انیس دی مطابق نو جنوری کا واقعہ اسلامی انقلاب کی تحریک کی بنیاد ثابت ہونے والے واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس دن شہر قم کے عوام نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خلاف شاہی حکومت کے اشارے پر اخبار میں شائع ہونے والے گستاخانہ مقالے کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ اس واقعے کی سالگرہ پر تہران میں منعقدہ اہل قم کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے عشرہ محرم کے پیش نظر حضرت امام حسین علیہ السلام کی بے مثال تحریک اور قربانی نیز اس کے محرکات و اثرات پر روشنی ڈالی اور اس کے بعد نو جنوری کے واقعے کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی موجودہ مجرمانہ کاروائيوں کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں تاریخ انسانیت کے شہید اعظم اور پوری تاریخ میں نا قابل فراموش اور امت مسلمہ میں بیداری کی روح پھونک دینے والے کارنامے کے معمار حضرت ابو عبد اللہ الحسین کی شہادت پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں آپ عزیز بھائی بہنوں کو جنہوں نے قم کے دانشمند اور بیدار عوام کی بیداری (کے مظاہرے) کی سالگرہ پر اس شہر سے تشریف لاکر اس دوستانہ و با صفا اجتماع کا انعقاد فرمایا، خوش آمدید کہتا ہوں۔
انیس دی (1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978) کا واقعہ، قصہ پارینہ بن جانے والی تاریخی روداد نہیں ہے۔ اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ملت ایران کے ایک جز کی حیثیت سے شہر قم کے عزیز عوام نے حادثے کے رونما ہونے سے قبل ہی اسے محسوس کر لیا اور پھر ملک میں ایک عظیم تحریک کے آغاز میں ان کی دانشمندی و بیداری نے ان کا ساتھ دیا۔ طاغوتی (شاہی حکومت کے) دربار سے وابستہ ایک ضمیر فروش کے قلم سے ایک اخبار میں بزرگوار امام (خمینی رہ) کی شان میں گستاخی کا واقعہ، سطحی فکر و نظر کے مالک افراد کے نزدیک کوئی خاص بات نہ تھی، وہ اس سازش کے خفیہ پہلوؤں اور معاملے کی گہرائی کو محسوس نہیں کر رہے تھے۔ ظاہر ہے جب انسان سازش کو محسوس نہیں کر پائے گا تو اس پر رد عمل بھی نہیں ظاہر کرے گا۔ قم کے عوام اور نوجوانوں نے اسے محسوس کیا، اس کو سمجھ لیا، واقعہ کی گہرائی کا ادراک کر لیا۔ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں اس واقعے کا یہ سب سے اہم پہلو ہے۔ جس فہم و ادراک کا ثبوت آپ اہل قم نے اس وقت پیش کیا اگر اس میں کوئی کسر رہ جاتی اور آپ سڑکوں پر نہ نکلتے، دفاع کے لئے کھڑے نہ ہو جاتے، شہداء کی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے، تو طاغوتی انتظامیہ کی وہ بے مثال رسوائی بھی نہ ہو پاتی اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ جد و جہد کا سلسلہ جس انداز میں چلا وہ شروع ہو پاتا بھی یا نہیں۔ نقطہ آغاز کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ نقطہ آغاز کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسے واقعے کے سلسلے میں بھرپور ادراک و احساس کا نتیجہ تھا جس کے متعدد پہلو پوشیدہ اور آنکھوں سے پنہاں تھے۔ یہ مہارت قم کے 19 دی کے واقعے میں نظر آئی اور ثابت ہو گیا کہ (اہل قم) رونما ہونے والے واقعے کا مکمل ادراک رکھتے اور سازش کو سمجتھے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ امام (خمینی رہ) کے خلاف شائع ہونے والے اس مقالے کے پس پردہ کیا کچھ انجام پا رہا ہے۔ چونکہ وہ سازش کو سجمھ گئے تھے اس لئے ان کا رد عمل فطری تھا۔
