آپ نے دانشوروں اور طلبا کی صلاحیتوں کی قدر کرنے پر تاکید کی۔ آپ نے آزادانہ سیاسی بحث اور معرفت و روحانیت کے موضوع پر گفتگو کے لئے یونیورسٹی کی سطح پر فورم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر طلبا نے مختلف موضوعات پر اپنے اپنے نظریات رکھے جن پر قائد انقلاب اسلامی نے تبصرہ فرمایا۔ آپ نے طلبا کے ذریعے بیان کی جانے والی بعض باتوں کو امید افزا قرار دیا اور انہیں سراہا۔ آپ نے بارہ جون دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے پر آشوب واقعات پر بھی تبصرہ کیا اور اہم ہدایات دیں۔
تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

آپ حضرات کے ساتھ ہماری آج کی یہ نشست، ہمیشہ کی طرح نہایت امید افزا اور اچھی نشست رہی۔ اصل میں ملک کی حقیقی امیدیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب (ان میں) غیر معمولی تعلیمی صلاحیت کے ساتھ ہی ساتھ، ذمہ داری کا احساس بھی پایا جاتا ہو۔ آپ بھائیوں- بہنوں اور اپنے فرزندوں سے ملاقات، جو الحمد للہ بڑی مسرت بخش تھی، صرف میرے لئے ہی نہيں بلکہ ملک کے تمام حکام کے لئے اور قومی سطح پر بڑی امید افزا ثابت ہوئی ہے۔
سب سے پہلے تو میں ایک بات محترم حکام، یہاں موجود قابل احترام وزراء، غیر معمولی صلاحیتوں سے سرشار دانشوروں کے ادارے کے سربراہ اور دیگر حکام سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام منصوبوں اور فیصلوں میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں۔ اس برس ملک کے با صلاحیت نوجوانوں کے علمی کارناموں کے بارے میں جو کچھ سننے میں آ رہا ہے وہ واضح طور پر ، ان چیزوں سے برتر، زيادہ پختہ اور عمیق ہے جو ہم گزشتہ سال سنتے تھے اور جو کچھ اس سے پہلے سننے کو ملا تھا، خاص طور پر دس برس قبل ہم جو کچھ طلبہ کے علمی کارناموں کے بارے میں سنتے تھے۔ میں ہمیشہ یونیورسٹی سے وابستہ شخصیتوں کے رابطے میں رہا ہوں۔ آپ کو علم ہے کہ میں ہر سال مختلف مواقع پر نوجوانوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں اور اس طرح کے جلسے منعقد کرتا ہوں جس کے دوران باتیں ہوتی ہيں اور حاضرین اپنے نظریات بیان کرتے ہيں۔ میں نے ملکی سطح کے وسیع البنیاد اور چھوٹے منصوبوں سے ہٹ کر بھی بہت سی چیزوں کا جائزہ لیا ہے جس سے مجھے، آج جو کچھ ہمارے پاس ہے اور جو کچھ دس برس قبل تھا ان کے درمیان، واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ یعنی ترقی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ حکام کو اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر ملک کے مستقبل کے لئے منصوبہ سازی کرنا چاہئے۔ جو باتیں یہاں نوجوانوں نے بیان کی ہیں بالکل وہی باتیں ہیں جو ملک کی علمی سرگرمیوں اور ترقی کی خبر رکھنے والے ہر انسان کے ذہن میں موجود ہيں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان ملک کے بنیادی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہيں۔
یہ جو ایک نوجوان نے کہا ہے « سرگرمیوں کو مستبقل کی ضرورتوں کے مطابق انجام دیا جانا چاہئے تو آپ اس مستبقل کے خد و خال بھی واضح کریں، ان ضرورتوں کے خد و خال واضح کریں» یا جیسا کہ اسی سلسلے میں دوسرے نوجوان نے کہا کہ « ہمیں پیش قدمی کی سمت کا تعین خود کرنا چاہئے، یہ مناسب نہیں ہے کہ دوسروں -مغرب- کی جانب سے معین کردہ سمت میں ہم بھی رواں دواں ہو جائیں، ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، پھر اس کے حصول کے لئے اقدام کرنا چاہئے۔ » یہ سب بڑی اہم باتیں ہیں، بہت گراں قدر خیالات ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں کہ جب کوئی تعلیم یافتہ ، فرض شناس اور قوم کا درد رکھنے والا شخص ملک کی علمی تحریک پر غور کرتا ہے تو انہیں با قاعدہ محسوس کرتا ہے لیکن ان امور کو سمجھ لینا ہی کافی نہيں ہوتا بلکہ اس ادراک کی بنیاد پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم خود ادراک بھی بے حد ضروری ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ دانشور طبقے کے لئے منصوبے بنانا چاہئے اور یہ جو کچھ نوجوانوں نے کہا ہے کہ ہمیں مناسب ماحول تیار کرنا چاہئے، ذمہ داری کا احساس تعلیم یافتہ طبقے میں عام کرنا چاہئے، صرف امیدیں نہيں لگانا چاہئے، تو میں یہاں یہ بتا دوں کہ امید رکھنا، منطقی بات ہے۔ امید رکھنا کوئی غلط بات نہيں ہے لیکن اس کے ساتھ، ذمہ داری کا احساس اور یہ سوچ کہ قوم کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے مجھ پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے، یہ ساری چیزیں بہت اہم ہیں۔ یہ جو کہا گیا « دینی روحانیت کو، دین سے جدا اور الگ روحانیت کو نہیں جو سرے سے روحانیت ہی نہیں بلکہ ایک توہم ہے، ملک کی علمی تحریک میں بنیاد قرار دینا چاہئے » یہ بات یہاں ایک خاتون نے کہی ہے اور یہ بالکل صحیح بات ہے۔ یہ ان بنیادی باتوں میں سے ہے جن پر خاص طور پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو سماج میں اخلاقیات کو اپنا صحیح مقام مل جائے گا کہ جس کی امید ایک نوجوان نے اپنی گفتگو میں ظاہر کی ہے اور یہ ایسی امید ہے جس کا اظہار ہم نے خود بھی بارہا کیا ہے؛ اصل میں نعروں سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا؛ ہمیں اس مقصد کی سمت بڑھنا چاہئے جس کا تعین کیا گيا ہے۔ میں جب اس طرح کی باتیں آپ لوگوں سے سنتا ہوں تو امید بڑھ جاتی ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارا سماج، ہمارا نظام، ہماری قوم، اپنی علمی و مادی و روحانی و اخلاقی تحریک میں، بلاشبہ اپنے مقاصد حاصل کر لے گی اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام مستحکم ہو گیا ہے۔
کچھ نوجوانوں نے حالیہ واقعات کی جانب اشارہ کیا؛ تو اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ٹی وی سے جو کچھ کہہ دیا جاتا ہے ساری باتیں وہی ہیں۔ جی نہيں، بہت سی باتیں ہیں، بہت سی باتیں ہیں جو کہی نہيں گئیں کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ انسان کو جو کچھ محسوس ہوتا ہے اسے کہہ دیتا ہے یا کہہ سکتا ہے۔ باتیں بہت زيادہ ہيں۔ آپ نوجوان الحمد للہ ہوشیار ہیں، با صلاحیت ہیں، دھیرے دھیرے بہت سے حقائق آپ کے سامنے واضح ہو جائيں گے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ انہی حالیہ سیاسی واقعات میں اور تیس برسوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے دوران ہمارا ملک دھیرے دھیرے زیادہ محفوظ ہو گیا۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام مزید مضبوط ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آپ دنیا کے مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ کی جاسوسی کی صلاحیت اور تشہیراتی طاقت کو کم نہ سمجھیں۔ ان باتوں سے وہ سب بھی آگاہ ہيں۔ البتہ یہ ادراک، مہارت و صلاحیت کے حساب سے لوگوں میں کم اور زیادہ ہو سکتا ہے۔ آپ ہالیوڈ کو کم نہ سمجھیں۔ دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے فن و ہنر کو ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کی مغرب کی روش کو اور جیسا کہ ایک خاتون نے کہا مغرب کی جانب سے انتہائی ہوشیاری سے بنائے جانے والے تشہیراتی منصوبوں کو کم نہ سمجھیں۔ اس انتہائی موثر روش کے ساتھ ہی ساتھ بے پناہ دولت اور انتہائی وسیع سیاسی و تشہیراتی اداروں کے ساتھ وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کر رہے ہیں۔ آج دنیا میں کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں ملے گا جس پر اس طرح سے مختلف سمتوں سے حملے ہو رہے ہوں لیکن پھر بھی اسلامی جمہوریہ ایران ان سب کا مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ معمولی بات نہيں ہے۔ یہ مستحکم فولادی نظام ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ معمولی چیز نہيں ہے۔ سازش کی باتیں کوئی وہم نہيں ہے۔ یہ باتیں نوجوانوں کے سامنے بیان کی جانا چاہئے۔ یہ خیال نہ کریں کہ میں اس طرح کی باتیں سن کر ناراض ہوں گا۔ میں تو ان باتوں کے بیان نہ کئے جانے پر ناراض ہوتا ہوں۔
میں کبھی کبھی طلبہ کے ساتھ منعقد ہونی والی نشستوں میں یہ دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مروت، احترام یا کسی اور وجہ سے کچھ ایسی باتیں نہیں کہتے جن کے بارے میں ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ مجھے نا پسند ہيں لیکن اصل بات یہ ہے کہ میں اس طرح کی باتيں نہ کہنے سے ناراض ہوتا ہوں، کہنے سے بالکل ناراض نہيں ہوتا۔ کاش وقت ہوتا اور ساری باتیں بیان کر دی جاتیں۔ اتنا وقت ہوتا کہ انسان دل کی کتاب کھول دیتا اور ساری باتیں کہہ دیتا تاکہ بہت سے حقائق واضح ہو جاتے، مستقبل میں انشاء اللہ ایسا ہوگا۔ ایسا نہيں ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ ہمارے ملک کے خلاف سازش کئے جانے کی بات ایک وہم ہے۔ نہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہر طرف سے سازشیں ہو رہی ہيں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ملک کے اندر اس طرح کی سازشوں کا حصہ بن جائے لیکن خود اسے اس کی بالکل خبر نہ ہو۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے بھی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں اس طرح کی ذہانت نہيں ہوتی۔ ہم نے کچھ لوگوں کو آزمایا ہے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ کس کے احکامات کی تعمیل کر رہے ہيں۔ لیکن ان کے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے حقیقت تو نہيں بدلے گی۔ وہ جانیں یا نہ جانیں، اس طرح کی سازشيں رچی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا ملک، ہمارا نظام نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہو رہا ہے بلکہ ملک کا علمی طبقہ، ترقی یافتہ طبقہ جو آپ نوجوانوں پر مشتمل ہے، دس برس قبل کے مقابلے میں آج اور زیادہ سرعت سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس کے کیا معنی ہيں؟ اس کا مطلب ہے حقانیت۔ اس کا مطلب ہے خلوص۔ اس کے معنی ہیں بنیادوں کی مضبوطی اور استحکام۔ «الم تر كيف ضرب اللَّه مثلا كلمة طيّبة كشجرة طيّبة»(1) ہمارا نظریہ یہ ہے۔ ہم اس یقین کے ساتھ دل سے کام کرتے ہيں۔ میں کمیوں کا انکار نہیں کر رہا ہوں۔ میں تنقید کرنے والے بہت سے لوگوں سے کہیں زیادہ، کمیوں کو جانتا ہوں، لیکن ان کمیوں کو دور کرنے کا راستہ وہ نہيں ہے جسے کچھ لوگ راہ حل قرار دیتے ہيں۔ اب آپ اعلان کرتے رہیں کہ فلاں جگہ، فلاں چیز، اس طرح ہے۔ جی نہيں، یہ چیزیں اعلان کرنے سے صحیح نہیں ہوتیں، کام کرنے سے صحیح ہوتی ہيں۔ باتیں کرنے سے صحیح نہيں ہوتیں۔ تشہیراتی ہنگامے اور بڑی بڑی باتیں، مسائل کے حل میں مددگار نہيں ہوتیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا؛ انہی انتخابات کے معاملے میں دیکھیں؛ انتخاباتی مہم کو عام طور سے انتخابات سے ایک یا ڈیڑھ مہینے قبل شروع ہونا چاہئے لیکن عید نوروز سے قبل ہی انتخاباتی مہم کا آغاز کر دیا گیا! یہی ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ جس پر بہت سے احباب کو سخت اعتراض ہے، اس مہم کی خبریں نشر کر رہا تھا، یہ چیز مجھے پسند نہیں تھی۔ آپ یہ بھی خیال نہ کریں کہ چونکہ میں، ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کے سربراہ کا تعین کرتا ہوں اس لئے ریڈیو اور ٹی وی کے تمام پروگرام میرے سامنے رکھے جاتے ہيں اور میں ایک ایک کا جائزہ لیتا ہوں، اس پر دستخط کرتا ہوں۔ جی نہيں، ٹی وی اور ریڈیو کے بہت سے پروگرام مجھے پسند نہيں ہیں۔ اسی طرح مجھے یہ پسند نہيں تھا کہ انتخابات سے تین مہینے قبل ہی، انتخاباتی دوروں، تقریروں اور جلوسوں کی خبریں ٹی وی پر نشر کی جائيں لیکن افسوس، اس طرح کی خبریں نشر ہوئيں۔ کیا صرف اس لئے کہ ہم آزادانہ سوچ کے حامی ہیں! یہ خیالاتی باتیں ہیں۔ یہ ملک کے اندر ہونے والے ہنگامے ہيں۔ نظریاتی ہنگامے، منطقی بحث و مباحثے سے مختلف ہوتے ہيں۔ میں نے کہا کہ آزادی سے غور کرنے کا موقع یونیورسٹی میں فراہم کریں۔ آپ نوجوانوں نے کیوں یہ کام نہیں کیا؟ آپ آزادانہ سیاسی فکر اور معرفت پر بحث و گفتگو کے لئے، تہران یونیورسٹی میں، شریف یونیورسٹی یا امیر کبیر یونیورسٹی میں کیوں نہیں ایک فورم قائم کرتے؟ کچھ طلبہ آگے آئيں، اپنی بات کہيں۔ ایک دوسرے کے نظریات پر تنقید کریں۔ آپس میں ایک دوسرے سے بحث کریں، حقیقت خود ہی سامنے آ جائے گی۔ حقیقت اس طرح تھوڑی واضح ہو سکتی ہے کہ کوئی اٹھے اور کسی پر جیسی چاہے تنقید کر دے۔ اس طرح حقیقت کو صحیح طور پر نہيں سمجھا جا سکتا۔ بڑی بڑی باتیں کرکے ہنگامہ کھڑا کرنے سے ملک کی ترقی میں کوئی مدد نہيں ملتی۔ اس سلسلے میں آپ اپنے اس بوڑھے باپ کے تجربات پر غور کریں۔ جو چیز ملک کی ترقی میں مددگار ہوتی ہے وہ صحیح فکری آزادی ہے؛ یعنی سوچنے کی آزادی، اپنا نظریہ پیش کرنے کی آزادی، ہنگاموں سے خوف زدہ نہ ہونا، ان کی اور ان کی دھمکی و ترغیب پر توجہ نہ دینا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کبھی آپ کے منہ سے جیسے ہی کوئی بات نکلتی ہے دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار جو خباثت و بد طینتی کے پتلے ہیں، آپ کے لئے تالیاں بجاتے ہيں۔ اس سے آپ خوش نہ ہوں۔ اس ماحول سے متاثر نہ ہوں۔ بحث کریں، منطقی بحثیں کریں۔ دوسرے کی بات سنیں، اپنی بات کہیں۔ اس کے بعد بیٹھ کر غور کریں۔ یہی قرآن کا بھی حکم ہے فبشّر عبادی الّذين يستمعون القول فيتّبعون احسنه(2) بات سننا چاہئے اور پھر سب سے اچھے راستے کا انتخاب کرنا چاہئے۔ ورنہ ہنگامہ کرنے سے وہی ہوگا جس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد ہنگامہ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب غیر ملکی ہاتھ بھی کارفرما ہو۔ آپ کے خیال میں ان واقعات کی خبریں، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ہيں، تھوڑے تھوڑے وقفے سے کیوں نشر کرتے ہیں؟ کس منصوبے کے تحت یہ کام کرتے ہيں؟ اس پر غور نہیں کیا جانا چاہئے؟! اس کا جائزہ نہيں لیا جانا چاہئے؟ یہ وہ چیزيں ہیں جن پر بھرپور توجہ دی جانی چاہئے۔
بہر حال ملک ترقی کر رہا ہے۔ آپ اس کا یقین رکھیں۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ماضی کے منصوبوں میں یقینا کچھ خامیاں بھی رہی ہوں گی تاہم تمام مثبت اور منفی باتوں کا نتیجہ جو نکلا ہے وہ آج آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے نوجوان علمی میدان میں آگے بڑھے ہيں۔ سیاسی بصیرت کے لحاظ سے آگے بڑھے ہيں، دینی طرز فکر اور اس کے اثرات کے لحاظ سے ان میں پختگی آئی ہے۔ یہ آج جو ہمارے نوجوانوں نے روحانیت، دین، مغربی منصوبوں اور افکار سے امید نہ لگانے اور خود انحصاری کے بارے میں اتنی باتیں بیان کی ہیں، یہ باتیں جو آپ کے لئے آج عام سی باتیں ہيں، آپ کے زمانے سے تھوڑا پہلے تک، یہ ان تعلیم یافتہ اور دانشور افراد کی باتیں تھیں جو یہ سوچتے تھے کہ یہ باتیں بیان کی جانی اور سمجھی جانی چاہئيں! لیکن آج یہ باتیں ہمارے سماج میں عام ہو چکی ہیں۔ کیا یہ ترقی نہيں ہے؟ ہم آگے بڑھ رہے ہيں۔ یقینا دشمن بھی بہت زيادہ ہیں، رکاوٹیں بھی بہت ہیں۔ اگر رکاوٹیں نہ ہوتیں تو ہم اس طرح سے مضبوط نہ بنتے؛ اسلامی سماج اور اسلامی جمہوریہ اس طرح سے پختہ نہ ہوتا۔ رکاوٹیں ہيں، ورنہ سیدھے اور مسطح راستے پر چلنے کے لئے جسمانی طاقت کی ضرورت نہيں ہوتی۔ پہاڑوں پر چڑھنا ہوتا ہے، رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانا پڑتا ہے۔ ہمارے سماج نے یہ کام کیا، اس راستے پر چلا، آگے بھی بڑھتا رہے گا۔ آپ یہ جان لیں! آج کی نوجوان نسل ایسی نہيں ہے جسے روکنا ممکن ہو۔
میں يہاں پر آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں: کسی بھی ملک کی ترقی کا راز، یعنی ملک کی طاقت کا اصل محور، طاقت کے ساتھ ساتھ ترقی کا راز، علم ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ کے خلاف بہت سی سازشوں کا اصل نشانہ علم، اہل علم، طلبہ اور علمی مراکز ہيں۔ اس پر آپ لوگوں کی توجہ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کے یہ تیر ان کے من پسند نشانوں پر پیوست ہو جائيں۔ علمی کاموں میں رکاوٹ نہیں آنا چاہئے۔ یہ ساری باتیں جو کہی گئيں ان سب سے زيادہ اہم علم و تحقیق کا مسئلہ ہے۔ مغربی دنیا کی دولت، علم کی بدولت ہے۔ مغرب والوں کی طاقت علم سے ہے۔ اگر آج امریکا نے اتنی علمی ترقی نہ کی ہوتی تو دنیا میں اس طرح سے تسلط پسندانہ رویہ جاری رکھ پاتا نہ دنیا کے معاملات میں مداخلت کر پاتا۔ دولت بھی اگر ملتی ہے تو علم کے ہی ذریعے ملتی ہے۔ علم کو اہمیت دیں۔ یہ جو میں برسوں سے علم، تحقیق، ترقی، ایجادات اور عملی حد بندیوں کو ختم کرنے پر تاکید کر رہا ہوں، اس کی وجہ یہی ہے۔ مختلف شعبوں میں علم کے بغیر ملک کی مضبوطی ممکن نہیں ہے۔ علم طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔
یہ باتیں ہوئیں کہ چلو، ایران کے ایٹمی تنصیبات پر بمباری کر دی جائے۔ ایک ملک کے سربراہ نے، یہاں میں کسی کا نام نہيں لینا چاہتا، میں کچھ لوگوں کا نام لینا پسند نہيں کرتا، کہا کہ علم و سائنس پر تو بمباری نہیں کی جا سکتی۔ اس نے سچ کہا؛ اس کی بات سچ ہے۔ اپنی تمام تر غلط باتوں کے ساتھ ہی اس نے یہ بات سچ کہی۔ چلئے مان لیتے ہيں کہ انہوں نے نطنز (ایٹمی مرکز) پر بمباری کر دی۔ اصفہان کے (جوہری) کارخانے پر بھی بمباری کر دی، لیکن علم پر کیسے بمباری کریں گے؟ غور کریں، علم تحفظ کا باعث ہوتا ہے، طاقت کا باعث ہوتا ہے۔ ہوشیار رہيں، آپ کی یونیورسٹی میں، آپ کی کلاس میں، آپ کے تحقیقاتی مرکز میں اور آپ کے تحقیقاتی کاموں میں رکاوٹ نہ پیدا ہونے پائے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ کوئی، رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے تو اس سے نیک نیتی کی امید نہ رکھیں۔ اس نے آپ کی طاقت اور آپ کے مستقبل کو نشانہ بنایا ہے۔
