بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں اس مبارک و مسعود دن کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اہل بیت اطہار کی مدح سرائی کرنے والے آپ شعراء و مداحوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ آپ کے یہ پاکیزہ جذبات و احساسات اور آپ کی یہ فکری کاوشیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کریں۔ یہ جذبات بہت قیمتی ہیں، اہل بیت اطہار بالخصوص اس عظیم کنبے کی با عظمت ہستی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کا موتی بڑا بیش بہا ہے۔ صدف نبوت و ولایت کے اس گوہر کا یوم پیدائش، شیعوں آپ کے محبوں اور نسبی و روحانی اولادوں کے لئے بہت بڑی عید ہے۔ ایک شاعر نے ابھی اشارہ کیا کہ اسلام دشمن عناصر نے اس شیریں دن کو عراق و نجف اشرف کے سانحے سے تلخ بنا دیا، یہ حقیقت ہے۔ اللہ کی لعنت ہو ان ظالم، منافق، دروغگو، حیلہ گر اور تسلط پسند سامراجی طاقتوں پر جن کے نزدیک نہ تو انسانوں کا کوئی مقام و احترام ہے اور نہ عوام کے حقوق کا پاس و لحاظ، ان کی نظر میں نہ تو قوموں کے وقار کے کوئي معنی ہیں اور نہ ممالک کی خود مختاری کی کوئی اہمیت۔ اگر کوئي سمجھتا ہے کہ ان کی چاپلوسی سے اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنا کام نکال سکتا ہے تو یہ بہت بڑی بھول ہے۔ ان کے سلسلے میں مزاحمت و استقامت اور حق پر اصرار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کا جواب مضبوط ارادہ، منطقی و معقول موقف اور بازوئے قوی کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ آج یہ طاقتیں دنیا کے مسائل میں اسیر ہوکر رہ گئی ہیں۔ وہ چیز جس کی وجہ سے عراق ان کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا جس سے ان کا دم گھٹا جا رہا ہے وہ مٹھی بھر کمزور عراقیوں کا جذبہ ایمانی اور قوت ارادی ہے۔ عراقیوں کے پاس نہ پیسہ ہے نہ اسلحہ اور نہ ہی کوئی عالمی حمایت لیکن انہوں نے اپنے عزم محکم اور سعی پیہم کے ذریعے وہ کام کیا ہے کہ تسلط پسند طاقتوں کے خواب چکناچور ہو رہے ہیں اور عراق تر نوالے کے بجائے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ امریکی عراق میں بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں تو نقصان اٹھانا پڑےگا عقب نشینی اختیار کرتے ہیں تو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا، جب تک ان کا مشن جاری رہے گا انہیں نقصان پہنچتا رہے گا۔ وہ بہت برے پھنسے ہیں۔ جب بھیڑیا کہیں پھنس کر غرانے لگتا ہے تو ممکن ہے کہ اس سے بعض افراد خوفزدہ ہو جائیں یا ممکن ہے کہ اس کے پنجے سے کوئی شخص زخمی ہو جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پھنسا ہوا ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہےکہ وہ عالم اسلام کو ان کے شر سے نجات دلائے اور عراق کی مسلمان قوم اور دنیا بھر کے شیعوں اور جملہ مومن و مسلمان اقوام کو اس آہنیں ارادے سے کام لینے کی توفیق دے جس کی ہمیں قرآن دعوت دیتا ہے۔
جہاں تک سوال ہے صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا کے اوصاف و صفات کا تو ہماری زبان ان کےبیان سے قاصر ہے۔ ان کا احاطہ نا ممکن ہے۔ آپ کے اوصاف و کمالات ہمارے الفاظ کے پیرائے میں آ ہی نہیں سکتے۔ البتہ فن شاعری کا یہ کمال ہے کہ وہ کسی حد تک ذہنوں کو آپ کے کمالات کے نزدیک پہنچا دیتا ہے لیکن وہ بھی ان کمالات کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ہاں جو شخص اپنے قلب اور کردار کو پاکیزہ بنا لیتا ہے، اپنے جسم و جان کو طاہر بنا لیتا ہے، تقوی و پرہیزگاری اس کے مزاج کا جز بن جاتی ہے، جوخود سازی کرتا ہےاور خود کو ان آلودگیوں سے منزہ کر لیتا ہے جو ہم جیسے افراد کے اندر پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی آنکھوں میں خاص بصیرت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بہت کچھ دیکھ لیتا ہے لیکن اس مرحلے پر پہنچ کر بھی انسان ان کمالات و اوصاف کو بخوبی بیان نہیں کر سکتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ پاکیزہ دل اور آنکھیں ان مقدس ہستیوں کے انوار کا کسی حد تک احساس کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے کچھ علامتیں ہیں مثلا پیغمبر اسلام کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے گھر یا اس جگہ تشریف لاتیں جہاں آپ موجود ہوتے تھے تو آپ قام الیہا ان کے استقبال میں کھڑے ہو جاتے تھے اور آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کرتے تھے۔ یہ عظمت کی نشانی اور علامت ہے۔ آغاز اسلام سے اب تک پورا عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، حضرت صدیقہ طاہرہ کو عظمت و عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ بھی ایک علامت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک امت کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور اور مفکر پوری تاریخ میں ایک محوری ہستی کی مدح سرائی کرتے رہیں مگر یہ کہ وہ ہستی واقعی بے پناہ عظمتوں کی مالک ہو۔ یہ سب عظمت کی علامتیں ہی تو ہیں، اٹھارہ سالہ نوجوان خاتون کہ جس کا سن مبارک تاریخ میں حد اکثر بائیس سال بیان کیا گیا ہے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام جس طرح آپ کا احترام کرتے تھے اور ائمہ اہل بیت اطہار علیھم السلام سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی شان میں جو احادیث منقول ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت اور اولیائے خدا بھی اس عظیم ہستی سے کیسی عقیدت رکھتے تھے۔ ائمہ اہلبیت علیھم السلام انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کی آبیاری کرنے والے دریا ہیں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے وجود مبارک کے معنوی سرچشمے سے جاری ہوتے ہیں۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق، امام موسی کاظم اور امام علی رضا اسی طرح بعد کے ائمہ علیھم السلام سب کے سب آب کوثر کے دریا ہیں اور یہ آب کوثر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات گرامی ہے۔ ہم اس عظیم ہستی کو اپنے لئے نمونہ عمل کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ آپ کی زندگی بالکل معمولی اور سادہ تھی، غریبوں جیسا لباس پہنتی تھیں، آپ کا سن مبارک بھی حد اکثر اکیس بائیس سال تھا، آپ ایک طرف تو گھریلو کاموں میں پوری تندہی سے مصروف ہیں تو دوسری جانب علم و دانش کا بحر مواج بھی آپ کے وجود میں موجزن ہے۔
قرآن کریم میں چار خواتین کے نام مذکور ہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دو خواتین نیکوکاروں کے لئے نمونہ ہیں اور دو بدکاروں کے لئے۔ ضرب الله مثلاً للّذين کفروا امرأة نوح و امرأة لوط حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام کی ازواج جو کانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين فخانتاهما یہ دونوں عورتیں تاریخ کے کفار کے لئے نمونہ ہیں۔ خدا وند عالم قرآن میں جب کفر آمیز وجود کا نمونہ پیش کرنا چاہتا ہے تو فرعون اور نمرود یا دیگر ارباب کفر کے بجائے ان دونوں عورتوں کی مثال پیش کرتا ہے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام کی بیویوں کی مثال کہ جن کے لئے رحمت الہی کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور ان کی سعادت و خوشبختی کی راہ ہموار تھی، حضرت نوح اور حضرت لوط جیسے عظیم پیغمبروں کی زوجیت میں ہونے کا انہیں شرف بھی حاصل تھا اس طرح ان کے پاس کسی طرح کا کوئی عذر نہیں تھا لیکن ان دونوں عورتوں نے ان عظیم نعمتوں کی قدر نہیں پہچانی اور انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی۔ کجروی اختیار کی۔ نبوت کے عظیم مرتبے پر فائز ان کے شوہر بھی انہیں کوئی فیض نہیں پہنچا سکے۔ فلم يغنيا عنهما من الله شيئا اللہ تعالی کو کسی سے نہ تو کوئی تکلف ہے اور نہ ہی کسی سے اس کی کوئی رشتہ داری۔ اگر کوئی اس کے لطف و کرم اور رحمت و الفت کا مستحق قرار پاتا ہے تو اس کی کوئی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ اس میں تکلفات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ ان دونوں خواتین کے شوہر پیغمبر الہی تھی لیکن وہ بھی انہیں اللہ تعالی کے عتاب سے نجات نہیں دلا سکے اور یہ عورتیں تاریخ کے کفار کا نمونہ بن گئيں۔ دوسری طرف اللہ تعالی نے قرآن میں ایسی بھی دو خواتین کا ذکر فرمایا ہے جو مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
و ضرب الله مثلا للّذين امنوا امرأة فرعون اذ قالت ربّ ابن لي عندک بيتا في الجنّة و نجّني من فرعون و عمله ایک فرعون کی زوجہ اور دوسرے حضرت مریم۔ فرعون کی زوجہ کا کمال یہ تھا کہ فرعون کا محل اور وہاں کی پر تعیش زندگی انہیں راہ حق سے منحرف نہیں کر سکی۔ جو خاتون فرعون کی زوجہ ہے ظاہر ہے اس کے والدین بھی انہیں طاغوتوں میں سے ہوں گے اور اس میں بھی دو رای نہیں کی اس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی ہوگی لیکن حضرت موسی کا پیغام ان کے دل میں اتر گیا اور آپ حضرت موسی کے دین پر ایمان لائيں۔ جب نور ایمان آپ کے دل میں اتر گیا اور آپ نے حق کے راستے کو نگاہ بصیرت سے دیکھ لیا تو اس کے سامنے محل کی رنگینیاں بے وقعت اور ہیچ ہوکر رہ گئیں اور آپ کی زبان پر یہ دعا آ گئی ربّ ابن لي عندک بيتا في الجنّة اے میرے پروردگار مجھے تو باغ بہشت میں تیری بارگاہ میں کاشانہ چاہئے۔ حضرت مریم کا بھی تذکرہ موجود ہے و مريم بنت عمران الّتي احصنت فرجها فنفخنا فيها من روحنا»؛ آپ نے پاکدامنی کو اپنا شیوہ بنایا، ظاہر ہے، یہ اعلی انسانی اقدار ہیں۔ یہ چار خواتین صرف عورتوں کے لئے نمونہ نہیں ہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے نمونہ اور عبرت ہیں۔ اول الذکر دونو خواتین ایسی تھیں جن کے سامنے رحمت الہی کے دروازے کھلے ہوئے تھے لیکن انہوں نے ان میں داخل ہونے سے گریز کیا انہوں نے پست و فرومایہ چیزوں کے لئے معنویت و روحانیت کے خزانے کو ٹھکرا دیا۔ قرآن کریم نے اس کے اسباب و علل کا ذکر تو نہیں کیا ہے لیکن بہرحل اس کی وجہ ان کی بری خصلتیں ہو سکتی ہیں یا ان کا برا اخلاق۔ کسی معمولی چیز کے لئے وہ راہ حق سے منحرف ہو گئیں اور بن گئیں کفر و الحاد اور نا شکری کا مظہر۔ جبکہ دوسری دونوں خواتین اعلی اقدار کا مظہر ہیں، ان کے لئے حق و صداقت میں اتنی کشش ہے کہ وہ پورے فرعونی نظام اور بادشاہت سے منہ پھیر کر اس کی جانب قدم بڑھاتی ہیں۔ حضرت مریم کا عالم یہ ہے کہ ‏آپ اپنی پاکدامنی و پاکیزگی کی اس انداز سے حفاظت فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نمونہ قرار دے دیتا ہے۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات اقدس پر، یہ ذات تمام فضائل و کمالات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ حضرت مریم کے لئے ارشاد ہوتا ہے و اصطفاک علي نساء العالمين اسی طرح احادیث میں بھی ذکر ہے کہ آپ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا مقام یہ ہے کہ آپ پوری تاریخ انسانیت کی عورتوں کی سردار اور ان کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ برادرانی گرامی! آج ہمیں اس نمونہ عمل کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا کے تشہیراتی ادارے ہر خطے میں انسانی معاشروں کے سامنے نئے نئے گمراہ کن نمونے پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان نمونوں میں کشش نہیں ہے اور یہ کامیاب نہیں ہیں لیکن پھر بھی گمراہ کن کوششیں جاری ہیں۔ اس مقصد کے لئے اداکاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے مصنفین کو خریدا جا رہا ہے۔ ظاہری شان و شوکت والی شخصیتوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے سامنے فرومایہ نمونے پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو کسی خاص سمت میں لے جایا جا سکے۔ اس سازش کے تحت بڑے پیمانے پر دولت خرچ کی جاتی ہے۔ ہالیوڈ کی فلمیں اور ان کے جیسے دیگر پروگرام خاص مقصد کے تحت تیار کئے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے تو ضرور ہیں کہ فن و ہنر، سیاسی افکار و نظریات سے آزاد رہنا چاہئے لیکن عملی میدان میں فن و ہنر، سنیما و تھئيٹر، فلم و ڈراما، شعر و تحریر اور (مغالطہ آمیز) فلسفیانہ استدلال سمیت ہر ممکن حربہ اور ذریعہ سامراجی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام اس کی واضح مثال ہے۔ اس نظام کی فوجی طاقت امریکہ ہے تو اقتصادی طاقت وہ کمپنیاں ہیں جو امریکی حکومت کے پیچھے پیچھے ریشہ دوانیاں کر رہی ہیں۔ وہ (اپنے مد نظر) نمونوں کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے تمام وسائل سے استفادہ کرتی ہیں۔ قوموں کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے نمونوں کا فقدان ہے جنہیں وہ اپنی طرف سے پیش کر سکیں۔ ہاں ہم مسلمانوں کے پاس نمونہ عمل ہے۔ ہمارے سامنے عظیم ہستیوں کے کردار ہیں۔ عورتوں کے موضوع پر گفتگو کی جائے تو اسلام میں بڑی با عظمت خواتین مل جائيں گی جن میں سب سے عظیم صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی ہے۔ حضرت زینب کبری اور حضرت سکینہ کی شخصیتیں بھی اہل نظر اور با بصیرت افراد کے لئے بڑی گراں قدر اور قابل تقلید ہیں۔ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کو جوانان جنت کا سردار قرار دیا گيا ہے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگوار ہمیشہ تو جوان نہیں رہے، ان پر بڑھاپا بھی آیا لیکن آپ کا لقب جوانان جنت کے سردار بدستور برقرار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہستیوں کی جوانی کے ایام رہتی دنیا تک تمام نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل رہیں گے۔ پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المومنین علیھما السلام کے جوانی کے ایام بھی ایسے ہی ہیں۔
آپ مداحان اہلبیت اطہار کی خدمت میں میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں۔ میں بسا اوقات کچھ سفارشیں کرتا ہوں کہ ہم صرف اشعار اور فصیح و بلیغ بیان کے ذریعے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی عظمت پر روشنی ڈالنے اور پھر اس سلسلے میں اظہار عاجزی کرنے پر اکتفا نہ کریں کیونکہ ہمیں اس عظمت کی شدید ضرورت ہے۔ یہ درخشاں سورج تمام موجودات عالم کو فیضیاب کرتا ہے۔ یہ سورج ہمارے گھر آنگن میں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ ہمیں اس فکر میں رہنا چاہئے کہ اس سے کس طرح استفادہ کیا جائے۔ آسمان پر چمکنے والے سورج کو دیکھ دیکھ کر اگر ہم گھنٹوں اس کے گن گاتے رہیں اور اپنی فہم ناقص کے سہارے اس کی توصیف کرتے رہیں لیکن اس کی روشنی سے استفادہ نہ کریں اس کی حرارت سے فیض نہ اٹھائيں، اپنے جسم کی تقویت اور ضرورتوں کی تکمیل نہ کریں تو یہ عقلمندی نہیں کہلائے گی۔ ان عظیم ہستیوں کی شان و منزلت بہت بلند ہے۔
اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ان افراد پر جو ہمارے ملک میں شیعیت کا تحفہ لےکر آئے اور نتیجتا ہم عظیم حقائق سے آشنا ہوئے۔ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو بڑی دشواریاں پیش آتیں۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان شعلہ بیان زبانوں، شمشیروں اور قلموں پر جن کے ذریعے یہ حقائق ہم تک پہنچے اور ہم نے انہیں دیکھا اور سمجھا۔ یوں تو یہ بین دلیلیں بہتوں کے پیش نظر ہیں لیکن وہ انہیں سمجھنے اور ان کے ادراک سے قاصر ہیں کیونکہ وہ تعصب کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا مقدر جاگا اور ہم ولایت اہلبیت اطہار سے روشناس ہوئے، اس نعمت عظمی اور خوش قسمتی پر ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری نوجوان نسل ، لڑکے اور لڑکیاں، ہمارا معاشرہ کس معرفت کے فقدان کا شکار ہے۔ اس میں کس تعمیری اخلاقی عنصر کی کمی ہے۔ ہمیں وہ اخلاقی عنصر اور معرفت کا گمشدہ خزانہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور دیگر مقدس و با برکت ہستیوں کے وجود میں تلاش کرنا اور پھر اسے شعر کی زبان میں بیان کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ زندگی میں ہمیں اہلبیت اطہار علیھم السلام کی کن تعلیمات کی فوری اور شدید ضرورت ہے۔ شعرا ان تعلیمات کو تلاش کریں اور پھر انہیں اپنی فنکارانہ زبان میں بیان کریں۔ یہ بہت اہم اور ضروری ہے۔ ورنہ صرف مدح سرائی، اور وہ بھی بسا اوقات غیر واضح الفاظ میں جنہیں سننے والا صحیح طور پر سمجھ پاتا ہے اور نہ مداح ہی صحیح طور پر درک کر پاتا ہے، کافی نہیں ہے۔ ہمیں خراج عقیدت ضرور پیش کرنا چاہئے، یہ تو ہمارا کمال اور ہمارے لئے فضیلت کی بات ہے، لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں ان عظیم ہستیوں کے وجود نا پیدا کنار میں اپنے لئے موتی تلاش کرنا چاہئے۔ مبلغین کی ذمہ داریاں ہیں، شعراء کی ذمہ داریاں ہیں، اداکاروں اور فنکاروں کے فرائض ہیں، ملک کے فلمی شعبے میں مصروف کار افراد کے دوش پر ذمہ داریاں ہیں، ٹی وی چینلوں کے ذمہ داروں کے فرائض ہیں۔ خطباء و علما کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آپ سے میری درخواست ہے کہ اپنے دوش پر عائد ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھئے۔ ہماری قوم وہ ہے جس نے قیام حسینی سے سبق لیتے ہوئے انقلاب برپا کیا اور بد کردار اور گمراہ نظام حکومت کو سر نگوں کر دیا۔ اس قوم نے ایک عوامی حکومت کی تشکیل کی جو اسلامی خطوط پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارا جذبہ اسلامی ہے تاہم ہم یہ نہیں کہتے کہ عملی میدان میں بھی ہم پوری طرح اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے اندر اسلامی جذبہ جوش مار رہا ہے اور ہم انشاء اللہ روز بروز عملی میدان میں بھی خود کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرتے جائیں گے۔ تو ہماری قوم نے ایک ایسی حکومت کی تشکیل کی جو دنیا کی سامراجی طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا وجود امریکہ کے رخسار پر ایک طمانچہ ہے۔ آپ امریکہ مردہ باد کا نعرہ نہ لگائیں تب بھی یہ نظام دنیا کی ان بڑی طاقتوں کو چڑاتا رہے گا جو قوموں کی خود مختاری و عزت و وقار کی مخالف ہیں۔ آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس نظام کو ہر عیب و نقص سے پاک اور محفوظ بنانے کی کوشش کریں۔ اس کی مادی و معنوی لحاظ سے تقویت کریں۔ اگر آج ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، علم کی ضرورت ہے، تعاون کی ضرورت ہے، سیاسی و اقتصادی سعی و کوشش کی ضرورت ہے، اگر جذبہ شہادت و شجاعت کی ضرورت ہے یا دوسری چیزوں اور صفتوں کی ضرورت ہے تو ہر شخص کو چاہئے کہ حتی الوسع ان ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش کرے۔
تبلیغ کا محاذ بہت وسیع اور بڑا محاذ ہے، اس میں شعبہای فن و ہنر، تعلیم و تربیت، دین و اخلاق، یونیورسٹیاں اور دینی تعلیمی مراکز اور وزارت ہدایت و ثقافت نیز ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے شامل ہیں لیکن جو مداح اور شعرا ہیں وہ بھی اسی محاذ کا حصہ ہیں، یہ عظیم ذمہ داری تو اس عظیم لشکر کی ہے لیکن کچھ فرائض مداحوں کے بھی ہیں۔ ہمیں اپنے حصے کی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں اور ان کوششوں کا مجموعی نتیجہ فتح و کامرانی کی شکل میں ہمارے سامنے آئے۔ شعرا کو اس نکتے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نوحہ خوانی، مرثیہ خانی اور مجلسوں میں ان اعلی مفاہیم کو بیان کر سکتے ہیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے فرائض کی صحیح شناخت اور ان پر عمل آوری کی توفیق عطا فرمائے اور اس عید کی برکتوں سے ہم سب کو فیضیاب کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