تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں، آپ تمام حضرات اور خواہران گرامی کا، جو اس ممتاز الہی فریضے اور عظیم واجب کی ادائيگی میں زحمتیں برداشت کرکے خدمات انجام دیتے ہیں اور انشاء اللہ مستقبل قریب کے حج میں اس واجب کی ادائيگی کی بہترین انداز میں انجام دہی کی توفیق حاصل کریں گے، تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کی زحمات اور محترم عہدیدار جو حج کا اہتمام کرتے ہیں، وہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی توجہ کے مستحق قرار پائیں گے اور پروردگار عالم کی درگاہ میں شرف قبولیت حاصل کریں گے۔
ایک بنیادی اور اساسی انفرادی بات، جو کام کی نوعیت کے مطابق تمام دیگر مسائل اور واحبات پر مقدم ہے، یہ ہے کہ جو عمل ہم انجام دیتے ہیں، انشاء اللہ قربت کی نیت اور مرضات الہی کے حصول کے لئے ہو۔ یہ کام کی بنیاد ہے۔ تمام کام اسی طرح ہیں جو پاک نیت، اچھے ارادے اور خدائی ہدف کے ساتھ بہترین انداز میں انجام پانے چاہئیں۔ حتی خالص دنیاوی کام بھی۔ لیکن جو کام عبادی طبیعت اور معنوی پہلو کے ہیں، ان کے اثرات اتنے بالاتر ہوتے ہیں کہ مادی کاموں کے اثرات سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ حج بھی اس قسم کے کاموں کا ایک اظہر مصداق ہے اور اس کے لئے زیادہ خلوص نیت اور الہی ارادے کی ضرورت ہے۔
اگر کام خدا کے لئے اور فریضے کی انجام دہی کے قصد اور الہی مرضات کے حصول کے لئے ہو تو خدا وند عالم اس میں برکت اور تاثیر پیدا کرتاہے، کشش پیدا کرتا ہے، دلوں کو اس کی طرف جذب کرتا ہے اور اس خاص مسئلے میں بھی آپ تاثیرات حج میں جو چاہتے ہیں، وہ فراہم کرے گا۔ آپ اس عظیم تحریک پر جو انجام پائی، یعنی انقلاب کا وجود میں آنا، تحریک اور جد و جہد کا شروع ہونا، جو کام اس انقلاب میں انجام پائے منجملہ اسی حج کے موضوع پر ہمارے عظیم الشان امام رضوان اللہ تعالی علیہ قدس اللہ نفسہ الطیبہ الزکیہ نے جو کام شروع کئے، ان پر نظر ڈالیں ۔ ان تمام کاموں میں اس الہی ومعنوی شخصیت کی نیت، الہی نیت تھی اور خدا نے بھی برکت دی۔ حج کا ایک نیم تجارتی اور نیم سیاحتی تفریحی عمل سے عالمی پہلوؤں کے ساتھ ایک عظیم اسلامی عمل میں تبدیل ہو جانا، معمولی کام نہیں تھا۔ یہ کام دنیاوی و سیاسی منصوبہ بندی وغیرہ سے ممکن نہیں تھا۔ یہ خدا نے کیا ہے اور وہ بھی اس عظیم انسان کے خلوص نیت کی وجہ سے۔ ہمیں بھی یہ سیکھنا چاہئے اور اپنے کاموں میں نیتوں کو خدائی کرنا چاہئے۔ ان شاء اللہ آپ ایسا ہی کر رہے ہیں۔
دوسری بات جو سماجی، عالمی اور بین الاقوامی تاثیرات کے لحاظ سے اہم ہے، خود قضیہ حج ہے۔ حج اسلامی دنیا کے لئے ایک ذخیرہ ہے۔ اگر اس ذخیرے سے اچھی طرح استفادہ ہو تو اسلامی دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ اگر اس ذخیرے سے استفادہ نہ ہو یا غلط استفادہ ہو تو، اسلامی دنیا جس کی اتنی زیادہ احتیاجات ہیں، اس سے محروم رہ جائے گی۔ یا خدا نخواستہ احتمالا، اس سے نقصان اٹھائے گی۔ ہم مسلمان جو دنیا کے اس حصے میں زندگی گزار رہے ہیں، امور حج میں وسیع اختیارات کے مالک تو نہیں ہیں۔ ہم اپنے، اپنے کاموں اور ان کی تاثیرات کے مالک ہیں۔ ہمیں حج کو اس طرح انجام دینا چاہئے کہ اسلامی دنیا کو اس سے فائدہ پہنچے۔
