انیس بہمن ایران کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے بڑی اہم تاریخ ہے۔ اس دن فضائیہ نے شاہی حکومت کے خلاف جاری انقلابی تحریک سے جڑتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس واقعے کے تیسرے دن یعنی بائیس بہمن کو اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا۔ فضائیہ وہی فضائيہ تھی جس نے شاہی حکومت کے دور میں اپنے فرائض ادا کئے تھے لیکن انقلاب کے بعد اس کا انداز تبدیل ہو گیا۔ انقلاب کے بعد فضائیہ ہی نہیں ملک کے ہر شعبے نے خاص جذبہ ایمانی کے ساتھ عوام اور ملک کی خدمت شروع کی۔ انقلاب پوری قوم اور ہر شعبے میں روح رواں بن کر دوڑنے لگا اور جذبہ انقلاب نے سب کو ایک دوسرے ایک لڑی میں پرو دیا۔ انیس بہمن کے یادگار واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے ہر سال اس تاریخ کو فضائیہ کے کمانڈر اور اہلکار قائد انقلاب اسلامی کی خدمت میں حاضر ہوکر تجدید بعیت کرتے ہیں۔ اس سال بھی اس کا اعادہ کیا گيا اور اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے ایک اہم خطاب کیا، جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

آپ تمام عزیزوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے ان مایہ ناز جوانوں کے نشاط انگیز چہروں کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔
مجھ کو آپ کو، ہم سب کو ان افراد کا ممنون و شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے عمل سے، صرف زبان سے نہیں، اپنے اقدام سے، اپنے عزم و ارادے سے انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کو نئی تاریخ رقم کی۔
جب کوئی اقدام، اخلاص کے ساتھ، صحیح انداز میں اور صحیح و مخلصانہ جذبے کی بنیاد پر انجام پاتا ہے تو اس کی تاثیر دائمی و پائيدار ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم نمائشی طور پر کچھ کام کریں، کچھ ایسے اقدام کریں جن میں پوری طرح اخلاص نہ ہو، ایسے کام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محو ہوتے جاتے ہیں، نابود ہو جاتے ہیں۔ انیس بہمن کا واقعہ ایسا نہیں تھا، وہ ان واقعات میں تھا جو ایمان و اخلاص و ارادے کی گہرائيوں سے (چشمے کی مانند) ابل کر سامنے آتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب انقلاب کی کامیابی کو بس دو تین دن ہی باقی بچے تھے، لیکن کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ انیس بہمن اپنے ساتھ ایک بائيس بہمن (اسلامی انقلاب کی فتح کی تاریخ) لیکر آیا ہے۔ ایسی پیش گوئی کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا، یہ بہت ہی خطرناک اقدام عمل میں آیا تھا۔ آپ ہی جیسے ان جوانوں نے اپنے عزم راسخ ، اپنے ایمان اور قوم سے اپنی وابستگی کو، رونما ہونے والے واقعے کی گہرائی میں اپنے کردار کی صحیح تشخیص و ادراک کے ساتھ عملی طور پر ثابت کر دیا۔ یہ بڑا جوکھم بھرا کام تھا لیکن انہوں نے اقدام کیا اور انیس بہمن کی تاریخ رقم کر دی۔
یہ واقعہ اچانک اور اتفاقیہ رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا۔ فضائیہ نے اس اقدام سے اپنے خاص جوہر کا ثبوت پیش کیا۔ یہ جوہر (آٹھ سالہ) جنگ میں بھی سامنے آیا۔ حملے اور دفاع دونوں ہی شعبوں میں۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران جب ملت ایران کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کے ارد گرد گویا سکیورٹی کا حصار نہیں ہے، دشمن بے خوف ہوکر آتا اور بمباری کرکے چلا جاتا تھا، حملے کرتا تھا، اس وقت فضائیہ نے اپنا جوہر دکھایا۔ مسلط کردہ جنگ کی شروعات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا بہترین، اولین، درخشاں اور با وقار ترین کارنامہ، فضائيہ نے انجام دیا۔ یہ بھی اسی (انیس بہمن کو نظر آنے والے) جوہر کا تسلسل تھا۔ آج بھی وہی صورت حال جاری ہے۔
اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ کوئی انسان یا کوئی گروہ، اپنے گرد و پیش کے حالات اور تبدیلیوں کا صحیح ادراک کر لے۔ کچھ سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں جو بہتوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں لیکن با بصیرت افراد انہیں محسوس کر لیتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اسلامی انقلاب میں جو تبدیلیاں ہوئيں وہ اسی انداز کی تھیں۔ بعض افراد انہیں سمجھ نہیں سکے، محسوس نہیں کر پائے۔ بعض افراد نے اس کو دنیا میں مختلف مقامات پر رونما ہونے والا عبث اقدام تصور کیا اور اسی کے مطابق رد عمل ظاہر کیا۔ بعض افراد نے حریصانہ انداز اختیار کیا اور ان واقعات سے ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ کوتاہی نظر کا نتیجہ تھا۔ انقلاب سب سے پہلے مرحلے میں تو ایرانی سماج کی بنیادی تبدیلی کا باعث بنا اور پھر اس نے امت مسلمہ اور آخرکار دنیا کے اہم ترین سیاسی معاملات میں تبدیلی کا موجب بن گیا۔ اس نے دنیا بالخصوص کچھ خطوں میں طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل اور دگرگوں کر دیا۔ تو یہ ایسا عظیم واقعہ تھا۔ آج اس کی عظمت کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ایران کے لئے بنیادی تبدیلی یہ تھی کہ ایک استبدادی، ظالم و جابر، (اغیار پر) منحصر نظام حکومت جس کے عہدہ دار اور رہنما جاہ طلب، شہوت پرست، خود غرض، انسانوں اور انسانیت سے بے بہرہ، اغیار کی پالیسیوں کے اسیر، ان پر موقوف، تسلط پسند طاقتوں کے بندہ بے دام تھے، اس حالت سے باہر آ جائیں، اور یہ معاشرہ دانشمند، بیدار، پر عزم، حق و قوت انتخاب کا مالک، انسانی معاشروں میں قابل احترام و با وقار اور دوسروں پر اپنا اثر چھوڑنے والا معاشرہ بن جائے۔ یہ تھی بنیادی تبدیلی جو واقعی رونما ہوئی۔ آج آپ دیکھ اور سن رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں کہ علاقے کے گوناگوں مسائل کے سلسلے میں تمام عالمی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران کی موجودگی اور ایران کی رای فیصلہ کن ہے۔ اس کے معترف تو ہمارے سب سے بڑے دشمن بھی ہیں کہ مشرق وسطی اور اس خطے کے ممالک کے مسائل کے سلسلے میں ایران کے تعاون کے بغیر کوئی بھی فیصلہ عملی نہیں ہو سکتا۔ تو کہاں یہ پوزیشن اور کہاں وہ درگت کہ ایران جیسا عظیم ملک جو بے مثال تاریخ، درخشاں ماضی، افرادی قوت ان سب کے باوجود سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کا مہرہ بن کر رہ جائے۔ اسے استعمال کیا جائے اس سے فائدہ اٹھایا جائے،عوام کو بھی کسی گنتی میں نہ لایا جائے۔ ملک کی اقتصادیات اغیار کے ہاتھوں میں ہوں، تیل کے ذخائر، معدنی دولت، گوناگوں افرادی طاقت، سوق الجیشی اہمیت سب پر اغیار کا قبضہ ہو اور وہ حسب منشاء اسے استعمال کریں۔ اسی لئے اس (انقلاب) کو بڑی بنیادی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
