آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں اکیس رمضان المبارک کی تاریخ کی مناسبت سے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نمونہ عملی زندگی اور طرز حکومت پر روشنی ڈالی اور آپ کی پیروی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح عالم اسلام کے دو اہم ترین مسائل، مسئلہ فلسطین اور مسئلہ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے مسلم امہ کی اپنے فرائض ادا کرنے کی دعوت دی۔ نماز جمعہ کے خطبے پیش نظر ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله ربّ العالمين. نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوکل عليه و نصلّي و نسلّم علي حبيبه و نجيبه و خيرته في خلقه سيّدنا و نبيّنا ابي‏القاسم المصطفي محمّد و علي آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، سيّما بقيّةالله في الأرضين و صلّ علي ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين. قال الله تعالي في محکم کتابه: «و من النّاس من يشري نفسه ابتغاء مرضات الله والله رؤوف بالعباد۔

آج امیر المومنین علیہ السلام کا یوم شہادت اور اس عظیم متقی و پرہیزگار امام کی عظمتوں کی یاد منانے کا دن ہے۔ سب سے پہلے تو میں خود کو ، آپ لوگوں کو اور تمام نمازیوں کو تقوے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام ہمارے امام ہوں تو ہمیں با ایمان و با تقوی ہونا چاہئے۔ وہ امام المتقین و امیر المومنین ہیں۔
اس عظیم شخصیت کے سلسلے میں جو چیز نا قابل فراموش ہے وہ ان کی علمی و عملی منزلت ہے جو اس وسیع اسلامی قلمرو پر امیر المومنین علیہ السلام کی کوتاہ مدت حکومت کے دوران ظاہر ہوئی اور تاريخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گئی۔ ان کا معنوی مقام اور بے نظیر ذاتی خصوصیات تو اپنی جگہ پر ہیں ہی، جن کے بارے میں مختلف کتابوں میں تفصیل سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کا علم، تقوی، شجاعت، اسلام میں درخشاں ماضی، زہد اور دیگر خصوصیات کہ جنہيں شمار کرنا ممکن نہيں ہے اور یہ سب نہایت با عظمت اور حیرت انگیز ہے۔ ہر ایک خصوصیت درخشان سورج کی طرح چمک رہی ہے لیکن میرے خیال میں جو چیز سب سے زيادہ با عظمت ہے وہ حکومت کے معاملے میں آپ کی سیرت ہے ۔
اصل امتحان کا مقام یہی ہے۔ اقتدار امیر المومنین کے ہاتھوں میں ہو، وہ بھی ایسی عظیم حکومت کا، اس کے بعد ان کی سیرت، یقینی طور پر ہمارے لئے نمونہ عمل ہونی چاہئے۔ جن لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی حکومتی روش سے واقفیت ہے وہ آپ کی حکومت کی مدت کی کمی پر افسوس کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے اگر یہ روش برسہا برس جاری رہتی، شاید عالمی تاریخ کا رخ بدل جاتا۔ اگر یہ کام جاری رہتا اور کچھ برسوں تک عوام کے سامنے رہتا ، شاید بشریت کا مستقبل بدل جاتا اور بدعنوانی، دولت کا لالچ، شہوت پرستی، زور زبردستی اور بے انصافی پر ٹکی ان طاقتوں کا، جو پوری تاریخ میں نظر آتی ہیں اور جنہوں نے بشریت کے مستقبل کو سیاہ کر رکھا ہے، وجود ہی نہ ہوتا۔ عصر حاضر میں یہ نمونہ عمل ہمارے سامنے ہے۔ میرے لئے جو سب سے زيادہ توجہ طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ ہميں آج اسلامی جمہوری نظام میں، اس نمونہ عمل سے خود کو قریب کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمارا ایرانی سماج، اس کے اثر سے پورا عالم اسلام اور پوری دنیا، ہماری حکومت سے فائدہ حاصل کرے گی۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ خود کو اس نمونہ عمل سے قریب کریں ۔
امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت، عدل و انصاف کے قیام، مظلوم کی حمایت، ظالم سے مقابلے اور ہر حال میں حق کی طرفداری کے معاملے میں نمونہ عمل ہے کہ جس کا اتباع کیا جانا چاہئے۔ یہ روش پرانی ہونے والی بھی نہيں ہے اور دنیا کے مختلف علمی و سماجی حالات میں انسانوں کی کامرانی و کامیابی و سعادت کے لئے دائمی نمونہ عمل قرار پا سکتی ہے۔ ہم اس زمانے کی انتظامیہ کے اصولوں کی تقلید نہيں کرنا چاہتے کہ یہ کہا جائے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہيں اور ہر روز نئ نئ روشيں سامنے آتی ہيں ۔ ہم اس حکومت کی حکمت عملی اور سمتوں کا اتباع کرنا چاہتے ہيں جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہيں۔ مظلوموں کا دفاع ہمیشہ ایک مستحسن کام رہا ہے۔ ظالم سے سمجھوتا نہ کرنا ، طاقتوروں اور دولت مندوں سے رشوت نہ لینا، حقیقت پر جمے رہنا، ایسی قدریں ہیں جو دنیا میں کبھی بھی پرانی نہيں ہوتیں۔ تمام حالات میں، یہ صفات اہمیت کی حامل رہتی ہيں۔ ہمیں ان کا اتباع کرنا چاہئے۔ اصول یہی ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہيں اصول پسند حکومت، اس کے معنی ہيں اس قسم کی لا زوال اقدار کی پابند حکومت کہ جو کبھی پرانی نہيں ہوتیں اور دنیا کے طاقت و ثروت پرست لوگ اسی اصول پسندی سے پریشان رہتے ہيں۔ انہيں غصہ اسی بات کا ہے کہ کیوں ایران کی اسلامی حکومت فلسطینی مظلوموں کی یا افغان عوام کی طرفداری کرتی ہے یا دنیا کی فلاں استعماری و ظالم حکومت سے ساز باز نہيں کرتی۔ یہ جو آپ دیکھتے ہيں کہ رجعت پسندی و بنیاد پرستی کا لفظ، ہماری قوم کے دشمنوں کی زبان پر گالی کی طرح چڑھا ہوا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے۔ یہ اصول وہی چیریں کہ جن سے عالمی طاقتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور جس کی وہ مخالف ہيں۔ اس زمانے میں امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف بھی انہی چیزوں کے سبب جنگ کی گئ۔ ایک حکومت کی حیثیت سے ہماری کوشش یہی(اصول پسندی) ہونی چاہئے ۔
