آپ نے حج کو حاجی، مسلمہ امہ اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے سنہری موقع سے تعبیر کیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
اللہ تعالی کی بارگاہ میں میری التجا ہے کہ آپ کی کوششوں اور محنتوں کو قبول فرمائے اور آپ کی یہ کوششیں جو بحمد اللہ اخلاص اور قربۃ الی اللہ کی خالص نیت کے ساتھ انجام پا رہی ہیں انہی نتائج پر اختتام پذیر ہوں جو آپ کی دلی آرزو ہیں، یعنی ایک ایسے حقیقی اسلامی حج کی ادائیگی جو حضرت ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روح مقدسہ کی رضا و خوشنودی کا موجب ہو۔
فریضہ حج در حقیقت ایک (سنہری) موقع ہے جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لئے بھی موقع ہے اور عظیم امت مسلمہ کے لئے بھی ایک موقع ہے اور ساتھ ہی اسلامی جمہوری نظام کے لئے بھی ایک موقع ہے جس نے اسلام و اسلامی شریعت کے اقتدار کا پرچم لہرایا ہے۔ سبھی کو چاہئے کہ اس موقع سے بھرپور استفادہ کریں۔
ایک مسلمان کے لئے حج کا موقع در حقیقت معنویت کے بیکراں سمندر میں اتر جانے کا موقع ہے۔ ہم آلودگیوں اور عیوب کی آماجگاہ بن چکی اپنی معمول کی زندگی سے خود کو باہر نکالتے ہیں اور صفا و معنویت اور ارادی و اختیاری ریاضت و تقرب کی فضا میں وارد ہوتے ہیں۔ حج کے اعمال کا آغاز ہوتے ہی جو چیزیں آپ کے لئے روزمرہ کی زندگی میں حلال و مباح تھیں آپ اپنے لئے حرام کر لیتے ہیں۔ احرام، درحقیقت اپنے اوپر بعض ایسی چیزوں کو حرام کر لینے کا نام ہے جو دیگر ایام میں آپ کے لئے مباح اور جائز ہوتی ہیں۔ ان میں بعض چیزیں وہ ہیں جو غفلت کا باعث ہوتی ہیں اور بعض تنزلی کی طرف لے جاتی ہیں۔
ہم سے ظاہری و مادی فخر و مباہات کے تمام وسائل سلب کر لئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لباس (لے لیا جاتا ہے)۔ عہدہ و مقام، رتبہ و لباس، گراں قیمت پوشاک یہ سب چیزیں ہٹ جاتی ہیں اور سب کے سب ایک لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ آپ آئینہ نہیں دیکھ سکتے کہ یہ خود پسندی کا نمونہ ہے۔ عطر کا استعمال نہیں کر سکتے کہ اس میں دکھاوے کا شائبہ ہے۔ دھوپ اور بارش سے بھاگ کر چھت اور سائبان کے نیچے نہیں جا سکتے کہ یہ چیزیں آرام طلبی اور تعیش کا مظہر ہیں۔ اگر ایسی جگہ سے گزر ہو جہاں سے تعفن اٹھ رہا ہو تو آپ ناک بند نہیں کر سکتے۔ اسی طرح احرام کے دیگر لوازمات اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام کر لینے سے عبارت ہیں جو شہوت نفسانی اور آرام طلبی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ جو کچھ فخر و غرور کا باعث بنے جو امتیاز و تفریق کا سبب ہو سب کچھ ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد خانہ خدا اور مسجد حرام میں وارد ہونا اور ہر تصنع سے عاری سادگی میں ہویدا عظمت و شکوہ کو آنکھوں، ہاتھوں اور پورے وجود سے لمس کرنا محسوس کرنا۔ مادی وسائل اور سیم و زر کی عظمت و شکوہ نہیں بلکہ بالکل مختلف عظمت و شکوہ جس کی توصیف ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور پھر (حاجیوں کے) اس بحر خروشاں میں اتر کر معینہ مرکز کا طواف وہ بھی ذکر و مناجات، گریہ و زاری، خضوع و خشوع اور اللہ تعالی سے راز و نیاز کے ساتھ۔ پھر اسی انداز سے صفا و مروہ کے ما بین سعی۔ عرفات و مشعر میں توقف ۔ منی کے اعمال و فریضے، تو یہ ہے حج۔