البتہ اس تغیر کے اور بھی پہلو ہیں۔ جو قوم ایسی قوت ارادی اور طاقت کی مالک ہے کہ اس طرح کے (نا پسندیدہ) سیاسی نظام کو پسندیدہ عوامی نظام میں تبدیل کر سکتی ہے وہ اپنی معیشت، اپنی ثقافت کی توسیع، اپنی اعلی اخلاقی قدروں کی تبلیغ اور اپنے قلبی اعتقادات پر عمل آوری میں بھی یقینا نمایاں کامیابیاں حاصل کرے گی اور اس نے حاصل بھی کیں۔ یہ تغیرپہلے بہت سے افراد کی نظروں سے پوشیدہ رہ گیا جبکہ کچھ افراد آج بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
بڑی طاقتیں، جن کا ہدف قوموں پر تسلط و غلبہ حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ جب ایک قوم بیدار ہو جاتی ہے، جب ایک قوم اپنے عزم و ارادے کی قدر و قیمت سے واقف ہو جاتی ہے، جب ایک قوم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ خود فیصلہ کرکے اس پر عمل کرےگی تو کوئی بھی طاقت اسے روک نہیں سکے گی، پھر ایسی قوم سے ٹکر نہیں لی جا سکتی۔ اس قوم کو ممکن ہے خسارہ پہنچا دیں لیکن اس پر تسلط قائم نہیں کیا جا سکتا، اس سے غلامی کروانا نا ممکن ہو جاتا ہے، اس پر اپنے نظریات اور خواہشات مسلط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ یہ بات اب بھی بڑی طاقتوں کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔
اس عظیم تغیر کو تیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے، ملت ایران کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بدخواہوں نے ہر ممکن حربہ اختیار کیا کہ شاید اس قوم کو ایک بار پھر مغلوب کیا جا سکے، وہی جہنم صفت تسلط جو دسیوں سال ملت ایران پر قائم رہا اور جسے یہ طاقتیں کسی بھی صورت ختم نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں، شائد ایک بار پھر قائم کیا جا سکے۔ دنیا کے طاقتور دشمنوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا سارا تنازعہ اسی بات پر ہے۔
ایٹمی توانائی کا مسئلہ اور میزائل بنانے پر اعتراض یہ سب تو بس بہانے ہیں۔ اصلی بات کچھ اور ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنے عزم و ارادے اور جوش و جذبے کے ذریعے اغیار کے تسلط کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اغیار اسی تسلط کو دوبارہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
ہمارے ملک پر برسہا برس سے جو گوناگوں پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ان کے بطن سے اچانک مصنوعی سیارہ امید برآمد ہوتا ہے اور فضا میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ہر ممکن سختی کی تھی لیکن ناگہاں یورینیم کی افزودگی کی ٹکنالوجی، جو بڑی طاقتوں کی بلا شرکت غیرے ملکیت تھی جس پر ان کی مکمل اجارہ داری تھی، ان کی اجازت کے بغیر اس تک رسائی کی کسی کی مجال نہیں تھی، اس ملک (ایران) میں ڈیولپ کر لی جاتی ہے اور نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ دشمن ناکام ہوکر رہ گیا، اس کی پابندیاں بے اثر ہو گئیں، اس کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں میں تبدیل ہو گئیں، کیوں؟ اس لئے کہ پختہ ایمان پر استوار اپنے عزم و ارادے کی حفاظت کی ہے، آگے بڑھی ہے، پیش قدمی کرتی رہی ہے۔ وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
