آپ نے اپنے خطاب میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی صفات اور تعلیمات پر روشنی ڈالی اور آج سے ایران کی مساجد میں شروع ہونے والے اعتکاف کی معنوی اہمیت کی وضاحت فرمائي۔آپ نے اسی کے ساتھ امریکہ اوراسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے سے متعلق افواہوں کے جواب میں جارح قوتوں کو خبردار کیا۔ آپ نے یورپی یونین کےساتھ جاری ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں بھی ایران اور ایرانی حکام کا موقف پیش کیا۔ تفصیلی خطاب ملاحظہ فرمائیے۔
 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یوم ولادت، ماہ رجب کا ایک بڑا مبارک اور اہم دن سمجھا جاتا ہے، میں آپ عزیز بھائی بہنوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بلند مقام اور شان و منزلت کے قائل ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مظلوموں، حریت اور انصاف پسندوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عدل علوی سے واقف ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ ہمیں حقیقی معنی میں علی علیہ السلام کا شیعہ اور تابع و پیروکار بننے کی توفیق عطا کرے۔ چند جملے اس مبارک دن کی مناسبت سے عرض کرنا چاہوں گا؛ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی خصوصیات، آپ کے ایمان خالص کا وہ نور، اسلام کے آغاز سے عمر کے آخری لمحے تک آپ کا دشوار اور سخت جہاد جو آپ انجام دیتے رہے۔ وہ بے نظیر عدل و انصاف جو آج تک مسلمانوں ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے۔ وہ تضرع ، خضوع و خشوع میں ڈوبی پر خلوص عبادت اور آپ کی دیگر صفات، ایسی چیزیں نہیں ہیں جن میں مسلمانوں کے درمیان خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کوئي اختلاف اور عدم اتفاق ہو۔
امیر المومنین علیہ السلام اس عظیم شخصیت کے مالک ہیں جس کی عظمت اور خصوصیات، اور شان و منزلت کے بارے میں تمام مسلم فرقوں کے درمیان اتفاق رای پایا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اشتراک و اتحاد قرار پا سکتے ہیں۔ ہر زمانے اور دور میں تمام مسلم فرقے سوائے نواصب کے جو اسلامی فرقوں میں شامل نہیں، امیر المومنین علیہ السلام کی اسی شان و منزلت کے قائل رہے ہیں جو آج آپ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں دیکھتے ہیں۔ بنابریں امیر المومنین علیہ السلام تمام مسلم فرقوں کا نقطہ اشتراک اور سنگم ہیں اور آپ کی ذات اتحاد بین المسلمین کا سرچشمہ قرار پا سکتی ہے۔
آج عالم اسلام کو اس چیز کی ضرورت بھی ہے۔ آج اسلام دشمن طاقتیں، جو نہ اس (مسلم) فرقے کی ہمدرد ہیں اور نہ اس فرقے کی، کبھی ایک فرقے کے خلاف دوسرے فرقے کی حمایت کر دیتی ہیں اور کبھی اس کے بر عکس عمل کرتی ہیں، ان کا سارا ھم وغم یہ ہے کہ مسلمانوں میں شگاف ڈالا جائے، خلیج پیدا کیجئے، انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا جائے۔ ایسے پر محن دور میں جب مسلمانوں کو اتحاد کی شدید ضرورت ہے، امیر المومنین علی علیہ السلام اس اتحاد کا مظہر بن سکتے ہیں۔ اس عظیم ہستی کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں جس کی عظمت کے سب معترف اور قائل ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امیر المومنین علیہ السلام بس ہمارے ہیں۔ ہم شیعہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ (معروفین بتصدیقنا ایاکم) ہم امیر المومنین اور خاندان پیغمبر اسلام سے عشق و مودت کے لئے معروف ہیں لیکن ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ امیر المومنین علیہ السلام صرف ہمارے ہیں۔ نہیں، دنیا کے تمام مسلمان، مختلف فرقے امیر المومنین علیہ السلام کےبارے میں یہ عقیدہ رکتھے ہیں کہ یہ عظیم ہستی، یہ بے مثال شخصیت، یہ اسلام کا مظہر کامل، ایک لمحے کے لئے بھی پیغمبر اسلام کی پیروی اور اتباع سے غافل نہیں ہوا، بچپن سے لڑکپن، نوجوانی سے جوانی اور پھر زندگی کے آخری لمحے تک، اللہ تعالی، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے مجاہدت کے سلسلے میں آپ سے ایک لمحے کے لئے بھی کوئي کوتاہی نہیں کی۔ تو یہ ایک نکتہ ہے جسے ہم سب شیعہ سنی یا ان دونوں فرقوں کے درمیان پائے جانے والے دیگر فرقے اتحاد و یکجہتی کا محور و مرکز بنا سکتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام سب کے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ان نعروں اور روشوں کو اختیار کیا جو تمام انسانوں سے متعلق ہیں۔ میں اس بار میں کچھ وضاحت کروں گا ، تو یہ رہا ایک نکتہ۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی محبت بہت اہم قیمتی اور با ارزش ہے۔ روایت میں ہے کہ جس شخص کے دل میں کسی کی محبت ہو وہ قیامت میں اسی کے ساتھ محشور کیا جائے گا۔ محبت کی بڑی ارزش ہے لیکن محبت ہی کافی نہیں ہے۔ پیروی اور اتباع ضروری ہے۔ ہم دنیا میں شیعہ کہلاتے ہیں، شیعہ کی تعریف اس طرح کی گئي ہے الشیعۃ من شايع علیا ان کے نقش قدم پر ہمیں چلنا چاہئے، یہ تو معلوم ہے کہ ہم کچھ بھی کر لیں مولائے کائنات کے مقام تک نہیں پہنچیں گے لیکن اس عظیم بلندی کی طرح بڑھنا تو چاہئے۔
اب آپ غور کیجئے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی با برکت، با معنی اور سبق آموز زندگی میں کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی؟ ایک تو عدل و انصاف اور مساوات ہے، عدل و انصاف سیرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شاید سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔
ظالم سے کوئي سمجھوتہ نہ کرنا، مظلوم سے ہمدردی، مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے مدد، وہ چیزیں ہیں جو امیر المومنین علیہ السلام کی حیات طیبہ، آپ کے اقوال اور نہج البلاغہ میں مرقوم خطبوں میں جگہ جگہ جلوہ فگن ہیں۔ مولائے متقیان کے ان جملوں پر توجہ فرمائیے و اللَّه لأن ابيت على حسك السّعدان مسهّدا أو أجرّ فى‏الأغلال مصفّدا احبّ الىّ من أن القى اللَّه ... ظالما لبعض العباد و غاصبا لشئ من الحطام یہ ہے حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کی پہچان، یعنی اگر زندگی کے دشوار ترین موڑ پر پہنچ جاؤں تو بھی نا ممکن ہے کہ کسی بھی مخلوق کے ساتھ کوئي نا انصافی کروں اور اپنے لئے دنیوی حطام، دنیوی ذخائر حاصل کروں۔
دنیا ان لذتوں کے معنی میں جو ایک انسان اپنی زندگی کے لئے چاہتاہے امیرالمومنین علیہ السلام کے نزدیک مکمل طور پر متروک ہے۔ آپ کا دنیا سے خطاب ہے غری غیری اے لذت، اے مادی زندگی کی خوبصورتی جا کر کسی اور کو فریب دے، علی کو فریب نہیں دے سکتی، یہ امیر المومنین علیہ السلام کا نعرہ ہے۔
آج اسلامی نظام میں، اس نظام میں جو اسلام کے نام پر ہمارے ملک میں تشکیل پایا ہے، کون سی چیز سب سے زیادہ اہم اور حیاتی درجہ کی حامل ہے اور کس چیز کی بابت خاص حساسیت اور توجہ کی ضرورت ہے؟ مساوات، یعنی اگر ہمارے اس زمانے میں، اس معاشرے میں اور ان عوام کے درمیان جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے خاص عقیدت و مودت رکھتے ہیں، آپ موجود ہوتے تو کس چیز پر آپ کی خاص تاکید ہوتی؟ یقینا عدل و انصاف اور مساوات پر۔
