آپ نے اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں ایران کے اسلامی انقلاب اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے جاری دشمنوں کی سازشوں کی جانب اشارہ کیا اور امت مسلمہ کے اندر موجود بعض عناصر کی دشمنوں کے اشاروں پر انجام پانے والی کارکردگی پر نکتہ چینی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے لبنان اور غزہ پر حملے کے بعد صیہونی حکومت کو ملنے والے شکست کو پوری امت مسلمہ کی کامیابی قرار دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:
بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم

اس عید سعید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام حاضرین محترم، ملک کے حکام، اسلامی جمہوریہ کے انتظامی شعبے کے اعلی عہدہ داروں، ہفتہ اتحاد کے مہمانوں، اسلامی ممالک کے سفرا، تمام ملت ایران اور مسلمین جہان بلکہ انسانی معاشرے کے تمام آزاد منش انسانوں کو۔
آج کا دن شیعہ محدثین کی مشہور روایت کے مطابق خاتم الانبیاء علیھ السلام اسی طرح (فرزند رسول) امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم ولادت ہے، یہ عالم اسلام کے لئے بڑا عظیم دن ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت تاریخ کا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کی سمت و جہت کا تعین کرنے والا ماجرا ہے۔ آپ کی عظیم الشان ولادت کے موقع جو واقعات رونما ہوئے جنہیں تاریخ نے نقل کیا ہے، وہ اس ولادت کی حقیقت کی گویا علامتیں ہیں۔ منقول ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے موقع پر دنیا میں کفر و شرک کی علامتوں میں خلل پڑ گیا۔ فارس کا آتشکدہ جو ایک ہزار سال سے روشن تھا پیغمبر اسلام کی ولادت ہوتے ہی خاموش ہو گیا۔ عبادت خانوں میں جو بت رکھے ہوئے تھے گر گئے، بت پرستی کی عبادت گاہوں کے راہب اور خادم ششدر رہ گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے! شرک و کفر و مادہ پرستی پر اس ولادت کی یہ علامتی ضرب تھی۔ دوسری جانب اس زمانے کے ایران کے مشرک و جابر شہنشاہوں کا محل بھی حادثے کا شکار ہو گیا۔ مدائن کے محل کے چودہ کنگورے ٹوٹ کر گر گئے۔ یہ بھی ایک اور علامتی تبدیلی تھی کہ یہ ولادت دنیا میں ظلم و ستم اور طاغوتی طاقتوں سے جنگ کا مقدمہ ہے اور تیاری ہے۔ وہ انسان کی فکری و قلبی ہدایت کا روحانی پہلو اور یہ بشریت کی سماجی رہنمائی کا پہلو۔ ظلم سے مقابلہ، سرکشی کا سد باب، عوام پر ستمگروں کی ناحق حکومت کے خلاف جد و جہد یہ سب ولادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علامتی اشارے تھے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اس زمانے کو بیان کرتے ہوئے جس میں پیغمبر اسلام کے وجود کا تابناک آفتاب طلوع ہوا چند جملے ارشاد فرماتے ہیں: الدنیا کاسفۃ النور ظاھرۃ الغرور (1) انسانی زندگی کی فضا میں روشنی نہیں تھی، انسان ظلمتوں میں زندگی گزار رہا تھا، جہل کی تاریکی، سرکشی کی ظلمت، گمرہی کا اندھیرا تھا اور ان تمام ظلمتوں کا مرکز وہی مقام تھا جہاں پیغمبر اکرم کی ولادت ہوئی اور پھر آپ کو مبعوث کیا گيا، یعنی جزیرہ عرب۔ ہر ضلالت وگمراہی و تاریکی کا ایک نمونہ مکے اور جزیرۃ العرب کے ماحول میں موجود تھا۔ اعتقادی و فکری گمراہی، وہ رسوا کن شرک، وہ تشدد پسندانہ مزاج، وہ بے رحمی و قسی القلبی کہ و اذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھھ مسودا و ھو کظیم یتواری من القوم من سوء ما بشر بھ یمسکھ علی ھون ام یدسھ من التراب الا ساء ما یحکمون (2) یہ ولادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اور آپ کی بعثت کے دوران معاشرے کا مزاج تھا۔ و كان بعده هدى من الضّلال و نوراً من العمى(3)
انسانیت اندھی تھی بینا ہو گئی، دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی نور وجود پیغمبر سے منور ہو گئی۔ یہ ہے اس عظیم الشان ولادت اور اس عظیم ہستی کی بعثت کا مفہوم و معنی۔ اس الہی احسان اور ربانی نعمت کے احسانمند ہم مسلمان ہی نہیں بلکہ سارے انسان اس نعمت کے احسانمند ہیں۔
