بسم اللہ الرحمن الرحیم

حساس اور انتہائی اہم ادارے عدلیہ کے عہدہ داروں اور اہلکاروں اسی طرح سات تیر کے اندوہناک سانحے کے شہدا کے محترم بازماندگان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ چند باتیں ہفتم تیر کےسانحے، گرانقدر شہدا بالخصوص ممتاز اور برجستہ شخصیت کے مالک آیت اللہ بہشتی مرحوم رضوان اللہ علیہ کی بابت عرض کرنا چاہوں گا۔ یہ واقعہ ایک طرف ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کی مظلومیت کی حقیقی سند ہے اور تو دوسری طرف اس نظام کی قوت و استحکام کا شاخصانہ۔ جمہوری اسلامی نظام آج بھی مظلوم ہے کیونکہ آج جن افراد کے ہاتھوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم ہے وہ دنیا پر تسلط قائم کرنے اور اپنے سیاسی و مادی مفادات کے حصول کے در پے ہیں اور ہفتم تیر جیسے سانحے کے ذمہ دار دہشت گردوں کے ساتھ ان کا رویہ بڑا دوستانہ اور برادرانہ ہے۔ وہ ان کی حمایت کر رہے ہیں، ان سے تعاون کر رہے ہیں اور آپس میں مل کر سازشیں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے اظہار خلوص کیا جا رہا ہے جبکہ یہ تو وہ افراد ہیں جو خود اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہمارے ملک میں یہ بھیانک دہشت گردانہ اقدام کیا تھا۔ یہ ہے ملت ایران کی مظلومیت۔ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کا واقعہ (ملت ایران) کی قوت و استحکام کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ چونکہ جو افراد شہید بہشتی کی شخصیت، ان کی فکری صلاحیتوں، آہنیں ارادوں اور فیصلے اور عمل سے متعلق ان کی مہارتوں سے واقف تھے، انہیں اس کا بخوبی اندازہ تھا کہ ملک کے نظام کو اس عظیم ہستی سے محروم کر دینے کے کیا معنی ہیں؟ شہید بہشتی پانی کی چکی کہ اس بھاری پتھر کی مانند تھے جو اپنی گردش سے بیک وقت متعدد کام انجام دیتا ہے۔ وہ حوصلہ بڑھاتے تھے، کام کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے تھے۔ وہ نئے افکار و نظریات پیدا کرتے تھے۔ اگر کوئی ایسی شخصیت کو جو انتظامی امور، عملی اقدامات، فکر و نظر کے میدان، فقہی و فلسفیانہ بحثوں، تجربات و مشاہدات اور وسعت نظر کے لحاظ سے اس عظیم مقام پر فائز ہو، نو تشکیل شدہ نظام کے قلب سے کھینچ لے اور اسے ختم کر دے تو نظام کا مفلوج ہو جانا فطری ہے لیکن شہید بہشتی اور اسی طرح ان کے ساتھ، ان سے قبل یا ان کے بعد دیگر برجستہ شخصیات کے چھن جانے کے باوجود نظام مفلوج نہیں ہوا بلکہ اس کے بر عکس ان میں سے ہر شہادت سے نو تشکیل شدہ اسلامی نظام کے زندہ پیکر کو تازہ لہو ملا اور نظام پر اور بھی شادابی و تازگی آئی۔ جوش و جذبہ بڑھا۔ نظام کا یہ استحکام آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ دیگر اموات کی مانند شہدا کی شہادتوں پر تعزیت نہیں، مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جب آیت اللہ بہشتی نے جام شہادت پیا تو لوگ تہنیت و تعزیت پیش کر رہے تھے۔ فتح کے ساتھ غم، اس سے اس نظام اور انقلاب کی ماہیت واضح ہوتی ہے۔