ان طاقتوں کے تشہیراتی ادارے جو جدید ترین وسائل سے پوری طرح لیس ہیں، اس وقت شب و روز اسلامی نظام، اسلامی روش اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف تشہیرات میں مصروف ہیں۔ (ایران کی انقلابی) فکر کا دائرہ بڑھتا ہے اور یہ غزہ کے واقعے میں نمایاں ہوتی ہے، نتیجتا ایک چھوٹا سے گروہ، ایک چھوٹا سا علاقہ اس حکومت کے سامنے جو خود کو دنیا کی معدودے چند بڑی طاقتوں میں شمار کرتی ہے ڈٹ جاتا ہے۔ دشمن اپنی ساری طاقت جھونک دیتا ہے تاکہ اس قوم کو مسخر کر لیا جائے لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی۔ یہ کیا کوئی معمولی واقعہ ہے؟! یہ کوئی معمولی بات ہے؟! اس سے دو سال قبل لبنان کا واقعہ پیش آیا۔ اس موقع پر بھی پوری طاقت لگا دی گئی۔ حتی امریکہ نے صیہونی حکومت کی اسلحہ جاتی امداد کی، حالانکہ یہ صیہونی حکومت ہے جس نے خود ایٹم بم بنایا اور بہت سے ملکوں کو اسلحہ فروخت کرتی ہے، ایسی حکومت کو امریکہ نے فوجی ساز و سامان دیا کہ کسی صورت سے ان جوانوں کو شکست دی جا سکے جو اپنے عزم و ایمان کی طاقت سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ دشمن کو اس موقع پر بھی منہ کی کھانا پڑی۔ یہ معمولی بات ہے؟
ان واقعات نے دنیا میں طاقت کا جغرافیا تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ نا انصافی پر مبنی عالمی نظام کو جس کے تحت دنیا کو تسلط پسند اور تسلط کا شکار بننے والے ملکوں کے درمیان تقسیم کر دیا گيا ہے، بدل کر رکھ دیا۔
سترہویں اٹھارہویں صدی عیسوی کے بعد سے جب سامراج معرض وجود میں آیا، دنیا نے تسلیم کر لیا تھا کہ مٹھی بر حکومتیں اخلاقی طاقت نہیں بلکہ اپنی فوجی طاقت کی بنیاد پر دنیا کے ملکوں کی تقدیر کا فیصلہ کریں گی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنی فکری صلاحیتوں اور اخلاقی برتاؤ کی وجہ سے فطری طور پر کچھ ملکوں میں بااثر بن جاتی ہے لیکن سامراجی نفوذ اور اثر و رسوخ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ سامراجی رسوخ در حقیقت جبری تسلط تھا، طاقت کی بنا پر تھا، تلوار کے زور پر تھا۔ دنیا بھی یہی دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی کہ کچھ ممالک شمشیر بکف رہیں اور دنیا کی اکثر قومیں اور بیشتر ممالک ان کے سامنے سر تسلیم خم کئےہوں۔ پھر ان سراپا تسلیم ممالک میں کچھ ممالک اپنی شاطرانہ صلاحیتوں کے سہارے اپنی حالت کچھ بہتر کر لیں جبکہ دوسرے دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج رہیں۔ جیسے کسی آقا کے غلاموں میں کچھ کو ٹھیک سے کھانا مل جائے اور کچھ بھوک کی سختیاں بھی برداشت کریں اور غلامی الگ کریں۔
اسلامی انقلاب آیا تو دنیا سے اس عادت کا خاتمہ ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ، نہیں، دنیا کی تسلط پسند طاقتیں ہی سب کچھ نہیں ہیں، بلکہ تقدیر سازی کی طاقت قوموں کے پاس ہے۔ قوموں کا عزم و ایمان فیصلہ کن کردار کا حامل ہے۔ یہ درس ملت ایران نے دیا۔ البتہ اسلامی انقلاب سے قبل بھی دنیا میں انقلاب آئے ہیں لیکن فرانس کے عظیم انقلاب، اس سے قبل اور اس کے بعد آنے والے تمام انقلابوں کی تاریخ کا آپ جائزہ لیں، کوئی بھی انقلاب مسلسل کئی عشروں تک اپنے اصولوں کی ایسی حفاظت نہیں کر سکا جس طرح اسلامی انقلاب نے اپنے اصولوں کی پاسداری کی ہے اور وہ جس طرح اپنی معینہ راہ پر گامزن اور اپنے ہدف کی سمت رواں دواں ہے۔