مساوات، کسی خاص گروہ، عوام یا کسی ایک ملک اور قوم کا مطالبہ اور خواہش نہیں ہے۔ یہ تو پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی دلی آرزو رہی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی جستجو آج بھی انسانیت کو ہے اور انبیاء الہی یا امیر المومنین علیہ السلام جیسے اولیاء کے ادوار حکومت کے علاوہ، جو کبھی کبھی دیکھنے میں آئے، عدل و انصاف پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔
دنیا پرست افراد اور وہ لوگ جن کے دل مادی اور دنیوی چیزوں کی ہوس سے لبریز ہیں، کبھی بھی عدل اور مساوات قائم نہیں کر سکتے۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ایک بے نیاز دل، قوی ارادے اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ ہماری بھرپور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس راہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں، ہمیں اعتراف ہے کہ ہم مولائے کائنات کی مانند عدل و انصاف قائم نہیں کر سکتے۔ یہ ہم مانتے ہیں کیونکہ کہاں ہم اور کہاں وہ فولادی اور آہنیں ارادے کے مالک علی علیہ السلام، غول پیکر لہروں کے سامنے ہم کہاں ٹک سکتے ہیں؟! لیکن پھر بھی ہمیں اپنی بساط بھر تو کوشش کرنی چاہئے۔
امیر المومنین علیہ السلام اپنے گماشتہ افراد کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ امیر المومنین علیہ السلام کے درجےپر فائز نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری ہمارے دوش پربھی ہے اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ عوام کو بھی اس چیز کا مطالبہ کرنا چاہئے یہ چیز عوامی سطح پر رائج ہو جانی چاہئے، ہمارے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ، عدل و انصاف ہونا چاہئے، داخلی امور میں بھی اور عالمی مسائل کے تعلق سے بھی۔
آج دنیا میں جو یہ بے انصافی اور عدم مساوات ہے اور بڑی طاقتوں کی جانب سے عالم انسانیت اور اقوام پر جو ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، اس بڑی لعنت سے مقابلہ اس مسلمان کی نظر میں اہم ترین فریضہ ہونا چاہئے جو اسلام کی حاکمیت کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہماری زندگی کا اہم ترین نعرہ ہونا چاہئے اندرونی اور بیرونی تمام مسائل میں۔
اگر ہم عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم نصرت الہی پر یقین رکھیں اور اللہ تعالی سے اپنے قلبی رابطے کو مستحکم کریں۔ یہیں پر دعا و عبادت و خضوع و خشوع اور مناجات و توسل کی اہمیت پتہ چلتی ہے۔ ماہ رجب، عبادت و مناجات تضرع و توسل الی اللہ کی بہار ہے۔ عبادت کے ان ایام، اس ماہ رجب، ماہ شعبان اورسب سے بڑھ کر ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے۔
اگر ہم زندگی کے میدان میں اس صراط مستقیم کے راہرو بننا چاہتے ہیں جسے اسلام نے متعارف کروایا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی سے ہمارا رابطہ مضبوط و مستحکم ہونا چاہئے۔ یہ رابطہ دعا و نماز کے ذریعے اور گناہوں سے دوری کے ذریعے مضبوط ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام جیسا انسان، شجاعت کا وہ پیکر، کہ میدان کارزار میں جس کی شجاعت کے ڈنکے سارے دنیا میں بج رہے ہیں، کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے، جب محراب عبادت میں پہنچتا ہے تو یتململ تململ السلیم ایسے شخص کی مانند تڑپتے ہیں، گریہ کرتے، پیشانی زمین پر رگڑتے ہیں جسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ دعای کمیل اور یہ مناجات شعبانیہ جو امیر المومنین علیہ السلام سے منسوب ہیں ان پر آپ غور کیجئے، پروردگار کی بارگاہ میں اس عظیم انسان کے گریہ و زاری اور تضرع و توسل کا کیا انداز ہے؟! یہ ہمارے لئے سبق ہے۔