احباب نے ذکر کیا کہ میں نے حاجیوں کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے کی سفارش کی ہے۔ جی ہاں یہ صحیح ہے۔ لیکن اس آسائش کا مطلب تعیش نہیں ہے۔ میں نے حج کے امور کے نگراں افراد سے ان گزشتہ برسوں میں بارہا عرض کیا ہے کہ اس آسائش سے مراد اللہ تعالی کی بارگاہ میں پورے وجود کے ساتھ حاضر ہونے اور بارگاہ پروردگار میں خود سپردگی کے ماحول کا قیام ہے۔ یعنی لوگوں کو اس کے لئے فراغت حاصل ہو، وہ ہر فکرمندی سے آزاد رہیں اور اس فریضے کو بہترین انداز میں انجام دے سکیں۔ (آسائش سے) یہ مراد ہے۔ آسائش سے مراد بہترین اور زیادہ مقدار میں غذا اور آرام سے سونے کا اہتمام نہیں ہے۔ یہ بندگی کا سلیقہ نہیں ہے کہ ہم جح میں اس کا اہتمام کریں۔
حج کوئی تفریحی سفر نہیں، معنوی و روحانی سفر ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ کی سمت جسم و جان دونوں کا سفر ہے۔ عرفائے کرام کا بارگاہ خداوندی کی جانب سفر قلبی و روحانی سفر ہوتا ہے جسمانی نہیں۔ لیکن ہم عام انسانوں کا (حج) در حقیقت جسم و جان دونوں کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ کی سمت انجام پانے والا سفر ہے۔ اب اگر ہم جسم تو لے جائیں لیکن اپنا دل ساتھ نہ لے جائیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟! یا بعض افراد توفیق الہی کے نتیجے میں بار بار اس نعمت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے بارہا خانہ خدا کی زیارت کی۔ بتدریج یہ حج ان کے لئے کم اہمیت اور عام بات بن گیا، اب حج کے موقع پر اپنے اندر باطنی انقلاب برپا نہیں کر پاتے، اپنے اندر کوئی انقلاب نہیں دیکھتے تو یہ چیز مناسب نہیں ہے۔
اللہ غریق رحمت کرے شیخ محمد بہاری مرحوم کو، جن کی خدمات کی قدردانی کے لئے ان کی برسی منائی جانے والی ہے، وہ اپنی ایک تحریر میں کہتے ہیں کہ دعا و ذکر الہی یا نماز اگر بار بار بے توجہی کے ساتھ انجام پائے تو اس سے قساوت قلب پیدا ہوتی ہے۔ ہم نماز پڑھ رہے ہیں لیکن یہی نماز قساوت کا باعث بن جائے، یہ کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ نماز کی حالت میں ہماری توجہ کہیں اور ہے، حضور قلب نہیں ہے۔ لہذا نماز اگر حضور قلب اور توجہ کے ساتھ ادا کی جاتی ہے تو لطافت و صفا و نرمی قلب اور تقرب الہی کا باعث بنتی ہے اور بے توجہی و اکتاہٹ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز بقول شیخ محمد بہاری مرحوم قساوت قلب کا موجب بنتی ہے۔
حج بھی اسی طرح ہے۔ ان اعمال کو حضور قلب کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔ ایاما معدودات معلومات یعنی حج و عمرے کے مجموعی دن چند روز سے زیادہ نہیں ہیں۔ حج کا یہ معدودے چند دنوں کا موقع ایک مشق اور عملی تربیت کا موقع ہے۔ یعنی انسان یہاں یہ دیکھتا ہے کہ اس انداز سے بھی زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ مادی لذتوں، دکھاوے اور تصنع سے دور رہتے ہوئے بھی زندہ رہا جا سکتا ہے۔ اب اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ پوری زندگی احرام کے عالم میں گزاری جائے۔ مراد یہ ہے کہ آپ اس پاکیزہ رزق سے استفادہ کیجئے جو اللہ تعالی نے آپ کے لئے قرار دیا ہے۔ یہ نہ ہو کہ اسی کو زندگی کا نصب العین بنا لیں، اسی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اسی صورت حال سے دوچار ہیں، ہم مادی لذات و خواہشات اورھوی و ہوس کو ہی زندگی کا ما حصل تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اس طلسم کو توڑ دینا ہے تاکہ ہمیں یہ ادراک ہو سکے کہ ہم اپنی زندگی کے ایک حصے کو، اپنے شب و روز کے ایک چھوٹے سے جز کو نصف شب کے کچھ لمحات کو معبود حقیقی سے راز و نیاز کے لئے صفائے قلب کے لئے مختص کر سکتے ہے۔ اس کی مشق ہمیں وہاں کرائی جاتی ہے، حاجی کو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو حج کتنا عظیم موقع ہے؟!