حج ایک مرکز اجتماع ہے۔ خدائے متعال اپنے گھر کی زیارت کے لئے، سال کا ایک دورہ معین کر سکتا تھا۔ اگر صرف جانا، خانہ کعبہ کا طواف اور توجہ و کیفیت ہی پیدا کرنا ہوتا تو کیا ضرورت تھی کہ دنیا کے تمام لوگوں پر فرض کیا جائے کہ ایک دن، ایک وقت میں اور معینہ ایام میں، وہاں کی زیارت کریں۔؟ کہتے واذن للناس بالحج ( 40) سال میں آ جائیں۔ ہر شخص جب بھی آسکے آئے حج کرے۔ یہ نہیں کیا۔ ایام معلومات میں حج کو قرار دیا۔ مخصوص دن معین کیا۔ حج میں ایک دن، ایک رات، دو تین دن کے اجتماعات قرار دیۓ: یہ چاہا گیا کہ سب ایک وقت میں وہاں جمع ہوں۔ یہ کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ لیشھدوا منافع لھم (41) بنابریں وہ فائدہ جو حج کے دوران مسلمانوں کو پہنچنا چاہئے، ایسا ہے کہ اس حالت اجتماع میں مسلمانوں کے اجتماعی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کوئی اجتماع انجام پائے جس میں کوئی ارتباط نہ ہو، ہزاروں افرد آئیں لیکن ایک دوسرے سے ارتباط نہ رکھیں ، کوئی تعلق اک دوسرے سے نہ رکھیں، ایک دوسرے کے حالات معلوم نہ کریں، ایک دوسرے کی معنوی مدد نہ کریں، ہم خیالی پیدا نہ ہو، تو مقصود حاصل نہیں ہوگا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور اس اجتماع سے کوئی فائدہ مد نظر نہ ہو؟ یہ کیوں نہ کہا کہ سال میں آؤ؟ یقینا منشا یہ تھا کہ مسلمان اس وقت معین میں وہاں جمع ہوں تاکہ اس اجتماع سے فائدہ اٹھائیں۔ اس اجتماع سے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ دسیوں فائدے ہیں۔ آیا انہیں ایک ایک کرکے شمار کیا جا سکتا ہے؟ اگر مسئلے کی گہرائی میں جائیں تو دسیوں عظیم فائدے ہیں جو اسلامی دنیا کے لئے حیاتی اور ضروری ہیں۔
اگر کسی زمانے میں اسلامی دنیا کی ضرورت کے عین مطابق حج سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تو وہ زمانہ آج کا ہے۔ جتنے مسلمان آج اجتماع اور ایک دوسرے سے ارتباط کے ضرورتمند ہیں اتنے کبھی نہیں تھے۔ مدتوں مسلمان سوئے ہوئے تھے، غافل تھے، روشنی نہیں تھی، بجلی نہیں تھی، بیدار نہیں تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ مشکلات نہ رہی ہوں۔ مگر اتنی نہیں تھیں کہ متنبہ کرنے اور بیداری کی ضرورت ہو اور ان مشکلات کو سمجھ کے ان کے علاج کی فکر کریں۔ اس زمانے میں جو جمود کا زمانہ تھا؛ ایسی حالت میں اجتماع کا انہیں فائدہ نہیں تھا، کچھ لوگ سوئے تھے، اقوام خواب غفلت میں رکھی گئی تھیں اور اپنی حالت سے غافل صرف اپنی فکر میں تھیں کہ اپنا واجب ادا کریں اور جائیں۔ ایک مدت تک یہ حالت تھی۔ آج مسلمان ان مشکلات کی وجہ سے جو پوری دنیا میں ان کے لئے پیدا ہوئی ہیں، ہمفکری اور تعاون کی بہت زیادہ ضرورتمند ہیں۔ یہ ہمفکری اور تعاون آج ممکن ہے لیکن ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ لہذا یہ موقع، یہ ایک استثنائی موقع ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
آپ دنیا کہ گوشہ و کنار پر نظر ڈالیں؛ دیکھیں کہ یہ ستمگر طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہی ہیں۔ پہلی کوشش ان کی یہ ہے کہ مسلمانوں کو خواب غفلت میں باقی رکھیں اور اگر کوئی ہے جو مسلمانوں کو خبردار کر رہا ہے تو جیسے بھی ہو اس کو میدان سے باہر کر دیں۔ یہ عالمی تسلط پسند طاقتوں اور استکبار کی سب سے بڑی کوشش ہے۔ چاہتی ہیں کہ کوئی ناصح نہ ہو۔ کوئی انتباہ دینے والا نہ ہو۔ کوئی بیدار کرنے والا نہ ہو۔ اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالف ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت ان الزامات کی وجہ سے نہیں جو وہ اس نظام پر عائد کرتی ہیں۔ وہ جو دعوا کرتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں انسانی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں کیا جاتا، یقینا یہ غلط ، جھوٹ اور بہتان ہے، لیکن یہ اس لئے نہیں ہے کہ وہ واقعی انسانی حقوق کو اہمیت دیتی ہیں اور انسان کے لئے اہمیت کی قائل ہیں۔ ہم ایک عرصے تک یہ سمجھتے رہے کہ یہ امریکی اور مغربی، جنہوں نے انسانی حقوق کا پرچم غلط اٹھا رکھا ہے، ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اورایسے ہی دوسرے علاقوں کے انسانوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ صرف اپنے لئے اہمیت کے قائل ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا کہ کسی بھی انسان کے لئے اہمیت کے قائل نہیں ہیں اور اگر کسی وقت ان کی خواہشات و مرضی کا تقاضا ہو تو دنیا کے ہر علاقے کے ہر قسم کے انسانوں کو وہ نابود کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل، آپ نے دیکھا کہ امریکا میں ایک گروہ کو جو امریکی حکومت کے کہنے کے مطابق غلط عقیدہ رکھتا تھا قتل کردیا۔ اب ان کا عقیدہ کیا تھا یہ ہمارے لئے صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔ لیکن وہ تو کہتے ہیں کہ عقیدے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور سب آزاد ہیں۔ انہی دنوں امریکی صدر اور اعلا رتبہ امریکی حکام نے کھڑے ہوکر ہم جنس بازوں کے حقوق کی بات کی۔ لہذا کسی گروہ کا غلط، منحرف اور باطل عقیدہ رکھنا کیا جرم شمار ہوتا ہے کہ جمع ہوں اور انہی ختم کردیں اور آگ میں جلا دیں؟!
ہم کسی کا دفاع نہیں کر رہے ہیں۔ جس گروہ کو قتل کیا گیا ہمیں نہیں پتہ وہ کون لوگ تھے۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ سب کے لئے اور ہمارے عوام کے لئے یہ نکتہ روشن ہوجائے اور الحمدللہ روشن ہے کہ حتی معاشرے کے وہ لوگ بھی جو وسواس رکھتے ہیں، اب جانتے ہیں کہ وہ جو دعوا کرتے ہیں کہ انسانوں کے حقوق کے طرفدار ہیں سچ نہیں کہتے۔ یہ غلط کہتے ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں۔ جو لوگ اس حد تک انسانوں سے بے اعتنا ہوں، اگر کسی ملک پر اعتراض کریں کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عاقل انسان کو دیکھنا چاہئے، سوچنا چاہئے کہ ان باتوں سے ان کا مقصد کیا ہے اور باتوں کے پیچھے کیا ہدف ہے؟ وہ ہدف معلوم ہے کہ کیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایک ایسی اسلامی جمہوریہ ہو جس کا مطلب یہ ہو کہ مسلمان دنیا میں ہرجگہ ایسا ملک تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس سے ڈرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ختم ہوجائے۔ چاہتے تھے ناکام ہوجائے۔ چاہتے تھے کہ اپنے ہدف کی راہ میں آگے نہ بڑھے۔ چاہتے تھے کہ بڑی مشکلات پیدا کریں۔ اب جو دیکھ رہے ہیں کہ الحمد للہ عوام، حکومت اور حکام کی ہمت سے ملک تعمیر و ترقی کی راہ میں آگے بڑھ رہا ہے، لوگوں نے اپنی یکجہتی کو اعلا حد تک محفوظ رکھا ہے اور ملک کا عالمی وقار روزبروز بڑھ رہا ہے، اب جو دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ مقتدر، سربلند اور خود مختار ہے۔ کسی سے ڈرتی ہے نہ بڑی طاقتوں کی پرواہ کرتی ہے تو تکلیف میں ہیں۔ یہ جو دیکھ رہے ہیں کہ یہ نظام اپنے وجود سے مسلم اقوام کو حوصلہ دے رہا ہے کہ بیدار ہوں اور اپنے اسلام کے بارے میں سوچیں، تکلیف میں ہیں۔ لوگوں کی بیداری، پہلی چیز ہے جس کو وہ روکنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ البتہ ان کا دباؤ بے اثر ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ پر امریکا اور امریکا جیسے ملکوں کا دباؤ کارگر ہوتا تو اسلامی جمہوریہ ایران خدا کے فضل اور حضرت ولی عصر( ارواحنا فداہ ) کی توجہات سے اس طرح پیشرفت نہ کرتا۔
