بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
سب سے پہلے تو میں ان بھائی بہنوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو نماز کی تبلیغ اور ترویج میں مصروف ہیں۔ اس کی ہر جگہ خاص طور پر یونیورسٹیوں میں خاص ضرورت اور اہمیت ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ آپ تمام حضرات بالخصوص جناب قرائتی صاحب (ایران کے معروف معلم قرآن و مبلغ) اور دوسرے ان تمام افراد کو جو اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہیں اور جنہوں نے یہ شجرہ طیبہ لگایا جس سے آج بحمد اللہ ثمرات بھی مل رہے ہیں، مزید کارہائے نمایاں کرنے کی توفیق عطا کرے۔
نماز کی تبلیغ اور ترویج کی اہمیت کا سرچشمہ خود نماز کی اہمیت ہے۔ ہم اسلامی شریعت میں دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات ہوں، احادیث پیغمبر یا اقوال معصومین سب میں نماز کی ترغیب بالکل نمایاں ہے اور نماز کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان کی جسمانی، روحانی، انفرادی اور سماجی بیماریوں کے لئے رکھے گئے علاجوں میں نماز بہت بنیادی مقام کی حامل ہے۔ تمام شرعی واجبات اور وہ محرمات جن سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے در حقیقت انسان کی دنیا و آخرت کے امور کی تقویت کے لئے پروردگار عالم کی تجویز کردہ دواؤں کا مجموعہ ہے لیکن اس مجموعے میں بعض دواؤں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور ان میں بھی نماز کلیدی ترین ہے۔ الّذين ان مكّنّاهم فى الارض اقاموا الصّلوة اللہ کے مومن بندے، راہ خدا کے مجاہد اور الہی تعلیمات کو عام کرنے کی راہ میں جاں نثاری کرنے والے افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان مکناھم فی الارض ہم نے زمین میں ان کو مضبوط مقام عطا کر دیا اور انہیں طاقت بخش دی تواگرچہ انہیں بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں جیسے مساوات قائم کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن ان کی اولیں ترجیح نماز کا قیام ہوتا ہے۔ اس نماز میں کیا راز پنہاں ہے کہ اسے قائم کرنا اتنا اہم ہے؟
نماز کے بارے میں بے انتہا گفتگو ہو چکی ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک سرکش نفس موجود ہے۔ وہ بد مست ہاتھی کہ اگر اس کی جانب سے ہوشیار رہے، ڈنڈا لیکر اس کے سر پر سوار رہے اور بار بار اس کی تادیب کرتے رہے تب تو وہ آپ کو ہلاک نہیں کر پائے گا اور قابو میں رہے گا اور یہی نفس انسان کی پیشرفت کا باعث بن جائے گا۔ نفس انسانی خواہشات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان خواہشات کو قابو میں رکھا گيا اور انہیں صحیح سمت میں موڑ دیا گیا تو وہ انسان کو ثریا پر پہنچا دیں گی۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ انسان کو بہکا دیتی ہیں۔ کوئی انہیں قابو میں رکھنے والا ہونا چاہئے۔ اگر آج دنیا میں ظلم و جور ہے تو وہ ایک یا چند افراد یا کسی ایک گروہ کی نفسانی خواہشات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد مستی کی دین ہے۔ اگر دنیا میں فحاشی ہے، اگر انسانوں کی توہین کی جا رہی ہے، انسانی وقار کو پامال کیا جا رہا ہے، اگر دنیا میں غربت کا عفریت موجود ہے، انسانی معاشرے کا بہت بڑی حصہ الہی نعمتوں سے محروم ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ ستمگر افراد کے مجموعے کی نفسانی خواہشات کے نتیجے میں ظلم و جور پیدا ہوتا ہے۔ تسلط پسند افراد کا مجموعہ دوسرے افراد کو مستضعف بنا دیتا ہے۔ تسلط پسند، خود غرض اور بے رحم مجموعہ فقیر پیدا کرتا ہے، بھکمری پھیلاتا ہے۔ تاریخ میں ابتدا سے اب تک یہ جو فتنہ و فساد نظر آتا ہے نفسانی خواہشات کی ہی دین ہے اور انسان اللہ تعالی کی جانب سے ودیعت کردہ توانائیوں کو جیسے جیسے زیادہ استعمال کر رہا ہے، اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کمی نہیں آ رہی ہے۔ چو دزدی با چراغ آید گزیدہ تر برد کالا (اگر چور چراغ کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے تو چیزیں چن کر چراتا ہے) تو جس ظالم کے پاس ایٹم بم موجود ہے اس کا قصہ شمشیر بکف ظالم سے الگ ہے۔ یہ نفسانی خواہشات انسانوں کے لئے اب زیادہ خطرناک بن چکی ہیں۔
تو انسانوں کے اندر ایک ایسی چیز موجود ہے۔ تمام انسان اپنے وجود میں پنہاں اس بد مست ہاتھی(ستم) سے دوچار ہیں۔ ان پر اسے مہار کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اسے مہار کیا جا سکتا ہے ذکر الہی سے، تذکرہ پروردگار کے ذریعے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں پناہ لیکر، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اظہار نیاز کرکے اور عظمت الہی کے سامنے اپنی حقارت کا احساس کرکے، ذات اقدس وحدہ لا شریک کے جمال مطلق کے سامنے اپنے بھدے پن کا احساس کرکے۔ یہ سب ذکر الہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جس انسان میں تقوی ہو اور جو محتاط اور ہوشیار ہو وہ کبھی بھی ظلم و جور، فتنہ و فساد اور طغیان و سرکشی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ کیونکہ ذکر پروردگار اسے باربار روکتا رہے گا۔ الصلاۃ تنھی تنھی کے معنی ہیں منع کرنے کے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز انسان کے ہاتھ پیر باندھ دیتی ہے، اس کی خواہشات کو بے اثر بنا دیتی ہے۔ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ الصلاۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ نے نماز پڑھ لی تو فحاشی و برائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جی نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپ نے نماز پڑھی تو نماز سے آپ کے اندرونی واعظ کی تقویت ہوگی اور وہ آپ کو بار بار برائیوں سے روکے گا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ بار بار روکے گا اور منع کرے گا تو دل پر اس کا اثر بھی ہوگا اور دل خضوع و خشوع کی جانب مائل ہوگا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ نماز کئی دفعہ ادا کی جاتی ہے۔ روزہ سال میں ایک بار، حج عمر میں ایک بار لیکن نماز روزانہ کئی بار! یہیں سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اگر نماز ادا کی جائے تو انسان کے اندر ہی نہیں پورے معاشرے کی سطح پربلکہ معاشرے کے حکمراں طبقے کی سطح تک نماز کی برکت سے امن و امان اور احساس تحفظ پیدا ہوگا۔ انسان کے قلب کو طمانیت حاصل ہوگی، انسان کے جسم کو تحفظ ملے گا، پورا معاشرہ امن و استحکام گہوارہ بن جائے گا۔ نماز کی خاصیت یہ ہے۔ معاشرے میں نماز قائم کرنے کا مطلب یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اس کام پر بار بار خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ آپ پورے ملک، ہر شعبہ زندگی، ہر طبقے بالخصوص نوجوانوں کے درمیان نماز کی تبلیغ و ترویج پر مامور ہیں۔ اس کا ہدف پورے معاشرے میں ذکر الہی کی ہمہ گیر فضا قائم کرنا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا، ہر مرد و عورت، ہر سرکاری و غیر سرکاری عہدہ دار، اپنے ذاتی کام انجام دینے والا شخص اور پوری جماعت کے لئے مصروف کار انسان، جب سب ذکر الہی میں مصروف ہوں گے تو سب کچھ بنحو احسن انجام پائے گا۔ اکثر و بیشتر ہم اپنی غفلت کے نتیجے میں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