میں آپ نوجوانوں سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کام یہ بھی ہے؛ کچھ لوگ یہاں آئيں، مثال کے طور پر پینٹنگ کے سلسلے میں مغربی بازاروں کی ضرورتوں کو سمجھیں اور پھر یہاں آکر سرمایہ کاری کریں اور ہمارے اس فن کو ان ضرورتوں کی تکمیل کی سمت لے جائيں۔ یہی صورت حال فیلم انڈسٹری کے سلسلے میں بھی ہے۔ ایسی فلموں کا فلمی میلوں کے لئے قبول کریں جو ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔ ہمارے علمی امور میں بھی یہی صورت حال ہو جائے، آئی ایس آئی میں شائع ہونے والے مقالوں کے لئے یہی فارمولا طے کر دیا جائے، کسی تحقیقاتی منصوبے کو مالی مدد فراہم کی جاتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے (تحقیقاتی) کام ان کی مرضی کے مطابق ہو۔ اس پہلو پر توجہ رکھیں۔ ملک کی علمی خودمختاری کے لئے ایک ضروری عنصر ہے خود انحصاری، علمی تحریک میں بھی، فن کی تحریک میں بھی اور سب سے بڑھ کر سیاسی تحریک میں بھی۔ کیونکہ کچھ سیاسی تحریکیں بھی اسی طرح (اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھلی ہوئی) ہوتی ہيں۔
ایک اور بات یہ ہے کہ صلاحیت کی نعمت سے تو آپ لوگ بہرہ مند ہیں ہی، یہ ایک بڑی نعمت ہے، صحت کی نعمت کی طرح، خود زندگی کی نعمت کی طرح کہ جس پر شکر بجا لانے کی ضرورت ہے۔ نعمتیں خدا کی جانب سے ہوتی ہے؛ اس پر شکر ادا کیا جانا چاہئے۔ میری یہ باتیں آپ ذہن نشین کر لیں۔ ہم بہت سی نعمتوں سے واقف نہيں ہیں، جب اس کے بر خلاف (اس نعمت سے محرومی کی ) صورت حال پیش آتی ہے تو اس وقت ہمیں نعمت کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔ نوجوانی نعمت ہے۔ بوڑھاپے میں انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ جوانی کیسی نعمت ہوتی ہے۔ اچھی صلاحیت، اچھا ذہن بہت بڑی نعمت ہے۔ اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ شکر کیا ہے؟ شکر کے تین حصے ہوتے ہیں: پہلا ، نعمت کی شناخت، نعمت سے غافل نہ ہونا۔ دوسرا حصہ اس بات کا علم کہ نعمت خدا کی طرف سے ہے، حدا کا عطیہ ہے، خدا کا تحفہ ہے۔ تیسرا حصہ یہ ہے کہ اس نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اچھی صلاحیت کی نعمت کو صحیح راستے پر استعمال کرنا چاہئے۔ یہ وہی چیز ہے جو انسان کے اندر ذمہ داری کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ اپنے سماج کے تعلق سے ذمہ داری کا احساس، ملک کے تئيں ذمہ داری کا احساس، اتنے ڈھیر سارے وسائل اور سہولتوں پر ذمہ داری کا احساس۔ کیونکہ یہ سارے دانشور انہی سہولتوں کے مرہون منت ہیں۔ ان نعمتوں کا شکر یہی چیزیں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ انسان خود کو سب سے، سماج سے الگ تھلگ سمجھے اور یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ اسے سہولتیں دسیاب ہیں، معنوی دولت ملی ہے تو اسے وہ مادی و ذاتی دولت تصور کر سکتا ہے؛ ایسا نہیں ہونا چاہئے، اسے ملک کے مستقبل کے لئے استعمال کریں۔
حکام کو بھی ایک نصیحت کرنا چاہوں گا۔ حکام کو بھی سب سے پہلی نصیحت شکر کے تعلق سے ہے۔ دانشوروں کے وجود کی نعمت کا شکر۔ یہاں پر بھی شکر کے تین حصے ہيں۔ شناخت؛ سب سے پہلے دانشوروں کو پہچانیں؛ اس کے بعد اس حقیقت کو سمجھیں کہ یہ دانشور خداوند عالم نے ہمیں عطا کئے ہیں؛ حکام کو دئے ہيں۔ اور پھر ان دانشوروں کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے صحیح طور پر استفادہ کریں۔
اب کچھ جملے اس نوجوان کی باتوں کے بارے میں، میں نے کہا نہ کہ باتیں بہت زیادہ ہیں۔ کسی ادارے یا کسی شخص کی نا انصافی پر تنقید کرتے وقت کہیں خود ہم سے نا انصافی نہ ہو جائے، اس پر توجہ رکھیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ کیا ملک کی حقیقی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے؟ نہيں، آدھی ادھوری شکل پیش کرتا ہے۔ بہت سی عظيم ترقیاں ہیں جو ٹی وی پر دکھائی نہيں جاتیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ لوگ اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملک کے بہت سے حقائق اور ترقیوں سے مطلع نہیں ہیں۔ کمی ہمارے نشریاتی ادارے کی ہے۔ ورنہ اگر یہ ادارہ ، کسی مغربی ملک کی طرح جو اپنے بے پناہ تجربوں کے ساتھ اور فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جھوٹ کو سچ ثابت کر دیتا ہے، حقائق کو صحیح شکل میں پیش کرتا تو آپ یقین کریں، نوجوان نسل کی اپنے ملک سے، اپنے دین سے اور اسلامی جمہوری نظام سے امیدیں اس سے کئی گنا زيادہ ہوتیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے پر میرا یہ اعتراض ہے۔ اگر یہ ادارہ صحیح شکل میں ملک کے حقائق کو پیش کر پاتا تو ناظرین کا شوق کئی گنا زيادہ ہوتا۔ بہت سے ایسے کام ہو رہے ہیں جو مسرت کا باعث ہيں، خوشی کا باعث ہیں، صرف علمی شعبے میں ہی نہيں، سماجی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی قابل فخر کارنامے انجام پائے ہيں لیکن اکثر لوگوں کو اس کی خبر نہيں ہے۔ میں عام طور پر ملک کے حکام پر یہ اعتراض کرتا ہوں کہ آپ لوگ بیان کیوں نہیں کرتے؟ بیان کرنا بھی ایک فن ہے۔ بیان ایک بڑا فن ہے؛ جو ان میں نہيں ہے۔
ہمارا ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اغیار کی بیان کردہ تمام باتیں آنکھ بند کرکے صحیح مان لیتے ہیں جبکہ اپنوں کی جانب سے بیان کی جانے والی باتوں کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہيں! کیوں؟ یہ سوچ غلط سوچ ہے۔ یہ صحیح سوج نہيں ہے۔ اس کی اصلاح ہونا چاہئے۔ آپ نوجوان آگے آئيں اور مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہو جائيں۔ ملک کے تشہیراتی نظام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ہمارے پریس کی بھی یہی صورت حال ہے۔ میں ہر دن تقریبا پندرہ سولہ اخبار دیکھتا ہوں۔ میرا مطلب یہ نہيں ہے کہ ان اخبارات کے سارے صفحات کا مطالعہ کرتا ہوں لیکن سرخیوں اور اگر کوئی خاص مقالہ ہو تو اس پر عام طور سے نظر ڈالتا ہوں۔ ہمارے بہت سے اخبارات افسوس کی بات ہے، حقائق کو پیش کرنے میں کمزور ہيں اور مسائل کی درجہ بندی کے معاملے میں نا انصافی سے کام لیتے ہيں۔ انہی حالیہ مسائل میں، بنیادی اور فروعی امور کی درجہ بندی کرنا چاہئے تھی؛ اصل اور اہم مسئلہ کیا ہے؛ اہم مسئلے کے ساتھ ساتھ کچھ جزئی مسائل بھی ہوتے ہيں؛ اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ جزئی مسائل کی کوئی اہمیت نہيں ہوتی لیکن بہرحال اصل مسئلے کی اہمیت، جزئی مسائل سے زيادہ ہوتی ہے۔ ان حالیہ مسائل میں اصل مسئلہ، انتخابات کا تھا؛ خود انتخابات پر سوال کھڑے کرنا، اس سلسلے میں انجام دیا جانے والا سب سے بڑا جرم تھا۔ آپ اس جرم پر اپنی آنکھیں کیوں بند کرلیتے ہيں؟! اتنی محنت کی جائے، لوگ آئيں، اتنے بڑے پیمانے پر ووٹنگ میں حصہ لیں، ریکارڈ ٹوٹ جائے، پوری دنیا میں جمہوریت کا نیا ریکارڈ قائم ہو، لیکن پھر کچھ لوگ یونہی بیٹھے بٹھائے آگے بڑھیں اور بغیر کسی دلیل و ثبوت کے انتخابات کے دوسرے ہی دن کہنے لگيں: انتخابات صحیح نہیں ہوئے! یہ تو دکھاوٹی عمل تھا۔ یہ معمولی جرم ہے؟! ان معاملات میں تھوڑا سا انصاف سے کام لینا چاہئے۔ دشمن نے بھی اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو شروع سے ہی، اسلامی جمہوری نظام کے حامی نہیں تھے، آج کل کی بات نہيں ہے، تیس برسوں میں وہ کبھی حامی نہيں تھے، انہوں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ خود نظام سے وابستہ لوگ اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہيں تو ان لوگوں نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور میدان میں کود پڑے؛ جسے آپ نے بھی دیکھا۔ میں نے پہلے ہی دن ان لوگوں کے پاس پیغام بھیجا تھا، ان لوگوں کے پاس جو ان معاملات کے ذمہ دار تھے، شروعاتی گھنٹوں میں ہی میں نے انہیں خصوصی پیغام بھیجا تھا۔