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عوام خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کے دل اللہ تعالی، رحانیت اور دعا و مناجات کی طرف مائل ہیں۔ آج تیرہ رجب ہے، اعتکاف کا پہلا دن۔ آپ دیکھئے ہمارے ہزاروں نوجوان آج ملک بھر میں مختلف مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہیں۔ روزے کے عالم میں، خالی پیٹ اور سوکھے ہونٹوں کے ساتھ، اس گرمی کے موسم میں، اللہ تعالی سے مناجات اور راز و نیاز میں مصروف ہیں۔ اس کی ارزش کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ہماری قوم کو چاہئے کہ اس اعتکاف کی قدر کرے۔ میں یہیں پر متعلقہ حکام سے ایک سفارش بھی کرنا چاہوں گا کہ اگرچہ مختلف جگہوں پر ہزاروں افراد کا اجتماع بڑا اچھا موقع ہوتا ہے، ہم نے سنا ہے کے بعض مساجد کے منتظمین اجتماعی پروگرام رکھتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں لیکن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اعتکاف کے یہ ضمنی اجتماعی پروگرام اس طرح منعقد نہ کئے جائيں کہ معتکف حضرات کی خلوت اور خدا کی بارگاہ میں ان کی تنہائي میں کوئي خلل واقع ہو۔ یہ نوجوان جو اعتکاف میں بیٹھے ہیں در حقیقت اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کے لئے خلوت کے متمنی ہیں۔ اعتکاف انفرادی عمل ہے۔ اللہ تعالی سے لو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اعتکاف کے مراکز کے اجتماعی اور گروہی پروگراموں سے خلوت کی حالت اور اللہ تعالی سے برقرار ہونے والا قلبی رابطہ متاثر ہو۔ ان نوجوانوں کو قرآنی وادیوں میں اتر جانے کا موقع ملنا چاہئے انہیں نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں کھو جانے کا موقع ملنا چالئے۔
میں ان ایام اعتکاف میں صحیفہ سجادیہ پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ صحیفہ سجادیہ واقعی ایک معجز نما کتاب ہے۔ خوش قسمتی سے اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے بلکہ کئي ترجمے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال مجھے صحیفہ سجادیہ کا ایک ترجمہ دکھايا گيا میں نے پڑھا، بہت اچھا ترجمہ تھا۔ صحیفہ سجادیہ میں مذکور حضرت علی ابن الحسین علیھما السلام کی دعاؤں سے استفادہ کیجئے، انہیں پڑھئے اور ان کے معانی پر غور کیجئے۔ یہ صرف دعا نہیں ہے، درس ہے۔ سید سجاد علیہ السلام کے یہ کلمات اور ائمہ اطہار سے منقول جملہ دعائيں معرفتوں اور تعلیمات کا خزانہ ہیں۔
تو رجب کا مہینہ ہے، عبادتوں کا مہینہ ہے، پروردگار کی بارگاہ میں مناجات کا مہینہ ہے، تضرع کا مہینہ ہے اور اس راستے میں امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالی سے اپنا قلبی رشتہ مضبوط کریں تاکہ میدان زندگی میں مضبوط قدم، محکم ارادے اور اور روشن ذہن کے ساتھ آگے بڑھيں۔
کوئي قوم اگر اپنی عزت و وقار کی بازیابی چاہتی ہے تو اس کے ارادوں میں استحکام ضروری ہے، اس کی نظر میں اس کا ہدف واضح اور اللہ تعالی کی ذات پر ایمان سے اس کا دل لبریز ہونا چاہئے۔
اسلام کی پیروی کے باعث آج ہماری قوم کو عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اگر صراط مستقیم کا راہرو بننا ہے، اگر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنا ہے تو خود کفیل اور آزاد ہونا ضروری ہے۔ ظالم و ستمگر طاقتوں سے خوفزدہ نہیں ہونا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ملت ایران اور دشمنوں کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا ہے۔ اختلاف کی جڑ یہی ہے۔ ملت ایران سامراج کی دھونس میں آنے کو تیار نہیں ہے، اپنے مفادات سامراجی مفادات پر قربان کرنے پر راضی نہیں ہے اور عالمی سامراج جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، اس کے بالکل برعکس طرز عمل دیکھنا چاہا ہے۔