آج بھی ہمارے لئے یہی درس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی لا شعوری طاقت حادثات کو ان کے رونما ہونے سے قبل ہی محسوس کر لے اور اسے اندازہ ہو جائے کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ اپنا رد عمل دکھائے۔ ہم تاریخ اسلام کا جائزہ لیتے ہیں تو (محسوس کرتے ہیں کہ) قوموں میں اسی سیاسی ادراک و شعور کے فقدان نے انہیں ہمیشہ خواب غفلت میں محو رکھا اور دشمنوں کو موقع ملا کہ جیسا دل چاہے قوموں سے برتاؤ کریں اور ساتھ ہی ان کے رد عمل سے بھی محفوظ رہیں۔
آپ اس زاویہ نگاہ سے واقعہ کربلا کا جائزہ لیجئے۔ اس وقت ہجرت کے ساٹھ برسوں اور رحلت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کے پچاس برسوں کے اواخر میں مسلمان حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کر پا رہے تھے اور چونکہ تجزیہ نہیں کر پا رہے تھے اس لئے رد عمل بھی نہیں ظاہر کر رہے تھے۔ اس طرح جو لوگ اسلامی معاشرے میں انحراف اور تحریف کے در پے تھے انہیں کھلی چھوٹ مل گئی تھی۔ نوبت یہ آن پہنچی کہ ایک فاسق و فاجر، رسوائے زمانہ رئیس زادہ جس میں اسلامی معاشرے کی حاکمیت اور پیغمبر اسلام کی جانشینی کی شرائط موجود ہونا تو درکنار وہ آنحضرت کی روش کے بالکل بر عکس رفتار و گفتار کا مالک تھا، امت مسلمہ کا رہبر اور جانشین پیغمبر بن بیٹھا۔ آج آپ کی نظر میں یہ واقعہ کتنا حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے؟! لیکن اس دور میں موجود لوگوں کے لئے یہ واقعہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ خواص نے بھی خطر کا احساس نہیں کیا، بعض نے اگر خطرہ محسوس بھی کیا تو ان کے ذاتی مفادات اور ان کا چین و سکون آڑے آیا جس کے نتیجے میں انہوں نے کوئی رد عمل نہیں ظاہر کیا۔ پیغمبر، اسلام لائے تھے تاکہ لوگوں کو توحید، پاکیزگی، مساوات، اخلاقیات اور انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کی سمت لے جائیں لیکن آج ایسا شخص پیغمبر اسلام کا جانشین بن بیٹھا ہے جو سراپا گناہ اور فسق و فجور ہے۔ اسے نہ تو خدا کے وجود کا یقین ہے اور نہ اس کی وحدانیت پر ایمان۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے پچاس سال بعد ایسا شخص مسند خلافت پر بیٹھ جائے؟! یہ چیز آج آپ کی نظر میں بہت عجیب لگ رہی ہے لیکن اس دور میں بیشتر لوگوں کو یہ چیز عجیب نہیں لگی۔ یہ کتنے تعجب کی بات ہے؟! یزید خلیفہ بن گیا اور عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں بد عنوان اور تشدد پسند کارندوں کو عوام سے بیعت لینے پر مامور کر دیا گيا اور لوگوں نے بھی جوق در جوق بیعت کر لی۔ علما نے بیعت کی، زاہدوں نے بیعت کی، بڑی شخصیات نے بیعت کر لی، سیاستدانوں نے بیعت کر لی!