اس قوم کا وجود اور اسلامی جمہوریہ کا قیام اور وقار، اس بات کی سب سے بڑی اور روشن ترین دلیل ہے کہ دشمنوں کی سازشیں کارگر نہیں ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی ہوجائیں، مسلمان کم وبیش ہر جگہ بیدار ہوگئے ہیں۔ اقوام ہوش میں آگئی ہیں اور اسلام کی قدر و قیمت کو سمجھنے لگی ہیں۔ ان تمام دباؤ کے باوجود جو مسلمانوں پر ڈال رہے ہیں، اسلامی قوت اور اسلامی جذبہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اب انہوں نے گویا کہ نام نہاد امن مذاکرت شروع کئے تاکہ فسلطینی مسلمانوں کے قیام کو ٹھنڈا کر دیں۔ کیا کر سکے؟ کیا کر سکتے ہیں؟ اس کا نام رکھا امن۔ یہ امن ہے یا ظلم ہے؟ ہماری جانب سے ان مذاکرت کی مخالفت، امن کی مخالفت کے لئے نہیں ہے۔ ہم امن کے طرفدار ہیں۔ ہم امن کے منادی ہیں۔ ہم اس چیز کے منادی ہیں جو امن سے بھی بالاتر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مسلمین عالم اور تمام انسانوں کے درمیان برادری ہو۔ ہم برادری کے طرفدار ہیں۔ ہم امن کے مخالف نہیں ہیں۔ مگر یہ مذاکرات جو آج امریکا میں ہو رہے ہیں، امن مذاکرات نہیں ہیں۔ یہ ظلم کے مذاکرت ہیں۔ وہ ایک ظلم کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ظلم کو قانونی شکل دینا چاہتے ہیں۔ یقینا ہم اس کے مخالف ہیں۔ دنیا کے تمام انصاف پسندوں کو اس کا مخالف ہونا چاہئے۔ تمام مسلمانوں کو مخالف ہونا چاہئے۔ اس کی مخالفت کرنا چاہئے۔ فلسطینی قوم کا گھر اس سے چھین لیا اور غاصبوں کے ایک گروہ کو لاکے وہاں بسا دیا۔ اس کی پشت پناہی کی۔ ان غاصبوں کے ہاتھوں گھر کے مالکین کو درندگی کے ساتھ کچلا اور اب گھر کے مالکین کا منہ بند کرنے کے لئے اور انہیں ملکیت کا دعوا واپس لینے پر مجبورکرنے کے لئے، عرب حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کرانا چاہتے ہیں۔
کیا کسی کو حق ہے کہ فلسطینی قوم کی طرف سے کسی چیز پر دستخط کرے؟ کیا کسی کو حق ہے کہ اس قوم کی طرف سے اس کا گھر ایک غاصب کے ہاتھ فروخت کر دے؟ ہمیں امید ہے یہ مذاکرت دستخط شدہ معاہدے پر منتج نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے اور اس پر وہ عرب حکومتیں جو مذاکرات میں شریک ہیں، دستخط کر بھی دیں تو فلسطینی عوام، مسلمین عالم اور ہماری نظر میں ان دستخطوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
امریکا غلطی کر رہا ہے۔ امریکا عرب حکومتوں کو، ایسے شرمناک مذاکرات کی میز پر جمع کرکے، ان مذاکرات میں شریک حکومتوں کے لئے ان کی اقوام میں نفرت بڑھا رہا ہے۔ آیا عرب ملکوں کے عوام اس بات کی موافقت کے لئے تیار ہیں کہ ان کے سربراہان مملکت جاکر فلسطینی قوم کا گھر دوسروں کے ہاتھ بیچ دیں؟ اگر خدانخواستہ ان سربراہوں نے اس معاہدے پر دستخط کر دیئے تو اس کام سے ان کے اور ان کی اقوام کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے گا۔ یہ کام ان کی اقوام کو برہم کرے گا۔ مصر کی قوم کو برہم کرے گا۔ وہ بیچارہ مصری اٹھتا ہے اور گداگروں کی طرح ایران کی شکایت کے لئے امریکا جاتا ہے۔ شکایت اس بیچارے سے کرتا ہے جسے خود ایران سے شکایت ہے۔
ایران سے شکایت کیوں کرتے ہیں؟ اسلام سے شکایت کرو۔ اپنی مسلمان قوم سے شکایت کرو۔ ان جناب کو اگر کسی کی شکایت کرنی ہے تو مصری قوم سے شکایت کریں۔ مصر کی قوم مسلمان قوم ہے۔ مصر کی قوم کا ماضی اسلام میں گزرا ہے۔ مصری قوم نے جدید اسلامی افکار اور اسلامی جد و جہد میں بڑے قابل فخر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہ غیرتمند قوم ہے۔ یقین ہے کہ یہ قوم اپنے سربراہوں کی خیانت کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور ان کی مخالفت کر ے گی ۔