نماز بار بار پڑھی جاتی ہے، اس نماز کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں۔ میں نے بھی بارہا عرض کیا ہے کہ نماز جسم و روح پر مشتمل ہے۔ اس نکتے پر خاص توجہ ہونی چاہئے۔ یعنی ایک ایک فرد اس نکتے پر توجہ دے۔ نماز کا ایک جسم و پیرایا ہے اور ایک اس کی روح ہے۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ نماز کا جسم اور پیرایا روح سے خالی نہ رہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ بے روح نماز کی کوئی تاثیر نہیں ہے۔ اس نماز میں بھی تاثیر ہوتی ہے لیکن جس نماز پر قرآن مجید، پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار علیھم السلام نے بے پناہ تاکید فرمائی ہے، وہ نماز ہے جس کا جسم اور جس کی روح دونوں کامل و مکمل ہوں۔ اس کا جسم اس کی روح کی مناسبت سے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں قرائت ہے، رکوع ہے، سجدے ہیں، خاک پر بیٹھ جانا ہے، دست نیاز دراز کرنا ہے، بلند آواز میں ذکر کرنا ہے اور کبھی آہستہ بولنا ہے۔ اعمال کے اس مجموعے کا یہ تنوع انسان کی ان تمام ضرورتوں اور حاجتوں کا احاطہ کرنے کے لئے ہے جو نماز کے وسیلے سے پوری ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ہر عمل حامل اسرار ہے اور ان اعمال کا مجموعہ نماز کی شکل، قالب اور پیرایا ہے۔ یہ پیرایا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس نماز کی روح قلبی توجہ ہے، اس بات کی توجہ ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔ جس نماز میں قلبی توجہ نہ ہو وہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کم اثر ہوتی ہے۔
آپ ایک اصلی ہیرے کو دو طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ اسے ایک قیمتی نگینے کے طور پر استعمال کیجئے۔ دوسرے یہ کہ اسے آپ ترازو کے پتھر کے طور پر استعمال کریں۔ یعنی تزارے کے ایک پلڑے میں یہ پتھر رکھئے اور اس سے مرچ یا ہلدی تولئے۔ یہ بھی ہیرے کا ایک استعمال ہے۔ لیکن یہ کیسا استعمال ہے؟ یہ تو ہیرے کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ استعمال بھی ہیرے کو توڑ دینے سے بہتر ہے، اسے توڑ کر پھینک دینے سے بہتر ہے لیکن پھر بھی یہ تو ٹھیک نہیں ہے کہ انسان ہیرے سے ترازو کے پتھر کا کام لے اور اس سے مرچ اور ہلدی تولے۔ تو نماز کے ساتھ ہیرے کو ترازو کا پتھر بنانے جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔ نماز کی قدر و منزلت کچھ اور ہی ہے۔
کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان عادتا نماز پڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح وہ روزانہ مسواک کرتا ہے، ورزش کرتا ہے اسی طرح وقت پر نماز بھی پڑھ لیتا ہے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نماز اس احساس کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ وہ بارگاہ پروردگار میں حاضر ہو رہا ہے۔ یہ الگ انداز کی نماز ہے۔ یوں تو ہم ہر لمحہ پروردگار عالم کی برگاہ میں ہیں۔ سو رہے ہوں، جاگ رہے ہوں، ذکر میں مصروف ہوں یا غفلت کا شکار ہوں (ہر آن پروردگار کی بارگاہ میں ہیں)۔ لیکن ایک صورت یہ ہے کہ ہم وضو کرکے، طہارت کے ساتھ تیار ہوں اور پاک و طاہر جسم، پاکیزہ لباس، اور وضو و غسل سے پیدا ہونے والی روحانی طہارت کے ساتھ بارگاہ پروردگار میں حاضر ہوں۔ نماز میں ہمارے اندر یہی احساس پیدا ہونا چاہئے۔ اس انداز سے خدا کے حضور میں جانا چاہئے۔ یہ احساس رہنا چاہئے کہ کس کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ نماز میں ہمارا مخاطب(اللہ تعالی) ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ بعض کلمات اور حروف پر استوار چند صوتی لہریں فضا میں آزاد کر کے بیٹھ جائیں۔ ہم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گيا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ اسی الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوانسان (یونہی بے خیالی کے عالم میں) اپنی زبان پر جاری کر سکتا اور انہی کلمات کو اچھی قرائت لیکن بے توجہی کے ساتھ بھی ادا کر سکتا ہے یہ بھی فضا میں صوتی لہریں چھوڑنے سے مختلف نہیں ہے۔ جس چیز کا ہم سے مطالبہ کیا گيا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ نماز میں ہمارا دل بارگاہ پروردگار میں سجدہ ریز ہو، ہمارے دل سے آواز نکلے، اسی کی قدر و قیمت ہے۔ نماز کی تبلیغ و ترویج میں اس نماز میں جو ہم خود پڑھتے ہیں اور اس نماز میں جو ہم دوسروں کو سکھاتے ہیں، روح نماز پر ضرور توجہ دیں۔ ہاں یہ روح، جسم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ بیٹھ کر سو دفعہ سبحان اللہ کی تسبیح پڑھ لی تو نماز کی ضرورت ختم ہو گئی۔ اس کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا نماز کی صورت اور اس کا پیرایا، روح نماز کے ذریعے پوری ہونے والی متعدد انسانی ضرورتوں کے مطابق وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ روایات میں نماز کی ہر حالت اور عمل کے لئے کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں جو واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں جیسے کہ آنکھیں بند رکھنا یا بعض روایات کے مطابق سجدہ گاہ کو دیکھنا۔ یہ آداب انسان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر قلبی توجہ پیدا کر سکے۔
نماز کی اہمیت اتنی ہے کہ اسے بیان کر پانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ لیس منی من استخف الصلاۃ جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ استخفاف کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔ اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کی بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے۔
ملک کی نوجوان نسل میں نماز کی اہمیت دوسروں سے زیادہ ہونی چاہئے۔ نوجوان کا دل نماز سے منور ہو جاتا ہے، اس میں امید کی کرنیں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کی روح و جان میں شادابی آتی ہے، سرور آتا ہے۔ یہ کیفیات نوجوانوں کے لئے ہیں، نوجوانی کے ایام سے مربوط ہیں اور نوجوان اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم آپ کو اللہ تعالی کی توفیق نصیب ہو اور ہم قلبی توجہ کے ساتھ نماز ادا کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ نماز سے دل ہی نہیں بھرتا۔ اگر انسان نماز میں قلبی توجہ پیدا کر لے تو وہ اس طرح سے محظوظ ہوگا کہ وہ لذت اسے کسی بھی مادی چیز میں نہیں محسوس ہوگی۔ یہ قلبی توجہ کا ثمرہ ہے۔ نماز کے سلسلے میں بے توجہی، اکتاہٹ کے ساتھ نماز کی ادائیگی منافقین کی خصوصیات ہیں۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ جو شخص بھی عدم دلچسپی کے عالم میں نماز پڑھ رہا ہے منافق ہے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں منافقین کی علامتیں بیان کی ہیں اور فرمایا ہے کہ منافقین کو ان علامتوں سے پہچانو۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں کچھ منافق تھے جو خاص اہداف کے لئے نماز پڑھتے تھے جبکہ ان کے دل میں نماز سے کوئی دلچسپی اور اس پر کوئی عقیدہ نہیں تھا۔ (ان کے سلسلے میں ارشاد رب العزت ہے) واذا قاموا الی الصلاۃ قاموا کسالی یرائون الناس جی ہاں ایسا ہی ہے اگر (نماز میں مصروف) انسان کا کوئی مخاطب نہیں ہے، اگر وہ اللہ تعالی سے ہمکلام نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ تھک جائے گا اور اسے نماز بہت بھاری پڑے گی۔ چار یا پانچ منٹ میں ادا کی جانے والی چار رکعت نماز اسے بہت طویل محسوس ہوگی۔ حالانکہ اگر دیکھیں تو چار منٹ کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان اگر اللہ تعالی سے ہمکلام ہو تو اسے محسوس ہوگا کہ یہ وقت چشم زدن میں گزر گیا، اسے افسوس ہوگا، اس کا دل چاہے گا کہ یہ سلسلہ ابھی اور جاری رہے۔
نوجوان نسل میں اس حقیقت کی ترویج کرنا چاہئے۔ ہمارے نوجوان اگر ابھی سے صحیح نماز کے عادی ہو گئے تو ہمارے سن میں پہنچ جانے کے بعد ان کے لئے صحیح نماز ادا کرنا مشکل کام نہیں ہوگا۔ اگر کسی کی صحیح نماز ادا کرنے کی عادت نہیں ہے تو ہم لوگوں کے سن میں پہنچ جانے کے بعد صحیح نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن تو ہے لیکن بہت مشکل ہے۔ جو شخص نوجوانی سے ہی اچھی نماز ا دا کر رہا ہے، یعنی قلبی توجہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے، ظاہر ہے اچھی نماز سے مراد اچھی قرائت اور اچھی آواز میں سوروں کی تلاوت نہیں بلکہ حضور قلب اور قلبی توجہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہے، اگر نوجوان میں یہ عادت پڑھ گئی تو یہ چیز اس کی فطرت ثانیہ بن جائے گی اور پھر اس کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں رہ جائے گی اور وہ تا حیات اسی انداز سے نماز ادا کرتا رہے گا۔
جناب قرئتی صاحب ( ایران کے معروف معلم قرآن اور مبلغ) نے ابھی ایک نکتے کی جانب اشارہ کیا اور وہ اس سے قبل بھی کئی بار یہ نکتہ بیان کر چکے ہیں اور میں نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ازدہام والے مراکز میں مساجد اور نماز خانوں کی کمی ہے، یہاں انتظامیہ سے وابستہ جو افراد موجود ہیں، جو وزرا تشریف فرما ہیں انہیں چاہئے کہ انتظامیہ کی سطح پر اس موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ اٹھائیں۔ تعمیرات سے متعلق ہر پروجیکٹ میں مسجد اور نماز خانے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ اگر میٹرو کا کوئی پروجیکٹ ہے تو میٹرو اسٹیشنوں کی تعمیر میں مسجد کا خیال بھی رکھا جائے۔ میٹرو اسٹیشن تعمیر کیا جا رہا ہے، ایئرپورٹ کی ڈیزائننگ ہو رہی ہے تو اس مسجد کے لئے بھی جگہ ضرور نکالی جائے۔ بالفرض کوئی کامپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے، کالونی بنائی جا رہی ہے اور ہم سڑک کی جگہ رکھنا بھول جائیں تو کیا ممکن ہے کہ بغیر سڑک کے ہی کالونی بن جائے؟ مسجد کو بھی اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بغیر مسجد کی کالونی کا تصور بے معنی ہے۔ کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے والے بلڈر جب بلڈنگ کے لئے پرمٹ حاصل کرنا چاہیں اور بلڈنگ کا نقشہ اور دیزائن منظور کروانے کے لئے پیش کریں تو اس نقشے میں مسجد یا نماز خانے کی جگہ ضرور رکھی جائے۔ نماز خانے کے سلسلے میں یہ روش لازمی ہے۔