مستقبل کے لئے بھی یہی نسخہ ہے۔ ایرانی عوام جانتے ہیں اور جاننا بھی چاہئے کہ ملت ایران کی حتمی اور مکمل فتح کا راستہ یہ ہے کہ یہ راہ مستقیم، ایمان کا یہ راستہ، اللہ تعالی پر ایمان، اپنی ذات پر یقین، قومی طاقت پر اعتماد، قومی خود اعتمادی پر ایقان اور اپنے راستے، اپنی کوششوں، اپنی علمی اور عملی کوششوں، ضرورت کے مطابق فوجی اقدامات اور ایمان و جذبہ جہاد کو ہرگز کمزور نہ پڑنے دیا جائے۔ ہماری قوم بائيس بہمن کو بھرپور اشتیاق اور جوش و خروش کےساتھ سڑکوں پر آ جاتی ہے اور جلوسوں میں شرکت کرتی ہے، اپنی توانائی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ در حقیقت اعلی مقاصد کے سلسلے میں استقامت و پائيداری کی عکاسی کرنے والا ایک علامتی عمل ہے۔ عوام یہ ثابت کرتے ہیں ہے ہم حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے مشاہدہ کیا کہ شدید برفباری اور کڑاکے کی سردی اسی طرح گرم علاقوں میں شدید دھوپ میں جلوس نکلے اور عوام نے ان میں بھرپور شرکت بھی کی۔ اپنی موجودگی اور شراکت کا اعلان کیا۔ بائيس بہمن کی رونق اور شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ اس سال بھی انشاء اللہ وہی منظر ہوگا۔ قوم ایک بار پھر باہر آئے گی، میدان عمل میں اپنی موجودگی کا اعلان کرے گی۔ یہ وہ چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ جلوسوں میں شرکت کا یہی اثر ہوتا ہے اور انتخابات اور اس جیسے دیگر مواقع پر بھی عوام کی بھرپور شرکت کا یہی نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی ہماری قوم تواتر سے اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ اس میں روز افزوں اضافے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک آپ کے فرائض کا تعلق ہے تو فضائیہ کے اندر آپ کا فرائض معین اور طے شدہ ہیں۔ سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ انسان اس بات کا احساس کرے کہ ہر خلا پر ہونا چاہئے۔ آپ جس جگہ بھی ہوں، وسائل کا خلا، اداروں کے اندر کا خلا اور انتظامی صلاحیتوں کا خلا پر کیجئے۔ جب کوئی گروہ پیشرفت کا تہیہ کر لیتا ہے تو وہ جا بجا دوسروں سے پوچھنے کی کوشش میں نہیں رہتا بلکہ جس نقطے پر وہ مصروف کار ہے اگر اسے کوئی ضرورت نظر آتی ہے تو اسے خود پورا کرنے کوشش کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے فریضے کو پورا کرتا ہے۔ بحمد اللہ یہ چیز اب تک فضائيہ میں با قاعدہ نظر آتی رہی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نظر آتی رہے گی۔ جب میری نظر فضائیہ کے عزم و ارادے اور ایمان و ایقان کے جذبے سے سرشار جواں سال چہروں پر پڑتی ہے تو مجھے یہ چیز صاف نظر آتی ہے، رپورٹوں اور اطلاعات میں تو خیر اس کا ذکر ہوتا ہی ہے۔
ہم فضائیہ اور مسلح افواج کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہیدوں، اسی طرح مختلف اداروں سے وابستہ ان شہدا کی ارواح طیبہ پر درود و سلام بھیجتے ہیں جنہوں نے اس راہ میں جہاد کیا، اپنی جانیں نثار کیں، جام شہادت نوش کیا اور اس تناور درخت(اسلامی نظام) کی آبیاری کی۔ ہمارا درود و سلام ہو ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) پر جنہوں نے اس عظیم تحریک میں روح ڈالی۔ میں فضائيہ کے محترم عہدہ داروں اور اس سے متعلقہ شعبوں میں سرگرم عمل افراد بالخصوص نئی ایجادات کرنے والے ماہرین اور ایجادات کی بنیاد رکھنے والے افراد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ آپ کی توفیقات اور عزم راسخ میں روز افزوں ا‌ضافہ کرے تاکہ آپ مسلح افواج کو اس مقام پر پہنچا سکیں کہ ملت ایران کو آپ کے وجود کی بدولت مکمل احساس تحفظ حاصل ہو اور وہ مطمئن رہے کہ دشمن اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