البتہ ممکن ہے کہ کوئي یہ پوچھے کہ یہ باتیں عوام سے کیوں کہی جا رہی ہیں جائيں قانون بنائيں تاکہ حکام کا رویہ ایسا ہو جائے یا جائيں حکام کو نصیحت کریں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ان ساری باتوں یا ان میں سے اکثر کو قانون نہيں بنایا جا سکتا۔ یہ ایسے مسائل ہيں جو ایمان ، حقیقت کی پیروی اور ایمان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فولادی عزم و ارادے کے ذریعے قابل عمل ہيں۔ ہاں جن چیزوں کو قانون کی شکل دی جا سکتی ہے انہيں ہم قانون کی شکل دیتے ہيں۔ جن کاموں کے احکامات دئے جا سکتے ہیں ان کا حکم، ہم حکام کو دیتے ہيں لیکن قوانین و احکامات کے ذریعے سارے مسائل حل نہيں کئے جا سکتے۔ ہم حکام کو نصحیت بھی کرتے ہيں لیکن یہی کافی نہيں ہے۔ ان حقائق کو سماج میں با قاعدہ رائج ہو جانا چا ہئے اور اس کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل ہونی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام میں، عوام کی جانب سے حکام سے مطالبہ کیاجانا چاہئے کہ وہ بدعنوانی اور ظلم کا مقابلہ کریں۔ حکومتی نظام کے ایک اعلی رتبہ عہدہ دار کو قبول کرنے کے لئے ان کے نزدیک معیار یہ چیزیں ہونی چاہئیں ۔ ظلم سے مقابلہ، ظالم سے سمجھوتا نہ کرنا ، زور زبردستی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا ، انسان اور انسانیت کی عظمت کا تحفظ، تمام شکلوں اور تمام شعبوں میں حق کو محفوظ رکھنا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان باتوں کا عام لوگوں کے مجمع میں ذکر کر رہا ہوں، جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بھی یہی باتيں عوام سے خطاب میں کہی ہيں ۔ آپ کے خطوط حالانکہ بظاہر مختلف لوگوں کے نام ہيں لیکن ان کا سب کو علم ہو جاتا تھا اور خطبے تو آپ سب لوگوں کے درمیان دیتے تھے ۔ آّپ کچھ نمونے ملاحظہ کریں :
امیر المومنین نے حکومت کے شروعاتی دور میں بیت المال کی تقسیم کے معاملے میں تمام لوگوں کر برابر کا درجہ دیا کیونکہ امیر المومنین سے قبل تقریبا بیس برسوں سے اسلام میں یہ رواج چل پڑا تھا کہ کچھ لوگوں کو پہلے اسلام قبول کرنے، یا مہاجر و انصار ہونے کی بنا پر، کچھ دوسرے لوگوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ بیت المال میں جو دولت جمع ہوتی تھی، جو جنگوں کے مال غنیمت یا شاید زکات کی رقم ہوتی تھی، جب اسے تقسیم کیا جاتا توایک ایک فرد کا حساب کیا جاتا۔ اس زمانے کی یہی روش تھی۔ آج کے نظام کی طرح نہيں۔ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ کچھ لوگوں کو زیادہ دیا جاتا تھا۔ امیر المومنین آئے اور انہوں نے فرمایا : نہيں ، جو زيادہ با ایمان و دین کا پابند ہے اس کا اجر خدا دے گا۔ جس کے پاس زيادہ توانائی ہے وہ کوشش کرے گا اور اگر دولت چاہئے تو دولت کمائے گا، میں بیت المال سے سب کو برابر دوں گا۔ کچھ لوگوں نے آکر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ یا امیر المومنین! اس کام سے آپ کو شکست ہو جائے گی اور اس سے کچھ لوگ آپ کے خلاف کھڑے ہو جائيں گے۔ آپ نے فرمایا: «اتأمروني ان اطلب النّصر بالجور فيمن ولّيت عليه من اهل الاسلام والله لا اطور به ما سمر سمير و ما ام نجم» کیا تم لوگ مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں اپنی حکومت ميں، ظلم کرکے کامیابی حاصل کروں؟ ہاں میں کامیاب ہوں گا اور کچھ لوگ میری مخالفت نہيں کریں گے لیکن میں ایسی کامیابی نہيں چاہتا۔ اگر ظلم و جور کے ذریعے امیرالمومنین کی حمایت ہونی ہے تو امیرالمومنین کو ایسی طرفداری نہيں چاہئے آپ نے فرمایا: «والله ما اطور به ما سمر سمير» میں ایسا کبھی نہيں کر سکتا۔
دوسری جگہ آپ عثمان بن حنیف کے نام اپنے مشہور خط میں فرماتے ہيں : الا و انّ لکلّ مأموم اماما يقتدي به و يستضي‏ءُ بنور علمه» ہر اقتداء کرنے والے کا ایک امام و مقتدی ہوتا ہے کہ جس کے علم و دانش سے وہ (اقتداء کرنے والا) فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اس کے بعد آپ فرماتے ہيں : «الا و انّ امامکم قد اکتفي من دنياه بطمريه و من طعمه بقرصيه» امیر المومنین نے اپنے کھانے پینے اور لباس کی بات کی جو اس زمانے کے غریب ترین افراد کی سطح کا تھا اور فرمایا کہ کہ میں جو تمہارا امام ہوں، اس طرح سے زندگی بسر کرتا ہوں۔ آپ نے عثمان بن حنیف سے فرمایا کہ تم میری طرح نہيں رہ سکتے یعنی ایسی توقع نہيں ہے «ولکن اعينوني بورع و اجتهاد» ؛ لیکن تقوے اور کوشش کے ذریعے میری مدد کرو یہ وہی بات ہے جو امیر المومنین آج ہم سب سے کہہ رہے ہیں۔ جو گناہ اور غلط کام ہيں ان سے پرہیز کرو اور خود کو مجھ سے قریب کرنے کی کوشش کرو جتنا بھی ہو سکے اور جتنا تمہارے بس میں ہو ۔