آپ جیسے حج کے امور کے ذمہ داران کو چاہئے کہ ایسا انتظام کریں کہ یہ عظیم انسانی کارواں جو آپ کے ساتھ سفر حج پر جا رہا ہے اور دوسرے ممالک سے وہاں حج کے لئے پہنچا ہے، حج میں پنہاں اس نکتے سے ضرور واقف ہو۔ سب اس موقع کی عظمت سے آگاہ ہوں اور انہیں ترغیب دلائی جائے کہ وہ اس سنہری موقع سے بھرپور استفادہ کریں۔
قافلہ سالار ہوں، قافلے کے علما ہوں یا مختلف ثقافتی اور غیر ثقافتی امور کے ذمہ داران سب کے دوش پر ایک اہم ذمہ داری یہ احساس بیدار کرنا ہے کہ ایک موقع ہاتھ آیا ہے، ہمیں میسر ہوا ہے، بار بار ہاتھ نہیں آنے والا ہے، یہ موقع ہر کسی کو نہیں ملتا۔ کتنے افراد ہیں جو وہاں گزرنے والے آپ کے ایام میں سے ایک دن حاصل کر لینے کے آرزومند ہیں لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہو پائی ہے؟! دنیا میں حج کے مشتاق افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لہذا اگر آپ کو یہ موقع مل گیا ہے تو اس کی قدر کیجئے۔ یہ موقع سب سے پہلے تو (حاجی کے لئے) ذاتی و انفرادی موقع ہے اور اسی کی بنیاد پر حج کے امور کے ذمہ داران کے فرائض طے پاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یہ امت مسلمہ کو ملنے والا ایک موقع ہے۔ چونکہ مسلم امہ مختلف قوموں، نسلوں، ثقافتوں، خیالات و طرز فکر کے افراد پر مشتمل اور دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہے اس لئے فطری طور پر اس میں آپسی جدائی اور دوری کا امکان ہے۔ اللہ تعالی نے اسلام کو کسی مخصوص نسل، کسی ایک ثقافت اور کسی خاص علاقے کے لئے نہیں بھیجا ہے بلکہ یہ تمام عالم انسانیت کے لئے ہے اور انسانوں میں جغرافیائی اور تاریخی عوامل کی بنا پر رنگ و زبان و عادات و اطوار و طرز فکر میں تفاوت ہے۔ اس لئے امت مسلمہ میں اختلاف اور جدائی کے اسباب موجود ہیں۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ یہ اختلاف ابھرنے نہ پائيں، اسے پھیلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ حج وہ بہترین موقع ہے جب امت مسلمہ اس فطری تفاوت اور بسا اوقات مسلط کر دئے جانے والے غیر ضروری اختلافات کے زخم پر مرہم رکھ سکتی ہے۔
حج امت مسلمہ کے لئے سنہری موقع ہے۔ ہر سال حجاج کرام کا جم غفیر جو حج کے موقع پر نظر آتا ہے۔ آپ گزشتہ دس برسوں کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ان دس برسوں میں افریقہ، ایشیا، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں سے کروڑں مرد و خواتین، پڑھے لکھے، نا خواندہ افراد اور مختلف طرز فکر کے لوگ حج سے مشرف ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی اتحاد اور ولا تفرقوا کا پیغام اس جم غفیر پر اثر انداز ہو جائے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی عظیم تبدیلی ہوگی۔ اختلافات رفتہ رفتہ پس پشت چلے جائيں گے۔ کوئی شیعہ ہے تو کوئی سنی۔ پھر شیعوں اور سنیوں کے اندر بھی کئی کئی فرقے ہیں کئی کئی مکاتب فکر ہیں فقہ الگ الگ ہے، عادات و اطوار مختلف ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ ظاہر کرتے ہیں لیکن حج کی مہر آگیں وادی میں یہ سب ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔
اب آپ خود سوچئے کہ یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کوئی اتحاد کے اس عنصر اور موقع کو اختلافات اور خلیج بڑھانے کے لئے استعمال کرے۔ میں یہ بات ہر ایک سے کہہ رہا ہوں۔ میری مراد کفر کے فتوے دینے کے عادی ان افراد ہی سے نہیں ہے جو مدینہ منورہ میں کھڑے ہوکر مقدسات کے سلسلے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں یہ بات ہر ایک سے کہنا چاہتا ہوں۔ حج کے امور کے ذمہ داران، قافلہ سالار اور علما سب محتاط رہیں کہ اتحاد کے اس موقع کا استعمال تفرقہ انگیزی میں نہ کریں اور دلوں کو بغض و عناد سے پر نہ کریں۔ میں یہاں وہ چیزیں نہیں گنواؤں گا جو اختلاف کا باعث بن سکتی ہیں، اس بارے میں غور کرنا خود آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ خود غور کیجئے اور دیکھئے کہ کون سی چیزیں ہیں جو شیعہ مسلمانوں کے دلوں میں غیر شیعہ مسلمان بھائيوں کے لئے بغض و عناد کے جذبات بھر دیتی ہیں۔ سنی بھائی کو شیعوں کی طرف سے بد گمان کر دیتی ہیں۔ ان چیزوں پر غور کیجئے اور پھر ان چیزوں کو حج کی فضا سے باہر پھینک دیجئے۔ حج جدائی کے زخموں کے لئے مرہم، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام میں دلوں، ذہنوں اور ارادوں کو یکساں بنا دینے کا وسیلہ ہے اسے تفرقے، دوری اور بغض و عناد کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہئے۔
اس مسئلے کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور متعلقہ نکات کو پہچاننے کے لئے بہت ہوشیاری اور توجہ سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
حج اسی طرح اسلامی جمہوریہ کے لئے بھی ایک سنہری موقع ہے۔ اسلامی جمہوریہ مظلوم ہے۔ میں برسوں سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا آ رہا ہوں کہ اسلامی جمہوری نظام وہ نظام ہے جس میں معنوی اقتدار کے تمام عناصر مجتمع ہیں۔ تو یہ ایک مقتدر نظام ہے لیکن طاقتور مظلوم۔ ان دونوں صفات میں تضاد نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کس طرح مظلوم ہے؟ اس کے مختلف جواب ہیں۔ ایک تو یہی کہ دشمن اس وجہ سے کہ کہیں اسلامی جمہوریہ کے افکار و نظریات اور اہداف و مقاصد عظیم مسلم امہ کے اندر سرایت نہ کر جائے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ افکار و عقائد سے متعلق الزام تراشی سے لیکر سیاسی اور فرقہ واریت کے بہتان تک، وہ سرگرم عمل ہیں کہ صاحب یہاں تو اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں اور اس (اسلامی جمہوریہ) کے افکار تو ایسے ہیں۔ تیس سال سے ہمارے خلاف دروغگوئی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ آپ حج کے امور دیکھنے والے عہدہ دار ہیں، آپ کے دل اسلامی جمہوریہ کے تئیں گہرے عقیدے اور یقین سے سرشار ہیں، حج کے موقع پر جب آپ ایک ایسے مسلمان کے پاس کھڑے ہوئے ہیں جو زہریلے پروپیگنڈے کا شکار بنا ہے تو اس وقت آپ کا فرض اولیں کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وضاحت ہے، آپ اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کے اصولوں کی وضاحت کیجئے۔ (بتائیے کہ) اسلامی جمہوریہ سے مراد اسلامی اصولوں پر استوار جمہوریت ہے۔ ایران میں اکثریت شیعوں کی ہے لیکن ہمارا نظام شیعہ اور سنی دونوں کے لئے تشکیل پایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انقلاب کے دوران، انقلاب کی کامیابی کے بعد اور مسلط کردہ جنگ میں ایران میں بسنے والے سنی بھائیوں نے بھی اور دنیا کے دیگر علاقوں میں آباد بڑی تعداد میں اہل سنت نے ہماری حمایت کی، ہمارا دفاع کیا۔ اسلامی جمہوریہ کے لئے انہوں نے بھی قربانیاں پیش کیں۔ تو یہ ہے اسلامی جمہوریہ کی ماہیت۔ وہ افریقہ ہو کہ ایشیا یا دنیا کا کوئی دوسرا علاقہ حتی ہمارے ساتھ سب سے زیادہ مخاصمانہ برتاؤ کرنے والے ملک یعنی امریکہ کے اندر بھی ایسے مسلمان ہیں جو شیعہ نہیں ہیں لیکن ان کے دل اسلامی جمہوریہ کی محبت، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عقیدت اور پختہ عزم و ارادے کی مالک ملت ایران کی انسیت سے سرشار ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ دشمن اس میں تحریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں رد و بدل کر دینا چاہتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ کی پیشانی پر مسلمان فرقوں کی دشمنی کی لیبل چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ جائیے اور حقیقت کو بیان کیجئے۔ دنیا بھر میں آباد ہمارے مسلمان بھائی اور بہن یہ جان لیں کہ یہ جگہ(ایران) ان کی اپنی ہے، یہاں وہی کام انجام دئے گئے ہیں جو ہر مسلمان کی دلی آرزو تھے۔ دنیا کا کون مسلمان ایسا ہے جو قرآن کی حاکمیت کا خواہاں نہ ہو۔ یہاں قرآن کی حاکمیت کو عملی جامہ پہنایا گيا ہے، یہاں شریعت کی حکمرانی قائم کی گئی ہے۔
عالم اسلام میں کون ایسا ہوگا جس کا دل اسلامی سرزمینوں پر اغیار و کفار کے تسلط و بالادستی سے خون نہیں ہے؟ ان کے دل خون ہیں، انہیں زبان پر کچھ لانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اپنی بات کہہ نہیں سکتے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ وہی عظیم عالمی و آزاد منبر ہے جہاں سے ان کے دلوں کی آواز اور ان کے گلے میں گھٹ جانے والی ان کی صدا پوری توانائی سے بلند ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی طاقتیں دشمنی پر اتارو ہیں۔ ہم سے امریکہ کی دشمنی کی وجہ یہی ہے۔ ہم مسلم اقوام کی دلی آواز کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ چند بد عنوان حکومتیں ہی امت مسلمہ کا آئینہ تو نہیں ہیں۔ امریکہ کے تسلط، امریکہ کی مداختلوں، اسی طرح سامراج جس میں امریکہ اور دوسرے بھی شامل ہیں، اس کی نخوت و غرور سے مسلم اقوام کا دل خون ہے، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لیکن ان کا بس نہیں چلتا۔ یہ باتیں ہمارے یہاں نچلی سطح سے لیکر بلند ترین سطح تک صریحی طور پر بیان کی جاتی ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے بڑے خوشگوار اور پر کشش حقائق ہیں۔ آپ انہیں بیان کیجئے تاکہ عالم اسلام اور مسلم اقوام کو اس سے آگاہی ہو۔ یہ پیغام رسانی صرف کسی ایک طبقے تک نہیں ہونی چاہئے، مثال کے طور پر مسلم ممالک کے یونیورسٹی طلبا چونکہ عالمی سطح پر گوناگوں روابط کے حامل ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کے پیغام سے بآسانی آشنا ہو جاتے ہیں (تو صرف ان تک یہ پیغام پہنچانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے) یہ پیغام عوام تک پہنچنا چاہئے۔ حج اسلامی جمہوری نظام کے لئے بھی اپنا پیغام عام کرنے کا بہترین موقع ہے۔ البتہ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہم بیرونی سطح پر تو خوب سرگرم عمل رہیں اور داخلی سطح پر یہ سرگرمیاں صفر ہوں۔ ہمارا فریضہ اولیں یہ ہے کہ پہلے خود اپنی اصلاح پر توجہ دیں، خواہ وہ نفس کی اصلاح کا مرحلہ ہو یا پھر ملک کے اندر معاشرے کی اصلاح کا مسئلہ۔