ہوائی جہاز کا ذکر کیا گیا۔ صرف حج کی پروازوں میں نہیں بلکہ اندرون ملک ، بیرون ملک اور دور دراز کی پروازوں میں جن کا وقت نماز کے وقت سے متصل ہے نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر ممکن ہے تو پرواز اس طرح انجام پائے کہ اس سے قبل یا بعد میں نماز کا وقت رہے، ایسا نہ ہو کہ مثال کے طور پر نماز صبح کی اذان سے قبل طیارہ پرواز کرے اور طلوع آفتاب کے بعد اپنی منزل پر پہنچے۔ ٹائم ٹیبل ایسا ہو کہ لوگ طیارے کے پرواز کرنے سے قبل یا منزل پر پہنچ جانے کے بعد نماز ادا کر سکیں۔ اگر ایئرلائنوں کے کچھ مسائل ہیں اندرون ملک یا بیرون ملک جانے والی پروازوں کے کچھ ممکنہ مسائل کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو ہوائی جہاز کے اندر ہی نماز ادا کرنے کی سہولت رکھی جائے۔ قبلے کی سمت کا تعین بھی آسان ہے۔ پائلٹ بخوبی اس کی سمت کا تعین کر سکتے ہیں وہ اس کام میں ماہر ہوتے ہیں، تو یہ کیا جائے تاکہ جو افراد ہوائی جہاز کے اندر نماز ادا کرنا چاہتے ہیں ادا کر لیں۔ ٹرینوں کے سلسلے میں بھی بدرجہ اولی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
ان امورکے سلسلے میں ہمارے ملک میں آج جو صورت حال ہے، انقلاب سے قبل کے دور سے اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ آپ میں سے اکثر کو انقلاب سے قبل کا زمانہ یاد نہ ہوگا۔ بڑا عجیب ماحول تھا، یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی۔ زیارت کے لئے ہمارا عراق جانا ہوا۔ ہم نے لاکھ کوشش کی لیکن نماز صبح کے لئے (ٹرین) رکی ہی نہیں۔ وقت ہی ایسا رکھا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں مجبورا ٹرین کے پیچھے جاکر ٹرین سے باہر کودا تاکہ نماز ادا کر سکوں کیونکہ ٹرین کے اندر گندگی بہت زیادہ تھی اور وہاں نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ ان باتوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ آج حالات بہت بدل چکے ہیں تاہم اب بھی ہماری کچھ اور توقعات ہیں۔ نماز کی اہمیت نمایاں رہنی چاہئے۔
ہم نے ائمہ جمعہ، ائمہ نماز جماعت اور علمائے کرام سے بارہا کہا ہے، تہران میں اور دیگر اضلاع کے سلسلے میں سفارش کی ہے کہ مساجد کو آباد و با رونق بنایا جائے۔ مساجد سے اذان کی آوازیں بلند ہونی چاہئے۔ اسلامی شہروں بالخصوص تہران اور دیگر بڑے شہروں میں نماز اور نماز کی ادائیگی پر خصوصی توجہ کی علامتیں واضح اور عیاں ہوں۔ اسی طرح ہمارے تعمیراتی پروجیکٹوں میں بھی اسلامی علامتیں نمایاں رہنی چاہئے۔ صیہونی دنیا کے کسی بھی علاقے میں اگر کوئی عمارت تعمیر کرتے ہیں، ان کوشش ہوتی ہے کہ اس پر ستارہ داؤد کی وہ منحوس علامت ضرور بنائیں۔ ان کے سیاسی کام اس انداز سے انجام پاتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اپنے تمام تعمیراتی کاموں اور جملہ منصوبوں میں اسلامی علامتوں کو ملحوظ رکھیں۔
اللہ تعالی سے توفیقات کی التجا کرتا ہوں۔ نماز(کی تبلیغ) کا کام معمولی نہیں ہے۔ یہ عظیم کام ہے۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اس عظیم کام میں مصروف تمام افراد المقیمین الصلاۃ کے زمرے میں قرار پائیں، قرآن نے جس میں پاک و پاکیزہ اور با اخلاص مومنین قرار دیا ہے۔ انشاء اللہ تعالی آپ سب کا شمار مقیمین الصلاۃ میں کیا جائے اور اللہ تعالی ہمیں توفیقات سے نوازے اور نماز کی برکتیں ہمارے شامل حال کر دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