درست ہے کہ ان صدیوں میں پیغمبر اسلام کی ہدایت پوری انسانیت کو اپنے دامن میں نہیں لے سکی ہے لیکن یہ شمع فروزاں، یہ شعلہ روز افزوں انسانی معاشرے میں موجود ہے اور سالوں اور صدیوں کے گزرنے کے ساتھ رفتہ رفتہ انسانوں کی اپنے نور سے ہدایت کر رہا ہے۔ اس عظیم ہستی کی ولادت اور بعثت کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہی حقیقت نظر آئے گی۔ انسانیت اقدار کی سمت مائل ہوئی ہے، لوگوں نے اقدار کو پہچانا ہے، بتدریج اس میں وسعت آئے گی اور اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوگا اور سر انجام انشاء اللہ ليظهره على الدّين كلّه و لو كره المشركون(4) یہ (ہدایت پیغمبر اکرم) پوری دنیا کا احاطہ کر لے گی اور انسانیت صراط مستقیم پر، اس ہدایت کی راہ پر اپنا حقیقی سفر شروع کرے گی اور اسی دن سے انسانی زندگی کا حقیقی آغاز ہو گا۔ اس دن لوگوں پر اللہ تعالی کی حجت تمام ہو جائے گی اور انسانیت اس عظیم شاہراہ کی مسافر بن جائے گی۔ امت مسلمہ کی حیثیت سے ہم آج اس عظیم نعمت کو اپنے سامنے موجود دیکھ رہے ہیں، اس عظیم نعمت سے ہمیں بھرپور بہرہ مند ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے دل و دماغ، دین و دنیا، زندگی و ماحول کو اس مقدس دین کی تعلیمات کی برکتوں سے منور اور روشن بنانا چاہئے، کیونکہ یہ نور ہے، بصیرت ہے۔ ہم خود کو اس کے پاس پہنچا سکتے ہیں اور اس سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کا عمومی فریضہ ہے۔
آج جس چیز پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں اور جو ہم مسلمانوں کے اولیں فرائض کا جز ہے، وہ ہے مسئلہ اتحاد۔ اوائل انقلاب سے ہم نے سترہ ربیع الاول پر ختم ہونے والے ہفتے کو ہفتہ اتحاد سے موسوم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برادران اہل سنت کی مشہور روایت کے مطابق (آنحضرت کا) یوم ولادت بارہ ربیع الاول ہے جبکہ مشہور شیعہ روایت کے مطابق سترہ ربیع الاول آپ کا یوم ولادت ہے۔ ان دونوں دنوں کی درمیان مدت کو انقلاب کے بعد ملت ایران اور ملک کے حکام نے ہفتہ اتحاد سے معنون کیا اور اسے مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر قرار دیا۔ لیکن صرف باتیں کافی نہیں ہیں، نام رکھ دینا کافی نہیں ہے۔ ہمیں عمل کرنا چاہئے، ہمیں اتحاد کی جانب بڑھنا چاہئے۔ اس وقت عالم اسلام کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ تفرقے کے عوامل موجود ہیں، ان عوامل پر غلبہ پانے کی ضرورت ہے۔ انہیں قابو میں کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام بڑے مقاصد کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی بڑا ہدف بغیر محنت کئے حاصل نہیں ہوتا۔ اتحاد بین المسلمین بھی طاقت فرسائی کے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے جد و جہد کریں۔ یہ اتحاد ہماری بہت سی مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی معاشروں اور مسلم قوموں کو عزت و سربلندی عطا کر سکتا ہے۔ آپ غور کیجئے، مسلم ممالک کی کیا حالت ہے؟! آپ مسلمانوں کی حالت دیکھئے جو دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ عالمی سیاست بلکہ ان کے اپنے داخلی مسائل میں ان کے اثرات بیگانہ طاقتوں اور بد خواہ قوتوں کے مقابلے میں کتنے کم ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ یہ طاقتیں غیر ہیں صرف اس لئے ہم خود کو اور اپنے مخاطب افراد کو ان کی جانب سے خبردار کر رہے ہیں بلکہ ان کی نیتیں خراب ہیں، ان کے عزائم تسلط پسندانہ ہیں۔ وہ مسلم قوموں کو اپنے سامنے ذلیل و رسوا کرکے اپنی مطلق اطاعت پر مجبور کر دینا چاہتی ہیں۔ یہ پچاس سے زائد مسلم ممالک اس آشکارا بد نیتی اور غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنا چاہیں تو اتحاد کے سوا اس کا طریقہ کیا ہے؟ ہمیں ایک دوسرے سے نزدیک ہونا چاہئے۔ اتحاد کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنا چاہئے۔ ایک تو اندرونی عامل ہے؛ ہمارا یہ تعصب، اپنے عقیدے کی پابندی، اس پر ہر مسلک کو چاہئے کہ قابو رکھے۔ اپنے اصولوں اور بنیادوں پر عقیدہ و ایمان اچھی و پسندیدہ چیز ہے، اس پر قائم رہنا بھی ٹھیک ہے لیکن یہ اپنی بات کے ثابت کرنے کی حدوں سے نکل کر جارحیت، تجاوز اور دشمنی کی حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔ امت مسلمہ کے مختلف گروہوں میں ہمارے جو بھائی موجود ہیں وہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ وہ اپنے عقیدے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو کریں، لیکن دوسروں کے عقیدے کی حرمت و احترام اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ کریں۔ مناظرے اور بحث کو علمی نشستوں پر چھوڑ دیں۔ علما اور اہل فن حضرات چاہتے ہیں تو بیٹھیں مذہبی مذاکرہ کریں۔ لیکن علمی نشست میں عالمانہ مذہبی مناظرے اور اعلانیہ، رائے عامہ کی سطح پر، ایسے افراد کے سامنے جن کے اندر تجزیاتی صلاحیتیں نہیں ہیں ایک دوسرے کے سلسلے میں بد کلامی کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس پر علما کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ عہدہ داروں کو چاہئے کہ بندش لگائیں۔ اس سلسلے میں تمام مسلم مسلکوں کے فرائض ہیں۔ شیعہ کا بھی فریضہ ہے اور سنی کا بھی فریضہ ہے۔ سب اتحاد کی سمت قدم بڑھائیں۔ تو یہ رہا ایک عامل جو اندرونی عامل ہے۔
بیرونی عامل، دشمنان اسلام کا تفرقہ انگیز ہاتھ ہے۔ اس کی جانب سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، اسی دن سے جب دنیا کی تسلط پسند سیاسی طاقتوں کو احساس ہوا کہ قوموں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، یہ تفرقہ انگیز ہاتھ سرگرم عمل ہو گیا اور آج اس کی کارکردگی بہت بڑھ گئی ہے۔ مواصلاتی ذرائع، جدیدترین وسائل جو آج تیار کر لئے گئے ہیں ان سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ یہ آگ کو ہوا دینے والے ہیں۔ تفرقہ انگیزی کے لئے نعرے تیار کرتے ہیں۔ آگاہ اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اور مسلم قوموں کے اندر موجود بعض عناصر دشمنوں کا وسیلہ اور ذریعہ بن جاتے ہیں۔
بڑی عبرتناک بات ہے، آپ ذرا غور کیجئے۔ دو سال قبل جب اسرائیل کے خلاف حزب اللہ ، اسلامی مزاحمت کے جوانوں کو فتح ملی اور انہوں نے صیہونی حکومت کو بری طرح ذلیل و رسوا کر دیا تو عالم اسلام میں مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی و کامرانی تھی، تفرقہ انگیز ہاتھوں نے فوری طور پر شیعہ- سنی مسئلےکو ہوا دینا شروع کر دیا۔ فرقہ وارانہ تعصب کو بڑھانا شروع کر دیا۔ لبنان کے اندر بھی اور مشرق وسطی اور عالم اسلام کی سطح پر بھی۔ گویا شیعہ- سنی مسئلہ ابھی ابھی وجود میں آیا ہو! وجہ یہ تھی کہ اس عظیم کامیابی کے زیر سایہ مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تھے۔ انہیں شیعہ-سنی مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ یہ دو سال قبل کی بات ہے۔ دو ماہ قبل بھی امت مسلمہ کو ایک اور فتح نصیب ہوئی۔ وہ تھی غزہ میں فلسطینی مزاحمت کو صیہونی حکومت پر ملنے والی شاندار اور نمایاں فتح۔ اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ ایک بھرپور مسلح فوج جو سن انیس سو سڑسٹھ سے انیس سو تہتر عیسوی تک تین ملکوں کی فوجوں کو شکست فاش دینے میں کامیاب رہی تھی غزہ میں بائیس دن کی طاقت فرسائی کے باوجود مزاحمتی جوانوں اور ان مومن مجاہدین کو پسپائی پر مجبور نہیں کر سکی۔ انہیں شکست نہیں دے سکی۔ ناکام اور خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہوئی۔ دنیا میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکا کی عزت و آبرو خاک میں مل گئی۔ یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ اس موقع پر شیعہ- سنی کا مسئلہ نہیں اٹھا سکے تو اب نسلی موضوع اٹھایا ہے۔ عرب و غیر عرب کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اس جھگڑے کا کیا تک ہے کہ مسئلہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے، صرف عربو‎ں سے مختص ہے، غیر عرب کو مسئلہ فلسطین میں مداخلت کا حق نہیں؟! مسئلہ فلسطین، عالم اسلام کا مسئلہ ہے، اس میں عرب و عجم کا کوئی تک نہیں ہے۔
