حج ایک عظیم فریضہ ہونے کے ساتھ ہی خدا کی طرف سے امت مسلمہ کے لئے ایک تحفہ بھی ہے۔ یوں تو تمام فرائض و واجبات خدا کا تحفہ ہیں،نماز بھی ایک ہدیہ الٰہی ہے، روزہ بھی خدا کا ایک تحفہ ہے، خمس و زکات بھی اسی طرح سے ہیں لیکن حج کی حیثیت بین الاقوامی ہے۔ اسے اسلام کا ایک معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مرکز وجود میں آئے اور پوری امت مسلمہ اس کے تعلق سے اپنے کو یکساں و برابر سمجھے۔ خدا کے گھر سے تمام مسلمان یکساں طور پر وابستگی رکھتے ہیں۔چاہے وہ خود مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہوں یا دنیا کے دوسرے حصے میں زندگی بسر کرنے والے مسلمان۔ کعبہ ان سب کا ہے۔ بندگان خدا ہر سال جذبہ شوق سے سرشار یہاں آتے ہیں تاکہ مسلمانوں سے منسوب یہ گھر جو اللہ کا بھی ہے اور عام انسانوں کا بھی ہے ۔ ہمیشہ آباد رہے (انّ اوّل بیت وضع للناس للّذی ببکّۃ مبارکاً) اگرچہ یہ اللہ کا گھر ہے لیکن بنایا گیا ہے لوگوں کے لئے ۔ لہذا لوگ بڑے اشتیاق سے دنیا کے گوشے گوشے سے آتے ہیں اور یہاں جمع ہوتے ہیں۔مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے آشنائی اور تعارف کا یہ بہترین موقع و مقام ہے۔ یہاں وہ ایک دوسرے کے حالات و خیالات سےباخبر ہو سکتے ہیں۔ اگر غور کریں تو یہ بہت عظیم نعمت ہے۔
 اس سال تو موسم حج ایک نئے انداز سے آیا ہے۔ یہ سال ''اسلامی یکجہتی ‘‘ کا سال ہے۔اگرچہ ہمارا ہر وقت اور ہر لمحہ اسلامی یکجہتی کا متقاضی ہے اور امت مسلمہ کو پیہم اتحاد کے لئے کوشاں رہنا چاہیئے لیکن اس سال کو''اسلامی یکجہتی‘‘ کا سال قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے بہت سے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک چوٹی ہوتی ہے۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ دشمنان اسلام کی سب سے بڑی سازش مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کےلئے یہ بہت بڑا ہدف ہے جو کسی جنگ، سیاسی تحریک اور اقتصادی منصوبے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان سازشوں کے لئے ہمارے یہاں زمین بھی ہموار ہے کچھ اخلافات کا تعلق گزشتہ تاریخ سے ہے جبکہ کچ اختلافات ہماری آج کی نا سمجھی اور غفلت کا نتیجہ ہیں۔