ہفتم تیر کا واقعہ آج بھی زندہ ہے۔ کیونکہ اس سانحے کے مجرمین جو لئیم ترین مجرمین میں گنے جاتے تھے اور جن کی خباثت یہ تھی کہ دوست کی شکل اختیار کرکے، خبیث ترین دشمن کا کام انجام دے رہے تھے، وہ اب بھی زندہ ہیں۔ دوسری طرف ملک کی عدلیہ کے نئے معمار شہید بہشتی بھی زندہ ہیں۔ اگر کوئی ایسا ملک ہوتا جہاں کوئی نظام نہ ہوتا اور شہید بہشتی کو از سر نو کام شروع کرنا ہوتا تو شاید یہ ان کے لئے آسان تھا۔ ایک ایسے سسٹم کو جس میں اچھائیوں اور برائیوں کی آمیزش ہو، صحیح و غلط دونوں شامل ہوں، جو غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہو، ایسے نظام میں تبدیل کر دینا جس کا رخ اور سمت درست ہو، جس سے اسلامی مساوات اور عدل و انصاف کی ترویج ہو سکے، بہت زیادہ دشوار کام ہے۔ اس دشوار کام کو اس وقت آپ حضرات انجام دے رہے ہیں، آپ کو یہ سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔
جہاں تک سوال ہے عدلیہ کا تو جیسا کہ (عدلیہ کے سربراہ) آیت اللہ شاہرودی نے فرمایا کے آپ کے پانچ سالہ دور کےاختتام اور نئے دور کے آغاز پر مناسب یہ ہوگا کہ عدلیہ کے عہدہ داران، عدلیہ پر اصلاحی نظر ڈالیں اور نئے پانچ سالہ دور کے ہر دن کا بھرپور استعمال کریں تاکہ اس پانچ سالہ دور میں جو کم وقت نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ کام انجام پا سکے۔ اب تک جو کچھ انجام دیا گیا اپنی جگہ پر بہت اہم اور با ارزش ہے۔ اس بلند منزل کی سمت سفر کا ہر قدم، ایک لازم کام اور ضروری عمل تھا لیکن بہرحال جس کی نظریں بلند اہداف پر ٹکی ہوئی ہیں، ابتدائی اور مقدماتی کام سے وہ راضی اور مطمئن نہیں ہوگا۔ سو زینے ہوں اور ہم پچاس ہی نہیں بلکہ نوے یا پچانوے زینے بھی طے کر لیں تو بھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ بالای بام پہنچ گئے ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ ہم ہدف سے نزدیک ہو گئے ہیں۔
آپ کو اس نکتے پر غور کرنا ہوگا کہ عدلیہ سے کیا توقعات وابستہ ہیں۔ ان توقعات کا ذکر آئین میں موجود ہے۔ اگر آپ عام ذہنیت اور اسلامی ذہنیت کا جائزہ لیں تو محسوس کریں گے کہ عدلیہ سے یہ توقعات وابستہ ہیں کہ عوامی زندگی میں عدل و انصاف اور مساوات کو با قاعدہ محسوس کیا جائے۔ لوگ عدل و انصاف کا بخوبی مشاہدہ کریں۔ یہ تاثر عام ہو۔ یہ عالم ہو کہ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، اگر کسی پر معمولی یا بڑا ظلم ہو جائے تو اسے پوری امید رہے کہ وہ عدلیہ سے رجوع کرے گا تو اسے انصاف مل جائے گا۔ یہ تاثر عام ہونا چاہئے۔ ہم ابھی اس مقام پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ البتہ ہم نے جتنی پیشرفت کی ہے اور آپ جتنا آگے بڑھے ہیں، اس پر اللہ تعالی کی جانب سے آپ کو یقینا اجر ملے گا اور با خبر حضرات آپ کے اقدامات کی قدر بھی کریں گے۔ یقینا میزان الہی میں آپ کے اس علم کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا کسی کوادراک ہو یا نہ ہوں، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ کا ہر قدم ان اقدار کا آئينہ دار ہے جو آپ کے وجود سے وابستہ ہیں۔ آپ کا ہر قدم نہایت باارزش ہے لیکن جب تک ہم آخری منزل تک نہیں پہنچ جاتے اس وقت تک ہر قدم کا شمار مقدمے میں ہوگا۔ مقدمے سے کسی کو بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ عدلیہ کے تمام عہدہ داروں کے لئے میری سفارش ہے۔