ملک کی داخلی فضا کی اصلاح بھی ہمیں ہی کرنی ہے۔ ہماری قوم عزم و ارادے کی نعمت سے سرشار باایمان قوم ہے۔ ہماری قوم صداقت پسند قوم ہے۔ تاہم کبھی کبھار ایسے افراد اور گروہ نظر آ جاتے ہیں جو خود کو سیاسی شخصیت قرار دیکر ملک کی فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صداقت و پاکیزگی کا ماحول ختم کر دینے کے در پے رہتے ہیں۔ عوام کو ذہنی انتشار اور شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ ورنہ (پوری قوم کا جہاں تک سوال ہے تو) یہ وہی قوم ہے جس نے اس عظیم انقلاب کو فتح و کامرانی سے ہمکنار کیا، اس عظیم و مستحکم نظام کی تشکیل کی اور تیس سال تک فاتحانہ انداز میں اس کی حفاظت کی، تو یہ ایسی قوم ہے۔ اور اس کا ایمان ایسا ایمان ہے، اس کا ارادہ ایسا ارادہ ہے، یہ بے پناہ کامیابیاں مفت ہاتھ نہیں آگئی ہیں۔ جب تک کوئی قوم قربانیاں نہیں دیتی، جب تک کوئی قوم عزم راسخ کی مثال پیش نہیں کر دیتی، اسے یہ سب کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اب ایسے میں کوئی فلاں شخص اور فلاں عہدہ دار یا فلاں حکومت اور فلاں جماعت کی دشمنی میں پورے نظام پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کرے، جیسا کہ بعض افراد کرتے ہیں، (تو یہ کہاں کا انصاف ہے)
اس وقت ملک کی سیاسی فضا اور ذرائع ابلاغ پر حکمفرما ماحول کو آپ پسندیدہ نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اعمال، اپنے کردار اور اپنے نظریات کی اصلاح کے لئے اسلام سے درس لیں اور یاد رکھیں کہ اسلامی نظام، الہی برکات اور ربانی عطیات کا سلسلہ اسی وقت تک قائم ہے جب تک ہم منظم اور پابند ہیں۔ اللہ تعالی کی ہم سے کوئی رشتہ داری تو ہے نہیں۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ بنی اسرائیل وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالی نے بار بار فرمایا ہے کہ اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو تمام عالم پر برتری و فضیلت عطا کی لیکن بنی اسرائیل نے نعمتوں کی قدر نہیں کی، اپنی ضد نہیں چھوڑی، کفران نعمت کیا تو وہ کونو قردۃ خاسئین ضربت علیھم الذلۃ و المسلکنۃ کے مصداق قرار پائے۔ الہی نعمتوں سے ہم اسی وقت بہرہ مند رہ سکتے ہیں جب ہم خود محتاط رہیں، اپنی رفتار و گفتار کے سلسلے میں محتاط رہیں اور اپنی تبلیغ کے سلسلے میں سنجیدہ رہیں۔ حکومت پر تنقید کے سلسلے میں یہ انتہا پسندی، خود غرضی کے تحت الزام تراشی ایسی چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالی آسانی سے نظرانداز نہیں کرتا۔ غلطیاں کچھ افراد کرتے ہیں (اور نتیجہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے) واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ یعنی کچھ ظلم اور کچھ عمل ایسے ہیں جن کے اثرات ظالم تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ اس کی لپیٹ میں سب آتے ہیں حالانکہ اپنے عمل، اپنی باتوں اور اپنے فیصلوں میں ظلم بعض افراد نے ہی کیا ہے۔ تو ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
حج سے ہمیں درس لینا چاہئے۔ اس حاجی کو بھی جو حج کے لئے گیا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو دور سے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ تمام افراد کا حج مقبول بارگاہ رب العزت قرار پائے۔ پروردگار عالم سے الجتا ہے کہ ہمیں حج سے ملنے والے درس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