سامراج کی خواہش یہ ہے کہ قوموں کے ذخائر، ان کی زندگی اور تمام وسائل لوٹ لیں۔ بظاہر انسانی نظر آنے والے ان کے تمام دعوے اور نعرے جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ان کا اصل ہدف یہی ہے۔ لہذا اگر کوئي قوم واقعی آزاد اور خود مختار رہنا چاہتی ہے اور خود مختاری کے فریب کا شکار نہیں ہونا چاہتی، جیسا کہ آج بعض ممالک بظاہر آزاد اور خود مختار ہیں لیکن در حقیقت خود مختاری کے فریب میں ہیں اور بڑی طاقتوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، تو بڑی طاقتوں سے اس کی بننے والی نہیں ہے۔ ملت ایران کے سامنے یہی چیلنج ہے۔ اگر قوم اس چیلنج کے مقابلے میں کامیابی اور اپنے وقار اور آزادی و خود مختاری کی حفاظت چاہتی ہے تو اسے محکم ارادے اور ثبات قدم کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے ان دو تین عشروں میں ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ جارح اور تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہوئي ہے۔
یہ پائداری و استقامت جو ملت ایران اور اسلام کے لئے باعث عز و شان ہے، اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اسی سے طلب نصرت کا نتیجہ ہے۔ بڑی طاقتوں کا مزاج یہ ہے کہ قوموں کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے میدان عمل سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ قوموں سے ٹکر لینا ان کے بس کی بات نہیں ہےـ
سامراجی طاقتیں ان حکومتوں کو اشارہ ابرو سے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں جنہیں قوموں کی حمایت حاصل نہ ہو، بہت سے مقامات پر یہ صورت حال نظر آتی ہے، اکثر ان کی دھمکیاں کارگر ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ حکومت جس کی بنیادیں، عوام کے ایمان، پختہ ارادے اور جذبات پر استوار ہوں سامراجی طاقتیں اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتی ہیں کیونکہ اس حکومت سے مقابلہ کرنے کا مطلب خود ملت سے مقابلہ کرنا ہے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک امریکہ جسے انقلاب نے ایران سے نکال باہر کیا، اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے حکام کو اپنی دھونس میںلینے اور انہیں میدان سے ہٹ جانے پر مجبور کرنے کی بارہا کوشش کر چکا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی آئندہ اسے کامیابی ملنے والی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس اسلامی جمہوری نظام سے عوام کو جذباتی لگاؤ ہے اور یہ نظام عوامی حمایت پر استوار ہے۔ یہ بڑی طاقتیں اور ساری دنیا کو ہضم کر جانے کی خواہش رکھنے والے سیاستداں بسا اوقات اتنی بڑی حماقتیں کر دیتے ہیں کہ واقعی تعجب ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف عوام کو متحد کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں، دسیوں لاکھ ڈالر منظور کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے کہ عوام کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف بغاوت کے لئے تیار کیا جائے۔ یہ تو سراسر حماقت ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب عوام کو خود عوام ہی کے مقابلے میں کھڑا کر دینا ہوگا۔ یہ کیا بات ہوئی؟! اسلامی جمہوری نظام، اسی ملت ایران ہی کا دوسرا نام ہے تو کیا ملت ایران کو ملت ایران کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے؟! اگر کسی نظام کا عوام سے رشتہ ٹوٹ جائے تب تو وہ نظام واقعی خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام تو عوامی رای، عوامی جذبات، عوامی حمایت اور عوامی ایمان پر ٹکا ہوا ہے۔ ایسے نظام کا ان حربوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بہانہ تراشی کی جاتی ہے، دھمکی دی جاتی ہے کبھی ایٹمی مسئلے کو بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی دیگر مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔ ایٹمی مسئلے کے سلسلے میں بھی چند جملے عرض کرتا چلوں؛ میں بارہا ملت ایران کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں اور بار بار اسے دہراتا رہوں گا کہ ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں ملت ایران کو جو عظیم کامیابی ملی ہے وہ ایک تاریخی کامیابی ہے اور اس سلسلے میں ملت ایران کسی کی بھی احسان مند نہیں ہے۔ یہ ایک مقامی اور قومی ٹکنالوجی بن چکی ہے، یہ تحفہ آپ کے نوجوانوں کی مہارتوں اور حکام کی فہم و فراست سے ملت ایران کو ملا ہے۔ یہ ملت ایران کا حق ہے اور کوئي بھی طاقت یہ ٹکنالوجی اور یہ حق ملت ایران سے چھین نہیں سکتی۔ خوش قسمتی سے حکام پوری سنجیدگی سے اس مسئلے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ جو حکومتیں معاندانہ رویہ اپناتے ہوئے ملت ایران کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتی ہیں مثلا امریکہ جو بڑی ڈھٹائي سے کہتا ہے کہ ہم اس کے خلاف ہیں کہ ملت ایران کو یہ درجہ حاصل ہو، ان کے اور ان حکومتوں کے درمیان ہم فرق رکھنے کے قائل ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ نہیں، ایران سے ایٹمی مسئلے سمیت تمام مسائل کے سلسلے میں گفتگو کرنی چاہئے تاکہ اگر کوئي تشویش ہے تو اسے دور کرنے کا راستہ نکالا جا سکے۔ یہ ٹھیک ہے، اس پر ہمیں کوئي اعتراض نہیں، ہم نے یورپی ممالک سے گفتگو کے لئے رضامندی ظاہر کی ہے۔ پہلے ان سے بھی گفتگو میں ہماری دلچسپی نہیں تھی لیکن جب ہم نے محسوس کیا کہ وہ ملت ایران کا احترام کر رہے ہیں، عزت دے رہے ہیں، واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم ملت ایران کا حق تسیلم کرتے ہیں اور ملت ایران اور ایرانی حکام کے تئیں ریڈ لائن کی حیثیت رکھنے والے امور پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اس پر ہم کوئي بات نہیں کریں گے، تو ہم نے بھی کہا ٹھیک ہے۔ ہمارے حکام تیار ہیں اور مذاکرات کریں گے۔
بہرحال یورپیوں کو بھی جو مذاکرات میں ملت ایران کے فریق ہیں، یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مذاکرات اسی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب دھونس اور دھمکی کی فضا کا سایہ ان پر نہ پڑے۔ ایرانی قوم غیور قوم ہے، ملت ایران کو یہ پسند نہیں کہ کوئي آکر دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کرے کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم ایسا کر دیں گے، دھمکی سے تو ہمیں الرجی ہے، ملت ایران کسی بھی دھمکی سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔
ملک کے حکام، ایٹمی مسئلے میں پوری سوجھ بوجھ اور دانشمندی کے ساتھ فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اعلی قومی سلامتی کونسل کے ہاتھ میں ہے جس کے سربراہ صدر محترم ہیں۔ یہ لوگ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ صدر محترم اور دیگر حکام ایٹمی مسئلے میں کہہ رہے ہیں اس پر ملک کے تمام حکام کا اتفاق رای ہے۔ دشمن اگر کسی بات کو اچھال کر یہ ظاہر کرنا چاہیں کہ اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ ان کی ابلہانہ اور بچکانہ کوشش ہوگی۔