یہ قابل قبول نہيں ہے کہ ہم ایسے راستے پر چلیں جو امیر المومنین کے مخالف سمت میں جاتا ہو، آپ اپنے اوپر سختی کرتے تھے تو اگر ہمارے اعلی رتبہ حکومتی عہدہ دار ذمہ داریوں کو ، اپنی دنیا آباد کرنے کے لئے قبول کریں تو یہ قابل قبول ہو سکتا ہے؟ میں نے گزشتہ برس بھی انہی ایام میں عرض کیا تھا ، یہ قابل قبول نہيں ہے کہ اسلامی نظام کے اعلی رتبہ حکام تاجروں کی مانند اپنی ذمہ داریوں کو ایک تجارت کی طرح دیکھيں۔ اسلامی جمہوری نظام میں اہم ذمہ داریاں ، تجارت و سرمایہ کاری نہيں ہيں کہ انسان اپنی دنیا بنانے کے لئے انہيں حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ دار کو یہ حق حاصل نہيں ہوتا کہ وہ مالداروں اور سرمایہ داروں سے اپنی حالت کا موازنہ کریں۔ اسے یہ حق نہيں ہے کہ وہ اپنا موازنہ، دوسری تاناشاہی حکومتوں کے اپنے ہم منصبوں سے کرے۔ یقینا تاناشاہی نظام میں ایک وزير، ایک ڈائریکٹر جنرل یا سربراہ کو اعلی سہولتیں حاصل ہوتی ہيں تو کیا ہم بھی اپنا موازنہ ان سے کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہيں کہ ہم بھی عہدہ دار ہيں ؟! جی نہيں، اسلامی نظام میں ایسا نہيں ہے۔ اسلامی نظام میں، یہ عہدے، ایک ذمہ داری و خدمت اور انسانوں کا فریضہ ہیں، امیر المومنین علیہ السلام کی تعلیم یہ ہے۔
ایک مقام پر آپ نے ابن عباس کو لکھا : «فلايکن حظّک في ولايتک مالا تستفيده و لا غيظا تشتفيه» جس علاقے کا تمہیں گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے وہاں سے تم جو فائدہ اٹھانا چاہتے ہو وہ یہ نہ ہو کہ دولت حاصل کرو یا کسی پر غصہ اتارو۔ مثال کے طور پر ہم طاقت کا استعمال کسی شخص، گروہ یا طبقے کے خلاف کریں جس سے ہمارے تعلقات اچھے نہ ہوں۔ اس کی بالکل اجازت نہيں ہے۔ «ولکن اماتة باطل و احياء حقّ» بس اس حکومت میں سے تمہارا حق یہ ہو کہ تم باطل کو ختم اور حق کو زندہ و قائم کرو۔
ایک شخص نے امیر المومنین سے کچھ رقم طلب کی تو آپ نے فرمایا : «انّ هذا المال ليس لي و لا لک»؛ یہ دولت نہ میری ہے نہ تیری، یہ بیت المال عوام کا ہے «و انّما هو في‏ءٌ للمسلمين و جلب اسيافهم فان شرکتهم في حربهم»؛ تم نے بھی اگر اسلامی فتوحات میں حصہ لیا ہوگا تو تمہارا بھی حصہ ہے کان لک مثل حظّهم والّا فجناة ايديهم لاتکون لغير افواههم»؛ جس چیز کو لوگوں نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے اس پر انہی کا حق ہے۔ اس قسم کے مطالبوں پر امیرالمومنین علیہ السلام کا موقف یہ ہے ۔
امیر المومنین کے لئے عدل و انصاف قائم کرنا ، مظلوم کا دفاع اور ظالم کے ساتھ وہ چاہے جو ہو یعنی ظالم چاہے جو ہو اور مظلوم بھی چاہے جو ہو ، سختی کرنا اہم تھا۔ امیر المومنین نے مظلوم کی مدد کے لئے اسلام کی شرط نہيں رکھی ہے۔ وہ اسلام کے پابند امیرالمومنین ، سب سے بڑے صاحب ایمان ، اسلامی فتوحات کے سب سے بڑے سردار حضرت علی نے مظلوموں کے دفاع کے لئے ان کے مسلمان ہونے کی شرط نہيں لگائی ہے ۔ عراق کے شہر الانبار میں کچھ لوگ شام کی حکومت کی طرف آئے اور انہوں نے اس شہر میں امیر المومنین کی جانب سے منصوب حاکم کو قتل کر دیا، لوگوں پر حملے کئے، ان کے گھروں میں لوٹ مار کی اور کچھ لوگوں کو قتل کر کے چلے گئے۔ امیر المومنین نے اس موقع پر جو خطبہ دیا ہے وہ نہج البلاغہ کے دل دہلا دینے والے خطبوں میں سے ایک ہے جو خطبہ جہاد کے نام سے مشہور ہے ۔ آپ فرماتے ہيں ؛ «فانّ الجهاد باب من ابواب الجنّة»؛ آپ لوگوں کو اس ظلم عظیم کا مقابلہ کرنے پر لوگوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ اس طرح سے فرماتے ہيں : «ولقد بلغني انّ الرّجل منهم کان يدخل علي المرأة المسلمة والأخري المعاهدة»
مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس گروہ کے لٹیرے ایسے گھروں میں گھستے تھے جن میں مسلمان، یہودی، عیسائی اور مجوسی خواتین رہتی تھیں، امام علی علیہ السلام کے لئے کوئی فرق نہيں ہے کہ جس عورت پر حملہ ہوا ہے وہ اہل کتاب ہے ، یہودی ہے عیسائی ہے، مجوسی ہے یا مسلمان۔ سب کے بارے میں ایک ہی طرح سے گفتگو کرتے ہيں۔ «فينتزع حجلها و قلبها و قلائدها و رعثها»؛ وہ حملہ آور عورتوں سے دست بند، گردن بند، سونا اور پازيب چھین لیتے تھے «ما تمتنع منه الّا بالاسترجاع و الاسترحام» اس مسلمان یا غیر مسلمان عورت کے پاس ، اس حملہ آور کے سامنے ، گڑگڑانے کے علاوہ کوئي چارہ نہيں تھا ۔ اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہيں : «فلو انّ امرأً مسلما مات من بعد هذا اسفا ما کان به ملوما»
اگر ایک مسلمان اس واقعے پر افسوس سے مر جائے تو اس کی سرزنش نہيں کی جانی چاہئے «بل کان به عندي جديرا»؛ بلکہ میری نظر میں بہتر ہے کہ ہر غیرت مند اس قسم کے واقعات پر افسوس سے مر جائے !