میں جب نماز جمعہ کے خطبوں میں کوئی بات کہتا ہوں تو وہ بلا وجہ نہيں ہوتی۔ خاص بات، خاص پیغام اور ضروری نصیحت ہوتی ہے۔ جب انسان مجبور ہو جاتا ہے تب جاکر کوئي بات زبان پر لاتا اور اسے کھل کر بیان کرتا ہے۔ میں نے پیغام بھیجا اور کہا کہ آپ اسے شروع کر رہے ہيں لیکن آگے بڑھ جانے پر اس معاملے پر آپ قابو نہیں رکھ پائيں گے۔ دوسرے ان صفوں میں داخل ہو کر غلط فائدہ اٹھائيں گے۔ بعد میں خود آپ نے بھی دیکھا ہی کہ دوسرے لوگ بیچ میں کود کر غلط فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسرائيل مردہ باد (کے نعرے) پر خط بطلان کھینچا! اس حرکت کا کیا مطلب ہے؟ جو سیاست کے میدان میں آتا ہے وہ شطرنج کے ایک ماہر کھلاڑی کی طرح، جب کوئی چال چلتا ہے تو اس کے بعد کی چار پانچ چالوں کے بارے میں بھی پہلے کی اندازہ کر لیتا ہے۔ آپ یہ چال چلتے ہيں، آپ کا حریف اس کے بعد یہ چال چلے گا؛ یہ سوچ لینا چاہئے کہ اس صورت میں آپ کون سی چال چلیں گے۔ اگر آپ نے یہ دیکھا کہ پہلی چال کے بعد دوسری چال میں آپ پھنس جائيں گے تو پہلی چال نہ چلیں۔ اگر چل دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کھیل نہيں آتا۔ دوسرے لفظوں میں اس کھیل میں، اس کام میں آپ نا تجربہ کار ہيں۔ ان کی سمجھ میں نہيں آ رہا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہيں۔ ایک تحریک شروع کرتے ہيں لیکن اس طرف توجہ نہيں دیتے کہ اس کے بعد کے مراحل میں انہيں کس طرح شکست ہوگی اور انہیں کیسے زیر کر دیا جائے گا۔ ان سب چیزوں پر پہلے ہی غور کر لینا چاہئے تھا۔ اصل بات یہ تھی۔ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، عوام کے ایک حصے کو، جن کی نیتوں میں کوئی کھوٹ نہيں تھا، وہ انتخابات میں شریک ہوئے اپنی مرضی کے مطابق بہترین انداز میں کام کیا، ان کو نظام، ملک اور عوامی تحریک کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ یہ چھوٹی موٹی حرکت نہيں ہے۔ اگر آپ با انصاف ہیں تو حاشیہ پر ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں پر نظر رکھیں اس کی اہمیت پر غور کریں لیکن سب سے زيادہ اہم اور بنیادی مسئلے سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے۔
مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ لوگوں کے ساتھ منعقد کئے جانے والے جلسوں میں علمی بحثوں، روحانی امور اور نصیحت کے علاوہ کچھ اور کہوں یا سیاسی موضوعات پر بات کروں لیکن اتنی باتیں کہنے پر مجبور تھا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اعلی قیادت پر تنقید نہيں کی جاتی تو آپ جائيں کہیں کہ وہ لوگ تنقید کریں۔ ہم نے تو کبھی نہيں کہا کہ کوئی تنقید نہ کرے۔ ہمیں تو اس پر کوئی اعتراض نہيں ہے۔ میں تو تنقید کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں تنقید کا استقبال کرتا ہوں اور تنقید کی بھی جاتی ہے۔ البتہ یہاں پر اس کی وضاحت کا موقع نہيں ہے۔ تنقیدیں کی جاتی ہيں۔ کمیاں ہیں، بہت سی خامیاں ہیں، کم نہيں ہیں، میں بھی تنقید سنتا ہوں، غور کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں۔
انشاء اللہ امید ہے کہ خدائے متعال ہم سب کی اس سمت ہدایت کرے گا جس طرف اس کی مرضی ہے اور جس سمت اس کی خوشنودی ہے اور انشاء اللہ آپ سب کے مستقبل کو آپ کے ماضی سے بہتر قرار دے گا اور آپ سب کو ملک کے لئے مایہ فخر بنائے گا اور آپ لوگ چونکہ نوجوان ہيں اس لئے اس دن کو اپنی آنکھوں سے دیکھيں گے اور ہمیں یاد کریں گے، جب ملک اپنے اقتدار کی بلندی پر پہنچ چکا ہوگا۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

‌1) ابراهيم: 24
2) زمر: 17 و 18