وزارت محنت کے عہدہ داروں اور محنت کش طبقے سے خطاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائيو اور بہنو آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نمونہ محنت کش افراد، محنت کش طبقے کے نمائندگان اور شعبہ محنت سے وابستہ عہدہ داران! یقینا ایسے افراد کا اجتماع جن کا شعار اور نعرہ محنت کشی ہے، اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ قرآن اور اسلام میں محنت مزدوری کا بڑا بلند مقام ہے۔ البتہ کام اور محنت و مزدوری کارخانوں، کھیتوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں تک محدود نہیں ہے تاہم قرآن میں جس عمل صالح پر خاص تاکید کی گئي ہے اس کے دائرے میں یہ کام بھی آتے ہیں۔ آپ جب ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ، خلاقیت کے جذبے کے ساتھ، ایک خاندان کے لئے آذوقہ فراہم کرنے کی پاکیزہ نیت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام انجام دیتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک عمل صالح ہے۔ الا اللذین آمنو و عملوا الصالحات تو عزیزان گرامی عمل صالح اس کو کہتے ہیں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان ایسے کام اور مشغلے میں مصروف ہے جس پر اس کے آذوقے کا دارومدار ہے۔ یہ کام عمل صالح ہے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے۔ آمنو و عملوا الصالحات محنت مزدوری اور کام کا مقام یہ ہے۔
ایک اسلامی معاشرے میں حکام اگر کام اور مزدور کے لئے اتنے احترام اور توقیر کے قائل ہیں تو یہ فقط لفاظی نہیں ہے، تکلفات کی بات نہیں ہے۔ البتہ دنیا میں بہت سے افراد مل جائیں گے جو مزدور طبقے کے لئے بڑے پیمانے پر زبانی جمع خرچ کرتے ہیں لیکن بڑا فرق ہے ایسے شخص میں جو کچھ افراد کی توجہ حاصل کرنے کے لئے نعرے بلند کرتا ہے اور اس شخص میں جو مزدوری کو عمل صالح تصور کرتے ہوئے حقیقی معنی میں اسے الہی و روحانی اقدار کا جز سمجھتا ہے۔ اسلام کا نقطہ نگاہ یہی آخر الذکر اصول ہے، یعنی مزدور جب کام میں مصروف ہے تو در حقیقت وہ عبادت انجام دے رہا ہے۔
اس الہی، روحانی اور دینی پہلو کے علاوہ بھی معاشرے میں مزدور کی اہمیت کا راز ایک نہایت اہم نکتے میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کی خود مختاری کا دار و مدار کام پر ہے۔ آج تک کوئی معاشرہ اور ملک محنت کشی کو نظر انداز کرکے اور آرام و آسائش کو اپنا شعار بناکر کسی مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ممکن ہے کہ قدرتی عطیئے کے نتیجے میں مثلا تیل کے ذخائر وغیرہ سے اسے کچھ آمدنی ہوتی رہے اور بظاہر اس کی زندگی عیش و آرام میں گزر رہی ہو، غیر ملکی مصنوعات اٹی پڑی ہوں لیکن ایسا معاشرہ اور ملک خود مختاری سے محروم رہے گا۔ خود مختار قوم کا وقار محنت و مزدوری سے حاصل ہوتا ہے۔ تو کام اور محنت کا یہ مقام ہے۔ ہم مزدور کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اسی نقطہ نگاہ کے تحت مزدور اور محنت کش کے ہاتھوں کا بوسہ دینے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لینا ایک درست اور قابل تحسین عمل ہے۔ کیونکہ ایسا کرکے در حقیقت ہم نے اپنے ملک کی خود مختاری کے ایک ستون کا احترام کیا ہے۔ تو کام اور محنت کا مقام اتنا بلند ہے۔