تینوں شعبوں (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) کے سربراہ اور قائد انقلاب اسلامی کے نمایندے سب ایک ساتھ ہیں، ایک ایک پل کی خبر رکھنے والے ذمہ دارافراد اس مسئلے پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے بر وقت ضروری اقدامات کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بالکل واضح ہے۔
ہماری کچھ واضح ریڈ لائنیں ہیں، اگر مذاکرات کے ہمارے فریق ملت ایران، اسلامی جمہوری نظام کی شان و منزلت اور ان ریڈ لائنوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو ہمارے حکام مذاکرات کریں گے۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ دھمکی آمیز بات نہ کی جائے، ملت ایران دھمکی برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ ہم نے بالکل واضح لفظوں میں اعلان کر دیا ہے کہ اگر کوئي اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں کوئی حماقت آمیز اقدام کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کا عملی جواب بڑا تباہ کن ہوگا۔ ہاں اگر امریکہ یا اسرائیل جو بے شمار داخلی مسائل سے دوچار ہیں، امریکی حکومت، بش انتظامیہ انتخابات جس کے سر پر ہیں اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں روسیاہ صیہونی ، ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لئے بوکھلاہٹ میں کچھ کہہ گئے تو خیر وہ اپنی جگہ لیکن اگر واقعی انہوں نے کوئي احمقانہ اقدام کیا تو وہ یاد رکھیں کہ اسلامی جمہوریہ اور وطن عزیز کی سمت بڑھنے والا ہاتھ ملت ایران قلم کر دے گی۔ کوئي فرق نہیں پڑتا کہ یہ جرائم پیشہ گستاخ ہاتھ سرکاری عہدے سے وابستہ رہتا ہے یا عہدے سے الگ ہو چکا ہے۔ کوئي اس بھول میں نہ رہے کہ موجودہ امریکی صدر (اپنے اقتدار کے) ان آخری چند مہینوں میں احمقانہ اقدام کرکے اس کے نتائج آئندہ حکومت کے سر منڈھ سکتا ہے (اور خود کو الگ کر سکتا ہے) نہیں، یہ ہو نہیں پائے گا۔ اگر کسی نے ایسی کوئي حماقت کی تو عہدے سے ہٹ جانے کے بعد بھی ملت ایران اس مجرم کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور اسے اس میں کوئي شک نہیں ہونا چاہئے کہ ملت ایران اسے سزا دیکر رہے گی۔
اللہ تعالی نے ہمارے دلوں کو اپنی ذات پر توکل کی نعمت سے مالامال رکھا ہے۔ اس نے ہمارے دلوں کو امیدوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ ہم الہی امداد سے ایک لمحے کے لئے بھی مایوس نہیں ہوئے اور امید کرتے ہیں کہ آخری لمحے تک کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالی کا ارشاد ہےلا تیئسوا من روح اللہ اللہ تعالی نے اس قوم کو قوت ارادی، جوش و جذبہ اور امید کی نعمت عطا کی ہے۔
میرے عزیزو! میرے بھائيو! میری بہنو! بالخصوص نوجوانو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ قوی ارادہ اور یہ جوش و جذبہ آپ کے اندر ہمیشہ باقی رہے تو اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مضبوط کیجئے، اللہ تعالی سے راز و نیاز اور دعا و مناجات کیجئے۔ اللہ تعالی سے مانگئے اور آفات و بلیات سے اس کی پناہ ملنے کی دعا کیجئے۔ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کیجئے وہ یقینا آپ کی مدد فرمائے گا۔ انشاء اللہ اس ملک کے نوجوان وہ دن دیکھیں گے جو ان کے لئے گزرے دنوں سے زیادہ شیریں اور دلنشیں ہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ کا مستقبل روشن و تابناک ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کو اپنی ذات سے راضی و خوشنود کر سکیں اور شہدا و امام (خمینی رہ) کی ارواح مطہرہ ہم سے خوش ہو سکیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