مالک اشتر کے نام اس مشہور خط میں لکھتے ہيں کہ عوام کے ساتھ کیسے رہو، ان کے ساتھ بھیڑئے کی طرح درندگی سے پیش نہ آؤ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہيں: «فانّهم صنفان»؛ لوگ دو طرح کےہی ہوں گے: «امّا اخ لک في الدّين و اما نظير لک في الخلق»؛ یا تمہارے دینی بھائي ہيں یا تمہارے جیسے انسان ہيں۔ اس بنا پر امیر المومنین علیہ السلام کے لئے مظلوموں کی مدد اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے ان کا مسلمان ہونے سے مشروط نہيں ہے۔ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں کو یہ حق حاصل ہے۔ دیکھيں یہ کتنی عظیم روش اور بلند پیغام ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام نے تاریخ کو دیا ہے! آج دنیا میں کچھ لوگ انسانی حقوق کی بات کرتے ہيں۔ جبکہ یہ سفید جھوٹ اور واضح ریاکاری ہے۔ وہ کہیں بھی، یہاں تک کہ خود اپنے ملک کے اندر بھی انسانی حقوق کا خیال نہيں رکھتے، پوری دنیا کی تو بات ہی اور ہے ! انسانی حقوق کو اس کے صحیح معنوں میں امیر المومنین علیہ السلام نے اس طرح سے بیان اور اس پر عمل کیا ہے۔
آج ہمارا یہ فرض ہے کہ اس سال میں جسے علوی کردار کے سال کا نام دیا گیا ہے، امیر المومنین علیہ ا لسلام کے کردار کی پیروی کریں۔ آج اگر مالی و اقتصادی بدعنوانی سے مقابلے کا نعرہ لگایا جا رہا ہے تو جو بھی امیر المومنین علیہ السلام کی پیروی کرتا ہے اسے اس نعرے پر عمل کرنا چاہئے۔ جو بھی صحیح معنی میں صلاح و اصلاح چاہتا ہے اسے اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ ذمہ دار ادارے، چاہے وہ عدلیہ ہو، مجریہ ہو یا مقننہ، خود کو اس نعرے پر عملدرآمد کا پابند سمجھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ نعرہ کھوکھلا اور لفاظی ہوکر رہ جائے۔ بدعنوانی سے مقابلہ اسلامی نظام و حکومت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی روش ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اس سلسلے میں کسی کو بے جا مراعات نہیں دیں۔ یہاں تک کہ ان کو بھی جنہيں آپ سے کچھ زیادہ توقعات تھیں ۔ جہاں بھی بد عنوانی نظر آئی اس کے خلاف اقدام فرمایا۔
ہمارا عمل امیر المومنین علیہ السلام کی طرح تو نہیں ہو سکتا اور نہ ہم اس کا دعوی کرتے ہیں۔ ہم اس لائق نہيں ہيں، میں اپنی بات کر رہا ہوں، کہ امیر المومنین علیہ السلام کے حقیقی پیرو بن جائیں لیکن ہمیں کوشش تو کرنی چاہئے۔ اسے ہر ایک کو اپنا فرض سمجھتا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کوئی ادارہ ، بدعنوانی کا مقابلہ کرے تو اس پر دباؤ ڈالنے کے حربے استعمال کئے جانے لگیں اور ہنگامے کرکے، اس راستے پر گامزن لوگوں کے عزم کو کمزور کر دیا جائے۔ البتہ کسی کے عزم کو کمزور نہيں پڑنا جاہئے اور اس راستے پر پورے عزم و استحکام کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ خدا بھی مدد کرے گا اور عوام بھی حمایت کریں گے ۔
جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ کوئی بھی چیز عوام کو اس سے زيادہ خوش نہيں کر سکتی کہ جمہوری اسلامی نظام ، عام لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے، بدعنوانوں، مفت خواروں اور طمع کاروں کا مقابلہ کرے۔ پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ کا بھی فرض ہے اور ان سب کو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ آج الحمد للہ ہمیں کچھ اقدامات نظر آ رہے ہيں لیکن اب بھی کہیں کہيں، کچھ لوگ جنہيں تعاون کرنا چاہئے، وہ کوتاہی کرتے ہيں۔ البتہ امید ہے کہ حالات یہی نہیں رہیں گے۔

جب ہم امیر المومنین کی یاد مناتے ہيں تو اس کا مقصد آپ کی پیروی ہونا چاہئے۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ ہم عوام سے مسلسل کہیں کہ آپ لوگ امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں۔ ہم آج جو اسلامی جمہوری نظام میں عہدے دار ہيں تو ہماری ذمہ داری سب سے بڑی ہے اور ہمارے کاندھوں پر بڑی بھاری فریضہ ہے۔ امید ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو امیر المومنین علیہ السلام کی طرح یہ توفیق حاصل ہوگی اور وہ اس راستے پر، اس عظیم شخصیت کے نقش قدم پر اور اشاروں پر چلیں گے۔ البتہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس راہ میں بڑی سختیاں اٹھائيں، آج آپ کا یوم شہادت ہے۔ شاید ان کی حیات میں ان کی اصل شکایتوں کو کسی نے ان کی مبارک زبان سے نہ سنا ہو۔
البتہ امیر المومینن علیہ السلام نے بارہا منبر پر شکوے کئے اور لوگوں کی ملامت کی، لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے شکوے صرف یہی نہیں تھے کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ میدان جہاد میں کیوں نہيں جاتے، امیر المومنین کا دل، درد سے بھرا ہوا تھا ۔ امیر المومنین علیہ السلام مشہور دعائے کمیل میں، جو آپ کی دعاؤں میں سے ہے، خدا سے کچھ اس طرح راز و نیاز کرتے ہيں :الهي و سيّدي و مولاي و مالک رقّي» ان تمام باتوں میں اس جملے نے مجھے بہت متاثر کیا : يا من اليه شکوت احوالي» ؛ اے وہ جس سے میں گلے شکوے کرتا ہوں۔ وہ خدا سے شکوہ کرتے تھے آپ کا دل بہت دکھی تھا۔ امیر المومنین علیہ السلام کو سماج اور عوام کی حالت کی طرف سے بھی فکر لاحق تھی اور زمانے کے نو ظہور یافتہ اسلامی نظام میں دین و تدین کی صورت حال کی جانب سے بھی تشویش تھی۔ آپ کو اپنی سنگین ذمہ داری کی بھی فکر تھی۔ آپ نے اپنی ذمہ داریوں کے ایک ہزارویں حصے کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا ۔
جب محراب عبادت میں امیر المونین علیہ السلام کے سر مبارک بر ضربت لگی تو آپ نے جو کچھ کہا جیسا کہ کتابوں میں منقول ہے اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا: بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ فزت و رب الکعبہ۔ خدا کے نام سے، خدا کے لئے، خدا کی راہ میں، اور کعبہ کے پروردگار کی قسم میں کامیاب ہو گيا۔ وہ سخت رات جس میں تمام مسلمان سوگوار تھے، امیر المومنین علیہ السلام کے لئے کامیابی و خوشی کی رات تھی۔ خود آپ کو بھی اس کا انتطار تھا۔ غالبا وہ رات، شب جمعہ تھی۔ کچھ روایتوں میں ہے کہ انیس رمضان کی شب، شب جمعہ تھی لیکن کچھ دوسری روایتوں میں ہے کہ اکیسویں کی رات، شب جمعہ تھی۔ اس رات(اپنی دختر نیک اختر) جناب ام کلثوم کے گھر میں آپ نے افطار کیا ۔ جیسا کہ آپ لوگ سن چکے ہيں۔ نمک و روٹی سے۔ یعنی صرف روٹی سے، دودھ دسترخوان سے ہٹا دیا۔ پوری رات عبادت میں گزاری۔ اذان صبح سے پہلے مسجد گئے اور مسجد میں جگہ جگہ سو رہے لوگوں کو جگایا۔ اذان دی اور عبادت میں مصروف ہو گئے۔ نماز کے دوران اچانک منادی نے ندا دی:«تهدّمت والله ارکان الهدي» ہدایت کے ستون منہدم ہو گئے۔ یقینا اس زمانے کے لوگوں کو علم تھا کہ ہدایت کے ستون کے منہدم ہونے کے کیا معنی ہیں لیکن جیسا کہ منقول ہے منادی نے اس کے بعد والے جملے میں یہ بات واضح کر دی : «قتل علي المرتضي» صلّي الله عليک يا اميرالمؤمنين.

