم معیار ہے۔ ناموں اور گروہ بندی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کے مسائل کا حل اور اس کے درد کی دوا انقلاب کے اہداف اور امنگیں ہیں۔ ان چیزوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ان نعروں اور اہداف کے مخالف ہیں انہیں کبھی بھی پالیسی ساز اداروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ ایسے لوگ عوام میں شامل ہیں تو کوئي بات نہیں ہے، معاشرے میں ہر طرز فکر اور خیال کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جس شخص کی آرزو یہ ہے کہ یہ گاڑی آگے نہ بڑھے اسے اسٹیئرنگ پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسے شخص کو اگر اسٹیئرنگ پر بٹھا دیا گیا تو گاڑی آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہو۔ اس راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو، انقلاب کے اہداف سے قلبی وابستگی رکھتا ہو، قومی صلاحیتوں سے آشنا ہو۔ اسلام کا دلدادہ ہو۔ انقلاب کا پیرو ہو۔ معیاروں کو تسلیم کرتا ہو۔ یہ ہوئي دوسری بات۔
بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دو چہرے والوں، ظاہر و باطن میں اختلاف والے افراد اور دوہری شخصیت کے مالک لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایسے افراد سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایتیں منقول ہیں۔ اس نکتے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم بیدار قوم ہے اسے کوئي تسلیم کرے یا نہ کرے، گذشتہ انتیس برسوں کے تجربے سے ہمارے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ یہی عماد مغنیہ اور دیگر شہدا جو چند روز قبل صیہونیوں کے ذریعے شہید کر دئے گئے خود کو امام خمینی (رہ) کا پیروکار مانتے تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے۔ عماد مغنیہ امام خمینی (رہ) سے قربت اور لگاؤ کے سلسلے میں خود کو کسی بھی ایرانی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں کہ امام خمینی(رہ) نے انہیں نئي زندگي دی تھی۔ ان کے پیکر میں نئي روح ڈال دی تھی۔ یہی جوان، لبنان فلسطین، غزہ اور دیگر علاقوں میں پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے کارنامے نہیں کر پاتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لبنانی جوان معمولی اسحلوں کے سہارے اسرائیل کی کیل کانٹوں سے لیس فوج کو اتنی شرمناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جب تینتیس روزہ جنگ ختم ہوئي تو شروع کے ایام میں صیہونی حکام کہتےتھے کہ ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ لیکن اب وینوگراڈ کمیٹی کی رپورٹ نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے بھی بڑی رفوگری کی ہے تاکہ بہت زیادہ بے عزتی نہ ہو جائے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ جدید اسلحوں سے مسلح فوج جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی شکست کھا گئي۔ آپ یہ یاد رکھئے کہ اس جنگ میں امریکہ اسرائيل کی حمایت بھی کر رہا تھا اور براہ راست بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اسرائيل کو شکست ہو گئي۔ کس سے؟ ایسے مٹھی بھر جوانوں سے جن کا اسلحہ تھا خود اعتمادی، توکل بر خدا، موت سے بے باکی اور میدان میں استقامت۔ طاقتوں کے نا قابل تسخیر ہونے کے افسانے اس طرح قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
ہم انقلاب کی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی شکل میں ملنے والی نعمت پر ہم اللہ تعالی کے شکر گذار ہیں۔ ایرانی قوم کی اس عظمت پر جس کا وہ مظاہر کر رہی ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جو کامیابیاں ہماری قوم کو ملی ہیں اس پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمارا ایک ایک نوجوان ایک بڑی نعمت ہپے۔ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ( وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصواھا) بھلا اللہ کی نعمتوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ حکام کو ہونا چاہئےاور انہیں ان نعمتوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ ہمیں ملتی رہیں۔ عوام کو بھی ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ اس قوم کا آنے والا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ تابناک اور دلکش ہے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس دل آویز منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ دنیا کو سعادت و خوش بختی سے آراستہ کر يں گے۔
اے پروردگار، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ ہمیں ان کی محبت کے ساتھ زندہ رکھ۔ پروردگارا امام خمینی(رہ) کی روح طیبہ کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