ان حالات میں کہ جب عالم اسلام پر ایسی غفلت و بے حسی طاری تھی کہ وہ خطرے کو بالکل محسوس نہیں کر پا رہا تھا، کیا کیا جا سکتا تھا؟! حسین ابن علی کی حیثیت سے جو شخص مظہر اسلام ہے اور حسین منی و انا من حسین کی رو سے جو پیغمبر اسلام کی ہو بہو تصویر ہے وہ کیا کرے؟! اسے کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جس سے صرف اسی وقت کے لئے نہیں بلکہ صدیوں کے لئے عالم اسلام بیدار ہو جائے اور غفلت سے باہر نکل آئے۔ (اسے چاہئے کہ وہ آگے بڑھ کر) عالم اسلام کو جھنجھوڑ دے۔ یہ کام امام حسین علیہ السلام کے قیام سے شروع ہوا۔ کوفے سے امام حسین علیہ السلام کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت ملی اور آپ نے کوفہ کی جانب سفر شروع کیا۔ یہ سب ظاہری چیزیں تھیں۔ اگر امام حسین علیہ السلام کو دعوت نہ دی گئی ہوتی تب بھی آپ یقینا قیام فرماتے۔ امام حسین کو یہ قیام کرنا ہی تھا تاکہ یہ بتائيں کہ ایسے حالات میں ایک مسلمان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ آپ نے آئندہ صدیوں کے مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل پیش کر دیا۔ آپ نے لائحہ عمل رقم فرمایا۔ یہ لفاظی، زبانی جمع خرچ پر مبنی لائحہ عمل نہیں تھا۔ یہ عملی طور پر پیش کیا جانے والا لائحہ عمل تھا۔ آپ نے خود آگے بڑھ کر ثابت کر دیا کہ صحیح راستہ کیا ہے۔ آپ نے اپنے نانا پیغمبر اسلام کی ایک حدیث کی جانب اشارہ کیا: جب آپ دیکھیں کہ اسلام کو حاشئے پر ڈال دیا گیا ہے، ظالم، عوام پر حکومت اور دین خدا میں تبدیلیاں کر رہے ہیں، عوام سے فاسقانہ و فاجرانہ انداز میں برتاؤ کر رہے ہیں تو جو شخص ان حالات کے خلاف قیام نہ کرے «كان حقّا على اللَّه ان يدخله مدخله» تو اللہ تعالی اس بے حس اور ساکت شخص کے ساتھ وہ برتاؤ کرے گا جو«مستحلّ حرمات اللَّه» کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ تو یہ لائحہ عمل پیش کیا گيا ہے اور یہ ہے حسین ابن علی علیھما السلام کا قیام۔ اس قیام کی راہ میں اگر حسین کی زندگی بھی جو دنیا کی سب سے برتر اور گرانبہا زندگی ہے، قربان ہو جائے تو امام حسین علیہ السلام کی نظر میں یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔ آل اللہ، اہل حرم پیغمبر اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا جیسی شخصیت کی اغیار کے ہاتھوں اسیری بھی برداشت ہے۔ حسین ابن علی کو بخوبی علم تھا کہ جب (کربلا کے) صحرا میں انہیں شہید کر دیا جائے گا تو عدو، بچوں اور عورتوں کو اسیر کر لیں گے لیکن اس عظیم ہدف کے لئے اتنی بڑی اور سنگین قیمت امام حسین علیہ السلام کی نظر میں زیادہ نہیں تھی۔ ہم جو قیمت ادا کرتے ہیں اس کا موازنہ اسلام، مسلمین، امت مسلمہ اور معاشرے کے لئے ادا کی جانے والی اس قیمت (اور اس) کےنتائج سے کیا جانا چاہئے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان سو روپئے خرچ کرتا ہے لیکن وہ فضول خرچی کے زمرے میں آ جاتا ہے اور کبھی ایک ارب خرچ کر دیتا ہے لیکن اس میں کوئی فضول خرچی نہیں ہوتی۔ اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ اس کے مقابلے میں ہمیں حاصل کیا ہو رہا ہے۔ اسلامی انقلاب، اسی لائحہ عمل اور اسی نسخے پر عملدرآمد کا نام ہے۔ ہمارے بزرگوار امام(خمینی رہ) نے اسی لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنایا۔ کچھ سادہ لوح اور سطحی فکر کے افراد نے، جو در حقیقت برے لوگ نہیں تھے بلکہ ہم ان سے بخوبی واقف تھے، یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ (انقلابی) لوگ نوجوانوں کو میدان میں لے آئے ہیں اور ہمارے قیمتی نوجوانوں کی جانیں تلف کر رہے ہیں، ان کا خون بہہ رہا ہے۔ ان کو لگتا تھا کہ امام (خمینی رہ) کو علم نہیں تھا کہ ان نوجوانوں کی جانیں خطرے میں ہیں، وہ لوگ بخیال خود امام (خمینی رہ) کی ہمدردی میں یہ باتیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اندازے غلط لگائے جا رہے تھے۔ بے شک ہم نے مسلط کردہ جنگ میں بے شمار شہیدوں کی قربانی پیش کی، بے شمار افراد زخمی ہوکر معذور ہو گئے۔ بے شمار خاندان غم و اندوہ میں ڈوب گئے۔ یہ بہت بڑی قیمت تھی لیکن کس چیز کے بدلے؟ ہم نے بھیانک طوفان کے سامنے، ملک کی خود مختاری، پرچم اسلام اور ایران کی اسلامی شناخت کی حفاظت کی۔
جو طوفان وجود میں لایا گیا تھا وہ صدام کا طوفان نہیں تھا۔ صدام تو دشمن کے محاذ میں صف اول میں کھڑا رنگروٹ تھا۔ اس کی پشت پر کفر و استکبار کا پورا لشکر تھا۔ اگر ہم تسلیم کر لیں کہ یہ سارے لوگ ابتدا سے اس سازش کا حصہ نہیں تھے تو بہر حال آگے چل کر واضح ہو گیا کہ یہ سارے کے سارے صدام کی پشت پر آ گئے ہیں۔ امریکہ آیا، سوویت یونین آیا، نیٹو آیا، سامراج سے وابستہ رجعت پسند ممالک آ گئے۔ انہوں نے پیسے دئے، اطلاعات فراہم کیں، نقشے دئے، پروپیگنڈا کیا۔ یہ اتنا بڑا محاذ قائم ہوا تھا کہ عظیم ایران، شجاع و دانا ایران اور مومن ایران کو تہس نہس کر دیا جائے۔ اس علاقے کو پہلے صدام جیسے پست و حقیر شخص کے قبضے میں لایا جائے اور پھر اسے ہمیشہ کے لئے امریکہ کے چنگل میں جکڑ دیا جائے۔ جو آفت گزشتہ دو سو سال تک ہمارے ملک پر چھائی رہی اور جس کے نتائج یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے وہ مزید سو دو سو سال جاری رہے۔ (لیکن) ہماری قوم اٹھ کھڑی ہوئی، ہمارے بزرگوارامام (خمینی رہ) اٹھ کھڑے ہوئے۔ البتہ اس کے نتیجے میں ہمیں عزیز جانیں قربان کرنا پڑیں، عظیم شخصیتیں شہید ہو گئیں، عزیز نوجوانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا لیکن اس عظیم ثمرے اور نتیجے کے پیش نظر یہ فضول خرچی نہیں تھی۔
اس وقت مسئلہ فلسطین بھی ایسا ہی ہے۔ غزہ کا جو مسئلہ آج آپ دیکھ رہے ہیں، یہ اصل معاملے کا صرف ایک رخ ہے۔ اصلی معاملہ یہ ہے کہ انسانی اقدار کو در خور اعتنا نہ سمجھنے والی سامراجی طاقتیں، مشرق وسطی کے اس علاقے، اس حساس خطے کو جو گوناگوں دولت و ثروت سے مالا مال اور خاص جغرافیائی و معاشی اہمیت کا حامل ہے، اپنے قبضے میں کر لینا چاہتی ہیں، اپنے چنگل میں جکڑ لینا چاہتی ہیں۔ اس کے لئے غاصب اسرائیل کو، مقبوضہ فلسطین پر مسلط صیہونیوں کو ذریعہ اور وسیلہ بنایا گيا ہے۔ اصلی معاملہ یہ ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس خطے میں، مسئلہ لبنان سے لیکر مسئلہ عراق اور مسئلہ فلسطین تک جو سرگرمیاں انجام دی گئی ہیں، اس زاوئے نظر سے ان کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ علاقے کو امریکہ اور عالمی سامراج کے قبضے میں پہنچانے کی دگ و دو ہے۔ عالمی سامراج کا دائرہ امریکہ سے وسیع تر ہے البتہ اس کا سب سے نمایاں مظہر شیطان بزرگ حکومت امریکہ ہے۔ سامراج اس خطے کو اپنے قبضے میں دیکھنا چاہتا ہے، اپنے چنگل میں جکڑ لینا چاہتا ہے۔ سامراج کو اس خطے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اسرائیل بہترین وسیلہ ہے۔ گزشتہ برسوں کے واقعات کو اس زاوئے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا کہ تینتیس روزہ جنگ کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ یہ جدید مشرق وسطی کی پیدائش سے قبل کا درد زہ ہے۔ یعنی اس واقعے کے بعد ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آئے گا جو امریکہ کی منشا کے مطابق ہوگا۔ اس خواب پریشاں کی تعبیر ان کے سروں پر کاری ضرب کی صورت میں نکلی۔ لبنان کے با ایمان نوجوانوں کی شجاعت و بیداری اور جہاد و جاں نثاری نے اسرائيل ہی نہیں امریکہ اس کے تمام حامیوں اور پیروکاروں کو زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ غزہ کا مسئلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
ان کی کوشش ہے کہ علاقے میں استقامت و مزاحمت کا نام و نشان مٹ جائے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو استقامت و پائیداری کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ خیر ان کا یہ خیال تو درست ہے۔ یہ (ایران) استقامت کا مرکز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے کہ اگر ہم کوئی اقدام نہ کریں اور کچھ بھی نہ کہیں تو بھی اسلامی جمہوریہ کا وجود ہی علاقے کی قوموں کے لئے سرچشمہ الہام بنا رہے گا۔ یہ ایک ایسا وجود اور ایک ایسا تشخص ہے جو سامراجی طاقتوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود علاقے میں سر اٹھائے کھڑا ہے، اس کی جڑیں روز بروز زیادہ گہرائی میں اترتی جا رہی ہیں اور اس کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ اس عظیم و با شکور پیکر کا وجود سامراج کی آنکھوں کے لئے کانٹا اور قوموں کے لئے سرچشمہ امید ہے۔ بے شک یہ استقامت و مزاحمت کا مرکز ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسروں کو یہاں سے درس ملا ہے۔ دشمن اس استقامت کا خاتمہ کرنے کے لئے اس کی سب سے کمزور کڑی یعنی غزہ میں حماس کی عوامی حکومت ہر حملے کر رہا ہے۔ مظلوم پاکر اسے کچل دینے پر تلا ہوا ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں کوئی بھی شخص اگر مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور مقامی مسئلہ تصور کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے قوموں کی درگت بنا ڈالی۔ غزہ کا مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، یہ پورے علاقے کا مسئلہ ہے۔ سر دست اس مقام پر حملہ کیا گيا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر دشمن کو اس جگہ کامیابی مل گئی تو وہ علاقے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔ اس علاقے کے اطراف میں واقع مسلم ممالک کی حکومتیں جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدد نہیں کر رہی ہیں حالانکہ یہ ان کا فرض ہے، وہ غلطی کر رہی ہیں، بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل کی جڑیں جیسے جیسے مضبوط ہوں گی خطے پر سامراج کا تسلط بڑھتا جائے گا اور ان حکومتوں کی کمزوری اور بد بختی میں بھی اضافہ ہوتا جائےگا۔ وہ سمجھ کیوں نہیں رہی ہیں؟ یہ حکومتیں اپنے ساتھ قوموں کو بھی ذلت و رسوائی کی جانب گھسیٹ رہی ہیں۔ ذلیل و حقیر و دوسروں پر منحصر حکومت اپنی قوم کو بھی ذلیل و تابع و حقیر بنا دیتی ہے۔ لہذا قوموں کو ہوش میں آ جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہماری قوم نے اپنی بیداری و آمادگی کا ثبوت دیا ہے۔ میں قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے جلوسوں اور مظاہروں میں شرکت کرکے اپنے موقف اور عزم و ارادے کا اعلان کیا، خاص طور سے ان با ایمان و پر جوش نوجوانوں کا شکر گزار ہوں جو تہران اور بعض دیگر شہروں میں ایئرپورٹ پر جمع ہو گئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ انہیں بھیجا جائے۔ افسوس کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر وہاں جانا ہمارے لئے ممکن ہوتا تو یہ ہمارے لئے لازمی ہوتا اور ہم یقینا ایسا ہی کرتے۔ ہم کسی کا لحاظ نہ کرتے، لیکن کیا کہا جائے کہ اس کا امکان نہیں ہے۔ یہ سب جان لیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عہدہ دار مظلوم ملت فلسطین کی مدد کے لئے جو بھی بن پڑے گا کریں گے۔ اب تک کیا بھی ہے اور آئندہ بھی ہم یہی کریں گے۔ ہماری نوجوان نسل جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے اپنے اس عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ (مقدس دفاع کے اہم فوجی آپریشنوں) کربلا 5 جس کی سالگرہ انہی ایام میں ہے اور والفجر 4 اور آپریشن خیبر و آپریشن بدر کے جانبازوں کے وارث ہیں۔ پچیس سال اور تیس سال قبل کے نوجوانوں کی مانند آج کے نوجوان بھی میدان عمل میں جانے کے لئے ہر آن کمربستہ ہیں۔ دشمن کے سامراجی جاسوسی اداروں نے کچھ اندرونی ضمیر فروش عناصر کو پیسے دئے تاکہ وہ ہمارے نوجوانوں کو ورغلائیں، ایسے تبصرے لکھیں جن سے نوجوانوں کی یہ آمادگی مصلحت کے خلاف محسوس ہو، لیکن دشن کی یہ سازش ناکام رہی۔ ہمارے نوجوان بدستور اسی سمت میں پیش قدمی کر رہے ہیں جس کی نشاندہی انقلاب، اسلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے کی۔ یہ ہمارے ملک کی صورت حال ہے۔ اس کے ساتھ ہی پورے عالم اسلام کی قوموں کو چاہئے کہ اپنے تعاون اور عزم و ارادے کا واضح طور پر مظاہرہ کریں، اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں۔ بعض مسلم حکومتوں نے قابل قدر کوشش کی ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ سیاسی اور عوامی دباؤ کے ذریعے دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دینے کی ضرورت ہے۔ آج آپ غور کریں، اس علاقے میں صیہونیوں کے ہاتھوں جو المیہ رونما ہو رہا ہے اس کی مثالیں بہت کم ہیں۔ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی شخص کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی حمایت کے جھوٹے اور ریاکارانہ دعوے کرتی ہیں لیکن جب غزہ میں معصوم بچے اور مظلوم عورتیں خزاں رسیدہ پتوں کی مانند زمین پر گر رہے ہیں تو یہ تنظیمیں سانس تک نہیں لے رہی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانی حقوق کے ان دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ وہ دعوے اقوام متحدہ کے ہوں، نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہوں یا انسانی حقوق کی حمایت کی دعویدار حکومتوں کے۔ انسانی حقوق ان یورپی حکومتوں کا دائمی راگ بن کر رہ گيا ہے۔ کیسے انسانی حقوق؟! آپ کی نظر میں انسانی حقوق کا کوئی پاس و لحاظ ہے ہی نہیں۔ آپ کے دعوے جھوٹے ہیں۔ آپ کی ‌زبان پر انسانی حقوق کا تذکرہ ریاکارانہ ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک یورپی حکومت کا سربراہ اس سانحے کو دیکھے اور اسرائیل پر حملہ آور نہ ہو جائے؟! ہاں شرط یہ ہے کہ آپ کو انسانی حقوق کا کچھ پاس و لحاظ ہو۔ ان سے بھی بد تر عالم اسلام کے کچھ روشن خیال افراد ہیں۔ شومی قسمت سے عالم اسلام میں پرنٹ میڈیا، خبر رساں چینلوں اور روشن خیال طبقے میں موجود بد عنوانی بڑی افسوسناک ہے۔ اخبارات و جرائد میں فلسطین کی قانونی حکومت کے خلاف تبصرے اور مقالے شائع کئے جاتے ہیں تاکہ صیہونیوں کے جرائم کا جواز پیش کیا جائے۔ اللہ تعالی انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ افسوس کہ ہمارے یہاں بھی کم و بیش یہ چیز ہے لیکن ملک کے اندر رای عامہ پر عزم ہے۔ اس مسئلے میں عوام اور حکومت کے درمیان موجود ہم آہنگی کے باعث ان عناصر کو خیانت و فریب پر مبنی اس نظرئے پر آگے بڑھنے کا موقع نہیں مل پاتا ورنہ شائد وہ اور بھی جوہر دکھانے کی کوشش کرتے۔ عوام کا عزم، ان کے نعرے اور حکومت کے ساتھ ان کا تعاون اور بھرپور تال میل دیکھ کر ان عناصر کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ لیکن دوسرے ممالک میں (فلسطین کی قانونی حکومت کی مخالفت کا) یہ نظریہ بڑے شد و مد سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وقت جو بھی واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب ہے باطل پر حق کی حتمی فتح۔ اگر خدا نخواستہ دشمن اس وقت حماس کی جانب سے شجاعانہ دفاعی حملے کرنے والے اور عزم محکم کے ساتھ لڑنے والے ایک ایک فلسطینی کو شہید کر دینے میں کامیاب ہو جائے تب بھی فلسطین کا مسئلہ ان مجرمانہ کاروائيوں سے ختم نہیں ہو جائے گا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ (مزاحمت و استقامت کا) یہ معاملہ ماضی سے کہیں زیادہ طاقتور بن کر ابھرے گا اور دشمن کے سروں پر بجلی بن کر گرےگا اور ان پر فتح حاصل کرے گا۔ ہماری مسلمان قوم کو چاہئے کہ اپنے اس عزم راسخ کو اپنے ذہن و دل میں محفوظ رکھے اور اس بصیرت و آگاہی کو غنیمت جانے۔ خوش قسمتی سے حاصل ہو جانے والی اس بیداری کی قدر کرے اور اپنے جذبہ عمل کی پاسداری کرے۔ اپنے موقف کا اعلانیہ اظہار کرے اور پوری دنیا کو بتا دے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے ظلم مخالف موقف پر اٹل اور اس کے لئے استقامت و جاں نثاری پر آمادہ ہے۔ یقینا اس کے لئے جو قیمت ادا کرنی پڑے گی اس سے کئی گنا زیادہ گراں بہا اور با ارزش ثمرہ حاصل ہوگا۔ بے شک ہمارے عزیز شہیدوں اور ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) کی ارواح طیبہ اس قوم اور اس شجاعانہ دفاع اور جہاد کی پشتپناہی کریں گی اور تمام مسلم قومیں مستقبل قریب میں ہی فتح کا جشن منائیں گی۔ اللہ تعالی حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعاؤں کو ہم سب کے شامل حال کر دے اور ہمارا شمار حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام کے حقیقی پیروکاروں میں کرے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته