آپ نے ساتھ ہی مجوزہ صدارتی انتخابات کے سلسلے میں بھی گفتگو فرمائی۔ ایران میں ثانی زہرا حضرت زینب کبرا سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت با سعادت نرس ڈے اور معروف اسلامی مفکر آیت اللہ مطہری شہید کا یوم شہادت یوم استاد کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ پہلی مئی دنیا کے دیگر ممالک کی مانند ایران میں بھی یوم محنت کشاں قرار دیا گیا ہے۔ ان مناسبتوں سے قائد انقلاب اسلامی کا تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم

سب سے پہلے تو میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو فردا فردا خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ عزیزوں نے یہ دوستانہ، مہر آمیز اور با معنی اجلاس آج اس حسینیہ میں منعقد کیا۔ میں درود و سلام بھیجتا ہوں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کی روح مطہرہ پر جو آج کی تین مناسبتوں میں سے ایک کی وجہ ہیں اور وہ ہے نرس ڈے۔ میں اسی طرح قوم کے عظیم شہید آیت اللہ مطہری مرحوم کے علو درجات کے لئے دعا گو ہوں جو آج کی ایک اور مناسبت کا موجب ہیں۔ اس وقت یہاں تین طبقات تشریف فرما ہیں۔ غور کرکے ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ معاشرے کے یہ اہم ترین طبقات ہیں۔ ایک طبقہ تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ ہے جس کی امانت میں فرزندان قوم اپنے کئی کئی سال گزارتے ہیں۔ جو طبقہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے سادے اور آمادہ لوح ذہن پر پہلی اچھی یا بری تحریر ثبت کرتا ہے وہ اساتذہ کا طبقہ ہے۔ ملک میں موجود پیشوں میں ہمیں استاد کے کردار سے بلند شائد کوئی اور چیز تلاش کرنے پر بھی نہ مل سکے۔ علمی مراکز خواہ وہ یونیورسٹیاں ہوں یا دینی تعلیمی مراکز ان میں درس و تدریس میں مصروف اساتذہ کا مرتبہ بہت زیادہ ہے لیکن پرائمری اور اس کےبعد کے درسی مراحل کے اساتذہ کا کردار بے مثال ہے۔ خاندانی تربیت کے ساتھ ساتھ پرائمری سے لیکر دسویں جماعت تک کے اساتذہ ہی ہمارے بچوں کے ساتھ محنت کرتے ہیں، ان کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور ان کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ غور کرکے ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ بڑا بلند مرتبہ ہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ، ہماری قوم، ہماری حکومت اور ہمارے عہدہ داران، اساتذہ کی قدر کریں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ ان خصوصیات والے اساتذہ کا مقام بہت بلند ہے۔ اسی طرح خود اساتذہ بھی اپنے اس کردار کی حقیقی معنی میں قدر کریں۔ اسے الہی عطیہ سمجھیں۔ وہ اس نکتے پر توجہ دیں کہ اللہ تعالی کی رضا سے کتنا عظیم کام ان کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔
نرسوں کا طبقہ بھی ایک اور زاویہ نگاہ سے معاشرے کا بہت اہم اور موثر طبقہ ہے۔ ملک کے صحت عامہ کے شعبے میں نرس اور دایہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بڑا عظیم کردار ہے۔ اگر مریض کو نرس کی ہمدردی اور مہر آمیز خدمات حاصل نہ ہوں تو اس بیمار پر ڈاکٹر کے علاج کے بے اثر رہنے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عنصر اور وہ فرشتہ صفت وجود جو مریض کے لئے بیماری کے طولانی اور دشوار گزار رستے کو عبور کرنے کے سلسلے میں عصا بن جاتا ہے، وہ نرس کا ہی وجود ہوتا ہے۔ یہ چیز ان افراد نے جو طولانی بیماری یا آپریشن کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، جن میں میں خود بھی شامل ہوں، با قاعدہ محسوس کی ہوگی۔ نرس کا کردار حیات بخش کردار ہے، زندگی عطا کرنے والا کردار ہے۔ تو یہ ہے نرس کی اہمیت۔ اب آیئے دایہ کی جانب، نوزاد اور زچہ کی سلامتی میں دایہ کا کردار حیات بخش اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ میں یہاں نرسوں اور دایہ کے فرائض انجام دینے والی محترم خواتین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس خدمت کے موقع اور اس بڑی نعمت کی قدر و قیمت کو پہچانیں۔ اسی طرح معاشرے کے افراد کو بھی چاہئے کہ وہ انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔ دایہ اور نرس کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے پیشے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ اپنے آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا اور اپنی قدر کرنا، مختلف طبقات کی کارکردگی کی نوعیت اور کیفیت میں موثر واقع ہوتا ہے۔
مزدوروں کے طبقے کا کردار بھی آج پوری دنیا میں عیاں ہے۔ حالانکہ دنیا کے بہت سے خطوں میں مزدوروں کے حقوق پائمال ہو رہے ہیں جبکہ یہ طبقہ کسی بھی معاشرے کی اندرونی سرگرمیوں کے نظام کا محوری عنصر واقع ہوتا ہے۔ جو افراد اپنے ہاتھوں، اپنی بینائی اور اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی مہارت اور صلاحیت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں، مصنوعات تیار کرتے ہیں اور معاشرے کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، وہ مزدور کہلاتے ہیں۔ جیسے جیسے آپ زیادہ غور کیجئے ان تینوں ہی طبقات کی معاشرے میں اہمیت کا اندازہ زیادہ بہتر طریقے سے ہوتا ہے۔ البتہ جہاں تک مصنوعات اور پیداوار کا مسئلہ ہے، اس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق تو محنت کشاں کا طبقہ ہے اور دوسرا فریق سرمایہ داروں اور عہدہ داروں کا طبقہ ہے۔ یہ سب پیداوار میں دخیل اور موثر ہیں۔ میں یہ جو عرض کر رہا ہوں کہ یہ تینوں طبقات خود بھی اپنی قدر کریں اور اپنے مقام کو پہچانیں، یہ میری نظر میں بہت اہم بات ہے۔ انسان کو اگر اپنے کام کی اہمیت کا مکمل ادراک ہو تو وہ کبھی بھی اس کے سلسلے میں تساہلی نہیں کرے گا۔ کبھی سردمہری اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوگا۔ جب ہمیں معاشرے کے لئے اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو ہمارے اندر خود بخود ایسی انرجی اور توانائی پیدا ہو جائے گی جس کی مدد سے ہم تمام بیرونی رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ بنابریں سب کے لئے میری اولیں سفارش یہ ہے کہ جو کام ان کے سپرد ہے اسے پورے شوق اور دلچسپی کے ساتھ انجام دیں۔ اس سے قطع نظر کہ کس سماجی یا ذاتی ضرورت کے تحت یہ کام انہیں ملا ہے۔ میں نے بارہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث نقل کی ہے: رحم اللَّه إمراً عمل عملاً فاتقنه اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں اس شخص پر جو اپنے کام کو صحیح، مکمل طور پر اور بہترین انداز میں انجام دیتا ہے۔ اس کا اطلاق ہم پر، آپ پر، ایک ایک مزدور پر، اساتذہ، نرسوں اور دیگر پیشوں سے وابستہ افراد سب پر ہوتا ہے۔ جو کام ہم نے لیا ہے اسے مکمل طور پر اور بہترین انداز میں انجام دیں۔