ہمارے ملک کے محنت کش طبقے کی ایک اور خصوصیت ہے جو اکثر ممالک میں نہی ہے، البتہ ممکن ہے کہ کچھ ممالک میں یہ صورت حال ہو تاہم ہمیں اس کی اطلاع نہیں ہے۔ ایران میں ہم نے خود یہ چیز دیکھی ہے کہ ہمارے ملک کے مزدور طبقے نے مقدس دفاع کے دوران یہ ثابت کر دیا کہ وہ دینی اور قومی جذبے سے سرشار ہے۔ثابت کر دیا کہ اگر وہ دیگر طبقات سے آگے نہیں ہے تو کم از کم ان کے ہراول دستے میں ضرور شامل ہے۔ حالانکہ اس کا قوی امکان ہے کہ یہ طبقہ دیگر طبقات سے آگے رہا ہو۔ انقلاب کے دوران بھی مزدور طبقے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دفاع مقدس کے دوران مزدور، ملک کے ہر گوشے سے اٹھے اور انہوں نے ملت ایران کے اس بڑے امتحان میں اپنا تعمیری کردار نبھایا۔ انہوں نے اپنے جسم و جان اور سعی و کوشش کا نذرانہ مقدس دفاع کو پیش کیا اور اپنے عقیدے اور جذبے کی سچائي و صداقت کو پایہ ثبوت تک پہنچایا۔ یہ بھی مزدور طبقے کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ یہ حقائق ہیں۔ لفاظی اور لقلقہ زبانی ان لوگوں کا کام ہے جو ان حقائق پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ ایرانی قوم کو مزدور طبقے کا احترام کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ عرف عام اور عرف دین میں لفظ مزدور کے تقدس کے معترف رہیں۔ مزدور ایک تقدس کا مالک ہے۔ مزدور وہ ہے جو ملک و قوم کی خود مختاری اور عزت و سربلندی کے لئے پسینہ بہا رہا ہے۔ اس پر ہم سب کو یقین کامل ہونا چاہئے۔ سب کو مزدور کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے، مزدور کے لفظ کا اطلاق ملک کی ترقی، فلاح و بہبود اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے محنت کرنے والے تمام افراد پر ہوتا ہے ۔ تو یہ رہی محنت مزدوری اور سعی و کوشش کی اہمیت کی بات۔
دوسری اہم بات مزدور طبقے کے سلسلے میں ملک کے حکام کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ جیسا کہ وزیر موصوف ( وزیر محنت و سماجی امور جناب جہرمی) نے اشارہ کیا کہ یہ فرائض اور ذمہ داریاں محتلف قسم کی ہیں۔ خوش قسمتی سے عوام خود محسوس کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت واقعی کام کرنے والی حکومت ہے حکومت کے بنیادی عناصر حقیقی معنی میں محنت کش ہیں۔ مسلسل مصروف ہیں، کام کر رہے ہیں، بڑے اور اہم کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ تو ان ذمہ داریوں اور فرائض میں ایک تو یہی ہے کہ ملک کے محنت کش طبقے کی مشکلات کی نشاندہی کی جائے اور انہیں دور کیا جائے۔ اس طبقے کی ایک بڑی مشکل یقینی طور پر بے روزگاری ہے۔ روزگار کی صورت حال کو بہتر بنانا اور ماہر افرادی قوت اور روزگار کے مواقع پیداکرنے والے اداروں کی مدد و معاونت لازمی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں محنت کش طبقے اور مالکان کے درمیان ایک طرح کا تلازم ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ دنیوی نظام پر استوار ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ممالک میں مزدور ایک وسیلہ ہے مالکان کی خدمت کا۔ کچھ مکاتب فکر جو مزدوروں کی حمایت کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے ان میں بھی مزدورں اور مالکان کے درمیان تصادم رہتا تھا۔ ان مکاتب فکر کے عہدہ داران اسی جنگ سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے اور مزدوروں کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے بھی کرتے رہتے تھے۔ سابق سوویت یونین کے نام نہاد سوشل نظام میں بھی، سرمایہ داری، اسراف اور مزدوروں کے دفاع کے نام پر مالی بد عنوانیوں کا دور دورہ تھا۔ ان کی منطق میں تضاد تھا۔ اسلامی جمہوری نظام ان دونوں میں سے کسی بھی نظام کو پسند نہیں کرتا۔ اس نظام کا کہنا ہے کہ مالکان اور کام کے مواقع ایجاد کرنے والے ادارے نظام کا ایک بازر ہیں اور افرادی قوت دوسرا بازو ہے۔ ان دونوں کا ہونا اور ان کے درمیان تعاون لازمی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان توازن بر قرار رکھے اور کسی کا حق ضائع نہ ہونے دے۔ نہ یہ طبقہ اس طبقے کے حقوق پر تجاوز کرے اور نہ وہ طبقہ اس طبقے کا حق مارے۔ کوئي کسی کا حق نہ کھائے۔ اگر ایسا ہو تو معاشرے میں بڑی پاکیزہ فضا حکم فرما ہوگی۔ نہ تو اسراف اور فضول خرچی کا چلن ہوگا اور نہ ہی محرومی کسی طبقے کا مقدر بنے گی۔ اسلامی جمہوری نظام کا نقطہ نگاہ یہ ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں کام کے سلسلے میں قابل تحسین سنجیدگی اور دلچسپی نظر آ رہی ہے۔ پیداواری شعبوں میں مصروف افراد نے بڑی محنت کی اور وہ ترقی کر رہے ہیں البتہ ہم ابھی ابتدائی منزلوں میں ہیں ہمیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔ ابھی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے، پیداواری شعبے کے دونوں پہلوؤں یعنی مالکان اور مزدوروں میں کام کے لئے لگاؤ اور کام کی صحیح اور بنحو احسن انجام دہی ضروری ہے۔ اسی طرح متعلقہ حکام کے لئے بھی ضروری ہے کہ پوری توجہ دیں کہ یہ عمل معتدل انداز میں آگے بڑھے اور انجام پائے۔ البتہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، کام کاتقدس اور محنت کش کا احترام تمام منصوبوں کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ اور ہر کسی کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ مزدور قابل احترام ہے۔ محنت کش اپنے زور بازو، اپنے ذہن، جسم و جان اور اپنے کام سے ملک کو خود مختاری سے ہمکنار کرتا ہے۔
اس وقت ہمارے ملک کا سب سے اہم مسئلہ خود مختاری کا مسئلہ ہے، عزیز بھائيو اور بہنو! انقلاب نے ہمیں ساسی خود مختاری عطا کی اور قوم کو یہ جرئت عطا کی کہ وہ دنیا کے ظالمانہ اور تسلط پسندانہ نظام کے مد مقابل ڈٹ جائے لیکن اگر قوم چاہتی ہے کہ دنیا کے تسلط پسندوں کے مقابلے میں یہ سیاسی خود مختاری اور ثقافتی خزانہ محفوظ رہے تو اسے اپنے اقتصاد کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوگا یہ عمل ملک میں خود مختاری کی جڑوں کو پانی دینے کے مترادف ہوگا اور اس کا انحصار مختلف شعبوں میں پیداواری صلاحیت میں اضافے، مسلسل کام، خلاقیت اور کاموں کی بارآوری پر ہے۔ تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں سے لے کر کارخانوں اور کھیتوں تک ہر جگہ یہ خلاقیت ہونی چاہئے اسی صورت میں ملت ایران کی خود مختاری کے دشمنوں کے منہ پر تالے لگیں گے اور وہ چـپ ہوکر بیٹھیں گے۔
جیسا کہ بتایا گیا، مزدور طبقے کی سب سے بڑی مشکل ان کے بیمے کا مسئلہ ، رہائش کا مسئلہ، مالکان سے ان کے رابطے کا مسئلہ ، ان کے سلسلے میں مالکان کے فرائض اور مالکان کے سلسلے میں ان کے فرائض کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل پر مسلسل توجہ دی جانی چاہئے، کام کے تئیں احساس ذمہ داری اور اس کی درست انجام دہی پر تاکید کی جانی چاہئے۔ یہ بالکل واضح بات ہے یہ بالکل عیاں ہدف ہے اور یہ قوم بھی سعی و کوشش کی خوگر ہے۔
ہماری قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ محنت و جد و جہد سے تھکنے والی نہیں ہے اور اسی سے دشمنوں پر مایوسی چھائي ہوئي ہے۔ ایرانی قوم کے دشمنوں یعنی یہی سامراجی امریکی اور صیہونزم کے خطرناک اور شیطانی نیٹ ورک میں بیس سال پہلے والی بات اب نظر نہیں آتی۔ ایرانی قوم پر غلبہ پانے کی ان کی طمع کم ہو گئی ہے کیونکہ وہ مایوسانہ انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم کس تندہی سے پیش رفت کر رہی ہے۔ ان کے پاس میڈیا ہے، عراق ہو، افغانستان ہو کہ فلسطین ہر جگہ جو جرائم انہوں نے کئے ہیں اور عراق میں قتل عام، خفیہ جیلوں کے قیام اور امریکی حکومت کی شرمناک کارکردگی، ایذا رسانی اور نہ معلوم کیا کیا؟ سب کچھ ان کے سامنے ہیں لیکن ان کی ڈھٹائي کا یہ عالم ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا دم بھرتے نہیں تھکتے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر الٹے سیدھے الزامات عائد کرتے ہیں۔ یہ سب تشہیراتی مہم کاحصہ ہے۔ جب عملی میدان میں وہ ناکارہ ہوکر رہ گئے تو انہوں نے دریدہ دہنی شروع کر دی۔ اب نئے نئے راگ الاپ رہے ہیں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ یہ سب ایرانی قوم کی پیش رفت و ترقی کا ثمر ہے۔ آپ کو اور بھی آگے جانا ہے قوم کو اور بھی ترقی کرنا ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ دریدہ دہنی بھی بند ہو جائے گی۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ اس قوم کو جو اپنی امنگوں اور بلند اہداف کے لئے کوشاں ہے کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔
انتخابات کی بابت بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا جو دو تین دن میں منعقد ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلے مرحلے کے انتخابات میں قوم نے بڑا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ پروپگنڈے کئے گئے، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا تاکہ انتخابات کو پھیکا کر دیا جائے تاکہ ایرانی عوام ووٹنگ نہ کریں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی عوام پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ میدان عمل میں اترے۔ بھرپور عوامی شرکت سے لوگوں کی نظر میں شجاع و بیدار ملت ایران کی شان بڑھتی ہے۔
بہرحال کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے، کاش ہمیشہ ایسا ہوتا کہ انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت نہ آتی۔ کیونکہ اس سے خرچ بھی بڑھ جاتا ہے اور عوام کے لئے زحمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ البتہ انتخابی رقابت بہت شدید تھی اور بڑا نزدیکی مقابلہ ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ نوبت دوسرے مرحلے تک پہنچی۔ کچھ نمائندوں کا انتخاب باقی رہ گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو مکمل کرنا ہے۔
اس سلسلے میں بھی میری نظر میں قوم کے لئے دو بہت اہم باتیں ہیں۔ ایک تو انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ہے، عوام کو اس انداز سے آگے آنا چاہئے کہ کبھی ماند نہ پڑنے والا ان کا جوش و خروش دشمن کے سامنے آ جائے اس سے دشمن مایوس ہوگا۔ اگر دشمن کو یہ احساس ہو کہ وہ پروپگنڈے اور ہنگامہ آرائي سے عوام کے جوش و جذبے کو متاثر کر سکتا ہے تو اس کی امید بڑھے گی اور اس کے حملے میں بھی شدت آئے گی۔ دشمن کو اس حقیقت سے آگاہی ہو جانی چاہئے کہ ایرانی قوم کا جوش و خروش لازوال ہے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں یہ ثابت کرنے کا بڑا اچھا موقع ہے اور انشاء اللہ عوام کے دلوں میں حب پروردگار اور اللہ تعالی کی نصرت و اعانت سے یہ ثابت ہو جائے گا۔ ایرانی قوم اس دفعہ بھی اپنی سر بلندی ثابت کرے گی۔