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
قل هو الله احد. الله الصّمد. لم يلد و لم يولد. و لم يکن له کفوا احد.

خدایا ! تجھے محمد و آل و آل محمد کا واسطہ، امیر المومنین علیہ السلام پر تیرا بہترین سلام و درود ہو، خدایا ہمیں ان کے پیروکاروں میں قرار دے۔ پرورگار عالم! امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں کو، دنیا میں جہاں جہاں بھی ہوں، کامیابی و کامرانی عنایت فرما۔ امیر المومینن علیہ السلام کے چاہنے والوں کو، ان کا دنیا کے کسی بھی علاقے سے تعلق ہو اور وہ خواہ کسی بھی ثقافت کا حصہ ہوں، روز بروز امیر المومنین علیہ السلام سے مزید قریب قرار دے۔ پروردگار عالم ! اسلام اور مسلمانوں کو سربلندی عطا کر۔ اسلام و مسلمانوں کے دشمنوں کو، امیر المیومنین علیہ السلام کی راہ کے دشمنوں کو، امیر المونین علیہ السلام کے چاہنے والوں کے سامنے سے ہٹا دے۔ ان کے منصوبوں کو اور جو کچھ بھی عالم اسلام کے خلاف مکاریاں کرتے ہيں اسے ناکام بنا دے ۔ پروردگارا ! ہماری قوم کو سربلندی و عزت عطا فرما۔ پروردگارا! ہماری با ایمان و با ایثار قوم کے مسائل حل کر دے۔ پروردگارا ! جو بھی اسلام و مسلمانوں کے لئے عوام کی خدمت کرتا ہے ، اپنی مدد اپنا لطف و کرم و رحمت اس کے شامل حال فرما ۔ پروردگار ! عوام کے دلوں کو روز بروو ایک دوسرے سے قریب فرما۔

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي‏القاسم المصطفي محمّد و علي آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، لاسيّما علي اميرالمؤمنين والصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين و الحسن والحسين سبطي الرّحمة و امامي الهدي و علي‏بن‏الحسين زين‏العابدين و محمّدبن‏علي باقر علم النّبيّين و جعفربن‏محمّد الصّادق و موسي‏بن‏جعفر الکاظم و علي‏بن‏موسي الرّضا و محمّدبن‏علي الجواد و علي‏بن‏محمّد الهادي والحسن‏بن‏علي الزّکي العسکري والحجّةبن‏الحسن القائم المهدي صلوات‏الله‏عليهم‏اجمعين و صلّ علي ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداةالمؤمنين. اوصيکم عبادالله بتقوي الله.

تمام نماز گزاروں کو تقوے پر توجہ دینے اور برکتوں اور فیوض الہی کا منبع قرار پانے والے اس مبارک مہینے کے باقی بچے ہوئے دنوں سے فیض اٹھانے کی سفارش کرتا ہوں اور امید ہے کہ ہم سب اس مہینے کے بچے ہوئے ایام میں خدا کی رضا و مغفرت سے بہرہ مند ہوں گے۔
عالم اسلام کے بنیادی مسائل میں دو مسئلے سب سے اہم ہیں اور اتفاق سے ان دونوں مسائل کا ایرانی قوم اور ہمارے ملک کے مفادات سے قریبی تعلق ہے۔ ایک افغانستان کا مسئلہ ہے اور دوسرا مسئلہ فلسطین۔ دونوں جگہوں پر مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ افغانستان کے مسائل میں ایک طرح کی پیشرفت ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ جو کچھ افغانستان کے مسلمانوں کے لئے بہتر ہوگا وہ جلد ہی ہو جائے گا لیکن ماہ مبارک رمضان میں بھی ان دونوں ممالک کے مظلوم عوام پر حملے ہو رہے ہيں۔ ماہ رمضان کے شروعاتی ایام میں، افغان عوام پر امریکا و برطانیہ کی بمباری پوری شدت و بے رحمی کے ساتھ جاری رہی ہے۔ روزہ دار عوام، بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گيا کچھ مواقع پر تو ایسے کام کئے جو جنگی جرم اور نا قابل فراموش ہیں، یہ جرائم ہمیشہ یاد رکھے جائيں گے۔ جیسے ایک جیل پر حملہ جس میں کئ سو لوگ مارے گئے اور جیسے مختلف مقامات پر عام شہریوں پر حملے۔ دوسری طرف حالیہ چند دنوں میں اسی قسم کے حملے، امریکا کے اتحادی یعنی غاصب صہیونی حکومت نے بھی فلسطینی شہروں میں مسلمان فلسطینیوں کے خلاف انجام ديئے ہيں اور ٹینکوں، طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور جنگی کشتیوں سے نہتے عوام، عام شہریوں، بچوں، مدرسوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بڑے عجیب حالات ہیں! امت مسلمہ کو جلد کسی نتیجے پر پہنچنا اور اس غفلت سے باہر نکلنا چاہئے۔ عالم اسلام کے گوشے گوشے پر حملے ہو رہے ہيں۔ اس کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی جاتی ہے کہ ہم اسی پر اکتفا نہيں کریں گے۔ کچھ دوسرے ممالک پر بھی حملے کریں گے۔ عراق اور صومالیہ کا نام لے رہے ہيں۔ عالم اسلام پر وہ لوگ حملے کرنے والے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر، مختلف میدانوں میں اتر رہے ہیں تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں اور دنیا کے سب سے بڑے دہشت گردانہ نظام یعنی صیہونی حکومت کے خلاف نہ صرف یہ کہ کوئی کارروائی نہیں کر رہے ہيں بلکہ اس کی حمایت بھی کرتے ہيں۔ اگر لوگوں کے گھروں پر ٹینک سے حملے کرنا دہشت گردی نہيں ہے تو پھر دہشت گردی کسے کہتے ہيں؟ اگر ایف سولہ طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹروں سے عام لوگوں کے گھروں پر راکٹ برسانا دہشت گردی نہيں ہے تو پھر دہشت گردی کیا ہے؟ بہرحال یہ دو مسائل بہت ہی اہم ہيں اور میں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔
افغانستان کے بارے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تمام افغان گروہوں اور قبیلوں کے درمیان اتفاق رائے سے ایک حکومت کی تشکیل ہونے والی ہے اس سے ہم خوش ہيں۔ یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کہ افغانستان کے مظلوم عوام گزشتہ بیس برس سے زائد عرصے سے جاری خونریزی و تباہ کن جنگوں سے چھٹکارا پانے والے ہيں۔ اس لئے بھی کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے اور اس لئے بھی کہ وہ ہمارے پڑوسی ہيں اور افغانستان کی صورت حال، پائیداری و امن کا ہمارے ملک کی پائیداری و سلامتی سے قریبی تعلق ہے۔ ہر لحاظ سے ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ یہ لوگ آسودہ خاطر رہیں۔ لیکن کچھ نکات پر تجہ ضروری ہے ۔ :
پہلی بات تو یہ کہ امریکا طالبان کی حکومت کے سقوط کو اپنے لئے ایک سیاسی کامیابی و حتمی و اہم کامیابی قرار نہ دے۔ اگر افغان عوام اور مختلف علاقوں کے گروہ میدان عمل میں نہ آتے تو بمباری سے کسی حکومت کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ در حقیقت اقغان عوام نے کردار ادا کیا ہے اور ان کا کردار بہت بڑا تھا ورنہ اگر وہ کچھ نہ کرتے تو امریکا کو ہفتوں اور مہینوں بمباری کرنا پڑتی، راکٹ برسانے ہوتے، مختلف جرم کرنے ہوتے پھر بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ صحیح ہے کہ بظاہر انشاء اللہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل عمل میں آنے والی ہے جس پر تمام گروہ متفق ہوں گے لیکن یہ صورت حال اس بات کا باعث نہيں بنے گی کہ افغانستان میں امریکی جرائم بھلا ديئے جائيں بلکہ وہ یاد رکھے جائيں گے۔ تو یہ بات صرف افغان عوام سے متعلق نہیں ہوگی۔ تمام لوگ جو حکومتوں کے روئے کے بارے میں فیصلے کرتے ہيں اور ان کے فیصلوں پر عمل ہوتا ہے وہ اس کام کی مذمت کرتے ہيں اور یہ جرائم ہمیشہ رہيں گے اور انہيں بھلایا نہیں جا سکتا۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہيں کرتے کہ کون آئے اور کون نہ آئے، کون اقتدار سنبھالے اور کون اقتدار تک نہ پہنچے ۔ لیکن ہم افغان عوام کی حمایت کرتے ہيں جیسا کہ گزشتہ بیس برسوں سے زائد کے عرصے میں ایران کی قوم اور حکومت سے جتنا ہو سکا کیا گيا اور انصاف سے دیکھا جائے تو ایرانی قوم اور حکومت نے افغانستان کے مسلمانوں کی مدد میں بالکل کوتاہی نہیں کی۔ یہی جو پچھلے ہفتے مدد کی گئ ہے اس کے لئے ہماری قوم کا شکریہ ادا کیا جانا چاہئے۔ میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے یہ چیريں افغان عوام کو تحفے میں دی ہيں، ذمہ دار افراد اور جن لوگوں نے یہ تجویز رکھی ہے ان سب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔ گزشتہ اکیس بائيس برسوں کے دوران ایسا ہی رہا ہے۔ افغان عوام، چاہے وہ افغانستان کے اندر رہتے ہوں یا وہ لوگ جو یہاں(ایران میں) تھے، ان سب کی ایران کی حکومت اور ایران کے عوام نے حمایت کی ہے، ہم افغانستان کے عوام کی حمایت کرتے ہيں۔ اس ملک کی حکومت افغان عوام کی مرضی کے مطابق ہونی چاہئے۔
یہ بات بھی عرض کر دوں کہ افغانستان میں جو بھی حکومت آئے اگر وہ اپنے ملک کے عوام کی، جو بیس برس سے زائد کے عرصے سے جد و جہد کر رہے ہيں، مدد کرنا چاہتی ہے اسے دو چیزوں اسلام اور خودمختاری پر توجہ دینی ہوگی۔ افغانستان کے مسلمان عوام ، اسلامی اقدار کے پابند ہیں۔ اس بنا پر ان کے لئے اسلامی اصول بہت اہم ہیں۔ جو بھی حکومت، مغربی طاقتوں اور امریکا کو خوش کرنے کے لئے، اسلام اور اسلامی کردار کو کم کرنا چاہے گی اسے یہ جان لینا چاہئے کہ وہ افغانستان کے عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔ افغانستان کے عوام اسلام اور خودمختاری کے خواہاں ہیں۔ یہ افغانستان کے لوگ کبھی بھی مداخلت پسند غیر ملکی طاقتوں سے سمجھوتا نہيں کريں گے۔ سوویت یونین نے جیسی چوٹ افغانستان میں کھائی ہے ویسی چـوٹ مشرقی یورپی ممالک میں بھی نہيں کھائی تھی۔ جارجیا، چیکوسلواکیا اور پولینڈ میں افغانستان جیسی صورت حال پیش آئی تھی یعنی وہاں بھی سوویت یونین نے فوج اتاری تھی۔ لیکن ان ممالک کی قوموں نے، جن کے ملکوں پر سابق سوویت یونین نے فوج بھیجی تھی اور فوجی قبضہ کر لیا تھا، ایسی چوٹ سوویت یونین کو نہیں لگائی تھی جیسی چوٹ افغانستان کے عوام نے لگائی۔ حالیہ دنوں میں بھی آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ افغانیوں نے کچھ مداخلت پسند ممالک کی مداخلتوں اور ان کے ایجنٹوں کے خلاف بھی مناسب اور ٹھوس موقف اپنایا اور یہ ثابت کر دیا کہ انہیں غیروں کی مداخلت پسند نہيں ہے۔ جو لوگ حکومت سنبھالیں گے اور جن لوگوں کو افغانستان کا نظم و نسق سنبھالنا ہے، اس سے قطع نظر کہ وہ کون لوگ ہيں اور اپنے ملک کو کس طرح سے چلائيں گے، انہيں اسلام اور خودمختاری پر توجہ دینی ہوگی تاکہ اس ملک میں پائیداری و امن قائم ہو سکے۔
ایک اور بات بھی میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ افغانستان کی مختلف اقوام پختون، تاجیک، ہزارہ، ہراتی، ازبک، قزلباش اور چھوٹے بڑے قبیلوں اور گروہوں کو بھی متحد ہو جانا اور مختلف قبائلی و قومی و دینی و شیعہ- سنی اختلافات سے دور رہنا چاہئے۔ ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کو تحمل کرنا چاہئے تاکہ اس ملک کو، جسے دشمنوں نے ایک ویرانے میں بدل دیا ہے اور جہاں تعصب و داخلی تصادم و اقتدار کی لالچ نے حالات مزید خراب کر دئے ہیں، دوبارہ آباد کیا جا سکے۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔
البتہ امریکا، برطانیہ اور مغرب والوں کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل تک افغانستان میں اپنی موجودگی جاری نہيں رکھ سکتے۔ اگر وہ کسی بھی بہانے سے افغانستان میں طویل مدت تک رہنا چاہتے ہيں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ افغان عوام ان کا مقابلہ کریں گے اور یہ لوگ ان کے خلاف جد و جہد کریں گے اور انہیں نقصان پہنچائيں گے۔ ہم کسی بھی صورت میں افغانستان میں توسیع پسند طاقتوں کی مداخلتوں کو قبول نہيں کرتے۔ البتہ افغانستان کو آباد کرنے اور تعمیر نو کے لئے عالمی سطح پر مدد کی جانی چاہئے لیکن اس مدد کے پیچھے منصوبے اور دباؤ نہ رہیں۔
فلسطین کے بارے میں عالم اسلام کو جس چیز پر بہت زيادہ توجہ رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات اور نیویارک اور واشنگٹن میں امریکی مراکز پر حملے اور عوام کی ان واقعات اور افغانستان کی تبدیلیوں پر توجہ کے بعد فلسطین کے مسئلے کو جس طرح سے نظرانداز کیا گيا اس سے صیہونی حکومت کو اس غلفت اور بے توجہی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع مل گيا۔ صیہونی حکومت نے حالیہ چند مہینوں کے دوران سختیوں اور مسلسل جرائم سے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ فلسطینی شہروں میں اب وہ جنگی ساز وسامان اور ٹینکوں کے ساتھ فلسطینیوں کے گھروں میں گھستے ہيں اور بے پناہ جرائم انجام دیتے ہيں۔ صیہونیوں نے ان واقعات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عالم اسلام کو توجہ دینی چاہئے، اپنی ذمہ داری کا احساس کیا جانا چاہئے ۔
البتہ ان جرائم میں امریکی حکومت کی شراکت سے کوئی انکار نہيں کر سکتا۔ امریکیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے کے ساتھ افغان عوام پر حملہ کیا۔ افغانستان میں کچھ لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا لیکن فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی اور ان پر وحشیانہ حملوں کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہيں کی بلکہ اس کی حمایت بھی کی! یہ در حقیقت دنیا کے لوگوں اور رائے عامہ کے عبرت کا مقام ہے۔ یہ لوگ کیا کہيں گے؟ یہ لوگ کس منہ سے انسانی حقوق اور اقوام عالم کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہيں؟! اس قوم کے خلاف اس کے اپنے گھر میں اس طرح سے پر تشدد کاروائیاں کی جاتی ہیں اور درندگی برتی جاتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہيں بلکہ ان کارروائیوں کی حمایت بھی کی جاتی ہے۔! افسوس کی بات ہے کہ امریکا کی حکومت اور برطانیہ کی بھی حکومت کی شبیہ رائے عامہ میں بڑی خراب رہی ہے۔ میری نظر میں امریکی حکام نے امریکی عوام کو تاریخ میں شرمندہ کیا ہے۔ برطانیوی حکام نے اپنی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ یہ لوگ قوموں کی قیادت کرتے ہيں اور اتنے سارے دعوؤں کے باوجود اس بھیانک غیر انسانی جرم پر نہ صرف خاموش ہيں بلکہ اس کی حمایت بھی کرتے ہيں۔
افسوس کی بات ہے کہ اب برطانیہ کی حکومت راستہ ہموار کرنے والے اور امریکا کی سیاسی دلالی کرنے والے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ بوڑھی سامراجی حکومت کہ جس کا ہمارے علاقے میں ایسا سیاہ ماضی رہا ہے جس کی مثال نہيں ملتی، بر صغیر ھند میں، اسی افغانستان میں، خود ہمارے ملک میں، عراق میں، فلسطین میں ان تمام علاقوں میں، ڈيڑھ سو برسوں کے عرصے میں برطانیوی سامراج کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے ان اقوام کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہيں جا سکے گا۔ یہ برطانوی حکومت سامراجی دور میں حاصل اہم سیاسی مقام اب کھو چکی ہے اور امریکا کی سیاسی پیروکار، ایجنٹ اور دلال میں بدل چکی ہے۔ وہ جو بھی کہتا ہے یہ برطانوی حکومت فورا اس کی تائید کرتی ہے۔ امریکا کی حکومت اور برطانیہ کی حکومت ان جرائم کی ذمہ دار اور ان میں شریک ہیں کیونکہ وہ عملی طور پر ایک مجرم حکومت کی حمایت کرتی ہيں۔
لیکن ان قسم کی کوششوں سے صیہونیوں کے مسائل حل ہونے والے نہيں ہیں، یہ بھی جان لینا چاہئے۔ آج صیہونی حکومت، اتنی مجبور اور مسائل میں گھر چکی ہے کہ اس کی سمجھ میں نہيں آ رہا ہے کہ وہ کیا کرے؟ غصب و ظلم و زورزبردستی کا نتیجہ اچھا نہيں ہوتا۔ غاصب صیہونی حکومت کی یہی حالت ہونی تھی اور حالات اس سے بدتر بھی ہوں گے۔ انہيں جس بات پر غصہ آتا ہے وہ یہی انتفاضہ تحریک ہے۔ صیہونیوں اور امریکی حکومت کی تمام تر کوششیں، رابطے اور دوڑ دھوپ نیز پالیسیاں اسی لئے ہيں کہ شاید تحریک انتفاضہ کو ختم کیا جا سکے۔ انتفاضہ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے، اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک قوم کا قیام ۔ وہ قوم جس کی زمین چھین لی گئ ہو، جس کے گھر چھین لئے گئے ہوں، جس کی دولت لوٹ لی گئ ہو، کھیتوں پر قبضہ کر لیا گيا ہو، جس کی بے عزتی کی جا رہی ہو، جس کے ساتھ خود اس کے ملک میں کمزور اقلیت کی طرح برتاؤ کیا جا رہا ہو۔ اس قوم نے کچھ مدت تک کوتاہی کی لیکن آج اس کے نوجوان میدان میں آ گئے ہيں۔ جد و جہد میں ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ پتھروں کے ذریعے، سر سے پیر تک مسلح فوج کا مقابلہ کرنے نکل پڑے ہيں اور انہوں نے سے بے بس بھی کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت، اس ایک سال اور کچھ مہینوں میں، جب سے مسجد الاقصی سے متعلق تحریک انتفاضہ شروع ہوئی ہے، واقعی بے بس ہو چکی ہے۔ اب ان لوگوں کی ساری کوشش یہ ہے کہ وہ مقدس شعلوں اور حق پر مبنی اس قیام کو ختم کر دیں۔ اسی لئے عوام پر دباؤ ڈال رہے ہيں، ان چند دنوں میں انہوں نے فلسطین کے بیچارے عوام پر، بچوں کے اسکولوں پر طرح طرح کے دباؤ ڈالے ہیں۔
سب کا فرض ہے، سب سے پہلے اسلامی ممالک خاص طور پر عرب حکومت کا فرض بنتا ہے۔ بظاہر عرب لیگ ایک کانفرنس کا انعقاد کرنے والی ہے۔ ہم اس قسم کی کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کرتے ہيں، اسلامی کانفرنس تنظیم کو بھی اور عرب لیگ کو بھی بیٹھ کر ان مسائل پر غور کرنا چاہئے۔ مقابلے کا راستہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی طاقت، سرمائے، افرادی قوت اور وسائل نیز عالمی اداروں میں رائے دہی کے حق کو، فلسطینی قوم کی حمایت میں استعمال کرنا چاہئے ۔
صرف ایک قرارداد یا دو چار باتوں پر ہی اکتفا نہ کریں، بلکہ امریکا کو مختلف سطح پر تعلقات ختم کرنے اور ٹھوس متحدہ موقف کی دھمکی دی جانی چاہئے اور یورپی حکومتوں سے مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ وہ بھی میدان میں آئيں۔ ان حالات میں یورپ اور مغرب کے لئے بھی بڑے امتحان کی گھڑی ہے۔ انہیں انسانی حقوق و آزادی کے سلسلے میں، جن کے بارے میں وہ بلند بانگ دعوے کرتے ہيں، اپنی صداقت ثابت کرنا چاہئے۔ اتنے مظالم سہنے والی ایک قوم کی حمایت کیوں نہيں کی جا سکتی؟ یقینا کچھ یورپی حکومتیں زبانی طور پر کچھ باتیں کہتی ہيں لیکن یہ کافی نہيں ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم اور اسلامی حکومتوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔
میرے دوستو! میری قوم کے لوگو! اور تمام مسلمان اقوام سے بھی عرض کرتا ہوں اس میدان میں دیگر تمام میدانوں کی طرح جو چیز فیصلہ کن ہو سکتی ہے وہ اقوام کے فیصلہ اور رائے عامہ ہے۔ یہ اقوام ہیں جو اپنے مطالبات سے دباؤ ڈال کر حکومتوں کو صحیح سمت میں بڑھنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ یوم قدس آنے والا ہے۔ اس برس کے یوم قدس پر مسلمان اقوام کو یہ دکھا دینا چاہئے کہ وہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم پر غضبناک ہيں اور جو بھی اس سلسلے میں لاپروائی برتے گا اور جو پالیسی بھی اس کے خلاف اختیار کی جائے گی وہ اس سے ناراض ہوں گی اور اس کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کریں گی ۔
یقینا پورے عالم اسلام میں علمائے دین اور تعلیم یافتہ افراد کی خاص ذمہ داریاں ہیں۔ صرف اس بنا پر کہ کسی کام سے امریکی ناراض ہيں، کسی عالم کو، کسی مفتی کو، کسی عرب و اسلامی ملک میں اسلام مخالف موقف اختیار کرنے پر تیار نہيں کرنا چاہئے۔ افسوس ہے کہ حالیہ معاملے میں اس قسم کی ایک دو مثالیں نظر آئيں۔ علمائے اسلام، اسلامی ممالک کے دانشور، عالم اسلام کے پڑھے لکھے افراد، شعراء، مقررین، مصنفین، فنکاروں اور پورے عالم اسلام کے طلبہ سب کو آج فلسطینی عوام کی حمایت میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہ ان کا فرض ہے، اس طرح کے کردار ادا کرنے کا اثر ہوگا اور اس سے فلسطین کے مظلوموں کی مدد ہو سکتی ہے۔ زبانی باتیں ہی کافی نہيں ہیں۔ عوام کا ٹھوس موقف، بہت سی امدادوں سے بہتر اور زيادہ موثر ہے۔ یہ ایک فریضہ ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم اس بات کی توفیق دے گا کہ سارے لوگ اپنے اس فریضے پر عمل کر سکیں۔
مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ اس سال بھی یوم قدس، جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی یادگار ہے، ہمیشہ سے زيادہ جوش و جذبے کے ساتھ اور وسیع پیمانے پر، جیسا کہ پچھلے برس ، گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زيادہ جوش و جذبے سے منایا گیا تھا، منایا جائے گا اور دنیا غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کرےگی اور صیہونی اپنی آخری سانیس گنیں گے۔ یہ طاقت نمائی، حقیقی طاقت کا ثبوت نہيں ہے۔ غاصب حکومت، اپنے ظلم و جور کی وجہ سے روز بروز اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ عالم اسلام ایسا دن ضرور دیکھے گا جب فلسطین فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگاـ

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
اذا جاء نصرالله والفتح. و رأيت النّاس يدخلون في دين‏الله افواجا. فسبّح بحمد ربّک
واستغفره انّه کان توّابا.

 

والسّلام عليکم و رحمةالله و برکاته