مصری قوم کی مخالفت کا ہم سے کیا رابطہ ہے؟ جہاں بھی مسلمان بیدار ہوں، ہم خوش ہوتے ہیں۔ جہاں بھی مسلمان اپنے دین کے دشمنوں کے خلاف اٹھتے ہیں، ہم خوش ہوتے ہیں۔ جہاں بھی مسلمانوں کو زک پہنچے، ہم غمگین ہوتے ہیں۔ احساس ذمہ داری کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس قضیے میں پڑیں اور مصر کی قوم کو اس کے فرائض بتائیں۔ وہ خود اپنے فرائض جانتی ہے۔ اس کو خود معلوم ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور وہ صحیح سمجھی ہے۔ مصر کی قوم صحیح سمجھی ہے۔ مصر کے نوجوانوں نے صحیح سمجھا ہے کہ اس حکومت کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو اسلامی اصولوں، فلسطینی اقدار اور اسلامی ملکوں سے خیانت کر رہی ہیں ۔اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔ اس کی غلطی یہی ہے کہ اسلام کی طاقت، توانائی اور تاثیر کو نہیں سمجھ پا رہی ہے۔
آج آپ دیکھیں بوسنیا ہرزے گووینا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ بوسنیا ہرزے گووینا آج واقعی ایک علامت ہے۔ ان طاقتوں کی خیانت اور جرائم جو بظاہر بوسنیا ہرزے گووینا کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں ، تاریخ میں ثبت ہوں گے۔ جیسے امریکی اور بعض یورپی، صرف زبانی ہمدردی کر رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دو افراد آمنے سامنے ہوں۔ ایک کے ہاتھ سے شمشیر لے لیں اور دوسرے کی شمشیر تیز کریں اور جب غیر مسلح فرد کے جسم پر شمشیر لگ جائے اور اس کے دل کے نزدیک پہنچ جائے تو آہ و زاری شروع کر دیں کہ یہ لڑائی کیسے روکی جائے؟ کیسے علاج کیا جائے؟ کیسے ان کو نہ لڑنے دیا جائے؟ یہ مضحکہ خیز باتیں ہوشیار انسان کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
بوسنیا کے عوام ایک سال سے زیادہ سے دباؤ میں ہیں۔ تم کہتے ہو، ہم دل جلا رہے ہیں، خوراک بھیج رہے ہیں، سربوں کا اقتصادی محاصرہ کر رہے ہیں۔ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ جھوٹے دعوے ہیں۔ یہ منافقانہ کام اور باتیں بنانا ہے۔ اگر یہ سچ بول رہے ہوتے اور ان کا دل مسلمانوں کے لئے جل رہا ہوتا تو اسلحے لے جاتے اور مسلمانوں کو دیتے۔ وہ مسلمان کسی کی روٹی اور خوراک کے محتاج نہیں ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کے خوراک کے کارواں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی اور ان کی جھوٹی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس اسلحہ ہوتا تو اپنا دفاع کرتے۔ آپ دیکھیں کہ یہی امریکا اور بعض یورپی ممالک سرب اور کروٹ قصابوں اور ستمگروں کی پشت پناہی کرکے کیا المناک جرائم انجام دے رہے ہیں۔
میں یہ نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود، پروردگار کے فضل سے انہی اسلام کے لئے مزاحمت کرنے والے عوام کی مدد سے یورپ میں اسلام کی طاقت اور شکوہ روز بروز بڑھے گا اور ان سب کا خواب چکنا چور ہوجائے گا جو چاہتے ہیں کہ اسلام نہ رہے۔ یہ اسلام کی طاقت ہے۔ یہ اسلام کی معنویت ہے۔ یہ مسلمانوں کی تیاری ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور اسلامی برادری کی ہمفکری اور تعاون کی ضرورت ہے اور یہ عظیم حج کا میدان ہے اورآپ خدمتگزار ہیں کہ عازمین حج کی راہنمائی اور ہدایت کریں۔ حج کے احکام انہیں بتائیں۔ انفرادی عمل کے لحاظ سے اور حج کے اعمال سے بہترین استفادے میں ان کی راہنمائی کریں۔
خدائے متعال آپ کا پشت پناہ ہو اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی توجہات آپ کے شامل حال ہوں۔ آپ کا حج مقبول اور سعی مشکور ہو۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

40- حج 27
41- حج 28