دوسری بات، با صلاحیت ترین افراد کا انتخاب ہے۔ یایوں کہا جائے کہ اصلح نمائندوں کا انتخاب یعنی ایسے افراد کا انتخاب جو عوام کے لئے فکرمند ہیں، جو عوامی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں جو حکومت، عدلیہ اور دیکر شعبوں کے افراد سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے مل جل کر بڑے کام انجام دیں۔ ملک اتحاد و یکجہتی کے زیر سایہ ترقی کرے گا۔ اختلافات، ٹکراؤ اور گروہ بندی سے آگے نہیں بڑھے گا۔ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ حکام کے درمیان کوئي معمولی سا اختلاف رای پیش آ جاتا ہے تو غیر ملکی ذرائع ابلاغ اس پر قیاس آرائياں شروع کر دیتے ہیں ہنگامے کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ جبکہ مسئلہ بہت معمولی سا ہوتاہے۔ مثلا طرز فکر کا اختلاف دو عہدہ داروں یا اداروں میں کسی سلسلے میں الگ الگ تاثر کا مسئلہ ہوتا ہے جس کی کام کے آگے بڑھنے کے سلسلے میں کوئي خاص اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن دشمن ان معمولی چیزوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ہنگامہ آرائي کی جاتی ہے، تبصرہ کیا جاتا ہے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں سننے اور دیکھنے والے بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ لوگ بعض افراد کے معمولی سے اختلاف پر کتنا خوش ہو گئے ہیں، بہرحال اس سے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ملک، حکام کی ہم آہنگی اور یکجہتی، حکام کے ساتھ عوام کے تعاون اور ملت ایران کی ہم آہنگ پیش قدمی سے ترقی کرے گا۔ اسلامی جمہوری حکومت کی سب سے عظیم شخصیت کی حیثیت سے دس برسوں کے دوران امام خمینی (رہ) نے اسی نکتے پر تاکید فرمائي کہ ملک کے حکام میں اتحاد و یکجہتی ضروری ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے ملت ایران کو کوشش کرنا چاہئے کہ حکام میں اتحاد رہے سب ایک ساتھ رہیں، ٹکراؤ عبث اختلافات بے بنیاد نکتی چینی اور اعتراض یہ سب نہیں ہونا چاہئے۔
سب کو ایک ہی راہ پر چلنا چاہئے، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہماری قوم میں اتحاد ہے ہماری قوم بیدار ہے، ملت ایران واقعی دانشمند قوم ہے۔ ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ قوم نے بہت سے مواقع پر جذباتیت کو نظر انداز کرکے دشمن کی اشتعال انگیزیوں کو ناکام بنایا ہے تاکہ اس قوم کا اتحاد قائم رہے۔
یہی مزدور طبقہ کسی موقع پر مختلف اندا‌ز سے مشتعل کیا جا رہا تھا تاکہ معاشرے کا یہ اہم جز انتشار کا شکار ہو جائے لیکن مزدور طبقے کے افراد نے ہوشیاری سے کام لیا اور مشتعل نہیں ہوئے تو یہ ایرانی قوم کی دانشمندی اور بیداری ہی تو ہے۔ یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔
امید کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ کے شامل حال اور ملت ایران کے سروں پر سایہ فگن رہیں، اللہ تعالی ایرانی قوم کے عزو شان اور خود مختاری کی حفاظت فرمائے اور مزدور طبقے اور ملک کے دیگر سرگرم عمل افراد کے لئے نعمتوں میں روز بروز اضافہ ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