موجودہ صورت حال کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بہت حوصلہ افزا اور سربراہ کی کارکردگي بہت امید بخش ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی سسٹم کے ڈھانچے پر نظر ڈالتا ہےتو اسے مایوسی ہوتی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسے اس سسٹم میں ایسی بڑی شخصیات اور ایسے ماہر و با صلاحیت افراد نظر آتے ہیں کہ اس کی امید بڑھ جاتی ہے۔ عدلیہ کی یہی (آخر الذکر) صورت حال ہے۔ بحمد اللہ سربراہ کے عہدے پر ایک برجستہ، عالم و فاضل، دانشور اور روشن فکر شخصیت فائز ہے جبکہ اوپر سے نیچے تک سب ممتاز علمی شخصیات ہی نظر آ رہی ہیں۔ یہ عالم ہے عدلیہ کی صلاحیت و توانائی کا۔ اگر اس تناور درخت میں اس وقت پھل نہ لگے ہوں تو بھی چونکہ درخت میں کہیں کوئی کمی نہیں ہے، بڑا مضبوط، صحیح و سالم اور سر سبز و شاداب درخت ہے تو اس سے پوری امید ہے کہ اس میں پھل لگیں گے۔ بس ضرورت ہے محنت اور نگرانی کی۔
عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے۔ باقی جو بھی انتظامات اور دیگر متعلقہ ادارے ہیں سب قاضی کے لوازمات ہیں۔ جو کچھ عدالتوں میں پیش آتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ الثمرۃ تنبآ عن الشجرۃ یعنی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ہراول دستے کی پشت پر صورت حال کیسی ہے۔ آپ کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ عدالتیں انصاف کا مرکز بن جائیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ہر حالت میں کچھ نہ کچھ افراد ناراض اور ناخوش ہوں گے، لیکن اس کا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ جو افراد ناخوش ہیں انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل سب کے لئے گشائش کا درجہ رکھتا ہےحتی اس کے لئے بھی جس کےخلاف فیصلہ ہوا ہے۔ اگر عدل و انصاف کی بنیاد پر کسی کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اور اسے یہ فیصلہ گراں گزر رہا ہے تو اسے یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اگر فیصلہ ظلم اور نا انصافی کی بنیاد پر کیا جائے تو وہ اس کے لئے اور بھی سخت اور ناقابل قبول ہوگا، کیونکہ ممکن ہے کہ غیر منصفانہ رویہ رکھنے والی عدالت میں فیصلہ اس کے حق میں ہو جائے لیکن یہ نا انصافی زندگی کے دیگر سیکڑوں مراحل میں بہر حال اس کے بھی دامنگیر ہوگی۔ لہذا عدل و انصاف قائم ہونا چاہئے۔ عدل و انصاف پر دولت و ثروت، طاقت و قدرت، افسرشاہی اور بیوروکریسی کسی چیز کا سایہ نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر افسرشاہی عدالت کے نظام کو مختل کر رہی ہو تو مضر ہے۔ حالات کو عدل و انصاف کے لئے سازگار بنایا جانا چاہئے کیونکہ عدل ہی سب سے بڑا معیار اور سب سے بنیادی اصول ہے۔ اسلامی نظام عوام کے مد مقابل نہیں کھڑا ہوتا، عوام اور حکومت کا ٹکراؤ استبدادی اور مطلق العنان نظاموں سے مختص ہے۔ استبدادی اور آمرانہ نظاموں کے ساتھ ہی کچھ نظام ایسے ہیں جن کا ظاہر تو جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے لیکن اندر جھانک کر دیکھئے تو وہ بھی دولت اور خاص طبقے کے مفادات کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ یہ نظام بھی عوام کے مد مقابل کھڑے ہوئے ہیں۔ اب خواہ وہ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔ اس کے بر خلاف اسلامی نظام میں حکومت عوام کا وسیلہ ہے۔ عوام کا ہاتھ ہے۔ عوام کی نمایندہ اور ان کی خدمت گزار ہے۔ مالک عوام ہیں۔ ایسے نظام میں عدلیہ وہ قوی بازو ہے جو اس نظام میں ذرہ برابر انحراف نظر آتے ہی قصوروار افراد پر شکنجہ کستی ہے، پھر انہیں مہلت نہیں دیتی۔ یہ عدلیہ کا اہم ترین فریضہ ہے۔ الزام تراشیوں، بہتان اور بار بار ہونے والے وار سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدلیہ کو دولت اور دولتمندوں اور کسی کی طاقت سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ان مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے قاضی اور جج پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ عدلیہ کے ضمنی اداروں میں ایک ادارہ ماہر اور باصلاحیت افراد کی شناخت اور تربیت کا فریضہ ادا کرتا ہے یعنی عدلیہ کے اندر تعلیمی اور تربیتی انتظامات پر نظر رکھتا ہے۔ اس ادارے کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کا ایک اور شعبہ نظارت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شعبہ مینیجمنٹ کا شعبہ ہے جبکہ ایک شعبہ وہ ہے جو صادر ہونے والے احکامات اور فیصلوں پر نظر رکھتا ہے کہ قوانین کے دائرے سےباہر نہ ہوں۔ ایک شعبہ ان افراد کے امور دیکھتا ہے جنہیں سزا سنائی گئی ہے۔ اس شعبے کی ذمہ داری اس بات پر نظر رکھنا ہےکہ سزا یافتہ افراد کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے۔ یہ سارے شعبے عدلیہ کے اندر آتے ہیں۔
سزا یافتہ افراد کے بارے میں بھی ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ جس شخص کو سزا ملی ہے اس کے سلسلے میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیں اور جب وقت پورا ہو جائے تو آزاد کر دیں۔ یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہوا۔ انصاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ ہو جو اسے اور خراب کر دے، جہاں اس کی شخصیت مٹ جائے اور نتیجے میں اس کے اہل خانہ بد بختی کا شکار ہو جائیں۔ عدلیہ میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کی جو تحریک چلی ہے بہت مثبت اور اچھی ہے۔ البتہ یہ کام بہت زیادہ منظم طریقے سے، اصول و ضوابط کے پیرائے میں، پوری منصوبہ بندی اور غور و فکر سے ساتھ انجام پانا چاہئے۔ بالکل سہی سمت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ البتہ یہ کہنا تو آسان ہے اس پر عمل کرنا بہت دشوار ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے الحق اوسع الاشیاء فی التواصف و اضیقھا فی التناصف حق زبانی جمع خرچ کے لئے بہت اچھی چیز ہے۔ یہ ایسا وسیع میدان ہے کہ اس کےبارے میں بڑی لفاظی کی جا سکتی ہے لیکن جب اس پر عمل کرنا پڑے تو پھر معاملہ بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ دشواری کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ دشواری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے بہت زیادہ محنت، بلند ہمتی، تندہی، اور علم و عقل و حکمت و تدبیر کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو مثاب کرے۔ آپ سب کی مدد فرمائے۔ وہ فریضہ جو آپ انجام دے رہے ہیں بہت اہم اور با ارزش ہے۔ اس راہ میں کام کرنے والے کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اتنی بڑی توفیق عنایت کی ہے۔ انشاء اللہ امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ سب کے شامل حال ہوں۔ ہمارے تمام شہدا، بالخصوص عدلیہ کے شہدا اور ہفتم تیر کے سانحے کے شہدا پر اللہ تعالی کی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