عالم اسلام کے مسائل میں اگر نسلی معاملہ آ گيا تو تفرقے کی بہت بڑی وجہ بن جائے گا۔ اگر نسلی معاملہ آ جائے اور عربوں کو الگ کر دیا جائے، فارس کو الگ کر دیا جائے، ترک کو الگ کر دیا جائے، کرد کو الگ کر دیا جائے، انڈونیشین کو الگ کر لیا جائے، ملیشین کا الگ کر دیا جائے، پاکستانی اور ہندوستانی کو الگ کر دیا جائے تو بچے گا کیا؟ یہ امت مسلمہ اور اس کی طاقت و توانائی کو نیلام کرنا نہیں ہے؟! یہ سامراج کے حربے ہیں اور افسوس ہے کہ عالم اسلام کے اندر بعض افراد ان چالوں میں آ گئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس وقت لبنان کے معاملے میں اور اب غزہ کے مسئلے میں ملنے والی فتح سے مسلمان شادکام ہو سکیں۔ فورا کوئی اختلافی مسئلہ اٹھا دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیں۔
امت اسلامیہ کو بیدار و ہوشیار رہنا چاہئے، ان(دشمنوں) کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے۔ اسلامی ممالک کے عہدہ دار اور ارباب اقتدار ہوشیار رہیں۔ یہ (تفرقہ انگیز) بات ممکن ہے کہ کسی اپنے ہی سیاستداں کے منہ سے نکلے، لیکن ہم سے غلطی نہیں ہوگی، ہم حقیقی عامل کی شناخت میں غلطی نہیں کریں گے۔ ممکن ہے کہ زبان ان کی ہو لیکن بات دوسروں کی ہے، دنیا کی سامراجی طاقتوں کی ہے۔ وہ امت مسلمہ کے اتحاد کی دشمن ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے اندر کچھ افراد کی زبان سے یہ بات کہی جاتی ہے تو یہ فریب خوردہ ہیں۔ یہ بات ان کی اپنی نہیں ہے۔ یہ آواز ان کی اپنی نہیں ہے۔ اس آواز کو ہم خوب پہچانتے ہیں۔
سب سے بڑی ذمہ داری سیاستدانوں اور حکام کی ہے اور دوسرے نمبر پر دانشور اور وہ افراد ہیں جن کا عوام کی ذہنیت اور طر‌ز فکر سے رابطہ رہتا ہے۔ علمائے دین، روشن خیال حضرات، مصنفین، نامہ نگار، شعرا، ادبا اور عالم اسلام کے دانشور اپنے اس فریضے کا احساس کریں کہ انہیں عوام کو ان عناصر سے روشناس کرانا ہے جو اتحاد میں خلل ڈالنا اور اس مستحکم الہی رشتے کو مسلمانوں سے چھین لینا چاہتے ہیں۔
قرآن ہم سے صریحی کہتا ہے کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا(5) ایک ساتھ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اعتصام بحبل اللہ ہر شخص الگ الگ بھی انجام دے سکتا ہے لیکن قرآن کا فرمان ہے؛ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا، ایک ساتھ رہو، ولا تفرقوا انتشار میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ یہ (حکم ہے) اللہ تعالی کی رسی کو تھامنے کے سلسلے میں تو چہ جائیکہ کچھ لوگ اللہ کی رسی کو تو کچھ دوسرے حبل الشیطان کو تھامنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اعتصام بحبل اللہ کرنا ہے تو بھی سب ایک ساتھ کریں، ایک ساتھ مل کر انجام دیں۔ یہ عالم اسلام کا بہت بڑا معاملہ ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کے تمام افراد، تمام قوموں اور حکومتوں کو اس اہم مسئلے کا اس کی سنگینی اور اس کی حقیقی اہمیت کے ساتھ ادراک ہو سکے اور اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالی کی خوشنودی و رحمت کا سایہ ہو ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کی روح پر جنہوں نے ہمارے زمانے میں اتحاد کی آواز بلند کی اور مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے قلوب کو سروش الہی اور دعوت الہی سے مانوس فرمائے، آشنا فرمائے اور ملت مسلمہ کے مستقبل کو اس کے ماضی سے بہتر قرار دے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

1) نهج‏البلاغه، خطبه‏ى 89
2) نحل: 58 و 59
3) مفاتيح الجنان، دعاى ندبه
4) توبه: 33
5) آل‏عمران: 103