 قوموں کے درمیان اختلاف کے علاوہ فرقہ واریت اور شیعہ،سنی اختلاف کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اگر اس سے مقصد پورا نہ ہوتا تو دشمن ان دو نوں فرقوں کے اندر موجود مکاتب فکر کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکاتے۔ لیکن فی الحال انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ خود شیعہ،سنی کا مسئلہ ان کے لئے ایک اچھا حربہ ثابت ہو رہا ہے اس کا مشاہدہ آپ پوری دنیا میں کر سکتے ہیں۔پورے عالم اسلام میں ان کی یہ کوشش جاری ہے لیکن خدا کا شکر کہ ابھی وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔
ایک شیعہ ملک میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد انہوں نے دنیا کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ امت مسلمہ میں اختلافات شدید سے شدید تر ہو گئے ہیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ جس کی وجہ یہ رہی کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی روش اختیار کی۔
 پورے عالم اسلام میں فلسطینی بھائیوں کے لئے سب سے زیادہ اظہار یکجہتی و ہمدردی ہمارے ملک نے کی جبکہ فلسطین میں شیعہ آبادی ہے ہی نہیں۔ عراق میں شیعہ،سنی اتحاد کی سب سے زیادہ پشت پناہی ہم نے کی۔
 خود ہمارے ملک میں شیعہ سنی ہاہمی اتحاد و محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ نے سامراجی طاقتوں کے سازشوں کو نقش بر آب کردیا تاہم ان کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
 افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہ ان کی سعی و کوشش کے اثرات دکھائی دیتے ہیں لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔
 میں پھر تاکید کے ساتھ عرض کروں گا کہ حج کے موقع پر اسلامی یکجہتی اور دشمن کے حیلوں کو ناکام بنانے پر خاص توجہ دیں۔ حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔
 خاص کر سعودی عرب کی میزبان حکومت کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
 اگرچہ سعودی عرب کے وزرا اور عہدیداروں نے وہی کہا ہے جس کی ہمیں توقع ہے صرف زبانی جمع خرچ مناسب نہیں بلکہ عملی طور پر کوشش ضروری ہے۔
 میدان عمل میں ان کو یہ دکھانا ہوگا کہ اختلاف اور ان عناصر کے مخالف ہیں جو اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایک اہم نکتہ ہے یعنی اخوت و محبت پیدا کرنے کا نکتہ۔
 اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کو بھی خیال رکھنا ہوگا کہ برادران اہل سنت کے جذبات مجروح نہ ہونے پائیں یہ بہت بڑی غلطی اور بھول ہے بلکہ گناہ ہے۔
 اختلافی باتیں بہت سی ہیں۔ان پر زور دینا،ان کے ذریعہ تعصب کی آگ بھڑکانا غلط ہے یہی وہ چیزیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کی جاسوسی کی ایجنسیوں کا مطمح نظر ہے۔
 بعض لوگ نادانستہ اور غیر ارادی طور پر ان کے ایجنٹ بن بیٹھتے ہیں،یعنی وہ کام جس کے لئے وہ پیسے خرچ کرتے ہیں اور مختلف افراد کو خریدتے ہیں،یہ نادان افراد اسے مفت میں انجام دے رہے ہیں اور خدا کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔
 آج عالم اسلام کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی آواز ایک ہو جائے۔
 یہی چیز جو مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو روک سکتی ہے۔یہی طاقت ہے جو مشرق وسطٰی اور اسلامی ممالک میں ہونے والی امریکی مداخلتوں کا سدباب کر سکتی ہے۔
 وہ انہیں اختلافات اور امت مسلمہ میں پڑنے والے مختلف شگافوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور روز بروز اسے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہیں تاکہ اسلامی ممالک کی تقدیر اپنی مٹھی میں لے لیں۔لہذا جو بھی اس ہدف میں ان کا معاون ہوگا وہ خدا کے نزدیک انہیں لوگوں میں شمار ہوگا اور اس کا حساب بہت سخت ہوگا اس لئے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
 حج کے سلسلے میں جو دوسرا مسئلہ ہے وہ ہے تربیت کا مسئلہ ہے۔انفرادی طور پر لوگوں کی اخلاقی،معنوی تربیت بھی ضروری ہے لیکن اس کی ذمہ داری مختلف قافلوں میں موجود علما کی ہے۔اس سے آگے بھی ایک بڑی ذمہ داری قوم کو محکم و مضبوط،سنجیدہ اور صاحب عقل و فہم بنانے کی تربیت ہے۔ ان چیزوں کے لئے مناسک حج میں میدان فراہم کرنا ہوگا۔
 اگر ایک نوجوان،ایک مرد یا ایک عورت حج کے دوران قرآن سے مانوس ہو جائے،دعاؤوں اور مناجات کے جملوں پر غور و فکر کرنا سیکھ جائے تو اس کے لئے پوری زندگی کا ایک سرمایہ ہو جائے گا۔
 اگر ایک حاجی یہ طے کر لے کہ مکہ مکرمہ میں پورا قرآن ختم کرے گا،مدینہ میں پورا قرآن پڑھے گا،اس لئے کہ یہ قرآن کے نازل ہونے کی جگہ ہے یہ قرآن کا گھر ہے۔یا اگر پورا قرآن نہ پڑھ سکا بلکہ قرآن کا اچھا خاصا حصہ تدبر و تفکر کے ساتھ پڑھنے میں کامیاب ہو گيا تو یہ اس کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔
 آپ حجاج کرام کو اس طرح کی عادت ڈلوا سکیں تو ان کے لئے زندگی کا بہت بڑا سرمایہ ہو جائے گا کیونکہ قرآن مجید ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
 قرآن سے مانوس ہونا ہر واعظ،ہر نصیحت اور ہر درس سے بہتر اور مفید ہے۔اگر انسان حقیقی طور پر قرآن سے انس پیدا کر لے اور قرآن کو قلبی اور معنوی نور اور روشنی حاصل کرنے کے لئے پڑھے تو یہ یقیناً قرآن اس کے لئے سب سے اچھا ناصح بن سکتا ہے۔ مناسک حج کو تدبر کے ساتھ انجام دینا یعنی طواف، سعی، وقوف خضوع و خشوع کی یہ حالت،محرمات سے اجتناب یہ سب بڑے اہم درس ہیں۔
 ہر سال حج کے موقع پر میں ان چیزوں کے سلسلے میں جو تاکید اور نصیحت کرتا ہوں اس کی وجہ یہی ہے۔ممکن ہے ایک معمولی چیز کی ہوس حج کی معنویت اور روحانی تاثیر کو کم کر دے۔ ہم نے لوگوں کو زہد ابوذری اختیار کرنے کو نہیں کہا،اور ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم خود سے اور لوگوں سے صرف یہ کہتے ہیں کہ افراط و تفریط سے کام نہ لیں،کیونکہ ہم ان حقیر اور معمولی چیزوں کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں جو اس معنوی ماحول کے لئے نقصان دہ ہے۔
 بہر حال میری نظر میں علما اس میں اچھا رول نبھا سکتے ہیں،زبان سے بھی اور لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک اور عمل سے بھی۔
 اسی طرح حج کے امور کے دوسرے ذمہ دار افراد بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

 بہر حال یہ ایک عظیم خدمت ہے اور آپ لوگوں کے لئے حج کا ثواب دہرا ہے۔ اس لئے کہ ایک تو خود حج کی نعمت ہے دوسرے حجاج کرام کی خدمت اور ان کے لئے کام کرنا یہ بھی ایک نعمت ہے۔
 انشائاللہ خدا آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور حضرت ولی عصر(عج) کا قلب مبارک آپ سے راضی رہے اور ان کی دعا آپ حضرات کے شامل حال ہو۔
 

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