کام کے سلسلے میں میں جس چیز پر تاکید کرتا آیا ہوں اور آج بھی اس کا اعادہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے کلچر کو، قومی اور مقامی پیداوار سے ہم آہنگ کریں اور اسی کی سمت میں لے جائیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ ماضی میں سالہا سال سے ہماری قوم کے اندر اس نظرئے کی ترویج ہوتی رہی ہے کہ غیر ملکی اور امپورٹڈ مصنوعات پر توجہ دینا چاہئے۔ یہ جملہ کہ یہ چیز امپورٹڈ ہے، اس چیز کے معیاری اور بہترین ہونے کی مسلمہ دلیل تصور کیا جاتا تھا۔ یہ نظریہ تبدیل ہونا چاہئے۔ البتہ اس سلسلے میں مقامی مصنوعات کی کیفیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے اور ساتھ ہی غیر ملکی اشیاء کی بے بنیاد تعریف اور پروپیگنڈے سے گریز کا بھی بڑا اثر ہے، اس میں ملکی صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی اور مدد کا بھی بڑا کردار ہے اور ساتھ ہی غیر ملکی اشیاء درآمد کرنے والے تاجروں کا بھی رول اہم ہے۔ سب کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ملکی پیداوار کو فروغ ملے، اس کی قدر و قیمت بڑھے، ہمارے معاشرے میں ایسی ذہنیت فروغ پائے جس کی بنیاد پر ہم ملکی مصنوعات کے استعمال کو ترجیح دیں۔ ہم اگر کسی غیر ملکی چیز کا استعمال کرتے ہیں تو در حقیقت غیر ملکی مزدور کو کام کا موقع فراہم کرتے ہیں اور اپنے ملک کے مزدور کو اس موقع سے محروم کر دیتے ہیں۔ اس نکتے پر ملک کے حکام، منصوبہ سازوں، تشہیراتی شعبے کے عہدہ داروں، سرمایہ کاروں، مزدوروں، حکومت اور تمام متعلقہ شعبوں کو توجہ دینا چاہئے۔
خوشی کی بات ہے کہ اس وقت بہت سی ملکی مصنوعات کیفیت کے لحاظ سے غیر ملکی اشیاء سے بہتر اور بسا اوقات بدرجہا بہتر ہوتی ہیں۔ تو پھر ہم اپنی مصنوعات کو کیوں نظر انداز کریں؟ وہ زمانہ گزر گیا جب اغیار سے وابستہ افراد اپنی زہر آلود باتو‎ں سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ ایران کچھ بھی بنانے پر قادر نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ایران کو پیچھے دھکیلا ہے۔ انہوں نے ملک کی خلاقی صلاحیت اور کام کے جذبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ انقلاب نے آکر سب کچھ تبدیل کر دیا، نتیجے میں آج ہمارے نوجوان پیچیدہ ترین کام انجام دے رہے ہیں۔ ملک میں بڑے کاموں کے لئے کتنی بنیادی تنصیبات تیار کی جا چکی ہیں؟! ایرانی نوجوانوں کے ابتکار عمل اور خلاقی صلاحیتوں سے کتنے پیچیدہ کام انجام پا رہے ہیں؟! حکام اس سلسلے میں کوشاں ہیں۔ اب ہر کسی کو داخلی پیداوار اور مصنوعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری ثقافت کا جز بن جانا چاہئے۔ البتہ اس سلسلے میں مزدوروں کے روزگار کی گیرنٹی کی بڑی اہمیت ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ مزدور طبقہ فکرمند نہ رہے، مطمئن رہے، اس کے روزگار کی گیرنٹی ہونا چاہئے۔ مینیجر اور مزدور، سرمایہ کار اور مزدور، ورکشاپ کے مالک اور مزدور سب کو چاہئے کہ آپسی بھائی چارے کے ساتھ کاموں کو آگے بڑھائیں۔ یہ رہیں کام سے متعلق باتیں۔
تعلیم و تربیت کے سلسلے میں میں جن چیزوں پر تاکید کرنا چاہتا ہوں ان میں سب سے پہلی چیز تعلیم و تربیت کے نظام میں تبدیلی اور اصلاح ہے۔ ہمارا تعلیم و تربیت کا نظام پرانا اور دوسروں سے ماخوذ ہے۔ اس میں دو برائیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ پہلوی دور میں اور اس سے تھوڑا سا قبل جو تعلیمی نظام ملک میں آیا اس میں ملک کی ضرورتوں اور روایات کو قطعی مد نظر نہیں رکھا گیا۔ ملک کی روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے ہمیں دوسروں کے تجربات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ کسی مغربی ملک کے نظام کو جو وہاں کی ضروریات کے مطابق ہے اور جس میں ممکن ہے متعدد خامیاں ہوں، ہم من و عن اپنے ہاں نافذ کر دیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہی کام کیا گيا۔ مکمل تقلید کی گئی۔ یہ رہی پہلی خامی۔ دوسری برائی یہ کہ یہ (تقلیدی نظام) بھی نیا نہیں پرانا ہے۔ جہاں سے ہمارے ملک کے اغیار پرست حکام نے یہ نظام لیا تھا اب وہاں یہ روش متروک ہو چکی ہے اور اس کی جگہ نیا نظام آ چکا ہے۔ اور ہم ہیں کہ لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ تبدیلی لازمی ہے۔
خوش قسمتی سے اس وقت اس کام کے لئے زمین ہموار ہے۔ ملک میں ثبات و استحکام پایا جاتا ہے۔ قابل اطمینان نظام حکومت چل رہا ہے۔ بڑے بڑے کام انجام پا چکے ہیں۔ اس متلاطم اور پر آشوب دور میں ملت ایران اپنا چین و سکون اور اطمینان و وقار باقی رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ بنابریں اب باری ہے ان جیسے اہم کاموں کو شروع کرنے کی۔ وزیر (تعلیم و تربیت) موصوف نے اعلان کیا کہ اس موضوع پر غور کیا گیا ہے اور کچھ اقدامات بھی انجام پائے ہیں، یہ بہت اچھی خبر ہے، قابل ستائش قدم ہے لیکن اس پر مکمل عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ پیشرفت کی ضرورت ہے۔ عملی جامہ پہنائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمت سے کام لینا پڑے گا۔ ابتکار عمل اور اچھی فکر کی ضرورت پڑے گی۔ تو یہ اہم مسئلہ تعلیم و تربیت کے نظام میں تبدیلی اور اس کی اصلاح کا ہے۔
دوسرا نکتہ جو اپنی جگہ بہت ہی اہم ہے وہ تعلیمی شعبے میں تربیت کے پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بعض افراد نے تربیت کے نظام کے سلسلے میں بے توجہی کی بنا پر اس شعبے کی اس بنیاد کو جو اوائل انقلاب میں رکھی گئی تھی حاشئے پر ڈال دیا اور رفتہ رفتہ اسے تقریبا حذف کر دیا۔ اب اگر آپ اس مسئلے پر یقین رکھتے ہیں تو اس پر عمل کیجئے۔ تربیت اگر تعلیم سے زیادہ اہم نہیں تو کمتر بھی نہیں ہے۔ ہمارے بچے، ہمارے طالب علم کا سادہ ذہن کچھ لیکریں کھینچ دینے اور عدد رقم کر دینے سے درست نہیں ہوگا۔ اس کے لئے تعمیر ضروری ہے اور اسی تعمیر کا نام ہے تربیت۔ تربیت کے مسئلے کو اہمیت دی جانی چاہئے، نصاب کی کتابوں میں بھی، اساتذہ کے انتخاب میں بھی اور خود اساتذہ کی ٹریننگ میں بھی۔ اب اس کی روش کیا ہو؟ اس بارے میں مجھے کوئی اظہار رای نہیں کرنا ہے، اس کا فیصلہ متعلقہ افراد خود کریں۔ شعبہ تعلیم و تربیت کو چاہئے کہ مقدار اور تعداد میں اضافے سے گریز کرے۔ اس وقت اہمیت کیفیت اور کوالٹی کی ہے۔ ضرورتیں پوری کی جانی چاہئیں۔ تعلیمی اداروں کی ضرورت کے مطابق اساتذہ فراہم کئے جائیں اور پھر بنیادی ترجیح کے طور پر اساتذہ کی ٹریننگ اور ثقافتی معلومات اور تجربے کے سلسلے میں کام کیا جائے۔ شعبہ تعلیم و تربیت میں یہ چیز بہت اہم ہے۔ الحمد للہ آپ سب محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ آپ کی ان زحمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ یہ ترقیاں جو صحت عامہ کے شعبے میں، تعلیم و تربیت کے شعبے میں یا مزدوروں کے تعلق سے حاصل ہوئیں جن کی جانب متعلقہ وزراء نے اشارہ کیا یہ سب اسلامی نظام کے پر افتخار کارنامے ہیں۔ یہ در حقیقت اسلامی نظام کی توانائیاں ہیں جو جلوہ فگن ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بعض افراد ان حقائق کے انکار پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟! ان ترقیوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان حقائق میں جتنا اضافہ ہوگا ملت ایران کے کارناموں کی فہرست طولانی تر ہوگی۔ اسلامی جمہوری نظام کی کامیابیوں کی فہرست میں اضافہ ہوگا۔ چند جملے ایک ایسے موضوع کے سلسلے میں بھی عرض کروں گا جس کا تعلق کسی پیشے اور بعض طبقوں سے نہیں بلکہ پوری ملت ایران سے ہے اور وہ ہے انتخابات کا موضوع۔ میرے عزیزو! اپنی کئی سو سالہ تاریخ میں ملت ایران ملک کے انتظامی امور کے سلسلے میں ایک بے اثر عنصر کی حیثیت کی حامل رہی۔ کیوں؟ کیونکہ استبدادی نظاموں کا خاصہ ہی یہ ہوتا ہے۔ سلطنتی نظاموں کا خاصہ ہی یہی ہوتا ہے۔ قوم کی کوئی وقعت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے میں ملت کی کیا حالت رہی ہوگی؟ ظاہر ہے وہ پوری طرح اس شخص پر منحصر رہے گی جو مسند حکومت پر بیٹھا ہے۔ اب اگر قوم بڑی خوش قسمت ثابت ہوئی اور اقتدار ایسے بادشاہ کے پاس گیا جو کسی حد تک رحمدل ہے، جیسا کہ ہماری تاریخ میں کریم خان زند کے بارے میں مشہور ہے، تب تو عوام کی حالت کسی حد تک اچھی رہےگی۔ لیکن اگر رضاخان، ناصر الدین شاہ اور دیگر سلاطین کی مانند ظالم بادشاہ کو اقتدار ملا تو وہ ملک کو ظاہر ہے اپنی جائیداد سمجھے گا اور عوام کو جن کا کوئی کردار نہیں ہوتا، اپنی رعایا تصور کرےگا۔ آپ تاریخ پر نظر ڈالئے، کئی صدیوں کی تاریخ نہیں، آئینی انقلاب اور اس کے بعد کی تاریخ کا ہی آپ جائزہ لیجئے۔ آئینی انقلاب تو فقط نام کی حد تک محدود رہا، جب پہلوی حکومت تشکیل پائی تو انتخابات محض نمائشی عمل ہوکر رہ گئے۔ سوائے اس چھوٹی سی مدت کے جس میں قومی تحریک چلی، اس دو سال کے عرصے میں حالات کسی قدر بہتر تھے۔ البتہ اس میں بھی بہت سی خامیاں تھیں: پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا، پارلیمانی اختیارات حکومت کو تفویض کر دئے گئے یہ سب مصدق کے دور اقتدار میں ہوا۔ بہرحال اس کے علاوہ پورے دور میں انتخابات نمائشی رہے۔ میری عمر کے جو افراد ہیں انہیں یقینا یاد ہوگا کہ اس زمانے میں انتخابات کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ عوام کسی کو چنیں۔ وقت کا دربار اور انتظامیہ اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو معین کر دیتی تھی، انہیں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ پارلیمنٹ میں وہی افراد پہنچتے تھے جو حکومت کے منظور نظر ہوں جو دربار کے مطیع و فرماں بردار ہوں۔ رای دہندگان بھی جاکر خانہ پری کر دیتے تھے۔ اس پورے دور میں شائد ہی کبھی عوام نے اس تصور کے ساتھ ووٹنگ کی ہوگی کہ ان کے ووٹ ملک کے انتظامی امور میں موثر ہوں گے۔ ایسا تصور سرے سے تھا ہی نہیں۔ ہم لوگ اخبارات میں بس یونہی کبھی پڑھ لیتے تھے کہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات کب ہوں گے اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ انتخابات کا دن آتا تھا تو کچھ بیلٹ باکس ایک جگہ پر رکھ دئے جاتے تھے۔ وہ لوگ آپس ہی میں تھوڑی ہنگامہ آرائی کرتے تھے اور پھر سب کچھ مرضی کے مطابق اپنے اختتام کو پہنچ جاتا تھا۔ عوام کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔
اسلامی انقلاب نے آکر ورق پلٹ دیا۔ عوام کو اہم رول ملا، پارلیمنٹ کے اراکین کے انتخاب میں ہی نہیں بلکہ صدر کے انتخاب میں، قائد انقلاب کو چننے والی ماہرین کی کونسل کے اراکین کے انتخاب میں اور سٹی کونسلوں کے انتخابات کے سلسلے میں بھی۔ ان تمام مراحل میں عوام کی مرضی فیصلہ کن بن گئی۔ آئین کی تدوین اسی بنیاد پر ہوئی اور تیس سال سے یہ سلسلہ اسی انداز سے جاری ہے۔ انقلاب سے قبل کے دور میں ایران بیرونی ممالک کے لئے ایک چراگاہ کا درجہ رکھتا تھا۔ یہاں کا تیل، یہاں کا بازار، یہاں کی پیداوار، یہاں کی افرادی قوت، سب کچھ تسلط پسند بڑی طاقتیں استعمال کر رہی تھیں۔ کبھی برطانیہ تو کبھی امریکہ اور کبھی صیہونی۔ انقلاب آیا اور عوام میدان عمل میں آ گئے تو ان (تسلط پسندوں) کے ہاتھ ہی کٹ گئے۔ ان کا ایسے نظام کی دشمنی پر اتر آنا فطری تھا اور وہ تیس سال سے دشمنی کر رہے ہیں۔ دشمنی کی ایک مثال یہی ہے کہ وہ ملک کے نظم و نسق اور انتظامی امور میں عوام کی شراکت اور ان کے کردار کی صورت میں موجود اہم ترین حقیقت کو اپنی تشہیراتی مہم میں نظر انداز کرتے ہیں یا اس کی سرے سے نفی کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بارہا اپنے صریحی بیانوں اور کنایوں میں ہمارے ملک کے انتخابات پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی۔ جبکہ ہمارے ملک کے انتخابات جمہوریت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے اکثر ممالک سے زیادہ آزادانہ اور پر جوش انداز میں منعقد ہوتے ہیں اور انتخابات کے سلسلے میں عوام کا جوش و جذبہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ پر جوش، بہترین اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں۔ لیکن دشمن نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں آتا۔ ویسے دشمن سے عناد کے علاوہ اور توقع بھی کیا رکھی جا سکتی ہے؟
گزشتہ انتخابات بھی شفاف تھے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شک و شبہہ پیدا ہوا ہم نے تحقیقات کروائيں۔ ماضی کی ایک پارلیمنٹ کے سلسلے میں کچھ افواہیں پھیلیں، بعض نے اپنے دلائل بھی پیش کئے کہ انتخابات میں گڑبڑی ہوئی۔ ان کی خواہش تھی کہ تہران سمیت کچھ اہم شہروں میں انتخابات دوبارہ کرائے جائيں۔ ہم نے ماہرین کو تحقیق کے لئے بھیجا۔ تحقیق کا عمل پورا ہوا اور ماہرین نے پایا کہ انتخابات میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ ہزروں بیلٹ باکس ہیں اب ان میں دو چار میں اگر کسی قسم کی گڑبڑ ہو جائے تو اس سے پورے انتخابات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ تو یہ چیزیں بھی کبھی سامنے آئیں۔ ملک کے مختلف دھڑوں سے آپ واقف ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوا کے جو دھڑا بر سر اقتدار تھا، انتخابات کے نتائج اس کے خلاف اور حریف دھڑے کے حق میں گئے۔ ایسا بارہا ہوا۔ پھر کیسے کوئی ان انتخابات پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے؟! اب اگر آپ آمادہ ہیں تو انشاء اللہ انتخابات میں بھرپور طریقے سے شرکت کیجئے۔ پوری ایرانی قوم دشمن کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے پورے جوش و جذبے کے ساتھ ووٹنگ کرے اور انتخابات کا انعقاد اس انداز سے ہو کہ دشمن تلملا کر رہ جائیں۔
پروردگارا! اس ملت عزیز پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ خدایا! روز بروز زیادہ سے زیادہ اپنی توفیقات اس قوم کے شامل حال فرما۔ خدایا! کمال کی منزل کی سمت اس قوم کے بڑھنے والے قدموں کو روز بروز زیادہ استحکام عطا فرما۔ ہمارے بزرگوار امام(خمینی رہ) اور شہدا کی ارواح طیبہ کو روز بروز بلندی درجات عطا فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